اس سورت کی فضیلت کا بیان خصوصاً اس کی اور آخر کی دس آیتوں کی فضیلت کا بیان اور یہ کہ یہ سورت فتنہ دجال سے محفوظ رکھنے والی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے اس کی تلاوت شروع کی ان کے گھر میں ایک جانور تھا اس نے اچھلنا بدکنا شروع کر دیا صحابی نے جو غور سے دیکھا تو انہیں سائبان کی طرح کا ایک بادل نظر پڑا جس نے ان پر سایہ کر رکھا تھا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا پڑھتے رہو یہ ہے وہ سکینہ جو اللہ کی طرف سے قرآن کی تلاوت پڑ نازل ہوتا ہے۔ بخاری میں تین آیتوں کا بیان ہے۔ مسلم میں آخری دس آیتوں کا ذکر ہے نسائی میں دس آیتوں کو مطلق بیان کیا گیا ہے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس سورہ کہف کا اول آخر پڑھ لے اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور ہو گا اور جو اس ساری سورت کو پڑھے اسے زمین سے آسمان تک کا نور ملے گا۔ ایک غریب سند سے ابن مردویہ میں ہے کہ جمعہ کے دن جو شخص سورہ کہف پڑھ لے اس کے پیر کے تلووں سے لے کر آسمان کی بلندی تک کا نور ملے گا جو قیامت کے دن خوب روشن ہو گا اور دوسرے جمعہ تک کے اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اس حدیث کے مرفوع ہو نے میں نظر ہے۔ زیادہ اچھا تو اس کا موقوف ہونا ہی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے سورہ کہف جمعہ کے دن پڑھ لی اس کے پاس سے لے کر بیت اللہ شریف تک نورانیت ہو جاتی ہے۔ مستدرک حاکم میں مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے سورہ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لئے وہ جمعہ کے درمیان تک نور کی روشنی رہتی ہے۔ بیہقی میں ہے کہ جس نے سورہ کہف اسی طرح پڑھی جس طرح نازل ہوئی ہے اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا۔ حافظ ضیاء مقدسی کی کتاب المختارہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کر لے گا وہ آٹھ دن تک ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہے گا یہاں تک کہ اگر دجال بھی اس عرصہ میں نکلے تو وہ اس سے بھی بچا دیا جائے گا
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہم اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی کوئی کسر کوئی کمی نہیں صراط مستقیم کی رہبر واضح جلی صاف اور واضح ہے۔ بدکاروں کو ڈرانے والی، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی، معتدل، سیدھی، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے۔ جو عذاب اللہ کی طرف کے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے عذاب کہ نہ اس کم سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی۔ ہاں جو اس پر یقین کرے ایمان لائے نیک عمل کرے اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے۔ جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔
بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں یہ تو یہ ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بے علمی سے کہتے رہے کلمۃ کا نصب تمیز کی بنا پر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے کبرت کلمتہم ہذہ کلمۃ اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے۔ تقدیر عبارتیہ ہے اعظم بکلمتہم کلمۃ جیسے کہا جاتا ہے اکرم بزید رجلا بعض بصریوں کا یہی قول ہے۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمۃ پڑھا جیسے ہے کہا جاتا ہے عظم قولک وکبر شانک جمہور کی قرات پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بے دلیل ہے صرف کذب و افترا ہے اسی لئے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں اس سورت کا شان نزول یہ بیان ہو گیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ان سے پوچھو ان کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات و اوصاف بیان کئے آپ کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں بے شک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا مشرق مغرب ہو آیا تھا۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے۔ اب چلو حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے۔ آپ نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے پندرہ دن گزر گئے نہ آپ پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے اجھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے سورہ کہف نازل ہوئی اسی میں انشاء اللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور آیت ویسئلونک عن الروح الخ میں روح کی بابت جواب دیا گیا۔
مشرکین جو آپ سے دور بھاگتے تھے، ایمان نہ لاتے تھے اس پر جو رنج وافسوس آپ کو ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کر رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ ان پر اتنا رنج نہ کرو، اور جگہ ہے ان پر اتنے غمگین نہ ہو، اور جگہ ہے ان کے ایمان نہ لانے سے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر، یہاں بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو تو اپنی جان کو روگ نہ لگا لے اس قدر غم و غصہ رنج وافسوس نہ کر نہ گھبرا نہ دل تنگ ہو اپنا کام کئے جا۔ تبلیغ میں کوتاہی نہ کر۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے۔ گمراہ اپنا برا کریں گے۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے۔ پھر فرماتا ہے دنیا فانی ہے اس کی زینت زوال والی ہے آخرت باقی ہے اس کی نعمت دوامی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس دنیا سے اور عورتوں سے بچو بنو اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا۔ یہ دنیا ختم ہونے والی اور خراب ہونے والی ہے اجڑنے والی اور غارت ہونے والی ہے زمین ہموار صاف رہ جائے گی جس پر کسی قسم کی روئیدگی بھی نہ ہو گی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم غیر آباد بنجر زمین کی طرف پانی کو لے چلتے ہیں اور اس میں سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے وہ خود کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی۔ کیا پھر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں زمین اور زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں پس تو کچھ بھی ان سے سنے انہیں کیسے ہی حال میں دیکھے مطلق افسوس اور رنج نہ کر۔
اصحاب کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہو گا فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بے شمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں آسمان زمین کی پیدائش رات دن کا آنا جانا سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلایا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بے انداز ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اس پر کوئی مشکل نہیں اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں کتاب وسنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یہ کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ حنان اور لفظ اواہ اور لفظ رقیم کو۔ مجھے نہیں معلوم کہ رقیم کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے۔ سعید کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا۔ عبد الرحمن کہتے ہیں قرآن میں ہے کتاب مرقوم پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر رضی اللہ عنہ کا مختار قول ہے کہ رقیم فعیل کے زون پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح واللہ اعلم۔ یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ۔ ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اللہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے۔ یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے پھر ہم نے انہیں بیدار کیا ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے ؟ اسے ہم بھی معلوم کریں۔ امد کے معنی عدد یا گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہم کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے۔
یہاں سے تفصیل کے ساتھ اصحاب کہف کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یہ چند نوجوان تھے جو دین حق کی طرف مائل ہوئے اور ہدایت پر آ گئے قریش میں بھی یہی ہوا تھا کہ جوانوں نے تو حق کی آواز پر لبیک کہی تھی لیکن بجز چند کے اور بوڑھے لوگ اسلام کی طرف جرات سے مائل نہ ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض کے کانوں میں بالے تھے یہ متقی مومن اور راہ یافتہ نوجوانوں کی جماعت تھی اپنے رب کی وحدانیت کو مانتے تھے اس کی توحید کے قائل ہو گئے تھے اور روز بروز ایمان و ہدایت میں بڑھ رہے تھے۔ یہ اور اس جیسی اور آیتوں اور احادیث سے استدلال کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ محدثین کرام کا مذہب ہے کہ ایمان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس میں مرتبے ہیں، یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ یہاں ہے ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا اور جگہ ہم والذین اہتدوا زادہم ہدی الخ ہدایت والوں کو ہدایت بڑھ جاتی ہے الخ اور آیت میں ہے فاما الذین امنوا فزادتہم ایمانا الخ ایمان والوں کے ایمان کو بڑھاتی ہے الخ اور جگہ ارشاد ہے لیزدادوا ایمانا مع ایمانہم تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ایمان میں اور بڑھ جائیں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ مذکور ہے کہ یہ لوگ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دین پر تھے واللہ اعلم۔ لیکن بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح علیہ السلام کے زمانے سے پہلے کا واقعہ ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ لوگ نصاریٰ ہوتے تو یہود اس قدر توجہ سے نہ ان کے حالات معلوم کرتے نہ معلوم کرنے کی ہدایت کرتے۔ حالانکہ یہ بیان گزر چکا ہے قریشیوں نے اپنا وفد مدینے کے یہود کے علماء کے پاس بھیجا تھا کہ تم ہمیں کچھ بتلاؤ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آزمائش کر لیں تو انہوں نے کہا کہ تم اصحاب کہف کا اور ذو القرنین کا واقعہ آپ سے دریافت کرو اور روح کے تعلق سوال کروپس معلوم ہوتا ہم کہ یہود کی کتاب میں ان کا ذکر تھا اور انہیں اس واقعہ کا علم تھا جب یہ ثابت ہوا تو یہ ظاہر ہے کہ یہود کی کتاب نصرانیت سے پہلے کی ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں قوم کی مخالفت پر صبر عطا فرمایا اور انہوں نے قوم کی کچھ پرواہ نہ کی بلکہ وطن اور راحت و آرام کی بھی تج دیا۔
بعض سلف کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومی بادشاہ کی اولاد اور روم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ قوم کے ساتھ عید منانے گئے تھے اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا بڑا سخت اور سرکش شخص تھا۔ سب کو شرک کی تعلیم کرتا اور سب سے بت پرستی کراتا تھا یہ نوجوان جو اپنے باپ دادوں کے ساتھ اس میلے میں گئے تھے انہوں نے جب وہاں یہ تماشا دیکھا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بت پرستی محض لغو اور باطل چیز ہے عبادتیں اور ذبیحہ صرف اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں جو آسمان و زمین کا خالق مالک ہے پس یہ لوگ ایک ایک کر کے یہاں سے رکنے لگے ایک درخت تلے جا کر ان میں سے ایک صاحب بیٹھ گئے دوسرے بھی یہیں آ گئے اور بیٹھ گئے تیسرے بھی آئے چوتھے بھی آئے غرض ایک ایک کر کے سب یہیں جمع ہو گئے حالانکہ ایک دوسرے میں تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی نے ایک دوسرے کو ملا دیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ روحیں بھ] ایک جمع شدہ لشکر ہیں جو روز ازل میں تعارف والی ہیں وہ یہاں مل جل کر رہتی ہیں اور جو وہیں انجان رہیں ان کا یہاں بھی ان میں اختلاف رہتا ہے (بخاری و مسلم )
عرب کہا کرتے تھے کہ جنسیت ہی میل جول کی علت ہے۔ اب سب خاموش تھے ایک کو ایک سے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے ما فی الضمیر کو بتا دوں گا تو یہ دشمن ہو جائیں گے کسی کو دوسرے کی نسبت اطلاع نہ تھی کہ وہ بھی اس کی طرح قوم کی اس احمقانہ اور مشرکانہ رسم سے بے زار ہے۔ آخر ایک دانا اور جری نوجوان نے کہا کہ دوستو! کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے کہ لوگوں کے اس عام شغل کو چھوڑ کر تم ان سے یکسو ہو کر یہاں آ بیٹھے ہو میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کر دے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے۔ اس پر ایک نے کہا بھائی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم ایک آنکھ نہیں بھاتی جب کہ لآآسمان و زمین کا اور ہمارا تمہارا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ہم اس کے سوا دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ یہ سن کر دوسرے نے کہا اللہ کی قسم یہی نفرت مجھے یہاں لائی ہے تیسرے نے بھی یہی کہا جب ہر ایک نے یہی وجہ بیان کی تو سب کے دل میں محبت کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ سب روشن خیال موحد آپس میں سچے دوست اور ماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن گئے آپس میں اتحاد و اتفاق ہو گیا۔ تب انہوں نے ایک جگہ مقرر کر لی وہیں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے رفتہ رفتہ قوم کو بھی پتہ چل گیا وہ ان سب کو پکڑ کر اس ظالم مشرک بادشاہ اور اہل دربار اور کل دنیا کو اس کی دعوت دی دل مضبوط کر لیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا مالک خالق ہے۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود بنائیں ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں ای لئے کہ شرک نہایت باطل چیز ہے ہم اس کام کو کبھی نہیں کرنے کے۔ یہ نہایت ہی بے جا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے۔
یہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کی پکار اور ان کی عبادت میں مشغول ہے جس کی کوئی دلیل یہ پیش نہیں کر سکتی، پس یہ ظالم اور کاذب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق گوئی سے بادشاہ بہت بگڑا انہیں دھمکایا ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اتار لو اور اگر یہ باز نہ آئیں گے تو میں انہیں سخت سزادوں گا۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہو گئے لیکن یہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے اس لئے انہوں نے قوم، وطن، دیس اور رشتے کنبے کو چھوڑنے کا ارادہ پختہ کر لیا۔ یہی حکم بھی ہے کہ جب اناسن دین کا خطرہ محسوس کرے اس وقت ہجرت کر جائے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کا بہترین مال ممکن ہے کہ بکریاں ہوں جنہیں لے کر دامن کوہ میں اور مرغزاروں میں رہے سہے اور اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر بھاگتا پھرے۔ پس ایسے حال میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانا امر مشروع ہے۔ ہاں اگر ایسی حالت نہ ہو، دین کی بربادی کا خوف نہ ہو تو پھر جنگلوں میں نکل جانا مشروع نہیں کیونکہ جمعہ جماعت کی فضیلت ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ جب یہ لوگ دین گے بچاؤ کے لئے اتنی اہم قربانی پر آمادہ ہو گئے تو ان پر رب رحمت نازل ہوئی۔ فرما دیا گیا کہ ٹھیک ہے جب تم ان کے دین سے الگ ہو گئے تو بہتر ہے کہ جسموں سے بھی ان سے جدا ہو جاؤ۔ جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت کی چھاؤں ہو گی وہ تمہیں تمہارے دشمن کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرمائے گا۔ پس یہ لوگ موقعہ پا کر یہاں سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے۔ بادشاہ اور قوم نے ہر چند ان کی تلاش کی، لیکن کوئی پتہ نہ چلا اللہ نے ان کے غار کو اندھیرے میں چھپا دیا۔ دیکھئے یہی بلکہ اس سے بہت زیادہ تعجب خیز واقعہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیش آیا۔ آپ مع اپنے رفیق خاص یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غار ثور میں جا چھپے مشرکین نے بہت کچھ دوڑ دھوپ کی، تگ و دو میں کوئی کمی نہ کی، لیکن حضرت صلی اللہ علیہ و سلم انہیں پوری تلاش اور سخت کوشش کے باوجود نہ ملے، اللہ نے ان کی بینائی چھین لی، آس پاس سے گزرتے تھے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے، حضرت صلی اللہ علیہ و سلم اگر کسی نے اپنے پیر کی طرف بھی نظر ڈال لی تو ہم دیکھ لئے جائیں گے آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ ابوبکر ان دو کے ساتھ تیرا کیا خیال ہے، جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اگر تم میرے نبی کی امداد نہ کرو تو کیا ہوا ؟ جب کافروں نے اسے نکال دیا، میں نے خود اس امداد کی جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے سکون اس پر نازل فرمایا اور ایسے لشکر سے اس کی مدد کی جسے تم نہ دیکھ سکتے تھے آخر اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور اپنا کلمہ بلند فرمایا۔ اللہ عزت و حکمت والا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر اور انوکھا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان نوجوانوں کو قوم اور بادشاہ نے پا لیا جب غار میں انہیں دیکھ لیا تو بس کہا بس ہم تو خود ہی چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اس کا منہ ایک دیوار سے بند کر دیا کہ یہیں مر جائیں لیکن یہ قول تامل طلب ہے قرآن کا فرمان ہے کہ صبح شام ان پر دھوپ آتی جاتی ہے وغیرہ واللہ اعلم۔
یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس غار کا منہ شمال رخ ہے۔ سورج کے طلوع کے وقت ان کے دائیں جانب دھوپ کی چھاؤں جھک جاتی ہے پس دوپہر کے وقت وہاں بالکل دھوپ نہیں رہتی۔ سورج کی بلندی کے ساتھ ہی ایسی جگہ سے شعاعیں دھوپ کی کم ہوتی جاتی ہیں اور سورج کے ڈوبنے کے وقت دھوپ ان کے غار کی طرف اس کے دروازے کے شمال رخ سے جاتی ہے مشرق جانب سے۔ علم ہیئت کے جاننے والے اسے خوب سمجھ سکتے ہیں۔ جنہیں سورج چاند اور ستاروں کی چال کا علم ہے۔ اگر غار کا دروازہ مشرق رخ ہوتا تو سورج کے غروب کے وقت وہاں دھوپ بالکل نہ جاتی اور اگر قبلہ رخ ہوتا تو سورج کے طلوع کے وقت دھوپ نہ پہنچتی اور نہ غروب کے وقت پہنچتی اور نہ سایہ دائیں بائیں جھکتا اور اگر دروازہ مغرب رخ ہوتا تو بھی سورج نکلنے کے وقت اندر دھوپ نہ جا سکتی بلکہ زوال کے بعد اندر پہنچتی اور پھر برابر مغرب تک رہتی۔ پس ٹھیک بات وہی ہے جو ہم بیان کی فللہ الحمد تقرضہم کے معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترک کرنے اور چھوڑ دینے کے کئے لئے ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں، نہ اس سے کسی شرعی مقصد کا حصول ہوتا ہے۔ پھر بھی بعض مفسرین نے اس میں تکلیف اٹھائی ہے کوئی کہتا ہے وہ ایلہ کے قریب ہی کوئی کہتا ہے نینویٰ کے پاس ہے کوئی کہتا ہے، روم میں ہے کوئی کہتا ہے بلقا میں ہے۔ اصل علم اللہ ہی کو ہے وہ کہاں ہے اگر اس میں کوئی دینی مصلحت یا ہمارا کوئی مذہبی فائدہ تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں بتا دیتا اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی بیان کرا دیتا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ تمہیں جو جو کام اور چیزیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی تھیں ان میں سے ایک بھی ترک کئے بغیر میں نے بتا دی ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان فرما دی اور اس کی جگہ نہیں بتائی۔ فرما دیا کہ سورج کے طلوع کے وقت ان کے غار سے وہ دائیں جانب جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت انہیں بائیں طرف چھوڑ دیتا ہے، وہ اس سے فراخی میں ہیں، انہیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے جل جاتے یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب انہیں اس غار میں پہنچایا جہاں انہیں زندہ رکھا دھوپ بھی پہنچے ہوا بھی جائے چاندنی بھی رہے تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ نقصان پہنچے۔ فی الواقع اللہ کر طرف سے یہ بھی کامل نشان قدرت ہے۔ ان نوجوانوں موحدوں کی ہدایت خود اللہ نے کی تھی، یہ راہ راست پا چکے تھے کسی نکے بس میں نہ تھا کہ انہیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا ہادی کوئی نہیں۔
یہ سورہے ہیں لیکن دیکھنے والا انہیں بیدار سمجھتا ہے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ مذکور ہے کہ بھیڑیا جب سوتا ہے تو ایک آنکھ بند رکھتا ہے، ایک کھلی ہوتی ہے پھر اسے بند کر کے اسے کھول دیتا ہے چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں اور دشمنوں سے بچانے کے لئے تو اللہ نے نیند میں بھی ان کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور زمین نہ کھا جائے، کروٹیں گل نہ جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں کروٹیں بدلوا دیتا ہے، کہتے ہیں سال بھر میں دو مرتبہ کروٹ بدلتے ہیں۔ ان کا کتا بھی انگنائی میں دروازے کے پاس مٹی میں چوکھٹ کے قریب بطور پہریدار کے بازو زمین پر ٹکائے ہوئے بیٹھا ہوا ہے دروازے کے باہر اس لئے ہے کہ جس گھر میں کتا تصویر جنبی اور کافر شخص ہو اس گھر میں فرشتے نہیں جاتے۔ جیسے کہ ایک حصن حدیث میں وارد ہوا ہے۔ اس کتے کو بھی اسی حالت میں نیند آ گئی ہے۔ سچ ہے بھلے لوگوں کی صحبت بھی بھلائی پیدا کرتی ہے دیکھئے نا اس کتے کی کتنی شان ہو گئی کہ کلام اللہ میں اس کا ذکر آیا۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کا یہ شکاری کتا پلا ہوا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بادشاہ کے باورچی کا یہ کتا تھا۔ چونکہ وہ بھی ان کے ہم مسلک تھے۔ ان کے ساتھ ہجرت میں تھے۔ ان کا کتا ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ واللہ اعلم۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو مینڈھا ذبح ہوا اس کا نام جریر تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جس ہدہد نے ملکہ سبا کی خبر دی تھی اس کا نام عنفر تھا اور اصحاب کہف کے اس کتے کا نام قطیر تھا اور بنی اسرائیل نے جس بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی اس کا نام مہموت تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام بہشت بریں سے ہند میں اترے تھے، حضرت حواجدہ میں ابلیس دشت بیسان میں اور سانپ اصفہان میں۔ ایک قول ہے کہ اس کتے کا نام حمران تھا۔ نیز اس کتے کے رنگ میں بھی بہت سے اقوال ہیں، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اس سے کیا نتیجہ ؟ کیا فائدہ ؟ کیا ضرورت ؟ بلکہ عجب نہیں کہ ایسی بحثیں ممنوع ہوں۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھیں بند کر کے پتھر پھینکنا ہے بے دلیل زبان کھولنا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں وہ رعب دیا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا یہ اس لئے کہ لوگ ان کا تماشہ نہ بنا لیں کوئی جران کر کے ان کے پاس نہ چلا جائے کوئی انہیں ہاتھ نہ لگا سکے وہ آرام اور چین سے جب تک حکمت الہی متقضی ہے با آرام سوتے رہیں۔ جو انہیں دیکھتا ہے مارے رعب کے کلیجہ تھر تھرا جاتا ہے۔ اسی وقت الٹے پیروں واپس لوٹتا ہے، انہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی ہر ایک کے لئے محال ہے۔
ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا۔ تین سونو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے۔ جیسے سوتے وقت تھے، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے۔ کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لئے انہیں یہی خیال ہوا۔ لیکن پھر خودا نہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لئے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی۔ دام ان کے پاس تھے۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے۔ کچھ موجود تھے۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت ولو لا فضل اللہ علیکم و رحمۃ مازکی منکم من احدا بدا یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے قد افلح من تزکی وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لئے کا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں زکا الزرع اور جیسے شاعر کا قول ہے
پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لئے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہئے، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگھ کی خبر پاگئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں۔ اگر تم ان کے دین میں جاملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لئے محال ہو جائے گا۔
ارشاد ہم کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کر دیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہو جائے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی، جسم کا اعادہ نہ ہو گا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کر دی ہے اور عنی دلیل دے دی۔ مذکور ہے کہ جب ان میں سے ایک صاحب دام لے کر سودا خریدنے کو غار سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کی دیکھی ہوئی ایک چیز نہیں سارا نقشہ بدلا ہوا ہے اس شہر کا نام افسوس تھا زمانے گزر چکے تھے، بستیاں بدل چکی تھیں، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن گزار ہے یہاں انقلاب زمانہ اور کا اور ہو چکا ہے جیسے کسی نے کہا ہے۔
گھر کو انہیں جیسے ہیں لیکن قبیلے کے لوگ اور ہی ہیں اس نے دیکھا کہ نہ تو شہر کوئی چیز اپنے حال پر ہے، نہ شہر کا کوئی بھی رہنے والا جان پہچان کاہے نہ یہ کسی کو جانیں نہ انہیں اور کوئی پہچانے۔ تمام عام خاص اور ہی ہیں۔ یہ اپنے دل میں حیران تھا۔ دماغ چکرا رہا تھا کہ کل شام ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئے ہیں۔ یہ دفعتاً ہو کیا گیا؟ ہر چند سوچتا تھا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ آخر خیال کرنے لگا کہ شاید میں مجنوں ہو گیا ہوں یا میرے حواس ٹھکانے نہیں رہے یا مجھے کوئی مرض لگ گیا ہے یا میں خواب میں ہوں۔ لیکن فورا ہی یہ خیالات ہٹ گئے مگر کسی بات پر تسلی نہ ہو سکی اس لئے ارادہ کر لیا کہ مجھے سودا لے کر اس شہر کو جلد چھوڑ دینا چاہئے۔ ایک دکان پر جا کر اسے دام دئیے اور سودا کھانے پینے کا طلب کیا۔ اس نے اس سکے کو دیکھ کر سخت تر تعجب کا اظہار کیا اپنے پڑوسی کو دیا کہ دیکھنا یہ سکہ کیا ہے کب کا ہے ؟ کسی زمانے کا ہے ؟ اس نے دوسرے کو دیا اس سے کسی اور نے دیکھنے کو مانگ لیا الغرض وہ تو ایک تماشہ بن گیا ہر زبان سے یہی نکلنے لگا کہ اس نے کسی پرانے زمانے کا خزانہ پایا ہے، اس میں سے یہ لایا ہے اس سے پوچھو یہ کہاں کا ہے ؟ کون ہم ؟ یہ سکہ کہاں سے پایا ؟ چنانچہ لوگوں نے اسے گھیر لیا مجمع لگا کر کھڑے ہو گئے اور اوپر تلے ٹیڑھے ترچھے سوالات شروع کر دئے۔ اس نے کہا میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں، کل شام کو میں یہاں سے گیا ہوں، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے۔ اب تو سب نے قہقہہ لگا کر کہا بھئی یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا اس سے سوالات ہوئے اس نے تمام حال کہہ سنایا اب ایک طرف بادشاہ اور دوسرے سب لوگ متحیر ایک طرف سے خودششدروحیران۔ آخر سب لوگ ان کے ساتھ ہوئے۔ اچھا ہمیں اپنے اور ساتھی دکھاؤ اور اپنا غار بھی دکھا دو۔ یہ انہیں لے کر چلے غار کے پاس پہنچ کر کہا تم ذرا ٹھیرو میں پہلے انہیں جا کر خبر کر دوں۔ ان کے الگ ہٹتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر بے خبری کے پردے ڈال دئے۔ انہیں نہ معلو ہو سکا کہ وہ کہاں گیا ؟ اللہ نے پھر اس راز کو مخفی کر لیا۔ ایک روایت یہ بھی آئی ہے کہ یہ لوگ مع بادشاہ کے گئے، ان سے ملے، سلام علیک ہوئی، بغلگیر ہوئے، یہ بادشاہ خود مسلمان تھا۔ اس کا نام تندوسیس تھا، اصحاب کہف ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور محبت وانسیت سے لے جلے، باتیں کیں، پھر واپس جا کر اپنی اپنی جگہ لیٹے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کر لیا، رحمہم اللہ اجمعین واللہ اعلم۔
کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حبیب بن مسلمہ کے ساتھ ایک غزوں میں تھے، وہاں انہوں نے روم کے شہروں میں ایک غار دیکھا، جس میں ہڈیاں تھیں، لوگوں نے کہا یہ ہڈیاں اصحاب کہف کی ہیں، آپ نے فرمایا تین سو سال گزر چکے کہ ان کی ہڈیاں کھوکھلی ہو کر مٹی ہو گئیں (ان جریر) پس فرماتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں انوکھی طرز پر سلایا اور بالکل انوکھے طور پر جگایا، اسی طرح بالکل نرالے طرز پر اہل شہر کو ان کے حالات سے مطلع فرمایا تاکہ انہیں اللہ کے وعدوں کی حقانیت کا علم ہو جائے اور قیامت کے ہونے میں اور اس کے برحق ہونے میں انہیں کوئی شک نہ رہے۔ اس وقت وہ آپس میں سخت مختلف تھے، لڑ جھگڑ رہے تھے، بعض قیامت کے قائل تھے، بعض منکر تھے، پس اصحاب کہف کا ظہور منکروں پر حجت اور ماننے والوں کے لئے دلیل بن گیا۔ اب اس بستی والوں کا ارادہ ہوا کہ ان کے غار کا منہ بند کر دیا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جنہیں سرداری حاصل تھی انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم تو ان کے اردگرد مسجد بنا لیں گے امام ابن جریر ان لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کرتے ہیں ایک یہ کہ ان میں سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا۔ وللہ اعلم۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسکے قائل کلمہ گو تھے، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ کہنا اچھا تھا یا برا؟ تو اس بارے میں صاف حدیث موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور اولیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں جو انہوں نے کیا اس سے آپ اپنی امت کو بچانا چاہتے تھے۔ اسی لئے امیر ا لمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب حضرت دانیال کی قبر عراق میں پائی توحکم فرمایا کہ اسے پوشیدہ کر دیا جائے اور جو رقعہ ملا ہے جس میں بعض لڑائیوں وغیرہ کا ذکر ہے اسے دفن کر دیا جائے۔
لوگ اصحاب کہف کی گنتی میں گچھ کا کچھ کہا کرتے تھے تین قسم کے لوگ تھے چوتھی گنتی بیان نہیں فرمائی۔ دو پہلے کے اقوال کو تو ضعیف کر دیا کہ یہ اٹکل کے تکے ہیں، بے نشانے کے پتھر ہیں، کہ اگر کہیں لگ جائیں تو کمال نہیں نہ لگیں تو زوال نہیں، ہاں تیسرا قول بیان فرما کر سکوت اختیار فرمایا ترید نہیں کی یعنی سات وہ آٹھواں ان کا کتا اس سے تو معوم ہوتا ہے کہ یہی بات صحیح اور واقع میں یونہی ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بہتر یہی ہے کہ علم اللہ کی طرف اسے لوٹا دیا جائے ایسی باتوں میں کوئی صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے غور و خوض کرنا عبث ہے، جس بات کا علم ہو جائے منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ اس گنتی کا صحیح علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں انہیں میں سے ہوں، میں جانتا ہوں وہ سات تھے۔ حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور یہی ہم نے پہلے لکھا تھا۔ ان میں کے بعض تو بہت ہی کم عمر تھے۔ عنفوان شباب میں تھے یہ لوگ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے، روتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے رہتے تھے۔ مروی ہے کہ یہ تو نو تھم ان میں سے جو سب سے بڑے تھے ان کا نام مکسلمین تھا اسی نے بادشاہ سے باتیں کی تھیں اور اسے اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دی تھی۔ باقی کے نام یہ ہیں فحستلمین، تملیخ، مطونس، کشطونس، بیرونس، دنیموس، بطونس اور قابوس۔ ہاں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت یہی ہے کہ یہ سات شخص تھے آیت کے ظاہری الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ شعیب جبائی کہتے ہیں ان کے کتے کا نام حمران تھا لیکن ان ناموں کی صحت میں نظر ہے واللہ اعلم۔ ان میں کی بہت سی چیزیں اہل کتاب سے لی ہوئی ہیں۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں یہ ایک نہایت ہی ہلکا کام ہے جس میں کوئی بڑا فائدہ نہیں اور نہ ان کے بارے میں کسی سے دریافت کیجئے، کیونکہ عموماً وہ اپنے دل سے جوڑ کر کہتے ہیں کوئی صحیح اور سچی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے، جو کچھ آپ کے سامنے بیان فرمایا ہے، یہ جھوٹ سے پاک ہے، شک شبہ سے دور ہے، قابل ایمان ویقین ہے، بس یہی حق ہے اور سب سے مقدم ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہو گا ؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے۔ اس کی مدد طلب کر لیا کرو۔ بخاری و سلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں۔ ایک میں ہے بہتر (٧٢) تھیں تو آپ نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہو گا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اس وقت فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ۔ مگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ کہا، اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی وہ بھی آدھے جسم کا تھا۔ انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہو جاتی۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے۔ اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہو چکا ہے کہ جب آپ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا۔ انشاء اللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر یعنی انشاء اللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی انشاء اللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہو چکا ہو۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار رہے۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ ں م بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے اسی پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام محمول کیا جا سکتا ہے ان سے اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد انشاء اللہ کہنا بھول جانا ہے۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر انشاء اللہ کہے تو معتبر ہے۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الٰہی یاد کا ذریعہ ہے۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایس بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت لیا کرو اور اس کر طرف توجہ کرتا کہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں۔ واللہ اعلم۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھے۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کر فرق پڑتا ہے، اسی لئے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے۔
پھر فرماتا ہے کہ جب تجھ سے ان کے سونے کی مدت دریافت کی جائے اور تیرے پاس اسکا کچھ علم نہ ہو اور نہ اللہ نے تجھے واقف کیا ہو تو تو آگے نہ بڑھ اور ایسے امور میں یہ جواب دیا کر کہ اللہ ہی کو صحیح علم ہے، آسمان اور زمین کا غیب وہی جانتا ہے، ہاں جسے وہ جو بات بتا دے وہ جان لیتا ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو سال ٹھیرے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی معنی کی قرات مروی ہے۔ لیکن قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول تامل طلب ہے اس لئے کہ اہل کتاب کے ہاں شمسی سال کا رواج ہے اور وہ تین سو سال مانتے ہیں تین سو نو کا ان کا قول تامل نہیں، اگر ان ہی کا قول نقل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اور نو سال زیادہ کئے۔ بظاہر تو یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہا ہے نہ کہ کسی کا قول بیان فرماتا ہے، یہی اختیار امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرات دونوں منقطع ہیں۔ پھر شاذ بھی ہیں، جمہور کی قرات وہی ہے جو قرآنوں میں ہے پس وہ شاذ دلیل کے قابل نہیں۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کی آواز کو خوب سن رہا ہے، ان الفاظ میں تعریف کا مبالغہ ہے، ان دونوں لفظوں میں مدح کا مبالغہ ہے یعنی وہ خوب دیکھنے سننے والا ہے۔ ہر موجود چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو سن رہا ہے کوئی کام کوئی کلام اس سے مخفی نہیں، کوئی اس سے زیادہ سننے دیکھنے والا نہیں۔ سب کے علم دیکھ رہا ہے، سب کی باتیں سن رہا ہے، خلق کا خالق، امر کا مالک، وہی ہے۔ کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا ہے۔ اس کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں نہ کوئی شریک اور مشیر ہے وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے، تمام نقائص سے دور ہے۔
اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے، نہ ادھر ادھر کر سکے، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا۔ اور آیت میں ہے ان الذین فرض الخ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا۔ اور آیت میں ہے ولا تطرد الذین یدعون ربہم الخ یعنی صبح شام یاد الٰہی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ غریب غرباء حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے سعد بن ابی وقاص، ابن مسعود، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص، بلال اور دو آدمی اور اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت ولا تطرد الذین اتری۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے وہ خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا جاؤں، یہ مجھ چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھ آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوں ہزار کی ہوئی۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واللہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں۔ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آئے ایک صاحب سورہ کہف کی قرات کر رہے تھے آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے، جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الٰہی ہوا ہے اور روایت میں ہے کہ یا تو سورہ حج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورہ کہف کی۔ مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لئے جو مجلس جمع ہو نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں۔ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری آپ اپنے کسی گھر میں تھے، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا، جن کے بال بکھرے ہوئے تھے، کھالیں خشک تھیں، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا، فورا ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے۔ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں، جو عبادت سے دور ہیں، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں، جن کے اعمال حماقت کے ہیں تو ان کی پیروی نہ کرنا ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا، ان کی نعمتیں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا۔ جیسے فرمان ہے ولا تمدن عینیک الخ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لئے ہے۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے۔
جو کچھ میں اپنے رب کے پاس سے لایا ہوں وہی حق صدق اور سچائی ہے شک شبہ سے بالکل خالی۔ اب جس کا جی چاہے مانے نہ چاہے نہ مانے۔ نہ ماننے والوں کے لئے آگ جہنم تیار ہے، جس کی چاردیواری کے جیل خانے میں یہ بے بس ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی چاردیواری کی وسعت چالیس چالیس سال کی راہ کی ہے (مسند احمد) اور خود وہ دیواریں بھی آگ کی ہیں۔ اور روایت میں ہے سمندر بھی جہنم ہے پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا واللہ نہ اس میں جاؤں جب تک بھی زندہ رہوں اور نہ اس کا کوئی قطرہ مجھے پہنچے۔ مہل کہتے ہیں غلیظ پانی کو جیسے زیتونکے تیل کی تلچھٹ اور جیسے خون اور پیپ جو بے حد گرم ہو۔ حضرت ابن مسعود نے ایک مرتبہ سونا پگھلایا جب وہ پانی جیسا ہو گیا اور جوش مارنے لگا فرمایا مھل کی مشابہت اس میں ہے جہنم کا پانی بھی سیاہ ہے، وہ خود بھی سیاہ ہے، جہنمی بھی سیاہ ہیں۔ مھل سیاہ رنگ، بدبو دار، غلیظ گندی، سخت گرم چیز ہے، چہرے کے پاس جاتے ہی کھال جھلس کر اس میں آ پڑے گی۔ قرآن میں ہے وہ پیپ پلائے جائیں گے بمشکل ان کے حلق سے اترے گی۔ چہرے کے پاس آتے ہی کھال جل کر گر پڑے گی پیتے ہی آنتیں کٹ جائیں گی انک ہائے وائے شور غل پر یہ پانی انکو پینے کو دیا جائے گا۔ بھوک کی شکایت پر زقوم کا درخت دیا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اس طرح جسم چھوڑ کر اتر جائیں گی کہ ان کے پہچاننے والا ان کھالوں کو دیکھ کر بھی پہچان لے، پھر پیاس کی شکایت پر سخت گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا جو منہ کے پس پہنچتے ہی تمام گوشت کو بھون ڈالے گا۔ ہائے کیا برا پانی ہے یہ وہ گرم پانی پلایا جائے گا، انکا ٹھکانہ انکی منزل انکا گھر انکی آرام گاہ بھی نہایت بری ہے۔ جیسے اور آیت میں انہا سائت مستقراء مقاما وہ بڑی جگہ اور بے حد کٹھن منزل ہے۔
اوپر برے لوگوں کا حال اور انجام بیان فرمایا، اب نیکوں کا آغاز و انجام بیان ہو رہا ہے۔ یہ اللہ، رسول اور کتاب کے ماننے والے نیک عمل کرنے والے ہوتے ہیں ان کے لئے ہمیشہ والی دائمی جنتیں ہیں، ان کے بالاخانوں کے اور باغات کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں۔ انہیں زیورات خصوصاً سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ان کا لباس وہاں خالص ریشم کا ہو گا، نرم باریک اور نرم موٹے ریشم کا لباس ہو گا، یہ باآرام، شاہانہ شان سے مسندوں پر جو تختوں پر ہوں گے، تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ کہا گیا ہے کہ لیٹنے اور چار زانوں بیٹھنے کا نام بھی یہی قول ہیں ارایک جمع ہے اریکہ کی تخت چھپر کھٹ وغیرہ کو کہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کتنی ہی اچھی اور آرام دہ جگہ ہے برخلاف دوزخیوں کے کہ ان کے لیے بری سزا اور بری جگہ ہے۔ سورہ فرقان میں بھی انہیں دونوں گروہ کا اسی طرح مقابلہ کا بیان ہے۔
چونکہ اوپر مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا یہاں ان کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک مالدار تھا، انگوروں کے باغ، اردگرد کھجوروں کے درخت، درمیان میں کھیتی، درخت پھلدار، بییں ہر ی، کھیتی سرسبز، پھل پھول بھر پور، کس یقسم کا نقصان نہیں ادھر ادھر نہریں جاری تھیں۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود، مالدار شخص۔ اس کی دوسری قرات ثمر بھی ہے یہ جمع ہے ثمرۃ کی جیسے خشبۃ کی جمع خشب۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک دوست سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہ میں مال میں، عزت و اولاد میں، جاہ و حشم میں، نوکر چا کر میں، تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں۔ یہ اپنے باغ میں گیا اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا یعنی تکبر اکڑ انکار قیامت اور کفر کرتا ہوا۔ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے میری یہ لہلہاتی کھیتیاں، یہ پھلدار درخت، یہ جاری نہریں، یہ سرسبز بیلیں، کبھی فنا ہو جائیں۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی بے ایمانی اور دنیا کی خر مستی اور اللہ کے ساتھ کفر کی وجہ تھی۔ اسی لئے کہہ رہا ہے کہ میرے خیال سے تو قیامت آنے والی نہیں۔ اور اگر بالفرض آئی تھی تو ظاہر ہے کہ اللہ کا میں پارا ہوں ورنہ وہ مجھے اس قدر مال و متاع کیسے دے دیتا ؟ تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا فرمائے گا۔ جیسے اور آیت میں ہے ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی اگر میں لوٹا یا گیا تو وہاں میرے لئے اور اچھائی ہو گئی۔ اور آیت میں ارشاد ہے افرایت الذین کفر بایاتنا وقال لا وتین مالا و ولدا یعنی تو نے اسے بھی دیکھا جو تو کر رہا ہے ہماری آیتوں سے کفر اور باوجود اس کے اس کی تمنا یہ ہے کہ مجھے قیامت کے دن بہی بکثرت مال و اولاد ملے گی، یہ اللہ کے سامنے دلیری کرتا ہے اور اللہ پر باتیں بناتا ہے اس آیت کا شان نزول عاص بن وائل ہے جیسے کہ اپنے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ۔
اس کا کافر مالدار کو جو جواب اس مومن مفلس نے دیا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح اس نے وعظ و پند کی ایمان و یقین کی ہدایت کی اور گمراہی اور غرور سے ہٹانا چاہا فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے انسانی پیدائشی مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل ملے جلے پانی سے جاری رکھی جیسے آیت کیف تکرفون باللہ الخ میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔ تم اس کی ذات کا، اس کی نعمتوں کا انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ اسکی نعمتوں کے، اس کی قدرتوں کے بے شمار نمونے خود تم میں اور تم پر موجود ہیں۔ کون نادان ایسا ہے جو نہ جانتا ہو کہ وہ پہلے کچھ نہ تھا اللہ نے اسے موجود کر دیا۔ وہ خود بخود اپنے ہونے پر قادرنہ تھا اللہ نے اس کا وجود پیدا کیا۔ پھر وہ انکار کے لائق کیسے ہو گیا ؟ اس کی توحید الوہیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ میں تو تیرے مقابلے میں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ میرا رب وہی اللہ وحدہٗ لا شریک لہ ہے میں اپنے رب کے ساتھ مشرک بننا نا پسند کرتا ہوں۔ پھر اپنے ساتھی کو نیک رغبت دلانے کے لئے کہتا ہے کہ اپنی لہلہاتی ہوئی کھیتی اور ہرے بھرے میووں سے لدے باغ کو دیکھ کر تو اللہ کا شکر کیوں نہیں کرتا ؟ کیوں ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ نہیں کہتا ؟ اسی آیت کو سامنے رکھ کر بعض سلف کا مقولہ ہے کہ جسے اپنی اولاد یا مال یا حال پسند آئے اسے یہ کلمہ پڑھ لینا چاہئے۔ ابو یعلی موصلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جس بندے پر اللہ اپنی کوئی نعمت انعام فرمائے اہل و عیال ہوں، دولت مندی ہو، پھر وہ اس کلمہ کو کہہ لے تو اس میں کوئی آنچ نہ آئے گی سوائے موت کے پھر آپ اس آیت کی تاویل کرتے۔ حافظ ابو الفتح کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کا ایک خزانہ بتا دوں ؟ وہ خزانہ لاحول قوۃ الا باللہ کہنا ہے۔ اور روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے اس بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے سپرد کر جیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا صرف لاحول نہیں بلکہ وہ جو سورہ کہف میں ہے ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔ پھر فرمایا کہ اس نیک شخص نے کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ مجھے آخرت کے دن اس سے بہتر نعمتیں عطا فرمائے اور تیرے اس باغ کو جسے تو ہمیشگی والا سمجھے بیٹھا ہے تباہ کر دے۔ آسمان سے پر عذاب بھیج دے۔ زور کی بارش آندھی کے ساتھ آئے۔ تمام کھیت اور باغ اجڑ جائیں۔ سوکھی صاف زمین رہ جائے گویا کہ کبھی یہاں کوئی چیز اگی ہی نہ تھی۔ یا اس کی نہروں کا پانی دھنسا دے۔ غور مصدر ہے معنی میں غائر کے بطور مبالغے کے لایا گیا ہے۔
اس کا کل مال کل پھل غارت ہو گیا وہ مومن اسے جس بات سے ڈرا رہا تھا وہی ہو کر رہی اب تو وہ اپنے مال کی بربادی پر کف افسوس ملنے لگا اور آرزو کرنے لگا کہ اے کاش کہ میں اللہ کے ساتھ مشرک نہ بنتا۔ جن پر فخر کرتا تھا ان میں سے کوئی اس وقت کام نہ آیا، فرزند قبیلہ سب رہ گیا۔ فکر و غرور سب مٹ گیا نہ اور کوئی کھڑا ہوا نہ خود میں ہی کوئی ہمت ہوئی۔ بعض لوگ ھنالک پر وقف کرتے ہیں اور اسے پہلے جملے کے ساتھ ملا لیتے ہیں یعنی وہاں وہ انتقام نہ لے سکا۔ اور بعض منتصرا پر آیت کر کے آگے سے نئے جملے کی ابتدا کرتے ہیں ولایۃ کی دوسری قرات ولایتہ بھی ہے۔ پہلی قرات پر مطلب یہ ہوا کہ ہر مومن و کافر اللہ ہی کا طرف رجوع کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں، عذاب کے وقت کوئی بھی سوائے اس کے کام نہیں آ سکتا جیسے فرمان ہے فلما راوا باسنا قالوا اسنا باللہ وحدہٗ الخ یعنی ہمارے عذاب دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لاتے ہیں اور اس سے پہلے جنہیں ہم شریک الٰہی ٹھیرایا کرتے تھے، ان سے انکار کرتے ہیں۔ اور جیسے کہ فرعون نے ڈوبتے وقت کہا تھا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں شامل ہوتا ہوں اس وقت جواب ملا کہ اب ایمان قبول کرتا ہے ؟ اس سے پہلے تو نا فرمان رہا اور مفسدوں میں شامل ہوتا ہوں اس وقت جواب ملا کہ اب ایمان قبول کرتا ہے ؟ اس سے پہلے تو نا فرمان رہا اور مفسدوں میں شامل رہا۔ واؤ کے کسر کی قرات پر یہ معنی ہوئے کہ وہاں حکم صحیح طور پر اللہ ہی کے لئے ہے۔ للہ الحق کی دوسری قرات قاف کے پیش سے بھی ہے کیونکہ یہ الولایۃ کی صفت ہے جیسے فرمان ہے الملک یومئذن الحق للرحمن الخ میں ہے بعض لوگ قاف کا کے زیر پڑھتے ہیں ان کے نزدیک یہ صفت ہے حق تعالیٰ کی۔ جیسے اور آیت میں ہے ثم ردوا الی اللہ مولاہم الحق الخ اسی لئے پھر فرماتا ہے کہ جو اعمال صرف اللہ ہی کے لئے ہوں ان کا ثواب بہت ہوتا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی وہ بہتر ہیں
دنیا اپنے زوال، فنا، خاتمے اور بردباری کے لحاظ سے مثل آسمانی بارش کے ہے جو زمین کے دانوں وغیرہ سے ملتا ہے اور ہزارہا پودے لہلہانے لگتے ہیں، تر و تازگی اور زندگی کے آثار ہر چیز ظاہر ہونے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے گزرتے ہی وہ سوکھ ساکھ کر چورا چورا ہو جاتے ہیں، اور ہوائیں انہیں دائیں بائیں اڑائے پھرتی ہیں۔ اس حالت پر اللہ قادر تھا وہ اس حالت پر بھی قادر ہے۔ عموماً دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی جاتی ہے جیسے سورہ حدید کی آیت الحیاۃ الدنیا الخ میں اور جیسے سورہ زمر کی آیت الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء الخ میں۔ جیسے سورہ حدید کی آیت اعلمو انما الحیاۃ الدنیا الخ میں صحیح حدیث میں بھی ہے۔ دنیا سبز رنگ میٹھی ہے الخ پھر فرماتا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں جیسے فرمایا ہے زین للناس حب الشھوات الخ انسان کے لئے خواہشوں کی محبت مثلاً عورتیں بیٹے خزانے وغیرمزین کر دی گئی ہیں۔ اور آیت میں ہے انما اموالکم واولادکم فتنتہ الخ تمہارے مال تمہاری اولادیں فتنہ ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔ یعنی اس کی طرف جھکنا اس کی عبادت میں مشغول رہنا دنیا طلبی سے بہتر ہے اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ باقیات صالحات ہر لحاظ سے عمدہ چیز ہے۔ مثلاً پانچوں وقت کی نمازیں اور سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔
اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ اور الحمد اللہ اور اللہ اکبر اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی عظیم۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو موذن پہنچا آپ نے پانی منگوایا ایک برتن میں قریب تین پاؤ کے پانی آیا، آپ نے وضو کر کے فرمایا حضور علیہ السلام نے اسی طرح وضو کر کے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کرے تو صبح سے لے کر ظہر تک کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر عصر میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو ظہر سے عصر تک کے تمام گناہ معاف، پھر مغرب کی نماز پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشا تک کے گناہ معاف پھر رات کو وہ سو رہا صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کی تو عشا سے لے کے صبح تک کے گناہ معاف۔ یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ لوگوں نے پوچھا یہ تو ہوئیں نیکیاں اب اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ بتلائیے کہ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ والحمد اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں باقیات صالحات یہ ہیں سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد عمارہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بتاؤ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نماز اور روزہ۔ آپ نے فرمایا تم نے صحیح جواب نہیں دیا انہوں نے کہا زکوٰۃ اور حج فرمایا ابھی جواب ٹھیک نہیں ہوا سنو وہ پانچ کلمے ہیں لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے بجز الحمد للہ کے اور چار کلمات بتلائے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بجز لا حول کے اور چاروں کلمات بتلاتے ہیں۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ اور قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ بھی ان ہی چاروں کلمات کو باقیات صالحات بتلاتے ہیں۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ والحمد للہ والا لاہ الا اللہ واللہ اکبر یہ ہیں باقیات صالحات۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم باقیات صالحات کی کثرت کرو پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا ملت، پوچھا گیا وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا تکبیر تہلیل تسبیح اور الحمد للہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ (احمد) سالم بن عبد اللہ کے مولی عبد اللہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن کعب قریظی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی کام کے لئے بھیجا تو انہوں نے کہا سالم سے کہہ دینا کہ فلان قبر کے پاس کے کونے میں مجھ سے ملاقات کریں۔ مجھے ان سے کچھ کام ہے چنانچہ دونوں کی وہاں ملاقات ہوئی سلام علیک ہوا تو سالم نے پوچھا کچھ کے نزدیک باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اور سبحان اللہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ سالم نے کہا یہ آخری کلمہ آپ نے اس میں کب سے بڑھایا ؟ قرظی نے کہا میں تو ہمیشہ سے اس کلمے کو شمار کرتا ہوں دو تین بار یہی سوال جواب ہوا تو حضرت محمد بن کعب نے فرمایا کیا تمہیں اس کلے سے انکار ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انکار ہے۔ کہا سنو میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے جب مجھے معراج کرائی گئی میں نے آسمان پر حضرت ابراہیم کو دیکھا، آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں انہوں نے مجھے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ آپ اپنی امت سے فرما دیجئے کہ وہ جنت میں اپنے لئے کچھ باغات لگا لیں اس کی مٹی پاک ہے، اس کی زمین کشادہ ہے۔ میں نے پوچھا وہاں باغات لگانے کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ بکثرت پڑھیں۔ مسند احمد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات عشا کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے آسمان کی طرف دیکھ کر نظریں نیچی کر لیں ہمیں خیال ہوا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہوئی ہے پھر آپ نے فرمایا میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ لوگو سن رکھو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر یہ باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔ مسند میں ہے آپ نے فرمایا واہ واہ پانچ کلمات ہیں اور نیکی کی ترازو میں بے حد وزنی ہیں لا الہ اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ اور وہ بچہ جس کے انتقال پر اس کا باپ طلب اجر کے لئے صبر کرے۔ واہ واہ پانچ چیزیں ہیں جو ان کا یقین رکھتا ہو اللہ سے ملاقات کرے وہ قطعاً جنتی ہے۔ اللہ پر، قیامت کے دن پر، جنت دوزخ پر، مرنے کے بعد کے جی اٹھنے پر اور حساب پر ایمان رکھے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سفر میں تھے کسی جگہ اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں میں نے اس وقت کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے فرمایا واقعی میں نے غلطی کی سنو اسلام لانے کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کوئی کلمہ اپنی زبان سے ایسا نہیں نکالا جو میرے لئے لگام بن جائے، بجز اس ایک کلمے کے پس تم لوگ اسے یاد سے بھلا دو اور اب جو میں کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ جب لوگ سونے چاندی کے جمع کرنے میں لگ جائیں تم اس وقت ان کلمات کو بکثرت پڑھا کرو۔ اللہم انی اسألک الثبات فی الامر والعز یمۃ علی الرشد واسألک شکر نعمتک واسألک حسن عبادتک واسالک قلبا سلیما واسألک لساناصادقا واسألک من خیر ما تعلم واعوذبک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب یعنی اے اللہ میں تجھ سے اپنے کام کی ثابت قدمی اور نیکی کے کام کا پورا قصد اور تیری نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق طلب کرتا ہوں اور تجھ سے دعا ہے کہ تو مجھے سلامتی والا دل اور سچی زبان عطا فرما تیرے علم میں جو بھلائی ہے میں اس کا خواستگار ہوں اور تیرے علم میں جو برائی ہے، میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ پروردگار ہر اس برائی سے میری توبہ ہے جو تیرے علم میں ہو بے شک غیب داں صرف تو ہی ہے۔ حضرت سعید بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل طائف میں سے سب سے پہلے میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں اپنے گھر سے صبح ہی صبح چل کھڑا ہوا اور عصر کے وقت منی میں پہنچ گیا، پہاڑ پر چڑھا، پھر اترا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا، اسلام قبول کیا، آپ نے مجھے سورہ قل ھو اللہ احد اور سورہ اذا زلزلت سکھائی اور یہ کلمات تعلیم فرمائے۔ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ فرمایا یہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں۔ اس سند سے مروی ہے کہ جو شخص رات کو اٹھے وضو کرے کلی کرے پھر سو سو بار سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں بجز قتل وخون کے کہ وہ معاف ہو جاتے ہیں بجز قتل و خون کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں باقیات صالحات ذکر اللہ ہے اور لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ تبارک اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ واستغفر اللہ وصلی اللہ علی رسول اللہ ہے اور روزہ نماز حج صدقہ غلاموں کی آزادی جہاد صلہ رحمی اور کل نیکیاں یہ سب باقیات صالحات ہیں جن کا ثواب جنت والوں کو جب تک آسمان و زمین ہیں ملتا رہتا ہے۔ فرماتے ہیں پاکیزہ کلام بھی اسی میں داخل ہے حضرت عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کل اعمال صالحہ اسی میں داخل ہیں۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے مختار بتلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے ان کا ذکر کر رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گے گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے۔ آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی۔ کوئی درخت پتھر گھانس پھونس دکھائی نہ دے گا تمام اول وآخر کے لوگ جمع ہوں گے کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے، اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے۔ تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے۔ نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بہی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے، ایک میدان میں منزل کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی، کوئی کوڑا، کوئی گھانس پھونس مل جائے لے آؤ ہم سب ادھر ادھر ہو گئے چپٹیاں، چھال، لکڑی، پتے، کانٹے، درخت، جھاڑ، جھنکاڑ جو ملا لے آئے۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ نے فرمایا دیکھ رہے ہو ؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہم اللہ سے ڈرتے رہو، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں جو خیر و شر بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی اسے موجود پائے گا جیسے یوم تجد الخ اور آیت ینباء الانسان الخ اور آیت یوم تبلی الخ میں ہے تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہی ہر بد عہد کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہو جائے۔ اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا ای کی رانوں کے پاس ہو گا اور اعلان ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے۔ تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے ہاں البتہ درگزر کرنا، معاف فرما دینا، عفو کرنا، یہ اس کی صفت ہے۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے جہنم گنہگاروں اور نا فرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا نیکیوں کو بڑھاتا ہے گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے عدل کا ترازو اس دن سامنے ہو گا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہو گی، الخ۔
مسند احمد میں ہے حضرت جابر عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لئے ایک اونٹ خریدا سامان کس کر سفر کیا مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر دروازے پر ہے انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبد اللہ ؟ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں نے کہا جی ہاں۔ یہ سنتے ہیں، جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ گئے اور مجھے لپٹ گئے معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں اس لئے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کر دیا اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آ جائے اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا، ننگے بدن، بے ختنہ، بے سروسامان پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے فرمائے گا کہ میں مالک ہوں میں بدلے دلوانے والا ہوں کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہو سکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں، ننگے بدن، ننگے بدن، بے مال واسباب ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بے سینگ والی بکری کو اگر سینگوں دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا اس کے اور بھی بہت شاہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت ونضع الموازین القسط الخ کی تفسیر میں اور آیت الا امم امثالکم مافرطانا الخ کی تفسیر میں بیان کئے ہیں۔
بیان ہو رہا ہے کہ ابلیس تمہارا بلکہ تمہارے اصلی باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی قدیمی دشمن رہا ہے اپنے خالق مالک کو چھوڑ کر تمہیں اس کی بات نہ ماننی چاہئے اللہ کے احسان و اکرام اس کے لطف و کرم کو دیکھو کہ اسی نے تمہیں پیدا کیا پالا پوسا پھر اسے چھوڑ کر اس کے بلکہ اپنے بھی دشمن کو دوست بنانا کس قدر خطرناک غلطی ہے ؟ اس کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے تمام فرشتوں کو بطور ان کی تشریف، تعظیم اور تکریم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سب نے حکم برداری کی لیکن چونکہ ابلیس بد اصل تھا، آگ سے پیدا شدہ تھا، اس نے انکار کر دیا اور فاسق بن گیا۔ فرشتوں کی پیدائش نورانی تھی۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آ جاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو وہی ٹپکتا ہے۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضامندی میں دن رات مشغول تھا، اسی لئے ان کے خطاب میں یہ بھی آگیا لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آگیا، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی تیز آگ کے شعلے سے تھی۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا، جنتوں کا داروغہ تھا، آسمان دینا کا بادشاہ تھا، زمین کا بھی سلطان تھا، اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آگیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے۔ وہ گھمنڈ ظاہر ہو گیا ازروئے تکبر کے صاف انکا ردیا اور کافروں میں جا ملا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی مدنی بصری کوفی۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا لیکن زمین پر رہتا تھا۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا اسی وجہ سے پھول گیا تھا۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آگیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہو گیا۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہو سکتی ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا۔ سلف کے اور بھی اس بارے میں بہت سے آثار مروی ہیں لیکن یہ اکثر بیشتر بنی اسرائیلی ہیں صرف اس لئے نقل کئے گئے ہیں کہ نگاہ سے گزر جائیں۔ اللہ ہی کو ان کے اکثر کا صحیح حال معلوم ہے۔ ہاں بنی اسرائیل کی روایتیں وہ تو قطعاً قابل تردید ہیں جو ہمارے ہاں کے دلائل کے خلاف ہوں۔
بات یہ ہے کہ ہمیں تو قرآن کافی وافی ہے، ہمیں اگلی کتابوں کی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں، ہم ان سے محض بے نیاز ہیں۔ اس لئے کہ وہ تبدیل ترمیم کمی بیشی سے خالی نہیں، بہت سی بناوٹی چیزیں ان میں داخل ہو گئی ہیں اور ایسے لوگ ان میں نہیں پائے جاتے جو اعلیٰ درجہ کے حافظ ہوں کہ میل کچیل دور کر دیں، کھرا کھوٹا پرکھ لیں، زیادتی اور باطل کے ملانے والوں کی دال نہ گلنے دیں جیسے کہ اللہ رحمن نے اس امت میں اپنے فضل و کرم سے ایسے امام اور علماء اور سادات اور بزرگ اور متقی اور پاکباز اور حفاظ پیدا کئے ہیں جنہوں نے احادیث کو جمع کیا، تحریر کیا۔ صحیح، حسن، ضعیف، منکر، متروک، موضوع سب کو الگ الگ کر دکھایا یا گھڑنے والوں، بنانے والوں، جھوٹ بولنے والوں کو چھانٹ کر الگ کھڑا کر دیا تاکہ ختم المرسلین العالمین صلی اللہ علیہ و سلم کا پاک اور مبارک کلام محفوظ رہ سکے اور باطل سے بچ سکے اور کسی کا بس نہ چلے کہ آپ کے نام سے جھوٹ کو رواج دے لے اور باطل کو حق میں ملا دے۔ پس ہماری دعا ہے کہ اس کل طبقہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و رضا مندی نازل فرمائے اور ان سب سے خوش رہے آمین ! آمین! اللہ انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور یقیناً ان سے دوستی نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو۔ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا۔ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے سورہ یاسین میں قیامت، اس کی ہولناکیوں اور نیک وبد لوگوں کے نتیجوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اے مجرموں تم آج کے دن الگ ہو جاؤ، الخ۔
جنہیں تم اللہ کے سوا الہٰ بنائے ہوئے ہو وہ سب تم جیسے ہی میرے غلام ہیں۔
کسی چیز کی ملکیت انہیں حاصل نہیں۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں میں نے انہیں شامل نہیں رکھا تھا بلکہ اس وقت وہ موجود بھی نہ تھے تمام چیزوں کو صرف میں نے ہی پیدا کیا ہے۔ سب کی تدبیر صرف میرے ہی ہاتھ ہے۔ میرا کوئی شریک، وزیر، مشیر، نظیر، نہیں۔ جیسے اور آیت میں فرمایا قل ادعو االذین زعمتم من دون اللہ لا یملکون مثقال ذرۃ فی السموات ولا فی الارض الخ، جن جن کو تم اپنے گمان میں کچھ سمجھ رہے ہو سب کو ہی سوا اللہ کے پکار کر دیکھ لو یاد رکھو انہیں آسمان و زمین میں کسی ایک ذرے کے برابر بھی اختیارات حاصل نہیں نہ ان کا ان میں کوئی ساجھا ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ نہ ان میں سے کوئی شفاعت کر سکتا ہے، جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو جائے الخ مجھے یہ لائق نہیں نہ اس کی ضرورت کہ کسی کو خصوصاً گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو اور مددگار بناؤں۔
تمام مشرکوں کو قیامت کے دن شرمندہ کرنے کے لئے سب کے سامنے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو جنہیں تم دنیا میں پکارتے رہے تاکہ وہ تمہیں آج کے دن کی مصیبت سے بچا لیں وہ پکاریں گے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ پائیں گے جیسے اور آیت میں ہے ولقد جئتمونا فرادی الخ ہم تمہیں اسی طرح تنہا تنہا لائے جیسے کہ ہم نے تمہارے ساتھ ان شریکوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھیرائے ہوئے تھے اور جن کی شفاعت کا یقین کئے ہوئے تھے تمہارے اور ان کے درمیان میں تعلقات ٹوٹ گئے اور تمہارے گمان باطل ثابت ہو چکے اور آیت میں ہے وقیل ادعو ا شہداء کم فدعوہم فلم یستجیبوا لہم کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے الخ اسی مضمون کو آیت ومن اضل سے دو آیتوں تک بیان فرمایا ہے سورہ مریم میں ارشاد ہے کہ انہوں نے اپنی عزت کے لئے اللہ کے سوا اور بہت معبود بنا رکھے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو گا وہ تو سب ان کی عبادت کے منکر ہو جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ ان میں اور ان کے معبود ان باطل میں ہم آڑ حجاب اور ہلاکت کا گڑھا بنا دیں گے تاکہ یہ ان سے اور وہ ان سے نہ مل سکیں۔ نیک راہ اور گمراہ الگ الگ رہیں، جہنم کی یہ وادی انہیں آپس میں ملنے نہ دے گی۔ کہتے ہیں یہ وادی لہو اور پیپ کی ہو گی، ان میں آپس میں اس دن دشمنی ہو جائے گی۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے ہلاکت ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کی کوئی وادی بھی ہو یا اور کوئی فاصلے کی وادی ہو، مقصود یہ ہے کہ ان عابدوں کو نہ معبود جواب تک نہ دیں گے نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مل سکیں گے۔ کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت ہو گی اور ہولناک امور ہوں گے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے مراد یہ ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں میں ہم آڑ کر دیں گے جیسے آیت ویوم تقوم الساعۃ یومئذ یتفرقون اور آیت یومئذ یصدعون اور آیت وامتتازواالیوم الخ اور آیت ویوم نحشرہم جمیعا ثم نقول للذین اشرکوا الخ وغیرہ میں ہے۔ یہ گنہگار جہنم دیکھ لیں گے۔ ستر ہزار لگاموں میں وہ جکڑی ہوئی ہو گی ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے دیکھتے ہی سمجھ لیں گے کہ ہمارا قید خانہ یہی ہے۔ داخلے کے بغیر داخلے سے بھی زیادہ رنج و غم اور مصیبت و الم شروع ہو جائے گا۔ عذاب کا یقین عذاب سے پہلے کا عذاب ہم لیکن کوئی چھٹکارے کی راہ نہ پائیں گے کوئی نجات کی صورت نظر نہ آئے گی۔ حدیث میں ہے کہ پانچ ہزار سال تک کافراسی تھر تھری میں رہے گا کہ جہنم اس کے سامنے اور اس کا کلیجہ قابو سے باہر ہے۔
انسانوں کے لئے ہم نے اس اپنی کتاب میں ہر بات کا بیان خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے تاکہ لوگ راہ حق سے نہ بہکیں ہدایت کی راہ سے نہ بھٹکیں لیکن باوجود اس بیان، اس فرقان کے پھر بھی بجز راہ یافتہ لوگوں کے اور تمام کے تمام راہ نجات سے ہٹے ہوئے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے مکان میں آئے اور فرمایا تم سوئے ہوئے ہو نماز میں نہیں ہو ؟ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا بٹھاتا ہے۔ آپ یہ سن کر بغیر کچھ فرمائے لوٹ گئے لیکن اپنی زانو پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے جا رہے تھے کہ انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑا لو ہے۔
اگلے زمانے کے اور اس وقت کے کافروں کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ حق واضح ہو چکنے کے بعد بھی اسکی تابعداری سے رکے رہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں کو اپنے آنکھوں دیکھ لیں کسی نے تمنا کی کہ آسمان ہم پر گر پڑے کسی نے کہا کہ لا جو عذاب لا سکتا ہے لے آ۔ قریش نے بھی کہا اے اللہ اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی اور درد ناک عذاب ہمیں کر۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اے نبی ہم تو تجھے مجنوں جانتے ہیں اور اگر فی الواقع تو سچا نبی ہے تو ہمارے سامنے فرشتے کیوں نہیں لاتا ؟ وغیرہ وغیرہ پس عذاب الٰہی کے انتظار میں رہتے ہیں اور اس کے معائنہ کے درپے رہتے ہیں۔ رسولوں کا کام تو صرف مومنوں کو بشارتیں دینا اور کافروں کو ڈرا دینا ہے۔ کافر لوگ نا حق کی حجتیں کر کے حق کو اپنی جگہ سے پھسلادینا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ چاہت کبھی پوری نہیں ہو گی حق ان کی باطل باتوں سے دبنے والا نہیں۔ یہ میری آیتوں اور ڈراوے کی باتوں کو خالی مذاق سمجھ رہے ہیں اور اپنی بے ایمانی میں بڑھ رہے ہیں۔
فی الحقیقت اس سے بڑھ کر پاپی کون ہے ؟ جس کے سامنے اس کے پالنے پوسنے والے کا کلام پڑھا جائے اور وہ اس کی طرف التفات تک نہ کرے اس سے مانوس نہ ہو بلکہ منہ پھیر کر انکار کر جائے اور بد عملیاں اور سیاہ کاریاں اس سے پہلے کی ہیں انہیں بھی فراموش کر جائے۔ اس ڈھٹائی کی سزا یہ ہوتی ہے کہ دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں پھر قرآن وبیان کا سمجھنا نصیب نہیں ہوتا کانوں میں گرانی ہو جاتی ہے بھلی بات کی طرف توجہ نہیں رہتی اب لاکھ دعوت ہدایت دو لیکن راہ یابی مشکل ومحال ہے۔ اے نبی ترا رب بڑا ہی مہربان بہت اعلیٰ رحمت والاہے اگر وہ گنہگار کی سزا جلدی ہی کر ڈالا کرتا، تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ بچتا وہ لوگوں کے ظلم سے درگزر کر رہا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پکڑے گا ہی نہیں۔ یاد رکھو وہ سخت عذابوں والا ہے یہ تو اس کا حلم ہے پردہ پوشی ہے معافی ہے تاکہ گمراہی والے راہ راست پر آ جائیں گناہوں والے توبہ کر لیں اور اس کے دامن رحمت کو تھام لیں۔ لیکن جس نے اس حلم سے فائدہ اٹھایا اور اپنی سرکشی پر جما رہا تو اس کی پکڑ کا دن قریب ہے جو اتنا سخت دن ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے حمل گر جائیں گے اس دن کوئی جائے پناہ نہ ہو گی کوئی چھٹکارے کی صورت نہ ہو گی۔ یہ ہیں تم سے پہلے کی امتیں کہ وہ بھی تمہاری طرح کفر و انکار میں پڑ گئیں اور آخرش مٹا دی گئیں ان کی ہلاکت کا مقررہ وقت آ پہنچا اور وہ تباہ برباد ہو گئیں۔ پس اے منکرو تم بھی ڈرتے رہو تم اشرف الرسل اعظم ہی کو ستا رہے اور انہیں جھٹلا رہے ہو حالانکہ اگلے کفار سے تم قوت طاقت میں سامان اسباب میں بہت کم ہو میرے عذابوں سے ڈرو میری باتوں سے نصیحت پکڑو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں آپ نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا۔ کہتے ہیں یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے واللہ اعلم۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقب کہتے ہیں۔ عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں۔ حقب سے مراد اسی برس ہیں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ستر برس کہتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ زمانہ بتلاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں جہاں وہ گم ہو جائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لئے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی۔ آپ کے ساتھ حضرت یوشع علیہ السلام کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لئے جست لگائی اور حضرت یوشع کی آنکھ کھل گئی مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہو گیا، ادھر ادھر پانی کھڑا ہو گیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہو گیا جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہو گیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا۔ محمد بن اسحقاق مرفوعاً لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے ارد گرد کے پانی کے یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ علیہ السلام کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے اس نشان کو دیکھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تلاش میں توہم تھے۔
جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے۔ بھولنے والے صرف یوشع تھے۔ جیسے فرمان ہے یخرج منہما اللولو والمرجان یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھیرے تھے اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا۔
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرات ان اذکرلہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب وغریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی۔ اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے تو وہ دونوں اپنے راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے۔ وہاں ہمارے بندون میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا۔ یہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ حضرت نوف کا خیال ہے کہ خضر علیہ السلام سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا وہ دشمن رب جھوٹا ہے ہم سے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے انہوں نے سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہو کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں۔ تو چونکہ آب نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے اس لئے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا، اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندں ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو اسے توشے دان میں ڈال لو جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ مل جائے گے۔ تو آپ اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو لے کر چلے پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کر دو گھڑی سو رہے۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کر دیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب جاگے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے اسی وقت وہاں سے چل پڑے دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے، صبح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تکان اور بھوک محسوس ہوئی اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے تکان کا نام تک نہ تھا اب اپنے ساتھ سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی۔ مچھلی کے لئے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی، چنانچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔ آپ نے سلام کیا اس نے کہا تعجب ہم آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں انہوں نے پوچھا میل بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لئے دونوں کو سوار کر لیا کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا دیکھا کہ خضر علیہ السلام چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لئے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے۔ اسی وقت حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام معذرت کرنے لگے کہ خطا ہو گئی بھولے سے پوچھ بیٹھامعاف فرمائیے اور سختی نہ کیجئے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑگئی، اس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو حضرت خضر علیہ السلام کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر حضرت خضر علیہ السلام نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور فرمانے لگے بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی اس وقت حضرت خضر علیہ السلام نے پہلے سے زیادہ سختی کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بے شک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا یقیناً اب آپ معذور ہو گئے، چنانچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا، وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی، اسی وقت حضرت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا خیال تو فرمائیے ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا انہوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرات میں وکان وراۂم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واماالغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں، الخ۔
صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کر لے میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑ گئے تھے، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑ جائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کر دینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا۔ لفتہ سے یہی مراد ہے۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہو گیا تھا اسے راوی حدیث عمر و نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سرتلے تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلام پر آپ نے منہ کھولا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آ رہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصداً علیحدگی کی وجہ سے تھا۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا ایک قرات میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے۔ وراۂم کی قرات امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدوبن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ الخ یہ نوف کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے، چنانچہ شرط ہو گئی کہ گوآپ کیساہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی، وہ بچہ ایک بے مثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اس پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بے گناہ بچہ اس بے دردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موئی علیہ السلام اور آپ کی قوم مصر پر غالب آ گئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الٰہی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کر دیا، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کر دیا، تمہارے نبی سے باتیں کیں، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا، اس پر اپنی محبت ڈال دی، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں، تمھارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بے شمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ نہیں ہے۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بے شک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر علیہ السلام ہیں پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو، اپنے ساتھی کو سونپ دو، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہو جائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حربن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ صاحب کون تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریباً اوپر گزر چکی ہے۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟
یہاں اس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان ہوئی تھی۔ حضرت خضر اس علم کے ساتھ مخصوص کئے گئے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ تھا۔ اور حضرت موسیٰ کے پاس وہ علم تھا جس سے حضرت خضر بے خبر تھے پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ادب سے اور اس لئے کہ حضرت خضر کو مہربان کر لیں ان سے سوال کرتے ہیں۔ شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہئے پوچھتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے ساتھ رہوں، آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہو جائیں۔ حضرت خضر اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تم میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا پس میں اپنی ایک الگ خدمت پر مقرر ہوں اور آپ الگ خدمت پر۔ ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کر سکیں۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں۔ کیونکہ باطنی حکمت اور مصلحت آپ کا معلوم نہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ ان پر مطلع فرما دیا کرتا ہے۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ آب جو کچھ کریں گے میں اسے صبر سے برداشت کرتا رہوں گا کسی بات میں آپ کے خلاف نہ کروں گا۔ پھر حضرت خضر نے ایک شرط پیش کی کہ اچھا کسی چیز کے بارے میں تم مجھ سے سوال نہ کرنا میں جو کہوں وہ سن لینا تم اپنی طرف سے کسی سوال کی ابتدا نہ کرنا۔ ابی جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے سوال کیا کہ تجھے اپنے بندوں سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ جواب ملا کے جو ہر وقت میر یاد میں رہے اور مجھے نہ بھلائے۔ پوچھا کہ تمام بندوں میں سے اچھا فیصلہ کرنے ولا کون ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلے کرے اور خواہش کے پیچھے نہ پڑے۔ دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ فرمایا وہ جو عالم زیادہ علم کی جستجو میں رہے ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممک ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے اور ممکن ہے کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر دریافت کیا کہ کیا زمین میں تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا خضر۔ فرمایا میں اسے کہاں تلاش کرو؟ فرمایا دریا کے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی جستجو میں چلے پھر وہ ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ اسی پتھر کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اس روایت میں یہ ہے کہ سمندروں کے ملاپ کی جگہ جہاں سے زیادہ پانی کہیں بھی نہیں۔ چڑیا نے چونچ میں پانی لیا تھا۔
دونوں میں جب شرط طے ہو گئی کہ تو سوال نہ کرنا جب تک میں خود ہی اس کی حکمت تجھ پر ظاہر نہ کروں تو دونوں ایک ساتھ چلے پہلے مفصل روایتیں گزر چکی ہیں کہ کشتی والوں نے انہیں پہچان کر بغیر کرایہ لئے سوار کر لیا تھا جب کشتی چلی اور بیچ سمندر میں پہنچی تو حضت خضر نے ایک تختہ اکھیڑ ڈالا پھر اسے اوپر سے ہی جوڑ دیا یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ سے صبر نہ ہو سکا شرط کو بھول گئے اور جھٹ سے کہنے لگے کہ یہ کیا واہیات ہے ؟ لتغرق کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ہے جیسے شاعر کے اس قول میں لدوا للموت وبنوا للحزاب یعنی ہر پیدا شدہ جان دار کا انجام موت ہے اور ہر بنائی ہوئی عمارت کا انجام اجڑنا ہے۔ امرا کے معنی منکر اور عجیب کے ہیں۔ یہ سن کر حضرت خضر نے انہیں ان کا وعدہ یا دلایا کہ تم نے اپنی شرط کا خلاف کیا میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہیں ان باتوں کا علم نہیں تم خاموش رہنا مجھ سے نہ کہنا نہ سوال کرنا۔ ان کاموں کی مصلحت و حکمت الٰہی مجھے معلوم کراتا ہے اور تم سے یہ چیزیں مخفی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کی کہ اس بھول کو معاف کرو اور مجھ پر سختی نہ کرو پہلے جو لمبی حدیث مفصل واقعہ کی بیان ہوئی ہے اس میں ہے کہ یہ پہلا سوال فی الواقع بھول چوک سے ہی تھا۔
فرمان ہے کہ اس واقعہ کے بعد دونوں صاحب ایک ساتھ چلے ایک بستی میں چند بچے کھیلتے ہوئے ملے ان میں سے ایک بہت ہی تیز طرار نہایت خوبصورت چالاک اور بھلا لڑکا تھا۔ اس کو پکڑ کر حضرت خضر نے اس کا سر توڑ دیا یا تو پتھر سے یا ہاتھ سے ہی گردن مروڑ دی بچہ اسی وقت مر گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور بڑے سخت لہجے میں کہا یہ کیا واہیات ہے ؟ چھوٹے بے گناہ بچے کو بغیر کسی شرعی سبب کے مار ڈالنا یہ کون سی بھلائی ہے ؟ بے شک تم نہایت منکر کام کرتے ہو۔
الحمدللہ تفسیر محمدی کا پندرھواں پارہ ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔
حضرت خضر نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہ فرمائی۔ اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس بار اور وہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا، یقیناً آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں۔ ابن جریر میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آ جاتا اور اس کے لئے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے کرتے۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ پر کاش کہ وہ اپنے ساتھ کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹا جائے۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا۔
دو دفعہ کے اس واقعہ کے بعد پھر دونوں صاحب مل کر چلے ایک بستی میں پہنچے مروی ہے وہ بستی ایک تھی یہاں کے لوگ بڑے ہی بخیل تھے۔ انتہا یہ کہ دو بھوکے مسافروں کے طلب کرنے پر انہوں نے روٹی۔ کھلانے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرنا ہی چاہتی ہے، جگہ چھوڑ چکی ہے، جھک پڑی ہے۔ دیوار کی طرف ارادے کی اسناد بطور استعارہ کے ہے۔ اسے دیکھتے ہی کمرکس کر لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے مضبوط کر دیا اور بالکل درست کر دیا پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹا دیا۔ زخم ٹھیک ہو گیا اور دیوار درست بن گئی۔ اس وقت پھر کلیم اللہ علیہ السلام بول اٹھے کہ سبحان اللہ ان لوگوں نے تو ہمیں کھانے تک کو نہ پوچھا بلکہ مانگنے پر بھاگ گئے۔ اب جو تم نے ان کی یہ مزدوری کر دی اس پر کچھ اجرت کیوں نہ لے لی جو بالکل ہمارا حق تھا ؟ اس وقت وہ بندہ الٰہی بول اٹھے لو صاحب اب مجھ میں اور آپ میں حسب معاہدہ خود جدائی ہو گئی۔ کیونکہ بچے کے قتل پر آپ نے سوال کیا تھا اس وقت جب میں نے آپ کو اس غلطی پر متنبہ کیا تھا تو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ اب اگر کسی بات کو پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دینا اب سنو جن باتوں پر آپ نے تعجب سے سوال کیا اور برداشت نہ کر سکے ان کی اصلی حکمت آپ پر ظاہر کئے دیتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا تعلم نہ تھا اس لئے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہذا حضرت خضر نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلماً چھین لیتا تھا۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ روایت پہلے گزر چکی ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے، واللہ اعلم۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام حیثور تھا۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے حالانکہ اس کی زندگی ان کے لئے ہلاکت تھی۔ پس انسان کو چاہے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں۔ مومن جو کام اپنے لئے پسند کرتا ہے، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لئے پسند فرماتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے وعسی ان تکرہوا شیأ وہو خیرلکم یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لئے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہ دراصل تمہارے لئے بھلا اور مفید ہو۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیز گا رہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک ہو۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ بڑے شہر پر بھی قریہ کا اطلاق ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے حتی اذا اتیا اہل قریۃ فرمایا تھا اور یہاں فی المدینۃ فرمایا۔ اسی طرح مکہ شریف کو بھی قریہ کہا گیا ہے۔ فرمان ہے فکاین من قریۃ ہی اشد قوۃ من قریتک اللتی اخرجتک اور آیت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں کو قریہ فرمایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے وقالوا لولا نزل ہذا القران علی رجل من القریتین عظیم آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ اس دیوار کو درست کر دینے میں مصلحت الٰہی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا مال دفن تھا۔ ٹھیک تفسیر تو یہی ہے گو یہ بھی مروی ہے کہ وہ علمی خزانہ تھا۔ بلکہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ جس خزانے کا ذکر کتاب اللہ میں ہے یہ خالص سونے کی تختیاں تھیں چن پر لکھا ہوا تھا کہ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا قائل ہو تے ہوے اپنی جان کو محنت و مشقت میں ڈال رہا ہے اور رنج و غم برداشت کر رہا ہے۔ تعجب ہے کہ جو جہنم کے عذابوں کا ماننے والا ہے پھر بھی ہنسی کھیل میں مشغول ہے۔ تعجب ہے کہ موت کا یقین رکھتے ہوئے غفلت میں پڑا ہوا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ یہ عبارت ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی لیکن اس میں ایک راوی بشر بن منذر ہیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ مصید کے قاضی تھے ان کی حدیث میں وہم ہے۔ سلف سے بھی اس بارے میں بعض آثار مروی ہیں۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ سونے کی تختی تھی جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قریب قریب مندرجہ بالا نصحیتں اور آخر میں کلمہ طیبہ تھا۔ عمر مولیٰ غفرہ سے بھی تقریباً یہی مروی ہے۔ امام جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں، الخ۔ مذکور ہے کہ یہ دونوں یتیم بوجہ اپنے ساتویں دادا کی نیکیوں کے محفوظ رکھے گئے تھے۔ جن بزرگوں نے یہ تفسیر کی ہے وہ بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں بھی ہے کہ یہ علمی باتیں سونے کی تختی پر لکھی ہوئی تھیں اور ظاہر ہے کہ سونے کی تختی خود مال ہے اور بہت بڑی رقم کی چیز ہے۔ واللہ اعلم۔
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کر لیتے ہیں۔ جیسے قرآن میں صراحتاً مذکور ہے دیکھئے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیکی عملی بیان ہوئی ہے۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا واللہ اعلم۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں۔ دیکھئے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے فاردنا اور فاردت کے لفظ ہیں۔ واللہ اعلم۔
پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھیں سراسر رحمت تھیں۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الٰہی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی نہیں کئے بلکہ احاکام الٰہی بجا لایا۔ اس سے بعض لوگوں نے حضرت خضر کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے بھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ولی اللہ تھے۔ امام ابن قتیبہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیا بن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح علیہ السلام تھا۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے، لقب خضر ہے۔ امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعزیت کے لئے آپ تشریف لائے تھے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی ہے وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ اور دلیل انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الٰہی اگر میری جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر حضرت خضر رحمۃاللہ علیہ زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تمام جن وانس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ (زمین پر) ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا۔ آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خضر کو خضر اس لئے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سبزہ اگ آیا۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مرادیہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی۔ الغرض حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب یہ گھتی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کر دی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لئے آپ جلدی کر رہے تھے۔ چونکہ پہلے شوق و مشقت زیادہ تھی اس لئے لفظ لم تستطع کہا اور اب بیان کر دینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لئے لفظ لم تسطع کہا۔ یہی صفت آیت فلما اسطاعوا ان یظہرو ہ وما استطاعوا لہ نقبا میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے۔ پس چڑھنے میں تکلیف یہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لئے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کر دی۔ واللہ اعلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں اس لئے کہ مقصود صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لئے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک ہے۔
پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) سے دریافت کریں اور ان گے جواب آپ سے نہ بن پڑیں۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی ساحت کی تھی۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی یسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہو گئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ یہ بھی روایت ہے کہ کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ذو القرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی۔ تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لئے آئے ہو۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھا لے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ۔ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بے کار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں۔ تعجب ہے کا امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے۔ سا میں جو ہے کہ یہ رومی تھا یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے۔ آپ پر ایمان لایا تھا، آپ کا تابعدار بنا تھا۔ انہی کے وزیر حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ حضرت میسح علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپن کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کر دئے ہیں۔ وہب کہتے ہیں ہی بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لئے انہیں ذو القرنین کہا گیا یہ وجہ بھی تلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سنیگ سے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ سے یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا یہ لوگ مخالف ہو گئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے اس لئے انہیں ذو القرنین کہا جاتا ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے اس لء انہیں ذو القرنین کہا گیا ہے۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی۔ ساتھ ہی قوت لشکر آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے۔ ہر چیز کا اسے علم دے رکھا تھا۔ زمین کے ادنی اعلیٰ نشانات بتلا دئے تھے۔ تمام زبانیں جانتے تھے۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی اس کی زبان بول لیتے تھے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذو القرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہر چیز کا سامان دیا تھا۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہے اس لئے بھی کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کر دیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو باہا سامنے آ چکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بے سند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ، خرافات، تحریف، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں۔ افسوس انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور فساد پھیل گیا۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا اخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہر بات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہی دی۔ دیکھئے بلقیس کیحق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں واتیت من کل شئی وہ ہر چیز دی گئی تھی اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموماً جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا اسی طرح حضرت ذو القرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دئے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عز و جل نے حضرت ذو القرنین کو دے رکھے تھے واللہ اعلم۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق و مغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دئے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی۔
ذو القرنین ایک راہ لگ گئے زمین کی ایک سمت یعنی مغربی جانب کوچ کر دیا۔ جو نشانات زمین پر تھے ان کے سہارے چل کھڑے ہوئے۔ جہاں تک مغربی رخ چل سکتے تھے جلتے رہے یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گے۔ یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا نا ممکن ہے۔ ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے۔ حضرت ذو القرنین پہنچ گئے۔ اور یہ جو بعض قصے مشہور ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے بھی آپ تجاوز کر گئے اور سوج مدتوں ان کی پشت غروب ہوتا رہا یہ بے بنیاد باتیں ہیں اور عموماً اہل کتاب کی خرافات ہیں اور ان میں سے بھی بد دینوں کی گھڑنت ہیں اور محض دروغ بے مروغ ہیں۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط سورج غروب ہو رہا ہے۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا حمئۃ یا تو مشتق ہے حماۃ سے یعنی چکنی مٹی۔ آیت قرآنی انی خالق بشرا من صلصل میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ یہی مطلب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر حضرت نافع نے سنا کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہو جاتا تھا۔ ایک قرأت میں فی عین حامیۃ ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ سورج کو غروب ہوتے دیکھ کر فرمایا اللہ کی بھڑکی آگ میں اگر اللہ کے حکم سے اس کی سوزش کم نہ ہو جاتی تو یہ تو زمین کی تمام چیزوں کو جھلس ڈالتا۔ اس کی صحت میں نظر ہے بلکہ مرفوع ہونے میں بھی بہت ممکن ہے کہ یہ عبد اللہ بن عمرو کا اپنا کلام ہو اور ان دو تھیلوں کی کتابوں سے لیا گیا ہو جو انہیں یرموک سے ملے تھے واللہ اعلم۔
ابن حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ کہف کی یہی آیت تلاوت فرمائی تو آپ نے عین حامیۃ پڑھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم تو حمئۃ پڑھتے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کس طرح پڑھتے ہیں انہوں نے جواب دیا جس طرح آپ نے پڑھا۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے گھر میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہئے، وہی اس کے پورے عالم ہیں۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ یہ سب قصہ سن کرا بن حاضر نے کہا اگر میں اس وقت ہوتا تو آپ کی تائید میں تبع کے وہ دو شعر پڑھ دیتا جس میں اس نے ذو القرنین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق و مغرب تک پہنچا کیونکہ اللہ حکم نے اسے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے تھے اس نے دیکھا کہ سورج سیاہ مٹی جیسے کیچڑ میں غروب ہوتا نظر آتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا اس شعر میں تین لفظ ہیں غلب، ثاط اور حرمد۔ ان کے کیا معنی ہیں ؟ مٹی، کیچڑ اور سیاہ۔ اسی وقت حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام سے یا کسی اور شخص سے فرمایا یہ جو کہتے ہیں لکھ لو۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سورہ کہف کی تلاوت حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے سنی اور جب آپ نے حمئۃ پڑھا تو کہا کہ واللہ جس طرح تورات میں ہے اسی طرح پڑھتے ہوئے میں نے آپ ہی کوسنا تورات میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کیچڑ میں ڈوبتا ہے وہیں ایک شہر تھا جو بہت بڑا تھا اس کے بارہ ہزار دروازے تھے اگر وہاں شور غل نہ ہو تو کیا عجب کہ ان لوگوں کو سورج کے غروب ہونے کی آواز تک آئے۔ وہاں ایک بہت بڑی امت کو آپ نے بستا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں پر بھی انہیں غلبہ دیا اب ان کے اختیار میں تھا کہ یہ ان پر جبر و ظلم کریں یا ان میں عدل و انصاف کریں۔ اس پر ذو القرنین نے اپنے عدل و ایمان کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ جو اپنے کفر و شرک پر اڑا رہے گا اسے تو ہم سزا دیں گے قتل و غارت سے یا یہ کہ تانبے کے برتن کو گرم آگ کر کے اس میں ڈال دیں گے کہ وہیں اس کا مرنڈا ہو جائے یا یہ کہ سپاہیوں کے ہاتھوں انہیں بدترین سزائیں کرائیں گے واللہ اعلم۔ اور پھر جب وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت تر اور دردناک و عذاب کرے گا۔ اس سے قیامت کے دن کا بھی ثبوت ہوتا ہے۔ اور جو ایمان لائے ہماری توحید کی دعوت قبول کر لے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے دست برداری کر لے اسے اللہ اپنے ہاں بہترین بدلہ دے گا اور خود ہم بھی اس کی عزت افزائی کریں گے اور بھلی بات کہیں گے۔
ذو القرنین مغرب سے واپس مشرق کی طرف چلے۔ راستے میں جو قومیں ملتیں اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی انہیں دعوت دیتے۔ اگر وہ قبول کر لیتے تو بہت اچھا ورنہ ان سے لڑائی ہوتی اور اللہ کے اور اللہ کے فضل سے وہ ہارتے آپ انہیں اپنا ماتحت کر کے وہاں مے مال و مویشی اور خادم وغیرہ لے کر آگے کو چلتے۔ نبی اسرائیلی خبروں میں ہے کہ یہ ایک ہزار چھ سو سال تک زندہ رہے۔ اور برابر زمین پر دین الٰہی کی تبلیغ میں رہے ساتھ ہی بادشاہت بھی پھیلتی رہے۔ جب آپ سورج نکلنے کی جگہ پہنچے وہاں دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے لیکن وہاں کے لوگ بالکل نیم وحشی جیسے ہیں۔ نہ وہ مکانات بناتے ہیں نہ وہاں کوئی درخت ہے سورج کی دھوپ سے پناہ دینے والی کوئی چیز وہاں انہیں نظر نہ آئی۔ ان کے رنگ سرخ تھے ان کے قدر پست تھے عام خوراک ان کی مچھلی تھی۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جایا کرتے تھے اور غروب ہونے کے بعد جانوروں کی طرح ادھر ادھر ہو جایا کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہاں تو کچھ اگتا نہ تھا سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جاتے اور زوال کے بعد دور دراز اپنی کھیتیوں وغیرہ میں مشغول ہو جاتے۔ سلمہ کا قول ہے کہ ان کے کان بڑے بڑے تھے ایک اوڑھ لیتے، ایک بچھا لیتے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ہی وحشی حبش تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی مکان یا دیوار یا احاطہ نہیں بنا سورج کے نکلنے کے وقت یہ لوگ پانی میں گھس جاتے وہاں کوئی پہاڑ بھی نہیں۔ پہلے کسی وقت ان کے پاس ایک لشکر پہنچا تو انہوں نے ان سے کہا نہیں ہم تو رات ہی رات یہاں سے چلے جائیں گے لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ ہڈیوں کے چمکیلے ڈھیر کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہاں سے پہلے ایک لشکر آیا تھا سورج کے نکلنے کے وقت وہ یہیں ٹھیرا رہا سب مر گئے یہ ان کی ہڈیاں ہیں یہ سنتے ہی وہ وہاں سے واپس ہو گے۔ پھر فرماتا ہے کہ ذو القرنین کی، اس کے ساتھیوں کی کوئی حرکت کوئی گفتار اور رفتار ہم پر پوشیدہ نہ تھی۔ گو اس کا لاؤ لشکر بہت تھا زمین کے ہر حصے پر پھیلا ہوا تھا لیکن ہمارا علم زمین و آسمان پر حاوی ہے۔ ہم سے کوئی چیز مخفی نہیں۔
اپنے شرقی سفر کو ختم کر کے پھر ذو القرنین وہیں مشرق کی طرف ایک راہ چلے دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جو ملے ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک گھاٹی ہے جہاں سے یاجوج ماجوج نکل کر ترکوں پر تباہی ڈالا کرتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں کھیت باغات تباہ کرتے ہیں بال بچوں کو بھی ہلاک کر تے ہیں اور سخت فساد برپا کرتے رہتے ہیں۔ یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث سے ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ عز و جل حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا کہ اے آدم ! آپ لبیک وسعدیک کے ساتھ جواب دیں گے، حکم ہو گا آگ کا حصہ الگ کر۔ پوچھیں گے کتنا حصہ ؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں۔ یہی وہ وقت ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا۔ پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا تم میں دوا متیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انہیں کثرت کو پہنچا دیتی ہیں یعنی یاجوج ماجوج۔
امام نووی رحمۃ للہ نے شرح صحیح مسلم میں ایک عجیب بات لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے خاص پانی کے چند قطرے جو مٹی میں گرے تھے انہی یاجوج ماجوج پیدا کئے گئے ہیں گویا وہ حضرت حوا اور حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے نہیں بلکہ صرف نسل آدم علیہ السلام سے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ یہ قول بالکل ہی غریب ہے نہ اس پر عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور ایسی باتیں جو اہل کتاب سے پہنچتی ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کے ہاں کے ایسے قصے ملاوٹی اور بناوٹی ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے سام حام اور یافث۔ سام کی نسل سے کل عرب ہیں اور حام کی نسل سے کل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے کل ترک ہیں۔
بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جد اعلیٰ یافث کی ہی اولاد ہیں انہیں ترک اس لئے کہا گیا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی اور آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ذو القرنین کے سفر کے متعلق اور اس دیوار کے بنانے کے متعلق اور یاجوج ماجوج کے جسموں ان کی شکلوں اور ان کے کانوں وغیرہ کے متعلق وہب بن منبہ سے ایک بہت لمبا چوڑا واقعہ اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو علاوہ عجیب و غریب ہونے کے صحت سے دور ہے۔ ابن ابی حاتم میں بھی ایسے بہت سے واقعات درج ہیں لیکن سب غریب اور غیر صحیح ہیں۔ ان پہاڑوں کے درے میں ذو القرنین نے انسانوں کی ایک آبادی پائی جو بوجہ دنیا کے اور لوگوں سے دوری کے اور ان کی اپنی مخصوص زبان کے اوروں کی بات بھی تقریباً نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ان لوگوں نے ذو القرنین کی قوت و طاقت عقل و ہنر کو دیکھ کر درخواست کی کہ اگر آپ رضامند ہوں تو ہم آپ کے لئے بہت سا مال جمع کر دیں اور آپ ان پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو کسی مضبوط دیوار سے بند کر دیں تاکہ ہم ان فسادیوں کی روزمرہ کی ان تکالیف سے بچ جائیں۔ اس کے جواب میں حضرت ذو القرنین نے فرمایا مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں اللہ کی دیا سب کچھ میرے پاس موجود ہے اور وہ تمہارے مال سے بہت بہتر ہے۔ یہی جواب حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ملکہ سبا کے قاصدوں کو دیا گیا تھا۔ ذو القرنین نے اپنے اس جواب کے بعد فرمایا کہ ہاں تم اپنی قوت و طاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو تو میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں۔ زبر جمع ہے زبر ۃ کی۔ ذو القرنین فرماتے ہیں کہ لوہے کے ٹکڑے اینٹوں کی طرح کے میرے پاس لاؤ۔ جب یہ ٹکڑے جمع ہو گئے تو آپ نے دیوار بنانی شروع کرا دی اور وہ لمبائی چوڑائی میں اتنی ہو گئی کہ تمام جگہ گھر گئی اور پہاڑ کی چوٹی کے برابر پہنچ گئی۔ اس کے طول و عرض اور موٹائی کی ناپ میں بہت سے مختلف اقوال ہیں۔ جب یہ دیوار بالکل بن گئی تو حکم دیا کہ اب اس کے چو طرف آگ بھڑکاؤ جب وہ لوہے کی دیوار بالکل انگارے جیسی سرخ ہو گئی تو حکم دیا کہ اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ اور ہر طرف سے اس کے اوپر بہا دو چنانچہ یہ بھی کیا گیا پس ٹھنڈی ہو کر یہ دیوار بہت مضبوط اور پختہ ہو گئی اور دیکھنے میں ایسی معلوم ہونے لگی جیسے کوئی دھاری دار چادر ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے آپ نے فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا دھاری دار چادر جیسی ہے جس میں سرخ وسیاہ دھاریاں ہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ خلیفہ واثق نے اپنے زمانے میں اپنے امیروں کو ایک وافر لشکر اور بہت ساسامان دے کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس دیوار کی خبر لائیں یہ لشکر دوسال سے زیادہ سفر میں رہا اور ملک در ملک پھرتا ہوا آخرش اس دیوار تک پہنچا دیکھا کہ لوہے اور تانبے کی دیوار ہے اس میں ایک بہت بڑا نہایت پختہ عظیم الشان دروازہ بھی اسی کا ہے جس پر منوں کے وزنی قفل لگے ہوئے ہیں اور جو مال مسالہ دیوار کا بچا ہوا ہے وہ وہیں پر ایک برج میں رکھا ہوا ہے جہاں پہرہ چوکی مقرر ہے۔ دیوار بے حد بلند ہے کتنی ہی کوشش کی جائے لیکن اس پر چڑھنا ناممکن ہے اس سے ملا ہوا پہاڑیوں کا سلسلہ دونوں طرف برابر چلا گیا ہے اور بھی بہت سے عجائب و غرائب امور دیکھے جو انہوں نے واپس آ کر خلیفہ کی خدمت میں عرض کئے۔
اس دیوار پر نہ تو چڑھنے کی طاقت یاجوج ماجوج کو ہے، نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے ہیں کہ وہاں سے نکل آئیں۔ چونکہ چڑھنا بہ نسبت توڑنے کے زیادہ آسان ہے۔ اسی لئے چڑھنے میں مااسطاعوا کا لفظ لائے اور توڑنے میں مااستطاعوا کا لفظ لائے۔ غرض نہ تو وہ چڑھ کر آ سکتے ہیں نہ سوراخ کر کے۔
مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر روز یاجوج ماجوج اس دیوار کو کھودتے ہیں یہاں تک کے قریب ہوتا ہے کہ سورج کی شعاع ان کو نظر آ جائیں چونکہ دن گزر جاتا ہے، اس لئے ان کے سردار کا حکم ہوتا ہے کہ اب بس کرو کل آ کر توڑ دیں گے لیکن جب وہ دوسرے دن آتے ہیں، تو اسے پہلے دن سے زیادہ مضبوط پاتے ہیں۔ قیامت کے قریب جب ان کا نکلنا اللہ کو منظور ہو گا تو یہ کھودتے ہوئے جب دیوار کو چھلکے جیسی کر دیں کے تو ان کا سردار کہے گا اب چھوڑ دو کل انشاء اللہ اسے توڑ ڈالیں گے پس انشاء اللہ کہہ لینے کی برکت سے دوسرے دن جب وہ آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے۔ ویسی ہی پائیں گے فورا گرا دیں گے اور باہر نکل پڑیں گے۔ تمام پانی چاٹ جائیں گے، لوگ تنگ آ کر قلعوں میں پناہ گزیں ہو جائیں گے۔ یہ اپنے تیر آسمانکی طرف چلائیں گے اور مثل خون آلود تیروں کے ان کی طرف لوٹائے جائیں گے تو یہ کہیں گے زمین ولے سب دب گئے آسمان والوں پر بھی ہم غالب آ گئے اب ان کی گردنوں میں گلٹیاں نکلیں گی اور سب کے سب بحکم الٰہی اسی وبا سے ہلاک کر دئے جائیں گے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دان ہے کہ زمین کے جانوروں کی خوراک ان کے جسم و خون ہوں گے جس سے وہ خو موٹے تازے ہو جائیں گے۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور فرمایا ہے یہ روایت غریب ہے سوائے اس سند کے مشہور نہیں۔ اس کی سند بہت قوی ہے لیکن اس کا متن نکارت سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ آیت کے ظاہری الفاظ صاف ہیں کہ نہ وہ چڑھ سکتے ہیں نہ سوراخ کر سکتے ہیں کیونکہ دیوار، نہایت، مضبوط، بہت پختہ اور سخت ہے۔ کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اسے ڈانٹتے ہیں اور بالکل چھلکے جیسی کر دیتے ہیں پھر کہتے ہیں چلو کل توڑ دیں گے دوسرے دن جو آتے ہیں تو جیسی اصل میں تھی ویسی ہی پاتے ہیں آخری دن وہ بہ الہام الٰہی جاتے وقت انشاء اللہ کہیں گے دوسرے دن جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے، ویسی ہی پائیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ بہت ممکن ہم کہ انہی کعب سے حضرت ابوہریرہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات سنی ہو پھر بیان کی ہو اور کسی راوی کو وہم ہو گیا ہو اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان سمجھ کر اسے موفوعا بیان کر دیا ہو واللہ اعلم۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جو مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے، چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور فرماتے جاتے تھے۔ لا الہ اللہ عرب کی خرابی کا وقت قریب آگیا آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا پھر آپ نے اپنی انگلیوں سے حلقہ بنا کر دکھایا اس پر ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم بھلے لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب خبیث لوگوں کی کثرت ہو جائے۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ہاں بخاری شریف میں راویوں کے ذکر میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کل ذکر نہیں۔ مسلم میں ہے اور بھی اس کی سند میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بہت ہی کم پائی گئی ہیں مثلاً زہری کی روایت عروہ سے حالانکہ یہ دونوں بزرگ تابعی ہیں اور چار عورتوں کا آپس میں ایک دوسرے سے روایت کرنا پھر چاروں عورتیں صحابیہ، رضی اللہ عنہا۔ پھر ان میں بھی دو حضور علیہ السلام کی بیویوں کی لڑکیاں اور دو آپ کی بیویاں رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ بزار میں یہی روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے (مترجم کہتا ہے اس تکلف کی اور ان مرفوع احادیث کے متعلق اس قول کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم آیت قرآنی اور ان صحیح مرفوع احادیث کے درمیان بہت آسانی سے یہ تطبیق دے سکتے ہیں کہ کوئی ایسا سوراخ نہیں کر سکتے جس میں سے نکل آئیں۔ پتلی کر دینا یا حلقیں کے برابر سوراخ کر دینا اور بات ہے جو مقصود ذو القرنین کا اس دیوار کے بنانے سے تھا وہ بفضلہ حاصل ہے کہ نہ وہ اوپر سے اتر سکیں نہ توڑ کر یا سوراخ کر کے نکل سکیں اور اسی کی خبر آیت میں ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں۔ واللہ اعلم مترجم)
اس دیوار کو بنا کر ذو القرنین اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لوگویہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے ان شریروں کی شرارت سے مخلوق کو اب امن دے دیا ہاں جب اللہ کا وعدہ آ جائے گا تو اس کا ڈھیر ہو جائے گا۔ یہ زمین دوز ہو جائے گی۔ مضبوطی کچھ کام نہ آئے گی۔ اونٹنی کا کوہان جب اس کی پیتھ سے ملا ہوا ہو تو عرب میں اسے ناقتہ دکاء کہتے ہیں۔ قرآن میں اور جگہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے پہاڑ پر رب نے تجلی کی تو وہ پہاڑ زمین دوز ہو گیا وہاں بھی لفظ جعلہ دکاء ہے۔ پس قریب بہ قیامت یہ دیوارپاش پاش ہو جائے گی اور ان کے نکلنے کا راستہ بن جائے گا۔ اللہ کے وعدے اٹل ہیں، قیامت کا آنا یقینی ہے۔ اس دیوار کے ٹوٹتے ہی یہ لوگ نکل پڑیں گے اور لوگوں میں گھسے جائیں گے اپنوں بیگانوں کی تمیز اٹھ جائے گی۔ یہ واقعہ دجال کے آ جانے کے بعد قیامت کے قیام سے پہلے ہو گا۔
اس کا پورا بیان آیت حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وہم من کل حدب ینسلون کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ۔ اس کے بعد صور پھونکا جائے گا اور سب جمع ہو جائیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان جن سب خلط ملط ہو جائیں گے بنی خزارہ کے ایک شیخ کا بیان ابن جریر میں ہے کہ جب جن انسان آپس میں گتھم گھتا ہو جائیں گے اس وقت ابلیس کہے گا کہ میں جاتا ہوں معلوم کرتا ہوں کہ یہ کیا بات ہے ؟ مشرق کی طرف بھاگے گا لیکن وہاں فرشتوں کی جماعتوں کو دیکھ کر رک جائے گا اور لوٹ کر مغرب کو پہنچے گا، وہاں بھی یہی رنگ دیکھ کر دائیں بائیں بھاگے گا لیکن چاروں طرف سے فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر ناامید ہو کر چیخ پکار شروع کر دے گا اچانک اسے ایک چھوٹاسا راستہ دکھائی دے گا، اپنی ساری ذریات کو لے کر اس میں چل پڑے گا آگے جا کر دیکھے گا کہ دوزخ بھڑک رہی ہے ایک دروغہ جہنم اس سے کہے گا کہ اے موذی خبیث !کیا اللہ نے تیرا مرتبہ نہیں بڑھایا تھا ؟ کیا تو جنتیوں میں نہ تھا ؟ یہ کہے گا آج ڈانٹ کیوں کرتے ہو ؟ آج تو چھٹکارے کا راستہ بتاؤ میں عبادت الٰہی کے لئے تیار ہوں اگر حکم ہو تو اتنی اور ایسی عبادت کروں کہ روئے زمین پر کسی نہ کی ہو۔ درواغہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ تیرے لئے ایک فریضہ مقرر کرتا ہے وہ خوش ہو کر کہے گا میں اس کے حکم کی بجاآوری کے لء پوری مستعدی سے موجود ہوں۔ حکم ہو گا کہ یہی کہ تم سب جہنم میں چلے چاؤ۔ اب یہ خبیث ہکا بکا رہ جائے گا وہیں فرشتہ اپنے پر سے اسے اور اس کی تمام ذریت کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دے گا۔ جہنم انیں لے کر آدبوچے گی اور ایک مرتبہ تو وہ جھلائے گی کہ تمام مقرب فرشتے اور تمام نبی رسول گھٹنوں کے بل اللہ کے سامنے عاجزی میں گر پریں گے۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں یاجوج ماجوج حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اگر وہ چھوڑ دئے جائیں تو دنیا کی معاش میں فساد ڈال دیں، ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے پھر ان کے سواتین امتیں اور ہیں تاویل مارس اور منسک۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر اور ضعیف ہے۔ نسائی میں ہم کہ ان کی بیویاں بچے ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے۔ پھر فرمایا صور پھونک دیا جائے گا جیسے حدیث میں ہے کہ وہ ایک قرن ہے جس میں صور پھونک دیا جائے گا پھونکنے والے حضرت اسرافیل علیہ السلام ہوں گے۔
جیسے کہ لمبی حدیث بیان ہو چکی ہے۔ اور بھی بہت سی حدیث سے اس کا ثبوت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میں کیسے چین اور آرام سے بیٹھوں ؟ صور کو منہ سے لگائے ہوئے پیشانی جھکائے ہوئے، کان لگائے ہوئے، منتظر بیٹھا ہے کہ کب حکم ہو اور میں پھونک دوں۔ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم پھر ہم کیا کہیں ؟ فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا پھر فرماتا ہے ہم سب کو حساب کے لئے جمع کریں گے سب کا حشر ہمارے سامنے ہو گا جیسے سورۃ واقعہ میں ہے کہ اگلے پچھلے سب کے سب مقررہ دن کے وقت اکٹھے کئے جائیں گے اور آیت میں ہے وحشرنا ہم فلم نغادر منہم احد ا ہم سب کو جمع کریں گے ایک بھی تو باقی نہ بچے گا۔
کافر جہنم میں جانے سے پہلے جہنم کو اور اس کے عذاب کو دیکھ لیں گے اور یہ یقین کر کے کہ وہ اسی میں داخل ہونے والے ہیں داخل ہونے سے پہلے ہی جلنے کڑھنے لگیں گے غم و رنج ڈر خوف کے مارے گھلنے لگیں گے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جہنم کو قیامت کے دن گھسیٹ کر لایا جائے گا جس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ یہ کافر دنیا کی ساری زندگی میں اپنی آنکھوں اور کانوں کے بے کار کئے بیٹھے رہے، نہ حق دیکھا، نہ حق سنا نہ مانا نہ عمل کیا۔ شیطان کا ساتھ دیا اور رحمان کے ذکر سے غفلت برتی۔ اللہ کے احکام اور ممانعت کو پس پشت ڈالے رہے۔ یہی سمجھتے رہے کہ ان کے جھوٹے معبود ہی انہیں سارے نفع پہنچائیں گے اور کل سختیاں دور کریں گے۔ محض غلظ خیال ہے بلکہ وہ تو ان کی عبادت کے بھی منکر ہو جائیں گے اور ان کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے۔ ان کافروں کی منزل تو جہنم ہی ہے جو ابھی سے تیار ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے صاحبزادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت مے مراد خارجی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہودو نصاریٰ ہیں۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا۔ پس حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ خارجیوں کو فاسق کہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار کو شامل ہے، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے جو بھی اللہ کی عبادت واطاعت اس طریقے سے بجالائے جوطریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسند یدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط کمان شخص ہے۔ آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود و نصاریٰ مخاطب نہ تھے۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں۔ جیسے سورہ غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہر ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دئے جائیں گے۔ اور آیت میں ہے وقد منا الی ما عملوا من عمل فجعلنا ہ ہباء منثورا ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بے کار ردی کر دیا۔ اور آیت میں ہے کافروں کی اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند پانی کی نہیں پاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کے پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں اس لئے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہو گئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مبغوض ہو گئے۔ اس لئے وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور مانے ہی نہیں۔ ان کا نیکی کا پلڑا باکل خالی رہے گا۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہو گا پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہو گا۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہو گا۔ مرفوع حدیث کی طرح حضرت کعب کا قول بھی مروی ہے۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا، اللہ کی آیتوں کا اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا۔
اللہ پر ایمان رکھنے والے، اس کے رسولوں کو سچا ماننے والے ان کی باتوں پر عمل کرنے ولاے، بہترین جنتوں میں ہوں گے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت فردوس کا سوال کرو یہ سب سے اعلی سب سے عمدہ جنت ہے اسی سے اور جنتوں کی نہریں بہتی ہیں۔ یہی ان کا مہمان خانہ ہو گی۔ یہ یہاں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ نہ نکالے جائیں نہ نکلنے کا خیال آئے نہ اس سے بہتر کوئی اور جگہ وہ وہاں کے رہنے سے گھبرائیں کیونکہ ہر طرح کے اعلی عیش مہیا ہیں۔ ایک پر ایک رحمت مل رہی ہے روز بروز رغبت ومحبت انس والفت بڑھتی جا رہی ہے اس لئے نہ طبیعت اکتاتی ہے نہ دل بھرتا ہے بلکہ روز شوق بڑھتا ہے اور نئی نعمت ملتی ہے۔
حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی عظمت سمجھانے کے لئے دنیا میں اعلان کر دیجئے کہ اگر روئے زمین کے سمندروں کی سیاہی بن جائے اور پھر اللہ کے کلمات، اللہ کی قدرتوں کے اظہار، اللہ کی باتیں، اللہ کی حکمتیں لکھنی شروع کی جائیں تو یہ تمام سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن اللہ کی تعریفیں ختم نہ ہوں گی۔ گو پھر ایسے ہی دریا لائے جائیں اور پھر لائے جائیں اور پھر لائے جائیں لیکن ناممکن کہ اللہ کی قدرتیں اس کی حکمتیں اس کی دلیلیں ختم ہو جائیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا فرمان ہے ولو ان ما فی الارض من شجرۃاقلام والبحر یمدہ سبعۃ ابحر ما نفدت کلمات اللہ ان اللہ عزیز حکیم یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بن جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہیاں بن جائیں پھر ان کے بعد سات سمندر اور بھی لائے جائیں لیکن ناممکن ہے کہ کلمات الٰہی پورے لکھ لئے جائیں اللہ کی عزت اور حکمت اس کا غلبہ اور قدرت وہی جانتا ہے۔ تمام انسانوں کا علم اللہ کے علم مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا سمندر کے مقابلے میں قطرہ۔ تمام درختوں کی قلمیں گھس گھس کر ختم ہو جائیں تمام سمندروں کی سیاہیاں نبڑ جائیں لیکن کلمات الٰہی ویسے ہی رہ جائیں گے جیسے تھے وہ ان گنت ہیں، کو ہے ؟ جو اللہ کی صحیح اور پوری قدروعزت جان سکے ؟ کون ہے جو اس کی پوری ثنا وصفت بجا لا سکے ؟ بے شک ہمارا رب ویسا ہی ہے جیسا وہ خود فرما رہا ہے۔ بے شک ہم جو تعریفیں اس کی کریں وہ ان سب سے سوا ہے۔ اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ یاد رکھو جس طرح ساری زمین کے مقابلے پر ایک رائی کا دانہ ہے اسی طرح جنت کی اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل تمام دنیا کی نعمتیں ہیں۔
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر اتری۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں، تم بھی انسان ہو، اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو لاؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو۔ دیکھو میں کوئی غیب داں تو نہیں تم نے مجھ سے ذو القرنین کا واقعہ دریافت کیا۔ اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس الامر کے مطابق ہیں اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گذشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہیہ ہم کہ تم موحد بن جاؤ شرک کو چھوڑ دو۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے اللہ سے مل کر اجروثواب لینا چاہتاہو اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیں ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں، خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو۔
ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی الٰہی کی تلاش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ میری نیکی دیکھیں تو میرم لئے کیا حکم ہے آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری، یہ حدیث مرسل ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز روزہ صدقہ خیرات حج زکوٰۃ کرتا ہے، اللہ کی رضامندی بھی ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی۔ آپ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے، اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس باری باری آتے، رات گزارتے، کبھی آپ کو کئی کام ہوتا تو فرما دیتے ایسے لوگ بہت زیادہ تھے ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا یا رسول اللہ ہماری توبہ ہے ہم مسیج دجال کا ذکر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں ؟ وہ پوشیدہ شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے۔ مسند احمد میں ہے ابن غنم کہتے ہیں میں اور حضرت ابو درداء جابیہ کی مسجد میں گئے وہاں ہمیں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ملے بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا دہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہیں ہاتھ سے حضرت ابودرداء کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے۔ آپ فرمانے لگے دیکھو اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھلا آدمی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا اور ہر حکم کو مناسب جگہ رکھنے والا آئے اور اس کی قدرومنزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عوف بن مالک آ گئے اور بیٹھتے ہی حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگوں مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا۔ اس پر حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ معاف فرمائے ہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان میاوس ہو گیا ہے کہ اس جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ شرک ہماری سمجھ میں تونہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں۔ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لئے نماز روزہ صدقہ خیات کرتا ہے۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ کیا اس نے شرک کیا ؟ سب نے جواب دیا بے شک ایسا شخص مشرک ہے، آپ نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ جو شخص دکھاوے کے لئے نماز پڑھے وہ مشرک ہے جو دنیا کو دکھانے کے لئے زوزے رکھے وہ مشرک ہے جو لوگوں میں اپنی سخاوت جتانے کے لئے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے اس پر حضرت عوف بن مالک نے کہا کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسے اعمال میں جو اللہ کے لئے ہو اللہ اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لئے ہو اسے رد کر دے ؟ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا یہ ہرگز نہیں ہونے کا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ جناب باری عز و جل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے والا ہوں، جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے کر شریک کرے میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کر دیتا ہوں۔ اور نہایت بے پرواہی سے جز کل سب کو چھوڑ دیتا ہوں اور روایت میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن رونے لگے ہم ں ے پوچھا حضرت آپ کیسے رو رہے ہیں فرمانے لگے ایک حدیث یاد آ گئی ہے اور اس نے رلا دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو وہ چاند پتھر بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گے۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح زوزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی، روزہ چھوڑ دیا (ابن ماجہ مسند احمد )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو ملالے میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لئے ہی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے لوگوں نے پوچھا وہ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ریاکاری۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لئے عمل کئے تھے انہی کے پاس جزا مانگو۔ دیکھو پاتے بھی ہو ؟ ابو سعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہوا سے چاہئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بے نیاز ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہو گا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہو گا ( مسند احمد )
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے اپنے نیک اعمال اچھالنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر وذلیل ہو گا۔ یہ بیان فرما کر حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے (مسند احمد ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے قیامت کے دن انسان کے نیک اعمال کے مہر شدہ صحیفے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔ جناب باری عز و جل فرمائے گا اسے پھینک دو اسے قبول کرو اسے قبول کرو اسے پھنیک دو اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ تبارک و تعالیٰ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم تو اس شخص کے اعمال نیک ہی جانتے ہیں جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن میں صرف میری ہی رضامند مطلوب نہ تھی بلکہ ان کی ریاکاری تھی آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا جو صرف میرے لئے ہی کئے گئے ہوں (بزار)
ارشاد ہم کہ جو دکھاوے سناوے کے لئے کھڑا ہواہو وہ جب تک نہ بیٹھے اللہ کے غصے اور غضب میں رہی رہتا ہے ابو یعلی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بے دلی سے ادا کرے اس نے اپنے پروردگار عز و جل کی توہین کی۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس آیت کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں کیونکہ سورۃ کہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے یعنی اتری جو اس میں تبدیلی وتغیر کرے واللہ اعلم۔
ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابوبکر بزار رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص آیت من کان یرجو الخ، کو رات کے وقت پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک پہنچے۔