تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء

تعارف قرآن کریم

پھر فرمان ہے کہ یہ آیتیں قرآن مبین کی ہیں جو بہت واضح بالکل صاف اور حق و باطل بھلائی برائی کے درمیان فیصلہ اور فرق کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم رنجیدہ خاطر اور غمگین نہ ہوں۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے فلاتذہب نفسک علیہم حسرات تو ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت وافسوس نہ کر۔ اور آیت میں ہے فلعلک باخع نفسک الخ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تو ان کے پیچھے اپنی جان گنوا دے۔ چونکہ ہماری یہ چاہت ہی نہیں کہ لوگوں کو ایمان پر زبردستی کریں اگر یہ چاہتے تو کوئی ایسی چیز آسمان سے اتارتے کہ یہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے مگر ہم کو تو ان کا اختیاری ایمان طلب کرتے ہیں۔ اور آیت میں ہے ولو شاء ربک لامن فی الارض کلھم جیمعا الخ، اگر تیرا رب چاہے تو روئے زمین کے تمام لوگ مومن ہو جائیں کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا؟ جب تک کہ وہ مومن نہ ہو جائیں۔ اور آیت میں ہے اگر تیرا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ یہ اختلاف دین و مذہب بھی اس کا مقرر کیا ہوا ہے اور اسکی حکمت کو ظاہر کرنے والا ہے اس نے رسول بھیج دئیے کتابیں اتار دیں اپنی دلیل و حجت قائم کر دی انسان کو ایما لانے نہ لانے میں مختار کر دیا۔ اب جس راہ پر وہ چاہے لگ جائے جب کبھی کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی بہت سے لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا۔ تیری پوری آرزو کے باوجود اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے۔ سورۃ یاسین میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے انکے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ اور آیت میں ہے ہم نے پے درپے پیغمبر بھیجے لیکن جس امت کے پاس ان کا رسول آیا اس نے اپنے رسول کو جھٹلانے میں کمی نہ کی۔ یہاں بھی اس کے بعد ہی فرمایا کہ نبی آخر الزمان کی قوم نے بھی اسے جھٹلایا ہے انہیں بھی اس کا بدلہ عنقریب مل جائے گا ان ظالموں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ یہ کس راہ ڈالے گئے ہیں ؟ پھر اپنی شان و شوکت قدرت و عظمت عزت و رفعت بیان فرماتا ہے کہ جس کے پیغام اور جس کے قاصد کو تم جھوٹا کہہ رہے ہو وہ اتنا بڑا قادر قیوم ہے کہ اسی ایک نے ساری زمین بنائی ہے اور اس میں جاندار اور بے جان چیزیں پیدا کی ہیں۔ کھیت پھل باغ و بہار سب اسی کے پیدا کردہ ہیں۔ شعبی رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں لوگ زمین کی پیداوار ہیں ان میں جو جنتی ہیں وہ کریم ہیں اور جو دوزخی ہیں وہ کنجوس ہیں۔ اس میں قدرت خالق کی بہت سی نشانیاں ہیں یہ اس نے پھیلی ہوئی زمین کو اور اونچے آسمان کو پیدا کر دیا۔ باوجود اسکے بھی اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا اسکے نبیوں کو جھوٹا کہتے ہیں اسکی کتابوں کو نہیں مانتے اسکے حکموں کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے معنی کردہ کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ بیشک تیرا رب ہر چیز پر غالب ہے اس کے سامنے مخلوق عاجز ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر مہربان ہے نا فرمانوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتا تاخیر اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنے کرتوتوں سے باز آ جائیں لیکن پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے تو انہیں سختی سے پکڑ لیتا ہے اور ان سے پور انتقام لیتا ہے ہاں جو توبہ کرے اور اسکی طرف جھکے اور اسکا فرمانبردار ہو جائے وہ اس پر اس کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم و کرم کرتا ہے

 

۱۰

موسیٰ علیہ السلام اور اللہ جل شانہٗ کے مکالمات

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو جو حکم دیا تھا اسے بیان فرما رہے ہیں کہ طور کے دائیں طرف سے آپ کو آواز دی آپ سے سرگوشیاں کیں آپ کو اپنارسول صلی اللہ علیہ و سلم اور برگزیدہ بنایا اور آپ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جو ظلم پر کمر بستہ تھے۔ اور اللہ کا ڈر اور پرہیز گاری نام کو بھی ان میں نہیں رہی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی چند کمزوریاں جناب بای تعالیٰ کے سامنے بیان کی جو عنایت الٰہی سے دور کر دی گئیں جیسے سورۃ طہ میں آپ کے سوالات پور کر دئیے گئے۔ یہاں آپ کے عذر یہ بیان ہوئے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔ میرا سینہ تنگ ہے، میری زبان لکنت والی ہے، ہارون کو بھی میرے ساتھ نبی بنا دیا جایئے۔ اور میں نے ان ہی میں سے ایک قبطی کو بلا قصور مار ڈالا تھا جس وجہ سے میں نے مصر چھوڑا اب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ نہ لے لیں۔ جناب باری تعالیٰ نے جواب دیا کہ کسی بات کا کھٹکا نہ رکھو۔ ہم تیرے بھائی کو تیرا ساتھی بنا دیتے ہیں۔ اور تمہیں روشن دلیل دیتے ہیں وہ لوگ تمہیں کوئی ایذا نہ پہنچا سکیں گے میرا وعدہ ہے کہ تم کو غالب کروں گا۔ تم میری آیتیں لے کر جاؤ تو سہی، میری مدد تمہارے ساتھ رہے گی۔ میں تمہاری ان کی سب باتیں سنتا رہوں گا۔ جیسے فرمان ہے میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں دیکھتا رہوں گا۔ میری حفاظت میری مدد میری نصرت و تائید تمہارے ساتھ ہے۔ تم فرعون کے پاس جاؤ اور اس پر اپنی رسالت کا اظہار کرو۔ جسیے دوسری آیت میں ہے کہ اس سے کہو کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک اللہ کا فرستادہ ہے۔ فرعون سے کہا کہ تو ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو بھیج دے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں تو نے انہیں اپنا غلام بنا رکھا ہے اور ان کی حالت زبوں کر رکھی ہے۔ ذلت کے ساتھ ان سے اپنا کام لیتا ہے اور انہیں عذابوں میں جکڑ رکھا ہے اب انہیں آزاد کر دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس پیغام کو فرعون نے نہایت حقارت سے سنا۔ اور آپ کو ڈانٹ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی نہیں کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں پالا؟ مدتوں تک تیری خبر گیری کرتے رہے اس احسان کا بدلہ تو نے یہ دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو مار ڈالا اور ہماری ناشکری کی۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا یہ سب باتیں نبوت سے پہلے کی ہیں جب کہ میں خود بے خبر تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں بجائے من الضالین کے من الجاھلین ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ساتھ ہی فرمایا کہ پھر وہ پہلا حال جاتا رہا دوسرا دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنا کر تیری طرف بھیجا اب اگر تو میرا کہا مانے گا تو سلامتی پائے گا اور میری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہو گا۔ اس خطا کے بعد جب کہ میں تم میں سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا اب پرانے قصہ یاد نہ کر۔ میری آواز پر لبیک کہہ۔ سن اگر ایک مجھ پر تو نے احسان کیا ہے تو میری قوم کی قوم پر تو نے ظلم و تعدی کی ہے۔ ان کو بری طرح غلام بنا رکھا ہے کیا میرے ساتھ کا سلوک اور انکے ساتھ کی یہ سنگدلی اور بد سلوکی برابر برابر ہو جائیگی؟

 

۲۳

چونکہ فرعون نے اپنی رعیت کو بہکا رکھا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ معبود اور رب صرف میں ہی ہوں میرے سوا کوئی نہیں اس لیے ان سب کا عقیدہ یہ تھا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں رب العالمین کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہوں تو اس نے کہا کہ رب العالمین ہے کیا چیز؟ مقصد یہی تھا کہ میرے سوا کوئی رب ہے ہی نہیں تو جو کہہ رہا ہے محض غلط ہے۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ اس نے پوچھا فمن ربکما یا موسیٰ موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے؟ اس کے جواب میں کلیم اللہ نے فرمایا جس نے ہر ایک کی پیدائش کی ہے اور جو سب کا ہادی ہے۔ یہاں پر یہ یاد رہے کہ بعض منطقیوں نے یہاں ٹھوکر کھائی ہے اور کہا ہے کہ فرعون کا سوال اللہ کی ماہیت سے تھا یہ محض غلط ہے اس لئے کہ ماہیت کو تو جب پوچھتا جب کہ پہلے وجود کا قائل ہوتا۔ وہ تو سرے سے اللہ کے وجود کا منکر تھا۔ اپنے اسی عقیدے کو ظاہر کرتا تھا ا ور ہر ایک ایک کو یہ عقیدہ گھونٹ گھونٹ کر پلا رہا تھا گو اس کے خلاف دلائل و براہین اس کے سامنے کھل گئے تھیں۔ پس اس کے اس سوال پر کہ رب العالمین کون ہے؟ حضرت کلیم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ وہ جو سب کا خالق ہے، سب کا مالک ہے، سب پر قادر ہے یکتا ہے اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ عالم علوی آسمان اور اس کی مخلوق عالم سفلی زمین اور اسکی کائنات اب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ ان کے درمیان کی چیزیں ہوا پرندہ وغیرہ سب اس کے سامنے ہیں اور اس کے عبادت گزار ہیں۔ اگر تمہارے دل یقین کی دولت سے محروم نہیں اگر تمہاری نگاہیں روشن ہیں تو رب العالمین کے یہ اوصاف اس کی ذات کے ماننے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سن کر فرعون سے چونکہ کوئی جواب نہ بن سکا اس لئے بات کو مذاق میں ڈالنے کے لیے لوگوں کو اپنے سکھائے بتائے ہوئے عقیدے پر جمانے کے لیے انکی طرف دیکھ کر کہنے لگا لو اور سنو یہ میرے سواکسی اور کو ہی اللہ مانتا ہے؟ تعجب کی بات ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسکی اس بے التفاتی سے گھبرائے نہیں اور وجود اللہ کے دلائل بیان کرنے شروع کر دیئے کہ وہ تم سب کا اور تمہارے اگلوں کا مالک اور پروردگار ہے۔ آج اگر تم فرعون کو اللہ مانتے ہو تو ذرا اسے تو سوچو کہ فرعون سے پہلے جہاں والوں کا اللہ کون تھا؟ اس کے وجود سے پہلے آسمان و زمین کا وجود تھا تو ان کا موجد کون تھا؟ بس وہی میرا رب ہے وہی تمام جہانوں کا رب ہے اسی کا بھیجا ہوا ہوں میں۔ فرعون دلائل کی تاب نہ لاسکا کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگا اسے چھوڑو یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے سواکسی اور کو رب کیوں مانتا۔ کلیم اللہ نے پھر بھی اپنی دلیلوں کو جاری رکھا۔ اس کے لغو کلام سے بے تعلق ہو کر فرمانے لگے کہ سنو میرا اللہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اور وہی میرا رب ہے۔ وہ سورج چاندستارے مشرق سے چڑھا تا ہے۔ مغرب کی طرف اتارتا ہے اگر فرعون اپنی الوہیت کے دعوے میں سچا ہے تو ذرا ایک دن اس کا خلاف کر کے دکھا دے یعنی انہیں مغرب سے نکالے اور مشرق کو لے جائے یہ بات خلیل علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بادشاہ سے بوقت مناظرہ کہی تھی پہلے تو اللہ کا وصف بیان کیا کہ وہ جلاتا مارتا ہے لیکن اس بے وقوف نے جب کہ اس وصف کا اللہ کیساتھ مختص ہونے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں آپ نے باوجود اسی دلیل میں بہت سی گنجائش ہونے کے اس سے بھی واضح دلیل اس کے سامنے رکھی کہ اچھا میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال اب تو اسکے حواس گم ہو گئے۔ اسی طرح حضرت ٍموسیٰ ٰ علیہ السلام کی زبانی تابڑ توڑ ایسی واضح اور روشن دلیلیں سن کر فرعون کے اوسان خطا ہو گئے وہ سمجھ گیا کہ اگر ایک میں نے نہ مانا تو کیا ؟ یہ واضح دلیلیں ان سب لوگوں پر اثر کر جائیں گی اس لئے اب اپنی قوت کو کام میں لانے کا ارادہ کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ڈرانے دھمکانے لگا جیسے آگے آ رہا ہے

 

۲۹

فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ

جب مباحثے میں فرعون ہارا دلیل و بیان میں غالب نہ آ سکا تو قوت و طاقت کا مظاہرہ کرنے لگا اور سطوت و شوکت سے حق کو دبانے کا ارادہ کیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ علیہ السلام میرے سواکسی اور کو معبود بنائے گا تو جیل میں سڑا سڑا کر تیری جان لے لوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ وعظ و نصیحت کر ہی چکے تھے آپ نے بھی ارادہ کیا کہ میں بھی اسے اور اس کی قوم کو دوسری طرح قائل کروں تو فرمانے لگے کیوں جی میں اگر اپنی سچائی پر کسی ایسے معجزے کا اظہار کروں کہ تمہیں بھی قائل ہونا پڑے تب؟ فرعون سو اس کے کیا کر سکتا تھا کہ کہا اچھا اگر سچا ہے تو پیش کر۔ آپ نے سنتے ہی اپنی لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی ہی اسے زمین پر ڈال دیا۔ بس اس کا زمین پر گرنا تھا کہ وہ ایک اژدہے کی شکل بن گئی۔ اور اژدہا بھی بہت بڑا تیز کچلیوں والا ہیبت ناک ڈراؤنی اور خوفناک شکل والا منہ پھاڑے ہوئے پھنکارتا ہوا۔ ساتھ ہی اپنے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہوا نکلا۔ فرعون کی قسمت چونکہ ایمان سے خالی تھی ایسے واضح معجزے دیکھ کر بھی اپنی بدبختی پر اڑا رہا اور تو کچھ بن نہ پڑا اپنے ساتھیوں اور درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ تو جادو کے کرشمے ہیں۔ بیشک اتنا تو میں بھی مان گیا کہ یہ اپنے فن جادوگری میں استاد کامل ہے۔ پھر انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دشمنی پر آمادہ کرنے کے لئے ایک اور بات بنائی کہ یہ ایسے ہی شعبدے دکھا دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لے گا۔ اور جب کچھ لوگ اس کے ساتھی ہو جائیں گے تو یہ علم بغاوت بلند کر دے گا پھر تمہیں مغلوب کر کے اس ملک میں قبضہ کر لے گا تو اس کے استیصال کی کوشش ابھی سے کرنی چاہئے۔ بتلاؤ تمہاری رائے کیا ہے؟ اللہ کی قدرت دیکھو کہ فرعونیوں سے اللہ نے وہ بات کہلوائی جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عام تبلیغ کا موقعہ ملے اور لوگوں پر حق واضح ہو جائے۔ یعنی جادوگروں کو مقابلہ کے لئے بلوانا

 

۳۸

مناظرہ کے بعد مقابلہ

مناظرہ زبانی ہو چکا۔ اب مناظرہ عملاً ہو رہا ہے اس مناظرہ کا ذکر سورۃ اعراف سورۃ طہ اور اس سورت میں ہے۔ قبطیوں کا ارادہ اللہ کے نور کے بجھانے کا تھا اور اللہ کا ارادہ اس کی نورانیت کے پھیلانے کا تھا۔ پس اللہ کا ارادہ غالب رہا۔ ایمان و کفر کا مقابلہ جب کبھی ہوا ایمان کفر پر غالب رہا۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرتا ہے باطل کا سر پھٹ جاتا ہے اور لوگوں کے باطل ارادے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ حق آ جاتا ہے باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہ ہوا ہر ایک شہر میں سپاہی بھیجے گئے۔ چاروں طرف سے بڑے بڑے نامی گرامی جادوگر جمع کئے گئے جو اپنے فن میں کام اور استاد زمانہ تھے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد بارہ یا پندرہ یا سترہ یا انیس یا کچھ اوپر تیس یا اسی ہزار کی یا اس سے کم و بیش تھی۔ صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ان تمام کے استاد اور سردار چار شخص تھے۔ سابور عاذور حطحط اور مصفی۔ چونکہ سارے ملک میں شور مچ چکا تھا چاروں طرف سے لوگوں کے غول کے غول وقت مقررہ سے پہلے مصر میں جمع ہو گئے۔ چونکہ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ رعیت اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے۔ سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ جادوگروں کے غلبہ کے بعد ہم تو ان کی راہ لگ جائیں گے۔ یہ کسی زبان سے نہ نکلا کہ جس طرف حق ہو گا ہم اسی طرف ہو جائیں گے اب موقعہ پر فرعون مع اپنے جاہ چشم کے نکال تمام امراء ورؤسا ساتھ تھے لشکر فوج پلٹن ہمراہ تھی جادوگروں کو اپنے دربار میں اپنے سامنے بلوایا۔ جادوگروں نے بادشاہ سے عہس لینا چاہا اس لئے کہاکہ جب ہم غالب آ جائیں تو بادشاہ ہمیں انعامات سے محروم نہیں رکھیں گے؟ فرعون نے جواب دیا واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے نہ صرف انعام بلکہ میں تو تمہیں اپنے خاص رؤسا میں شامل کروں گا اور تم ہمیشہ میرے پاس اور میرے ساتھ ہی رہا کرو گے۔ تم میرے مقرب بن جاؤ گے میری تمامتر توجہ تمہاری ہی طرف ہو گی۔ وہ خوشی خوشی میدان کی طرف چل دیئے۔ وہاں جا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے۔ بولو تم پہلے اپنی استادی دکھاتے ہو؟ یا ہم دکھائیں ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں تم ہی پہلے اپنی بھڑاس نکال لو تاکہ تمہارے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے یہ جواب پاتے ہی انہوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت سے ہمارا ہی غلبہ رہے گا۔ جیسے جاہل عوام جب کسی کام کو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ فلاں کے ثواب سے۔ سورۃ اعراف میں ہے جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا۔ انہیں ہیبت میں ڈال دیا اور بڑا بھاری جادو ظاہر کیا۔ سورۃ طہ میں ہے کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں ان کے جادو سے ہلتی جلتی معلوم ہونے لگیں۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں جو لکڑی تھی اسے میدان میں ڈال دیا جس نے سارے میدان میں ان کی جو کچھ نظر بندیوں کی چیزیں تھیں ، سب کو ہضم کر لیا۔ پس حق ظاہر ہو گیا اور باطل دب گیا اور ان کا کیا کرایا سب غارت ہو گیا۔ یہ کوئی ہلکی سی بات اور تھوڑی سی دلیل نہ تھی جادوگر تو اسے دیکھتے ہی مسلمان ہو گئے کہ ایک شخص اپنے استاد فن کے مقابلے میں اتا ہے اس کا حال جادوگروں کا سا نہیں۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا یقیناً ہمارا جادو صرف نگاہوں کا فریب ہے اور اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے وہ تو اسی وقت وہیں کے وہیں اللہ کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ اور اسی مجمع میں سب کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لا چکے۔ پھر اپنا قول اور واضح کرنے کے لئے یہ بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ رب ہے جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اپنا رب کہتے ہیں۔ اتنا بڑا معجزہ اس قدر انقلاب فرعون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ملعون کی قسمت میں ایمان نہ تھا۔ پھر بھی آنکھیں نہ کھلی۔ اور دشمن جاں ہو گیا۔ اور اپنی طاقت سے حق کو کچلنے لگا۔ اور کہنے لگا کہ ہاں میں جان گیا موسیٰ تم سب کے استاد تھے اسے تم نے پہلے سے بھیج دیا پھر تم بظاہر مقابلہ کرنے کے لئے آئے اور باطنی مشورے کے مطابق میدان ہار گئے اور اس کی بات مان گئے پس تمہارا یہ مکر کھل گیا

 

۴۹

جرات و ہمت والے کامل ایمان لوگ

سبحان اللہ کیسے کامل الایمان لوگ تھے حالانکہ ابھی ہی ایمان میں آئیں تھے لیکن ان کی صبر و ثبات کا کیا کہنا؟ فرعون جیسا ظالم و جابر حاکم پاس کھڑا ڈرا دھمکا رہا ہے اور وہ نڈر بے خوف ہو کر اس کی منشا کے خلاف جواب دے رہے ہیں۔ حجاب کفر دل دے دور ہو گئے ہیں اس وجہ سے سینہ ٹھونک کر مقابلہ پر آ گئے ہیں اور مادی طاقتوں سے بالکل مرعوب نہیں ہوتے۔ ان کے دلوں میں یہ بات جم گئی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے کسب کیا ہوا جادو نہیں۔ اسی وقت حق کو قبول کیا۔ فرعون آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے کوئی چیز ہی نہ سمجھا۔ مجھ سے باغی ہو گئے مجھ سے پوچھا ہی نہیں اور موسیٰ علیہ السلام کی مان لی؟ یہ کہہ کر پھر اس خیال سے کہ کہیں حاضرین مجلس پر ان کے پار جانے بلکہ پھر مسلمان ہو جانے کا اثر نہ پڑے اس نے انہیں ذلیل سمجھا۔ ایک بات بنائی اور کہنے لگا کہ ہاں تم سب اس کے شاگرد ہو اور یہ تمہارا استاد ہے تم سب خورد ہو اور یہ تمہارا  بزرگ ہے۔ تم سب کو اسی نے جادو سکھا یا ہے اس مکابرہ کو دیکھو یہ صرف فرعون کی بے ایمانی اور دغا بازی تھی ورنہ اس سے پہلے نہ تو جادوگروں نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو دیکھا تھا اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کی صورت سے آشنا تھے۔ رسول اللہ تو جادو جانتے ہی نہ تھے کسی کو کیا سکھاتے؟ عقلمندی کے خلاف یہ بات کہہ کر پھر دھمکانا شروع کر دیا اور اپنی ظالمانہ روش پر اتر آیا کہنے لگا میں تمہارے سب کے ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے کاٹ دوں گا اور تمہیں ٹنڈے منڈے بنا کر پھر سولی دوں گا کسی اور ایک کو بھی اس سزا سے نہ چھوڑوں گا سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ راجا جی اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ جو تم سے ہو سکے کر گزرو۔ ہمیں مطلق پرواہ نہیں ہمیں تو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہمیں اسی سے صلہ لینا ہے جتنی تکلیف تو ہمیں دے گا اتنا اجر و ثواب ہمارا رب ہمیں عطا فرمائے گا۔ حق پر مصیبت سہنا بالکل معمولی بات ہے جس کا ہمیں مطلق خوف نہیں۔ ہماری تو اب یہی ایک آرزو ہے کہ ہمارا رب ہمارے اگلے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ کرے جو مقابلہ تو نے ہم سے کروایا ہے۔ اس کا وبال ہم پر سے ہٹ جائے اور اسکے لئے ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی وسیلہ نہیں کہ ہم سب سے پہلے اللہ والے بن جائیں ایمان میں سبقت کریں اس جواب پر وہ اور بھی بگڑا اور ان سب کو اس نے قتل کرا دیا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

 

۵۲

فرعونیوں کا انجام

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کا بہت سارا زمانہ ان میں گزارا۔ اللہ کی آیتیں ان پر واضح کر دیں لیکن ان کا سر نیچا نہ ہوا ان کا تکبر نہ ٹوٹا ان کی بد دماغی میں کوئی فرق نہ آیا۔ تو اب سوا اس کے کے کوئی چیز باقی نہ رہی کہ ان پر عذاب الٰہی آ جائے اور یہ غارت ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی وحی آئی کہ راتوں رات بنی اسرائیلیوں کو لے کر میرے حکم کے مطابق چل دو۔ بنو اسرائیل نے اس موقع پر قبطیوں سے بہت سے زیور بطور عاریت کے لئے اور چاند چڑھنے کے وقت چپ چاپ چل دئیے۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات چاند گہن تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راستے میں دریافت فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟ بنو اسرائیل کی ایک بڑھیا نے قبر بتلا دی۔ آپ نے تابوت یوسف اپنے ساتھ اٹھا لیا۔ کہا گیا کہ خود آپ نے ہی اسے اٹھایا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت تھی کہ بنی اسرائیل جب یہاں سے جانے لگیں تو آپ کا تابوت اپنے ہمراہ لیتے جائیں۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کسی اعرابی کے ہاں مہمان ہوئے اس نے آپ کی بڑی خاطر تواضع کی واپسی میں آپ نے فرمایا کبھی ہم سے مدینے میں بھی مل لینا کچھ دنوں بعد اعرابی آپ کے پاس آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ چاہئے؟ اس نے کہاں ہاں ایک تو اونٹنی دیجئے مع ہودج کے اور ایک بکری دیجئے جو دودھ دیتی ہو آپ نے فرمایا افسوس تو نے بنی اسرائیل کی بڑھیا جیسا سوال نہ کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جب حضرت کلیم اللہ بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو راستہ بھول گئے ہزار کوشش کی لیکن راہ نہیں ملتی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کر کے پوچھا یہ کیا اندھیر ہے؟ تو علمائے بنی اسرائیل نے کہا بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے آخری وقت ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم مصر سے چلیں تو آپ کے تابوت کو بھی یہاں سے اپنے ساتھ لیتے جائیں۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون جانتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی تربت کہاں ہے؟ سب نے انکار کر دیا ہم نہیں جانتے ہم میں سوائے ایک بڑھیا کے اور کوئی بھی آپ کی قبر سے واقف نہیں آپ نے اس بڑھیا کے پاس آدمی بھیج کر اس سے کہلوایا کہ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر دکھا۔ بڑھیا نے کہا ہاں دکھاؤں گی لیکن پہلے اپنے حق لے لوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تو کیا چاہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جنت میں آپ کا ساتھ مجھے میسر ہو۔ آپ پر اس کا یہ سوال بھاری پڑا اسی وقت وحی آئی کہ اس کی بات مان لو اور اسکی شرف منظور کر لو اب وہ آپ کو ایک جھیل کے پاس لے گئی جس کے پانی کا رنگ بھی متغیر ہو گیا تھا کہا کہ اس کا پانی نکال ڈالو جب پانی نکال ڈالا اور زمین نظر آنے لگی تو کہا اب یہاں کھودو۔ کھودنا شروع ہوا تو قبر ظاہر ہو گئی اسے ساتھ رکھ لیا اب جو چلنے لگے تو راستہ صاب نظر آنے لگا اور سیدھی راہ لگ گئے۔ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ زیادہ قریب تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نہیں۔ واللہ اعلم۔ یہ لوگ تو اپنے راستے لگ گئے ادھر فرعون اور فرعونیوں کی صبح کے وقت جو آنکھ کھلتی ہے تو چوکیدار غلام وغیرہ کوئی نہیں۔ سخت پیچ و تاب کھانے لگے اور مارے غصے کے سرخ ہو گئے جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل رات کو سب کے سب فرار ہو گئے ہیں تو اور بھی سناٹا چھا گیا۔ اسی وقت اپنے لشکر جمع کرنے لگا۔ سب کو جمع کر کے ان سے کہنے لگا۔ کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے محض ذلیل کمین اور قلیل لوگ ہیں ہر وقت ان سے ہمیں کوفت ہوتی رہتی ہے تکلیف پہنچتی رہتی ہے۔ اور پھر ہر وقت ہمیں ان کی طرف سے دغدغہ ہی لگا رہتا ہے یہ معنی حاذرون کی قرأت پر ہیں سلف کی ایک جماعت نے اسے حذرون بھی پڑھا ہے یعنی ہم ہتھیار بند ہیں میں ارادہ کر چکا ہوں کہ اب انہیں ان کی سرکشی کا مزہ چکھا دوں۔ ان سب کو ایک ساتھ گھیر گھار کر گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈال دوں۔ اللہ کی شان یہی بات اسی پر لوٹ پڑی اور وہ مع اپنی قوم اور لاؤ لشکر کے یہ یک وقت ہلاک ہوا۔ لعنۃ اللہ علیہ وعلی من تبعہ۔ جناب باری کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ اپنی طاقت اور کثرت کے گھمنڈ پر بنی اسرائیل کے تعاقب میں انہیں نیست و نابود کرنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اس بہانے ہم نے انہیں ان کے باغات چشموں نہروں خزانوں اور با رونق مکانوں سے خارج کیا اور جہنم واصل کیا۔ وہ اپنے بلند و بالا شوکت و شان والے محلات ہرے بھرے باغات جاری نہریں خزانے سلطنت ملک تخت و تاج جاہ و مال سے چھوڑ کر بنی اسرائیل کے پیچھے مصر سے نکلے۔ اور ہم نے ان کی یہ تمام چیزیں بنی اسرائیل کو دلوا دیں جو آج تک پست حال تھے ذلیل و نادار تھے۔ چونکہ ہمارا ارادہ ہو چکا تھا کہ ہم ان کمزوروں کو ابھاریں اور ان گرے پڑے لوگوں کو برسرترقی لائیں اور انہیں پیشوا اور وارث بنا دیں اوہ ارادہ ہم نے پورا کیا

 

۶۰

فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہو گیا

فرعون اپنے تمام لاؤ لشکر اور تمام رعایا کو مصر اور بیرون کے لوگوں کو اپنے والوں کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر بڑ طمطراق اور ٹھاٹھ سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے چلا بعض کہتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی تھی۔ ان میں سے ایک لاکھ تو صرف سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے لیکن یہ خبر اہل کتاب کی ہے جو تامل طلب ہے۔ کعب سے تو مروی ہے کہ آٹھ لاکھ تو ایسے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ سب بنی اسرائیل کی مبالغہ آمیز روایتیں ہیں۔ اتنا تو قرآن سے ثابت ہے کہ فرعون اپنی کل جماعت کو لے کر چلا مگر قرآن نے ان کی تعداد بیان نہیں فرمائی نہ اس کو علم ہمیں کچھ نفع دینے والا ہے طلوع آفتاب کے وقت یہ ان کے پاس پہنچ گیا۔ کافروں نے مومنوں اور مومنوں نے کافروں کو دیکھ لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ موسیٰ اب بتاؤ کیا کریں۔ پکڑ لیے گئے آگے بحر قلزم ہے پیچھے فرعون کا ٹڈی دل لشکر ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ ظاہر ہے کہ نبی اور غیر نبی کا ایمان یکساں نہیں ہوتا حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت ٹھنڈے دل دے جواب دیتے ہیں کہ گھبراؤ نہیں تمہیں کوئی ایذا نہیں پہنچا سکتی میں اپنی رائے سے تمہیں لے کر نہیں نکلا بلکہ احکم الحاکمین کے حکم سے تمہیں لے کر چلا ہوں۔ وہ وعدہ خلاف نہیں ہے ان کے اگلے حصے پر حضرت ہارون علیہ السلام تھے انہی کے ساتھ حضرت یوشع بن نون تھے یا آل فرعون کا مومن شخص تھا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام لشکر کے اگلے حصے میں تھے۔ گھبراہٹ کے مارے اور راہ نہ ملنے کی وجہ سے سارے بنو اسرئیل ہکا بکا ہو کر ٹھہر گئے اور اضطراب کے ساتھ جناب کلیم اللہ سے دریافت فرمانے لگے کہ اسی راہ پر چلنے کا اللہ کا حکم تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اتنی دیر میں تو فرعون کا لشکر سر پر آ پہنچا۔ اسی وقت پروردگار کی وحی آئی کہ اے نبی ! اس دریا پر اپنی لکڑی ماو۔ اور پھر میری قدرت کا کرشمہ دیکھو، آپ نے لکڑی ماری جس کے لگتے ہی بحکم اللہ پانی پھٹ گیا اس پریشانی کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو دعا مانگی تھی۔ وہ ابن ابی حاتم میں ان الفاظ سے مروی ہے۔ یا من کان قبل کل شئی المکون لکل شئی والکائن بعد کل شئی اجعل لنا مخرجا یہ دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ اللہ کی وحی آئی کہ دریا پر اپنی لکڑی مارو۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس رات اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف پہلے ہی سے وحی بھیج دی تھی کہ جب میرے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئیں اور تجھے لکڑی ماریں تو تو ان کی بات سننا اور ماننا پس سمندر میں رات بھر تلاطم رہا اس کی موجیں ادھر ادھر سر ٹکراتی پھیریں کہ نہ معلوم حضرت علیہ السلام کب اور کدھر سے آ جائیں اور مجھے لکڑی مار دیں ایسانہ ہو کہ مجھے خبر نہ لگے اور میں ان کے حکم کی بجا آوری نہ کر سکوں جب بالکل کنارے پہنچ گئے تو آپ کے ساتھی حضرت یوشع بن نون رحمۃ اللہ نے فرمایا اے اللہ کے نبی ! اللہ کا آپ کو کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا۔۔ یہی کہ میں سمندر میں لکڑی ماروں۔ انہوں نے کہا پھر دیر کیا ہے؟ چنانچہ آپ نے لکڑی مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے تو پھٹ اور مجھے چلنے کا راستہ دے دے۔ اسی وقت وہ پھٹ گیا راستے بیچ میں۔ صاف نظر آنے لگے اور اس کے آس پاس پانی بطور پہاڑ کے کھڑا ہو گیا۔ اس میں بارہ راستے نکل آئے بنو اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے۔ پھر قدرت الٰہی سے ہر دو فریق کے درمیان جو پہاڑ حائل تھا اسمیں طاق سے بن گئے تاکہ ہر ایک دوسرے کو سلامت روی سے آتا ہوا دیکھے۔ پانی مثل دیواروں کے ہو گیا۔ اور ہوا کو حکم ہوا کہ اس نے درمیان سے پانی کو اور زمین کو خشک کر کے راستے صاف کر دیئے پس اس خشک راستے سے آپ مع اپنی قوم کے بے کھٹکے جانے لگے۔ پھر فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے دریا سے قریب کر دیا پھر موسیٰ اور بنواسرائیل اور اب کو تو نجات مل گئی۔ اور باقی سب کافروں کو ہم نے ڈبو دیا نہ ان میں سے کوئی بچا۔ نہ ان میں سے کوئی ڈوبا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ فرعون کو جب بنو اسائل کے بھاگ جانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کہا اس کی کھال اترنے سے پہلے چھ لاکھ کا لشکر جمع ہو جانا چاہئے۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام بھاگم بھاگ دریا کے کنارے جب پہنچ گئے تو دریا سے فرمانے لگے تو پھٹ جا کہیں ہٹ جا اور ہمیں جگہ دے دے اس نے کہا یہ کیا تکبر کی باتیں کر رہے ہو؟ کیا میں اس سے پہلے بھی کبھی پھٹا ہوں ؟ اور ہٹ کر کسی انسان کو جگہ دی ہے جو تجھے دوں گا؟ آپ کے ساتھ جو بزرگ شخص تھے انہوں نے کہا اے نبی کیا یہی راستہ اور یہی جگہ اللہ کی بتلائی ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی انہوں نے کہا پھر نہ تو آپ جھوٹے ہیں نہ آپ سے غلط فرمایا گیا ہے۔ آپ نے دوبارہ یہی کہا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ اس بزرگ شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا اسی وقت وحی اتری کہ سمندر پر اپنی لکڑی مار۔ اب آپ کو خیال آیا اور لکڑی ماری لکڑی لگتے ہی سمندر نے راستہ دے دیا۔ بارہ راہیں ظاہر ہو گئیں ہر فرقہ اپنے راستے کو پہچان گیا اور اپنی راہ پر چل دیا اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بہ اطمینان تمام چل دئیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو بنی اسرائیل کو لے کر پار نکل گئے اور فرعونی ان کے تعاقب میں سمندر میں ا گئے کہ اللہ کے حکم سے سمندر کا پانی جیسا تھا ویسا ہو گیا اور سب کو ڈبو دیا۔ جب سب سے آخری بنی اسرائیلی نکلا اور سب سے آخری قبطی سمندر میں آگیا اسی وقت جناب باری تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی ایک ہو گیا اور سارے کے سارے قبطی ایک ایک کر کے ڈبو دیئے گئے۔ اس میں بڑی عبرتناک نشانی ہے کہ کس طرح گنہگار برباد ہوتے ہیں اور نیک کردار شاد ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان جیسی دولت سے محروم ہیں۔ بیشک تیرا رب عزیز و رحیم ہے۔

 

۶۹

ابراہیم علیہ السلام علامت توحید پرستی

تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل حضرت ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو یہ واقعہ سنا دیں۔ تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ کی اقتدا کریں۔ آپ اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انکی اس غلطی کو ان پر واضح کر کے ان کی غلط روش بے نقاب کرنے کے لئے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لئے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں ؟ یا اگر تم انکی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ انکے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کر سکتے۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برات اور بیزاری کا اعلان کر دیا۔ صاف فرما دیا کہ تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں ، جن کی تم اور تمہارے باپ داد پرستش کرتے رہے۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں۔ میں موحد مخلص ہوں۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہو سکے کر لو۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا میں تم سے اورتمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو۔ میرابھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اسکے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہئے۔ جو سچا ہے آپ نے اعلان کر دیا تھا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی لا الہ الا اللہ کو انہوں نے کلمہ بنا لیا

 

۷۸

خلیل اللہ کی تعریف

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کی صفتیں بیان فرماتے ہیں کہ میں تو ان اوصاف والے رب کاہی عابد ہوں۔ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کروں گا۔ پہلا وصف یہ کہ وہ میرا خالق ہے اسی نے اندازہ مقرر کیا ہے اور وہی مخلوقات کی اس کی طرف رہبری کرتا ہے۔ دوسرا وصف یہ کہ وہ ہادی حقیقی ہے جسے چاہتا ہے اپنی راہ مستقیم پر چلاتا ہے جسے چاہتا ہے اسے غلط راہ پر لگا دیتا ہے۔ تیسر وصف میرے رب کا یہ ہے کہ وہ رازق ہے آسمان و زمین کے تمام اسباب اسی نے مہیا کئے ہیں۔ بادلوں کا اٹھانا پھیلانا ان سے بارش کا برسانا اس سے زمین کو زندہ کرنا پھر پیدا وار اگانا اسی کا کام ہے۔ وہی میٹھا اور پیاس بجھانے والا پانی ہمیں دیتا ہے اور اپنی مخلوق کو بھی غرض کھلانے پلانے والا ہی ہے۔ ساتھ ہی بیمار تندرستی بھی اسی کے ہاتھ ہے لیکن خلیل اللہ علیہ السلام کا کمال ادب دیکھئے کہ بیماری کی نسبت تو اپنی طرف کی اور شفا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ گو بیماری بھی اس قضا و قدر ہے اور اسی کی بنائی ہوئی چیز ہے۔ یہی لطافت سورۃ فاتحہ کی دعا میں بھی ہے کہ انعام و ہدایت کی اسناد اللہ تو عالم کی طرف کی ہے اور غضب کے فاعل کو حذف کر دیا ہے اور ضلالت بندے کی طرف منسوب کر دی ہے۔ سورۂ جن میں جنات کو قول بھی ملاحظہ ہو جہاں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ زمین والی مخلوق کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے؟ یہاں بھی بھلائی کی نسبت رب کی طرف کی گئی اور برائی کے ارادے میں نسبت ظاہر نہیں کی گئی۔ اسی طرح کی آیت ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میری شفا پر بجز اس اللہ کے اور کوئی قادر نہیں۔ دوا میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کے بس کی چیز ہے۔ موت و حیات پر قادر بھی وہی ہے۔ ابتدا اسی کے ساتھ ہے اسی نے پہلی پیدائش کی ہے۔ وہی دوبارہ لوٹائے گا۔ دنیا اور آخرت میں گناہوں کی بخشش پر بھی وہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے غفور و رحیم ہے۔

 

۸۳

حکم سے کیا مراد ہے؟

حکم سے مراد علم عقل الوہیت کتاب اور نبوت ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے یہ چیزیں عطا فرما کر دنیا اور آخرت میں نیک لوگوں میں شامل رکھ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی آخری وقت میں دعا مانگی تھی کہ اے اللہ اعلیٰ رفیقوں میں ملا دے تین بار یہی دعا کی۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا بھی مروی ہے۔ اللہم احینا مسلمین وامتنا مسلمین والحقنابالصالحین غیر خزایا ولامبدلین۔ یعنی اے اللہ! ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور مسلمانی کی حالت میں ہی موت دے اور نیکوں میں ملا دے۔ در آنحالیکہ نہ رسوائی ہو نہ تبدیلی۔ پھر اور دعا کرتے ہیں کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر لوگوں میں جاری رہے۔ لوگ نیک باتوں میں میرا اقتدا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا ذکر پچھلی نسلوں میں باقی رکھا۔ ہر ایک آپ پر سلام بھیجتا ہے اللہ کسی نیک بندے کی نیکی اکارت نہیں کرتا۔ ایک جہان ہے جن کی زبانیں آپ کی تعریف و توصیف سے تر ہیں۔ دنیا میں بھی اللہ نے انہیں اونچائی اور بھلائی دی۔ عموماً ہر مذہب و ملت کے لوگوں خلیل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ میرا ذکر جمیل جہاں میں باقی رہے وہاں آخرت میں بھی جنتی بنایا جاؤں۔ اور اے اللہ میرے گمراہ باپ کو معاف فرما۔ لیکن اپنے کافر باپ کے لئے یہ استغفار کرنا ایک وعدے پر تھا جب آپ اس کا دشمن اللہ ہونا کھل گیا کہ وہ کفر پر ہی مرا تو آپ کے دل سے اس کی عزت و محبت جاتی رہی اور استغفار کرنا بھی ترک کر دیا۔ ابراہیم علیہ السلام بڑے صاف دل اور بردبار تھے۔ ہمیں بھی جہاں حضرت علیہ السلام کی روش پر چلنے کا حکم ملا ہے وہیں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اس بات میں انکی پیروی نہ کرنا پھر دعا کرتے ہیں کہ مجھے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچا لینا۔ جب کہ تمام اگلی پچھلی مخلوق زندہ ہو کر ایک میدان میں کھڑی ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد سے ملاقات ہو گی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کا منہ ذلت سے اور گرد و غبار سے آلودہ ہو رہا ہے۔ اور روایت میں ہے کہ اس وقت آپ جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ پروردگار تیرا مجھ سے قول ہے کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرے گا۔ اللہ فرمائے گا سن لے جنت تو کافر پر قطعاً حرام ہے اور روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر فرمائیں گے کہ دیکھ میں تجھے نہیں کہہ رہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کر باپ جواب دے گا کہ اچھا اب نہ کروں گا آپ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے کہ پروردگار تو نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ اس دن مجھے رسوا نہ فرمائے گا۔ اب اس سے بڑھ کر اور رسوائی کیا ہو گی کہ میرا باپ اس طرح رحمت سے دور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل علیہ السلام میں نے جنت کو کافروں پر حرام کر دیا ہے پھر فرمائے گا ابراہیم دیکھ تیرے پیروں تلے کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک بد صورت بچھو کیچڑ پانی میں لتھرا کھڑا ہے جس کے پاؤ ں پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا حقیقتاً یہ ان کے والد ہوں گے جو اس صورت میں کر دئیے گئے اور اپنی مقررہ جگہ پہنچادئے گئے اس دن انسان اگر اپنا فدیہ مال سے ادا کرنا چاہے گو دنیابھر کے خزانے دے دے لیکن بے سود ہے، نہ اس دن اولاد فائدہ دے گی تم اہل زمین کو اپنے بدلے میں دینا چاہے پھر بھی لاحاصل۔ اس دن نفع دینے والی چیز ایمان اخلاص اور شرک اور اہل شرک سے بیزاری ہے۔ جس کا دل صالح ہو یعنی شرک و کفر کے میل کچیل سے صاف ہو، اللہ کو سچا جانتا ہو قیامت کو یقینی مانتا ہو دوبارہ کے جی اٹھنے پر ایمان رکھتا ہو اللہ کی توحید کا قائل اور عامل ہو۔ نفاق وغیرہ سے دل مریض نہ ہو۔ بلکہ ایمان واخلاص اور نیک عقیدے سے دل صحیح اور تندرست ہو۔ بدعتوں سے نفرت رکھتا ہو اور سنت سے اطمینان اور الفت رکھتا ہو

 

۹۰

نیک لوگ اور جنت

جن لوگوں نے نیکیاں کی تھیں برائیوں سے بچے تھے جنت اس دن ان کے پاس ہی ان کے سامنے ہی زیب وزینت کے ساتھ موجود ہو گی۔ اور سرکشوں کے لئے اسی طرح جہنم ظاہر ہو گی اس میں سے ایک گردن نکل کھڑی ہو گی جو گنہگاروں کی طرف غضبناک تیوروں سے نظر ڈالے گی اور اس طرح شور مچائے گی کہ دل اڑ جائیں گے اور مشرکوں سے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرمایا جائے گا کہ تمہارے معبودان باطل جنہیں تم اللہ کے سواپوجتے تھے کہاں ہیں۔ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں ؟ یا خود اپنی مدد کر سکتے ہیں ؟ نہیں بلکہ عابد و معبود سب دوزخ میں الٹے لٹک رہے ہیں اور جل بھن رہے ہیں۔ تابع و متبوع سب اوپر تلے جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ساتھ ہی ابلیس کے کل لشکری بھی اول سے لے کر آخر تک۔ وہاں سفلے لوگ بڑے لوگوں سے جھگڑیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زندگی بھر تمہاری مانی۔ آج تم ہمیں عذابوں سے کیوں نہیں چھڑاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ہی بالکل گمراہ تھے راہ سے دور ہو گئے تھے کہ تمہارے احکام کو اللہ کے احکام کے مثل سمجھ بیٹھے تھے اور رب العلیمن کے ساتھ ہی تمہاری بھی عبادت کرتے رہے گویا کہ تمہیں رب کے برابر سمجھے ہوئے تھے۔ افسوس ہمیں اس غلط اور خطرناک راہ پر مجرموں نے لگائے رکھا۔ اب تو ہماری کوئی سفارشی بھی نہیں رہا۔ آپس میں پوچھیں گے کہ کیا کوئی ہمار شفیع ہے جو ہماری کرے ؟ یا ایسابھی ہو سکتا ہے کہ ہم دوبارہ دنیاکی طرف لوٹائے جائیں اور وہاں جا کر اب تک کئے ہوئے اعمال کے خلاف علم کریں ؟ جہاں ہمارا کوئی سفارشی ہمیں نظر نہیں اتا وہاں کوئی قریبی سچا دوست بھی نہیں دکھائی دیتا کہ وہی ہماری ہمدردی و غم خواری کرے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی صالح شخص سے ہماری دوستی ہوتی تو وہ آج ضرور ہمیں نفع دیتا اور اگر کوئی ہمارا دلی محب ہوتا تو وہ ضرور ہماری شفاعت کے لئے آگے بڑھتا اور اگر ہمیں پھر سے دنیا میں جانا ملتا تو ہم آپ اپنے ان بد اعمال کا تدارک کر لیتے اپنے رب کی ہی مانتے اور اسی کی عبادتیں کرتے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ یہ بدبخت ازلی اگر دوبارہ بھی لائیں جائیں تو وہی بد اعمالیاں پھر سے شروع کر دیں۔ سورۃ ص میں بھی ان دوزخیوں کے جھگڑے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا یہ جھگڑا یقیناً ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو کچھ فرمایا اور جو دلیلیں انہیں دیں اور ان پر توحید کی وضاحت کی اس میں یقیناً اللہ کی الوہیت پر اور اس کی یکتائی پر صاف برہان موجود ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تیرا پالنہار پروردگار پورے غلبے اور قوت والاساتھ ہی بخشش و رحم والا ہے۔

 

۱۰۵

بت پرستی کا آغاز

زمین پر سب سے پہلے جو بت پرستی شروع ہوئی اور لگ شیطانی راہوں پر چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم رسولوں کے سلسلے کو حضرت نوح علیہ السلام سے شروع کیا جنہوں نے آ کر لوگوں کو اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسکے سزاؤں سے انہیں آگاہ کیا لیکن وہ اپنے ناپاک کرتوتوں سے باز نہ آئے غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑی بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کو جھوٹا کہا ان کے دشمن بن گئے اور ایذا رسانی کے درپے ہو گئے حضرت نوح علیہ السلام کا جھٹلانا گو یا تمام پیغمبروں سے انکار کرنا تھا اس لئے آیت میں فرمایا گیا کہ قوم نوح نبیوں کو جھٹلایا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے پہلے تو انہیں اللہ کا خوف کرنے کی نصیحت کی کہ تم جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو اللہ کے عذاب کا تمہیں ڈر نہیں ؟ اس طرح توحید کی تعلیم کے بعد اپنی رسالت کی تلقین کی اور فرمایا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول علیہ السلام بن کر آیا ہوں اور میں امانت دار بھی ہوں اس کا پیغام ہو بہو وہی ہے جو تمہیں سنارہا ہوں۔ پس تمہیں اپنے دلوں کو اللہ کے ڈر سے پر رکھنا چاہئے اور میری تمام باتوں کو بلا چوں و چرا مان لینا چاہئیے۔ اور سنو میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میرا مقصد اس سے صرف یہی ہے کہ میرا رب مجھے اس کا بدلہ اور ثواب عطا فرمائے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو میری سچائی میری خیر خواہی تم پر خوب روشن ہے۔ ساتھ ہی میری دیانت داری اور امانت داری بھی تم پر واضح ہے

 

۱۱۱

ہدایت طبقاتی عصبیت سے پاک ہے

قوم نوح نے اللہ کے رسول کو جواب دیا کہ چند سفلے اور چھوٹے لوگوں نے تیری بات مانی ہے۔ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ان رذیلوں کا ساتھ دیں اور تیری مان لیں۔ اس کے جواب میں اللہ کے رسول نے جواب دیا یہ میرا فرض نہیں کہ کوئی حق قبول کرنے کو آئے تو میں اس سے اس کی قوم اور پیشہ دریافت کرتا پھروں۔ اندرونی حالات پر اطلاع رکھنا، حساب لینا اللہ کا کام ہے۔ افسوس تمہیں اتنی سمجھ بھی نہیں۔ تمہاری اس چاہت کو پور کرنا میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں ان مسکینوں سے اپنی محفل خالی کرالوں۔ میں تو اللہ کی طرف سے ایک آگاہ کر دینے والا ہوں۔ جو بھی مانے وہ میرا اور جو نہ مانے وہ خود ذمہ دار۔ شریف ہو یارذیل ہو امیر ہو یا غریب ہو جو میری مانے میرا ہے اور میں اس کا ہوں

 

۱۱۶

تذکرۂ نوح علیہ السلام

لمبی مدت تک جناب نوح علیہ السلام ان میں رہے دن رات چھپے کھلے انہیں اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں جوں آپ علیہ السلام اپنی نیکی میں بڑھتے گئے وہ اپنی بدی میں سوار ہوتے گئے بالاخر زور باندھتے باندھتے صاف کہہ دیا کہ اگر اب ہمیں اپنے دین کی دعوت دی تو ہم تجھ پر پتھراؤ کر کے تیری جان لے لیں گے۔ آپ کے ہاتھ بھی جناب باری میں اٹھ گئے قوم کی تکذیب کی شکایت آسمان کی طرف بلند ہوئی۔ اور آپ نے فتح کی دعا کی فرمایا کہ اے اللہ!میں مغلوب اور عاجز ہوں میری مدد کر میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی بچا لے۔ پس جناب باری عز و جل نے آپ کی دعا قبول کی۔ انسانوں جانوروں اور سامان اسباب سے کچھا کچھ بھری ہوئی کشتی میں سوار ہو جانے کا حکم دے دیا۔ یقیناً یہ واقعہ بھی عبرت آموز ہے لیکن اکثر لوگ بے یقین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رب بڑھے غلبے والا لیکن وہ مہربان بھی بہت ہے۔

 

۱۲۳

ہود علیہ السلام اور ان کی قوم

حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے عادیوں کو جو احقاف کے رہنے والے تھے اللہ کی طرف بلایا۔ احقاف ملک یمن میں حضرموت کے پاس ریتلی پہاڑیوں کے قریب ہے ان کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد کا ہے۔ سورۃ اعراف میں بھی ان کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں قوم نوح کا جانشین بنایا گیا اور انہیں بہت کچھ کشادگی اور وسعت دی گئی۔ ڈیل ڈول دیا بڑی قوت طاقت دی پورے مال اولاد کھیت باغات پھل اور اناج دیا۔ بکثرت دولت اور زر بہت سی نہیں اور چشمے جا بجا دئیے۔ الغرض ہر طرح کی آسائش اور اسانی مہیا کی لیکن رب کی تمام نعمتوں کی ناقدری کرنے ولے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا۔ یہ انہی میں سے تھے نبی نے انہیں سمجھایا بجھایا ڈرایا دھمکایا اپنا رسول ہونا ظاہر فرمایا۔ اپنی اطاعت اور اللہ کی عبادت و وحدانیت کی دعا دی جیسے کہ نوح علیہ السلام نے دی تھی۔ اپنا بے لاگ ہونا طالب دنیا نہ ہونا بیان فرمایا۔ اپنے خواص کا بھی ذکر کیا یہ جو فخر و ریا کے طور پر اپنے مال برباد کرتے تھے اور اونچے اونچے مشہور ٹیلوں پر اپنی قوت کے اور مال کے اظہار کے لئے بلند و بالا علامتیں بناتے تھے اس فعل عبث سے انہیں ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام نے روکا کیونکہ اس میں بے کار دولت کا کھونا وقت کا برباد کرنا ا اور مشقت اٹھانا ہے جس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہ مقصود ہوتا ہے نہ متصور۔ بڑے بڑے پختہ اور بلند برج اور مینار بناتے تھیجس کے بارے میں ان کے نبی نے نصیحت کی کہ کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ یہیں ہمیشہ رہو گے محبت دنیا نے تمہیں آخرت بھلا دی ہے لیکن یاد رکھو تمہاری یہ چاہت بے سود ہے۔ دنیا زائل ہونے والی ہے تم خود فنا ہونے والے ہو۔ ایک قرأت میں کانکم خالدون ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب مسلمانوں نے غوطہ میں محلات اور باغات کی تعمیر اعلی پیمانے پر ضرورت سے زیادہ شروع کر دی تو حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے دمشق کے رہنے والو سنو! لوگ سب جمع ہو گئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم خیال نہیں کرتے کہ تم نے وہ جمع کرنا شروع کر دیا جسے تم کھا نہیں سکتے۔ تم نے وہ مکانات بنانے شروع کر دئیے جو تمہارے رہنے سہنے کے کام نہیں آتے تم نے وہ دور دراز کی آرزوئیں کرنی شروع کر دیں جو پوری ہونی محال ہیں۔ کیا تم بھول گئے تم سے اگلے لوگوں نے بھی جمع جتھا کر کے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا۔ بڑے اونچے اونچے پختہ اور مضبوط محلات تعمیر کئے تھے بڑی بڑی آرزوئیں باندھی تھیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں رہ گئے ان کی پونجی برباد ہو گئی ان کے مکانات اور بستیاں اجڑ گئیں۔ عادیوں کو دیکھو کہ عدن سے لے کر عمان تک ان کے گھوڑے اور اونٹ تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں ؟ ہے کوئی ایسا بے وقوف کہ قوم عاد کی میراث کو دو درہموں کے بدلے بھی خریدے انکے مال و مکانات کا بیان فرما کر ان کی قوت و طاقت کا بیان فرمایا کہ بڑے سرکش، متکبر اور سخت لوگ تھے۔ نبی علیہ صلوات اللہ نے انہیں اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کا حکم دیا کہ عبادت رب کی کرو اطاعت اس کے رسول کی کرو پھر وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ نے ان پر انعام کی تھیں جنہیں وہ خود جانتے تھے۔ مثلاً چوپائے جانور اور اولاد باغات اور دریا پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر تم نے میری تکذیب کی اور میری مخالفت پر جمے رہے تو تم پر عذاب الٰہ برس پڑے گا لالچ اور ڈر دونوں دکھائے مگر بے سود رہیں۔

 

۱۳۶

موثر بیانات بھی بے اثر

حضرت ہود علیہ السلام کے موثر بیانات نے اور آپ کے رغبت اور ڈر بھرے خطبوں نے قوم پر کوئی اثر نہیں کیا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ ہمیں وعظ سنائیں یا نہ سنائیں نصیحت کریں یا نہ کریں ہم تو اپنی روش کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم آپ کی بات مان کر اپنے معبودوں سے دست بردار ہو جائیں یہ یقیناً محال ہے ہمارے ایمان سے آپ مایوس ہو جائیں ہم آپ کی نہیں ماننے کے۔ فی الواقع کافروں کا یہی حال ہے کہ انہیں سمجھانا بے سود رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخرالزماں سے بھی یہی فرمایا کہا ان ازلی کفار پر آپ کی نصیحت مطلق اثر نہیں کرے گی یہ نصیحت کرنے اور ہوشیار کر دینے کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے تھے۔ یہ تو قدرتی طور پر ایمان سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ جن پر تیرے رب کی بات صادق آنے والی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے والا۔ خلق الاولین کی دوسری قرأت خلق الاولین بھی ہے یعنی جو باتیں تو ہمیں کہتا ہے یہ تو اگلوں کی کہی ہوئی ہیں جیسے قریشیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو صبح شام تمہارے سامنے پڑھی جاتی ہیں۔ یہ ایک بہتان ہے جسے تو نے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگ اپنے طرفدار کر لئے ہیں۔ مشہور قراء کی بنا پر معنی یہی ہوئے کہ جس پر ہم ہیں وہی ہمارے پرانے باپ دادوں کا مذہب ہے ہم تو انہیں کی راہ چلیں گے اور اسی روش پر رہیں گے جئیں گے پھر مر جائیں گے جیسے وہ مر گئے۔ یہ محض لاف ہے کہ پھر ہم اللہ کے ہاں زندہ کئے جائیں گے۔ یہ بھی غلط ہے کہ ہمیں عذاب کیا جائے گا آخر شان کی تکذیب اور مخالفت کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ سخت تیز و تند آندھی ان پر بھیجی گئی اور یہ برباد کر دئیے گئے یہ عاد اولی تھے جنہیں ارم ذات العماد بھی کہا گیا۔ یہ ارم سام بن نوح علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔ عمد میں یہ رہتے تھے ارم حضرت نوح علیہ السالم کے پوتے کا نام ہے نہ کہ کسی شہر کا۔ گو بعض لوگوں سے یہ بھی مروی ہے لیکن اس کے قائل بنی اسرائیل ہیں۔ ان سے سن سنا کر اوروں نے بھی یہ کہہ دیا حقیقت میں اسکی کوئی مضبوط دلیل نہیں۔ اسی لئے قرآن نے ارم کا ذکر کرتے ہی فرمایا کہ ہم یخلق مثلھا فی البلاد۔ ان جیسا اور کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔ اگر اس سے مراد شہر ارم ہوتا تو یوں فرمایا جاتا کہ اس جیسا اور کوئی شہر بنایا نہیں گیا۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے فاما عاد فاستکبروا فی الارض الخ عادیوں نے زمین میں تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے بڑھ کر قوت والا کون ہے؟ کیا وہ اسے بھی بھول گئے ان کا پیدا کرنے والا ان سے زیادہ قوی ہے دراصل انہیں ہماری آیتوں سے انکار تھا یہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ان پر صرف بیل کے نتھنے کے برابر ہوا چھوڑی گئی تھی۔ جس نے ان کو ان کے شہروں کا ان کے مکانات کا نام و نشان مٹا دیا جہاں سے گزر گئی صفایا کر دیا شائیں شائیں کرتی تمام چیزوں کا ستیاناس کرتی چلی تھی۔ تمام قوم کے سر الگ ہو گئے اور دھڑ الگ ہو گئے۔ عذاب الٰہی کو ہوا کی صورت آتا دیکھ کر قلعوں میں محلات میں محفوظ مکانات میں گھس گئے تھے۔ زمین میں گڑھے کھود کھود کر آدھے آدھے جسم ان میں ڈال کر محفوظ ہوئے تھے لیکن بھلا عذاب اللہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے؟ وہ ایک منٹ کے لئے بھی کسی کو مہلت اور دم لینے دیتا ہے؟ سب چٹ پٹ کر دئیے گئے اور اس واقعہ کو بعد میں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ ان میں سے پھر بھی اکثر لوگ بے ایمان ہی رہے اللہ کا غلبہ اور رحم دونوں مسلم تھے

 

۱۴۱

صالح علیہ السلام اور قوم ثمود

اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول حضرت صالح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہو رہا کہ آپ اپنی قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یہ لوگ عرب حجر نامی شہر میں رہتے تھے جو وادی القری اور ملک شام کے درمیان ہے۔ یہ عادیوں کے بعد اور ابراہیمیوں سے پہلے تھے شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا اس جگہ سے گزرنے کا بیان سورئق اعراف کی تفسیر میں پہلے گزر چکا ہے۔ انہیں ان کے نبی اللہ کی طرف بلایا کہ یہ اللہ کی توحید کو مانیں اور حضرت صالح علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کریں لیکن انہوں نے بھی انکار کر دیا اور پنے کفر پر جمے رہے اللہ کے پیغمبر کو جھوٹا کہا۔ باوجود اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت سننے کی پرہیز گاری اختیار نہ کی۔ باوجود رسول امین کی موجودگی کے راہ ہدایت اختیار نہ کی۔ حالانکہ بنی کا صاف اعلان تھا کہ میں اپنا کوئی بوجھ تم ڈال نہیں رہا میں تو رسالت کی تبلیغ کے اجرا کا صرف اللہ تعالیٰ سے خواہاں ہو۔ اس کے بد اللہ کی نعمتیں انہیں یا د دلائیں

 

۱۴۶

صالح علیہ السلام کی باغی قوم

حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم وعظ فرما رہے ہیں انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں اور اسکے عذابوں سے متنبہ فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ جو تمہیں یہ کشادہ روزیاں دے رہا ہے جس نے تمہارے لئے باغات اور چشمے کھیتیاں اور پھل پھول مہیا فرما دئیے ہیں امن چین سے تمہاری زندگی کے ایام پورے کر رہے ہیں تم اس کی نافرمانیاں کر کے انہی نعمتوں میں اور اسی امن وامان میں نہیں چھوڑے جاسکتے۔ ان باغات اور ان دریاؤں میں ان کھیتوں میں ان کھجوروں کے باغات میں جن کے خوشے کھجوروں کی زیادتی کے مارے بوجھل ہو رہے ہیں اور جھکے پڑتے ہیں جن میں تہہ بہ تہہ تر کھجوریں بھر پور لگ رہی ہیں جو نرم خوش نما میٹھی اور خوش ذائقہ کھجوروں سے لدی ہوئے ہیں تم اللہ کی نافرمانیاں کر کے ان کو بہ آرام ہضم نہیں کرستکے۔ اللہ نے تمہیں اس وقت جن مضبوط اور پر تکلف بلند اور عمدہ گھروں میں رکھ چھوڑا ہے اللہ کی توحید اور میری رسالت سے انکار کے بعد یہ بھی قائم نہیں رہ سکتے۔ افسوس تم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے اپنا وقت اپنا روپیہ بے جا برباد کر کے یہ نقش و نگار والے مکانات پہاڑوں میں بہ تصنع و تکلف صرف بڑائی اور ریاکاری کیلئے اپنی عظمت اور قوت کے مظاہرے کیلے تراش رہے ہو جس میں کوئی نفع نہیں بلکہ اسکا وبال تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے پس تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور میری اتباع کرنی چاہئے اپنے خالق رازق منعم محسن کی عبادت اور اسکی فرمانبرداری اور اس کی توحید کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جانا چاہئے۔ جس کا نفع تمہیں اپنے دنیا اور آخرت میں ملے تمہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اس کی تسبیح و تہلیل کرنی چاہئیے صبح و شام اس کی عبادت کرنی چاہئے تمہیں اپنے ان موجودہ سردارں کی ہرگز نہ ماننی چاہئے یہ تو حدود اللہ سے تجاوز کر گئے ان موجودہ سرداروں کی ہر گز نہ توحید کو، اتباع کو بھلا بیٹھے ہیں۔ زمین میں فسادپھیلا رہے ہیں نافرمانی، گناہ، فسق و فجور پر خود لگے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف بلا رہے ہیں اور حق کی موافقت اور اتباع کر کے اصلاح کی کوشش نہیں کرتے

 

۱۵۳

نبی کا اپنے آپ سے تقابل

ثمودیوں نے اپنے نبی کو جواب دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے گو ایک معنی یہ بھی کئے گئے کہ تو مخلوق میں سے ہے اور اسکی دلیل میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن ظاہر معنی پہلے ہی ہیں اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ تو تو ہم جیسا ایک انسان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم میں سے تو کسی پر وحی نہ آئے اور تجھ پر آ جائے کچھ نہیں یہ صرف بناوٹ ہے ایک خود ساختہ ڈرامہ ہے محض جھوٹ اور صاف طوفان ہے اچھا ہم کہتے ہیں اگر تو واقعی سچا بنی ہے تو کوئی معجزہ اس وقت ان کے چھوٹے بڑے سب جمع تھے اور یک زبان ہو کر سب نے معجزہ طلب کیا تھا۔ آپ نے پوچھا تم کیا معجزہ دکھانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ سامنے جو پتھر کی بڑی ساری چٹان ہے یہ ہمارے دیکھتے ہوئے پھٹے اور اس میں سے ایک گابھن اونٹنی اس اس رنگ کی اور ایسی ایسی نکلے۔ آپ نے فرمایا اچھا اگر میں رب سے دعا کروں اور وہ یہی معجزہ میرے ہاتھوں تمہیں دکھا دے پھر تو تمہیں میری نبوت کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہو گا؟ سب نے پختہ وعدہ کیا قول قرار کیا کہ ہم سب ایمان لائیں گے اور آپ کی نبوت مان لیں گے۔ آپ بہت جلد یہ معجزہ دکھائیں۔ آپ نے اسی وقت نماز شروع کر دی پھر اللہ عز و جل سے دعا کی اسی وقت وہ پتھر پھٹا اور اسی طرح کی ایک اونٹنی ان کے دیکھتے ہوئے اس میں سے نکلی۔ کچھ لوگ گو حسب اقرار مومن ہو گئے لیکن اکثر لوگ پھر بھی کافر کے کافر رہے۔ آپ نے کہا سنو ایک دن یہ پانی پئے گی اور ایک دن پانی کی باری تمہاری مقرر رہے گی۔ اب تم میں سے کوئی اسے برائی نہ پہنچائے ورنہ بدترین عذاب تم پر اتر پڑے گا۔ ایک عرصے تک تو وہ رکے رہیں۔ اونٹنی ان میں رہی چارہ چگتی اور اپنی باری والے دن پانی پیتی۔ اس دن یہ لوگ اس کے دودھ سے ہے سیر ہو جاتے۔ لیکن ایک مدت کے بعد ان کی بدبختی نے انہیں آ گھیرا۔ ان میں سے ایک ملعون نے اونٹنی کے مار ڈالنے کا ارادہ کیا اور کل اہل شہر اس کے موافق ہو گئے چنانچہ اس کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا۔ جس کے نتیجے میں انہیں سخت ندامت اور پیشمانی اٹھانی پڑی اللہ کے عذاب نے انہیں اچانک آ دبوچا۔ ان کی زمین ہلا دی گئیں اور ایک چیخ سے سب کے سب ہلاک کر دئیے گئے۔ دل اڑ گئے کلیجے پاش پاش ہو گئے اور وہم گمان بھی جس چیز کا نہ تھا وہ آن پڑا۔ اور تا آخر سب غارت ہو گئے اور دنیا جہاں کے لئے یہ خوفناک واقعہ عبرت افزا ہو گیا۔ اتنی بڑی نشانی اپنی آنکھوں دیکھ کر بھی ان میں سے اکثر لوگوں کو ایمان لانا نصیب نہ ہوا اسمیں کچھ شک نہیں کہ اللہ غالب ہے اور رحیم بھی ہے

 

۱۶۰

لوط علیہ السلام اور انکی قوم

اب اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کا قصہ بیان فرما رہا ہے۔ ان کا نام لوط بن ہار ان بن آزر تھا۔ یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں بہت بڑی امت کی طرف بھیجا تھا۔ یہ لوگ سدوم اور اس کے پاس بستے تھے بالاخر یہ بھی اللہ کے عذابوں میں پکڑے گئے سب کے سب ہلاک ہوئے اور ان کی بستیوں کی جگہ ایک جھیل سڑے ہوئے گندے کھاری پانی کی باقی رہ گئی۔ یہ اب تک بھی بلاد غور میں مشہور ہے جو کہ بیت المقدس اور کرک و شوبک کے درمیان ہے ان لوگوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب کی۔ آپ نے انہیں اللہ کی معصیت چھوڑنے اور اپنی تابعداری کرنے کی ہدایت کی۔ اپنا رسول ہو کر آنا ظاہر کیا۔ انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اللہ کی باتیں مان لینے کو فرمایا۔ اعلان کر دیا کہ میں تمہارے پیسے ٹکے کا محتاج نہیں۔ میں صرف اللہ کے واسطے تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں ، تم اپنے اس خبیث فعل سے باز آؤ یعنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے حاجت روائی کرنے سے رک جاؤ لیکن انہیں نے اللہ کے رسول علیہ السلام کی نہ مانی بلکہ ایذائیں پہنچانے لگے

 

۱۶۵

ہم جنسی پرستی کا شکار

لوط نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو انکی خاص بدکاری سے روکا کہ تم مردوں کے پاس شہوت سے نہ آؤ۔ ہاں اپنی حلال بیویوں سے اپنی خواہش پوری کر جنہیں اللہ نے تمہارے لئے جوڑا بنا دیا ہے۔ رب کی مقرر حدوں کا ادب و احترام کرو۔ اس کا جواب ان کے پاس یہی تھا کہ اے لوط علیہ السلام اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے جلا وطن کر دیں گے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پاکبازوں لوگوں کو تو الگ کر دو۔ یہ دیکھ کر آپ نے ان سے بیزاری اور دست برداری کا اعلان کر دیا۔ اور فرمایا کہ میں تمہارے اس برے کام سے ناراض ہوں میں اسے پسند نہیں کرتا میں اللہ کے سامنے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر اللہ سے ان کی لئے بد دعا کی اور اپنی اور ا پنے گھرانے کی نجات طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو نجات دی مگر آپ کی بیوی سے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور انہی کے ساتھ تباہ ہوئی جیسے کہ سورۃ اعراف، سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بالتفصیل بیان گزر چکا ہے۔ آپ اپنے والوں کو لے کر اللہ کے فرمان کے مطابق اس بستی سے چل کھڑے ہوئے حکم تھا کہ آپ کے نکلتے ہی ان پر عذاب آئے گا اس وقت پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں۔ پھر ان سب پر عذاب برسا اور سب برباد کر دئیے گئے۔ ان پر آسمان سے سنگ باری ہوئی۔ اور انکا انجام بد ہوا۔ یہ بھی عبرتناک واقعہ ہے ان میں سے بھی اکثر بے ایمان تھے۔ رب کے غلبے میں اس کے رحم میں کوئی شک نہیں

 

۱۷۶

شعیب علیہ السلام

یہ لوگ مدین کے رہنے والے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام بھی ان ہی میں تھے آپ کو ان کا بھائی صرف اس لئے نہیں کہا گیا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی نسبت ایکہ کی طرف کی ہے۔ جسے یہ لوگ پوجتے تھے۔ ایکہ ایک درخت تھا یہی وجہ ہے کہ جیسے اور نبیوں کی ان کی امتوں کا بھائی فرمایا گیا انہیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا ورنہ یہ لوگ بھی انہی کی قوم میں سے تھے۔ بعض لوگ جن کے ذہن کی رسائی اس نکتے تک نہیں ہوئی وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی قوم میں سے نہ تھے۔ اس لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو انکا بھائی فرمایا گیا یہ اور ہی قوم تھی۔ شعیب علیہ السلام اپنی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور ان لوگوں کی طرف بھی۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تیسری امت کی طرف بھی آپ کی بعثت ہوئی تھی۔ چنانچہ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ کسی نبی کو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ نہیں بھیجا سوائے حضرت شعیب علیہ السلام کے کہ ایک مرتبہ انہیں مدین والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ ہلاک کر دیا۔ اور دوبارہ انہیں ایکہ والوں کی طرف بھیجا اور ان کی تکذیب کی وجہ ان پر سائے والے دن کا عذاب آیا اور وہ برباد ہوئے۔ لیکن یاد رہے کہ اس کے راویوں میں ایک راوی اسحاق بن بشر کاہلی ہے جو ضعیف ہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رس اور اصحاب ایکہ قوم شعیب ہے اور ایک بزرگ فرماتے ہیں اصحاب ایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن عساکر میں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ دو قومیں ہیں ان دونوں نے امتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا تھا لیکن یہ حدیث غریب ہے اور اسکے مرفوع ہونے میں کلام ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف ہی ہو۔ صحیح امر یہی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی امت ہے۔ دونوں جگہ ان کے وصف الگ الگ بیان ہوئے ہیں مگر وہ ایک ہی ہے۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ دونوں قصوں میں حضرت شعیب علیہ السلام کا وعظ ایک ہی ہے دونوں کو ناپ تول صحیح کرنے کا حکم دیا ہے۔

 

۱۸۱

ڈنڈی مار قوم

حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو ناپ تول درست کرنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ ڈنڈی مانے اور ناپ تول میں کمی کرنے سے روکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب کسی کو کوئی شے ناپ کر دو تو پورا پیمانہ بھر کر دو اس کے حق سے کم نہ کر و۔ اسی طرح دوسرے سے جب لو تو زیادہ لینے کی کوشش اور تدبیر نہ کر و۔ یہ کیا کہ لینے کے وقت پورا لو اور دینے کے وقت کم دو؟ لین دین دونوں صاف اور پور رکھو۔ ترازو اچھی رکھو جس میں تول صحیح آئے بٹے بھی پورے رکھو تو میں عدل کرو ڈنڈی نہ مارو کم نہ تولو کسی کو اسکی چیز کم نہ دو۔ کسی کی راہ نہ مارو چوری چکاری لوٹ مار غارتگری رہزنی سے بچو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کر کے ان سے مال نہ لوٹو۔ اس اللہ کے عذابوں کو خوف رکھو جس نے تمہیں اور سب اگلوں کو پیدا کیا ہے۔ جو تمہارے اور تمہارے بڑوں کا رب ہے یہی لفظ آیت ولقد اضل منکم جبلا کثیرا میں بھی اسی معنی میں ہے۔

 

۱۸۵

مشرکین کی وہی حماقتیں

ثمودیوں نے جو جواب اپنے نبی کو دیا تھا وہی جواب ان لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی۔ تو ہم جیسا ہی انسان ہے اور ہمیں تو یقین ہے کہ تو جھوٹا آدمی ہے۔ اللہ نے تجھے نہیں بھیجا۔ اچھا تو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گردے۔ آسمانی عذاب ہم پر لے آ جیسے قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا تھا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے نہیں جب تک کہ تو عرب کے اس ریتلی زمین میں دریا نہ بہا دے یہاں تک کہا کہ یا تو تو ہم پر آسمان کو کوئی ٹکڑا گردے جیسے کہ تیرا خیال ہے یا تو اللہ تعالیٰ کو یا فرشتوں کو کھلم کھلا لے آ۔ اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ اگر یہ تیرے پاس ہے اور حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے اسی طرح ان جاہل کافروں نے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اللہ کو تمہارے اعمال بخوبی معلوم ہیں جس لائق تم ہو وہ خود کر دے گا۔ اگر تم اس کے نزدیک آسمانی عذاب کے قابل ہو تو بلا تاخیر تم پر آسمانی عذاب آ جائے گا اللہ ظالم نہیں کہ بے گناہوں کو سزادے۔ بالاخر جس قسم کا عذاب یہ مانگ رہے تھے اسی قسم کا عذاب ان پر آیا۔ انہیں سخت گرمی محسوس ہوئی سات دن تک گویا زمین ابلتی رہی۔ کسی جگہ کسی سایہ میں ٹھنڈک یا راحت میسر نہ ہوئی۔ تڑپ اٹھے بے قرار ہو گئے سات دن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بادل ان کی طرف آ رہا ہے وہ آ کر ان کے سروں پر چھا گیا یہ سب گرمی اور حرارت سے زچ ہو گئے تھے اسکے نیچے جا بیٹھے۔ جب سارے کے سارے اس کے سائے میں پہنچ گئے وہیں بادل میں سے آگ برسنے لگی ساتھ ہی زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگی اور اس زور کی ایک آواز آئی جس سے ان کے دل پھٹ گئے جان نکل گئی اور سارے بہ یک آن تباہ ویران ہو گئے۔ اس دن کے سائبان والے سخت عذاب نے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑا۔ سورۃ اعراف میں تو فرمایا گیا ہے کہ ایک زلزلے کے ساتھ ہی یہ سب ہلاک ہو گئے۔ سورۃ ہود میں بیان ہوا ہے کہ ان کی تباہی کا باعث ایک خطرناک منظر دل شکن چیخ تھی اور یہاں بیان ہوا کہ انہیں سائبان کے دن عذاب نے قابو کر لیا تو تینوں مقامات پر تینوں کا ایک ایک کر کے ذکر اس مقام کی عبارت کی مناسبت کی وجہ سے ہوا ہے۔ سورۃ اعراف میں ان کی اس خباثت کا ذکر ہے کہ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکایا تھا کہ اگر تم ہمارے دین میں نہائیں تو ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو شہر بدر کر دیں گے۔ چونکہ وہاں نبی کے دل کو ہلانے کا ذکر تھا اس لئے عذاب بھی ان کے جسموں کو مع دلوں کو ہلا دینے والے یعنی زلزلے اور جھٹکے کا ذکر ہوا۔ سورۃ ہور میں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے نبی کو بطور مذاق کے کہا تھا کہ آپ تو بڑے بردبار اور بھلے آدمی ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ بڑے بکی بکواس اور برے آدمی ہیں تو وہاں عذاب میں چیخ اور چنگھاڑ کا بیان ہوا۔ یہاں چونکہ ان کی آرزو آسمان کے ٹکڑے کے گرنے کی تھی تو عذاب کا ذکر بھی سائبان نما ابر کے ٹکڑے سے ہوا۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ۔

 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سات دن تک وہ گرمی پڑی کہ الامان والحفیظ کہیں ٹھنڈک کا نام نہیں تھا تلملا اٹھے اس کے بعد ایک ابر اٹھا اور امڈھا۔ اس کے سائے میں ایک شخص پہنچا اور وہاں راحت اور ٹھنڈک پا کر اس نے دوسروں کو بلایا جب سب جمع ہو گئے تو ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسی۔ یہ بھی مروی ہے کہ ابر جو بطور سائبان کے تھا ان کے جمع ہوتے ہی ہٹ گیا اور سورج سے ان پر آگ برسی جس نے ان سب کا بھرتا بنا دیا۔ محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل مدین پر تینوں عذاب آئے شہروں میں زلزلہ آیا جس سے خائف ہو کر حدود شہر سے باہر آ گئے۔ باہر جمع ہوتے ہی گھبراہٹ پریشانی اور بے کلی شروع ہو گئی تو وہاں سے بھگدڑ مچی لیکن شہر میں جانے سے ڈرے وہیں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ایک جگہ ہے ایک اس کے نیچے گیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کر کے سب کو آواز دی کہ یہاں آ جاؤ یہاں جیسی ٹھنڈک اور تسکین تو کبھی دیکھی ہی نہیں یہ سنتے سب اس کے نیچے جمع ہو گئے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی جس سے کلیجے پھٹ گئے سب کے سب مر گئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سخت گرج کڑک اور گرمی شروع ہوئی جس سے سانس گھٹنے لگے اور بے چینی حد کو پہنچ گئی۔ گھبرا کر شہر چھوڑ کر میدان میں جمع ہو گئے۔ یہاں بادل آیا جس کے نیچے ٹھنڈک اور راحت حاصل کرنے کے لئے سب جمع ہوئے۔ وہیں آگ برسی جل بھن گئے۔ یہ تھا سائبان والے بڑے بھاری دن کا عذاب جس نے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ یقیناً یہ واقعہ سراسر عبرت اور قدرت الٰہی کی ایک زبردست نشانی ہے۔ ان میں اکثر بے ایمان تھے اللہ تعالیٰ اپنے بد بندوں سے انتقام لینے میں غالب ہے۔ کوئی اسے مغلوب نہیں کر سکتا وہ اپنے نیک بندوں پر مہربان ہے انہیں بچا لیا کرتا ہے

 

۱۹۲

مبارک کتاب

سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمائی ہے۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل علیہ السلام پر اتری ہے۔ جیسے فرمان ہے قل من کان عدوالجبریل یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسامکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی۔ اس بزرگ  با مرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گنہگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کر سکے۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت و رضوان کی خوشخبری پہنچاسکے۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہریک پر قرآن کریم اللہ کی حضت بن جائے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہو گی، قرآن بھی تو میری زبان میں اتراہے فرمان ہے بلسان عربی مبین امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کر دیا۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہو گی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہو گی (ابن ابی حاتم)

 

۱۹۶

بشارت و تصدیق یافتہ کتاب

فرماتا ہے کہ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اسکی تصدیق و صفت موجود ہے۔ اگلے نبیوں نے بھی اسکی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعد حضور علیہ السلام تک اور کوئی نبی نہ تھا۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہیں جانب اللہ کا بھیجا ہو ارسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچا نے کے ساتھ ہی آنے والے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت تمہیں سناتا ہوں۔ زبور حضرت داؤ دعلیہ السلام کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے۔ وکل شئی فعلوہ فی الزبر جو کچھ یہ کر رہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں۔ ان میں سے جو حق گو اور بے تعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ کی حقانیت کی خبر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ و انجیل کی وہ آیتیں رکھ دیں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شان والاشان کو ظاہر کرنے والی تھیں۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس فصیح و بلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلا دیا گیا ہے۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اور آیت میں ہے اگر ان کے پاس فرشتے آ جاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا۔ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہو چکا، عذاب ان کا مقدر ہو چکا اور ہدایت کی راہ مسدود کر دی گئی۔

 

۲۰۰

کفر و انکار

تکذیب و کفر انکار و عدم تسلیم کو ان مجرموں کے دل میں بٹھا دیا ہے۔ یہ جب تک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے۔ اس وقت اگر ایمان لائے بھی تو محض بے سود ہو گا ان پر لعنت برس چکی ہو گی۔ برائی مل چکی ہو گی۔ نہ پچھتانا کام آئے نہ معذرت نفع دے۔ عذاب اللہ آئیں گے اور اچانک ان کی بے خبری میں ہی آ جائیں گے اس وقت ان کی تمنائیں اگر ذرا سی بھی مہلت پائیں تو نیک بن جائیں بے سود ہوں گی۔ ایک انہی پر کیا موقوف ہے ہر ظالم، فاجر، فاسق، کافر بد کار عذاب کو دیکھتے ہی سیدھا ہو جاتا ہے، نادم ہوتا ہے توبہ تلا کرتا ہے مگر سب لاحاصل۔ فرعون ہی کو دیکھئے حضرت موسیٰ نے اس کے لئے بد دعا کی جو قبول ہوئی عذاب کو دیکھ کر ڈوبتے ہوئے کہنے لگا کہ اب میں مسلمان ہوتا ہو لیکن جواب ملا کہ یہ ایمان بے سود ہے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ہے کہ ہمارا عذاب دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا۔ پھر ان کی ایک اور بدبختی بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں سے کہتے تھے اگر سچے ہو تو عذاب اللہ لاؤ۔ اگرچہ ہم انہیں مہلت دیں اور کچھ دنوں تک کچھ مدت تک انہیں عذاب سے بچائے رکھیں۔ پھر ان کے پاس ہمارا مقررہ عذاب آ جائے۔ ان کا حال ان کی نعمتیں ان کی جاہ و حشمت غرض کوئی چیز انہیں ذرا سابھی فائدہ نہیں دے سکتی۔ اس وقت تو یہی معلوم ہو گا کہ شاید ایک صبح یا ایک شام ہی دنیا میں رہے۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے یوداحدہم الخ ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہے کہ وہ ہزار ہزار سال جئے لیکن اتنی عمر بھی اللہ کے عذاب ہٹا نہیں سکتی۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ اسباب ان کے کچھ کام نہ آئی گے الٹا عذاب میں مبتلا ہوتے وقت ان کی تمام طاقتیں اور اسباب یونہی رکھے رکھے رہ جائیں گے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ کافر کو قیامت کے دن لایا جائے گا، پھر آگ میں ایک غوطہ دلا کر پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی راحت بھی اٹھائی ہے تو کہے گا کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور ایک اس شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری عمر واقعی کوئی راحت چکھی ہی نہ ہو۔ اسے جنت کی ہوا کھلا کر لایا جائے گا اور سوال ہو گا کہ کیا تو نے عمر بھر کبھی کوئی برائی دیکھی ہے؟ تو وہ کہے گا اے اللہ تیری ذات پاک کی قسم میں نے کھبی کوئی زحمت نہیں اٹھائی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عموماً یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ جب تو اپنی مراد کو پہنچ گیا تو گویا تو نے کبھی کسی تکلیف کا نام بھی نہیں سنا۔ اللہ عز و جل اس کے بعد اپنے عدل کی خبر دیتا ہے کہ کبھی اس نے حجت ختم ہونے سے پہلے کبھی کسی امت کو ختم نہیں کیا۔ رسولوں کو بھیجتا کتابیں اتارتا ہے خبریں دیتا ہے ہوشیار کرتا ہے پھر نہ ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پس فرمایا کہ ایساکبھی نہیں ہوا کہ انبیاء کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم نے کسی امت پر عذاب بھیج دئے ہوں۔ ڈرانے والے بھیج کر نصیحت کر کے عذر ہٹا کر پھر نہ مانے پر عذاب ہوتا ہے جیسے فرمایا تیرا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی بستیوں کی صدر بستی میں کسی رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے

 

۲۱۰

یہ کتاب عزیز

یہ کتاب عزیز جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتری ہے جس کو روح الامین جو قوت و طاقت والے ہیں لے کر آئیں ہیں اسے شیاطین نہیں لائے پھر ان کے نہ لانے پر تین وجوہات بیان کی گئیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس کے لائق نہیں۔ ان کا کام مخلوق کو بہکانا ہے نہ کہ راہ راست پر لانا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو اس کتاب کی شان ہے اس کے سراسر خلاف ہے۔ یہ نور یہ ہدایت ہے یہ برہان ہے اور شیاطین ان تینوں چیزوں سے چڑتے ہیں وہ ظلمت کے دلدادہ اور ضلالت کے ہیرو ہیں۔ وہ جہالت کے شیدا ہیں پس اس کتاب میں اور ان میں تو تباین اور اختلاف ہے۔ کہاں وہ کہاں یہ؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں اس کے اہل نہیں وہاں ان میں اس کو اٹھانے اور لانے کی طاقت بھی نہیں۔ یہ تو وہ ذی عزت والا کام ہے کہ اگر کسی بڑے سے بڑے پہاڑ بھی اترے تو اس کو بھی چکنا چور کر دے۔ پھر تیسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ تو اس کے نزول کے وقت ہٹا دئیے گئے تھے انہیں تو سننا بھی نہیں ملا۔ تمام آسمان پر سخت پہرہ چوکی تھی یہ سننے کے لئے چڑھتے تھے تو ان پر آگ برسائی جاتی تھیں۔ اس کا ایک حرف سن لینا بھی ان کی طاقت سے باہر تھا۔ تاکہ اللہ کا کلام محفوظ طریقے پر اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچے اور آپ کی وساطت سے مخلوق الٰہی کو پہنچے۔ جیسے سورۃ جن میں خود جنات کا مقولہ بیان ہوا ہے کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہر چوکی سے بھر پور پایا اور جگہ جگہ شعلے متعین پائے پہلے تو ہم بیٹھ کر اکا دکا بات اڑا لایا کرتے تھے لیکن اب تو کان لگاتے ہی شعلہ لپکتا ہے اور جلا کر بھسم کر دیتا ہے

 

۲۱۳

مستحق سزا لوگوں سے الگ ہو جاؤ

خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف میری ہی عبادت کر۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر جو بھی ایسا کرے گا وہ ضرور مستحق سزا ہے۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کر دے کہ بجز ایمان کے کوئی چیز نجات دہندہ نہیں۔ پھر حکم دیتا ہے کہ موحد متبع سنت لوگوں سے فروتنی کے ساتھ ملتا جلتا رہ۔ اور جو بھی میرے حکم نہ مانے خواہ کوئی ہو تو اس سے بے تعلق ہو جا۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار کر دے۔ یہ خاص طور کی خاص لوگوں کی تنبیہ عام لوگوں کی تنبیہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کا جز ہے۔ اور جگہ ارشاد ہے تو اس قوم کو ڈرا دے جن کے بڑے بھی ڈرائے نہیں گئے اور جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور آیت میں ہے لتنذر ام القری ومن حولھا تاکہ تو مکے والوں کو اور اس کے گرد والوں کو سب کو ڈرائے۔ اور آیت میں ہے تو اس قرآن سے انہیں ہوشیار کر دے۔ جو اپنے رب کے پاس جمع ہونے سے خوف زدہ ہو رہے ہیں۔ دیگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ تو اس قرآن سے پرہیز گاروں کو خوشخبری سنادے اور سرکشوں کو ڈرا دے اور آیت میں فرمایا لانذرکم بہ ومن بلغ تاکہ میں اسی قرآن کے ساتھ تمہیں اور جسے بھی یہ پہنچے ڈرا دوں۔ اور فرمان ہے اس کے ساتھ ان تمام فرقوں میں سے جو بھی کفر کرے اس کی سزا جہنم ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جس کے کان میری رسالت کی بات پڑ جائے خواہ یہودی ہو یا نصرانی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو ضرور وہ جہنم میں جائے گا اس آیت کی تفسیر میں بہت سی حدیثیں ہیں انہیں سن لیجئے۔ (۱) مسند احمد میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صفا پہاڑ پر چڑھ گئے۔ اور یا صباحاہ کر کے آواز دی۔ لوگ جمع ہو گئے جو نہیں آ سکتے تھے انہوں نے اپنے آدمی بھیج دئیے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے اولاد عبدالمطلب ! اے اولاد فہر ! بتاؤ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر تمہارے دشمن کا لشکر پڑا ہوا ہے اور گھات میں ہے۔ موقعہ پاتے ہی تم سب کو قتل کر ڈالے گا تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ سب نے بہ یک زبان کہا کہ ہاں ہم آپ کو سچا ہی سمجھیں گے۔ اب آپ نے فرمایا سن لو میں تمہیں آنے والے سخت عذابوں سے ڈرانے والا ہوں۔ اس پر ابو لہب ملعون نے کہا تو ہلاک ہو جائے یہی سنانے کے لئے تو نے ہمیں بلایا تھا اس کے جواب میں سورۃ تبت یدا اتری (بخاری مسلم وغیرہ) (۲) مسند احمد میں ہے اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اے صفیہ بنت عبد المطلب سنو میں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہیں آ سکتا۔ ہاں میرے پاس جو مال ہو جتنا تم چاہو میں دینے کے لئے تیار ہو (مسلم) (۳) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے اترتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قریشیوں کو بلایا اور انہیں ایک ایک کر کے اور عام طور پر خطاب کر کے فرمایا اے قریشیو! اپنی جانیں جہنم سے بچالو اے کعب کے خاندان والو! اپنی جانیں آگ سے بچا لو اے ہاشم کی اولاد کے لوگو اپنے آپ کو اللہ کے عذابوں سے چھڑوا لو۔ اے عبد المطلب کے لڑکو! اللہ کے عذابوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ اے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت محمد! اپنی جان کو دوزخ سے بچا لے قسم اللہ کی میں اللہ کے ہاں کی کسی چیز کا مالک نہیں۔ بے شک تمہاری قرابت داری ہے جس کے دنیوی حقوق میں ہر طرح ادا کرنے کو تیار ہوں۔ (مسلم وغیرہ) بخاری مسلم میں بھی قدرے الفاظ کی تبدیلی سے یہ حدیث مروی ہے اسمیں یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ اور اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی فرمایا کہ میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو۔ ابویعلی میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے قصی اے ہاشم اے عبد مناف کی اولادو! یاد رکھو میں ڈرانے والا ہوں اور موت بدلہ دینے والی ہے اس کا چھاپہ پڑنے ہی والا ہے اور قیامت وعدہ گاہ ہے (۴) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ آیت اتری تو آپ ایک پہاڑی پر چڑھ گئے جس کی چوٹی پر پتھر تھے وہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا ابے بنی عبد مناف میں تو صرف چوکنا کر دینے والا ہوں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے دشمن کو دیکھا اور دوڑ کر اپنے عزیزوں کو ہوشیار کرنے کے لئے آیا تاکہ وہ بچاؤ کر لیں دور سے ہی اس نے غل مچانا شروع کر دیا کہ پہلے ہی خبردار ہو جائیں (مسلم نسائی وغیرہ) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اہل بیت کو جمع کر لیا یہ تیس شخص تھے جب یہ کھا پی چکے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمے لے۔ اور میرے بعد میرے وعدے پورے کرے وہ جنت میں بھی مرا ساتھی اور میری اہل میں خلیفہ ہو گا۔ تو ایک شخص نے کہا آپ تو سمندر ہے آپ کے ساتھ کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ تین دفعہ آپ نے فرمایا لیکن کوئی تیار نہ ہوا تو میں نے کہا یا رسول اللہ میں اس کے لئے تیار ہوں (مسند احمد) ایک اور سند سے اس زیادہ تفصیل کے ساتھ مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو عبدالمطلب کو جمع کیا یہ ایک جماعت کی جماعت تھی اور بڑے کھاؤ تھے ایک شخص ایک ایک بکری کا بچہ کھا جاتا تھا اور ایک بڑا بدھنا دودھ کا پی جاتا تھا آپ نے ان سب کے کھانے کے لئے صرف تین پاؤ کے قریب کھانا پکوایا لیکن اللہ نے اسی میں اتنی برکت دی کہ سب پیٹ بھر کر کھا چکے اور خوب آسودہ ہو کر پی چکے لیکن نہ تو کھانے میں کمی نظر آئی تھی نہ پینے کی چیز گھٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ پھر آپ نے فرمایا اے اولاد عبد المطلب میں تمہاری طرف خصوصاً اور تمام لوگوں کی طرف عموماً نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اس وقت تم ایک معجزہ بھی میرا دیکھ چکے ہو۔ اب تم میں سے کون تیار ہے کہ مجھ سے بیعت کرے وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہو گا لیکن ایک شخص بھی مجمع سے کھڑا نہ ہوا سوا میرے اور میں اس وقت عمر کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ تین مرتبہ آپ نے یہی فرمایا اور تینوں مرتبہ بجز میرے اور کوئی کھڑا نہ ہوا۔ تیسری مرتبہ آپ نے میری بیعت لی۔ امام بیہقی دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا اگر میں اپنی قوم کے سامنے ابھی ہی پیش کروں گا تو وہ نہ مانیں گے۔ اور ایسا جواب دیں گے جو مجھ پر گراں گزرے پس آپ خاموش ہو گئے اتنے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور فرمانے لگے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اگر آپ نے تعمیل ارشاد میں تاخیر کی تو ڈر ہے کہ آپ کو سزا ہو گی اسی وقت آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا دوں میں نے یہ خیال کر کے اگر پہلے ہی سے ان سے کہا گیا تو یہ مجھے ایسا جواب دیں گے جس سے مجھے ایذا پہنچے میں خاموش رہا لیکن حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تجھے عذاب ہو گا تو اب اے علی تم ایک بکری ذبح کر کے گوشت پکا لو۔ اور کوئی تین سیر اناج بھی تیار کر لو اور ایک بدھنا دودھ کا بھی بھر لو۔ اور اولاد عبدالمطلب کو بھی جمع کر لو میں نے ایسا ہی کیا اور سب کو دعوت دے دی چالیس آدمی جمع ہوئے یا ایک آدھ کم یا ایک آدھ زیادہ ان میں آپ کے چچا بھی تھے۔ ابوطالب، حمزہ، عباس، اور ابولہب کافر خبیث۔ میں نے سالن پیش کیا تو آپ نے اس میں سے ایک بوٹی لے کر کچھ کھائی پھر اسے ہنڈیا میں ڈال دیا اور فرمایا لو اللہ کا نام لو اور کھانا شروع کرو سب نے کھانا شروع کیا یہاں تک کہ پیٹ بھر گئے لیکن اللہ کی قسم گوشت اتنا ہی تھا جتنا رکھتے وقت رکھا تھا صرف ان کی انگلیوں کے نشانات تو تھے مگر گوشت کچھ بھی نہ گھٹا تھا۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا گوشت تو کھا لیتا تھا۔ پھر مجھ سے فرمایا اے علی انہیں پلاؤ۔ میں وہ بدھنا لایا سب نے باری باری شکم سیر ہو کر پیا اور خوب آسودہ ہو گئے لیکن دودھ بالکل کم نہ ہوا۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا دودھ پی لیا کرتا تھا۔ اب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ فرمانا چاہا لیکن ابولہب جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا لو صاحب اب معلوم ہوا کہ یہ تمام جادوگری محض اس لئے تھی۔ چنانچہ مجمع اسی وقت اکھڑ گیا اور ہر ایک اپنی راہ لگ گیا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نصیحت و تبلیغ کو موقعہ نہ ملادوسرے روز آپ نے حضرت علی سے فرمایا آج پھر اسی طرح ان سب کی دعوت کرو کیونکہ کل اس نے مجھے کچھ کہنے کا وقت ہی نہیں دیا۔ میں نے پھر اسی طرح کا انتظام کیا سب کو دعوت دی آئے کھایا پیا پھر کل کی طرح آج بھی ابو لہب نے کھڑے ہو کر وہی بات کہی اور اسی طرح سب تتر بتر ہو گئے۔ تیسرے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے یہی فرمایا آج جب سب کھا پی چکے تو حضور نے جلدی سے اپنی گفتگو شروع کر دی اور فرمایا اے بنو عبدالمطلب واللہ کوئی نوجوان شخص اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر بھلائی نہیں لایا، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں میں دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں۔ اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اب بتاؤ تم میں سے کون میرے ساتھ اتفاق کرتا ہے اور کون مرا ساتھ دیتا ہے؟ مجھے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے کہ پہلے میں تمہیں اسکی دعوت دوں جو آج میری مان لے گا وہ میرا بھائی ہو گا اور یہ درجے ملیں گے۔ لوگ سب خاموش ہو گئے لیکن حضرت علی جو اس وقت اس مجمع میں سب سے کم عمر تھے اور دکھتی آنکھوں والے اور موٹے پیٹ والے اور بھری پنڈلیوں والے تھے، بول اٹھے یا رسول اللہ اس امر میں آپ کی وزارت میں قبول کرتا ہوں  آپ نے میری گردن پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ میرا بھائی ہے اور ایسی فضیلتوں والا ہے تم اس کی سنو اور مانو۔ یہ سن کر وہ سب لوگ ہنستے ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے لے اب تو اپنے بچے کی سن اور مان لیکن اس کا راوی عبدالغفار بن قاسم بن ابی مریم متروک ہے کذاب ہے اور ہے بھی شیعہ۔ ابن مدینی وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا، دیگر ائمہ حدیث نے بھی اس کو ضعیف لکھا ہے۔ اور روایت میں ہے کہ اس دعوت میں صرف بکری کے ایک پاؤں کا گوشت پکا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضور خطبہ دینے لگے تو انہوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آج جیسا جادو تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ اس پر آپ خاموش ہو گئے۔ اس میں آپ کا خطبہ یہ ہے کہ کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمہ لے اور میری اہل میں میرا خلیفہ بنے اس پر سب خاموش رہے اور عباس بھی چپ تھے صرف اپنے مال کی بخل کی وجہ سے۔ میں عباس کو خاموش دیکھ کر خاموش ہو رہا۔ آپ نے دوبارہ یہی فرمایا دوبارہ بھی سب طرف خاموشی تھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول پڑا۔ میں اس وقت ان سب گری پڑی حالت والا۔ چندھی آنکھوں والا بڑے پیٹ والا اور بوجھل پنڈلیوں والا تھا۔ ان روایتوں میں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ کون میرا قرض اپنے ذمے لیتا ہے اور میری اہل کی میرے بعد حفاظت اپنے ذمے لیتا ہے؟ اس سے مطلب آپ کا یہ تھا کہ جب میں اس تبلیغ دین کو پھیلاؤ ں گا اور لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلاؤں گا تو سب کے سب میرے دشمن ہو جائیں گے اور مجھے قتل کر دیں گے۔ یہی کھٹکا آپ کو لگا رہا یہاں تک کہ یہ آیت اتری واللہ یعصمک من الناس اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کی ایذارسانی سے بچا لے گا۔ اس وقت آپ بے خطر ہو گئے۔ اس سے پہلے آپ اپنی پہرہ چوکی بھی بٹھاتے تھے لیکن اس آیت کے اترے کے بعد وہ  بھی ہٹا دی۔ اس وقت فی الواقع تمام بنو ہاشم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ ایمان والا اور تصدیق و یقین والا کوئی نہ تھا۔ اس لئے ہی آپ نے حضور کے ساتھ اقرار کیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کوہ صفا پر عام دعوت دی اور لوگوں کو توحید خالص کی طرف بلایا اور اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ ابن عساکر میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مسجد میں بیٹھے ہوئے وعظ فرما رہے تھے فتوے دے رہے تھے۔ مجلس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ ہر ایک کی نگاہیں آپ کی چہرے پر تھیں اور شوق سے سن رہے تھے لیکن آپ کے لڑکے اور گھر کے آدمی آپس میں بے پر واہی سے اپنی باتوں میں مشغول تھے۔ کسی نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس طرف توجہ دلائی کہ اور سب لوگ تو دل سے آپ کی علمی باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور آپ کے اہل بیت اس سے بالکل بے پرواہ ہیں وہ اپنی باتوں میں نہایت بے پرواہی سے مشغول ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے دنیا سے بالکل کنارہ کشی کرنے والے انبیاء علیہ السلام ہوتے ہیں اور ان پر سب سے زیادہ سخت اور بھاری ان کے قرابت دار ہوئے ہیں اسی بارے میں آیت وانذر سے تعملون تک ہے پھر فرماتا ہے اپنے تمام امور میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھو وہی تمہارا حافظ و ناصر ہے وہی تمہاری تائید کرنے والا اور تمہارے کلمے کو بلند کرنے والا ہے۔ اس کی نگاہیں ہر وقت تم پر ہیں جیسے فرمان ہے۔ فاصبر لحکم ربک فانک باعیننا اپنے رب کے حکموں پر صبر کر۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب تو نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ہم تمہارے رکوع سجود دیکھتے ہیں کھڑے ہو یا بیٹھے ہو یا کسی حالت میں ہو ہماری نظروں میں ہو۔ یعنی تنہائی میں تو نماز پڑھے تو ہم دیکھتے ہیں اور جماعت سے پڑھے تو تو ہماری نگاہ کے سامنے ہوتا ہے یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ حالت نماز میں آپ کو جس طرح آپ کے سامنے کی چیزیں دکھاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے کے مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہ میں رہتے تھے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے صفیں درست کر لیا کرو میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا رہتا ہوں  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مطلب بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک نبی کی پیٹھ سے دوسرے نبی کی پیٹھ کی طرف منتقل ہونا برابر دیکھتے رہے ہیں یہاں تک کہ آپ بحیثیت بنی دنیا میں آئے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتیں خوب سنتا ہے، انکی حرکات وسکنات کو خوب جانتا ہے جیسے فرماتا ہے وماتکون فی شان الخ، توجس حالت میں ہو تم جتنا قرآن پڑھو تم جو عمل کرو اس پر ہم شاہد ہیں

 

۲۲۱

شیاطین اور جادوگر

مشرکین کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ہوا یہ قرآن برحق نہیں۔ اس نے اسکو خود گھڑلیا ہے یا اس کے پاس جنوں کا کوئی سردار آتا ہے جو اسے یہ سکھاجاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس اعتراض سے پاک کیا اور ثابت کیا کہ آپ جس قرآن کو لائے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے اسی کا اتارا ہوا ہے۔ بزرگ امین طاقتور فرشتہ اسے لایا ہے۔ یہ کسی شیطان یا جن کی طرف سے نہیں شیاطین تو تعلیم قرآن سے چڑتے ہیں اس کی تعلیمات ان کے یکسر خلاف ہیں۔ انہیں کیا پڑی کہ ایسا پاکیزہ اور راہ راست پر لگانے والا قرآن وہ لائیں اور لوگوں کو نیک راہ بتائیں وہ تو اپنے جیسے انسانی شیطانوں کے پاس آتے ہیں جو پیٹ بھر کر جھوٹ بولنے والے ہوں۔ بدکردار اور گنہگار ہوں۔ ایسے کاہنوں اور بد کرداروں اور جھوٹے لوگ کے پاس جنات اور شیاطین پہنچتے ہیں کیونکہ وہ بھی جھوٹے اور بد اعمال ہیں۔ اچٹتی ہوئی کوئی ایک آدھ بات سنی سنائی پہنچاتے ہیں اور وہ ایک جو آسمان سے چھپے چھپائے سن لی تو سو جھوٹ اس میں ملا کر کاہنوں کے کان میں ڈال دی۔ انہوں نے اپنی طرف سے پھر بہت سی باتیں شامل کر کے لوگوں میں ڈینگیں مار دیں۔ اب ایک آدھ سچی بات تو سچی نکلی لیکن لوگوں نے ان کی اور سو جھوٹی باتیں بھی سچی مان لیں اور تباہ ہوئے۔ بخاری شریف میں ہے کہ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا حضور کبھی کبھی تو ان کی کوئی بات کھری بھی نکل آتی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ وہی بات ہوتی ہے جو جنات آسمان سے اڑا لاتے ہیں اور ان کے کان میں کہہ کر جاتے ہیں پھر اسکے ساتھ جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر کہہ دیتے ہیں صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے با ادب اپنے پر جھکا دیتے ہیں۔ ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی چٹان پر زنجیر بجائی جاتی ہو جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوتی ہے تو آپ میں دریافت کرتے ہیں کہ رب کا کیا حکم صادر ہوا ہے ؟ دوسرے جواب دیتے ہیں کہ رب نے یہ فرمایا اور وہ عالی شان اور بہت بڑی کبریائی والا ہے۔ کبھی کبھی امر الہی سے چور چھپے سننے والے کسی جن کے کان میں بھنک پڑ جاتی ہے جو اس طرح ایک پر ایک پر ہو کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ راوی حدیث حضرت سفیان نے اپنے ہاتھو ں کی انگلیاں پھیلا کر اس پردوسراہاتھ اس طرح رکھ کر انہیں ہلا کر بتایا کہ اس طرح۔ اب اوپر والا نیچے والے کو اور وہ اپنے سے نیچے والے کو وہ بات بتلا دیتا ہے یہاں تک کہ جادوگر اور کاہن کو وہ پہنچا دیتے ہیں۔ کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ بات پہنچاتے اس سے پہلے شعلہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی اس کے پہلے ہی وہ پہنچا دیتے ہیں اس میں کاہن و جادوگر اپنے سوجھوٹ شامل ملا کر مشہور کرتا ہے چونکہ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ سب باتوں کو ہی سچا سمجھنے لگتے ہیں۔ ان تمام احادیث کا بیان آیت حتی اذا فزع عن قلوبھم کی تفسیر میں آئے گا۔ انشاء اللہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ فرشتے آسمانی مر کی بات چیت بادلوں پر کرتے ہیں جسے شیطان سن کر کاہنوں اور وہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کافر شاعروں کی اتباع گمراہ لوگ کرتے یں۔ عرب کے شاعروں کا دستور تھا کسی کی مذمت اور ہجو میں کچھ کہہ ڈالتے تھے لوگوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہو جاتی تھی اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے لگتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کیساتھ عرج میں جا رہے تھے راستے میں ایک شاعر شعر خوانی کرتے ہوئے ملا۔ آپ نے فرمایا اس شیطان کو پکڑ لو یا فرمایا روکو۔ تم میں سے کوئی شخص کو خون اور پیپ سے اپنا پیٹ بھر لے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں اپنا پیٹ بھرے۔ انہیں ہر جنگل کی ٹھوکریں کھاتے کسی نہیں دیکھا؟ ہر لغو میں یہ گھس جاتے ہیں۔ کلام کے ہر فن میں بولتے ہیں۔ کبھی کسی کی تعریف کی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ کبھی کسی کی مذمت میں آسمان زمین سر پر اٹھاتے ہیں جھوٹی خوشامد جھوٹی برائیاں گھڑی ہوئی بدیاں ان کے حصے میں آئی ہیں۔ یہ زبان کے بھانڈ ہوتے ہیں لیکن کام کے کاہل ایک انصاری اور ایک دوسری قوم کے شخص نے ہجو کا مقابلہ کیا جس میں دنوں کے قوم کے بڑے بڑے لوگ بھی ان کے ساتھ ہو گئے۔ پس اس آیت میں یہی ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے گمراہ لوگ ہیں۔ وہ وہ باتیں بکا کرتے ہیں جنہیں کسی نے کبھی کیا نہ ہو۔ اسی لئے علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی شاعر نے اپنے شعر میں کسی ایسے گناہ کا اقرار کیا ہو جس پر حد شروع واجب ہوتی ہو تو آیا وہ حد اس پر جاری کی جائے گی یا نہیں ؟ دونوں طرف علماء گئے۔ واقعی وہ فخر و غرور کے ساتھ ایسی باتیں بک دیتے ہیں کہ میں نے یہ کیا اور وہ کیا حالانکہ نہ کچھ کیا ہو اور نہ ہی کر سکتے ہوں۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت نعمان بن عدی بن فضلہ کو بصرے کے شہر یسان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ وہ شاعر تھے ایک مرتبہ اپنے شعروں میں کہا کہ کیا حسینوں کو یہ اطلاع نہیں ہوئی کہ ان کا محبوب یسان میں ہے جہاں ہر وقت شیشے کے گلاسوں میں دور شراب چل رہا ہے اور گاؤ گاؤ کی بھولی لڑکیوں نے گانے اور ان کے رقص وسرورمہیا ہیں ہاں اگر میرے کسی دوست سے ہو سکے تو اس بڑے اور بھرے ہوئے جام مجھے پلائے لیکن ان سے چھوٹے جام مجھے سخت ناپسند ہیں۔ اللہ کرے امیر المومنین کو یہ خبر نہ پہنچے ورنہ برا مانیں گے اور سزا دیں گے۔ یہ اشعار سچ مچ حضرت امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچ گئے آپ سخت ناراض ہوئے اور اسی وقت آدمی بھیجا کہ میں نے تجھے تیرے عہدے سے معزول کیا۔ اور آپ نے ایک خط بھیجا جس میں بسم اللہ کے بعد حم کی تین آیتیں الیہ المصیر تک لکھ کر پھر تحریر فرمایا کہ تیرے اشعار سے مجھے سخت رنج ہوا۔ میں نے تجھے تیرے عہدے سے معزول کرتا ہوں۔ چنانچہ اس خط کو پڑھتے ہی حضرت نعمان دربار خلافت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ امیر المومنین واللہ نہ میں نے کبھی شراب پی نہ ناچ رنگ و گانا بجانا دیکھا، نہ سنا۔ یہ تو صرف شاعرانہ ترنگ تھی۔ آپ نے فرمایا یہی میرا خیال ہے لیکن میری تو ہمت نہیں پڑتی کہ ایسے فحش گو شاعر کو کوئی عہدہ دو۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عن کے نزدیک بھی شاعر اپنے شعروں میں کسی جرم کے اعلان پر اگرچہ وہ قابل حد ہو تو حد نہیں لگائی جائے گی اس لئے کہ وہ جو کہتے ہیں سو کرتے نہیں ہاں وہ قابل ملامت اور لائق سرزنش ضرور ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ پیٹ کو لہو پیپ سے بھر لینا اشعار سے بھرلینے سے بد تر ہے۔ مطلب یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نہ تو شاعر ہیں ، نہ ساحر، نہ کاہن، نہ مفتری ہیں۔ آپ کا ظاہر حال ہی آپ کے ان عیوب سے براءت کا بہت بڑا عادل گواہ ہے جیسے فرمان ہے کہ تو ہم نے انہیں شعر گوئی سکھائی ہے نہ اس کے لائق ہے یہ تو صرف نصیحت اور قرآن مبین ہے۔ اور آیت میں ہے یہ رسول کریم کا قول ہے کسی شاعر کا نہیں تم میں ایمان کی کمی ہے یہ کسی کاہن کا قول نہیں۔ تم میں نصیحت ماننے کا مادہ کم ہے یہ تو رب العلمین کی اتاری ہوئی کتاب ہے اس سورت میں بھی یہی فرمایا گیا کہ یہ رب العلمین کی طرف سے اتری ہے۔ روح الامین نے تیرے دل پر نازل فرمائی ہے عربی زبان میں ہے اس لیے کہ تو لوگوں کو آگاہ کر دے اسے شیاطین لے کر نہیں آئے نہ یہ ان کے لائق ہے نہ ان کی بس کی بات ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ کر دئیے گئے ہیں۔ جو جھوٹے مفتری اور بد کردا ہوتے ہیں ان کے پاس شیاطین آتے ہیں جو اچٹتی باتیں سن سنا کر ان کے کانوں میں آ کر ڈال جاتے ہیں۔ محض جھوٹ بولنے والے یہ خود ہوتے ہیں شاعروں کی پشت پناہی اوباشوں کا کام ہے وہ تو ہر وادی میں سرگرداں ہوتے ہیں زبانی باتیں بناتیں ہیں عمل سے کورے رہتے ہیں۔ اس کے بعد جو فرمان ہے اسکا شان نزول یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت جس میں شاعروں کی مذمت ہے جب اتری تو دربار رسول کے شعراء حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہم روتے ہوئے دربار نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شاعروں کی تو یہ گت بنی اور ہم بھی شاعر ہیں اسی وقت آپ نے یہ دوسری آیت تلاوت فرمائی کہ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے تم ہو ذکر اللہ بکثرت کرنے والے تم ہو مظلوم ہو کر بدلہ لینے والے تم ہو پس تم ان مسثنیٰ ہو (ابن ابی حاتم وغیرہ)۔ ایک روایت میں حضرت کعب کا نام ہیں ایک روایت میں صرف عبد اللہ کی اس شکایت پر کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شاعر تو میں بھی ہوں اس دوسری آیت کا نازل ہونا مروی ہے لیکن یہ قابل نظر۔ اس لئے کہ یہ سورت مکیہ ہے شعراء انصار جتنے بھی تھے وہ سب مدینے میں تھے پھر ان کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا یقیناً محل غور ہو گا اور جو حدیثیں بیان ہوئیں وہ مرسل ہیں اس وجہ سے اعتماد نہیں ہو سکتا ہے یہ آیت کا نازل بیشک استثناء کے بارے میں ہے اور صرف یہی انصاری شعراء رضی اللہ عنہم ہی نہیں بلکہ اگر کسی شاعر نے اپنی جاہلیت کے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی اشعار کہے ہوں اور پھر مسلمان ہو جائے توبہ کر لے اور اس کے مقابلے میں ذکر اللہ بکثرت کرے وہ بیشک اس برائی سے الگ ہے۔ حسنات سیات کو دور کر دیتی ہے جب کہ اس نے مسلمان کو اور دین حق کو برا کہا تھا وہ برا تھا لیکن جب اس نے ان کی مدح کی تو برائی بھلائی سے بدل گئی۔ جیسے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام سے پہلے حضور کی ہجو بیان کی تھی لیکن اسلام کے بعد بڑی مدح بیان کی اور اپنے اشعار میں اس ہجو کا عذر بھی بیان کرتے ہوئے کہا۔ میں اس وقت شیطانی پنجہ میں پھنسا ہوا تھا اسی طرح ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب باوجود آپ کا چچا زاد بھائی ہونے کے آپ کا جانی دشمن تھا اور بہت ہجو کیا کرتا تھا جب مسلمان ہوئے تو ایسے مسلمان ہوئے کہ دنیا بھر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ محبوب انہیں کوئی نہ تھا۔ اکثر آپ کی مدح کیا کرتے تھے اور بہت ہی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ صحیح مسلم میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوسفیان صخر بن حرب جب مسلمان ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنے لگا مجھے تین چیزیں عطا فرمائیے ایک تو یہ کہ میرے لڑکے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجیے۔ دوسرے مجھے کافروں سے جہاد کے لئے بھیجئے اور میرے ساتھ کوئی لشکر دیجئے تاکہ جس طرح کفر میں مسلمانوں سے لڑا کرتا تھا اب اسلام میں کافروں کی خبر لوں۔ آپ نے دونوں باتیں قبول فرمائی ایک تیسری درخواست بھی کی جو قبول کی گئی۔ پس ایسے لوگ اس آیت کے حکم سے اس دوسری آیت سے الگ کر لئے گئے۔ ذکر اللہ خواہ وہ اپنے شعروں میں بکثرت کریں خواہ اور طرح اپنے کلام میں یقیناً وہ اگلے گناہوں کا بدلہ اور کفارہ ہے۔ اپنی مظلومی کا بدلہ لیتے ہیں۔ یعنی کافروں کی ہجو کا جواب دیتے ہیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسان سے فرمایا تھا ان کفار کی ہجو کرو جبرئیل تمہارے ساتھ ہیں۔ حضرت کعب بن مالک شاعر نے جب شعراء کی برائی قرآن میں سنی تو حضور سے عرض کیا آپ نے فرمایا تم ان میں نہیں ہو مومن تو جس طرح اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے۔ واللہ تم لوگوں کے اشعار تو انہیں مجاہدین کے تیروں کی طرح چھید ڈالتے ہیں۔ پھر فرمایا ظالموں کو اپنا انجام ابھی معلوم ہو جائے گا۔ انہیں عذر معذرت بھی کچھ کام نہ آئیگی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ظالم سے بچو اس سے میدان قیامت میں اندھیروں میں رہ جاؤ گے۔ آیت عام ہے خواہ شاعر ہوں خواہ شاعر نہ ہوں سب شامل ہیں۔ حضرت حسن نے ایک نصرانی کے جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ آپ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ روم میں جب حضرت فضالہ بن عبید تشریف لے گئے اس وقت ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جب انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد بیت اللہ کی بربادی کرنے والے ہیں کہا گیا کہ اس سے مراد اہل مکہ ہیں ، یہ بھی مروی ہے کہ مراد مشرک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت عام ہے سب پر مشتمل ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت اپنی وصیت صرف دو سطروں میں لکھی۔ جو یہ تھی بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ ہے وصیت ابوبکر بن ابی قحافہ کی۔ اس وقت کی جب کہ وہ دنیا چھوڑرہے تھے۔ جس وقت کافر بھی مومن ہو جاتا، فاجر بھی توبہ کر لیتاتب کاذب کو بھی سچا سمجھتا ہے میں تم پر اپنا خلیفہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بناجارہا ہوں۔ اگر وہ عدل کرے تو بہت اچھا اور میرا گمان بھی ان کے ساتھ یہی ہے اور اگر وہ ظلم کرے اور کوئی تبدیلی کر دے تو میں غیب نہیں جانتا۔ ظالموں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس لوٹنے کی جگہ وہ لوٹتے ہیں۔ سورۃ شعراء کی تفسیر بحمد اللہ ختم ہوئی