سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آئے ہیں ان کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ آیت میں قرآن کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا ہے۔
کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے۔ یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مومن ہوتے۔ یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہو گی۔ جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔ ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے کا اس وقت کافر تمنا کریے گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کر دو، الخ۔
طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے لا الہ الا اللہ کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا۔ اور نہر حیات میں غوطہ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں کے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مجھ پر قصداً جھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سنی ہے۔ اور روایت میں ہے کہ مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو۔ وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر شروع سورت سے مسلمین تک تلاوت فرمائی۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا پڑھنا ہے اور روایت میں ہے کہ ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے ؟ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا۔ پس فرشتے اور نبی اور مومن شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے چھوڑا جائے گا اس وقت مشرک لوگ کہیں کے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے۔ یہی معنی اس آیت کے ہیں یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہو گی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہو گا۔ پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہو گا اور وہ نام بھی ان سے دور کر دیا جائے گا۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہو گا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر لے گا اس وقت یہود و نصاریٰ اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا۔ یہ ہے فرمان ربما یود الخ میں ہے۔ پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ تم کھا پی لو، تمہارا مجرم ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی۔ عنقریب حقیقت کھل جائے گی۔
ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے۔ ہاں جب وقت مقررہ آ جاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت سے باز آ جائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہو جائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہو جائیں گے۔
کافروں کا کفر، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی نے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ ولو القی علیہ اسورۃ من ذہب الخ اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آ گئے اور بہت ہی سرکش ہو گئے۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آ جائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہو گی یہاں بھی فرمان ہے کہ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی۔
اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ لہ کی ضمیر کا مرجع نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا حافظ وہی ہے جیسے فرمان ہے واللہ یعصمک من الناس تجھے لوگوں کی ایذا رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا۔ لیکن پہلا معنی اولی ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسکین دیتا ہے کہ جس طرح لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں۔ ہر امت کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے۔ ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بہ سبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں، نہ کریں۔ اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء نجات پآ گئے اور ایمان دار عافیت حاصل کر گئے۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی کی مخالفت میں ہے۔
ان کی سرکشی، ضد، ہٹ، خود بینی اور باطل پر ستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لئے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں، جادو کر دیا گیا ہے، نگاہ چھین لی گئی ہے، دھوکہ ہو رہا ہے، بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔
اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لئے بہت سے پا سکتا ہے۔ بروج سے مراد یہاں پر ستار ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے تبارک الذی جعل فی السماء بروجا الخ بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں، عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں۔ اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند و بالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جو آگے بڑھتا ہے، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے۔ کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہو جاتا ہے، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لئے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے۔ راوی حدیث حضرت صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پیلا دیتا ہے۔ جب اس کی وہ یاک بات جو آسمان سے اسے اتفاقا پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ کہ اسی نے اسے پیدا کیا، پھیلایا، اس میں پہاڑ بنائے، جنگل اور میدان قائم کئے، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم، ہر ایک زمین، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لئے خوشگوار ہیں۔ زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کر دین اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ۔ پس قسم قسم کی چیزیں، قسم قسم کے اسباب، قسم قسم کی راحت، ہر طرح کے آرام، اس نے تمہارے لئے مہیا کر دئیے۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کر دیا تاکہ کھاؤ بھی، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے فسبحانہ اعظم شانہ۔
تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر کام اس پر آسان ہے۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں۔ جتنا، جب اور جہاں چاہتا ہے، نازل فرماتا ہے۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کے سکے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے۔ ہاں تقسیم اللہ کے ہاتھ ہے، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ حکم بن عینیہ سے بھی یہی قول مروی ہے، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنّات سے زیادہ ہوتی ہے، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا۔ بزار میں ہے کہ اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا۔ اس کا ایک راوی قوی نہیں۔
ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں، اس میں پانی برسنے لگتا ہے۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور ریح عقیمہ میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ برآمد ہو۔ بار داری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کر دیتی ہے۔ ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ جنوبی ہوا جنتی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے۔ مسند حمیدی کی حدیث کی حدیث میں ہے کہ ہواؤں کہ سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو، پھر فرماتا ہے کہ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں۔ جیسے سورہ واقعہ میں فرمان ہے کہ جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو ؟ یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے اسی اللہ نے تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے۔ الخ۔ تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں، پہنچاتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، محفوظ کر دیتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں۔ یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا، بچایا، میٹھا کیا، ستھرا کیا تاکہ تم پیو، اپنے جانوروں کو پلاؤ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ، ؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو۔
ہم مخلوق کی ابتدا اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے۔ زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے۔ پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں حضرت آدم علیہ السلام تک کے۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئند زمانے کے لوگ ہیں۔ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے۔ عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس میں ذکر نہیں۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہی مشابہ ہے واللہ اعلم۔ محمد بن کعب کے سامنے عون بی عبد اللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے۔ یہ سن کر حضرت عون رحمۃ اللہ علیہ فرمایا اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے۔
صلصال سے مراد خشک مٹی ہے۔ اسی جیسی آیت خلق الانسان من صلصال کالخفار وخلق الجان من مارج من نار ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تر مٹی۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔ سموم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت وشرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے۔
اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کی پیدائش کا ذکر اس نے فرشتوں میں کیا اور پیدائش کے بعد سجدہ کرایا۔ اس حکم کو سب نے تو مان لیا لیکن ابلیس لعین نے انکار کر دیا اور کفر و حسد انکار و تکبر فخر و غرور کیا۔ صاف کہا کہ میں آگ کا بنایا ہوا یہ خاک کا بنایا ہوا خ۔ میں اس سے بہتر ہوں اس کے سامنے کیوں جھکوں ؟ تو نے اسے مجھ پر بزرگی دی لیکن میں انہیں گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ ابن جریر نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے۔ کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ان سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، تم اسے سجدہ کرنا انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے سنا اور تسلیم کیا۔ مگر ابلیس جو پہلے کے منکروں میں سے تھا۔ اپنے پر جما رہا، لیکن اس کا ثبوت ان سے نہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے واللہ اعلم۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت کا ارادہ کیا جو نہ ٹلے، نہ ٹالا جا سکے کہ تو اس بہترین اور اعلی جماعت سے دور ہو جا تو پھٹکارا ہوا ہے۔ قسامت تک تجھ پر ابدی اور دوامی لعنت برسا کرے گی۔ کہتے ہیں کہ اسی وقت اس کی صورت بد گئی اور اس نے نوحہ خوانی شروع کی، دنیا میں تمام نوحے اسی ابتدا سے ہیں۔ مردود و مطرود ہو کر پھر آتش حسد سے جلتا ہوا آرزو کرتا ہے کہ قیامت تک کی اسے ڈھیل دی جائے اسی کو یوم البعث کہا گیا ہے۔ پس اسکی یہ درخواست منظور کی گئی اور مہلت مل گئی۔
ابلیس کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر کہا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھ گمراہ کیا میں بھی اولاد آدم کے لئے زمین میں تیری نافرمانیوں کو خوب زینت دار کر کے دکھاؤں گا۔ اور انہیں رغبت دلا دلا کر نافرمانیوں میں مبتلا کروں گا، جہاں تک ہو سکے گا کوشش کروں گا کہ سب کو ہی بہکا دوں۔ لیکن ہاں تیرے خالص بندے میرے ہاتھ نہیں آ سکتے۔ ایک اور آیت میں بھی ہے کہ گو تو نے اسے مجھ پر برتری دی ہے لیکن اب میں بھی اس کی اولاد کے پیچھے پڑ جاؤں گا، چاہے کچھ تھوڑے سے چھوٹ جائیں باقی سب کو ہی لے ڈوبوں گا۔ اس جواب ملا کہ تم سب کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے۔ اعمال کا بدلہ میں ضرور دوں گا نیک کو نیک بد کو بد جیسے فرمان ہے کہ تیرا رب تاک میں ہے۔ غرض لوٹنا اور اور لوٹنے کا راستہ اللہ ہی کی طرف ہے۔ علیٰ کی ایک قرات علیٰ بھی ہے۔ جسے آیت وانہ فی ام الکتاب لدینا لعلی حکیم میں ہے یعنی بلند لیکن پہلی قرات مشہور ہے۔ جن بندوں کو میں نے ہدایت پر لگا دیا ہے ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہاں تیرا زور تیرے تابعداروں پر ہے۔ یہ استثناء منقطع ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ بستیوں سے باہر نبیوں کی مسجدیں ہوتی تھیں۔ جب وہ اپنے رب سے کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے تو وہاں جا کر جو نماز مقدر میں ہوتی ادا کر کے سوال کرتے۔ ایک دن ایک نبی کے اور اس کے قبلہ کے درمیان شیطان بیٹھ گیا۔ اس نبی نے تین بار کہا اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ شیطان نے کہا اے اللہ کے نبی آخر آپ میرے داؤ سے کیسے بچ جاتے ہیں ؟ نبی نے کہا تو بتا کہ تو بنی آدم پر کس داؤ سے غالب آ جاتا ہے ؟ آخر معاہدہ ہوا کہ ہر ایک صحیح چیز دوسرے کو بتا دے تو نبی اللہ نے کہا سن اللہ کا فرمان ہے کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں۔ صرف ان پر جو خودگمراہ ہوں اور تیری ماتحتی کریں۔ اس اللہ کے دشمن نے کہا یہ آپ نے کیا فرمایا اسے تو میں آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے جانا ہوں، نبی نے کہا اور سن اللہ کا فرمان ہے کہ جب شیطان حرکت ہو تو اللہ سے پناہ طلب کطر، وہ سننے جننے والا ہے۔ واللہ تیری آہٹ پاتے ہی میں اللہ سے پناہ چاہ لیتا ہوں۔ اس نے کہا سچ ہے اسی سے آپ میرے پھندے میں نہیں پھنستے۔ نبی اللہ علیہ السلام نے فرمایا اب تو بتا کہ تو ابن آدم پر کسے غالب آ جاتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں اسے غصے اور خواہش کے وقت دبوچ لیتا ہوں۔ پھر فرماتا ہیں کہ جو کوئی بھی ابلیس کی پیروی کرے، وہ جہنمی ہے۔ یہی فرمان قرين سے کفر کرنے والوں کی نسبت ہے۔
پھر ارشاد ہوا کہ جہنم کے کئی ایک دروازے ہیں ہر دروازے سے جانے والا ابلیسی گروہ مقرر ہے۔ اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے لئے دروازے تقسیم شدہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا جہنم کے دروازے اس طرح ہیں یعنی ایک پر ایک۔ اور وہ سات ہیں ایک کے بعد ایک کر کے ساتوں دروازے پر ہو جائیں گے۔ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سات طبقے ہیں۔ ابن جریر سات دروازوں کے یہ نام بتلاتے ہیں۔ جہنم۔ نطی۔ حطمہ۔ سعیر۔ سقر۔ حجیم۔ ھاویہ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ باعتبار اعمال ان کی منزلیں ہیں۔ ضحاک کہتے ہیں مثلاً ایک دروازہ یہود کا، ایک نصاریٰ کا، ایک صابیوں کا، ایک مجوسیوں کا، ایک مشرکوں کافروں کا، ایک منافقوں کا، ایک اہل توحید کا، لیکن توحید والوں کو چھٹکارے کی امید ہے باقی سب نا امید ہو گئے ہیں۔ ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض دوزخیوں کے ٹخنوں تک آگ ہو گی، بعض کی کمر تک، بعض کر گردنوں تک، غرض گناہوں کی مقدار کے حساب سے۔
دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ باغات، نہروں اور چشموں میں ہوں گے۔ ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نا کمی۔ اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوی رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہو جائیں گے۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہوے سے پہلے ہی سینے بے کینہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لئے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے۔ اشتر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت آپ کے پاس حضرت طلحہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ نے فرمایا سچ ہے۔ کہا پھر تو اگر آپ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے آپ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ نے غصے سے فرمایا اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ نے غصے ہو کر جو چیز آپ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا۔ این جرموز جو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا تو آپ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی۔ اس نے آ کر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ نے فرمایا تیرے منہ میں مٹی۔ میں اور طلح اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو انشاء اللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
کثیر کہتے ہیں میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں، میرے دشمن آپ ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں۔ واللہ میں ابوبکر اور عمر سے بری ہوں۔ اس وقت حضرت ابو جعفر نے فرمایا اگر میں ایسا کروں تو یقیناً مجھ سے بڑھ کر گزارہ کوئی نہیں۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں۔ ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا کہ یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابوبکر، عمر عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن الی وقاص، سعید بن زید اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں انہیں کوئی مشقت، تکلیف اور ایذا نہ ہو گی۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے۔ اور آیت میں ہے وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی۔
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ میں ارحم الراحمین ہوں۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں جنت دوزخ کی یاد کر و، اس وقت یہ آیتیں اتریں۔ یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے۔ آپ بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ کے پاس آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھر ہمارے باس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا، جو حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے بندوں کو نا امید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دے دے۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کر لیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کر لیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں۔
لفظ ضعیف واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ جیسے زور اور سفر۔ یہ فرشتے تھے جو بصورت انسان سلام کر کے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس آئے تھے۔ آپ نے بچھڑا کاٹ کر اس کا گوشت بھون کر ان مہمانوں کے سامنے لا رکھا۔ جب دیکھا کہ وہ ہاتھ نہیں ڈالتے تو ڈر گئے اور کہا کہ ہمیں تو آپ سے ڈر لگنے لگا۔ فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ڈرو نہیں، پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت سنائی۔ جیسے کہ سورہ ھود میں ہے۔ تو آپ نے اپنے اور اپنی بیوی صاحبہ کے بڑھاپے کو سامنے رکھ کر اپنا تعجب دور کرنے اور وعدے کو ثابت کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا اس حالت میں ہمارے ہاں بچہ ہو گا ؟ فرشتوں نے دوبارہ زور دار الفاظ میں وعدے کو دہرایا اور ناامیدی سے دور رہنے کی تعلیم کی۔ تو آپ نے اپنے عقیدے کا اظہار کر دیا کہ میں مایوس نہیں ہوں۔ ایمان رکھتا ہوں کہ میرا رب اس سے بھی بڑی باتوں پر قدرت کاملہ رکھتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا جب ڈر خوف جاتا رہا بلکہ بشارت بھی مل گئی تو اب فرشتوں سے ان کے آنے کی وجہ دریافت کی۔ انھوں نے بتلایا کہ ہم لوطیوں کی بستیاں الٹنے کے لئے آئے ہیں۔ مگر حضرت لوط علیہ اسلام کی آل نجات پا لے گی۔ ہاں اس آل میں سے ان کی بیوی بچ نہیں سکتی؛ وہ قوم کے ساتھ رہ جائے گی اور ہلا کت میں ان کے ساتھ ہی ہلاک ہو گی۔
یہ فرشتے نو جو ان حسین لڑکوں کی شکل میں حضور لوط علیہ اسلام کے پاس گئے۔ تو حضرت لوط علیہ اسلام نے کہا تم بالکل نا شناس اور انجان لوگ ہو۔ تو فرشتوں نے راز کھول دیا کہ ہم اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں جسے آپ کی قوم نہیں مانتی اور جس کے آنے میں شک شبہ کر رہی تھی۔ ہم حق بات اور قطعی حکم لے کر آئے ہیں اور فرشتے حقا نیت کے ساتھ ہی نازل ہوا کر تے ہیں اور ہم ہیں بھی سچے۔ جو خبر آپ کو دے رہے ہیں وہ ہو کر رہے گی کہ آپ نجات پائیں اور آپ کی یہ کافر قوم ہلاک ہو گی۔
حضرت لوط علیہ السلام سے فرشتے کہہ رہے ہیں کہ رات کا کچھ حصہ گزر تے ہی آپ اپنے والوں کو کر یہاں سے چلے جائیں۔ خود آپ ان سب کے پیچھے رہیں تاکہ ان کی اچھی طرح نگرانی کر چکیں۔ یہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تھی کہ آپ لشکر کے آخر میں چلا کرتے تھے تاکہ کمزور اور گر پڑے لوگوں کا خیال رہے۔ پھر فرما دیا کہ جب قوم پر عذاب آئے اور ان کا شور غل سنائے دے تو ہرگز ان کی طرف نظریں نہ اٹھا نا، انہیں اسی عذاب و سزا میں چھوڑ کر تمہیں جانے کا حکم ہے، چلے جاؤ گو یا ان کے ساتھ کوئے تھا جو انہیں راستہ دکھاتا جائے۔ ہم نے پہلے ہی سے لوط (علیہ السلام) سے فرما دیا تھا کہ صبح کے وقت یہ لوگ مٹا دئیے جائیں گے۔ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ان عذاب کا وقت صبح ہے جو بہت ہی قریب ہے۔
قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر نو جوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ اس وقت خود حضرت علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں۔ جیسے کہ سورہ ہود میں ہے۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہو جا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصوصاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو۔ آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہو جاؤ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس منع کر چکے ہیں۔ تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے کر چکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ چونکے یہ بد لوگ اپنی خر مستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس غافل تھے اس اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی۔ سکرۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے۔
سو رج نکلنے کے وقت آسمان سے ایک دل دہلانے والی اور جگر پاش پاش کر دینے والی چنگھاڑ کی آواز آئی۔ اور ساتھ ہی ان کی بستیاں اوپر کو اٹھیں اور آسمان کے قریب پہنچ گئیں اور وہاں سے الٹ دی گئیں اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہو گیا ساتھ ہی ان پر آسمان سے پتھر برسے ایسے جیسے پکی مٹی کے کنکر آلود پتھر ہوں۔ سورہ ہود میں اس کا مفصل بیان ہو چکا ہے۔ جو بھی بصیرت و بصارت سے کام لے، دیکھے، سنے، سوچے، سمجھے اس کے لئے ان بستیوں کی بربادی میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ ایسے پاکباز لوگ ذرا ذرا سی چیزوں سے بھی عبرت و نصیحت حاصل کر تے ہیں پند پکڑتے ہیں اور غور سے ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور لم تک پہنچ جاتے ہیں۔ تامل اور غور و خوض کر کے اپنی حالت سنوار لیتے ہیں۔ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی علیہ و سلم فرماتے ہیں مومن کی عقلمندی اور دور بینی کا لحاظ رکھو وہ اللہ کے نور ساتھ دیکھتا ہے۔ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرما ئی۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ اللہ کے نور اور اللہ کی توفیق سے دیکھتا ہے۔ اور حدیث میں کہ اللہ کے بندے لوگوں کو ان نشانات سے پہچان لیتے ہیں۔ یہ بستی شارع عام پر موجود جس پر ظاہری اور باطنی عذاب آیا، الٹ گئی، پتھر کھائے، عذاب کا نشانہ بنی۔ اب ایک گندے اور بد مزہ کھائی کی جھیل سے بنی ہوئی ہے تم رات دن وہاں سے آتے جاتے ہو تعجب ہے کہ پھر بھی عقلمندی سے کام نہیں لیتے۔ غرض صاف واضح اور آمدورفت کے راستے پر یہ الٹی ہو بستی موجود ہے۔ یہ بھی معنی کئے ہیں کہ کتاب مو بین میں ہے لیکن یہ معنی کچھ زیادہ بند نہیں بیٹھتے واللہ اعلم۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا نے والوں کے لئے یہ ایک کھلی دلیل اور جاری نشانی ہے کہ کس طرح اللہ اپنے والوں کو نجات دیتا ہے اور اپنے دشمنوں کو غارت کرتا ہے۔
اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے۔ ایکہ کہتے ہیں درختوں کے جھنڈ کو۔ ان کا ظلم علا وہ شرک و کفر کے غارت گری اور ناپ تول کی کمی بھی تھی۔ ان کی بستی لوطیوں کے قریب تھی اور ان کا زما نہ بھی ان سے بہت قریب تھا۔ ان پر بھی ان کی پیہم شرارتوں کی وجہ سے عذاب الہی آیا۔ یہ دونوں بستیاں برسر شارع عام تھیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈراتے ہوئے فرمایا تھا کہ لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں۔
حجر والوں سے مراد ثمودی ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلا یا تھا اور ظاہر ہے کہ ایک نبی کا جھٹلا نے والا گو یا سب نبیوں کا انکار کرنے والا ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ انہوں نے نبیوں کو جھٹلا یا۔ ان کے پاس ایسے معجزے پہنچے جن سے حضرت صالح علیہ السلام کی سچائی ان پر کھل گئی۔ جیسے کہ ایک سخت پتھر کی چٹان سے اونٹنی کا نکلنا جو ان کے شہروں میں چرتی چگتی تھی اور ایک دن وہ پانی پیتی تھی ایک دن شہروں کے جانور۔ مگر پھر بھی یہ لوگ گر دن کش ہی رہے بلکہ اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس وقت حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا بس اب تین دن کے اندر اندر قہر الہی نازل ہو گا۔ یہ بالکل سچا وعدہ ہے اور اٹل عذاب ہے ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہو رہ پر بھی اپنے اندھاپے کو ترجیح دی۔ یہ لوگ صرف اپنی قوت جتانے اور ریا کاری ظاہر کرنے کے واسطے تکبرو تجبر کے طور پر پہاڑوں میں مکان ترا شتے تھے۔ کسی خوف کے باعث یا ضرورتاً یہ چیز نہ تھی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تبوک جاتے ہوئے ان کے مکانوں سے گزرے تو آپ سر پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز چلایا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جن پر عذاب الہی اترا ہے ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزروں۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل بنا کر چلو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں عذابو ں کا شکار تم بھی بن جاؤ آخر ان پر ٹھیک چوتھے دن کی صبح عذاب الہی بصورت چنگھاڑ آیا۔ اس وقت ان کمائیاں کچھ کام نہ آئیں۔ جن کھیتوں اور پھو لوں کی حفاظت کے لئے اور انہیں بڑھانے کے لئے ان لوگوں نے اونٹنی کا پانی پینا نہ پسند کر کے ایسے قتل کر دیا وہ آج بے سود ثابت ہوئے اور امر رب اپنا کام کر گیا۔
اللہ نے تمام مخلوق عدل کے ساتھ بنائی ہے، قیامت آنے والی ہے، بروں کو برے بدلے نیکوں کو نیک بدلے ملنے والے ہیں۔ مخلوق باطل سے پید انہیں کی گئی۔ ایسا گمان کافروں کا ہوتا ہے اور کافروں کے لئے و یل دوزخ ہے۔ اور آیت میں ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ بلندی والا ہے اللہ مالک حق جس کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں عرش کریم کا مالک وہی ہے۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے چشم پوشی کیجئے، ان کی ایذا اور جھٹلانا اور برا کہنا برداشت کر لیجئے۔ جیسے اور آیت میں ہے ان سے چشم پوشی کیجئے اور سلام کہہ دیجئے انہیں ابھی معلوم ہو جائے گا۔ یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے تھا یہ آیت مکیہ ہے اور جہاد بعد از ہجرت مقرر اور شروع ہوا ہے۔ تیرا رب خالق ہے اور خالق مار ڈالنے کے بعد بھی پیدائش پر قادر ہے، اسے کسی چیز کی بار بار کی پیدا ئش عاجز نہیں کر سکتی۔ ریزوں کو جب بکھر جائیں وہ جمع کر کے جان ڈال سکتا ہے۔ جیسے فرمان ہے اویس الذی خلق اسموات والارض بقا درالخ، آسمان وزمین کا خالق کیا ان جیسوں کی پیدائش کی قدرت نہیں رکھتا؟ بے شک وہ پیدا کرنے والا علم والا ہے وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ہو جانے کو فرما دیتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے۔ پاک ذات ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لا زوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لئے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ ہاں تجھے چاہئے کہ نرمی، خوش خلقی، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے۔ جیسے ارشاد ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم الخ، لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے یہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کا دل سے خواہاں ہے جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے۔ سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتدا کی سات لمبی سورتیں ہیں سورہ بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس۔ اس لئے کہ ان سورتوں میں فرائض کا،حدود کا، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں۔ بعض نے سورہ اعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور برا ۃ کو بتلا یا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں۔ ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں۔ حکم، منع، بشارت، ڈر اور مثالیں، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں۔ دو سرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورہ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سات آیتیں بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو۔ امام ابن جریر رضی اللہ عنہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کر تے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورہ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں فا لحمد للہ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں۔ ایک میں ہے حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آئے مجھے بلا یا لیکن میں آپ کے پاس نہ آیا نماز ختم کر کے پہنچا تو آپ نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میں نماز میں تھا۔ آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں یاایھا الذین امنو ا ا ستجیبو اللہ وللرسول اذا دعا کم یعنی ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا۔ تھوڑی دیر میں جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ الحمد للہ رب العالمین کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں۔ دوسری میں آپ کا فرمان ہے کہ ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورہ فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں۔ جیسے فرمان الٰہی ہے اللہ نزل احسن ال حدیث کتابا متشابھا مثانی پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے۔ اور متشابہ بھی۔ پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشا بہ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سو ال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قبا کے بارے میں اتری ہے۔ پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو۔ واللہ اعلم۔
پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بے نیاز رہنا چاہئے اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے‘ کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بے پرواہ نہ ہو جائے وہ مسلمان نہیں۔ گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کر دیا ہے ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رہن رکھے میں نہیں دوں گا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کر دیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا پس آیت لا تمدن الخ نازل ہوئی اور گو یا آپ کی دل جوئی کی گئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے۔ یہ جو فرمایا کہ ان کی جماعتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں۔
حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم آپ اعلان کر دیجئے کہ میں تمام لوگوں کو عذاب الٰہی سے صاف صاف ڈرا دینے والا ہوں۔ یاد رکھو میرے جھٹلا نے والے بھی اگلے نبیوں کے جھٹلا نے والوں کی طرح عذاب الٰہی کے شکار ہوں گے۔ المستعین سے مراد قسمیں کھانے والے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کی تکذیب اور ان کی مخالفت اور ایذا دہی پر آپس میں قسما قسمی کر لیتے تھے جیسے کہ قوم صالح کا بیان قرآن حکیم میں ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ راتوں رات صلح اور ان کے گھرانے کو ہم موت کے گھاٹ اتار دیں گے اسی طرح قرآن میں ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ مردے پھر جینے کے نہیں الخ۔ اور جگہ ان کا اس بات پر قسمیں کھانے کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کو کبھی کوئی رحمت نہیں مل سکتی۔ الغرض جس چیز کو نہ مانتے اس پر قسمیں کھانے کی انہیں عادت تھی اس لئے انہیں کہا گیا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ میری اور ان ہدایت کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہے کہ لوگو میں نے دشمن کا لشکر اپنی آنکھوں دیکھا ہے دیکھو ہشیار ہو جاؤ بچنے اور ہلاک نہ ہو نے کے سا مان کر لو۔ اب کچھ لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں اور اسی عرصہ میں چل پڑ تے ہیں اور دشمن کے پنجے سے بچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور و ہیں بے فکری سے پڑے رہتے ہیں کہ نا گاہ دشمن کا لشکر آ پہنچا ہے اور گھیر گھار کر انہیں قتل کر دیتا ہے پس یہ ہے مثال میرے ماننے والوں کی اور نہ ماننے والوں کی۔
ان لوگوں نے اللہ کی ان کتابوں کو جو ان پر اتری تھیں پا رہ پا رہ کر دیا جس مسئلے کو جی چاہا ما نا جس سے دل گھبرایا چھوڑ دیا۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے۔ یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے کفار کا کتاب اللہ کی نسبت یہ کہنا ہے کہ یہ جادو ہے، یہ کہانت ہے، یہ اگلوں کی کہانی ہے، اس کا کہنے والا جادوگر ہے، مجنوں ہے، کاہن ہے وغیرہ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس سرداران قریش جمع ہوئے حج کا موسم قریب تھا اور یہ شخص ان میں بڑا شریف اور ذی رائے سمجھا جاتا تھا اس نے ان سب سے کہا کہ دیکھو حج کے موقع پر دور دراز سے تمام عرب یہاں جمع ہوں گے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارے اس سا تھی نے ایک اودھم مچا رکھا ہے لہٰذا اس کی نسبت ان بیرونی لوگوں سے کیا کہا جائے یہ بتاؤ اور کسی ایک بات پر اجماع کر لو کہ سب وہی کہیں۔ ایسا نہ ہو کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے اس تو تمہارا اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ پر دیسی تمہیں جھوٹا خیال کریں گے۔ انہوں نے کہا ابو عبد شمس آپ ہی کوئی ایسی بات تجویز کر دیجئے اس نے کہا پہلے تم اپنی تو کہو تاکہ مجھے بھی غور و خوض کا موقعہ ملے انہوں نے کہا پھر ہماری رائے میں تو ہر شخص اسے کاہن بتلائے۔ اس نے کہا یہ تو واقعہ کے خلاف ہے لوگوں نے کہا پھر مجنوں بالکل درست ہے۔ اس نے کہا یہ بھی غلط ہے کہا اچھا تو شاعر کہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ شعر جانتا ہی نہیں کہا اچھا پھر جادوگر کہیں ؟ کہا اسے جادو سے مس بھی نہیں اس نے کہا سنو واللہ اس کے قول میں عجب مٹھاس ہے ان باتوں میں سے تم جو کہو گے دنیا سمجھ لے گی کہ محض غلط اور سفید جھوٹ ہے۔ گو کوئی بات نہیں بنتی لیکن کچھ کہنا ضرور ہے اچھا بھائی سب اسے جادوگر بتلائیں۔ اس امر پر یہ مجمع برخاست ہوا۔ اور اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔
ان کے اعمال کا سو ال ان سے کا رب ضرور کرے گا یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ سے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ہر ایک شخص قیامت کے دن تنہا تنہا اللہ کے سا منے پیش ہو گا جیسے ہر ایک شخص چودہویں رات کے چاند کو اکیلا اکیلا دیکھتا ہے۔ اللہ فرمائے گا اے انسان تو مجھ سے مغرور کیوں ہو گیا ؟ تو نے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ تو نے میرے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ ابو العا لیہ فرماتے ہیں دو چیز کا سو ال ہر ایک سے ہو گا معبود کسے بنا رکھا تھا اور رسول کی مانی یا نہیں ؟ ابن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں عمل اور مال کا سوال ہو گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور علیہ السلام نے فرمایا اے معاذ انسان سے قیامت کے دن ہر ایک عمل کا سوال ہو گا۔ یہاں تک کہ اس کے آنکھ کے سرمے اور اس کے ہاتھ کی گندھی ہوئی مٹی کے بارے میں بھی اس سے سوال ہو گا دیکھ معاذ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ کی نعمتوں کے بارے میں تو کمی والا رہ جائے۔ اس آتے میں توہے کہ ہر ایک سے اس کے عمل کی با بت سوال ہو گا۔ اور سورہ رحمان کی آیت میں ہے کہفیو مئذلا یسئل عن ذنیہ انس ولا جان کہ اس دن کسی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کا سوال نہ ہو گا ان دونوں آیتوں میں بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا تطبیق یہ ہے کہ یہ سو ال نہ ہو گا کہ تو نے یہ عمل کیا ؟ بلکہ یہ سو ال ہو گا کہ کیوں کیا ؟
حکم ہو رہا ہے کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ اللہ کی باتیں لوگوں کو صاف صاف بے جھجک پہنچا دیں نہ کسی کی رو رعایت کیجئے نہ کسی کا ڈر خوف کیجئے۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم پوشیدہ تبلیغ فرماتے تھے لیکن اس کے بعد آپ اور آپ کے اصحاب نے کھلے بطور پر اشاعت دین شروع کر دی۔ ان مذاق اڑا نے والوں کو ہم پر چھوڑ دے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے تو اپنی تبلیغ کے فریضے میں کوتاہی نہ کر یہ تو جا ہتے ہیں کہ ذرا سی سستی آپ کی طرف سے دیکھیں تو خود بھی دست بردار ہو جائیں۔ تو ان سے مطلقاً خوف نہ کر اللہ تعالیٰ تیری جانب اتارا گیا لوگوں کی برائی سے تجھے محفوظ رکھ لے گا۔ چنانچہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و سلم راستے سے جا رہے تھے کہ بعض مشرکوں نے آپ کو چھیڑا اسی وقت حضرت جبر ئیل علیہ اسلام آئے اور انہیں نشتر مارا جس سے ان کے جسموں میں ایسا ہو گیا جیسے نیزے کے زخم ہوں اسی میں وہ مر گئے اور یہ لوگ مشرکین کے بڑے بڑے رؤ سا تھے۔ بڑی عمر کے تھے اور نہایت شریف گنے جاتے تھے۔ بنو اسد کے قبیلے میں تو اسود بن عبد المطلب ابو زمعہ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا بڑا ہی دشمن تھا۔ ایذائیں دیا کرتا تھا اور مذاق اڑایا کرتا تھا آپ نے تنگ آ کر اس کے لئے بد دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ اسے اندھا کر دے بے اولاد کر دے۔ بنی زہر میں سے اسود تھا اور بنی مخزوم میں سے ولید تھا اور بنی سہم میں سے عاص بن وائل تھا۔ اور خزاعہ میں سے حارث تھا۔ یہ لوگ برابر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ایذا رسائی کے درپے لگے رہتے تھے اور لوگوں کو آپ کے خلاف ابھارا کر تے تھے اور جو تکلیف ان کے بس میں ہوتی آپ کو پہنچایا کر تے جب یہ اپنے مظالم میں حد سے گزر گئے اور بات بات میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑا نے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فاصدع سے یعلمون تک کی آیتیں نازل فرمائیں۔ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم طواف کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل السلام آئے بیت اللہ شریف میں آپ کے پاس کھڑے لو گئے اتنے میں اسود بن عبد یغوث آپ کے پاس سے گزرا تو حضرت جبر ئیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ طرف اشارہ کیا اسے پیٹ کی بیماری ہو گئی اور اسے بھی دو سال گزر چکے تھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسی کی طرف اشارہ کیا وہ پھول گئی، پکی اور اسی میں وہ مرا۔ پھر عاص بن وائل گزرا۔ اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا کچھ دنوں بعد یہ طائف جانے کے لئے اپنے گدھے پر سوار چلا۔ راستے میں گر پڑا اور تلوے میں کیل گھس گئی جس نے اس کی جان لی۔ حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا اسے خون آنے لگا اور اسی میں مرا۔ ان سب موذیوں کو سردار ولید بن مغیرہ تھا اسی نے انہیں جمع کیا تھا پس یہ پانچ یا سات شخص تھے جو جڑ تھے اور ان کے اشاروں سے اور ذلیل لوگ بھی کمینہ پن کی حرکتیں کر تے رہتے تھے۔ یہ لوگ اس لغو حرکت کے ساتھ ہی یہ بھی کر تے تھے کہ اللہ کے ساتھ دو سروں کو شریک کر تے تھے۔ انہیں اپنے کرتوت کا مزہ ابھی ابھی آ جائے گا۔ اور بھی جو رسول کا مخالف ہو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کا یہی حال ہے۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی بکو اس سے اے نبی تمہیں تکلیف ہوتی ہے دل تنگ ہوتا ہے لیکن تم ان کا خیال بھی نہ کرو۔ اللہ تمہارا مدد گا رہے۔ تم اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح اور حمد میں لگے رہو۔ اس کی عبادت جی بھر کر کرو نماز کا خیال رکھو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دو۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفایت کروں گا۔ حضور علیہ السلام کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آ پڑتا تو آپ نماز شروع کر دیتے۔
یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورہ مد ثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ جہنمی اپنی برا ئیاں کر تے ہوئے کہیں گے کہ ہم نما زی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنانا کر تے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے۔ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت ام العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بے شک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا تجھے کیسے یقین ہو گیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا انہوں نے جواب دیا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہو گا جس کا اکرام ہو ؟ آپ نے فرمایا سنو اسے موت آ چکی اور مجھے اس کیلئے بھلائی کی امید ہے اس حدیث میں بھی مو کی جگہ یقین کا لفظ ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کر لے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کر، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر۔ بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑ لی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف سا قط ہو جاتی ہے یہ سر اسر کفر ضلالت اور جہالت ہے۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیا اور حضور سرور انبیاء علیہم السلام اور آپ کے اصحاب معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کا مل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کر تے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے۔ پس ثابت ہے کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے تمام مفسرین صحابہ تابعین وغیرہ کا یہی مذہب ہے فا لحمد للہ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کر تے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پا ہتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھر و سہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کر تے ہیں کہ وہ بہترین اور کا مل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جو اد ہے اور کریم ہے۔ الحمد للہ سورہ حجر کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے و الحمد للہ رب العلمین۔