تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء

صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ کہف، سورۃ مریم، سورۃ طہ اور سورۃ انبیا علیہ السلام عتاق اول سے ہیں اور یہی تلادی ہیں۔

 

۱

قیامت سے غافل انسان

اللہ تعالیٰ عز و جل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آ گئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کر رہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہو گئے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے اقتربت الساعتہ وانشق القمرالخ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا الخ۔ ابونواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے۔

 الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن

موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی سفارش کی۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کر دوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔ حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کر لیا تحریف اور تبدیلی کر لی، کمی زیادتی کر لی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بے پرواہی کر رہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کر دے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آ جاتے ہیں ؟ ان بد کر داروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات کی پوشیدہ نہیں۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے ہے۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے۔ پھر کفار کی ضد، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بے معنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا۔ بے شک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرورہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے توعادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے۔ عموماً اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرئے گئے۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزہ طلب کر رہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہو جائیں۔ جیسے فرمان ہے ان الذین حقت علیہم الخ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں، ایمان قبول نہ کریں گے۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کر لیں گے لیکن وہ محض بے سود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھاورنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بے شمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مجمع مسجد میں تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کر رہے تھے اتنے میں عبد اللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابوبکر تم حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلاً موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے، داؤدعلیہ السلام اونٹنی لائے، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رونے لگے۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ جایا کرو۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو۔ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذا پہنچی ہے۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل کا ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کر طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بے پڑھا ہوں۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے۔ رعب میرا میرے آگے آگے کر دیا ہے۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہو گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران وپریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہو گی۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے۔

 

۷

مشرکین مکہ رسول اللہؐ کی بشریت کے منکر تھے

چونکہ مشرکین اس کے منکر تھے کہ انسانوں میں سے کوئی انسان اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمہو، اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدے کی تردید کرتا ہے فرماتا ہے تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب انسان ہی تھے ان ایک بھی فرشتہ نہ تھاجیسے دوسری آیت میں ہے وما ارسلنک قبلک الا رجالا نوحی الیہم من اہل القری یعنی تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے اور ان کی طرف وحی نازل فرمائی سب شہروں کے رہنے والے انسان ہی تھے۔ اور آیت میں ہے قل ما کنت بدعا من الرسل یعنی کہہ دے کہ میں کوئی نیا اور انوکھا اور سب سے پہلا رسول تو ہوں ہی نہیں۔ ان کافروں سے پہلے کے کفار نے بھی نبیوں کے نہ ماننے کا یہی حیلہ اٹھایا تھا جسے قرآن نے بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا تھا البشریہدوننا کیا ایک انسان ہمارا رہبر ہو گا؟ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اچھا تم اہل علم سے یعنی یہودیوں اور نصرانیوں سے اور دوسرے گروہ سے پوچھ لو کہ ان کے پاس انسان ہی رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یا فرشتے ؟ یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ انسانوں کے پاس انہی جیسے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے تاکہ لوگ ان کے پاس بیٹھ اٹھ سکیں، ان کی تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کی باتیں سن سمجھ سکیں۔ کیا وہ اگلے پیغمبر سب کے سب ایسے جسم کے نہ تھے جو کھانے پینے کی حاجت نہ رکھتے ہوں۔ بلکہ وہ کھانے پینے کے محتاج تھے جیسے فرمان ہے وما ارسلناقبلک من المرسلین الا انہم لیاکلون الطعام ویمشون فی الاسواق یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں آمد و رفت بھی کرتے تھے یعنی وہ سب انسان تھے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے اور کام کاج بیوپار تجارت کے لئے بازاروں میں بھی آنا جانا رکھتے تھے۔ پس یہ بات ان کی پیغمبری کے منافی نہیں۔ جیسے مشرکین کا قول تھا مالہذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق الخ، یعنی یہ رسول کیسا ہے ؟ جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا کہ وہ بھی اس کے ساتھ اس کے دین کی تبلیغ کرتا اچھا یہ نہیں تو اسے کسی خزانے کا مالک کیوں نہیں کر دیا جاتا یا اسے کوئی باغ ہی دے دیا جاتا جس سے یہ با فراغت کھاپی لیتا۔ الخ اسی طرح اگلے پیغمبر بھی دنیا میں نہ رہے آئے اور گئے جیسے فرمان ہے وما جعلنا لبشرمن قبلک الخلدیعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی انسان کو دوام نہیں بخشا۔ ان کے پاس البتہ وحی الٰہی آتی رہی فرشتہ اللہ کے حکم احکام پہنچا دیا کرتے تھا۔ پھر رب کا جو وعدہ ان سے تھا وہ سچا ہو کر رہا یعنی ان کے مخالفین بوجہ اپنے ظلم کے تباہ ہو گئے اور وہ نجات پا گئے۔ ان کے تابعدار بھی کامیاب ہوئے اور حد سے گزر جانے والوں کو یعنی نبیوں کے جھٹلانے والوں کو اللہ نے ہلاک کر دیا۔

 

۱۰

قدرناشناس لوگ

اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی قدر و منزلت پر رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہم کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف اتاری ہے جس میں تمہاری بزرگی ہے، تمہارا دین، تمہاری شریعت اور تمہاری باتیں ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدر نہیں کرتے؟ اور اس اتنی بڑی شرافت والی کتاب سے غفلت برت رہے ہو؟ جیسے اور آیت میں ہے وانہ لذکرلک ولقومک الختیرے لئے اور تیری قوم کے لئے یہ نصیحت ہے اور تم اس کے بارے میں ابھی ابھی سوال کئے جاؤ گے۔ پھر فرماتا ہے ہم نے بہت سی بستیوں کے ظالموں کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ اور آیت میں ہے ہم نے نوح علیہ السلام کے بعد بھی بہت سی بستیاں ہلاک کر دیں۔ اور آیت میں ہے کتنی ایک بستیاں ہیں جو پہلے بہت عروج پر اور انتہائی رونق پر تھیں لیکن پھر وہاں کے لوگوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے ان کا چورا کر دیا، بھس اڑا دیا، آبادی ویرانی سے اور رونق سنسان سناٹے میں بدل گئی۔ ان کے ہلاکت کے بعد اور لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا ایک قوم کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری یونہی آتی رہیں۔ جب ان لوگوں نے عذابوں کو آتا دیکھ لیا یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اللہ کے عذاب آ گئے۔ تو اس وقت گھبرا کر راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ لگے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے۔ اب بھاگو دوڑو نہیں بلکہ اپنے محلات میں اور عیش و عشرت کے سامانوں میں پھر آ جاؤ تاکہ تم سے سوال جواب تو ہو جائے کہ تم نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا بھی کیا یا نہیں ؟ یہ فرمان بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں ذلیل و حقیر کرنے کے ہو گا۔ اس وقت یہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے صاف کہیں گے کہ بے شک ہم ظالم تھے لیکن اس وقت کا اقرار بالکل بے نفع ہے۔ پھر تو یہ اقراری ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا ناس ہو جائے اور ان کی آواز دبا دی جائے اور یہ مسل دیئے جائیں۔ ان کا چلنا پھرنا آنا جانا بولنا چالنا سب ایک قلم بند ہو جائے۔

 

۱۶

آسمان و زمین کوئی کھیل تماشہ نہیں

آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے۔ اس نے انہیں بے کار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کاہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنا لیتے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے۔ لہوکے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ دونوں معنے ہم اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے۔ لیکن یہ دونوں معنے آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے۔ جیسے فرمان ہے لواراد اللہ ان یتخذولدا الخ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے۔ ان کنا فاعلین میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے۔ بلکہ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے۔ 

فرشتوں کا تذکرہ

ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہو جاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آ رہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہو گا اور اپنا کیا بھرے گا۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح و اطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا میں لوگو! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو۔ عبد اللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنو عبد المطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے۔

 

۲۱

سب تہمتوں سے بلند اللہ جل شانہٗ

شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ جن جن کو تم اللہ کے سوا پوج رہے ہو ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو مردوں کو جلاسکے۔ کسی میں یاسب میں مل کر بھی یہ قدرت نہیں پھر انہیں اس قدرت والے کے برابر ماننا یا ان کی بھی عبادت کرنا کس قدر ناانصافی ہے؟ پھر فرماتا ہے سنو اگر مان لیا جائے کہ فی الواقع بہت سے الہٰ ہیں تو لازم آئے گا کہ زمین و آسمان تباہ و برباد ہو جائیں جیسے فرمان ہے مااتخذ اللہ من ولدالخ، اللہ کی اولاد نہیں، نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوقات کو لئے پھرتا اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ اوصاف سے مبرا اور منزہ ہے۔ یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ مالک عرش ان کے کہے ہوئے ردی اوصاف سے یعنی لڑکے لڑکیوں سے پاک ہے۔ ایس طرح شریک اور ساجھی سے، مثل اور ساتھی سے بھی بلند و بالا ہے۔ ان کی یہ سب تہمتیں ہیں جن سے اللہ کی ذات برتر ہے۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ علی الاطلاق شہنشاہ حقیقی ہے، اس پر کوئی حاکم نہیں۔ سب اس کے غلبے اور قہر تلے ہیں۔ نہ تو اس کے حکم کا کوئی تعاقب کر سکے نہ اس کے فرمان کو کوئی ٹال سکے۔ اس کی کبریائی اور عظمت جلال اور حکومت علم اور حکمت لطف اور رحمت بے پایاں ہے۔ کسی کو اس کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں۔ سب پست اور عاجز ہیں لاچار اور بے بس ہیں۔ کوئی نہیں جو چوں کرے کوئی نہیں جو اس کے سامنے بول سکے کوئی نہیں جسے چوں چرا کا اختیار ہو جو اس کا پوچھ سکے کہ یہ کام کیوں کیا ایسا کیوں ہوا؟ وہ چونکہ تمام مخلوق کا خالق ہے سب کا مالک ہے اسے اختیار ہے جس سے جو چاہے سوال سکے کہ ہر ایک کے اعمال کی وہ باز پرس کرے گا۔ جیسے فرمان ہے فوربک لنسئلنہم اجمعین الخ، تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریں گے ہراس فعل سے ہر جو انہوں نے کیا۔ وہی ہے کہ جو اس کی پناہ میں آگیا سب شر سے بچ گیا اور کوئی نہیں جو اس کے مجرم کو پناہ دے سکے۔

 

۲۴

حق سے غافل مشرک

ان لوگوں نے اللہ کے سوا جن جن کو معبود بنا رکھا ہے ان کی عبادت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ہم جس اللہ کی عبادت کر رہے ہیں اس میں سچے ہیں ہمارے ہاتھوں میں اعلیٰ تر دلیل کلام اللہ موجود ہے اور اس سے پہلے کی تمام الہامی کتابیں اسی کی دلیل میں با آواز بلند شہادت دیتی ہیں جو توحید کی موافقت میں اور کافروں کی خود پرستی کے خلاف میں ہیں۔ جو کتاب جس پیغمبر پر اتری اس میں یہ بیان موجود رہا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں لیکن اکثر مشرک حق سے غافل ہیں اور اللہ کی باتوں سے منکر ہیں۔ تمام رسولوں کو توحید الٰہی کی ہی تلقین ہوتی رہی۔ فرمان ہے واسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا الخ تجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں تو خود پوچھ لے کہ ہم نے ان کے لئے اپنے سوا اور کوئی معبود مقرر کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کرتے ہوں ؟ اور آیت میں ہے ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدواللہ واجتنبوا الطاغوت ہم نے ہر امت میں اپنا پیغامبر بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم سب ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سواہرایک کی عبادت سے الگ رہو۔ پس انبیاء کی شہادت بھی یہی ہے اور خود فطرت اللہ بھی اسی کی شاہد ہے۔ اور مشرکین کی کوئی دلیل نہیں۔ ان کی ساری حجتیں بیکار ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔

 

۲۶

خشیت الٰہی

کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے، فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں، بڑے بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں قولاً اور فعلاً ہر وقت اطاعت الٰہی میں مشغول ہیں۔ نہ توکسی امر میں اس سے آگے بڑھیں، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں آکے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ذرے ذرے کا وہ دانا ہے۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لئے لب ہلا سکیں۔ جیسے فرمان ہے من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جاسکے ؟ اور آیت میں ہے ولا تنفع الشفاعتہ عندہ الا لمن اذن لہ۔ یعنی اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الٰہی سے، ہیبت رب سے لرزاں وترساں رہا کرتے ہیں۔ ان میں سے جو بھی خدائی کا دعوی کرے ہم اسے جہنم واصل کر دیں ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان الٰہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے۔ اسی طرح کی آیت قل ان کان للرحمن ولدا اور لئن اشرکت الخ، ہے۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے شرک ممکن۔

 

۳۰

زبردست غالب

اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو؟ ابتدا میں زمین و آسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے؟

 ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد

یعنی ہر چیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن؟ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زمین و آسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہو گا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا زمین و آسمان سب ایک ساتھ تھے، نہ بارش برستی تھی، نہ پیداوار اگتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی۔ جب سائل نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہو گیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرات بڑھ گئی ہو؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کر دی گئیں۔ حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کر دیئے گئے۔ زمین و آسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنا دیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہو جاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کر دیں۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ آپ نے فرمایا لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ زمین کو جناب باری عز و جل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کر دیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کر سکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں۔ شان الٰہی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الٰہی خود اس پہاڑ میں راستہ بنا دیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کر لیں۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنا دیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں فرماتا ہے قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی۔ ارشاد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں۔ بنا ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو۔ پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلند و بالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا رکی ہوئی موج ہے۔ یہ روایت سنداًغریب ہے لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بے پرواہ ہیں۔ جیسے فرمان ہے آسمان و زمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کا جڑاؤ ہو رہا ہے۔ ان میں بھی کوئی ٹھیرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا ہے رات ہے۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کر لیتا ہے۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کر لی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہو جایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کر لیا ہو گا؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہو گا جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور و تدبر کے بغیر ہی ہٹا لی ہو۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا فرمایا بس یہی سبب ہے۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو، سورج چاند کو دیکھو۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیٰحدہ ہے۔ چاند کا نور الگ ہے، فلک الگ ہے،چال الگ ہے، انداز اور ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے۔ جیسے فرمان ہے وہی صبح کا روشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والا ہے۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والا ہے۔

 

۳۴

خضر علیہ السلام مر چکے ہیں

جتنے لوگ ہوئے سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں۔ ہاں رب کی جلال و اکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے۔ اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام مر گئے۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے ولی ہوں یا نبی ہوں یا رسول ہوں تھے تو انسان ہی۔ ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مر جاؤ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ ایسا تو محض ناممکن دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے۔ پھر فرمایا موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا پڑے گا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں ؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے۔ پھر فرماتا ہے بھلائی برائی سے، سکھ دکھ سے، مٹھاس کڑواہٹ سے، کشادگی تنگی سے۔ ہم اپنے بندوں کو آزما لیتے ہیں تاکہ شکرگزار اور ناشکرا صابر اور نا امید کھل جائے۔ صحت و بیماری، تونگری، فقیری، سختی، نرمی،حلال،حرام، ہدایت، گمراہی، اطاعت، معصیت یہ سب آزمائشیں ہیں، اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے اس وقت جوجیسا تھا کھل جائے گا۔ بروں کوسزا نیکوں کو جزا ملے گی۔

 

۳۶

جلد باز انسان

ابوجہل وغیرہ کفار قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کر دیتے اور آپ کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے۔ کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں۔ اللہ کے منکر، رسول اللہ کے منکر اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کر کے فرمایا گیا ہے ان کاد لیضلناعن الہتنا۔ یعنی وہ تو کہیے ہم جمے رہے ورنہ اس نے تو ہمیں ہمارے پرانے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ خیر انہیں عذاب کے معائنہ سے معلوم ہو جائے گا کہ گمراہ کون تھا؟ انسان بڑا جلدباز ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی سرآنکھ اور زبان میں جب روح آ گئی تو کہنے لگے الٰہی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہو جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں تمام دنوں میں بہتر وافضل دن جمعہ کا دن ہے اسی میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے اسی میں قیامت قائم ہو گئی اسی دن میں ایک ایسی ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کر کے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھرک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانی جبلت میں جلدبازی ہے۔ لیکن عادت الٰہی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے۔ میرے نبی کو مذاق میں اڑنے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے تم ابھی دیکھ لوگے۔ جلدی نہ مچاؤ دیر ہے اندھیر نہیں مہلت ہے بھول نہیں۔

 

۳۹

خود عذاب کے طالب لوگ

عذاب الٰہی کو، قیامت کے آنے کو یہ لوگ چونکہ محال جانتے تھے اس لئے جرات سے کہتے تھے کہ بتاؤ تو سہی تمہارے یہ ڈراوے کب پورے ہوں گے؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ تم اگر سمجھ دار ہوتے اور اس دن کی ہولناکیوں سے آگاہ ہوتے تو جلدی نہ مچاتے اس وقت عذاب الٰہی اوپر تلے سے اوڑھنا بچھونا بنے ہوئے ہوں گے،طاقت نہ ہو گی کہ آگے پیچھے سے اللہ کا عذاب ہٹاسکو۔ گندھک کالباس ہو گا جس میں آگ لگی ہوئی ہو گی اور کھڑے جل رہے ہوں گے، ہر طرف سے جہنم گھیرے ہوئے ہو گی۔ کوئی نہ ہو گا جو مدد کو اٹھے جہنم اچانک دبوچ لے گی اس وقت حیران و ششدر رہ جاؤ گے مبہوت اور بے ہوش ہو جاؤ گے، کوئی حیلہ نہ ملے گا کہ اسے دفعہ کرو، اس سے بچ جاؤ اور نہ ایک ساعت کی ڈھیل اور مہلت ملے گی۔

 

۴۱

انبیاء کی تکذیب کافروں کا شیوہ ہے

اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہیں جو ستایا جا رہا ہے، مذاق میں اڑیا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے اس پر  پریشان نہ ہونا، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے۔ جیسے فرمان ہے ولقد کذبت رسل من قبلک فصبرواالخ، تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ گئی۔ اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آ چکی ہیں۔ پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کر رہا ہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں۔ من الرحمان کا معنی رحمان کے بدلے یعنی رحمان کے سواہیں عربی شعروں میں بھی من بدل کے معنی میں ہے۔ اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں ؟ یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے ان کا گمان یہ محض غلظ ہے، بلکہ ان کے معبود ان باطل خود اپنی و حفاظت کے بھی مالک نہیں۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں۔ ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں۔

 

۴۴

ذلت ورسوائی کے مارے لوگ

کافروں کے کینہ کی اور اپنی گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان رہی ہے کہ انہیں کھانے پینے کو ملتا رہا، لمبی لمبی عمریں ملیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے کرتوت اللہ کو پسند ہیں، اس کے بعد انہیں نصیحت کرتا ہے کہ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کافروں کی بستیوں کی بستیاں بوجہ ان کے کفر کے ملیامیٹ کر دیں ؟ اس جملے کے اور بھی بہت سے معنی کئے گئے ہیں جو سورۃ رعد میں ہم بیان کر آئے ہیں۔ لیکن زیادہ ٹھیک معنی یہی ہیں۔ جیسے فرمایا ولقد اہلکنا ماحولکم من القری الخ، ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر کے تمھیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آ جائیں۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ہم کفر پر اسلام کو غالب کرتے چلے ہیں کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں پر غالب کر دیا اور کس طرح جھٹلانے والی اگلی امتوں کو اس نے ملیامیٹ کر دیا اور اپنے مومنوں کو نجات دے دی کیا اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو غالب ہی سمجھ رہے ہیں ؟ نہیں نہیں بلکہ یہ مغلوب ہیں، ذلیل ہیں، رذلیل ہیں، نقصان میں ہیں، بربادی کے ماتحت ہیں۔ میں تو اللہ کی طرف سے مبلغ ہوں، جن جن عذابوں سے تمہیں خبردار کر رہا ہوں یہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کہا ہوا ہے۔ ہاں جن کی آنکھیں اللہ نے اندھی کر دی ہیں، جن کے دل ودماغ بند کر دیئے ہیں انہیں اللہ کی یہ باتیں سود مند نہیں پڑتیں۔ بہروں کو آگاہ کرنا بے کار ہے کیونکہ وہ تو سنتے ہی نہیں۔ ان گنہگاروں پر اک ادنیٰ سا بھی عذاب آ جائے تو تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اسی وقت بے ساختہ اپنے قصور کا اقرار کر لیتے ہیں۔ قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی۔ یہ ترازو ایک ہی ہو گی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے، اس اعتبار سے لفظ جمع لائے۔ اس دن کسی پر کسی طرح کا ذرا سابھی ظلم نہ ہو گا۔ اس لئے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لئے کافی ہے ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہو جائے گا۔ اور آیت میں فرمایا تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ فرمان ہے ان اللہ لایظلم مثقال ذرۃ الخ، اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے۔ حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں اپنے بیٹے سے فرمایا تھا ایک رائی کے دانے برابر بھی جو عمل ہو خواہ وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں وہ اللہ اسے لائے گا وہ بڑا ہی باریک بین اور با خبر ہے۔ بخاری و سلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دو کلمے ہیں زبان پر ہلکے ہیں، میزان میں وزن دار ہیں اور اللہ کو بہت پیارے ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لی علیہ و سلم فرماتے ہیں میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے اپنے پاس بلائے گا اور اس کے گناہوں کے ایک کم ایک سو دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے جہاں تک نگاہ کام کرے وہاں تک کا ایک ایک دفتر ہو گا پھر اس سے جناب باری تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ کیا تجھے اپنے کئے ہوئے ان گناہوں میں سے کسی کا انکار ہے؟ میری طرف سے جو محافظ فرشتے تیرے اعمال لکھنے پر مقرر تھے انہوں نے تجھ پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ؟ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ نہ انکار کی گنجائش ہے نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے اچھا تیرے کوئی عذر ہے یا کوئی نیکی ہے؟ وہ گھبرایا ہوا کہے گا اے اللہ کوئی نہیں۔ پروردگار عالم فرمائے گا کیوں نہیں ؟ بے شک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہو گا اب ایک چھوٹا ساپرچہ نکالا جائے گا جس میں اشہد ان لا الہ اللہ وان محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے پیش کرو۔ وہ کہے گا اے اللہ یہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا کرے گا؟ جناب باری فرمائے گا تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ اب تمام کے تمام دفتر ترازو کے ایک پلے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس پرچے کا وزن ان تمام دفتروں سے بڑھ جائے گا۔ یہ جھک جائے گا اور اونچے ہو جائیں گے اور اللہ رحمان و رحیم کے نام سے کوئی چیز وزنی نہ ہو گی۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں روایت ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جب ترازوئیں رکھی جائیں گی پس ایک شخص کو لایا جائے اور ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور جو کچھ اس پر شمار کیا گیا ہے وہ بھی رکھا جائے گا تو وہ پلڑا جھک جائے گا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ ابھی اس نے پیٹھ پھیری ہی ہو گی کہ اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا اور کہے گا جلدی نہ کرو ایک چیز اس کی ابھی باقی گئی ہے پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں لاالہ الا اللہ ہو گا وہ اس شخص کے ساتھ ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا اور یہ پلڑا نیکی کا جھک جائے گا۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ میرے غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے بھی ہیں، میری خیانت بھی کرتے ہیں، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں بھی انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور برا بھلا بھی کہتا ہوں۔ اگر تیری سزا ان کی خطاؤں کے برابر ہوئی تو توچھوٹ گیا۔ نہ عذاب نہ ثواب ہاں اگر تیری سزا کم رہی تو تجھے اللہ کافضل و کرم ملے گا اور اگر تیری سزا ان کے کرتوتوں سے بڑھ گئی تو تجھ سے اس بڑھی ہوئی سزا کا انتقام لیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ صحابی رونے لگے اور چیخنا شروع کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے کیا ہو گیا؟ کیا اس نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا ونضع الموازین القسط الخ، یہ سن کر اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان معاملات کو سن کر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان تمام غلاموں کو آزاد کر دوں۔ آپ گواہ رہئے یہ سب اللہ کی راہ میں آزاد ہیں۔

 

۴۹

کتاب النور

ہم پہلے بھی اس بات جتا چکے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر اکثر ملا جلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماًایک ساتھ ہی ہوتا ہے۔ فرقان سے مراد کتاب یعنی تورات ہے جو حق وباطل حرام حلال میں فرق کرنے والی تھی۔ اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی۔ کل کو کل آسمانی کتابیں حق وباطل ہدایت وگمراہی بھلائی برائی حلال وحرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان سے دلوں میں نورانیت، اعمال میں حقانیت، اللہ کا خوف وخشیت ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ کتاب نصیحت وپند اور نور وروشنی ہے۔ پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے ہیں رہتے ہیں۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا من خشی الرحمن بالغیب وجاء بقلب منیب۔ جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں۔ اور آیت میں ہے جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے۔ ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آ سکتا۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت و حقانیت صداقت و نورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو؟۔

 

۵۱

یہودی روایتوں سے بچو

فرمان ہے کہ خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بچپن سے ہی ہدایت عطا فرمائی تھی۔ انہیں اپنی دلیلیں الہام کی تھیں اور بھلائی سمجھائی تھی جیسے آیت میں ہے وتلک حجتنا اتیناہا ابراہیم علی قومہ۔ یہ ہیں ہماری زبردست دلیلیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو دی تھیں تاکہ وہ اپنی قوم کو قائل کر سکیں۔ یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انہیں ان کے والد نے ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے مدتوں بعد وہ باہر نکلے اور مخلوقات الٰہی پر خصوصاً چاند تاروں وغیرہ پر نظر ڈال کر اللہ کو پہچانا یہ سب بنی اسرائیل کو افسانے ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ ان میں سے جو واقعہ اس کے مطابق ہو جو حق ہمارے ہاتھوں میں ہے یعنی کتاب وسنت وہ تو سچا ہے اور قابل قبول ہے اس لئے کہ وہ صحت کے مطابق ہے اور جو خلاف ہو وہ مردود ہے۔ اور جس کی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، موافقت و مخالفت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے لیکن نہ تو ہم اسے سچا کر سکتے ہیں نہ غلط۔ ہاں یہ ظاہرہے کہ وہ واقعات ہمارے لئے کچھ سند نہیں، نہ ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا توہماری جامع نافع کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کوتاہی نہ کرتی۔ ہمارا اپنا مسلک تو اس تفسیر میں یہ رہا ہے کہ ہم ایسی بنی اسرائیلی روایتوں کو وارد نہیں کرتے کیونکہ اس میں سوائے وقت ضائع کرنے کے کہ کوئی نفع نہیں ہاں نقصان کا احتمال زیادہ ہے۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ بنی اسرائیل میں روایت کی جانچ پڑتال کا مادہ ہی نہ تھا وہ سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہی نہ تھے ان میں جھوٹ سرایت کر گیا تھا جیسے کہ ہمارے حفاظ ائمہ نے تشریح کی ہے۔ غرض یہ ہے کہ آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ ہم نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت بخشی تھی اور ہم جانتے تھے کہ وہ اس کے لائق ہے بچپنے میں ہی آپ نے اپنی قوم کی غیر اللہ پرستی کو ناپسند فرمایا۔ اور نہایت جرات سے اس کا سخت انکار کیا اور قوم سے برملا کہا کہ ان بتوں کے اردگرد مجمع لگا کر کیا بیٹھے ہو؟ حضرت اصبح بن بناتہ راہ سے گزر رہے تھے جو دیکھا کہ شطرنج باز لوگ بازی کھیل رہے ہیں۔ آپ نے یہی تلاوت فرما کر فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا انگارا لے لے یہ اس شطرنج کے مہروں کے لینے سے اچھا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس کھلی دلیل کا جواب ان کے پاس کیا تھا جو دیتے؟ کہنے لگے کہ یہ تو پرانی روش ہے، باپ دادوں سے چلی آتی ہے۔ آپ نے فرمایا واہ یہ بھی کوئی دلیل ہوئی ؟ ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ایک گمراہی میں تمہارے بڑے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہو جاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ؟ میں کہتا ہوں تم اور تمہارے باپ دادا سبھی راہ حق سے برگشتہ ہو گئے ہو اور کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو۔ اب تو ان کان کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے عقل مندوں کی توہین دیکھی، اپنے باپ دادوں کی نسبت نہ سننے والے کلمات سنے۔ اپنے معبودوں کی حقارت ہوتی ہوئی دیکھی تو گھبراگئے اور کہنے لگے ابراہیم کیا واقعی تم ٹھیک کہ رہے ہو یا مذاق کر رہے ؟ ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی۔ آپ کو تبلیغ کا موقعہ ملا اور صاف اعلان کیا کہ رب تو صرف خالق آسمان و زمین ہی ہے۔ تمام چیزوں کا خالق مالک وہی ہے، تمہارے یہ معبود کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی خالق ہیں نہ مالک۔ پھر معبود مسجود کیسے ہو گئے ؟ میری گواہی ہے کہ خالق و مالک اللہ ہی لائق عبادت ہے نہ اسکے سوا کوئی رب نہ معبود۔

 

۵۷

کفر سے بیزاری طبیعت میں اضمحلال پیدا کرتی ہے

اوپر ذکر گزرا کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا۔ اور جذبہ توحید میں آ کر آپ نے قسم کھا لی کہ میں تمہارے ان بتوں کا ضرور کچھ نہ کچھ علاج کروں گا۔ اسے بھی قوم کے بعض افراد نے سن لیا۔ ان کی عید کا دن جو مقرر تھا حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم اپنی رسوم عید ادا کرنے کے لئے باہر جاؤ گے میں تمہارے بتوں کو ٹھیک کر دوں گا۔ عید کے ایک آدھ دن پیشتر آپ کے والد نے آپ سے کہا کہ پیارے بیٹے تم ہمارے ساتھ ہماری عید میں چلو تاکہ تمہیں ہمارے دین کی اچھائی اور رونق معلوم ہو جائے۔ چنانچہ یہ آپ کو لے چلا۔ کچھ دور جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم گر پڑے اور فرمانے لگے ابا میں بیمار ہو گیا۔ باپ آپ کو چھوڑ کرمراسم کفر بجا لانے کے لئے بڑھ گئے اور جو لوگ راستے سے گزرتے آپ سے پوچھتے کیا بات ہے راستے پر کیسے بیٹھے ہو؟ جواب دیتے کہ میں بیمار ہوں۔ جب عام لوگ نکل گئے اور بڈھے بڑے لوگ رہ گئے تو آپ نے فرمایا تم سب کے چلے جانے کے بعد آج میں تمہارے معبودوں کی مرمت کر دوں گا۔ آپ نے جو فرمایا کہ میں بیمار ہوں تو واقعی آپ اس دن کے اگلے دن قدرے علیل بھی تھے۔ جب کہ وہ لوگ چلے گئے تو میدان خالی با کر آپ نے اپنا ارادہ پورا کیا اور بڑے بت کو چھوڑ کر تمام بتوں کا چورا کر دیا۔ جیسے اور آیتوں میں اس کا تفصیلی بیان موجود ہے کہ اپنے ہاتھ سے ان بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ اس بڑے بت کے باقی رکھنے میں حکمت و مصلحت یہ تھی کہ اولاً ان لوگوں کے ذہن میں خیال آئے کہ شاید اس بڑے بت نے ان چھوٹے بتوں کو غارت کر دیا ہو گا؟ کیونکہ اسے غیرت معلوم ہوئی ہو گی کہ مجھ بڑے کے ہوتے ہوئے یہ چھوٹے خدائی کے لائق کیسے ہو گئے۔ چنانچہ اس خیال کی پختگی ان کے ذہنوں میں قائم کرنے کے لئے آپ نے کلہاڑا بھی اس کی گردن پر رکھ دیا تھا۔ جیسے مروی ہے۔ جب یہ مشرکین اپنے میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے سارے معبود منہ کے بل اوندھے گرے ہوئے ہیں۔ اور اپنی حالت سے وہ بتا رہے ہیں کہ وہ محض بے جان بے نفع و نقصان ذلیل و حقیر  چیز ہیں۔ اور گویا اپنی اس حالت سے اپنے پجاریوں کی بے وقوفی پر مہر لگا رہے تھے۔ لیکن ان بیوقوفوں پر الٹا اثر ہوا کہنے لگے یہ کون ظالم شخص تھا جس نے ہمارے معبودوں کی ایسی اہانت کی؟ اس وقت جن لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ کلام سنا تھا، انہیں خیال آگیا اور کہنے لگے وہ نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے اسے ہم نے اپنے معبودوں کی مذمت کرتے ہوئے سنا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھتے اور فرماتے جو نبی آیا جوان۔ جو عالم بنا جوان۔ شان الٰہی دیکھئے جو مقصد حضرت خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کا تھا وہ اب پورا ہو رہا ہے۔ قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کی سزا دو۔ حضرت خلیل اللہ یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضع کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کرو۔ اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم و جاہل ہیں ؟ کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ چنانچہ مجمع ہوا۔ سب چھوٹے بڑے آ گئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ نے انہیں قائل معقول کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے۔ اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ نے توڑا نہ تھا پھر فرمایا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے؟ اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے ؟ اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھیر سکتے ہیں ؟ چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الٰہی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں دوتو راہ اللہ میں۔ ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے۔ دوسرا یہ فرمانا کہ میں بیمار ہوں۔ اور ایک مرتبہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے۔ اتفاق سے ایک ظالم کی حدود سے آپ گزر رہے تھے آپ نے وہاں منزل کی تھی۔ کسی نے بادشاہ کو خبر کر دی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ حضرت سارہ کو لے آئے۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میری بہن ہے اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو۔ آپ حضرت سارہ کے پاس گئے اور فرمایا سنواس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتا چکا ہوں اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا اس لئے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں۔ یہ کہہ کر آپ چلے آئے حضرت سارہ رحمۃ اللہ علیہ وہاں سے چلیں آپ نماز میں کھڑے ہو گئے۔ جب حضرت سارہ کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑ لیا ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے۔ گھبرا کر عاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ آپ نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہو گیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ کو پکڑنا چاہا وہی پھر عذاب الٰہی آ پہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گنا پھر عاجزی کرنے لگا غرض تین دفعہ پے درپے یہی ہوا۔ تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کر دے۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور حضرت ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ کہو کیا گزری؟ آپ نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور ہاجرہ میری خدمت کے لئے آ گئیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو۔

 

۶۴

اپنی حماقت سے پریشان کافر

بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہو گیا۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے۔ سخت ندامت اٹھائی اور اپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے۔ پھر غور و فکر کر کے بات بنائی کہ آپ جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ کو علم نہیں کہ یہ بت بے زبان ہیں ؟ عاجزی حیرت اور انتہائی لا جوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا اب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ فوراً فرمانے لگے کہ بے زبان بے نفع و ضرر چیز کی عبادت کیسی؟ تم کیوں اس قدر بے سمجھ رہے ہو؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے ان خداؤں پر آہ کس قدر ظلم و جہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے ؟ یہی وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ ہم نے ابراہیم کو دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے۔

 

۶۹

آگ گلستان بن گئی

یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہو جاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آ جاتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کی بدبختی نے گھیر لیا اور دلیل سے عاجز آ کر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے۔ اس بات پر سب نے اتفاق کر لیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کر دیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفا ہو جائے تو ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کو لکڑیاں لائیں گئی۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا لکڑیوں سے پر کیا اور انبار کھڑا کر کے اس میں آگ لگائی روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی۔ جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اس کے پاس جانا محال ہو گیا اب گھبرائے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالیں کیسے؟ آخر ایک کر دی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک منجینق تیار کرائی گئی کہ اس بیٹھا کر جھولا کر پھنک دو۔ مروی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے۔ جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ کے مقابلے کے لئے آ رہے ہیں تو آپ نے بھی یہی پڑھا تھا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں۔ مروی ہے کہ جب کافر آپ کو باندھنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تیری ذات پاک ہے تمام حمدو ثنا تیرے ہی لئے سزاوار ہے۔ سارے ملک کو کا تو اکیلا ہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک وساجھی نہیں۔ حضرت شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی۔ واللہ اعلم۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے آسمان و زمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟ آپ نے جواب دیا تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پربارش برسا کراسے ٹھنڈی کر دوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ میرے خلیل پر سلامتی اور ٹھنڈک بن جا۔ فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اگر آگ کوصرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ کوضرر پہنچاتی اس لئے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا۔ ضحاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑا گڑھا بہت ہی گہرا کھودا تھا اور اسے آگ سے پر ُکیا تھا ہر طرف آگ کے شعلے نکل رہے تھے اس میں خلیل اللہ کو ڈال دیا لیکن آگ نے آپ کو چھوا تک نہیں یہاں تک کہ اللہ عز و جل نے اسے بالکل ٹھنڈا کر دیا۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے آپ کے منہ پر سے پسینہ پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آپ کو آگ نے کوئی تکلیف دی۔ سدی فرماتے ہیں سایہ یافرشتہ اس وقت آپ کے ساتھ تھا۔ مروی ہے کہ آپ اس میں چالیس یا پچاس دن رہے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے اس وقت آپ کو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ کے والد نے کہا ابراہیم تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس دن جو جانور نکلا وہ آپ کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے۔ حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور فاسق کہا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ ک۔ یہ پھونک رہا تھا پس آپ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا۔ حضرت عطیہ عوفی کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاآگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لئے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا۔ ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافربادشاہ کے انگوٹھے پر آپڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جسے روئی جل جائے۔

 

۷۱

ہجرت خلیل علیہ السلام

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ کو عراق کی سرزمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے مالک میں پہنچایا۔ شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا۔ زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے۔ شام ہی محشر کی سرزمین ہے۔ یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے، یہیں دجال قتل کیا جائے گا۔ بقول کعب آپ حران کی طرف گئے تھے۔ یہاں آ کر آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں کے بادشاہ کی لڑکی اپنی قوم کے دین سے بیزار ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے بلکہ ان کے اوپر طعنہ زنی کرتی ہے تو آپ نے ان سے اس قرار پر نکاح کر لیا کہ وہ آپ کے ساتھ ہجرت کر کے یہاں سے نکل چلے انہی کا نام حضرت سارہ ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ یہ روایت غریب ہے اور مشہور یہ ہے کہ حضرت سارہ آپ کے چچا کی صاحبزادی تھیں، اور آپ کے ساتھ ہجرت کر کے چلی آئی تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ حضرت مکے شریف میں ختم ہوئی مکے ہی کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو برکت وہدایت والا ہے، جس میں علاوہ اور بہت سی نشانیوں کے مقام ابراہیم بھی ہے۔ اس میں آ جانے والا امن وسلامتی میں آ جاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب کا عطیہ بھی کیا۔ یعنی لڑکا اور پوتا جیسے فرمان ہے فبشرنہ باسحاق ومن وراء اسحاق یعقوب چونکہ خلیل اللہ علیہ السلام کے سوال میں ایک لڑکے ہی کی طلب تھی دعا کی تھی کہ رب ہب لی من الصالحین اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور لڑکے کے ہاں بھی لڑکا دیا جو سوال سے زائد تھا اور سب کو نیکو کار بنایا۔ ان سب کو دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنادیا کہ بحکم الٰہی خلق اللہ کو راہ حق کی دعوت دیتے رہے۔ ان کی طرف ہم نے نیک کاموں کی وحی فرمائی۔ اس عام بات پر عطف ڈال کر پھر خاص باتیں یعنی نماز اور زکوٰۃ کا بیاں فرمایا۔ اور ارشاد ہوا کہ وہ علاوہ ان نیک کاموں کے حکم کے خود بھی ان نیکیوں پر عامل تھے۔ پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکرشروع ہوتا ہے۔ لوط بن ہاران بن آزر علیہ السلام۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور آپ کی تابعداری میں آپ ہی کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ جیسے کلام اللہ شریف میں ہے فامن لہ لوط الخ حضرت لوط علیہ السلام آپ کی ایمان لائے اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت وعلم عطافرمایا اور وحی نازل فرمائی اور نبیوں کے پاک زمرے میں داخل کیا۔ اور سدوم اور اس کے آس پاس کی بستیوں کی طرف آپ کو بھیجا۔ انہوں نے نہ مانا مخالفت پر کمربستگی کر لی۔ جس کے باعث عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور فناکردئیے گئے، جن کی بربادی کے واقعات اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں یہاں فرمایا کہ ہم نے انہیں بدترین کام کرنے والے فاسقوں کی بستی سے نجات دے دی اور چونکہ وہ اعلیٰ نیکوکار تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا۔

 

۷۶

نوح علیہ السلام کی دعا

نوح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم نے ستایا تکلیفیں دیں تو آپ نے اللہ کو پکارا کہ باری تعالیٰ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ زمین پر ان کافروں میں کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر کافر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ کی اہل کو بھی سوائے ان کے جن کا نام برباد ہونے والوں میں آ گئے تھے۔ آپ پر لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی۔ قوم کی سختی، ایذا دہی، اور تکلیف سے اللہ عالم نے اپنے نبی کو بچالیا۔ ساڑھے نو سال تک آپ ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگرسوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک وکفر سے باز نہ آئے بلکہ آپ کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت آبرو کے ساتھ کفار کی ایذارسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کوٹھکانے لگادیا۔ اور نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا سب ڈبو دئے گئے۔

 

۷۹

ایک ہی مقدمہ میں داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے مختلف فیصلے

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے نفشت کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے۔ اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں ہمل کہتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس باغ کو بکریاں نے بگاڑ دیا،حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی علیہ السلام اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا؟ جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کر دی جائیں وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہو جائیں انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آ جائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے واپس جا رہے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا؟ انہوں نے خبر دی تو آپ نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا حضرت داؤد علیہ السلام کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟ آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا۔ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھا لئے تھے۔ تو حضرت داؤد علیہ السلام کے فیصلے کے خلاف حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے۔ قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت برا بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کر دی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ایاس بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور روئے۔ پوچھا گیا کہ ابوسعید آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا پھر غلطی کی وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا وہ بھی جہنمی ہے ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا وہ جنت میں پہنچا۔ حضرت حسن یہ سن کر فرمانے لگے سنو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ کی قضاۃ کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اعلیٰ منصب ہوتے ہیں، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن حضرت داؤد علیہ السلام کی مذمت بیان نہیں فرمائی۔ پھر فرمانے لگے سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دینوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں، دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے نہ پڑیں، تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی یاداود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الہوی فیضلک عن سبیل اللہ یعنی اے داؤد ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے۔ اور ارشاد ہے فلاتخشوا الناس واخشون لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو اور فرمان ہے ولاتشتروا بایاتی ثمنا قلیلا۔ میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو۔ میں کہتا ہوں انبیاء علیہم السلام کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی ختلاف نہیں۔ رہے اور لوگ توصحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھر صحت تک بھی پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجرملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت ایاس رحمۃ اللہ علیہ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے، واللہ اعلم۔ سنن کی اور حدیث میں ہے قاضی تین قسم کے ہیں ایک جنتی دو جہنمی اور جس نے حق کو معلوم کر لیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی۔ اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی اور جسنے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے بھڑیا آ کر ایک بچے کو اٹھا لے گیا اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے۔ آخریہ قصہ حضرت داؤد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوا۔ آپ نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے یہ یہاں سے نکلیں راستے میں حضرت سلیمان علیہ السلام تھے آپ نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے آدھا آدھا دونوں کو دے دیتا ہوں اس پر بڑی تو خاموش ہو گئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کر دیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے آپ ایسا نہ کیجئے یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اس کے خلاف کچھ کہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن عسا کر میں ہے کہ ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور اپس میں اتفاق کر کے حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں جا کر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کرتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہو گیا کہ اسے رجم کر دیا جائے۔ اسی شام کو حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کر دو۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا؟ اس نے کہا سیاہ۔ پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ۔ تیسرے نے کہا خاکی۔ چوتھے نے کہا سفید آپ نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کر دیا جائے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا۔ آپ نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کا رنگ کی بابت سوال کیا۔ یہ گڑبڑا گئے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہو گیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ بھی۔ ایک روایت میں ہے کہ رات کے وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھیر گئے اور دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا۔ حضرت ابوعثمان نہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز میں تھا۔ پس اتنی خوش آوازی کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد علیہ السلام کی آواز کیسی ہو گی؟ پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہیں بنانی ہم سکھا دی تھیں۔ آپ کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کر دیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکرگزاری کرنی چاہے۔ ہم نے زور اور ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی۔ ہمیں ہر چیز کا علم ہے۔ آپ اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھول آپ پرسایہ ڈالتے جیسے فرمان ہے فسخرنا لہ الریح الخ۔ یعنی ہم نے ہوا کو ان کا تابع کر دیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی۔ صبح شام مہینہ مہینہ بھر کی راہ کو طے کر لیتی۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چھ ہزار کرسی لگائی جاتی۔ آپ کے قریب مومن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مومن جن ہوتے۔ پھر آپ کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ کو لے چلتی۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔ عبد اللہ بن عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہو جاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پردار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ کو بلندی پر لے جاتی آپ اس وقت سرنیچا کر لیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ کی تواضع الو اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی۔ کیونکہ آپ کو اپنی فروتنی کا علم تھا۔ پھر جہاں آپ حکم دیتے وہیں ہوا آپ کو اتار دیتی۔ اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے قبضے میں کر دیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھے جیسے فرمان ہے والشیاطین کل بناء وغواص الخ، ہم نے سرکش جنوں کو ان کا ماتحت کر دیا تھا جو معمار تھے اور غوطہ خور۔ اور ان کے علاوہ اور شیاطین بھی ان کے ماتحت تھے جو زنجیروں میں بندھے رہتے تھے اور ہم ہی سلیمان کے حافظ ونگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا کی آپ کی حکمرانی پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کر لیتے جسے چاہتے آزاد کر دیتے اسی کو فرمایا کہ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے۔

 

۸۳

آزمائش اور مصائب ایوب علیہ السلام

حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیفوں کا بیان ہو رہا ہے جو مالی جسمانی اور اولاد پر مشتمل تھیں ان کے پاس بہت سے قسم قسم کے جانور تھے کھیتیاں باغات وغیرہ تھے اولاد بیویاں لونڈیاں غلام جائیداد اور مال و متاع سبھی کچھ اللہ کا دیا موجود تھا۔ اب جو رب کی طرف سے ان آئی تو ایک سرے سے سب کچھ فنا ہوتا گیا یہاں تک کہ جسم میں جذام پھوٹ پڑا۔ دل و زبان کے سوا سارے جسم کا کوئی حصہ اس مرض سے محفوظ نہ رہا۔ یہاں کہ آس پاس والے کراہت کرنے لگے۔ شہر کے ایک ویران کونے میں آپ کو سکونت اختیار کرنی پڑی۔ سوائے آپ کی ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اور کوئی آپ کے پاس نہ رہا، اس مصیبت کے وقت سب نے کنارہ کر لیا۔ یہی ایک تھیں جو ان کی خدمت کرتی تھیں ساتھ ہی محنت مزدوری کر کے پیٹ پالنے کو بھی لایا کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے، پھر صالح لوگوں کا پھر ان سے نیچے کے درجے والوں کا پھر ان سے کم درجے والوں کا۔ اور روایت میں ہے کہ ہر شخص کا امتحان اس کے دین کے انداز سے ہوتا ہے اگر وہ دین میں مضبوط ہے امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے حضرت ایوب علیہ السلام بڑے ہی صابر تھے یہاں تک کہ صبر ایوب زبان زد عام ہے۔ یزید بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب آپ کی آزمائش شروع ہوئی اہل و عیال مر گئے مال فنا ہو گیا کوئی چیز ہاتھ تلے نہ رہی آپ اللہ کے ذکر میں اور بڑھ گئے کہنے لگے اے تمام پالنے والوں کے پالنے والے تو نے مجھ پر بڑے احسان کئے مال دیا اولاد دی اس وقت میرا دل بہت ہی مشغول تھا اب تو نے سب کچھ لے کر میرے دل کو ان فکروں سے پاک کر دیا اب میرے دل میں اور تجھ میں کوئی حائل نہ رہا اگر میرا دشمن ابلیس تیری اس مہربانی کو جان لیتا تو وہ مجھ پر بہت ہی حسد کرتا ابلیس لعین اس قول سے اور اس وقت کی اس حمد سے جل بھن کر رہ گیا۔ آپ کی دعاؤں میں یہ بھی دعا تھی اے اللہ تو نے جب مجھے توانگر اور اولاد اور اہل و عیال والا بنا رکھا تھا تو خوب جانتا ہے کہ اس وقت میں نے نہ کبھی غرور و تکبر کیا نہ کبھی کسی پر ظلم ستم کیا۔ میرے پروردگار تجھ پر روشن ہے کہ میرا نرم و گرم بستر تیار ہوتا اور میں راتوں کو تیری عبادتوں میں گزارتا اور اپنے نفس کو اس طرح ڈانٹ دیتا کہ تو اس لئے پیدا نہیں کیا گیا تیری رضامندی کی طلب میں میں اپنی راحت و آرام کو ترک کر دیا کرتا۔ (ابن ابی حاتم ) اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ایک بہت لمبا قصہ ہے جسے بہت سے پچھلے مفسیرین نے بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس میں غرابت ہے اور اس کے طول کی وجہ سے ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ مدتوں تک آپ ان بلاؤں میں مبتلا رہے۔ حضرت حسن اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سات سال اور کئی ماہ آپ بیماری میں مبتلا رہے بنو اسرائیل کے کوڑے پھینکنے کی جگہ آپ کو ڈال رکھا تھا۔ بدن میں کیڑے پڑ گئے تھے پھر اللہ نے آپ پر رحم و کرم کیا تمام بلاؤں سے نجات دی اجر دیا اور تعریفیں کیں۔ وہب بن منبہ کا بیان ہے کہ پورے تین سال آپ اس تکلیف میں رہے۔ سارا گوشت جھڑ گیا تھا۔ صرف ہڈیاں اور چمڑہ رہ گیا آپ دکھ میں پڑے رہتے تھے صرف ایک بیوی صاحبہ تھیں جو آپ کے پاس تھیں جب زیادہ زمانہ گزر گیا تو ایک روز عرض کرنے لگیں کہ اے نبی اللہ علیہ السلام آپ اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ وہ اس مصیبت کو ہم پر سے ٹال دے۔ آپ فرمانے لگے سنو ستر برس تک اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت و عافیت میں رکھا تو اگر ستر سال تک میں اس حالت میں رہوں اور صبر کروں تو یہ بھی بہت کم ہے اس پر بیوی صاحبہ کانپ اٹھیں آپ شہر میں جاتیں، لوگوں کا کام کاج کرتیں اور جو ملتا وہ لے آتیں اور آپ کو کھلاتیں پلاتیں۔ آپ کے دو دوست اور دلی خیرخواہ دوست تھے انہیں فلسطین میں جا کر شیطان نے خبر دی کہ تمہارا دوست سخت مصیبت میں مبتلا ہے تم جاؤ ان کی خبرگیری کرو اور اپنے ہاں کی کچھ شراب اپنے ساتھ لے جاؤ وہ پلا دینا اس سے انہیں شفا ہو جائے گی چنانچہ یہ دونوں آئے حضرت ایوب علیہ السلام کی حالت دیکھتے ہی ان کے آنسو نکل آئے بلبلا کر رونے لگے آپ نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے یاد دلایا تو آپ خوش ہوئے انہیں مرحبا کہا وہ کہنے لگے اے جناب آپ شاید کچھ چھپاتے ہوں گے اور ظاہر اس کے خلاف کرتے ہوں گے ؟ آپ نے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اللہ خوب جانتا ہے کہ میں کیا چھپاتا تھا اور کیا ظاہر کرتا تھا میرے رب نے مجھے اس میں مبتلا کیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ میں صبر کرتا ہوں یا بے صبری؟ وہ کہنے لگے اچھا ہم آپ کے واسطے دوا لائے ہیں آپ اسے پی لیجئے شفا ہو جائے گی یہ شراب ہے۔ ہم اپنے ہاں سے لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمانے لگے تمہیں شیطان خبیث لایا ہے تم سے کلام کرنا تمہارا کھانا پینا مجھ پر حرام ہے۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ کی بیوی صاحبہ نے ایک گھر والوں کی روٹیاں پکائیں ان کا ایک بچہ سویا ہوا تھا تو انہوں نے اس بچے کے حصے کی ٹکیا انہیں دے دی یہ لے کر حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس آئیں آپ نے کہا یہ آج کہاں سے لائیں ؟ انہوں نے ساراواقعہ بیان کر دیا۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی واپس جاؤ ممکن ہے بچہ جاگ گیا ہو اور اسی ٹکیا کی ضد کرتا ہو اور رو رو کر سارے گھر پریشان کرتا ہو۔ آپ روٹی واپس لے کرچلیں ان کی ڈیوڑھی میں بکری بندھی ہوئی تھی اس نے زور سے آپ کو ٹکر ماری آپ کی زبان سے نکل گیا دیکھو ایوب کیسے غلط خیال والے ہیں۔ پھر اوپر گئیں تو دیکھا واقعی بچہ جاگا ہوا ہے اور ٹکیا کے لئے مچل رہا ہے اور گھر بھر کا ناک میں دم کررکھا ہے یہ دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلا کہ اللہ ایوب پر رحم کرے، اچھے موقعہ پر پہنچی۔ ٹکیا دے دی اور واپس لوٹیں راستے میں شیطان بہ صورت طبیب ملا اور کہنے لگا کہ تیرے خاوند سخت تکلیف میں ہیں مرض پر مدتیں گزر گئیں تم انہیں سمجھاؤ فلاں قبیلے کے بت کے نام پر ایک مکھی مار دیں شفاء ہو جائے گی پھر توبہ کر لیں۔ جب آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس پہنچیں تو ان سے یہ کہا آپ نے فرمایا شیطان خبیث کاجادو تجھ پر چل گیا۔ میں تندرست ہو گیا تو تجھے سو کوڑے لگاؤں گا۔ ایک دن آپ حسب معمول تلاش معاش میں نکلیں گھر گھر پھر آئیں کہیں کام نہ لگا مایوس ہو گئیں شام کو پلٹنے وقت حضرت ایوب علیہ السلام کی بھوک کا خیال آیا تو آپ نے اپنے بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر ایک امیر لڑکی کے ہاتھ فروخت کر دی اس نے آپ کو بہت کچھ کھانے پینے کا اسباب دیا۔ جسے لے کر آپ آئیں حضرت ایوب علیہ السلام نے پوچھا یہ آج اتنا سارہ اور اتنا اچھا کھانا کیسے مل گیا؟ فرمایا میں نے ایک امیر گھر کا کام کر دیا تھا۔ آپ نے کھا لیا دوسرے روز بھی اتفاق سے ایساہی ہوا اور آپ نے اپنے بالوں کی دوسری کاٹ کر فروخت کر دی اور کھانا لے آئیں آج بھی یہی کھانا دیکھ کر آپ نے فرمایا واللہ میں ہرگز نہ کھاؤں گا جب تک تو مجھے یہ نہ بتا دے کہ کیسے لائی؟ اب آپ نے اپنا دوپٹہ سر سے اتار دیا دیکھا کہ سرکے بال سب کٹ چکے ہیں اس وقت سخت گھبراہٹ اور بے چینی ہوئی اور اللہ سے دعا کی کہ مجھے ضرر پہنچا اور تو سب سے زیادہ رحیم ہے۔ حضرت نوف کہتے ہیں کہ جو شیطان حضرت ایوب علیہ السلام کے پیچھے پڑا تھا اس کا نام مسبوط تھا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی صاحبہ عموماً آپ سے عرض کیا کرتی تھیں کہ اللہ سے دعا کرو۔ لیکن آپ نہ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک دن بنو اسرائیل کے کچھ لوگ آپ کے پاس سے نکلے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے اس شخص کو یہ تکلیف ضرور کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے ہے اس وقت بے ساختہ آپ کی زبان سے یہ دعا نکل گئی۔ حضرت عبد اللہ بن عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کہ دو بھائی تھے ایک دن وہ ملنے کے لئے آئے۔ لیکن جسم کی بدبو کی وجہ سے قریب نہ آ سکے دور ہی سے کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر اس شخص میں بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت میں نہ ڈالتا اس بات نے حضرت ایوب علیہ السلام کو وہ صدمہ پہنچایا جو آج تک آپ کو کسی چیز سے نہ ہوا تھا اس وقت کہنے لگے اللہ کوئی رات مجھ پر ایسی نہیں گزری کہ کوئی بھوکا شخص میرے علم میں ہو اور میں نے پیٹ بھرلیا ہو پروردگار اگر میں اپنی اس بات میں تیرے نزدیک سچا ہوں تو میری تصدیق فرما۔ اُسی وقت آسمان سے آپ کی تصدیق کی گئی تھی اور وہ دونوں سن رہے تھے۔ پھر فرمایا کہ پروردگار کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اور میں نے کسی ننگے کو نہ دیے ہوں اگر میں اس میں سچا ہوں تو میری تصدیق آسمان سے کر۔ اس پر بھی آپ کی تصدیق ان کے سنتے ہوئے کی گئی۔ پھر یہ دعا کرتے ہوے سجدے میں گر پڑے کہ اے اللہ میں تو اب سجدے سے سر نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ تو مجھ سے ان تمام مصیبتوں کو دور نہ کر دے جو مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ یہ دعاقبول ہوئی۔ اور اس سے پہلے کہ آپ سر اٹھائیں تمام تکلیفیں اور بیماریاں دور ہو گئیں جو آپ پر اتری تھیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام اٹھارہ برس تک بلاؤں میں گھرے رہے پھر ان کے دو دوستوں کے آنے اور بد گمانی کرنے کا ذکر ہے جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میری تو یہ حالت تھی کہ راستہ چلتے دو شخصوں کو جھگڑتا دیکھتا اور ان میں سے کسی کو قسم کھاتے سن لیتا توگھر آ کر اس کی طرف کفارہ ادا کر دیتا کہ ایسا نہ کہ اس نے نام ناحق لیا ہو۔ آپ اپنی اس بیماری اس قدر نڈھال ہو گئے تھے کہ آپ کی بیوی صاحبہ ہاتھ تھام کر پاخانہ پیشاب کے لئے جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ کو حاجت تھی آپ نے آواز دی لیکن انہیں آنے میں دیر لگی آپ کو سخت تکلیف ہوئی اسی وقت آسمان سے ندا آئی کہ اے ایوب اپنی ایڑی زمین پر ماروں اسی پانی کو پی بھی لو اور اسی سے نہا بھی لو اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل غریب ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے جنت کا حلہ نازل فرمادیا جسے پہن کر آپ یکسو ہو کر بیٹھ گئے۔ جب آپ کی بیوی آئیں اور آپ کو نہ پہچان سکیں تو آپ سے پوچھنے لگیں اے اللہ کے بندے یہاں ایک بیمار بے کس بے بس تھے تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیا ہوئے ؟ کہیں انہیں بھیڑئیے نہ کھا گئے ہوں یا کتے نہ لے گئے ہوں ؟ تب آپ نے فرمایا نہیں نہیں وہ بیمار ایوب میں ہی ہوں۔ بیوی صاحبہ کہنے لگی اے شخص تو مجھ دکھیا عورت سے ہنسی کر رہا ہے اور مجھے بنا رہا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے اللہ  نے شفا دے دی اور یہ رنگ روپ بھی۔ آپ کا مال آپ کو واپس دیا گیا آپ کی اولاد وہی آپ واپس ملی اور ان کے ساتھ ہی ویسی ہی اور بھی وحی میں یہ خوشخبری بھی سنادی گئی تھی اور فرمایا گیا تھا کہ قربانی کرو اور استغفار کرو، تیرے اپنوں نے تیرے بارے میں میری نافرمانی کر لی تھی۔ اور روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو عافیت عطا فرمائی آسمان سے سونے کی ٹڈیاں ان پر برسائیں جنہیں لے کر آپ نے اپنے کپڑے میں جمع کرنی شروع کر دیں تو آواز دی گئی کہ اے ایوب کیا تو اب تک آسودہ نہیں ہوا؟ آپ نے جواب دیا کہ اے میرے پروردگار تیری رحمت سے آسودہ کون ہو سکتا ہے ؟ پھر فرماتا ہے ہم نے اسے اس کے اہل عطا فرمائے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے ہیں وہی لوگ واپس کئے گئے۔ آپ کی بیوی کا نام رحمت تھا۔ یہ قول اگر آیت سے سمجھا گیا ہے تو یہ بھی دور از کا امر ہے اور اگر اہل کتاب سے لیا گیا ہے تو وہ تصدیق تکذیب کے قابل ہے چیز نہیں۔ ابن عسا کر نے ان کا نام اپنی تاریخ میں “لیا” بتایا ہے۔ یہ منشا بن یوسف بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی بیٹی ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت “لیا” حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیٹی حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں جو شفیعہ کی زمین میں آپ کے ساتھ تھیں۔ مروی ہے کہ آپ سے فرمایا گیا کہ تیری اہل سب جنت میں ہیں تم کہو تو میں ان سب کو یہاں دنیا میں لادوں اور کہہ تو وہیں رہنے دوں اور دنیا میں ان کا عوض دوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی۔ پس آخرت کا اجر اور دنیا کا بدلہ دونوں آپ کو ملا۔ یہ سب کچھ ہماری رحمت کا ظہور تھا۔ اور ہمارے سچے عابدوں کے لئے نصیحت وعبرت تھی، آپ اہل بلا کے پیشوا تھے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ مصیبتوں میں پھنسے ہوئے لوگ اپنے لئے آپ کی ذات میں عبرت دیکھیں، بے صبری سے ناشکری نہ کرنے لگیں اور لوگ انہیں اللہ کے برے بندے نہ سمجھیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام صبر کا پہاڑ ثابت قدمی کا نمونہ تھے اللہ کے لکھے پر، اس کے امتحان پر انسان کو صبر وبرداشت کرنی چاہیے نہ جانیں قدرت درپردہ اپنی کیا کیا حکمتیں دیکھا رہی ہے۔

 

۸۵

ذوالکفل نبی نہیں بزرگ تھے

حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے فرزند تھے۔ سورۃ مریم میں ان کا واقعہ بیان ہو چکا ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بھی ذکر گزر چکا ہے۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور با مروت، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں فاللہ اعلم۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد و پیمان کئے اور ان پر قائم رہے۔ قوم میں عدل و انصاف کیا کرتے تھے۔ مروی ہے کہ جب حضرت یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہو گئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کر دوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں۔ دن بھر روزے سے رہے رات رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کر دوں گا۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں۔ یسع علیہ السلام فرمایا اچھا اب کل سہی۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے اس بزرگ کے بہکا نے کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کر دیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کر دوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہر طرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے۔ وہ کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کر دیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کر دیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کر دئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کر دی تھی پھر بھی اپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا۔ اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کر دکھایا۔ (ابن ابی حاتم ) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت اشعری نے منبر یہ فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا۔ ایک منقطع روایت میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ منقول ہے۔ ایک غریب حدیث مسندامام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہو گیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا۔

 

۸۷

یونس علیہ السلام اور ان کی امت

یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ صافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے۔ یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی علیہ السلام تھے۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کر چل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب عذاب الٰہی آ جائے گا جب انہیں اس بات کی تحقیق ہو گئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشیوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماں سے جدا کر دیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ و زاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی۔ ادھر ان کی آہ و بکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہو گئی عذاب اٹھا لیا گیا۔ جیسے فرمان ہے فلولاکانت الخ یعنی عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کو نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹا لیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی۔ حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جا کر طوفان کے آثار نمودار ہوئے۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہو جائے۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کا نکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے فساہم فکان من المدحضین اب کہ حضرت یونس علیہ السلام خود کھڑے ہو گئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی اور آپ کو لقمہ کر گئی۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہنچایا۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں۔ آپ کا غضب و غصہ آپ کی قوم پر تھا۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نقدر کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت ومن قدرعلیہ رزقہ سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت عطیہ عوفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قدر اور قدر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت فالتقی الماء علی امر قد قدر۔ بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا۔ سمندرکے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے۔ آپ نے سمندر کی تہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جا کر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے بار الٰہی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جیسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجودنہ بنایا ہو گا۔ حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے۔ چنانچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کر دی اسے سن کر فرشتوں نے کہا بار الٰہا! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزور ہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے۔ جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے۔ تفسیرابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تئیں یونس بن متع سے افضل کہے۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے۔ اوپر جو روایت گزری اس وہی سند ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گھومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے۔ جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑتے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے۔ 

استغفارموجب نجات ہے

پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کر تمام مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ خصوصاً جو لوگ اس دعائے یونسی کو پڑھیں سیدالانبیاء رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تھے۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آ کر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا؟ آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو۔ اس پر میں قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی پھر کچھ خیال کر کے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سے سنی تھی۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آیا آتی ہے میری آنکھوں پرہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبر دیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کر لیا بہ وقت گزرتا گیا اب حضور صلی اللہ علیہ و سلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچھے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مار مار کر چلنا شروع کیا میری جوتیاں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابواسحاق ؟ میں نے کہا جی ہاں یا رسول میں ہی ہوں۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمیں سنوجوبھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی حضرت یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے۔ ابوسعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرما لے اور جو مانگا جائے وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی لئے خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابوسعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ برادر زادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے۔

 

۸۹

دعا اور بڑھاپے میں اولاد

اللہ تعالیٰ حضرت زکریا علیہ السلام کا قصہ بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے دعا کی کہ مجھے اولاد ہو جو میرے بعد نبی بنے۔ سورۃ مریم میں اور سورۃ آلٰ عمران میں یہ واقعہ تفصیل سے ہے آپ نے یہ دعا چھپا کر کی تھی۔ مجھے تنہا نہ چھوڑ یعنی بے اولاد۔ دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثنا کی جیسے کہ اس دعا کے لائق تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔ اور آپ کی بیوی صاحبہ کو جنہیں بڑھاپے تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اولاد کے قابل بنا دیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کی طول زبانیں بند کر دی۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق کی کمی پوری کر دی۔ لیکن الفاظ قرآن کے قریب پہلا معنی ہی ہے۔ یہ سب بزرگ نیکیوں کی طرف اللہ کی فرمانبرداری کی طرف بھاگ دوڑ کرنے والے تھے۔ اور لالچ اور ڈر سے اللہ سے دعائیں کرنے والے تھے اور سچے مومن رب کی باتیں ماننے والے اللہ کا خوف رکھنے والے تواضع انکساری اور عاجزی کرنے والے اللہ کے سامنے اپنی فروتنی ظاہر کرنے والے تھے۔ مروی ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک خطبے میں فرمایا میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کی پوری ثنا و صفت بیان کرتے رہنے کی اور لالچ اور خوف سے دعائیں مانگنے کی اور دعاؤں میں خشوع و خضوع کرنے کی وصیت کرتا ہوں دیکھو اللہ عز و جل نے حضرت زکریا علیہ السلام کے گھرانے کی یہی فضیلت بیان فرمائی ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔

 

۹۱

بلا شوہر اولاد

حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے۔ قرآن میں کریم میں عموماً حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قصے کے ساتھ ہی ان کا قصہ بیان ہوتا رہا ہے۔ اس لئے کہ ان لوگ میں پورا رابطہ ہے حضرت زکریا علیہ السلام پورے بڑھاپے کے عالم میں آپ کی بیوی صاحبہ جوانی سے گزری ہوئی اور پوری عمر کی بے اولاد ان کے ہاں اولاد عطا فرمائی۔ اس قدرت کو دکھا کر پھر محض عورت بغیر شوہر کے اولاد کا عطا فرمانا یہ اور قدرت کا کمال ظاہر کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں بھی یہی ترتیب ہے مراد عصمت والی عورت سے حضرت مریم ہیں جیسے فرمان ہے۔ ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجہاالخ یعنی عمران کی لڑکی مریم جو پاک دامن تھیں انہیں اور ان کے لڑکے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی بے نظیر قدرت کا نشان بنایا کہ مخلوق کو اللہ کی ہر طرح کی قدرت اور اس کے پیدائش وسیع اختیارات اور صرف اپنا ارادے سے چیزوں کا بنانا معلوم ہو جائے۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی قدرت کی ایک علامت تھے جنات کے لئے بھی اور انسانوں کے لئے بھی۔

 

۹۲

تمام شریعتوں کی روح توحید

فرمان ہے کہ تم سب کا دین ایک ہی ہے۔ اوامر و نواہی کے احکام تم سب میں یکساں ہیں۔ ہذہ اسم ہے ان کا اور امتکم خبر ہے اور امۃ واحدۃ حال ہے۔ یعنی یہ شریعت جو بیان ہوئی تم سب کی متفق علیہ شریعت ہے۔ جس کا اصلی مقصود توحید الٰہی ہے جیسے آیت یاایہاالرسل کلوا من الطیبات سے فاتقون ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ہم انبیاء کی جماعت اگرچہ احکامات شرع مختلف ہیں جیسے فرمان قرآن ہے ولکل جعلنا منکم شرعۃ ومنہاجاء ہر ایک کی راہ اور طریقہ ہے۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا بعض اپنوں نبیوں پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے۔ قیامت کے دن سب کا لوٹنا ہماری طرف ہے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا نیکوں کو نیک بدلہ اور بروں کو بری سزا۔ جس کے دل میں ایمان ہو اور جس کے اعمال نیک ہوں اس کے اعمال اکارت نہ ہوں گے۔ جیسے فرمان ہے انا لا نضیع اجرمن احسن عملا۔ نیک کام کرنے والوں کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے۔ ایسے اعمال کی قدر دانی کرتے ہیں ایک ذرے کے برابر ہم ظلم روا نہیں رکھتے تمام اعمال لکھ لیتے ہیں کوئی چیز چھوڑ تے نہیں۔

 

۹۵

یافت کی اولاد

ہلاک شدہ لوگوں کا دنیا کی طرف پھر پلٹنا محال ہے۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ان کی توبہ مقبول نہیں۔ لیکن پہلا قول اولیٰ ہے۔ یاجوج ماجوج نسل آدم سے ہیں۔ بلکہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے لڑکے یافت کی اولاد میں سے ہیں جن کی نسل ترک ہیں یہ بھی انہی کا ایک گروہ ہے یہ ذو القرنین کی بنائی ہوئی دیوار سے باہر ہی چھوڑ دیے گئے تھے۔ آپ نے دیوار بنا کر فرمایا تھا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ اللہ کے وعدے کے وقت اس کا چورا چورا ہو جائے گا میرے رب کا وعدہ حق ہے الخ۔ یاجوج ماجوج قرب قیامت کے وقت وہاں سے نکل آئیں گے اور زمین میں فساد مچا دیں گے۔ ہر اونچی جگہ کو عربی میں حدب کہتے ہیں۔ ان کے نکلنے کے وقت ان کی یہی حالت ہو گی تو اس خبر کو اس طرح بیان کیا جیسے سننے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور واقع میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر کس کی ہو گی؟ جو غیب اور حاضر کا جانے والا ہے۔ ہو چکی ہوئی اور ہونے والی باتوں سے آگاہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکوں کو اچھلتے کودتے کھیلتے دوڑتے ایک دوسروں کی چٹکیاں بھرتے ہوئے دیکھ کر فرما اسی طرح یاجوج ماجوج آئیں گے۔ بہت سی احادیث میں ان کے نکلنے کا ذکر ہے۔ (۱) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ لوگوں کے پاس پہنچیں گے جیسے اللہ عز و جل کا فرمان ہے وہم من کل حدب ینسلون وہ چھا جائیں گے اور مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں میں سمنٹ آئیں گے اپنے جانوروں کو بھی وہی لے لیں گے اور اپنا پانی انہیں پلاتے رہیں گے یاجوج ماجوج جس نہر سے گزریں گے اس کا پانی صفا چٹ کر جائیں گے یہاں تک کہ اس میں خاک اڑنے لگے گی ان کی دوسری جماعت جب وہاں پہنچے گی تو وہ کہے گی شاید اس میں کسی زمانے میں پانی ہو گا۔ جب یہ دیکھیں گے کہ اب زمین پر کوئی نہ رہا اور واقع میں سوائے ان مسلمانوں کے جو اپنے شہروں اور قلعوں میں پناہ گزیں ہوں گے کوئی اور وہاں ہو گا بھی نہیں تو یہ کہیں گے کہ اب زمین والوں سے تم ہم فارغ ہو گئے آؤ آسمان والوں کی خبر لیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک شریر اپنا نیزہ گھما کر آسمان کی طرف پھینکے گا قدرت الٰہی سے وہ خون آلود ہو کر ان کے پاس گرے گا یہ بھی ایک قدرتی آزمائش ہو گی اب ان کی گردنوں میں گٹھلی ہو جائے گی اور اسی وبا میں یہ سارے کے سارے ایک ساتھ ایک دم مر جائیں گے ایک بھی باقی نہ رہے گا سارا شور و غل ختم ہو جائے گا مسلمان کہیں گے کوئی ہے جو اپنی جان ہم مسلمانوں کے لئے ہتھیلی پر رکھ کر شہر کے باہر جائے اور ان دشمنوں کو دیکھے کہ کس حال میں ہیں ؟ چنانچہ ایک صاحب اس کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اپنے آپ کو قتل شدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی خدمت کے لئے نکل کھڑے ہوں گے دیکھیں گے کہ سب کا ڈھیر لگ رہا ہے سارے ہلاک شدہ پڑے ہوئے یہ اسی وقت ندا کرے گا کہ مسلمانو!خوش ہو جاؤ اللہ نے خود تمہارے دشمنوں کو غارت کر دیا یہ ڈھیر پڑا ہوا ہے اب مسلمان باہر آئیں گے اور اپنے مویشیوں کو بھی لائیں گے ان کے لئے چارہ بجز ان گوشت کے اور کچھ نہ ہو گا یہ ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہو جائیں گے۔ (۲) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن صبح ہی صبح دجال کا ذکر کیا اس طرح کہ ہم سمجھے شاید وہ ان درختوں کی آڑ میں ہے اور اب نکلا ہی چاہتا ہے آپ فرمانے لگے مجھے دجال سے زیادہ خوف تم پر اور چیز کا ہے۔ اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو میں خود نمٹ لوں گا تم میں سے ہر شخص اسے بچے۔ میں تمہیں اللہ کی ایمان میں دے رہا ہوں۔ وہ جواں عمر الجھے ہوئے بالوں والا کانا اور ابھری ہوئی آنکھ والا ہے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں گھومے گا۔ ایک بندگان الٰہی تم ثابت قدم رہنا۔ ہم نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کتنا ٹھیرے گا ؟ آپ نے فرمایا چالیس دن۔ ایک دن مثل ایک برس کے ایک دن مثل ایک مہینہ کے ایک دن مثل ایک جمعہ کے اور باقی دن معمولی دنوں جیسے۔ ہم نے پوچھا یہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سال بھر کے برابر ہو گا اس میں ہمیں یہی پانچ نمازیں کافی ہوں گی آپ نے فرمایا نہیں تم اپنے اندازے سے وقت پر نماز پڑھتے رہا کرنا۔ ہم نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کی رفتار کسی ہو گی ؟ فرمایا جیسے بادل کہ ہوا انہیں ادھر سے ادھر بھگائے لئے جاتی ہو۔ ایک قبیلے کے پاس جائے گا انہیں اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی مان لیں گے۔ آسمان کو حکم دے گا کہ ان پر بارش برسائے زمین سے کہے گا کہ ان کے لئے پیداوار اگائے ان کے جانور ان کے پاس موٹے تازے بھرے پیٹ لوٹیں گے۔ ایک قبیلے کے پاس اپنے تائیں منوانا چاہے گا وہ انکار کر دیں گے یہ وہاں سے نکلے گا تو ان کے تمام مال اس کے پیچھے لگ جائیں گے وہ بالکل خالی ہاتھ رہ جائیں گے وہ غیر آباد جنگلوں میں جائے گا اور زمین سے کہے گا اپنے خزانے اگل دے وہ اگل دے گی اور سارے خزانے اس کے پیچھے ایسے چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے۔ یہ بھی دکھائے گا کہ ایک شخص کو تلوار سے ٹھیک دو ٹکرے کرا دے گا اور ادھر ادھر دور دراز پھنکوا دے گا پھر اس کا نام لے کر آواز دے گا تو وہ زندہ چلتا پھرتا اس کے پاس آ جائے گا یہ اسی حال ہو گا جو اللہ عز و جل حضرت مسیح ابن مریم کو اتارے گا آپ دمشق کی مشرقی طرف سفید منارے کے پاس اتریں گے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے پروں رکھے ہوئے ہوں گے آپ اس کا پیچھا کریں گے اور مشرقی باب کے لد کے پاس اسے پا کر قتل کر دیں گے پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف اللہ کی وحی آئے گی میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن سے لڑنے کی تم میں تاب و طاقت نہیں میرے بندوں کو طور کی طرف سمیٹ لے جا۔ پھر جناب باری یاجوج ماجوج کو بھیجے گا جیسے فرمایا وہم من کل حدب ینسلون ان سے تنگ آ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی جناب باری میں دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ان پر گٹھلی کی بیماری بھیجے گا جوان کی گردن میں نکلے گی سارے کے سارے اوپر تلے ایک ساتھ ہی مر جائیں گے تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع مؤمنوں کے آئیں گے۔ دیکھیں گے کہ تمام زمین ان کی لاشوں سے پٹی پڑی ہے اور ان کی بدبوسے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔ آپ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند بھیجے گا جو انہیں اللہ جانے کہاں پھینک آئیں گے ؟ کعب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہی مہیل میں یعنی سورج کے طلوع ہونے کی جگہ میں انہیں پھینک آئیں گے۔ پھر چالیس دن تک تمام زمین میں مسلسل بارش برسے گی،زمین دھل دھلا کر ہتھیلی کی طرح صاف ہو جائے گی پھر بحکم الٰہی اپنی برکتیں اگا دے گی۔ اس دن ایک جماعت کی جماعت ایک انار سے سیر ہو جائے گی اور اس کے چھلکے تلے سایہ حاصل کر لے گی ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کو اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو اور ایک بکری دودھ ایک گھرانے کو کافی ہو گا۔ پھر ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جو مسلمانوں کی بغلوں تلے سے نکل جائے گی اور ان کی روح قبض ہو جائے گی پھر روئے زمین پر بد ترین شریر لوگ باقی رہ جائیں جو گدھوں کی طرح کودتے ہوں گے انہی پر قیامت قائم ہو گی۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں۔ (۳) مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک بچھونے کاٹ کھایا تھا تو آپ اپنی انگلی پر پٹی باندھے ہوئے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا تم کہتے ہو اب دشمن نہیں ہیں لیکن تم تو دشمنوں سے جہاد کرتے ہی رہو گے یہاں تک کہ یاجوج ماجوج آئیں وہ چوڑے چہرے والے چھوٹی آنکھوں والے ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھالوں جیسے ہوں گے۔ (۴) یہ روایت سورۃ اعراف کی تفسیر کے آخر میں بیان کر دی گی ہے مسند احمد میں ہے

حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ معراج والی رات میں ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے روز قیامت کا مذکرہ شروع ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے علم سے انکار کر دیا اسے طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کے واقع ہونے کے وقت تو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ہاں مجھ سے میرے اللہ نے یہ تو فرمایا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے۔ اس کے ساتھ دو ٹہنیاں ہوں گی۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سیسے کی طرح پگلنے لگے گا یہاں تک کہ اللہ اسے ہلاک کر دے جب کہ وہ مجھے دیکھے یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم یہ ہے میرے سایہ تلے کافر۔ آاور اسے قتل کر پس اللہ انہیں ہلاک کرے گا اور لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو ہر اونچائی سے پھدکتے آئیں جو پائیں گے تباہ کر دیں گے پانی جتنا پائیں گے پی جائیں گے لوگ پھر تنگ آ کر اپنوں وطنوں میں محصور ہو کر بیٹھ جائیں گے شکایت کریں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا اللہ انہیں غارت کر دے ساری زمین پر ان کی بدبو پھیل جائے گی پھر بارش برسے گی اور پانی کا بہاؤ ان کے سڑے ہو جسموں کو گھسیٹ کر دریا برد کر دے گا۔ میرے رب نے مجھ سے فرما دیا ہے کہ جب یہ سب کچھ ظہور میں آ جائے گا پھر تو قیامت کا ہونا ایسا ہی ہے جیسے پورے دونوں حمل والی عورت کا وضع ہونا کہ گھر والوں کو فکر ہوتی ہے کہ صبح بچہ ہوا یا شام ہوا دن کو ہوا یا رات کو ہو۔ (ابن ماجہ ) اس کی تصدیق کلام اللہ شریف کی آیت میں موجود ہے اس بارے میں حدیثیں بکثرت ہیں اور آثار سلف بھی بہت ہیں کعب رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے وقت وہ دیوار کو کھو دیں گے یہاں تک کہ ان کی کدالوں کی آواز پاس والے بھی سنیں گے رات ہو جائے گی ان میں سے ایک کہے گا کہ اب صبح آتے ہی اسے توڑ ڈالیں گے اور نکل کھڑے ہوں گے صبح یہ آئیں گے توجیسی کل تھی ویسی ہی آج بھی پائیں گے الغرض یونہی ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ان کا نکالنا جب منظور ہو گا تو ایک شخص کی زبان سے نکلے گا کہ ہم کل انشاء اللہ ایسے توڑ دیں گے اب جو آئیں گے توجیسی چھوڑ گے تھے ویسی ہی پائیں گے تو کھود کر توڑیں گے اور باہر نکل آئیں گے ان کا پہلا گروہ بحیرہ کے پاس سے نکلے گا سارا پانی پی جائے گا دوسرا آئے گا کیچڑ بھی چاٹ جائے گا تیسرا آئے گا تو کہے گا شاید یہاں کبھی پانی ہو گا؟ لوگ ان سے بھاگ بھاگ کر ادھر ادھر چھپ جائیں گے جب انہیں کوئی بھی نظر نہ پڑے گا تو یہ اپنے تیرآسمان کی طرف پھینکیں گے وہاں سے وہ خون آلود واپس آئیں تو یہ فخر کرے گے کہ ہم زمین والوں پر اور آسمان والوں پر غالب آگ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ان کے لئے بد دعا کریں گے کہ اللہ ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں اور زمین پر ہمارا چلنا پھرنا بھی ضروری ہے تو ہمیں جس طریقے سے چاہ ان سے نجات دے تو اللہ ان کو طاعون میں مبتلاء کرے گا گلٹیاں نکل آئیں اور سارے کہ سارے مر جائیں گے پھر ایک قسم کے پرند آئیں گے جو اپنی چونچ میں انہیں لے کر سمندر میں پھینک آئیں گے پھر اللہ تعالیٰ نہر حیات جاری کر دے گا جو زمین کو دھوکر پاک صاف کر دے گی اور زمین اپنی برکتیں نکال دے گی ایک انار ایک گھرانے کو کافی ہو گا اچانک ایک شخص آئے گا اور ندا کرے گا کہ ذوالسویقین نکل آیا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سات آٹھ سولشکریوں کا طلایہ بھیجیں گے یہ ابھی راستے میں ہی ہوں گے کہ یمنی پاک ہوا نہایت لطافت سے چلے گی جو تمام مؤمنوں کی روح قبض کر جائے گی پھر تو روئے زمین پر ردی کھدی لوگ رہ جائے گے جو چوپایوں جیسے ہوں گے ان پر قیامت قائم ہو گی اس وقت قیامت اس قدر قریب ہو گی جیسے پوری دونوں کی گھوڑی جو جننے کے قریب ہو اور گھوڑی والا اس کے آس پاس گھوم رہا ہو کہ کب بچہ ہو حضرت کعب رحمۃ اللہ یہ بیان فرما کر فرمانے لگے اب جو شخص میرے اس قول اور اس علم کے بعد بھی کچھ کہے اس نے تکلف کیا۔ کعب رحمۃ اللہ کا یہ واقعہ بیان کرنا بہترین واقعہ ہے کیونکہ اس کی شہادت صحیح حدیث میں بھی پائی جاتی ہے۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں بیت اللہ شریف کا حج بھی کریں گے چنانچہ مسند امام احمد میں یہ حدیث مرفوعاً مروی ہے کہ آپ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد یقیناً بیت اللہ کا حج کریں گے۔ یہ حدیث بخاری میں بھی ہے۔ جب یہ ہولناکیاں، جب یہ زلزلے، جب یہ بلائیں اور آفات آ جائیں گے تو اس وقت قیامت بالکل قریب آ جائے گی اسے دیکھ کر کافر کہنے لگیں گے یہ نہایت سخت دن ہے ان کی آنکھیں پھٹ جائیں گی اور کہنے لگیں گے ہائے ہم تو غفلت میں ہی رہے۔ ہائے ہم نے اپنا آپ بگاڑا۔ گناہوں کا اقرار اور اس پر شرمسار ہوں گا لیکن اب بے سود ہے۔

 

۹۸

جہنم کی ہولناکیاں

بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنو گے جیسے فرمان ہو وقودہا الناس والحجارۃ اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر حبشی زبان میں حطب کو حصب کہتے ہیں یعنی لکڑیاں۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے حصب کے حطب ہے۔ تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پر دوزخی ہو گئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے جیسے فرمان ہے لہم فیہا زفیروشہیق، وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کر دیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہو گا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر) حسنیٰ سے مراد رحمت وسعادت ہیں۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر اب نیک لوگوں اور ان کے جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ با ایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت اس کے استقبال کو تیار تھی جیسے فرمان ہے للذین احسنوا الحسنیٰ وزیادۃ۔ نیکوں کے لئے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی۔ فرمان ہے ہل جزاء الا حسان الاحسان۔ نیکی کا بدلہ نیک ہی ہے۔ ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے۔ یہ جہنم سے دور کر دئیے گئے کہ اس کے آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں۔ پل صراط پر دوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہو گئے بلکہ ساتھ ہی راحت و آرام بھی حاصل کر لیا۔ من مانی چیزیں موجود۔ دوامی کی راحت بھی حاضر۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات ای آیت کی تلاوت کی اور فرمایا میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمن انہی لوگوں میں سے ہیں یا حضرت سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ چادرگھیسٹتے وہم لایسمعون حسیسہا۔ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گئے اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہو جائیں گے اور کافرو ہیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کر دی تھی،حضرت عزیر،حضرت مسیح، فرشتے، سورج، چاند،حضرت مریم، وغیرہ۔ عبد اللہ بن زبعری آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم۔ اتاری ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند، فرشتے عزیر، عیسیٰ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس کے جواب میں آیت ولما ضرب ابن مریم۔ اور آیت ان الذین سبقت لہم منا الحسنی۔ نازل ہوئی۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لا جواب ہو گیا آپ نے آیت انکم وما تعبدون سے لایسمعون تک تلاوت فرمائی۔ جب آپ اس مجلس سے چلے گئے تو عبد اللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور حضرت یہ فرماتے ہوئے چلے گے۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہی اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے۔ آپ کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت ان الذین سبقت۔ میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہو گے۔ چنانچہ قرآن میں ہے ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم۔ الخ یعنی ان میں سے جو اپنی معبودیت اور سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آیت ولما ضرب ابن مریم مثلاً الخ اتری کہ اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ تعجب ہو گے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا تھا۔ اگر ہم چاہے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کر دے حضرت عیسیٰ نشان قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے۔ میری مانتا چلا جا یہی صراط مستقیم ہے ابن زبعری کی جرات دیکھئے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لئے کہا گیا ہے جہنیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لئے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ ماجو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لئے آتا ہے جو بے جان اور بے عقل ہوں۔ یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہو گے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بڑے مشہور شاعر تھے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی۔ موت کی گھبراہٹ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھکن دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کر دیا گا۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہو گا وہ ہر غم وہراس سے دور ہوں گے، پورے مسرور ہوں گے، خوش ہوں گے اور نا خوشی سے کوسوں الگ ہوں گے۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کر رہے ہوں کے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو۔

 

۱۰۴

اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں تمام کائنات

یہ قیامت کے دن ہو گا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے جیسے فرمایا وما قدروا اللہ حق قدرہ الخ ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی، جانا ہی نہیں۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ سجل سے مراد کتاب ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لئے رکھ دیتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کاتب وحی تھا۔ لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصاً ہمارے استاد حافظ کبیر ابوالحجاج مزی رحمۃ اللہ نے۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے امام جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ سجل نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام سجل نہیں۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کر کے ذکر کیا ہے اور لغتا بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے تلہ للجبین میں لام معنی میں علیٰ ہے۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں۔ واللہ اعلم۔ یہ یقیناً ہو کر رہے گا۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں، وہ کبھی بدلتے نہیں، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کر کے ہی رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو۔ ننگے پیر ننگے بدن بے ختنے جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائیں گے یہ ہمارا وعدہ جسے ہم پورا کر کے رہیں گے۔ الخ( بخاری ) سب چیزیں نیست و نابود ہو جائیں گی پھر بنائی جائیں گی۔

 

۱۰۵

سچافیصلہ

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں دے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک و مال دیتا ہے، یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے۔ جیسے فرمان ان الارض للہ یورثہا من یشاء من عبادہ الخ، زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، انجام کار پرہیزگاروں کا حصہ ہے۔ اور فرمان ہے ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی دنیا میں اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں اور فرمان ہے کہ تم میں سے ایمان داروں اور نیک لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں غالب بنائے گا جیسے کہ ان سے اگلوں کو بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو قوی کر دے گا جس سے وہ خوش ہے اور فرمایا کہ یہ شرعیہ اور قدریہ کتابوں میں مرقوم ہے، یقیناً ہو کر ہی رہے گا۔ زبور سے مراد بقول سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ تورات انجیل اور قرآن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں زبور سے مراد کتاب ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی۔ ذکر سے مراد یہاں پر توراۃ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ذکر سے مراد قرآن ہے سعید فرماتے ہیں ذکر وہ ہے جو آسمانوں میں ہے یعنی اللہ کے پاس کی ام الکتاب جو سب سے پہلی کتاب ہے یعنی لوح محفوظ۔ یہ بھی مروی ہے کہ زبور اور وہ آسمانی کتابیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئیں اور ذکر مراد پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ۔ فرماتے ہیں توراۃ زبور اور علم الٰہی میں پہلے ہی یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ امت محمد زمین کی بادشاہ بنے گی اور نیک ہو کر جنت میں جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین سے مراد جنت کی زمین۔ ابودرداء فرماتے ہیں صالح لوگ ہم ہی ہیں۔ مراد اس سے با ایمان لوگ ہیں اس قرآن میں جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا گیا ہے پوری نصیحت و کفایت ہے ان کے لئے جو ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ جو ہماری مانتے ہیں اپنی خواہش کو ہمارے نام پر قربان کر دیتے ہیں پھر فرماتا کہ ہم نے اپنے اس نبی کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے پس اس نعمت کی شکر گزاری کرنے والا دنیا و آخرت میں شادماں ہے اور ناقدری کرنے والا دونوں جہاں میں برباد و ناشاد ہے۔ جیسے ارشاد ہے کہ کیا تم نے انہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ربی کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو غارت کر دیا۔ اس قرآن کی نسبت فرمایا کہ یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے بے ایمان بہرے اندھے، ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ ایک موقع پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کافروں کے لئے بد دعا کیجئے آپ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں میں تو صرف رحمت و ہدایت ہوں۔ اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مجھے ایک قوم کی ترقی اور دوسری کے تنزل کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ طبرانی میں ہے کہ اے قریشیو! محمد یثرب میں چلا گیا ہے اپنے طلائیے کے لشکر ادھر ادھر تمہاری جستجو میں بھیجا رہا ہے۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح طاق میں ہے وہ خار کھائے ہوئے ہے کیونکہ تم نے اسے نکال دیا ہے واللہ اس کے جادوگر بے مثال ہیں میں تو اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے جس کسی کو دیکھتا ہوں  تو مجھے ان کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں تم جانتے ہو کہ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے اس پر مطعم بن عدی کہنے لگے ابوالحکم سنوتمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلاوطن کر دیا ہے میں نے کسی کو زیادہ سچا اور زیادہ وعدے کا پورا کرنے والا نہیں پایا اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کر چکے ہو تو اب تو اسے چھوڑو تمہیں چاہے اس سے بالکل الگ تھلگ رہو۔ اس پرابوسفیان بن حارث نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہی یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آ گئے تو تم کہیں کے نہ رہو گے وہ رشتہ دیکھیں گے نہ کنبہ میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کر دینا چاہے کہ یا تو وہ محمد کو نکال دیں اور وہ بیک بینی دو گوش تن تنہا رہ جائے یا ان مدینے والوں کا صفایا کر دینا چاہیے اگر تم تیار ہو جاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھا دوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دوں گا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ باتیں پہنچیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم جس کہ ہاتھ میری جان ہے میں ہی انہیں قتل و غارت کروں گا اور قید کر کے پھر احسان کر کے چھوڑوں گا میں رحمت ہوں میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کر دے۔ میرے پانچ نام ہیں محمد، احمد، ماہی، یعنی میری وجہ سے اللہ کفر کو مٹا دے گا،حاشر اس لئے کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کئے جائیں گے اور عاقب۔ مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدائن میں تھے بسااوقات احادیث رسول کا مذاکرہ رہا کرتا تھا ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے تو حضرت سلمان کے پاس آئے تو حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے حذیفہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس لعنت کر دی ہو تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہی ہوں تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آ جاتا ہے۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمۃ اللعالمین ہوں تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی ان لوگوں کے لئے موجب رحمت بنا دے۔ رہی یہ بات کہ کفار کے لئے آپ رحمت کیسے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن جریر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ مؤمنوں کے لئے تو آپ دنیا و آخرت میں رحمت تھے اور غیر مؤمنوں کے لئے آپ دنیا میں رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے، آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے۔ جیسے کہ اگلی امتوں کے منکروں پر عذاب آئے۔

 

۱۰۹

جلد یا بدیر حق غالب ہو گا

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ مشرکوں سے فرما دیں کہ میری جانب یہی وحی کی جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے تم سب بھی اسے تسلیم کر لو۔ اور اگر تم میری بات پہ یقین نہیں کرتے تو ہم تم جدا ہیں تم ہمارے دشمن ہو ہم تمہارے۔ جیسے آیت میں ہے کہ اگر یہ جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو اور میں تمہارے کرتوتوں سے بیزار ہوں۔ اور آیت میں ہے واما تخافن من قوم خیانتہ فانبذالیہم علی سواء یعنی اگر تجھے کسی قوم سے خیانت و بد عہدی کا اندیشہ ہو تو عہد توڑ دینے کی انہیں فوراً خبر دے دو۔ اسی طرح یہاں بھی ہے کہ اگر تم علیحدگی اختیار کرو تو ہمارے تمہارے تعلقات منقطع ہیں۔ یقین مانو کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ پورا ہونے والا تو ضرور ہے اب خواہ ابھی ہو خواہ دیر سے اس کا خود مجھے علم نہیں۔ ظاہرباطن کا عالم اللہ ہی ہے جو تم ظاہر کرو اور جو چھپاؤ اسے سب کا علم ہے۔ بندوں کے کل اعمال ظاہر اور پوشیدہ اس پر آشکارا ہیں۔ چھوٹا بڑا کھلا عمل چھپا سب کچھ وہ جانتا ہے۔ ممکن ہم اس کی تاخیر بھی تمہاری آزمائش ہو اور تمہیں تمہاری زندگانی تک نفع دینا ہو انبیاء علیہم السلام کو جو دعا تعلیم ہوئی تھی کہ اے اللہ ہم میں اور ہماری قوم میں تو سچا فیصلہ کر اور تو ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

 

 حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اسی قسم کی دعا کا حکم ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی کسی غزوے میں جاتے تو دعا کرتے کہ میرے رب تو سچا فیصلہ فرما۔ ہم اپنے مہربان رب سے ہی مدد طلب کرتے ہیں کہ

وہ تمہارے جھوٹ افتراؤں کو ہم سے ٹالے اس میں ہمارا مددگار وہی ہے۔