صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف اور سورہ مریم سب سے پہلے، سب سے بہتر اور بڑی فضیلت والی ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نفلی روزے کبھی تو اس طرح پے درپے لگا تار رکھتے چلے جاتے کہ ہم اپنے دل میں کہتے شاید حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ پورا مہینہ روزوں ہی میں گزار دیں گے اور کبھی کبھی بالکل ہی نہ رکھتے یہاں تک کہ ہم سمجھ لیتے کہ شاید آپ اس مہینے میں روزے رکھیں گے ہی نہیں۔ اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ ہر رات سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر پڑھا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی عزت و عظمت اور اپنی پاکیزگی و قدرت بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس جیسی قدرت کسی میں نہیں۔ وہی عبادت کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجدتک لے گیا۔ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کم زمانے سے انبیاء کرام علیہم السلام کا مرکز رہا۔ اسی لئے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ کے پاس جمع کئے گئے اور آپ نے وہیں ان سب کی امامت کی۔ جو اس امر کی دلیل ہے کہ امام اعظم اور رئیس مقدم آپ ہی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل، پھول، کھیت ٰ باغات وغیرہ سے۔ یہ اس لئے کہ ہمارا ارادہ اپنے اس محترم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی زبردست نشانیاں دکھانے کا تھا۔ جو آپ نے اس رات ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں، مومنوں، کافروں، یقین رکھنے والوں اور انکار کرنے والوں سب کی باتیں سننے والا ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے۔ ہر ایک کو وہی دے گا، جس کا وہ مستحق ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ معراج کی بابت بہت سی حدیثیں ہیں جواب بیان ہو رہی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ معراج والی رات جب کہ کعبۃ اللہ شریف سے آپ کو بلوایا گیا، آپ کے پاس تین فرشتے آئے، اس سے پہلے کہ آپ کی طرف وحی کی جائے۔ اس وقت آپ بیت اللہ شریف میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا اس نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں ؟ درمیان والے نے جواب دیا کہ یہ ان سب میں بہترین ہیں۔ تو سب سے اخیر والے نے کہا۔ پھر ان کو لے چلو۔ بس اس رات تو اتنا ہی ہوا۔ پھر آب نے انہیں نہ دیکھا۔ دوسری رات پھر یہ تینوں آئے۔ اس وقت بھی آپ سو ہے تھے۔ لیکن آپ کا سونا اس طرح کا تھا کہ آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگ رہا تھا۔ تمام انبیاء کی نیند اسی طرح کی ہوتی ہے۔ اس رات انہوں نے آپ سے کوئی بات نہ کی۔ آپ کو اٹھا کر پاہ زمزم کے پاس لٹا دیا اور آپ کا سینہ گردن تک خود جبرائیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے جاگ کیا۔ اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر اپنے ہاتھ سے دھوئیں۔ جب خوب پاک صاف کر چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت و ایمان سے پر تھا۔ اس سے آپ کے سینے کو اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا گیا۔ پھر سینے کو سی دیا گیا۔ پھر آب کو آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ وہاں کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جبرئیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا میرے ساتھ محمد ہیں (صلی اللہ علیہ و سلم ) پوچھا۔ کیا آپ کو بلوایا گیا ہے”جواب دیا کہ “ ہاں “۔ سب بہت خوش ہوئے اور مرحبا کہتے ہوئے آپ کو لے گئے۔ آسمانی فرشتے بھی کچھ نہیں جانتے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کیا کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب تک کہ انہیں معلوم نہ کرایا جائے۔ آپ نے آسمان دنیا پر حضرت آدم علیہ السلام کو پایا۔ جبرئیل علیہ السلام نے تعارف کرایا کہ “یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے “۔ آپ نے سلام کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جواب دیا، مرحبا کہا اور فرمایا “ آپ میرے بہت ہی اچھے بیٹے ہیں “۔ وہاں دو نہریں جاری دیکھ کر آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ “ یہ نہریں کیا ہیں “ ؟ آپ نے جواب دیا کہ “نیل اور فرات کا عنصر “۔ پھر آپکو آسمان میں لے چلے۔ آپ نے ایک اور نہر دیکھی، جس پر لولو اور موتوں کے بالا خانے تھے، جس کی مٹی خالص مشک تھے۔ پوچھا یہ کونسی نہر ہے ؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے۔ جسے آپ کے پروردگار نے آپ کے لئے خاص طور پر مقرر کر رکھی ہے۔ پھر آپ کو تیسرے آسمان پر لے گئے۔ وہاں کے فرشتوں سے بھی وہی سوال جواب وغیرہ ہوئے، جو آسمان اول پر اور دوسرے آسمان پر ہوئے تھے۔ پھر آپ کو چوتھے آسمان پر چھڑھایا گیا۔ ان فرشتوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور جواب پایا وغیرہ۔ پھر پانچویں آسمان پر چڑھائے گئے۔ وہاں بھی وہی کہا سنا گیا، پھر چھٹے پر پھر ساتویں آسمان پر گئے، وہاں بھی بات چیت ہوئے۔ ہر آسمان پر وہاں کے نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے نام حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بتائے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں کہ دوسرے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام، چوتھے آسمان میں حضرت ہارون، پانچویں والے کا نام مجھے یاد نہیں، چھٹے میں حضرت ابراہیم، ساتویں میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ، علیہ وعلی سائر الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ جب آپ یہاں سے بھی اونچے چلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا “ اے اللہ میرا خیال تھا کہ مجھ سے بلند تو کسی کو نہ کرے گا “ اب آپ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ سے بہت نزدیک ہوا۔ بقدر دو کمان کے بلکہ اس سے کم فاصلے پر۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ کی جانب وحی کی گئی۔ جس میں آپ کی امت پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ جب آپ وہاں سے اترے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو روکا اور پوچھا کیا حکم ملا ؟ فرمایا “ دن رات میں پچاس نمازوں کا “۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا،، یہ آپ کی امت کی طاقت سے باہر ہے۔ آپ واپس جائیں اور کمی کی طلب کیجئے،،۔ آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرف دیکھا کہ کہ گویا آپ ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ ان کا بھی اشارہ پایا کہ “ اگر آپ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے “ ؟ آپ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھیر کر دعا کی کہ “ اے اللہ ہمیں تخفیف عطا ہو۔ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی “۔ پس اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں۔ پھر آپ واپس لوٹے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو پھر روکا اور یہ سن کر فرمایا۔ جاؤ اور کم کراؤ۔ آپ پھر کئے، پھر کم ہوئیں، یہاں تک کہ آخر میں پانچ رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی فرمایا کہ “ دیکھو میں بنی اسرائیل میں اپنی عمر گزار کر آیا ہوں۔ انہیں اس سے بھی کم حکم تھا لیکن پھر بھی وہ بے طاقت ثابت ہوئے اور اسے چھوڑ بیٹھے۔ آپ کی امت تو ان سے بھی ضعیف ہے، جسم کے اعتبار سے بھی اور دل، بدن، آنکھ کان کے اعتبار سے بھی۔ آپ پھر جائیے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی طلب کیجئے۔ آپ نے پھر حسب عادت حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرف دیکھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کو پھر اوپر لے گئے، آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے اللہ میری امت کے جسم، دل، کان آنکھیں اور بدن کمزور ہیں۔ ہم سے اور بھی تخفیف کر۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے جواب دیا لیک وسعدیک۔، فرمایا۔ سن میری باتیں بدلتی نہیں جو میں نے اب مقرر کیا ہے یہی میں ام الکتاب میں لکھ چکا ہوں۔ یہ پانچ ہیں پڑھنے کے اعتبار سے اور بچاس ہیں ثواب کے اعتبار سے۔ جب آپ والپس آئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا، کہو سوال منظور ہوا ؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں کمی ہو گئی یعنی پانچ کا ثواب پچاس کا مل گیا ہر نیکی کا ثواب دی گنا عطا فرمایا جانے کا وعدہ ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا تجربہ کر چکا ہوں، انہوں نے اس سے بھی ہلکے احکام کو ترک کر دیا تھا، آپ پھر جائیے اور کمی طلب کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اے کلیم اللہ میں گیا، آیا، اب تو مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر تشریف لے جائیے۔ بسم اللہ کیجئے۔ اب جب آپ جاگے تو آپ مسجد الحرام میں ہی تھے۔ صحیح بخاری شریف میں یہ حخدمیث کتاب التوحید میں بھی ہے اور صفۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم میں بھی ہے۔ یہی روایت شریک بن عبد اللہ بن ابو نمر سے مروی ہے لیکن انہوں نے اضطراب کر دیا ہے بوجہ اپنی کمزوری حافظہ کم بالکل ٹھیک ضبط نہیں رکھا۔ ان احادیث کے آخر میں اس کا بیان آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ بعض اسے واقعہ خواب بیان کرتے ہیں شاید اس جملے کی بنا پر جو اس کے آخر میں وارد ہے واللہ اعلم۔ حفظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے اس جملے کو جس میں ہے کہ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ قریب ہوا اور اتر آیا بس بقدر دو کمان کے ہو گیا۔ بلکہ اور نزدیک۔ شریک نامی راوی کی وہ زیادتی بتاتے ہیں جس میں وہ منفرد ہیں۔ اسی لئے بعض حضرات نے کہا کہ آپ نے اس رات اللہ عز و جل کو دیکھا۔ لیکن حضرت عائشہ، حضرت ابن مسعود، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت جرئیل علیہ السلام کو دیکھا۔ یہی زیادہ صحیح ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بالکل حق ہے اور روایت میں ہے کہ جب آپ سے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا۔ وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ اور روایت میں ہے کہ میں نے نور کو دیکھا ہے۔
یہ جو سورۃ والنجم میں ہے ثم دنا فتدلی یعنی پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا۔ اس سے مراد حضرت جبرئیل ہیں جیسے کہ ان تینوں بزرگ صحابیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تو کوئی اس آیت کی اس تفسیر میں ان کا مخالف نظر نہیں آتا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میرے باس براق لایا گیا۔ جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا تھا، جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے۔ میں اس پر سوار ہوا وہ مجھے لے چلا، میں بیت المقدس پہنچا اور اسی کنڈے میں اسے باندھ دیا، جہاں انبیاء علیہ السلام باندھا کرتے تھے، پھر میں نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی۔ جب وہاں سے نکلا تو جبرئیل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن میں شراب لائے اور ایک میں دودھ۔ میں نے دودھ کو پسند کر لیا، جبرئیل نے فرمایا تم فطرت تک پہنچ گئے۔ پھر اوپر اولی حدیث کی طرح آسمان اول پر پہنچنا، اس کا کھلوانا، فرشتوں کا دریافت کرنا، جواب پانا، ہر آسمان پر اسی طرح ہونا، بیان ہے۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات ہونے کا ذکر ہے، جو دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی بھائی تھے۔ ان دونوں نے بھی آپ کو مرحبا کہا اور دعائے خیر دی، پھر تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جنہیں آدھا حسن دیا گیا ہے، آب نے بھی مرحبا کہا، نیک دعا کی، پھر چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جن کی بابت فرمان الٰہی ہے ورفعناہ مکانا علیا ہم نے اسے اونچی جگہ اٹھا لیا ہے۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں، مگر جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی۔ پھر سدرۃ المنتہی تک پہنچے، جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور جس کے پھل مٹکے جیسے۔ اسے امر رب نے ڈھک رکھا تھا، اس خوبی کا کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ پہر وحی ہونے کا اور پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے واپس جا جا کر کمی کرا کرا کر پانچ تک پہنچنے کا بیان ہے۔ اس میں ہر بار کے سوال پر پانچ کی کمی کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر میں آپ سے فرمایا کیا جو نکی کا ارادہ کرے گو وہ عمل میں نہ آئے تاہم اسے ایک نکی کا ثواب مل جاتا ہے اور اگر کر لے تو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور گناہ کے صرف ارادے سے گناہ نہیں لکھا جاتا اور کر لینے سے ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے (مسلم)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس رات آپ کو اسرا بیت اللہ سے بیت المقدس تک ہوا اسی رات معراج بھی ہوئی اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ،۔ مسند احمد میں ہے کہ براق کی لگام بھی تھی اور زین بھی تھی۔ جب وہ سواری کے وقت کسمسایا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کیا کر رہا ہے ؟ واللہ تجھ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے، آپ سے زیادہ بزرگ شخص کوئی سوار نہیں ہوا۔ پس براق پسینہ پسینہ ہو گیا۔ آپ فرماتے ہیں جب مجھے میرے رب عز و جل کی طرف چڑھایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے تانبے کے ناخن تھے، جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ اور چھیل رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزت و آبرو کے درپے رہتے تھے۔ ابو داؤد میں ہے کہ معراج والی رات جب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو میں نے انہیں وہاں نماز میں کھڑا پایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے مسجد اقصٰی کے نشانات پوچھے آپ نے بتانے شروع کئے ہی تھے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، آپ بجا ارشاد فرما رہے ہیں اور سچے ہیں۔ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے دیکھ رکھا تھا۔ مسند بزار میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ دیا۔ پس میں کھڑا ہو کر ایک درخت میں بیٹھ گیا جس میں پرندوں کے مکان جیسے تھے ایک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام بیٹھ گئے وہ درخت پھول گیا اور اونچا ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو لیتا۔ میں تو اپنی چادر ٹھیک کر رہا تھا، لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سخت تواضع اور فروتنی کے عالم میں ہیں، تو میں جان گیا کہ اللہ کی معرفت کے علم میں یہ مجھ سے افضل ہیں، آسمان کا ایک دروازہ میرے لئے کھولا گیا۔ میں نے ایک زبردست عظیم الشان نور دیکھا، جو حجاب میں تھا اور اس کے اس طرف یاقوت اور موتی تھے، پھر میری جانب بہت کچھ وحی کی گئی۔ دلائل بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ کی پیٹھ کو انگلی سے اشارہ کیا، آپ ان کے ساتھ ایک درخت کی جانب چلے جس میں پرندوں کے گھونسلے جیسے تھے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہماری طرف نور اترا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تو بیہوش ہو کر گر پڑے الخ پھر میری جانب وحی کی گئی کہ نبی اور بادشاہ بننا چاہتے ہو ؟ یا نبی اور بندہ بننا چاہتے ہو اور جنتی ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسی طرح تواضع سے گرے ہوئے مجھے اشارے سے فرمایا کہ تواضع اختیار کر و، تو میں نے جواب دیا کہ اے اللہ میں نبی اور بندہ بننا منظور کرتا ہوں۔ اگر یہ روایت صحیح ہو جائے تو ممکن ہے کہ یہ واقعہ معراج کے سوا اور ہو کیونکہ اس میں نہ بیت المقدس کا ذکر ہے نہ آسمان پر چڑھنے کا، واللہ اعلم۔
بزار کی ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا لیکن یہ روایت غریب ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ براق نے جب حضرت جبرئیل کی بات سنی اور پھر وہ آپ کو سوار کرا کر کے لے چلا تو آپ نے راستے کے ایک کنارے پر ایک بڑھیا کو دیکھا پوچھا یہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ چلے چلئے۔ پھر آپ نے چلتے چلتے دیکھا کہ کوئی راستے سے یکسو ہے اور آپ کو بلا رہی ہے پھر آپ آگے بڑھے تو دیکھ کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے اور باآواز بلند کہہ رہی ہے السلام علیک یا اول السلام علیک یا اخر السلام علیک یا حاشر جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا جواب دیجئے، آپ نے ان کے سلام کا جواب دیا۔ پھر دوبارہ ایسا ہی ہوا، پھر تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچے۔ وہاں آپ کے سامنے پانی، شراب اور دودھ پیش کیا گیا، آپ نے دودھ لے لیا جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے راز فطرت پالیا۔ اگر آپ پانی کے برتن لے کر پی لیتے تو آب کی امت غرق ہو جاتی اور اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی۔ پھر آپ کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے زمانے تک کے تمام انبیاء بھیجے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی امامت کرائی اور اس رات نماز سب نے آپ کی اقتداء میں پڑھی۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا راستے گے کنارے جس بڑھیا کو آپ نے دیکھا تو وہ گویا یہ دکھایا گیا کہ دنیا کی عمر اب صرف اتنی ہی باقی ہے جیسے اس بڑھیا کی عمر اور جس کی آواز پر آپ توجہ کرنے والے تھے وہ دشمن اللہ ابلیس تھا اور جن کی سلام کی آوازیں آب نے سنیں وہ ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ تھے علیہم الصلوۃ والسلام۔ اس میں بھی بعض الفاظ میں غرابت و نکارت ہے واللہ اعلم۔
اور روایت میں ہے کہ جب میں براق پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کی معیت میں چلا تو ایک جگہ انہوں نے مجھ سے فرمایا یہیں اتر کی نماز ادا کیجئے جب میں نماز پڑھ چکا تو فرمایا۔ جانتے ہو کہ یہ کونسی جگہ ہے ؟ یہ طیبہ (یعنی مدینہ ) ہے یہی ہجرت گاہ ہے۔ پھر ایک اور جگہ مجھ سے نماز پڑھوائی اور فرمایا “ یہ طور سینا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا۔ پھر ایک اور جگہ نماز پڑھوا کر فرمایا۔ یہ بیت لحم ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے پھر میں بیت المقدس پہنچا۔ وہاں تمام انبیاء جمع ہوئے، جبرئیل علیہ السلام نے مجھے امام بنایا۔ میں نے امامت کی، پھر مجھے آسمان کی طرف چڑھا لے گئے پھر آپ کا ایک ایک آسمان پر پہنچنا، وہاں پیغمبروں سے ملنا مذکور ہے۔ فرماتے ہیں جب میں سدر ۃ المنتہی تک پہنچا تو مجھے ایک نورانی ابر نے ڈھک لیا میں اسی وقت سجدے میں کر پڑا، پھر آپ پر پچاس نمازوں کا فرض ہونا اور کم ہونا وغیرہ کا بیان ہے۔ آخر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بیان میں ہے کہ میری امت پر تو صرف دو نمازیں مقرر ہوئی تھیں لیکن وہ انہیں بھی نہ بجا لائے۔ آپ پھر پانچ سے بھی کمی چاہنے کے لئے گئے تو فرمایا گیا کہ میں نیتو آسمان و زمین کی پیدائش والے دن ہی تجھ پر اور تیری امت پر یہ پانچ نمازیں مقرر کر دی تھیں۔ یہ پڑھنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہیں۔ پس تو اور تیری امت اس کی حفاظت کرنا آپ فرماتے ہیں اب مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ کا یہی حکم ہے۔ پھر جب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے پھر واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن چونکہ میں معلوم کر چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی حکم ہے، اس لئے میں پھر اللہ کے پاس نہ گیا۔
ابن ابی حاتم میں بھی معراج کے واقعہ کی مطول حدیث ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ بیت المقدس کی مسجد کے پاس اس دروازے پر پہنچے جسے باب محمد کہا جاتا ہے (صلی اللہ علیہ و سلم ) وہیں ایک پتھر تھا جسے حضرت جبرئیل نے اپنی انگلی لگائی تو اس میں سوراخ ہو گیا، وہیں آپ نے براق کو باندھا اور مسجد پر چڑھ کئے۔ بیچوں بیچ جانے کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا آپ نے اللہ تعالیٰ یے یہ آرزو کی ہے کہ وہ آپ کو حوریں دکھائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، کہا آئیے، وہ یہ ہیں، سلام کیجئے،، وہ صخرہ کے بائیں جانب بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا، سب نے میرے سلام کا جواب دیا، میں نے پوچھا، تم سب کون ہو ؟ انہوں نے کہ ہم نیک سیرت، خوبصورت، حوریں ہیں ہم بیویاں ہیں اللہ کے پرہیز گار بندوں کی جو نیک کار ہیں، جو گناہوں کے میل کچیل سے دور ہیں، جو پاک کر کے ہمارے پاس لائے جائیں گے پھر نہ نکالے جائیں گے ہمارے پاس ہی رہیں گے، کبھی جدا نہ ہوں گے ہمیشہ زندہ رہیں گے کبھی نہ مریں کے۔ میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ وہیں لوگ جمع ہو نے شروع ہو گئے اور ذرا سی دیر میں بہت سے آدمی جمع ہو گئے۔ موذن نے اذان کہی تکبیر ہوئی اور ہم سب کھڑے ہو گئے۔ منتظر تھے کہ امامت کون کرائے گا ؟ جو جبرائیل علیہ السلام نے کہا جانتے بھی ہو کن کو آپ نے نماز پڑھائی ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا آپ کے پیچھے آپ کسے یہ سب مقتدی اللہ کے پیغمبر تھے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ مبعوث فرما چکا ہے پھر میرا ہاتھ تھام کر آسمان کی طرف لے چلے۔ پھر بیاں ہے کہ آسمانوں کے دروازے کھلوائے۔ فرشتوں نے سوال کیا۔ جواب پا کر دروازے کھولے وغیرہ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا ’’ میرے بیٹے اور نیک نبی کو مرحبا ہو۔‘‘ اس میں چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کرنے کا ذکر بھی ہے۔ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملنے اور ان کے بھی وہی فرمانے کا ذکر ہے جو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ پھر مجھے وہاں سے بھی اونچا لے گئے۔ میں نے ایک نہر دیکھی، جس میں لولو یاقوت اور ابر جد کے جام تھے اور بہترین، خوش رنگ، سبز پرند تھے۔ میں نے کہا یہ تو نہایت ہی نفیس پرند ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا وہ نہر کوثر ہے جو اللہ نے آپ عطا فرما رکھی ہے اس میں سونے چاندی کے آبخورے تھے جو یاقوت و زمرد سے جڑاؤ تھے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ میں نے ایک سونے کا پیالہ لے کر پانی بھر کر پیا تو وہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا تھا اور مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا۔ جب میں اس سے بھی اوپر پہنچا تو ایک نہایت خوش رنگ بادل نے مجھے آ گھیرا جس میں مختلف رنگ تھے، جبرئیل علیہ السلام نے تو مجھے چھوڑ دیا اور میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑا۔ پھر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا بیان ہے۔ پھر آپ واپس ہوئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو کچھ نہ فرمایا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سمجھا بجھا کر واپس طلب تخفیف کے لئے بھیجا، الغرض اسی طرح آپ کا بار بار آنا، بادل میں ڈھک جانا دعا کرنا، تخفیفی ہونا، حضرت ابراہیم علیہ السلام ملتے ہوئے آنا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بیان کرنا ہاں تک کہ پانچ نمازوں کا رہ جانا بیان ہے وغیرہ۔ یہ فرماتے ہیں پھر مجھے جبرئیل لے کر نیچے اترے میں نے ان سے پوچھا کہ جس آسمان پر میں پہنچا وہاں کے فرشتوں نے خوشی طاہر کی ہنس ہنس کر مسکراتے ہوئے مجھ سے ملے بجز ایک فرشتے کہ کہ اس نے میرے سلام کا جواب تو دیا مجھے مرحبا بھی کہا لیکن مسکرائے نہیں یہ کون ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا۔ وہ مالک ہیں۔ جہنم کے داروغہ ہیں، اپنے پیدا ہونے سے لیکر کر آج وہ ہنسے ہی نہیں اور قیامت تک ہنسیں گے بھی نہیں کیونکہ ان کی خوشی کا یہی ایک بڑا موقعہ تھا۔ واپسی میں قریشیوں کے ایک قافلے کو دیکھا جو غلہ لا دے جا رہا تھا، اس میں ایک اونٹ تھا جس پر ایک ایک سفید اور ایک سیاہ بورا تھا، جب آپ اس کے قریب سے گزرے تو وہ چمک گیا اور مڑ گیا اور گر پڑا اور لنگڑا ہو گیا آپ اس طرح اپنی جگہ پہنچا دئے گئے۔ صبح ہو تے ہی آپ نے اپنی اس معراج کا ذکر لوگوں سے کیا۔ مشرکوں نے جب یہ سنا تو وہ سیدھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے لو تمہارے پیغمبر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ آج کی ایک ہی رات میں مہینہ بھر کے فاصلے کے مقام تک ہو آئے۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر فی الواقع آپ نے یہ فرمایا ہو تو آپ سچے ہیں، ہم تو اس سے بھی بڑی بات میں آپ کو سچا جانتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ آپ کو آن کی آن میں آسمان سے خبریں پہنچتی ہیں۔ مشرکوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ آپ کی سچائی کی کوئی علامت بھی آپ پیش کر سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے راستے میں فلاں فلاں جگہ قریش کا قافلہ دیکھا۔ ان کا ایک اونٹ جس پر سفید و سیاہ رنگ کے دو بورے ہیں، وہ ہمیں دیکھ کر بھڑ کا، گھوما اور چکر کھا کر گر پڑا اور ٹانگ ٹوٹ گئی جب وہ قافلہ آیا لوگوں نے ان سے جا کر پوچھا کہ راستے میں کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی ؟ انہوں نے کہا ہاں ہوئی۔ فلا ں اونٹ فلاں جگہ اس طرح گرا وغیرہ۔ کہتے ہیں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی اسی صدیق کی وجہ سے انہیں صدیق کہا گیا ہے رضی اللہ عنہ۔ پھر آپ سے لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے فرمایا ہاں موسیٰ تو گندم گوں رنگ کے ہیں، جیسے ازدعمان کے آدمی ہوتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد کے کچھ سرخی مائل رنگ کے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے لبوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ اس سیاق میں بھی عجائب و غرائب ہیں۔ مسند احمد میں ہے، حطیم میں سویا ہوا تھا، اور روایت میں صخرہ میں سویا ہوا تھا کہ آنے والا آیا۔ ایک نے درمیان والے سے کہا اور وہ میرے پاس آیا اور یہاں سے یہاں تک چاک کر ڈالا یعنی گلے کے پاس سے ناف تک۔ پھر مندرجہ بالا احادیث کے مطابق بیان ہے اس میں ہے کہ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے میں نے سلام کیا۔ آپ نے جواب دیا اور فرمایا نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا ہو۔ جب میں وہاں سے آگے پڑھ گیا تو آپ رو دئے۔ پوچھا گیا کیسے روئے ؟ جواب دیا کہ اس لئے کو جو بچہ میرے بعد نبی بنا بھیجا گیا، اس کے امت بہ نسبت میری امت کے جنت میں زیادہ تعداد میں جائے گی۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہی آیا کے پاس چار نہریں دیکھیں دو ظاہر اور دو باطن میں۔ جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا، آپ نے مجھے بتلایا کہ باطنی تو جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری نیل و فرات ہیں، پھر میری جانب بیت المعمور بلند کیا گیا۔ پھر میرے پاس شراب کا، دودھ کا اور شہد کا برتن آیا۔ میں نے دودھ کا اور شہد کا برتن آیا۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا۔ فرمایا” یہ فطرت ہم جس پر تو ہے اور تیری امت “۔ اس میں ہے کہ جب پانچ نمازیں ہی رہ گئیں اور پھر بھی کلیم اللہ نے واپسی کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے رس سے سوال کرتے کرتے شرما گیا۔ اب میں راضی ہوں اور تسلیم کر لیتا ہوں۔ اور روایت میں ہے کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی میں اس وقت مکہ میں تھا الخ۔ اس میں ہے کہ جب میں جبرئیل علیہ السلام کے ساٹھ آسمان دنیا پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، جن کے دائیں بائیں بری بڑی جماعت ہے وہ داہنی جانب دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں اور جب بائیں جانب نگاہ اٹھتی ہے تو رو دیتے ہیں۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ اور ان کے دائیں بائیں کون ہیں ؟ فرمایا یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کی اولاد ہے، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانب والے جہنمی ہیں، انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں دیکھ کر رنجیدہ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے چھٹے آسمان پر ملاقات ہوئی۔ اس میں ہے کہ ساتویں آسمان سے میں اور اونچا پہنچایا گیا مستوی میں پہنچ کر میں نے قلموں کے لکھنے کی آوازیں سنیں۔ اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے سے میں طلب تخفیف کے لئے گیا تو اللہ نے آدھی معاف فرما دیں۔ پھر گیا، پھر آدھی معاف ہوئی، پھر گیا تو پانچ مقرر ہوئیں۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہی سے ہو کر میں جنت میں پہنچایا گیا۔ جہاں سچے موتیوں کے خیمے تھے اور جہاں کی مٹی مشک خالص تھی۔
یہ پوری حدیث صحیح بخاری شریف کی کتاب الصلوۃ میں ہے اور ذکر بنی اسرائیل میں بھی ہے اور بیان حج میں اور احادیث انبیاء میں بھی ہے۔ امام مسلم نے صحیح مسلم کتاب الایمان میں بھی وارد فرمائی ہے۔ مسند احمد میں عبد اللہ بن ثیقق رحمۃ اللہ نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا تو کم از کم ایک بات تو ضرور پوچھ لیتا آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ؟ کہا یہی کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو میں نے آپ سے پوچھا تھا آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا۔
بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب میں نے معراج کے واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا اور قریش نے جھٹلایا، میں اس وقت حطیم میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نگاہوں کے سامنے لا دیا اور اسے بالکل ظاہر کر دیا۔ اب جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے تھے میں دیکھتا جاتا تھا اور بتاتا جاتا ہے۔ بیہقی میں ہے کہ بیت المقدس میں آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی۔ اس میں ہے کہ جب واپس کی جماعت اسی وقت دوڑی بھاگی، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچی اور کہنے لگے لو اور سنو آج تو تمہارے ساتھی ایک عجیب خبر سنا رہیں، کہتے ہیں ایک ہی رات میں وہ بیت المقدس سے ہو کر بھی آ گئے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ فرماتے ہیں تو سچ ہے۔ واقعی ہو آئے ہیں انہوں نے نے کہا یعنی تم اسے بھی مانتے ہو کہ رات کو جائے اور صبح سے پہلے ملک شام سے واپس مکہ پہنچ جائے ؟ آپ نے فرمایا اس بھی زیادہ بڑی بات کو میں اس سے بہت پہلے سے مانتا چلا آیا ہوں۔ یعنی میں مانتا ہو کہ ان کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور وہ ان تمام میں سچے ہیں۔ اسی وقت سے آپ کا لقب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ مسند احمد میں ہے حضرت زر بن جیش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا، اس وقت آپ معراج کا واقعہ بیان فرما رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہم چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے، دونوں صاحب اندر نہیں گئے، میں نے یہ سنتے ہی کہا، غلط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اندر گئے بلکہ اس رات آپ نے وہاں نماز بھی پڑھی، آپ نے فرمایا تیرا کا نام ہے، میں تجھے جانتا ہوں لیکن نام یاد نہیں پڑتا۔ میں نے کہا میرا نام زر بن جیش ہے فرمایا تم نے یہ بات کیسے معلوم کر لی ؟ میں نے کہا یہ تو قرآن کی خبر ہے، آپ نے فرمایا جس نے قرآن سے بات کہی اس نے نجات پائی۔ پڑھئے وہ کونسی آیت ہے تو میں نے سبحان الذی کی یہ آیت پڑھی آپ نے فرمایا اس میں کس لفظ کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں نماز ادا کی ؟ ورنہ آپ نے اس رات وہاں نماز نہیں پڑھی اور اگر پڑھ لیتے تو تم پر اسی طرح وہاں کی نماز لکھ دی جاتی۔ جس طرح بیت اللہ کی ہے واللہ وہ دونوں براق پر ہی رہے یہاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے، پس جنت دوزخ دیکھ لی اور آخرت کے وعدے کی اور تمام چیزیں بھی۔ پھر ویسے کے ویسے ہی لوٹ آئے پھر آپ خوب ہنسے اور فرمانے لگے مزہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں آپ نے براق باندھا کہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ حالانکہ عالم الغیب والشہادۃ اللہ عالم نے اسے آپ کے لئے مسخر کیا تھا۔ میں نے پوچھا کیوں جناب یہ براق کیا ہے ؟ کہا ایک جانور ہے سفید رنگ لانبے قد کا جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا ہے، جتنی دور نگاہ کام کرے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محض انکار سے وہ روایتیں جن میں بیت المقدس کی نماز کا ثبوت ہے وہ مقدم ہیں۔ (واللہ اعلم )
حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب نے آپ سے معراج کے واقعہ کے ذکر کی درخواست کی تو آپ نے پہلے تو یہی آیت سبحان الذی کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ میں عشاء کے بعد مسجد میں سویا ہوا تھا، جو ایک آنے والے نے آ کر مجھے جگایا میں اٹھ بیٹھا لیکن کوئی نظر نہ پڑا، ہاں کچھ جانور سا نظر آیا، میں نے غور سے دیکھا اور برابر دیکھتا ہوا مسجد کے باہر چلا گیا تو مجھے ایک عجیب جانور نظر پڑا ہمارے جانوروں میں سے تو اس کے کچھ مشابہ خچر ہے۔ ہلتے ہوئے اور اوپر کو اٹھے ہوئے کانوں والا تھا۔ اس کا نام براق ہے مجھ سے پہلے کے انبیاء بھی اسی پر سوار ہوتے رہے، میں اس پر سوار ہو کر چلا ہی تھا کہ میری دائیں جانب سے کسی نے آواز دی کہ محمد میری طرف دیکھ میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا۔ لیکن نہ میں نے جواب دیا نہ ٹھیرا۔ پھر کچھ آگے گیا کہ ایک عورت دنیا بھر کی زینت کئے ہوئے باہیں کھولے کھڑی ہوئی ہے، اس نے مجھے اسی طرح آواز دی کہ میں کچھ دریافت کرنا چاہتی ہوں لیکن میں نے نہ اس کی طرف التفات کیا، نہ ٹھیرا۔ پھر آپ کا بیت المقدس پہنچنا، دودھ کا برتن لینا اور جبرئیل علیہ السلام کے فرمان سے خوش ہو کر دو دفعہ تکبیر کہنا ہے۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا۔ آپ کے چہرے پر فکر کیسے ہے ؟ میں نے وہ دونوں راستے کے بیان کئے تو آپ نے فرمایا کہ پہلا شخص تو یہود تھا اگر آپ اسے جواب دیتے یا وہاں ٹھیرتے تو آپ کی امت یہود ہو جاتی۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا وہاں ٹھیرتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی۔ پھر میں اور جبرئیل بیت المقدس میں گئے ہم دونوں نے دو دو رکعتیں ادا کیں پھر ہمارے سامنے معراج لائی گئی جس سے بنی آدم کی روحیں چڑھتی ہیں دنیا نے ایسی اچھی چیز کبھی نہیں دیکھی تم نہیں دیکھتے کہ مرنے والے کی آنکھیں آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہیں یہ اسی سیڑھی کو دیکھتے ہوئے تعجب کے ساتھ۔ ہم دونوں اوپر چڑھ گئے میں نے اسماعیل نامی فرشتے سے ملاقات کی جو آسمان دنیا کا سردار ہے جس کے ہاتھ تلے ستر ہزار فرشتے ہیں، جن میں سے ہر ایک فرشتے کے ساتھ اس کے لشکری فرشتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ فرمان الٰہی ہے تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہا، پوچھا گیا کون ہے ؟ کہا جبرئیل، پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کون ہیں ؟ بتلایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کہا گیا کہ کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا؟ جواب دیا کہ ہاں، وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا، اسی ہیئت میں، جس میں وہ اس دن تھے جس دن اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا۔ ان کی اصلی صورت پر۔ ان کے سامنے ان کی اولاد کی روحیں پیش کی جاتی ہیں۔ نیک لوگوں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں پاک روح ہے اور جسم بھی پاک ہے۔ اسے علیین میں لے جاؤ اور بدکاروں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں۔ خبیث روح جسم بھی خبیث ہے۔ اسے سجین میں لے جاؤ۔ کچھ ہی چلا ہوں گا جو میں نے دیکھا کہ خوان لگے ہوئے ہیں جن پر نہایت نفیس گوشت بھنا ہوا ہے اور دوسری جانب اور خوان لگے ہوئے ہیں جن پر بدبو دار سڑا بسا گوشت رکھا ہوا کچھ لوگ ہیں جو عمدہ گوشت کے تو پاس بھی نہیں آتے اور اس سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا جبرئیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو حلال کو چھوڑ کر حرام کی رغبت کرتے تھے۔ پھر میں کچھ اور چلا تو کچھ اور لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کی طرح کے ہیں، ان کے منہ پھاڑ پھاڑ کر فرشتے انہیں اس گوشت کم لقمے دے رہے ہیں جو انکے دوسرے راستے سے واپس نکل جاتا ہے وہ چیخ چلا رہے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا جبرئیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ ضرور بھڑ کتی ہوئی جہنم کی آگ میں جائیں گے۔ میں کچھ دور اور چلا جو دیکھا کہ کچھ عورتیں اپنے سینوں کے بل ادھر لٹکی ہوئی ہیں اور ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میرے پوچھنے پر جواب ملا کہ یہ آپ کی امت کی زنا کار عورتیں ہیں۔ میں کچھ دور اور گیا تو دیکھا کہ کچھ لوگوں کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جیسے ہیں جب وہ اٹھنا چاہتے ہیں گر پڑتے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو فرعونی جانوروں سے وہ روندے جاتے ہیں اور اللہ کے سامنے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے، سود خور ان لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے، جنہیں شیطان نے باؤلا بنا رکھا ہو۔ میں کچھ دور اور چلا تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں، جن کے پہلو سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے انہی کو کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح اپنے بھائی کا گوشت اپنی زندگی میں کھاتا رہا اب بھی کھا۔ میں نے پوچھا جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ آپ کی امت کے عیب جو اور آوازہ کش لوگ ہیں۔ پھر ہم دوسرے آسمان پر چڑھے تو میں نے وہاں ایک نہایت ہی حسین شخص کو دیکھا جو اور حسین لوگوں پر وہی فضیلت رکھتا ہے جو فضیلت کو چاند کو ستاروں پر ہے، میں نے پوچھا کہ جبرئیل یہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ آپ کے بھائی حضور یوسف علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ لوگ ہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا جس کا جواب انہوں نے دیا۔ پھر ہم تیسرے آسمان کی طرف چڑھے۔ اسے کھلوایا وہاں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ آدمی تھے، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے مجھے جواب دیا، پھر میں چوتھے آسمان کی طرف چڑھا۔ وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر اٹھا لیا ہے، میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا، پھر پانچویں آسمان کی طرف چڑھا، وہاں حضرت ہارون علیہ السلام تھے، جن کی آدھی داڑھی سفید تھی اور آدھی سیاہ اور بہت لمبی داڑھی تھی، قریب قریب ناف تک۔ میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سوال کیا انہوں نے بتایا کہ یہ اپنی قوم کے ہر دلعزیز حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ان کے ساتھ ان کی قوم کی جماعت ہے، انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب دیا، پھر میں چھٹے آسمان کی طرف چڑھا، وہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپ کا گندم گوں رنگ تھا بال بہت تھے، اگر دو کرتے بھی پہن لیں تو بال ان سے گزر جائیں آپ فرمانے لگے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے پا ان سے بڑے مرتبے کا ہوں، حالانکہ یہ مجھ سے بڑے مرتبے کے ہیں جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ آپ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں، آپ کے بھی آپ کی قوم کے لوگ تھے۔ آپ نے بھی میرے سلام کا جواب دیا۔ پھر میں ساتویں آسمان کی طرف چڑھا۔ وہاں میں نے اپنے والد حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کو اپنی پیٹھ بیت المعمور سے ٹکائے ہوئے بیٹھا دیکھا۔ آپ بہت ہی بہتر آدمی تھے۔ دریافت پر مجھے آپ کا نام بھی معلوم ہوا۔ میں نے سلام کیا آپ نے جواب دیا۔ میں نے اپنے امت کو نصفا نصف دیکھا۔ نصف کے تو سفید بگلے جیسے کپڑے تھے اور نصف کے سخت سیاہ کپڑے تھے۔ میں بیت المعمور میں گیا۔ میرے ساتھ ہی سفید کپڑے والے سب گئے اور دوسرے جن کے خاکی کپڑے تھے وہ سب روک دئیے گئے ہیں وہ بھی خیر پر۔ پھر ہم سب نے وہاں نماز ادا کی اور وہاں سے سب باہر آئے۔ اس بیت المعمور میں ہر دن ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں لیکن جو ایک دن پڑھ گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آتی، پھر میں ستدرۃ المنتہی کی جانت بلند کیا گیا، جس کا ہر ایک پتہ اتنا بڑا تھا کہ میری ساری امت کو ڈھانک لے۔ اس میں سے ایک نہر جاری تھی جس کا نام سلسبیل ہے۔ پھر اس میں سے دو چشمے پھوٹے ہیں۔ ایک نہر کوثر دوسرا نہر رحمت۔ میں نے اس میں غسل کیا۔ میرے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہو گئے۔ پھر میں جنت کی طرف چڑھایا گیا وہاں میں نے ایک حور دیکھی اس سے پوچھا تو کس کی ہے ؟ اس نے کہا، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی۔ وہاں میں نے نہ بگڑنے والے پانی کی اور مزہ متغیر نہ ہونے والے دودھ کی اور بے نشہ لذیذ شراب اور صاف نتھرے شہد کی نہریں دیکھیں۔ اس کے انار بڑے بڑے ڈولوں کے برابر تھے۔ اس کے پرند تمہارے ان بختی اونٹوں جیسے تھے بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی نے کانوں سے سنیں۔ (یہاں چار صفحات چھوٹ گئے ہیں)
پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا۔ چونکہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے اسی لئے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفۃ المسلمین نے ٹھکرا دیا اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو۔ ایک طویل روایت معراج کی بابت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غرب والی بھی مروی ہے، اس میں ہے کہ جبرئیل اور میکائیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ کے سینے کو کھول دیا سب غل و غش دور کر دیا اور علم و حلم ایمان و یقین سے اس پر کیا اسلام میں بھر دیا اور آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ کو حضرت جبرئیل علیہ السلام لے چلے دیکھا ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ادھر بڑھ جاتی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں اللہ تعالیٰ بہترین رزاق ہے۔ پھر آپ کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ہر بار ٹھیک ہو جاتے اور پھر کچلے جاتے دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہو جایا کرتے تھے۔ ؟ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں و صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبو دار بد مزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں۔
پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا یہ آپ کے ان امتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں پھر اس آیت کو پڑھا ولا تقعدوا بکل صراط توعدون الخ یعنی ہر ہر راستے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور راہ حق سے روکنے کے لئے نہ بیٹھا کرو۔ الخ پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھانہیں سکتا پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے۔ پوچھا جبرئیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوکوں کے حقوق اس قدخر ہیں کہ وہ ہر کز ادار نہیں کر سکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لئے رہا ہے۔ پھر آپ نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جار ہے ہیں ادھر کٹے، ادھر درست ہو گئے، پھر کٹ گئے، یہی حال برابر جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوارخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جا سکتا تھا۔
پھر آپ ایک وادی میں پہنچے وہاں نہایت نفیس خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن معطر خوشبودار راحت وسکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر۔ میرے بالا خانے، ریشم، موتی، مونگے، سونا، چاندی، جام، ک،ٹورے اور پانی، دودھ، شراب وغیر وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئیں۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مومن مرد وعورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو نیک عمل کرتا ہونہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے۔ سن جس کے دل میں میرا ڈر ہے وہ ہر خوف سے محفوظ ہے۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہم وہ محروم نہیں رہتا۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں، جو مجھ پر توکل کرتا ہے میں اسے کفایت کرتا ہوں وہ محروم نہیں رہتا۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں، جو مجھ پر توکل کرتا ہم میں اسے کفایت کرتا ہوں، میں سچا معبود ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے مومن نجات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے۔ یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہو گئی۔
پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانک مکروہ آوازیں آ رہی تھیں اور بدبو تھی آپ نے اس کی بابت بھی جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ کر اور مجھے وہ دے میرے طوق و زنجیر، میرے شعلے اور گرمائی، میرا تھور اور لہو پیپ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے یہ سن کر جہنم نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔ آپ پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا اندر جا کر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرئیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں۔
پھر آپ کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے امت کو ایسی فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اسی نے مجھے آگ سے بچا لیا اور اسے میرے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بنا دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا میرے دشمنوں کو، آل فرعون کو ہلاک کیا،۔ بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی میرے امت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا مجھے زبور کا علم دیا میرے لئے لوہا نرم کر دیا پہاڑوں کو مسخر کر دیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے مجھے حکمت اور پر زور کلا عطا فرمایا۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے ہواؤں کو میری تابع کر دیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیرہ بناتے تھے۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا۔
ہر چیز میں مجھے فضیلت دی، انسانوں کے، جنوں کے، پرندوں کے لشکر میرے ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مومن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے کتاب و حکمت تورات انجیل سکھائی میں مٹی کا پرندہ بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الٰہی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الہی اچھا کر دیتا تھا مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہو جاتے تھے مجھے اس نے اٹھا لیا مجھے پاک صاف کر دیا مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا، اب جناب رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم سب نے اللہ کی تعریفیں بیان کر لیں اب میں کرتا ہوں۔ اللہ ہی کے لئے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر اپنی تمام مخلوق کے لئے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے میری امت کو تمام اور امتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے۔ اسے بہترین امت بنایا انہی کو اول کی اور آخر کی امت بنایا۔ میرا سینہ کھول دیا میرے بوچھ دور کر دئے میرا ذکر بلند کر دیا مجھے شروع کرنے ولا اور ختم کرنے والا بنایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا انہی وجوہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بم سب سے افضل ہیں۔
امام ابو جعفر رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہو گی، پھر آپ کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے۔ پانی کے برتن میں سے آپ نے تھوڑا سا پی کر واپس کر دیا پھر دودھ کا برتن لے کر آپ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ نے اس کے پینے سے انکار کر دیا کہ میں شکم سیر ہو چکا ہوں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت پر حرام کر دی جانے والی ہے اور اگر آپ اسے پی لیتے تو آپ کی امت میں سے آپ کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے۔ پھر آپ کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ و سلم ) پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کنو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے عام لوگوں کی طرح انکی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آ رہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آ رہی ہے داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں میں نے کا جبرئیل علیہ السلامیہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے آب اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا وہاں آپ نے دو جوانوں کو دیکھا دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام ہیں یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے پھر آپ پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ حضرت ہارون علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا آپ کے ان سے بھی آگے تلک جانے پر وہ رو دئے، دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ نبی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ ان کی امت ہے۔ پھر آپ اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہ لگایا جس سے رنک قدرے نکھر گیا پھر دوسرں نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہو گئے۔ آ کر دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہو گئے۔ آپ کے سوال پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہو گئی تھیں ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو گیا۔
اول نہر اللہ کی رحمت ہے، دوسری نعمت ہے، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہنچایا جاتا ہے اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی صاف ستھرے دودھ کی لذیذ بے نشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک امت کو ڈھانپ لے۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپا لیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ سے باتیں کیں فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا، موسیٰ علیہ السلام سے تو نے باتیں کیں، داؤد علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لئے لوہا نرم کر دیا، سلیمان علیہ السلام کو تو نے بادشاہت دی، جنات انسان شیاطین ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو تو نے تورات و انجیل سکھائی اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا میری نسبت فرمان ہو۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا تو میرا خلیل ہے توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمن کا لقب دیا ہے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، تیرا سینہ کھول دیا ہے، تیرا بوجھ اتار دیا ہے، تیرا ذکر بلند کر دیا ہے جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری امت کو میں نے سب امتوں سے بہتر بنایا ہے۔ جو لوگوں کے لئے ظہور میں لائی گی ہے۔ تیری امت کو بہترین امت بنایا ہے، تیری ہی امت کو اولین اور آخرین بنایا ہے۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں۔ میں نے تیری امت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے۔ تجھے ازروئے پیدائش سب سے اول کیا اور ازروئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورۃ بقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے۔ اسلام، ہجرت، جہاد، نماز، صدقہ، رمضان کے روزے، نیکی کا حکم، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا۔ پس آپ فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی۔ جامع باتیں دیں۔ تمام لوگوں کی طرف خوشخبری دینے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا۔ میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوئیں میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی۔ پھر آب پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر۔ اور کتاب کی ایسی حدیث میں بھی ہے کہ اسی آیت سبحان الذی کی تفسیر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بہ ظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے اس کے بعد الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے۔ انہیں ضعیف بھی کہا کیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آگیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی احادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کم واقعہ کی اس میں روایت ہو۔ واللہ اعلم۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں آپ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں حطیم میں آپ سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پہر اس کے ظاہر ہو جانے کا واقعہ بھی ہے، اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ بیان ہے اور یہ بھی کہ آپ نے انہیں نماز میں کھڑا پایا۔ آپ نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتداءً آپ سے سلام کیا۔
بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ علیہ السلام سے مروی ہے ہم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ام ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے آب عشا کی نماز سے فارغ ہو گئے تھے وہیں سے آپ کو معراج ہوئی۔ پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے اللہ کی قدرت سے تو کئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کر کے فرماتے ہیں کہ مکے شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس روایت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے واللہ اعلم۔
اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنئے۔ بیہقی میں ہے کہ جب صبح کے وقت لوگوں سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور تصدیق کرنے والے تھے، پھر حضرت صدیق علیہ السلام کے پاس ان کا جانا اور آپ کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے۔ خود حضرت ام ہانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئے ہے اس رات آپ نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر ہیں آرام فرما تھے۔ آپ بھی سوگئے اور ہم سب بھی۔ صبح سے کچھ ہی پہلے ہم نے حضور علیہ السلام کو جگایا۔ پھر آپ کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ام ہانی میں تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ یہیں ہوں اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی۔
ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابو یعلی میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے۔ طبرانی میں حضرت ام ہانی علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے میں نے رات کو آپ کی ہر چند تلاش کری لیکن نہ پایا ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا مجھے اس پر سوار کیا پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دکھایا لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح مجھے حضرت عیسٰ علیہ السلام کو بھی دکھایا درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔ دجال کو دیکھا ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی۔ ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی۔ یہ فرما کر اچھا اب میں جاتا ہوں جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں۔ میں نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلائیں گے آپ کی بات ہرگز نہ مانیں گم اور اگر بس چلا تو آپ کی بے ادبی کریں گے۔ لیکن آپ نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں۔
جبیر من مطعم کہنے لگا بس حضرت آج ہمیں معلوم ہو گیا اگر آپ سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے۔ ایک شخص نے کہاکیوں حضرت ؟ راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھوگیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والنوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ نے فرمایا وہ بھی ملے تھے فلاں جگہ تھے ان میں اسک سرخ رنگ اونٹنی تھے جس کا پاؤں ٹوٹ کیا تھا ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا۔ جسے میں نے بھی پیا۔ انہوں نے کہا اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالی، نے قافلہ آپ کے سامنے کر دیا آپ نے ساری گنتی بھی بتا دی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئے ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے دیکھا کہ واقعی قافلہ آگیا ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہو گیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہو گیا تھا۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ پوچھا کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کب بھی تھا۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا نہ وہ پانی گرایا گیا۔ بے شک محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچے ہیں۔ یہ آپ پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا۔ “ فصل” ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں حسن بھی ہیں ضعیف بھی ہیں۔ کم از کم اتتنا تو ضرور معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مکے شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ ہیں۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء علیہم السلام کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو یک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ واقعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پہر بھی مطلب حاصل نہ ہوا۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہ پیش کی ہم اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکے سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس اور بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گئے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ سے اس کے بار بار ہونے کی روایت بیان کرتے۔ بقول حضرت زہری معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے۔ عروہ بھی یہی کہتے ہیں۔ سدی کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے۔ لہذا حق بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا وہاں جا کر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے دور پر دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑہی کے ہے اس سے آپ آسمان دنیا پر چڑھائے گئے پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ہر آسمان کے مقربین الہی سے ملاقاتیں ہوئیں انبیاء علیہم السلام سے ان کے منازل ودرجات کے مطابق سلام علیک ہوئی چھٹے آسمان میں کلیم اللہ علیہ السلام سے اور ساتوں میں خلیل اللہ علیہ السلام سے ملے پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے۔ صلی اللہ علیہ و سلم وعلی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام۔ یہاں تک کہ آپ مستوی میں پہنچے جہاں قضا و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں۔ سدرۃالمنتہی کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے۔ وہیں پر آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سوپر تھے۔ وہیں آپ نے رف رف سبز رنگ کا دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے، یہی آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ و صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے، یہی آسمانی کعبہ ہے۔ خلیل اللہ علیہ السلام اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لئے جاتے ہیں مگر جو آج گئے پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی۔ آپ نے جنت دوزخ دیکھی، یہیں اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کر کے پھر تخفیف کر دی۔ اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے پھر آپ واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ کے ساتھ ہی تمام انبیاء علیہم السلام بھی اترے وہاں آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہو گیا ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ امامت انبیاء آپ نے آسمانوں میں کی۔ لیکن صحیح روایات سے بہ ظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ نے واپسی میں امامت کرائی۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ ہر ایک کی بابت حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی امامت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی۔ جب یہ ہو چکا اور آپ پر اور آپ کی امت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا تو بھی ہو چکا، اب آپ کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے اشارے سے آپ نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ والپس رات کے اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
اب یہ جو مروی ہے کہ آپ کے سامنے دودھ اور شہد اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لئے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے اسی طرح یہ تھا واللہ اعلم۔ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کے جسم وروح سمیت کرائی گئی تھی ؟ یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم وروح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے۔ اس کی بڑی جلیل ایک تو یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آب کس تکذیب نہ کرتے ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجائب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آ جائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول طر چکے تھے کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھر جاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا پھر قرآن کے لفظ
بعبدہ پر غور کیجئے۔ عبمد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے۔ پھر اسری بعبدہ لیلا کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت وما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنۃ للناس میں فرمایا گیا ہے۔ اگر یہ خواب ہی تھا تاویل اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی سے آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دکھایا گیا (بخاری) خود قرآن فرماتا ہے ما زاغ البصر وما طغی نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی۔ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے نہ کہ صرف روح کا۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کرا کر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لئے سواری کی ضرورت نہیں واللہ اعلم۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی۔ چنانچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن الی سفیان کا یہ قول مروی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی۔ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں وماجعلنا الرویا الخ آیت اتری ہے۔ اور حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھنا ہے اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا پس ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔ واللہ اعلم اس میں سے کون سی سچی بات تھی؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول۔ امام ابن جریر رحمۃ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے پھی اوپر بیان کر دی ہیں۔ واللہ اعلم۔
ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وجیہ بن خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا۔ یہ گئے، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ہرقل نے جمع کیا ان میں ابو سفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکے کے دوسرے کافر بھی تھے پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ابو سفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف نہ ہو وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہو گی۔ اسی وقت دل میں خیال آگیا اور میں نے کہا بادشاہ سلامت سنئے میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے جھوٹے آدمی ہیں سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا۔ میری یہ بات سنتے ہی بیا المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس پڑی عزت سے بیٹھا تھا فورا ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کروں سوتا نہ تھا۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے ہر چند زور لگایا لیکن کواڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا۔ میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے بہت ترکیبیں کیں، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے صبح پر رکھئے چنانچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہاکہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لئے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے۔ یہ حدیث بہت لمبی ہے۔
حضرت ابوالخطاب عمر بن وحیہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کر کے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کر کے پھر فرماتے ہیں معراج کی حدیث متواتر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت مالک بن صعصعہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو سعید، حضرت ابن عباس، حضرت شداد بن اوس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن قرظ، حضرت ابو حبہ، حضرت ابو لیلی، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت جابر، حضرت حذیفہ، حضرت بریدہ، حضرت ابو ایوب، حضرت ابو امامہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو الخمراء، حضرت صہیب رومی، حضرت ام ہانی، حضرت عائشہ، اور حضرت اسماء وغیرہ سے مروی ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔ ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہم اور بعض نے مختصر۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سندا صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ہاں بے شک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں وہ اللہ کے نورانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے یہں۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا کافروں کو برا لگے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموماً یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے حضرت موسیٰ کی کتاب کا نام تورات ہے۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے۔ پھر انہیں کہا جاتا ہم کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا ہے۔ مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لئے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا۔ مسند احمد وغیرہ میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجالائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لئے حضرت نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے الخ۔
جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں کے پس یہاں پر قضینا کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں۔ جیسے آیت وقضینا الیہ ذالک الامر میں یہی معنی ہیں۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان پر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لئے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بے خوف وخطر واپس چلے گئے، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا۔ پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ حضرت طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سخایرب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھے۔ اولا یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بے دریغ قتل کیا۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے حضرت امام صاحب نے یہ حدیث وارد کر دی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بے فائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بے نیاز کر دینے والی ہے۔
اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر و ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھائی نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کر دیا وہاں کم باشندوں کو قتل کیا پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزار مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں یہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹھہر گیا۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بید ردی سے قتل کیا ان میں کوئی بہی حافظ تورات نہ بچا۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لئے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا در اصل اپنے لئے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے۔ من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیہا جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے۔ پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی اب پھر دوبارہ کر لیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے، بہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا۔ یہ تو ہوئی دینوی سزا۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہم جہاں سے نہ وہ نکل سکین نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں۔ ہمیشہ کے لئے ان کا اوڑھنا بچونا یہی ہے۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الٰہی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپن یپا کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ یہ قرآن بہترین راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔ ایماندار جو ایمان کے مطابق فرمان نبوی پر عمل بھی کریں انہیں یہ بشارتیں سناتا ہے کہ ان کے لئے اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے انہیں بے شمار ثواب ملے گا۔ اور جو ایمان سے خالی ہیں انہیں یہ قرآن قیامت کے دن کے دردناک عذابوں کی خبر دیتا ہے جیسے فرمان ہے فبشرہم بعذاب الیہم انہیں المناک عذابوں کی خبر پہنچا دے
یعنی انسان کبھی کبھی گیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لئے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے مال و اولاد کے لئے بددعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی، کبھی ہلاکت کی، کبھی بردباری اور لعنت کی۔ لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے۔ حدیث میں بھی ہے کہ اپنی جان و مال کے لئے دعا نہ کو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔ اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔ یہ ہے ہی جلد باز۔ حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقعہ پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچتی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آ رہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا الحمد للہ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک ربک یا آدم اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آ جائے۔
اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے۔ رات آرام کے لئے دن تلاش معاش کیلئے۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر وسفر کرو۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی، جمعوں کی، مہینوں کی، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں، معاملات میں، قرض میں، مدت میں، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے۔ اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لادے ؟ یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں۔ یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لئے بنائی اور دن تلاش معاش کے لئے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا تار آنے والے بنایا تاکہ شکر و نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں۔ اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے۔ سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے۔ صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔ رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سوردج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جاسکے۔ سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں اللہ کی یہ پیمائش حق ہے۔ الخ قرآن میں ہے لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ دے کہ وہ لوگوں کے لئے اوقات ہیں اور حج کے لئے بھی الخ رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بہ نسبت سورج کے اندر کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دھبہ رکھ دیا ہے۔ این الکواء نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ چاند یہ جھائیں کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند سیہ دھندا لکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کی دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے۔
اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا۔ نیکی کا نیک۔ بدی کا بد۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو ؟ جیسے فرمان ہے ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا۔ اور جیسے فرمان ہے دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔ اور جگہ ہے و ان علیکم لحافظین الخ تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں۔ اور آیت میں ہے تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ اور جگہ ہے ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔ مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن یک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں البتہ ہر انسان کی شامت عمل اس کی گردن میں ہے۔ ابن لہیعہ فرماتے ہیں یہاں تک کہ شگون لینا بھی، لیکن اس حدیث کی یہ تفسیر غریب ہے واللہ اعلم، اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پڑھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے۔ جیسے فرمان ہے ینبوا لانسان یؤمئذ بما قدم واخر الخ اس دن انسان اپنے تمام اگلے پچھلے اعمال سے خبردار کر دیا جائے گا انسان تو اپنے معاملے میں خود ہی حجت ہے گو اپنی بے گناہی کے کتنے ہی بہانے پیش کر ڈے۔ اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی۔ اس لئے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا۔ گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لئے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہم اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعروں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں، فال کوئی چیز نہیں، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے اور روایت میں ہے کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے۔ آپ کا فرمان ہے کہ ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مومن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دو قتادہ رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں طائر سے مراد عمل ہیں۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں ن لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کم کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنانامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے۔
جس نے راہ راست اختیار کی حق کی اتباع کی نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے۔ کوئی نہ ہو گا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے اور جگہ قرآن میں ہے ولیحملن اثقالہم واثقالا مع اثقالہم اور آیت میں ہے ومن اوزار الذین یضلونہم بغیر علم یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کیے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا۔ لہذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھ جائے اس لے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا۔ پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پہنچنے سے پہلے کسی امت کو عذاب نہیں کرتا۔ چنانچہ سورہ تبارک میں ہے کہ دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے بے شک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو، سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے۔ اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقیناً آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا۔ اور آیت میں ہے کہ کفار جہنم میں پڑے چیخ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اس سے نکال تو ہم اپنے قدیم کرتوت چھوڑ کر اب نیک اعمال کریں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں تنے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی تم اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اور میں نے تم میں اپنے رسول بھی بھیجے تھے جنہوں نے خوب اگاہ کر دیا تھا اب تو عذاب برداشت کرو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا۔ صحیح بخاری میں آیت ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے۔ پھر ہے کہ جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟ اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لئے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت طاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا۔ اس لئے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ دوزخ پر نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاروں طرف سے سمٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ ہاں جنت کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا۔ باقی رہا یہ مسلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور دو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا، اللہ تعالیٰ مدد کرے۔
پہلی حدیث مسند احمد میں ہے چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا اور دوسار بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا، تیسرے بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں، چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی۔ بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی، دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے اور بالکل بڈھے بے حواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کر سکتا رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہو گا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟ اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کر لیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جائے گی۔ اور روایت میں ہے کہ جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہو جائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت وماکنا معذبین الخ پڑھ لو دوسری حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکو کار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں۔ تیسری حدیث ابو یعلی میں ہے کہ ان چاروں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہو گی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فورا دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لئے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لئے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنم ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بے شک جنتی ہو تم نے اطاعت کر لی۔
چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلی موسلی میں نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے۔ پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے۔ پانچویں حدیث۔ حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہاں بے شک بلا چون وچرا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہو جاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو تو اقرار کر چکے ہو کہ میری فرنانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟ وہ کہیں گے اچھا اب سے مان لیں گے اور کر گزریں گے چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لئے جائیں گے، پھر یہی حکم ہو گا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا۔ اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کر چکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الٰہی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑ جاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی۔ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان نے ثقہ بتلایا ہے۔ یحیی بن معین اور نسائی کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں۔ ابو داؤد نے ان سے روایت نہیں کی۔ ابو حاتم کہتم ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی۔
چھٹی حدیث۔ امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمۃ اللہ علیہ روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں، مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا۔ بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہو جائیں گے اور جو اس عذر گے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟ ساتویں حدیث۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گگے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کر دیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہو گا اللہ عز و جل فرمائے گا۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی۔ آٹھویں حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “ ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں “۔ جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہاحضور صلی اللہ علیہ و سلم اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟ آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہے۔
صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہم کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے۔ ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لطف بھی ہے۔ نویں حدیث۔ حافظ ابوبکر یرقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے با آواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے۔ دسویں حدیث۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنت میں کون کون جائیں گے۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے۔ علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں، خاموش، ہیں ان کی بھی گزر چکی۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا، جن کے پاس بہت سے بچے تھے۔ سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں، لوگو نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہو جائے گا۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہو گی اور اللہ تعالیٰ اپنے پہلا علم آشکارا کر دے گا۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہو گا۔ اس مذہب سے تمام احادیث اور مختلف دلیلیں میں جمع ہو جاتی ہے اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں۔ شیخ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری رحمۃاللہ علیہ نے یہی مذہب اہل سنت و الجماعت کا نقل فرمایا ہے۔
اور اسی کی تائید امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے۔ اور بھی بہت سے محققین علما اور پر کھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر رحمۃاللہ علیہ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں ں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ آخرت دار جزا ہے، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں۔ امام صحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا جواب بھی سن لیجئے، اس بارے جو حدیثیں ہیں، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں۔ جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہو جاتی ہیں۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت ودلیل کے قابل ہو گئیں اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے۔ یہ بے شک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہو گئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے۔ شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کم امتحان کو داخل کیا ہے۔ مزید بارں آیت قرآن یوم یکشف عن ساق اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق ومومن کی تمیز کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہو گا۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ مومن تو سجدہ کر لیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے۔ بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھر جائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا، جنت میں چلا جا۔ پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہو گیا ؟ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پید نہیں کر سکتا۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہو گا جو جہنم کی پیٹھ پر ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے۔ بعض مثل بجلی کے، بعض مثل ہوا کے، بعض مثل گھوڑوں کے بعض مثل اونٹوں کے، بعض مثل بھاگنے والوں کے، بعض مثل پیدل جانے والوں کے، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر، بعض کٹ کٹ کر، جہنم میں پڑیں گے۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے۔ اور سنئے حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہو گا۔ شارع علیہ السلام نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پیئیں وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے۔ پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آ کر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟ کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟ پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے۔ مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں، ان کی دلیل وہی معراج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے خصوص ہیں۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے۔ جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے۔ امام اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتاہم یہ اہل جنت کے خادم ہیں۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں کہ وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا بھی کہ باوجودبے عمل ہونے کے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے، اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔ “ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں۔ میں نےکہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنادوں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کم زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہم تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بے زار ہو جاتیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ والذین امنوا واتبعہم ذریتہم بایمان الحقنا بہم ذریتہم جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ایمان کے ساتھ کی۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا واللہ اعلم۔
ابو داؤد میں حدیث ہے زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں۔ ابو داؤد میں یہ سند حسن مروی ہے حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رشی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اپنے بھائی کو لئے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں، ہماری اس نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کر لے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کن بات یک طرفہ نہ کہنی چاہئے۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آب نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لئے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالاخر جنت میں ہی جائیں گے۔ جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں، واللہ اعلم۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلا اختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام احمد کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاء اللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں۔ اہل فقہ اور اہلحدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے۔ موطا امام مالک کی ابواب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الٰہی کے ماتحت ہیں۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی رحمۃاللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا ہے واللہ اعلم۔
اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بلایا گیا تو ماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ ؟ سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں۔ مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہو سکتا اور لوگ اپنی بے علمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں۔ اس لئے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی نا پسند رکھا ہے۔ ابن عباس، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ وغیرہ کا مذہب یہی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے (ابن حبان) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے۔ اور کتابوں میں یہ روایت حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے۔
اے قریشیوں ! ہوش سنبھالو میرے اس بزرگ رسول کی تکذیب کر کے بے خوف نہ ہو جاؤ تم اپنے سے پہلے نوح علیہ السلام کے بعد کے لوگوں کو دیکھو کہ رسولوں کی تکذیب نے ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نوح سے پہلے کے حضرت آدم علیہ السلام تک کے لوگ دین اسلام پر تھے۔ پس تم اے قریشیوں کچھ ان سے زیادہ سازو سامان اور گنتی اور طاقت والے نہیں ہو۔ اس کے باوجود کہ تم الشرف الرسل خاتم الانبیاء کو جھٹلا رہے ہو پس تم عذاب اور سزا کے زیادہ لائق ہو۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے کسی بندے کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں خیر و شر سب پر ظاہر ہے، کھلا چھپا سب وہ جانتا ہے ہر عمل کو خود دیکھ رہا ہے۔
کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الٰہی سے دور ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو، اللہ ورسول کو مانتا ہو، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا۔
یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں، یہ تیرے رب کی عطا ہے، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا، اس کے روکئے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ڈال نہیں سکتا۔ تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں، نہ کسی کے روکے رکیں، نہ کسی کے ہٹائے ہٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں۔ دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں، اچھے بھی ہیں، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی بوڑھا بڑا ہو کر، کوئی اس کے درمیان۔ آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے، بلند و بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہو گا۔ جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں۔ بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو۔ پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے، طبرانی میں ہے جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔
یہ خطاب ہر ایک مکلف سے ہے۔ آپ کی تمام امت کو حق تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو ذلیل ہو جاؤ گے اللہ کی مدد ہٹ جائے گی۔ جس کی عبادت کرو گے اسی کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں وہ واحد لا شریک ہے۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے بند کروانا چاہے اس کا فاقہ بند نہ ہو گا اور جو اللہ سے اس کی بابت دعا کرے اللہ اس کے پاس تونگری بھیج دے گا یا تو جلدی یا دیر سے۔ یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی میں ہے۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں۔
یہاں قضی معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الٰہی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے۔ ابی ابن کعب، ابن مسعود اور ضحاک بن مزاحم کی قرات میں قضی کے بدلے وصی ہے۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں۔ جیسے فرمان ہے ان اشکرلی ولوالدیک میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ۔ خصوصاً ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا، کوئی بری بات زبان سے نہ نکلنا یہاں تک کے ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو، اپنا ہاتھ ان کی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا، بلکہ ادب عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا، ان کی رضامندی کے کام کرنا، دکھ نہ دینا، ستانا نہیں، ان کے سامنے تواضع، عاجزی، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا۔ خصوصاً دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک واحسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا اے نبی اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کے پاس تیرا ذکر ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو۔ کہئے آمین چنانچہ میں نے کہا آمین کہی۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔ آمین کہئے چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بے نیاز ہو گیا اس کے لئے یقیناً جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہو گا۔ اس حدیث کی ایک سند میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم۔ ایک روایت میں ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے الخ۔ ایک روایت میں تین مرتبہ اس کے لئے یہ بد دعا ہے۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الٰہی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضامندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لئے خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بد دعا کرنا منقول ہے۔ ایک انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ میرے باں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک
(۴) ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو۔
یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے (ابوداؤد ابن ماجہ ) ایک شخص نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں جہاد کے ارادے سے آپ کی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے۔ دوبارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی دہرایا (نسائی ابن ماجہ وغیرہ) فرماتے ہیں اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تمہاری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا (ابن ماجہ مسند احمد ) فرماتے ہیں دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنے ماں سے سلوک کر اور اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ (مسند احمد) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے کہ ایک اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں۔ واللہ اعلم۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی با ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے، اس لیے اللہ ان پڑ رحمت کرتا ہے جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں۔ کہتے ہیں کہ اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب عشا کی درمیان نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں۔ اللہم اغفرلی ما اصبت فی مجلسی ہذا ابن دریر فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گں اہ سے توبہ کر لیا کریں۔ معصیت سے طاعت کی طرف آ جایا کریں۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کر کے اس کے اس کی رضامندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں اب فلان اور جیسے قران میں ہے ان الینا ایابہم ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے ائبون تائبون عابدون لربنا حامدون لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے۔
ماں باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو، اور حدیث میں ہے جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔ بزاز میں ہے اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ کو بلا کر فدک عطا فرمایا۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قبضے میں نہ تھا۔
٧ ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورہ برات میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چاہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے۔ جیسے اور آیت میں ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا الخ یعنی ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں۔ پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں۔ تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دے دے تو یہ تبدیر واسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے بنو تمیم کے ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بے جا خرچ نہ کر۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ ورسول کے نزدیک میں بری ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لئے جو اجر ثابت ہو گیا۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے۔ یہاں فرمان ہم کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا شکر اس کی اطاعت کا تارک اسی کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں، مسکینوں، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا انشاء اللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ۔
حکم ہو رہا ہے کہ اپنی زندگی میں میانہ روش رکھو نہ بخیل بنو نہ مسرف۔ ہاتھ گردن سے نہ باندھ لو یعنی بخیل نہ بنو کہ کسی کو نہ دو۔ یہودیوں نے بھی اسی محاورے کو استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنتیں نازل ہوں کہ یہ اللہ کو بخیلی کی طرف منسوب کرتے تھے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کریم و وہاب پاک اور بہت دور ہے۔ پس بخل سے منع کر کے پھرا سراف سے روکتا ہے کہ اتنا کھل نہ کھیلو کہ اپنی طاقت سے زیادہ دے ڈالو۔ پھر ان دونوں حکموں کا سبب بیان فرماتا ہے کہ بخیلی سے تو ملامتی بن جاؤ گے ہر ایک کی انگلی اٹھے گی کہ یہ بڑا بخیل ہے ہر ایک دور ہو جائے گا کہ یہ محض بے فیض آدمی ہے۔ جیسے زہیر نے اپنے معلقہ میں کہا ہے ومن کان ذا مال ویبخل بمالہ، علی قومہ یستغن عنہ ویذمم یعنی جو مالدار ہو کر بخیلی کرے لوگ اس سے بے نیاز ہو کر اس کی برائی کرتے ہیں۔ پس بخیلی کی وجہ سے انسان برا بن جاتا ہے اور لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے ہر ایک اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور جو حد سے زیادہ خرچ کر گزرتا ہے وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔ ضعیف اور عاجز ہو جاتا ہے جیسے کوئی جانور جو چلتے چلتے تھک جائے اور راستے میں اڑ جائے۔ لفظ حسیر سورہ تبارک میں بھی آیا ہے۔ پس یہ بطور لف و نشر کے ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے بخیل اور سخی کی مثال ان دو شخصوں جیسی ہے جن پر دو لوہے کے جبے ہوں، سینے سے گلے تک، سخی تو جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کی کڑیاں ڈھیلی ہوتی جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ کھلتے جاتے ہیں اور وہ جبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پوریوں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اثر کو مٹاتا ہے اور بخیل جب کبھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے جبے کی کڑیاں اور سمٹ جاتی ہیں وہ ہر چند اسے وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں گنجائش نہیں نکلتی۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ نے حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ کی راہ میں خرچ کرتی رہ جمع نہ رکھا کر، ورنہ اللہ بھی روک لے گا بند بھی روک لے گا بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا۔ ایک اور روایت میں ہے شمار کر ورنہ اللہ بھی روک لے گا بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا ایک اور روایت میں ہے شمار کر کے نہ رکھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گنتی نہ کر کے لے گا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تو اللہ کی راہ میں خرچ کیا کر، اللہ تعالیٰ تجھے دیتا رہے گا۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں ہر صبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ سخی کو بدلہ دے اور دوسصرا عدا کرتا ہے کہ بخیل کا مال تلف کر۔ مسلم شریف میں ہے صدقے خیرات سے کسی کا مال نہیں گھٹتا اور ہر سخاوت کرنے والے کو اللہ ذی عزت کر دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم کی وجہ سے دوسروں سے عاجزانہ برتاؤ کرے اللہ اسے بلند درجے کا کر دیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے طمع سے بچو اسی نے تم سے اگلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ طمع کا پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ بخیلی کرو انہوں نے بخیلی کی پھر اس نے انہیں صلہ رحمی توڑنے کو کہا انہوں نے یہ بھی کیا پھر فسق و فجور کا حکم دیا یہ اس پر بھی کار بند ہوئے۔ بیہقی میں ہے جب انسان خیرات کرتا ہے ستر شیطانوں کے جبڑے ٹوٹ جاتے ہیں۔ مسند کی حدیث میں ہے درمیانہ خرچ رکھنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا۔ پھڑ فرماتا ہے کہ رزق دینے والا، کشادگی کرنے والا، تنگی میں ڈالنے والا، اپنی مخلوق میں اپنی حسب منشا ہیر پھیر کرنے والا، جسے چاہے غنی اور جسے چاہے فقیر کرنے والا اللہ ہی ہے۔ ہر بات میں اس کی حکمت ہے، وہی اپنی حکمتوں کا علیم ہے، وہ خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ مستحق امارت کون ہے اور مستحق فقیری کون ہے ؟
حدیث قدسی میں ہے میرے بعض بندے وہ ہیں کہ فقیری ہی کے قابل ہیں اگر میں انہیں امیر بنا دوں تو ان کا دین تباہ ہو جائے اور میرے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو امیری کے لائق ہیں اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو ان کا دین بگڑ جائے۔ ہاں یہ یاد رہے کہ بعض لوگوں کے حق میں امیری اللہ کی طرف سے ڈھیل کے طور پر ہوتی ہے اور بعض کے لئے فقیری بطور عذاب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے بچائے۔
دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے۔ ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثے کے دو اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انہیں مار نہ ڈالا کرو۔ جاہلیت کے لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے بلکہ دختر کشی ان کی قوم کا ایک عام رواج تھا۔ قرآن اس نافرجام رواج کی تردید کرتا ہے کہ یہ خیال کس قدر بودا ہے کہ انہیں کھلائیں گے کہاں سے ؟ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سورہ انعام میں فرمایا ولاتقتلوا اولادکم من املاق فقیری اور تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو۔ تمہیں اور انہیں روزیاں دینے والے ہم ہیں۔ ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے۔ خطا کی دوسری قرات خطا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھیرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے۔ میں کہا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زنا کاری کرے۔
زنا کاری اور اس کے اردگرد کی تمام سیاہ کاریوں سے قرآن روک رہا ہے زنا کو شریعت نے کبیرہ اور بہت سخت گناہ بتایا ہے وہ بدترین طریقہ اور نہایت بری راہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ پر اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے۔ آپ نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتا اچھا اپنی بہن کے لئے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح سے انکار کیا آپ نے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لئے اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے اسی سختی سے انکار کیا۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الٰہی اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر، اسے عصمت والا بنا۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا۔ ابن ابی الدنیا میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے شرک کے بعد کوئی گناہ زنا کاری سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں۔
بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے۔ بخاری مسلم میں ہے جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو ے۔ سنن میں ہے ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کی قتل سے زیادہ آسان ہے۔ اگر کوئی شخص نا حق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا چاہے۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے حضرت معاویہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لئے کہ یہ بھی اموی تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اموی تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ذرا ڈھیل کر رہے تھے۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تا وقتیکہ آپ قاتلان عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کر دیا۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے حکمران بن کئے۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے، نہ ایسی علانیہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس وقت میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کر لیں، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے۔ ہوں گے تو نکال لئے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم معاویہ تم پر بادشاہ ہو جائیں گے، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے، جو مظلوم مار ڈالا جائے، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں۔
پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزر چاہئے الخ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاریٰ اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پالی اور والوں میں ہلاک ہو گئے۔ اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے۔ کان، ناک، کاٹے یا قتل کے سوا اور سے بدلہ لے۔ ولی مقتول شریعت، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے۔
یتیم کے مال میں بد ینتی سے ہیر پھیر نہ کرو، ان کے مال ان کی بلوغت سے پہلے صاف ڈالنے کے ناپاک ارادوں سے بچو۔ جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مالدار ہے تب تو اسے ان یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہئے اور اگر وہ فقیر محتاج ہے تو خیر بقدر معروف کھا لے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لئے وہی پسند فرماتا ہوں، جو خود اپنے لئے چاہتا ہوں۔ خبردار کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا۔ پھر فرماتا ہے وعدہ وفائی کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی۔ ناپ پیمانہ پورا پورا کر دیا لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو۔
قسطاس کی دوسری قرات قسطاس بھی ہے پھر حکم ہوتا ہے بغیر پاسنگ کی صحیح وزن بتانے والی سیدھی ترازو سے بغیر ڈنڈی مارے تولا کرو، دونوں جہان میں تم سب کے لئے یہی بہتری ہے دنیا میں بھی یہ تمہارے لین دین کی رونق ہے اور آخرت میں بھی یہ تمہارے چھٹکارے کی دلیل ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اے تاجرو تمہیں ان دو چیزوں کو سونپا گیا ہے جن کی وجہ سے تم سے پہلے کے لوگ برباد ہو گئے یعنی ناپ تول نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت رکھتے ہوئے صرف خوف اللہ سے اسے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں اسے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا۔
یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا، نہ بے سنے سننا بیان کرو، نہ بے علمی پر اپنا جاننا بیان کرو۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے۔ جیسے فرمان قرآن ہے اجتنبوا کثیرا من الظن الخ، کہ زیادہ گمان سے بچو، بعض گمان گناہ ہیں۔ حدیث میں ہے گمان سے بچو، گمان بدترین جھوٹی بات ہے۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑ لے اور صحیح حدیث میں ہے جو شخص ایسا خواب از خود گھڑ لے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا۔ قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے باز پرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی۔ یہاں تلک کی جگہ اولئک کا استعمال ہے، عرب میں استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی۔
اکڑ کر، اترا کر، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے پھر اسے نیچا دکھانے کے لئے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑی کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے۔ قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا۔ ہاں تواضع، نرمی، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں۔ امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں کہ ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھے ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قبا بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا، رخساروں پھولا، اپنے ڈنڑ بازو دیکھتا، اپنے تئیں تولتا، مستوں کے ذکرو شکر کو بھولا، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے، اللہ کے حق کو توڑا، دیوانوں کی چال چلتا، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے۔ الاہیم نے سن لایا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ولا تمش فی الارض مرحا الخ۔ عابد بختری رحمۃ اللہ علیہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑ تے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں۔
حضرت خالد بن معدان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگو اکڑ اکڑ کر چلنا چھوڑ و اس لئے کہ انسان۔ (اصل عربی میں کچھ عبارت غائب ہے ) اس کا ہاتھ اس کے باقی جسم سے (ابن ابی الدنیا) ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے کہ جب میری امت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا۔ سیۂ کی دوسری قرات سیئتہ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام۔ اور سیۂ کی قرات پر مطلب یہ ہے کہ وقضی ربک سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے۔
یہ احکام ہم نے دئیے ہیں۔ سب بہترین اوصاف ہیں اور جن باتوں سے ہم نے روکا ہے وہ بڑی ذلیل خصلتیں ہیں ہم یہ سب باتیں تیری طرف بذریعہ وحی کے نازل فرما رہے ہیں کہ تو لوگوں کو حکم دے اور منع کرے۔ دیکھ میرے ساتھ کسی کو معبود نہ ٹھیرانا ورنہ وہ وقت آئے گا کہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے گا اور اللہ کی طرف سے بھی ملامت ہو گی بلکہ تمام اور مخلوق کی طرف سے بھی۔ اور تو ہر بھلائی سے دور کر دیا جائے گا۔ اس آیت میں بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کی امت سے خطاب ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو معصوم ہیں۔
ملعون مشرکوں کی تردید ہو رہی ہے کہ یہ تم نے خوب تقسیم کی ہے کہ بیٹے تمہارے اور بیٹیاں اللہ کی۔ جو تمہیں ناپسند جن سے تم جلو کڑھو۔ بلکہ زندہ درگور کر دو انہیں اللہ کے لئے ثابت کرو۔ اور آیتوں میں بھی ان کا یہ کمینہ پن بیان ہوا ہے کہ یہ کہتے ہیں رب رحمان کی اولاد ہم حقیقتاً انکا یہ قول نہایت ہی برا ہے بہت ممکن ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائے، زمین شق ہو جائے، پہاڑ چورا چورا ہو جائیں کہ یہ اللہ رحمان کی اولاد ٹھہرا رہے ہیں حالانکہ اللہ کو یہ کسی طرح لائق ہی نہیں۔ زمین و آسمان کی کل مخلوق اس کی غلام ہے۔ سب اس کے شمار میں ہیں اور گنتی میں اور ایک ایک اس کے سامنے قیامت کے دن تنہا پیش ہونے والا ہے۔
اس پاک کتاب میں ہم نے تمام مثالیں کھول کھول کر بیان فرما دی ہیں۔ وعدے وعید صاف طور پر مذکور ہیں تاکہ لوگ برائیوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں۔ لیکن تاہم ظالم لوگ تو حق سے نفرت رکھتے اور اس سے دور بھاگنے میں ہی بڑھ رہے ہیں۔
جو مشرک اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور انہیں شریک الٰہی مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے ہم قرب الٰہی حاصل کر سکتے ہیں ان سے کہو کہ اگر تمہارا یہ گمان فاسد کچھ بھی جان رکھتا ہوتا اور اللہ کے ساتھ واقعی کوئی ایسے معبود ہوتے کہ وہ جسے چاہیں قرب الٰہی دلوا دیں اور جس کی جو چاہیں سفارش کر دیں تو خود وہ معبود ہی اس کی عبادت کرتے اس کا قرب ڈھونڈتے پس تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے، نہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت، نہ دوسرے معبود کی کوئی ضرورت کہ اللہ میں اور تم میں وہ واسطہ بنے۔ اللہ کو یہ واسطے سخت نا پسند اور مکروہ معلوم ہوتے ہیں اور ان سے وہ انکار کرتا ہے اپنے تمام نبیوں رسولوں کی زبان سے اس سے منع فرماتا ہے۔ اس کی ذات ظالموں کے بیان کردہ اس وصف سے بالکل پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ان آلودگیوں سے ہمارا مولا پاک ہے، وہ احمد اور صمد ہے، وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے، اس کی جنس کا کوئی نہیں۔
ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت، تسبیح، تنزیہ، تعظیم، جلالت، بزرگی، بڑائی، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لئے مانتے ہیں، ان سے یہ تمام مخلوق برات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے، زمین دھنس جائے، پہاڑ ٹوٹ جائیں۔ طبرانی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصی تک شب معراج میں لے گئے، جبرئیل آب کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ سبحت السموات العلی من ذی المہابۃ مشفقات الذوی العلو بما علا سبحان العلی سبحانہ و تعالیٰ مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کر رتی ہے۔ لیکن اے لوگوں تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تمہاری زبان میں نہیں۔ حیوانات، نباتات، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے۔ ابوذر والی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں بھی۔ یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے۔ کچھ لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں اپنی سواریوں کو نہ بنا لیا کرو۔ سنو بہت سے سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر افضل ہوتی ہیں۔ (مسند احمد)
سنن نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الٰہی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے۔ الحمد للہ کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا نا شکرا ہے۔ اللہ اکبر زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے، سبحان اللہ کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا۔ جب کوئی لا حول والا قوۃ الا باللہ پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بند مطیع ہوا اور مجھے سونپا۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے۔ آپ کو غصہ آگیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانوروں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا ؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم واپس چلے گئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں دوسرے تکبر سے روکتا ہوں اور پہلے حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ لا الہ الا اللہ کہتے رہو اس لئے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان میں کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا سوا گر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے، دوسرا حکم میرا سبحان اللہ وبحمدہ پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ حضرت نوح علیہ اسلام نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے اس کی اسناد بوجہ اودی راوی کے ضعیف ہے۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ستون، درخت، دروازوں کی چولیں، ان کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز، پانی کی کھڑکھڑاہٹ یہ سب تسبیح الٰہی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورہ حج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر دی روح چیز تسبیح خواں ہے۔، جیسے حیوانات اور نباتات۔
ایک مرتبہ حضرت حسن رحمۃ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابو یزید قاشی نے کہا کہ اے ابو سعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان کے عذاب میں تخفیف رہے (بخاری و مسلم ) اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہو جائیں گی تسبیح بند ہو جائے گی واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا، تاخیر کرتا ہے، ڈھیل دیتا ہے، پھر بھی اگر کفرو فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کر دیتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ کو مہلت دیتا ہے، پھر جب مواخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا۔ دیکھو قرآن میں ہے کہ جب تیرا رب کسی بستی کے لوگوں کو ان کے مظالم پر پکڑتا ہے تو پھر ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے الخ اور آیت میں ہے کہ بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر آخرش پکڑ لیا۔ اور آیت میں ہے کاین من قریۃ ہلکنا ہا وہی ظالمۃ الخ ہاں جو گناہوں سے رک جائے، ان سے ہٹ جائے، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے۔ جیسے آیت قرآن میں ہے جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظالم کرے ؟ پھر استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔ سورہ فاطر کے آخر کی آیتوں میں یہی بیان ہے۔
فرماتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت ان کے دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں، کوئی اثر ان کے دلوں تک نہیں پہنچتا۔ وہ حجاب انہیں چھپا لیتا ہے۔ یہاں مستور ساتر کے معنی میں ہے جیسے میمون اور مشوم معنی میں یا من اور شائم کے ہیں۔ وہ پردے گو بہ ظاہر نظر نہ آئیں لیکن ہدایت میں اور ان میں وہ حد فاصل ہو جاتے ہیں۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ سورہ تبت یدا کے اترنے پر عورت ام جمیل شور مچاتی دھاری دار پتھر ہاتھ میں لئے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس مذمم کو ہم ماننے والے نہیں ہمیں اس کا دین ناپسند ہے، ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں۔ اس وقت رسول الکریم صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تھے، کہنے لگے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ آ رہی ہے اور آپ کو دیکھ لے گی۔ آپ نے فرمایا بے فکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ نے اس سے بچنے کے لئے تلاوت قرآن شروع کر دی۔ یہی آیت تلاوت فرمائی وہ آئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے میری ہجو کی ہے، آپ نے فرمایا، نہیں، رب کعبہ کی قسم تیری ہجو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں کی، وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں۔ اکنہ کنان کی جمع ہے اس پردے نے ان کے دلوں کو ڈھک رکھا ہے جس سے یہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے، جس سے وہ قرآن اس طرح سن نہیں سکتے کہ انہیں فائدہ پہنچے اور جب تو قرآن میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر پڑھتا ہم تو یہ بے طرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ نفور جمع ہے نافر کی جیسے قاعد کی جمع عقود آتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مصدر بغیر فعل ہو واللہ اعلم۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اللہ واحد کے ذکر سے بے ایمانوں کے دل اچاٹ ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا لا الہ الا اللہ کا مشرکوں پر بہت گراں گزرتا تھا ابلیس اور اس کا لشکر اس سے بہت چڑتا تھا۔ اس کے دبانے کی پوری کوشش کرتا تھا لیکن اللہ کا ارادہ ان کے برخلاف اسے بلند کرنے اور عزت دینے اور پھیلانے کا تھا۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ اس کا قائل فلاح پاتا ہے اس کا عامل مدد دیا جاتا ہے دیکھ لو اس جزیرے کے حالات تمہارے سامنے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک یہ پاک کلمہ پھیل گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شیطانوں کا بھاگنا ہے گو بات یہ ٹھیک ہے۔ اللہ کے ذکر سے، اذان سے، تلاوت قرآن سے، شیطان بھاگتا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر کرنا غرابت سے خالی نہیں۔
سراداران کفر جو آپس میں باتیں بناتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچائی جا رہی ہیں کہ آپ تو تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں یہ چپکے چپکے کہا کرتے ہیں کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ یہ تو ایک انسان ہے جو کھانے پینے کا محتاج ہے۔ گو یہ لفظ اسی معنی میں شعر میں بھی ہے اور امام ابن جریر نے اسی کو ٹھیک بھی بتلایا ہے لیکن یہ غور طلب ہے۔ ان کا ارادہ اس موقع پر اس کہنے سے یہ تھا کہ خود یہ جادو میں مبتلا ہے کوئی ہے جو اسے اس موقع پر کچھ پڑھا جاتا۔ کافر لوگ طرح طرح کے وہم آپ کی نسبت طاہر کرتے تھے کوئی کہتا آپ شاعر ہیں، کوئی کہتا کاہن ہیں، کوئی مجنوں بتلاتا، کوئی جادوگر وغیرہ۔ اس لئے فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کیسے بہک رہے ہیں کہ حق کی جانب آ ہی نہیں سکتے۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ ابو سفیان بن حرب، ابوجہل بن ہشام، اخنس بن شریق رات کے وقت اپنے اپنے گھروں سے کلام اللہ شریف حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سننے کے لئے نکلے آپ اپنے گھر میں رات کو نماز پڑھ رہے تھے۔ یہ لوگ آ کر چاپ چپ چھپ کر ادھر ادھر بیٹھ گئے ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی، رات کوسنتے رہے فجر ہوتے وقت یہاں سے چلے، اتفاقا راستم میں سب کی آپس میں ملاقات ہو گئی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے اور کہنے لگے اب سے یہ حرکت نہ کرنا ورنہ اور لوگ تو بالکل اسی کے ہو جائیں گے۔ لیکن رات کو پھر یہ تینوں آ گئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر قرآن سننے میں رات گزرای۔ صبح واپس چلے راستے میں مل گئے، پھر سے کل کی باتیں دہرائیں اور آج پختہ ارادہ کیا کہ اب سے ایسا کام ہرگز کوئی نہ کرے گا۔ تیسری رات پھر یہی ہوا اب کے انہوں نے کہا آؤ عہد کر لیں کہ اب نہیں آئیں گے چنانچہ قول قرار کر کے جدا ہوئے صبح کو اخنس اپنی لاٹھی سنبھالے ابو سفیان کے گھر پہچا اور کہنے لگا ابو حنظلہ مجھے بتاؤ تمہاری اپنی رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ جو آیتیں قرآن کی میں نے سنی ہیں، ان میں سے بہت سی آیتوں کا تو مطلب میں جان گیا، لیکن بہت سی آیتوں کی مراد مجھے معلوم نہیں ہوئی۔ اخنس نے کہا واللہ میرا بھی یہی حال ہے۔ یہاں سے ہو کر اخنس ابوجہل کے پاس پہنچا۔ اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سنئے۔ شرافت وسرداری کے بارے میں ہمارا بنو عبد مناف سے مدت کا جھگڑا چلا آتا ہے انہوں نے کھلایا تو ہم نے بھی کھلانا شروع کر دیا، انہوں نے سواریاں دیں تو ہم نے بھی انہیں سواریوں کے جانور دئے۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ سلوک کئے اور ان انعامات میں ہم نے بھی ان سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا۔ اب جب کہ تمام باتوں میں وہ اور ہم برابر رہے اس دوڑ میں جب وہ بازی لے جا نہ سکے تو جھٹ سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم میں نبوت ہے، ہم میں ایک شخص ہے، جس کے پاس آسمانی وحی آتی ہے، اب بتاؤ اس کو ہم کیسے مان لیں ؟ واللہ نہ اس پر ہم ایمان لائیں گے نہ کبھی اسے سچا کہیں گے اسی وقت اخنس اسے چھوڑ کر چل دیا۔
کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے، غبار بن جائیں گے، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے ؟ سورہ نازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے کہ کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں کے ؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑگئی ہوں ؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے۔
سورہ یاسین میں ہے کہ یہ ہمارے سامثالیں بیان کرنے بیٹھ گیا اور اپنی پیدائش کو فراموش کر گیا۔ الخ پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہا بن جاؤ۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلاً پہاڑ یا زمین یا آیمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں جو چاہو ہو جاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور۔ حدیث میں ہے کہ بھیڑ یے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے ہاں پھر اسے وہیں ذبح کر دیا جائے گا اور منادی ہو جائے گی کہ اے جنتیواب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیواب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں یا پتھر اور لوہا ہو جائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہو جائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے ؟ ان کے اس سوال اور بے جا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے۔ پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے ؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ۔ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے،، بدعقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سرہلاتے ہوئے کہیں گے کہ اچھا یہ ہو گا کب ؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کر دو۔ بے ایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں۔ ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی، تم اس کے لئے انتظار کر لو، غلفت نہ برتو۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو۔ اللہ کی ایک آوازکے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہوؤ گے ایک آنکھ جھپکانے کی جیر بھی تو نہ لگے گی۔ اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہو جائے گا۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہو جاؤ گے۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو۔ حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر ان کی والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہو گی۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے لا الہ الا للہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔ سورہ فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاء اللہ۔
اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام کوئی کہے گا دس دن کوئی کہے گا ایک دن کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی۔ سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی۔ اور اس پر قسمیں کھائیں گے۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ آپ مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ اچھے الفاظ، بہتر فقروں اور تہذیب سے کلام کرتے رہیں، ورنہ شیطان ان کے آپس میں سرپھٹول اور برائی ڈلوا دے گا، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے۔ وہ انسان کا دشمن ہے گھات میں لگا رہتا ہے، اسی لئے حدیث میں مسلمان بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی حرام ہے کہ کہیں شیطان اسے لگا نہ دے اور یہ جہنمی نہ بن جائے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے ایک مجمع میں یہ فرمایا کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کوئی کسی پر ظلم وستم نہ کرے کوئی کسی کو بے عزت نہ کرے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقوی یہاں ہے جو دو شخص آپس میں دینی دوست ہوں پھر ان میں جدائی ہو جائے اسے ان میں سے جو بیان کرے وہ بیان کرنے والا برا ہے وہ بدتر ہے وہ نہایت شریر ہے (مسند)
تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے۔ اسی طرح جسے چاہے بد اعمالی پر پکڑلیتا ہے اور سزا دیتا ہے۔ ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں کے۔ زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے، ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے، ایک کو ایک پر فضیلت ہے، نبیوں میں بھی درجے ہیں، کوئی کلیم اللہ ہے، کوئی بلند درجہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو، اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن وحدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار۔ جو فضیلت جس نبی کی ازروئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ احزاب کی آیت میں ہے یعنی محمد، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ صلوۃ اللہ علیہم اجمعین۔ سورہ شوریٰ کی آیت شرع لکم الخ میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں۔ جس طرح یہ سب چیزیں ساری امت مانتی ہے، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں واللہ الموفق۔
پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے۔
اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے کہئے کہ تم انہیں خوب پکار کر دیکھ لو کہ آیا وہ تمھارے کچھ کام آ سکتے ہیں ؟ نہ ان کے بس کی یہ بات ہے کہ مشکل کشائی کر دیں نہ یہ بات کہ اسے کسی اور پر ٹال دیں وہ محض بے بس ہیں، قادر اور طاقت والا صرف اللہ واحد ہی ہے۔ مخلوق کا خالق اور سب کا حکمران وہی ہے۔ یہ مشرک کہا کرتے تھے کہ ہم فرشتوں، مسیح اور عزیر کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے معبود تو خود اللہ کی نزدیکی کی جستجو میں ہیں۔ صحیح بخاری میں کہ جن جنات کی یہ مشرکین پرستش کرتے تھے وہ خود مسلمان ہو گئے تھے لیکن یہ اب تک اپنے کفر پر جمے ہوئے ہیں، اس لئے انہیں خبردار کیا گیا کہ تمہارے معبود خود اللہ کی طرف جھک گئے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ جن فرشتوں کی ایک قسم سے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام، حضرت عزیر علیہ السلام، سورج چاند، فرشتے سب قرب الٰہی کی تلاش میں ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک مطلب یہ ہے کہ جن جنوں کو یہ پوجتے تھے آیت میں وہی مراد ہیں کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام وغیرہ کا زمانہ تو گزر چکا تھا اور فرشتے پہلے ہی سے عابد الٰہی تھے تو مراد یہاں بھی جنات ہیں۔
وسیلہ کے معنی قربت و نزدیکی کے ہیں جیسے کہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ یہ سب بزرگ اسی دھن میں ہیں کہ کون اللہ سے زیادہ نزدیکی حاصل کر لے ؟ وہ اللہ کی رحمت کے خواہاں اور اس کے عذاب سے ترساں ہیں۔ حقیقت میں بغیر ان دونوں باتوں کے عبادت نا مکمل ہے۔ خوف گناہوں سے روکتا ہے اور امید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے درحقیقت اس کے عذاب ڈرنے کے لائق ہیں۔ اللہ ہمیں بچائے۔
وہ نوشتہ جو لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے وہ حکم جو جاری کر دیا گیا ہے اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ گنہگاروں کی بستیاں یقیناً ویران کر دی جائیں گی یا ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہی کے قریب ہو جائیں گی اس میں ہماری جانب سے کوئی ظلم نہ ہو گا بلکہ انکے اپنے کرتوت کا خمیازہ ہو گا، رب کی آیتوں اور اسکے رسولوں سے سرکشی کرنے کا پھل ہو گا۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے کافروں نے آپ سے کہا کہ حضرت آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی، بعض مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے، وغیرہ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیجئے، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے۔ آپ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی، فی الفور عذاب آ جائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا کروں۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاک کہ ہم یہاں کھیتی باڑی کر سکیں۔ الخ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے دعا مانگی، جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہو گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ آیت وانذر عشیر تک الخ جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لئے جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں۔ قریش یہ آواز سنتے ہی جمع ہو گئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں۔ سلیمان نبی علیہ السلام کے تابع ہوا تھی، موسیٰ نبی علیہ السلام کے تابع دریا ہو گیا تھا، عیسیٰ نبی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہو گئی اس کے خاتمے پر آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہو جانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الٰہی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہو جاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہو جائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا۔ کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پریہ آیتیں اتریں۔ اور آیت ولو ان قرانا سیرت الخ، نازل ہوئی یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے جو تیری قوم چاہتی ہے، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ہے کہ میں تم پر دستر خوان اتار رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو کفر کرے گا اسے ایسی سزا دی جائے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو۔ ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں اسے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا۔ حضرت صالح علیہ السلام کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانےبلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، رسول کو جھٹلاتے رہے، جس پر انہیں تین دن کی
مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانی کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا، اس کا پانی بند کیا بالاخر اسے قتل کر دیا، جس کی پاداش میں اول سے لے کر آخر تک سب مار ڈالے گئے اور اللہ غالب کی پکڑ میں آ گئے، آیتیں صرف دھمکانے کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کر لیں۔ مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو، تمہیں فورا اس کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں کروں گا۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان میں کسی کی موت و حیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو۔ اے امت محمد واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زنا کاری کریں۔ اے امت محمد واللہ جو میں جانتا ہوں، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے زیادہ روتے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول علیہ السلام کو تبلیغ دین کری رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں، وہ سب پر غالب ہے، سب اس کے ماتحت ہیں، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا۔ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ بہت سے تابعین اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہو چکی ہیں۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہو گئے اور حق سے پھر گئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہو گئے۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہو گئے۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دوزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے نیاسے سچ نہ مانا اور ابوجہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کھجور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خوب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کم بارے میں مانتے ہیں۔ جیسے ابن عباس مسروق، ابو مالک، حسن بصری وغیرہ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ (ابن جریر) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں۔ خود امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدقول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃالزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد، تکبر، ہٹ دھرمی اور بے ایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں۔
ابلیس کی قدیمی عداوت سے انسان کو اگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ باپ حضرت آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمہاری دشمن ہے، سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے تو سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر جتایا، اسے حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ مرا سر کسی مٹی سے بنے ہوئے کے سامنے جھکے، میں اس سے کہیں افضل ہوں، میں آگ ہوں یہ خاک ہے۔ پھر اس کی ڈھٹائی دیکھیے کہ اللہ جل وعلی کے دربار میں گستاخانہ لہجے سے کہتا ہے کہ اچھا اسے اگر تو نے مجھ پر فضیلت دی تو کیا ہوا میں بھی اس گی اولاد کو برباد کر کے ہی چھوڑوں گا، سب کو اپنا تابعدار بنا لوں گا اور بہکا دوں گا، بس تھوڑے سے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے باقی سب کو غارت کر دوں گا۔
ابلیس نے اللہ سے مہلت چاہی، اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لی اور ارشاد ہوا کہ وقت معلوم تک مہلت ہے، تیری اور تیرے تابعداروں کی برائیوں کے بدلہ جہنم ہے، جو پوری سزا ہے۔ اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے یعنی گانے اور تماشوں سے انہیں بہکاتا پھر۔ جو بھی اللہ کی نافرمانی کی طرف بلانے والی صدا ہو وہ شیطانی آواز ہے۔ اسی طرح تو اپنے پیادے اور سوار لگ کر جس پر تجھ سے حملہ ہو سکے۔ حملہ کر لے۔ رجل جمع ہے راجل کی جیسے رکب جمع راکب کی اور صحب جمع ہے صاحب کی۔ مطلب یہ ہے کہ جس قدر تجھ سے ہو سک ان پر اپنا تسلط اور اقتدار جما۔ یہ امر قدری ہے نہ کہ حکم۔ شیطانوں کی یہی خصلت ہے کہ وہ بندگان رب کو بھڑکاتے اور بہکاتے رہتے ہیں۔ انہیں گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ کی معصیت میں جو سواری پر ہو اور پیدل ہو، وہ شیطانی لشکر میں ہے، ایسے جن بھی ہیں اور انسان بھی ہیں، جو اس کے مطیع ہیں۔ جب کسی پر آوازیں اٹھائی جائیں تو عرب کہتے ہیں اجلب فلان علی فلان آپ کا یہ فرمان کہ گھوڑ دوڑ میں جلب نہیں، وہ بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ جبلہ کا اشتقاق بھی اسی سے ہے یعنی آوازوں کا بلند ہونا۔ ان کے مال اور اولاد میں بھی تو شریک رہ۔ یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں ان کا مال خرچ کرا، سود خواری ان سے کرا۔ برائی سے مال جمع کریں اور حرام کاریوں میں خرچ کریں۔ حال جانوروں کو اپنی خواہش سے حرام قرار دیں وغیرہ۔ اولاد میں شرکت یہ ہے مثلاً زنا کاری جس سے اولاد ہو۔ جو اولاد بچپن میں بوجہ بے وقوفی ان کے ماں باپ نے زندہ درگور کر دی ہو یا مار ڈالی ہو یا اسے یہودیہ نصرانی مجوسی وغیرہ بنا دیا ہو۔ اولادوں کے نام عبد الحارث، عبد الشمس اور فلاں رکھا ہو۔ غرض کسی صورت میں بھی شیطان کو اس میں داخل کیا ہو، یا اس کو ساتھ کیا ہو، یہی شیطان کی شرکت ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو ایک طرف موحد پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور حلال چیزیں حرام کر دیں۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے یہ پڑھ لے اللہم جنبا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقنا یعنی یا اللہ تو ہمیں شیطان سے بچا اور اسے بھی جو تو ہمیں عطا فرمائے۔ تو اگر اس میں کوئی بچہ اللہ کی طرف سے ٹھیر جائے گا تو اسے ہرگز ہرگز کبھی بھی شیطان کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ پھر فرماتا ہے کہ جا تو انہیں دھوکے کے جھوٹے وعدے دیا کر، چنانچہ قیامت کے دن یہ خود کہے گا کہ اللہ کے وعدے تو سب سچے تھے اور میرے وعدے سب غلط تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ میرے مومن بندے میری حفاظت میں ہیں، میں انہیں شیطان رجیم سے بچاتا رہوں گا۔ اللہ کی وکالت اس کی حفاظت اس کی نصرت اس کی تائید بندوں کو کافی ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ مومن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پا لیتا ہے جیسے وہ شخص جو کسی جانور کو لگام چڑھائے ہوئے ہو۔
اللہ تعالیٰ اپنا احسان بناتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی آسانی اور سہولت کے لئے اور ان کی تجارت وسفر کے لئے دریاؤں میں کشتیاں چلا دی ہیں، اس کے فضل و کرم لطف و رحم کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ تم دور دراز ملکوں میں جا آ سکتے ہو اور خاص فضل یعنی اپنی روزیاں حاصل کر سکتے ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ بندے مصیبت کے وقت تو خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دلی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں وہ مصیبت اللہ تعالیٰ نے ٹال دی تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ فتح مکہ کے وقت جب کہ ابوجہل کا لڑکا عکرمہ حبشہ جانے کے ارادے سے بھاگا اور کشتی میں بیٹھ کر چلا اتفاقا کشتی طوفان میں پھنس گئی، باد مخالف کے جھونکے اسے پتے کی طرح ہلانے لگے، اس وقت کشتی میں جتنے کفار تھے، سب ایک دوسرے سے کہنے لگے اس وقت سواۓ اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے کا۔ اسی کو پکارو۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تیری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہ کام آ سکتا ہے۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہی کام آ سکتا ہے۔ اے اللہ میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقیناً وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے (صلی اللہ علیہ و سلم ) چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاصر ہوئے اور اسلام قبول کیا پھر تو اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ پس فرماتا ہے کہ سمندر کی اس مصیبت کے وقت تو اللہ کے سواسب کو بھول جاتے ہو لیکن جاتے ہو لیکن پھر اس کے ہٹتے ہی اللہ کی توحید ہٹا دیتے ہو اور دوسروں سے التجائیں کرنے لگتے ہو۔ انسان ہے ہی ایساناشکرا کہ نعمتوں کو بھلا بیٹھتا ہے بلکہ منکر ہو جاتا ہے ہاں جسے اللہ بچا لے اور توفیق خیر دے۔
رب العالمین لوگوں کو ڈرا رہا ہے کہ جو تری میں تمہیں ڈبو سکتا تھا، وہ خشکی میں دھنسانے کی قدرت بھی رکھتا ہے پھر وہاں تو صرف اسی کو پکارنا اور یہاں اس کے ساتھ اوروں کو شریک کرنا یہ کس قدر نا انصافی ہے ؟ وہ تو تم پر پتھروں کی بارش بھی رسا کر ہلاک کر سکتا ہے جیسے لوطیوں پر ہوئی تھے۔ جس کا بیان خود قرآن میں کئی جگہ ہے۔ سورہ تبارک میں فرمایا کہ کیا تمہیں اس اللہ کا ڈر نہیں جو آسمانوں میں ہے کہ کہیں وہ تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے کہ یکایک زمین جنبش کرنے لگے۔ کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ کا خوف نہیں کہ کہیں وہ تم پر پتھر نہ برسا دے پھر جان لو کہ ڈرانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہاس وقت تم نہ اپنا مددگار پاؤ گے، نہ دستگیر، نہ وکیل نہ کار ساز، نہ نگہبان، نہ پاسبان۔
ارشاد ہو رہا ہے کہ اے منکرو سمندر میں تم میری توحید کے قائل ہوئے باہر آ کر پھر انکار کر گئے تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ پھر تم دوبارہ دریائی سفر کرو اور باد تند کے تھپیڑے تمہاری کشتی کو ڈگمگا دیں اور آخر ڈبو دیں اور تمہیں تمہارے کفر کا مزہ آ جائے پھر تو کوئی مددگار کھڑا نہ ہو نہ کوئی ایسا مل سکے کہ ہم سے تمہارا بدلہ لے۔ ہمارا پیچھا کوئی نہیں کر سکتا، کس کی مجال کہ ہمارے فعل پر انگلی اٹھائے۔
سب سے اچھی پیدائش اناسن کی ہے جیسے فرمان ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ہم نے انسان کو بہترین مسافت پر پیدا کیا ہے۔ وہ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہو کر صحیح چال چلتا ہے، اپنے ہاتھوں سے تمیز کے ساتھ اپنی غذا کھاتا ہے اور حیوانات ہاتھ پاؤں سے چلتے ہیں منہ سے چارہ چگتے ہیں۔ پھر اسے سمجھ بوجھ دی ہے جس سے نفع نقصان بھلائی بارئی سوچتا ہے۔ دینی دنیوی فائدہ معلوم کر لیتا ہے۔ اس کی سواری کے لئے خشکی میں جانور چوپائے گھوڑے خچر اونٹ وغیرہ۔ اور تری کے سفر کے لئے اسے کشتیاں بنانی سکھا دیں۔ اسے بہترین، خوشگوار اور خوش ذائقہ کھانے پینے کی چیزیں دیں۔ کھیتیاں ہیں، پھل ہیں، گوشت ہیں، دودھ ہیں اور بہترین بہت سی ذائقے دار لذیذ مزیدار چیزیں۔ پھر عمدہ مکانات رہنے کو، اچھے خوشنما لباس پہننے کو، قسم قسم کے، رنگ برنگ کے، یہاں کی چیزیں یہاں لے جانے لے آنے کے اسباب اس کے لئے مہیا کر دئے اور مخلوق میں سے عموماً ہر ایک پر اسے برتری بخشی۔ اس آیہ کریمہ سے امر پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں کہ فرشتوں نے کہا اے اللہ تو نے اولاد آدم کو دنیا دے رکھی ہے کہ وہ کھاتے پیتے ہیں اور موج مزے کر رہے ہیں تو تو اس کے بدلے ہمیں آخرت میں ہی عطا فرما کیونکہ ہم اس دنیا سے محروم ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اس کی نیک اولاد کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اس کے برابر میں ہرگز نہ کروں گا جسے میں نے کلمہ کن سے پیدا کیا ہے۔ یہ روایت مرسل ہے۔ لیکن اور سند سے متصل بھی مروی ہے ابن عسا کر میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمیں بھی تو نے پیدا کیا اور بنو آدم کا خالق بھی تو ہی ہے انہیں تو کھانا پینا دے رہا، کپڑے لتے وہ پہنتے ہیں، نکاح شادیاں وہ کرتے ہیں، سورایاں ان کے لے ہیں، راحت و آرام انہیں حاصل ہے، ان میں سے کسی چیز کے حصے دار ہم نہیں۔ خیر یہ اگر دنیا میں ان کے لئے ہے تو یہ چیزیں آخرت میں تو ہمارے لئے کر دے۔ اس کے جواب میں جناب باری تعالیٰ نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اپنی روح جس میں میں نے پھونکی ہے اس میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہہ دیا کہ ہو جاؤ وہ ہو گیا۔ طبرانی میں ہے قیامت کے دن ابن آدم سے زیادہ بزرگ اللہ کے ہاں کوئی نہ ہو گا۔ پوچھا گیا کہ فرشتے بھی نہیں ؟ فرمایا فرشتے بھی نہیں وہ تو مجبور ہیں جیسے سورج چاند۔ یہ روایت بہت ہی غریب ہے۔
امام سے مراد یہاں نبی ہیں ہر امت قیامت کے دن اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائے گی جیسے اس آیت میں ہے ولکل امتہ رسول فاذاجاء رسولہم قضی بینہم بالقسط الخ ہر امت کا رسول ہے، پھر جب ان کے رسول آئیں گے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ حساب کیا جائے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ اس میں اہل حدیث کی بہت بڑی بزرگی ہے، اس لئے کا ان کے امام آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ ابن زید کہتے ہیں مراد یہاں امام سے کتاب اللہ ہے جو ان کی شریعت کے بارے میں اتری تھی۔ ابن جریر اس تفسیر کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اسی کو مختار کہتے ہیں۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں مراد اس سے ان کی کتابیں ہیں۔ ممکن ہے کتاب سے مراد یا تو احکام کی کتاب اللہ ہو یا نامہ اعمال۔
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے مراد عمل نامہ لیتے ہیں۔ ابو العالیہ، حسن، ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ترجیع والا قول ہے جیسے فرمان الٰہی ہے وکل شئی احصیناہ فی امام مبین ہر چیز کا ہم نے ظاہر کتاب میں احاطہ کر لیا ہے۔ اور آیت میں ہے و وضع الکتاب الخ کتاب یعنی نامہ اعمال درمیان میں رکھ دیا جائے گا اس وقت تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے۔ الخ اور آیت میں ہے ہر امت کو تو گھٹنوں کے بل گری ہوئی دیکھے گا۔ ہر امت اپنے نامہ اعمال کی جانب بلائی جا رہی ہو گی، آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ یہ ہے ہماری کتاب جو تم پر حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گی جو کچھ تم کرتے رہے ہم برابر لکھتے رہتے تھے۔ یہ یاد رہے کہ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ایک طرف نامہ اعمال ہاتھ میں ہو گا دوسری جانب خود نبی سامنے موجود ہو گا۔ جیسے فرمان ہے واشرقت الارض بنورربہا و وضع الکتاب وجی بالنبیین والشہداء زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو موجود کر دیا جائے گا اور آیت میں ہے فکیف اذا جئنا من کل امتہ بشہیدوجئنا بک علی ہولاء شہیدا یعنی کیا کیفیت ہو گی اس وقت جب کہ ہر امت کا ہم گواہ لائیں گے اور تجھے اس تیری امت پر گواہ کر کے لائیں گے۔ لیکن مراد یہاں امام سے نامہ اعمال ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جن کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو اپنی نیکیاں فرحت وسرور، خوشی اور راحت یے پڑھنے لگیں گے بلکہ دوسروں کو دکھاتے اور پڑھواتے پھریں گے۔ اسی کا مزید بیان سورہ الحاقہ میں ہے۔ فتیل سے مراد لمبا دھاگہ ہم جو کھجور کی گٹھلی کے بیچ میں ہوتا ہے۔ بزار میں ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بلوا کر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس کا جسم بڑھ جائے گا، چہرہ چمکنے لگے گا، سریر چمکتے ہوئے ہیروں کا تاج رکھ دیا جائے گا، یہ اپنے گروہ کی طرف بڑھے گا اسے اس حال میں آتا دیکھ کر وہ سب آرزو کرنے لگیں گے، کہ اے اللہ ہمیں بھی یہ عطا فرما اور ہمیں اس میں برکت دے وہ آتے ہی کہے گا کہ خوش ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک کو یہی ملنا ہے۔ لیکن کافر کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اس کا جسم بڑھ جائے گا، اسے دیکھ کر اس کے ساتھی کہنے لگے اللہ اسے رسوا کر، یہ جواب دے گا، اللہ تمہیں غارت کرے، تم میں سے ہر شخص کم لئے یہی اللہ کی مار ہے۔ اس دنیا میں جس نے اللہ کی آیتوں سے اس کی کتاب سے اس کی راہ ہدایت سے چشم پوشی کی وہ آخرت میں سچ مچ رسوا ہو گا اور دنیا سے بھی زیادہ راہ بھولا ہوا ہو گا۔
مکار و فجار کی چالاکیوں سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسول کو بچاتا رہا آپ کو معصوم اور ثابت قدم ہی رکھا خود ہی آپ کا ولی و ناصر رہا اپنی ہی حفاظت اور صیانت میں ہمیشہ آپ کو رکھا آپ کی تائید اور نصرت برابر کرتا رہا آپ کے دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کر دیا آپ کے مخالفین کے بلند بانگ ارادوں کو پست کر دیا مشرق سے مغرب تک آب کا کلمہ پھیلا دیا اسی کا بیان ان دونوں آیتوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر قیامت تک بے شمار درودوسلام بھیجتا رہے۔ آمین۔
کہتے ہیں کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہئے اس پر یہ آیت اتری۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہئے، اگر آپ سچے ہی سورہ بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں، اس کے بعد سورت ختم کر دی گئی تھی و ان کادو سے تحویلا تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے۔ لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے قاتلوا الذین یلونکم من الکفار جو کفار تمہارے ارد گرد ہیں ان سے جہاد کرو۔ اور آیت میں ہے کہ جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے ہیں اور حق کو قبول نہیں کرتے ایسے اہل کتاب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کر لیں۔ اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آب کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے، واللہ اعلم۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہو جائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی، جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مکہ مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے۔ ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے۔ واللہ اعلم ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکے سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا چنانچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا۔ پہر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے، اللہ تعالیٰ نے فورا ہی آپ کو غالب کیا۔ ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑا ٹوٹ گیا، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی، ان کے سردار قید میں آ گئے۔ پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکالا دیا پھر وہ بچ نہ سکے، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بے نشان کر دیا۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر رسول رحمت تھے، اس لئے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا۔ جیسے فرمان ہے وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم یعنی تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا۔
نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے دلوک سے مرادج غرب ہے یا زوال ہے۔ امام ابن جریر زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی، کھانا کھا کر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا، چلو یہی وقت دلوک شمس کا ہے۔ پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہو گیا۔ غسق سے۔ مراد اندھیرا ہے جو کہتے ہیں کہ دلوک سے مراد غروبی ہے، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشا کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان و قران الفجر میں ہے۔ حدیث سے بہ تواتر اقوال و افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے بابر لیتے چلے آتے ہیں۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے والحمد للہ۔ صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے تنہا شخص کی نماز پر جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ صبح کن نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو وقر ان الفجر الخ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے درپے آتے رہتے ہیں، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے، باوجودیکہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھیر جاتے ہیں۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا کہ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے استغفار کر اور میں اسے بخشوں کوئی ہے ؟ کہ مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں۔ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے، فرشوں کا تو حکم ہے ہی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز۔ تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے۔ ہاں حسن بصری کا قول ہے کہ جو نماز عشا کے بعد ہو۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سوجانے کے بعد ہو۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لئے ہے۔ بعض تو کہتے ہیں، تہجد کی نمازوں کے برخلاف صرف حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر فرض تھی۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور امتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں گھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی امت کی شفاعت کے لئے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا، آنکھیں کھل جائیں گے، ننگے پاؤں ننگ بدن ہوں گے، جیسے کہ پیدا کئے گے تھے، سب کھڑے ہوں گے، کوئی بھی بغیر اجازت الٰہی بات نہ کر سکے گا، آواز آئے گی، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کہیں گے لبیک وسعدیک۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے۔ برائی تیری جانب سے نہیں۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے۔ تیری پکڑسے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں تو برکتوں ں اور بلندیوں والا ہے اے رب البیت تو پاک ہے۔
یہ مقام محمود جس کا ذکر اللہ عز و جل نے اس آیت میں کیا ہے۔ پس یہ مقام مقام شفاعت ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے آپ باہر آئیں گے۔ اور سب سے پہلے شفاعت آپ ہی کریں گے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے جس کا وعدہ اللہ کریم نے اپنے رسول مقبول سے کیا ہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم بے شک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت سی بزرگیاں ایسی ملیں گے جن میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں۔ سب سے پہلے آپ ہی کی قبر کی زمین شق ہو گی اور آپ سواری پر سوار محشر کی طرف جائیں گے، آپ کا ایک جھنڈا ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو آئیں اور سب انکار کر دیں۔ پھر آپ کے پاس آئیں گے اور آپ اس کے لئے تیار ہوں گے جیسے کہ اس کی حدیثیں مفصل آ رہی ہے ان شاء اللہ آپ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جن کی بابت حکم ہو چکا ہو گا کہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں۔ پھر وہ آپ کی شفاعت سے واپس لوٹا دئے جائیں گے، سب سے پہلے آپ ہی جنت میں لے جانے کی پہلے سفارشی ہوں گے۔ جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام مومن آپ ہی کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے۔ سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں کے اور آپ کی امت اور امتوں سے پہلے جائے گی۔ آپ کی شفاعت سے کم درجے کے جنتی اعلی اور بلند درجے پائیں گم۔ آپ ہی صاحب وسیلہ ہیں جو جنت کی سب سے اعلی منزل ہے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملنے کی۔ یہ صحیح ہے کہ بحکم الٰہی گنہگاروں کی شفاعت فرشتے بھی کریں گے، نبی بھی کریں گے، مومن بھی کریں گے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت جس قدر لوگوں کے بارے میں ہو گی ان کی گنتی کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو علم نہیں اس میں کوئی آپ کی مثل اور برابر نہیں۔
کتاب السیرت کے آخر میں باب الخصائص میں میں نے اسے خوب تفصیل سے بیان کیا ہے والحمد للہ۔ اب مقام محمود کے بارے کی حدیثیں سنئے۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ بخاری میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی کہ اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے، اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہو گی۔ پس یہی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔
ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں سورج بہت نزدیک ہو گا یہاں تک کہ پسینہ آدھے کانوں تک پہنچ جائے گا، اسی حالت میں لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے، وہ صاف انکار کر دیں گے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے آب یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کہیں گے آپ مخلوق کی شفاعت کے لئے چلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کا کنڈا تھام لیں، پس اس وقت آپ کی تعریفیں کریں گے۔ بخاری میں ہے جو شخص اذان سن کر اللہم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ الخ پڑھ لے اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا سفارشی ہوؤں گا میں یہ کچھ بطور فخر کے نہیں کہتا۔ اسے ترمذی بھی لائے ہیں اور حسن صحیح کہا ہے۔
ابن ماجہ میں بھی یہ ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں قرآن کو سات قرأتوں پر پڑھنے کا بیان ہے اس کے آخر میں ہے کہ میں نے کہا اے اللہ میری امت کو بخش، الٰہی میری امت کو بخش، تیری دعا میں نے اس دن کے لئے اٹھا رکھی ہے، جس دن تمام مخلوق میری طرف رغبت کرے گی، یہاں تک کہ اگر ابراہیم علیہ السلام بھی۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جمع ہوں گے پھر ان کے دل میں خیال ڈالا جائے گا کہ ہم کسی سے کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر کے ہمیں اس جگہ سے آرام دے، پس سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے لئے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش لے جائیے تاکہ ہمیں اس جگہ سے راحت ملے، حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں آپ کو اپنا گناہ یاد آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے شرمانے لگیں، فرمائیں گے تم حضرت نوح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں، جنہیں زمین والوں کی طرف اللہ پاک نے بھیجا یہ آئیں گے یہاں سے بھی جواب پائیں گے کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں، آپ کو بھی اپنی خطا یاد آئے گی کہ اللہ سے وہ سوال کیا تھا جس کا آپ کو علم نہ تھا۔ پس اپنے پروردگار سے شرمائیں جائیں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ آپ کے پاس آئیں گے، آپ فرمائیں کے، میں اس قابل نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ نے کلام کیا ہے اور انہیں تورات دی ہے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے مجھ میں اتنی قابلیت کہاں ؟ پھر آپ اس قتل کا ذکر کریں گے جو بغیر کسی مقتول کے معاوضے کے آپ نے کر دیا تھا پس بوجہ اس کے شرمانے لگیں گے اور کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اس کا کلمہ اور اس کی روح ہے۔ وہ یہاں آئیں گے لیکن آپ فرمائیں گے میں اس جگہ کے قابل نہیں ہوں۔ تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ جن کے اول آخر تمام گناہ بخش دئے کئے ہیں، پس وہ میرے پاس آئیں گے میں کھڑا ہوؤں گا۔ اپنے رب سے اجازت چاہوں گا جب اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا۔ جب تک اللہ کو منظور ہو گا میں سجدے میں ہی رہوں گا پھر فرمایا جائے گا، اے محمد سر اٹھائیے، کہئے، سنا جائے گا، شفاعت کیجئے، قبول کی جائے گی، مانگئے دیا جائے گا، پس میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ تعریفیں کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں سفارش پیش کروں گا، میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی، میں انہیں جنت میں پہچا آؤں گا، پھر دوبارہ جناب باری میں حاضر ہو کر اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں بھی جنت میں پہنچا آؤں گا۔ پھر تیسری مرتبہ لوٹوں گا اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک وہ چاہے اسی حالت میں پڑا رہوں گا پھر فرمایا جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سر اٹھا، بات کر، سنی جائے گی۔ سوال کر، عطا فرمایا جائے گا۔ سفارش کر، قبول کی جائے۔ چنانچہ میں سر اٹھا کر وہ حمد بیان کر کے جو مجھے وہی سکھائے گا سفارش کروں گا۔ پھر چوتھی بار واپس آؤں گا اور کہوں گا باری تعالیٰ اب تو صرف وہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک لیا ہے۔ فرماتے ہیں جہنم میں سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو اور ان کے دل میں ایک ذرے جتنا ایمان ہو۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت پل صراط سے گزر رہی ہو گی میں وہیں کھڑا دیکھ رہا ہوں گا جو میرے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں اور فرمائیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم انبیا کی جماعت آپ سے کچھ مانگتی ہے وہ سب آپ کے لئے جمع ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام امتوں کو جہاں بھی چاہے، الگ الگ کر دے، اس وقت وہ سخت غم میں ہیں، تمام مخلوق پسینوں میں گویا لگام چڑھا دی گئی ہے۔ مومن پر تو وہ مثل زکام کے ہے لیکن کافر پر تو موت کا ڈھانپ لینا ہے۔ آپ فرمائیں گے کہ ٹھیرو میں آتا ہوں پس آپ جائیں گے عرش تلے کھڑے رہیں گے اور وہ عزت و آبرو ملے گی کہ کسی برگزیدہ فرشتے اور کسی بھیجے ہوئے نبی رسول کو نہ ملی ہو پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ سر اٹھائیے، مانگئے، ملے گا، سفارش کیجئے، قبول ہو گی، پس مجھے اپنی امت کی شفاعت ملے گی کہ ہر ننانوے میں سے ایک نکال لاؤں میں بار بار اپنے رب عز و جل کی طرف آتا جاتا رہوں گا اور ہر بار سفاش کروں گا یہاں تک کہ جناب باری مجھ سے ارشاد فرمائے گا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) جاؤ مخلوق الٰہی میں سے جس نے ایک دن بھی خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ہو اور اسی پر مرا ہو، اسے بھی جنت میں پہنچا آؤ۔ مسند احمد میں ہے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اس وقت ایک شخص کچھ کہہ رہا تھا، انہوں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت مانگی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت دی۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ یہ پہلا شخص کہہ رہا ہے وہی بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہیں گے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ زمین پر جتنے درخت اور کنکر ہیں، ان کی گنتی کے برابر لوگوں کی شفاعت میں کروں گا، پس اے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو تو اس کی امید ہو اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے ناامید ہوں ؟ مسند احمد میں ہے کہ ملکہ کے دونوں لڑکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری ماں ہمارے والد کی بڑی ہی عزت کرتی تھیں، بچوں پر بڑی مہربانی اور شفقت کرتی تھیں، مہمانداری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ ہاں انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی زندہ لڑکیاں دو گور کر دی تھیں، آپ نے فرمایا پھر وہ جہنم میں پہنچی۔ وہ دونوں ملول خاطر ہو کر لوٹے تو آپ نے حکم دیا کہ انہیں واپس بلا لاؤ وہ لوٹے اور ان کے چہروں پر خوشی تھی کہ اب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کوئی اچھی بات سنائیں گے۔ آپ نے فرمایا سنو میری ماں اور تمہاری ماں دونوں ایک ساتھ ہی ہیں، ایک منافق یہ سن کر کہنے لگا کہ اس سے اس کی ماں کو کیا فائدہ ؟ ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں ایک انصاری جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سب سے زیادہ سوالات کرنے کا عادی تھا، کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا اس کے یا ان دونوں کے بارے میں آپ سے اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کیا ہے ؟ آپ سمجھ گئے کہ اس نے کچھ سنا ہے، فرمانے لگے نہ میرے رب نے چاہا نہ مجھ اس بارے میں کوئی طمع دی۔ سنو میں قیامت کے دن مقام محمود پر پہنچایا جاؤں گا انصاری نے کہا وہ کیا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ اس وقت جب کہ تمہیں ننگے بدن بے ختنہ لایا جائے گا۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ۔ پس دو چادریں سفید رنگ کی پہنائی جائیں گی اور آپ عرش کی طرف منہ کئے بیٹھ جائیں گے پھر میرا لباس لایا جائے گا میں ان کی دائیں طرف اس جگہ کھڑا ہوؤں گا کہ تمام اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے اور کوثر سے لگ کر حوض تک ان کے لئے کھول دیا جائے گا، منافق کہنے لگے پانی کے جاری ہونے کے لئے تو مٹی اور کنکر لازمی ہیں آپ نے فرمایا اس کی مٹی مشک ہے اور کنکر موتی ہیں۔ اس نے کہا، ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا۔ اچھا پانی کے کنارے درخت بھی ہونے چاہئیں، انصاری نے کہایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا وہاں درخت بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سونے کی شاخوں والے۔ منافق نے کہا آج جیسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی۔ اچھا درختوں میں پتے اور پھل بھی ہونے چاہئیں۔ انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا ان درختوں میں پھل بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں رنگا رنگ کے جواہر اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہو گا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا۔ ایک گھونٹ بھی جس نم اس میں سے پی لیا، وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی آسودہ نہ ہو گا۔
ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ عز و جل شفاعت کی اجازت دے گا، پس روح القدس حضرت جبرئیل علیہ السلام کھڑے ہوں گے، پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کھڑے ہوں گے آپ سے زیادہ کسی کی شفاعت نہ ہو گی یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے، میں اپنی امت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا ہوؤں گا، مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ حلہ پہنائے گا، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور جو کچھ کہنا چاہوں گا، کہوں گا یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیست میں ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی، میں اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی امت کو اور امتوں میں پہچان لوں گا، کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور ساری امتیں جو حضرت نوح کے وقت تک کی ہوں گی ان سب میں سے آپ خاص اپنی امت کیسے پہچان لیں گے ؟ آپ نے فرمایا وضو کے اثر سے ان کے ہاتھ پاؤں منہ چمک رہے ہوں گے ان کے سوا اور کوئی ایسا نہ ہو گا اور میں انہیں یوں پہچان لوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور نشان یہ ہے کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے چل پھر رہی ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گوشت لایا گیا اور شانے کا گوشت چونکہ آپ کو زیادہ مرغوب تھا، وہی آپ کو دیا گیا آپ اس میں سے گوشت توڑ توڑ کر کھانے لگے اور فرمایا قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا آواز دینے والا انہیں سنائے گا۔ نگاہیں اوپر کو چڑھ جائیں گی سورج بالکل نزدیک ہو جائے گا اور لوگ ایسی سختی اور رنج و غم میں مبتلا ہو جائیں گے جو ناقابل برداشت ہے۔ اس وقت وہ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو تو سہی ہم سب کس مصیبت میں مبتلا ہیں، چلو کسی سے کہہ کر اسے سفارشی بنا کر اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجیں۔
چنانچہ مشورہ سے طے ہو گا اور لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہو رہا ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک درخت سے روکا تھا، لیکن مجھ سے نافرمانی ہو گئی۔ آج تو مجھے خود اپنا خیال لگا ہوا ہے۔ نفسا نفسی لگی ہوئی ہے۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ وہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح علیہ السلام آپ کو زمین والوں کی طرف سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا۔ آپ کا نام اس نے شکر گزار بندہ رکھا۔ آپ ہمارے لئے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے، دیکھئے تو ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج تو میرا پروردگار اس قدر غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصے میں ہوا نہ اسے کے بعد کبھی ایسا غصے ہو گا۔ میرے لئے ایک دعا تھی جو میں نے اپنے قوم کے خلاف مانگ لی مجھ تو آج اپنی پڑی ہے، نفسی نفسی لگ رہی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں کے، آپ نبی اللہ ہیں، آپ خلیل اللہ ہیں، کیا آپ ہماری یہ بپتا نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا ناراض ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی اس سے زیادہ غصے میں آئے گا پھر آپ نے جھوٹ یاد کر کے نفسی نفسی کرنے لگیں گے اور فرمائیں گے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ علیہ السلام ہماری شفاعت لے جائیے دیکھئے تو کیسی سخت آفت میں ہیں ؟ آپ فرمائیں گیا آج تو میرا رب اس قدر ناراض ہے ایسا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا ناراض ہو گا، میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک انسان کو مار ڈالا تھا۔ نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کسی اور سے کہو تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ علیہ السلام آپ رسول اللہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم علیہ السلام کی طرف بھیجی گئی بچپن میں گہوارے میں ہی آپ نے بولنا شروع کر دیا تھا جائیے ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے خیال تو فرمائیے کہ ہم کس قدر بے چین ہیں ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج جیسا غصہ تو نہ پہلے تھا، نہ بعد میں ہو گا، نفسی نفسی نفسی، آپ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہ کریں گے۔ فرمائیں گے تم کسی اور ہی کے پاس جاؤ۔ دیکھو میں بتاؤں تم سب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ چنانچہ وہ سب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ رسول اللہ ہیں، آپ خاتم الانبیاء ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئے ہیں۔ آپ ہماری شفاعت کیجئے دیکھئے تو ہم کیسی سخت بلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں،
پھر میں کھڑا ہوؤں گا اور عرش تلے آ کر اپنے رب عز و جل کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی اور پر نہیں کھلے تھے۔
پھر مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سر اٹھاؤ، مانگو، تمہیں ملے گا، شفاعت کرو، منظور ہو گی۔ میں اپنا سر سجدے سے اٹھاؤں گا اور کہوں گا میرے پروردگار میرے امت، میرے رب میری امت، اے اللہ میری امت، پس مجھ سے فرمایا جائے گا، جاؤ اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن پر حساب نہیں، جنت میں لے جاؤ انہیں جنت کے داہنی طرف کے دروازے سے پہنچاؤ لیکن اور تمام دروازوں سے بھی روک نہیں۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جنت کی دو چوکھٹوں کے درمیان انتا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں یا مکہ اور بصری میں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔
مسلم شریف میں ہے قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں اس دن سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی، میں ہی پہلا شفیع ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شفاعت ہے۔ مسند احمد میں ہے مقام محمود وہ مقام ہے، جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا۔ عبد الرزاق میں ہے کہ قیامت کے دن کھال کی طرح اللہ تعالیٰ زمین کو کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر شخص کے لئے صرف اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ ہی رہے گی سب سے پہلے اسے اس نے نہیں دیکھا۔ میں کہوں گا کہ باری تعالیٰ اس فرشتے نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے تو میری طرف بھیج رہا تھا اللہ تعالیٰ عز و جل فرمائے گا اس نے سچ کہا اب میں یہ کہہ کر شفاعت کروں گا کہ اے اللہ تیرے بندوں نے زمین کے مختلف حصوں میں تیری عبادت کی ہے، آپ فرماتے ہیں یہی مقام محمود ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے۔
مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کر لیں پس اللہ کیا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بد اعمالیوں کا مزہ چکھا دے۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ھے۔ قتادہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مدینے میں داخل ہونا اور مکے سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو۔ اس دعاپر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا اتنا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں یہ غلبہ بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا۔ ہر زور اور کمزور کا شکار کر لیتا۔
سلطنا نصیرا سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لئے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آ چکا۔ سچائی اتر آئی، جس میں کوئی شک شبہ نہیں، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آگیا، کفر برباد و غارت اور بے نام و نشان ہو گیا، وہ حق کے مقابلہ میں بے دست و پا ثابت ہوا، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور نابود اور بے وجود ہو گیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے۔ ابو یعلی میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مکے میں آئے، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی آپ نے فورا حکم دیا کا ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی بابت جس میں باطل کا شائبہ بھی نہیں، فرماتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے دلوں کی تمام بیماریوں کے لئے شفا ہے۔ شک، نفاق، شرک، ٹیڑھ پن اور باطل کی لگاوٹ سب اس سے دور ہو جاتی ہے۔ ایمان، حکمت، بھلائی، رحمت، نیکیوں کی رغبت، اس سے حاصل ہوتی ہے۔ جو بھی اس پر ایمان و یقین لائے اسے سچ سمجھ کر اس کی تابعداری کرے، یہ اسے اللہ کی رحمت کے نیچے لا کھڑا کرتا ہے۔ ہاں جو ظالم جابر ہو، جو اس سے انکار کرے وہ اللہ سے اور دور ہو جاتا ہے۔ قرآن سن کر اس کا کفر اور بڑھ جاتا ہے پس یہ آفت خود کافر کی طرف سے، اس کے کفر کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ قرآن کی طرف سے وہ تو سراسر رحمت و شفا ہے چنانچہ اور آیت قرآن میں ہے قل ہو للذین امنوا ہدی وشفاء الخ کہہ دے کہ یہ ایمانداروں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمانوں کے کانوں میں پردے ہیں اور ان کی نگاہوں پر پردہ ہے یہ تو دور دراز سے آوازیں دئیے جاتے ہیں۔ اور آیت میں ہے واذاماانزلت سورۃ الخ جہاں کوئی سورت اتری کہ ایک گورہ نے پوچھنا شروع کیا کہ تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں بڑھایا ؟ سنو ایمان والوں کے تو ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں ہاں جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی گندگی پر گندگی بڑھ جاتی ہے اور مرتے دم تک کفر پر قائم رہتے ہیں۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ الغرض مومن اس پاک کتاب کو سن کر نفع اٹھاتا ہے، اسے حفظ کرتا ہے، اسے یاد کرتا ہے، اس کا خیال رکھتا ہے۔ بے انصاف لوگ نہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں، نہ اسے حفظ کرتے ہیں، نہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں، اللہ نے اسے شفا و رحمت صرف مومنوں کے لئے بنایا ہے۔
خیرو شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے۔ مال، عافیت، فتح، رزق، نصرت، تائید، کشادگی، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی بائی پہنچنے کی ہی نہیں۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت، تکلیف، دکھ، درد، آفت، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی، عافیت، راحت، آرام ملنے ہی کا نہیں۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے ولئن اذقنلا الانسان منا رحمۃ ثم نزعنا ہا منہ انہ لیوس قیوط ولئن اذقنا ہ نعماء بعد ضراء مستہ لیقولن ذہب لسیات عنی انہ لفرح فخورا لا الذین صبروا وعملوا الصالحات اولئک لہم مغفرۃ واجر کبیر انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا، گھمنڈ میں آگیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہو گئیں۔ فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر، اپنی طبیعت پر، اپنی نیت پر، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے، صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی۔ جیسے فرمان ہے کہ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہم اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ الخ، بدلے کا وقت یہ نہیں، قیامت کا جن ہم، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی، سب کو بدلے ملیں گے، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں۔
بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں۔ کوئی کہنے لگا اچھا، کسی نے کہا مت پوچھو۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو۔ جانے دو نہ پوچھو۔ آخر وہ آئے اور حضرت سے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری صورت مکی ہے لیکن یہ بھی سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو۔
مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کمہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سکرش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ قل لو کان البحر مدادا الخ یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الٰہی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ۔ عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت ولو انما فی الارض من شجرۃ الخ، کا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان گے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں جب بھی اللہ کے علم مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکے میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا علم الٰہی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے۔ ہاں بے شک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے اور یہ آیت اتری ولوان ما فی الارض الخ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسیجسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپ نے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرئیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت قل من کان عدوالجبریل الخ نازل ہوئی یعنی جبرئیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے۔ واللہ اعلم۔
سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی۔ (اوکماقال) بقول سہیلی
بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الٰہی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلاً پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلاً انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جاسکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر انعام کی ہے یعنی آب پر نہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کر سکتا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف یے یہ اٹھے گی اس وقت قرآں کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا۔ ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کر کے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بے مثل بے نظیر بے شریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے۔ ابن اسحاق نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا واللہ اعلم۔ ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح وبسط سے بیان فرما دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے جو بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابو سفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابوالبحتری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسعد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبد اللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے بھئی کسی کو بھیج کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بلوا لو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کر لو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہم اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں اس لئے آپ فورا ہی تشریف لائے۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپ کو بلوایا ہے واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہو گا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیجئے اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں۔ اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفا ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لئے جائیں۔ یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنادوں اور ڈرا دھمکا دوں۔ میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے، تمہاری سچی خیر خواہی کی، تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں جہان نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نا منظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے (او کماقال )
اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں، ہم سے پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے۔ اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دلی سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں۔ میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لئے آیا ہوں۔ تم قبول کر لو، دونوں جہان میں خوش رہو گے۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے۔ انہوں نے کہا اچھا یہ بھی نہ سہی لیجئے ہم خود آپ کے لئے ہی تجویز کرتے ہیں آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لئے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پروردگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ چاہے نہ کرے۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھاجاتا ہے اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں۔ ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کر لی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے۔ پھر مجلس برخاست ہوئی۔ عبد اللہ بن ابی، امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن مخزوم جو آب کی پھوپھی حضرت عاتکہ بن عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہو لیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے یہ کیا اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپ نے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے، صلی اللہ علیہ و سلم۔ بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لئے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی۔ اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود وسلام بہت بہت نازل فرمائے اسی بات اور اسی حکمت کا ذکر آیت وما منعنا ان نرسل بالایات الخ میں اور آیت وقالوا مالہذا الرسول یاکل الطعام الخ میں بھڈ ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے۔ ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکارنا جہنم بنا رکھاہے۔ پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ طاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر وقیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافران معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے۔ جیسے فرمان ہے ان الذین حقت علیہم کلمتہ ربک لا یومنون ولو حائتہم کل ایۃ حتی یرواالعذاب الالیم یعنی جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کر لیں۔ ولو اننا الخ میں فرمایا کہ اے نبی ان کی خواہش کے مطابق اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل فرمائیں اور مردے بھی ان سے باتیں کر لیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ غیب کی تمام چیز کھلم کھلا ان کے سامنے ظاہر کر دیں تو بھی یہ کافر بغیر مشیت الٰہی ایمان لانے کے نہیں ان میں سے اکثر جہالت کے پتلے ہیں۔ اپنے لئیے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا اچھا آپ ہی کے لئے باغات اور نہریں ہو جائیں۔
پھر کہا کہ اچھا یہ بھی نہ سہی تو آپ کہتے ہی ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا تو اب آج ہی ہم پر اس کے ٹکڑے گرا دیجئے چنانچہ انہوں نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی اے اللہ اگر یہ سب کچھ تیری جانب سے ہی برحق ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ الخ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی خواہش کی تھی جس بنا پر ان پر سائبان کے دن کا عذاب اترا۔ لیکن چونکہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم رحمۃ العالمین اور نبی التوبۃ تھے آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہلاکت سے بچا لے ممکن ہے یہ نہیں تو ان کی اولادیں ہی ایمان قبول کر لیں، توحید اختیار کر لیں اور شرک چھوڑ دیں۔ آپ کی یہ آرزو پوری ہوئی، عذاب نہ اترا۔ خود ان میں سے بھی بہت سوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی یہاں تک کہ عبد اللہ بن امیہ جس نے آخر میں حضرت کے ساتھ جا کر آپ کو باتیں سنائی تھیں اور ایمان نہ لانے کی قسمیں کھائیں تھیں وہ بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے رضی اللہ عنہ
زخرف سے مراد سونا ہے بلکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرات میں لفظ من ذہب ہے۔ کفار کا اور مطالبہ یہ تھا کہ تیرے لئے سونے کا گھر ہو جائے یا ہمارے دیکھتے ہوئے تو سیڑھی لگا کر آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے کوئی کتاب لائے جو ہر ایک کے نام کی الگ الگ ہو راتوں رات ان کے سرہانے وہ پرچے پہنچ جائیں ان پر ان کے نام لکھے ہوئے ہوں اس کے جواب میں حکم ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے کسی کی کچھ نہیں چلتی وہ اپنی سلطنت اور مملکت کا تنہا مالک ہے جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے تمہاری منہ مانگی چیز ظاہر کرے نہ کرے یہ اس کے اختیار کی بات ہے میں تو صرف پیغام رب پہنچانے والا ہوں میں نے اپنا فرض ادا کر دیا احکام الٰہی تمہیں پہنچائے دئیے اب جو تم نے مانگا وہ اللہ کی بس کی بات ہے نہ کہ میرے بس کی۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں بطحا مکہ کی بابت مجھ سے فرمایا گیا کہ اگر تم چاہو تو میں اسے سونے کا بنا دوں میں نے گزارش کی کہ نہیں اے اللہ میری تو یہ چاہت ہے کہ ایک روز پیٹ بھرا رہوں اور دوسرے روز بھوکا رہوں میں تیری طرف جھکوں، تضرع اور زاری کروں اور بکثرت تیری یاد کروں۔ بھرے پیٹ ہو جاؤں تو تیری حمد کروں، تیرا شکر بجا لاؤں۔ ترمذی بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس ضعیف کہا ہے۔
اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے۔ وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ فرعون اور اسکی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصاً اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہمارے ماتحتی میں ہے۔ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔ اسکے بعد اللہ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ انکے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ انکی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو، ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو، ان کا عمل دیکھ کر خودسیکھ سکتے ہو جیسے فرمان ہے لقدمن اللہ علی المومنین الخ۔ اور آیت میں ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم الخ۔ اور آیت میں ہے کما ارسلنا فیکم رسولا منکم الخ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الٰہی تمہیں پڑھ کر سنائیں، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بے علم تھے وہ تمہیں عالم بنا دیں پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہئے اور ناشکری سے بچنا چاہئے۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بے شک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے۔
اپنی سچائی پر میں اور گواہ کیوں ڈھونڈوں ؟ اللہ کی گواہی کافی ہے۔ میں اگر اس کی پاک ذات پر تہمت باندھتا ہوں تو وہ خود مجھ سے انتقام لے گا۔ چنانچہ قرآن کی سورہ الحاقہ میں بیان ہے کہ اگر یہ پیغمبر زبردستی کوئی بات ہمارے سر چپکا دیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ تھام کر اس کی گردن اڑا دیتے اور ہمیں اس سے کوئی نہ روک سکتا۔ پھر فرمایا کہ کسی بندے کا حال اللہ سے مخفی نہیں وہ انعام واحسان ہدایت و لطف کے قابل لوگوں کو اور گمراہی اور بدبختی کے قابل لوگوں کو بخوبی جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ تمام مخلوق میں تصرف صرف اسی کا ہے اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا نہ اس کے بہکائے ہوئے کی کوئی راہنمائی کر سکتا ہے اس کا ولی اور مرشد کوئی نہیں بن سکتا۔ ہم انہیں اوندھے منہ میدان قیامت(محشر کے مجمع ) میں لائیں گے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا جس نے پیروں پر چلایا ہے وہ سر کے بل بھی چلاسکتا ہے۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ مسند میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے بنی غفار قبیلے کے لوگو سچ کہو اور قسمیں نہ کھاؤ صادق مصدوق پیغمبر نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ لوگ تین قسم کے بنا کر حشر میں لائے جائیں گے ایک فوج تو کھانے پینے اوڑھنے والی، ایک چلنے اور دوڑنے والی، ایک وہ جنہیں فرشتے اوندھے منہ گھیسٹ کر جہنم کے سامنے جمع کریں گے۔ لوگوں نے کہا دو قسمیں تو سمجھ میں آ گئیں لیکن یہ چلنے اور دوڑنے والے سمجھ میں نہیں آئے آپ نے فرمایا سواریوں پر آفت آ جائے گی یہاں تک کہ ایک انسان اپنا ہرا بھرا باغ دے کر بلان والی اونٹنی خریدنا چاہے گا لیکن نہ مل سکے گی۔
یہ اس وقت نابینا ہوں گے، بے زبان ہوں گے، کچھ بھی نہ سن سکیں گے غرض مختلف حال ہوں گے اور گناہوں کی شامت میں گناہوں کے مطابق گرفتار کئے جائیں گے۔ دنیا میں حق سے اندھے بہرے اور گونگے بنے رہے آج سخت احتیاج والے دن، سچ مچ اندھے بہرے گونگے بنا دئیے گئے۔ ان کا اصلی ٹھکانا، گھوم پھر کر آنے اور رہنے سہنے بسنے ٹھہرنے کی جگہ جہنم قرار دی گئی۔ وہاں کی آگ جہاں مدھم پڑنے کو آئی اور بھڑکا دی گئے سخت تیز کر دی گئی جیسے فرمایا فذوقوا فلن نزیدکم الا عذابا یعنی اب سزا برداشت کرو۔ سوائے عذاب کے کوئی چیز تمہیں زیادہ نہ دی جائے گی۔
فرمان ہے کہ اوپر جن منکروں کو جس سزا کا ذکر ہوا ہم وہ اسی کے قابل تھے، وہ ہماری دلیلوں کو جھوٹ سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل ہی نہ تھے اور صاف کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیاں ہو جانے کے بعد مٹی کے ریزوں سے مل جانے کے بعد ہلاک اور برباد ہو چکنے کے بعد کا دوبارہ جی اٹھنا تو عقل کے باہر ہے۔ پس ان کے جواب میں قرآن نے اس کی ایک دلیل پیش کی کہ اس زبردست قدرت کے مالک نے آسمان و زمین کو بغیر کسی چیز کم اول بار بلا نمونہ پیدا کیا جس کی قدرت ان بلند و بالا، وسیع اور سخت مخلوق کی ابتدائی پیدائش سے عاجز نہیں۔ کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہو جائے گا؟ آسمان زمین کی پیدائش تو تمہاری پیدائش سے بہت بڑی ہے وہ ان کے پیدا کرنے میں نہیں تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے سے بے اختیار ہو جائے گا ؟ کیا آسمان و زمین کا خالق انسانوں جیسے اور پیدا نہیں کر سکتا ؟ بے شک کر سکتا ہے اس کا حکم ہی چیز کے وجود کیلئے کافی وافی ہے۔ وہ انہیں قیامت کے دن دوبارہ نئی پیدائش میں ضرور اور قطعاً پیدا کرے گا اس نے ان کے اعادہ کی، ان کے قبروں سے نکل کھڑے ہونے کی مدت مقرر کر رکھی ہے۔ اس وقت یہ سب کچھ ہو کر رہے گا یہاں کی قدرے تاخیر صرف معینہ وقت کو پورا کرنے کیلئے ہے۔ افسوس کس قدر واضح دلائل کے بعد بھی لوگ کفر و ضلالت کو نہیں چھوڑتے۔
انسانی طبیعت کا خاصہ بیان ہو رہا ہے کہ رحمت الٰہی جیسی نہ کم ہونے والی چیزوں پر بھی اگر یہ قابض ہو جائے تو ہاں بھی اپنی بخیلی اور تنگ دلی نہ چھوڑے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اگر ملک کے کسی حسے کے یہ مالک ہو جائیں تو کسی کو ایک کوڑی پرکھنے کو نہ دیں۔ پس یہ انسانی طبیعت ہے ہاں جو اللہ کی طرف سے ہدایت کئے جائیں اور توفیق خیر دئیے جائیں وہ اس بد خصلت سے نفرت کرتے ہیں وہ سخی اور دوسروں کا بھلا کرنے والے ہوتے ہیں۔ انسان بڑا ہی جلد باز ہے تکلیف کے وقت لڑکھڑا جاتا ہے اور راحت کے وقت بھول جاتا ہے اور دوسروں کے فائدہ سے اپنے ہاتھ روکنے لگتا ہے ہاں نمازی لوگ اس سے بری ہیں الخ ایسی آیتیں قرآن میں اور بھی بہت سی ہیں۔ اس سے اللہ کے فضل و کرم اس کی بخشش و رحم کا پتہ چلتا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہم کہ دن رات کا خرچ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ابتدا سے اب تک کے خرچ نے بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی۔ لکڑی، ہاتھ، قحط، دریا، طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں ہاتھ کا چمکیلا بن جانا۔ لکڑی کا سانپ ہو جانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورہ اعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ، آپ کی لکڑی، قحط سالیاں پھلوں کی کمی طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک اور خون ہیں۔ یہ قول زیادہ ظاہر، بہت صاف، بہتر اور قوی ہے۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم و زیادتی کر کے کفر انکار پر جم گئے۔
اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ایسے ہی فرعونیوں نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخرش ہلاک کر دئے گئے۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آ جانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معاً تباہ برباد کر دی جائے گی۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان والق عصاک سے قوما فاسقین تک میں ہے ان آیتوں کا بیان سورہ اعراف میں ہے۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلاً آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا، بادل کا سایہ کرنا، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ اب دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو۔ اور اے یہودیو! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔ اب تو وہ بے ساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ چھوڑیں گے۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبد اللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزیں نہیں۔ واللہ اعلم۔ اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا۔ مثبور کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں
اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور
یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں۔ علمت کی دوسری تے کے زبر کے بدلے تے کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرات کے زبر سے ہی ہے۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اسی آیت میں بیان فرماتا ہے وجحدوا بہا واستیقنتہا انفسہم الخ یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا، ہاتھ، قحط سالی، پھلوں کی کم پیداواری، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک، اور دم (خون ) تھیں۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احاکم نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ غرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں۔ یہ وہم صرف عبد اللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتیں واقعی قابل انکار ہیں، واللہ اعلم۔
بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو۔ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا۔ حالانکہ سورت مکیہ ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت وان کادوا لیستفزونک الخ میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکے میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکے کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی، صلی اللہ علیہ و سلم۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال، زمین، پھل، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے واورثناہا بنی اسرائیل میں بیان ہوا ہے۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے۔
ارشاد ہے کہ قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا، یہ سراسرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اسے نازل فرمایا ہے اس کی حقانیت پر وہ خود شاہد ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں اس میں وہی ہے جو اس نے خود اپنی دانست کے ساتھ اتارا ہے اس کے تمام حکم احکام اور نہی و ممانعت اسی طرف سے ہے حق والے نے حق کے ساتھ اسے اتارا اور یہ حق کے ساتھ ہی تجھ تک پہنچا نہ راستے میں کوئی باطل اس میں ملا نہ باطل کی یہ شان کہ اس سے مخلوط ہو سکے۔ یہ بالکل محفوظ ہے، کمی زیادتی سے یکسر پاک ہے۔ پوری طاقت والے امانتدار فرشتے کی معرفت نازل ہوا ہے جو آسمانوں میں ذی عزت اور وہاں کا سردار ہے۔ تیرا کام مومنوں کو خوشی سنانا اور کافروں کو ڈرانا ہے۔ اس قرآن کو ہم نے لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر نازل فرمایا جو آسمان اول میں ہے۔ وہاں سے متفرق تھوڑا تھوڑا کر کے واقعات کے مطابق تیئس برس میں دنیا پر نازل ہوا۔ اس کی دوسری قرات فرقنا ہ ہے یعنی ایک ایک آیت کر کے تفسیر اور تفصیل اور تبیین کے ساتھ اتارا ہے کہ تو اسے لوگوں کو بہ سہولت پہنچا دے اور آہستہ آہستہ انہیں سنا دے ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے۔
فرمان ہے کہ تمہارے ایمان پر صداقت قرآن موقوف نہیں تم مانو یا نہ مانو قرآن فی نفسہ کلام اللہ اور بے شک برحق ہے۔ اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آ رہا ہے۔ جو اہل کتاب، صالح اور عامل کتاب اللہ ہیں، جنہوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی بے چین ہو کر شکریہ کا سجدہ کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہماری موجودگی میں اس رسول کو بھیجا اور اس کلام کو نازل فرمایا۔ اپنے رب کی قدرت کاملہ پر اس کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں۔ جانتے تھے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، غلظ نہیں ہوتا۔ آج وہ وعدہ پورا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے وعدے کی سچائی کا اقرار کرتے ہیں۔ خشوع و خضوع، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ روتے گڑگڑاتے اللہ کے سامنے اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں ایمان و تصدیق اور کلام الٰہی اور رسول اللہ کی وجہ سے وہ ایمان واسلام میں، ہدایت و تقویٰ میں، ڈر اور خوف میں اور بڑھ جاتے ہیں۔ یہ عطف صفت کا صفت پر ہے سجدے کا سجدے پر نہیں۔
کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو۔ سورہ حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں۔ ایک مشرک نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم مکے میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھتے اور بلند آواز سے اس میں قرات پڑھتے تو مشرکین قرآن کو، اللہ کو، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرات کیا کرو۔ پھر دب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذا دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کر لیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا۔ الغرض نماز کی قرات کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرات پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ با آواز بلند قرات پڑھا کر تے تھے۔ حضرت الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابو عیاض، حضرت مکحول، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقت سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مسنون فرمایا ہے۔
اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے۔ اس کی اولاد نہیں، اس کا شریک نہیں، وہ واحد ہے، صمد ہے، نہ اس کے ماں باپ، نہ اولاد، نہ اس کی جنس کا کوئی اور، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہٗ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمتیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی واللہ اعلم۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھ وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بے سرمایہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیجئے۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا تھا چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابوہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم۔