تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الرُّوم

معرکہ روم وفارس کا انجام

یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آگیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آ کر قسطنطیہ میں محصور ہو گیا۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہو گی۔ مفصل بیان آگے آ رہا ہے۔ مسند احمد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں۔ اس لئے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لئے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تو آپ نے فرمایا رومی عنقریب پھر غالب آ جائیں گے۔ صدیق اکبر نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کر لو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہو گئی اور رومی غالب نہ آئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدمت نبوی میں یہ خبر پہنچائی آپ نے فرمایا تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لئے لفظ بضع استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندر اندر رومی پھر غالب آ گئے۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کے بعد رومی بھی فارسیوں پر غالب حضرت عبد اللہ کا فرمان ہے کہ پانچ چیزیں گزر چکی ہیں دخان اولزام اور بطشہ اور شق قمر کا معجزہ اور فارسیوں کا غالب آنا۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر کی شرط سات سال کی تھی۔ حضور نے ان سے پوچھا کہ بضع کے کیا معنی تم میں ہوتے ہیں ؟ جواب دیا کہ دس سے کم۔ فرمایا پھر جاؤ مدت میں دو سال بڑھا دو چنانچہ اسی مدت کے اندر اندر رومیوں کے غالب آ جانے کی خبریں عرب میں پہنچ گئی۔ اور مسلمان خوشیاں منانے لگے۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے۔ اور روایت میں ہے کہ مشرکوں نے حضرت صدیق اکبر سے یہ آیت سن کر کہا کہ کیا تم اس میں بھی اپنے نبی کو سچا مانتے ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر شرط ٹھہری اور مدت گزر چکی اور رومی غالب نہ آئے۔ حضور کو جب اس شرط کا علم ہوا تو آپ رنجیدہ ہوئے اور جناب صدیق اکبر سے فرمایا تم نے ایساکیوں کیا؟ جواب ملا کہ اللہ اور اس کے رسول کی سچائی پر بھروسہ کر کے آپ نے فرمایا پھر جاؤ اور مدت میں دس سال مقرر کر لو خواہ چیز بھی بڑھانی پڑے۔ آپ گئے مشرکین نے دوبارہ یہ مدت بڑھا کر شرط منظور کر لی۔ ابھی دس سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ رومی فارس پر غالب آ گئے اور مدائن میں ان لے لشکر پہنچ گئے۔ اور رومیہ کی بنا انہوں نے ڈال لی۔ حضرت صدیق نے قریش سے شرط کا مال لیا اور حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے آپ نے فرمایا اسے صدقہ کر دو۔ اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ایسی شرط بد نے کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے۔ اس میں ہے کہ مدت چھ سال مقرر ہوئی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور رومی غالب ہوئے تو بہت سے مشرکین ایمان بھی لے آئے (ترمذی) ایک بہت عجیب و غریب قصہ امام جنید ابن داؤد نے اپنی تفیسر میں وارد کیا ہے کہ عکرمہ فرماتے ہیں فارس میں ایک عورت تھی جس کے بچے زبردست پہلوان اور بادشاہی ہوتے تھے۔ کسریٰ نے ایک مرتبہ اسے بلوایا اور اس سے کہا کہ میں رومیوں پر ایک لشکر بھیجنا چاہتا ہوں  اور تیری اولاد میں سے کسی کو اس لشکر کا سردار بنانا چاہتا ہوں۔ اب تم مشورہ کر لو کہ کسے سردار بناؤ؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں لڑکا تو لومڑی سے زیادہ مکار اور شکرے سے زیادہ ہوشیار ہے۔ دوسرا لڑکا فرخان تیر جیسا ہے تیسرا لڑکا شہربزاز سے زیادہ حلیم الطبع ہے۔ اب تم جسے چاہو سرداری دو۔ بادشاہ نے سوچ سمجھ کر شہربراز کو سردار بنایا۔ یہ لشکروں کو لے کر چلا رومیوں سے لڑا بھڑا اور ان پر غالب آگیا۔ ان کے لشکر کاٹ ڈالے ان کے شہر اجاڑ دئیے۔ ان کے باغات برباد کر دئیے اس سرسبز و شاداب ملک کو ویران وغارت کر دیا۔ اور اذرعات اور صرہ میں جو عرب کی حدود سے ملتے ہیں ایک زبردست معرکہ ہوا۔ اور وہاں فارسی رومیوں پر غالب آ گئے۔ جس سے قریش خوشیاں منانے لگے اور مسلمان ناخوش ہوئے۔ کفار قریش مسلمانوں کو طعنے دینے لگے کہ دیکھو تم اور نصرانی اہل کتاب ہو اور ہم اور فارسی ان پڑھ ہیں ہمارے والے تمہارے والوں پر غالب آ گئے۔ اسی طرح ہم بھی تم پر غالب آئیں گے اور اگر لڑائی ہوئی تم ہم بتلا دیں گے کہ تم ان اہل کتاب کی طرح ہمارے ہاتھوں شکست اٹھاؤ گے۔ اس پر قرآن کی یہ آیتیں اتریں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان آیتوں کو سن کر مشرکین کے پاس آئے اور فرمانے لگے اپنی اس فتح پر نہ اتراؤ یہ عنقریب شکست سے بدل جائے گی اور ہمارے بھائی اہل کتاب تمہارے بھائیوں پر غالب آئیں گے۔ اس بات کا یقین کر لو اس لئے کہ یہ میری بات نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی ہے۔ یہ سن کر ابی بن خلف کھڑا ہو کر کہنے لگا اے ابوالفضل تم جھوٹ کہتے ہو۔ آپ نے فرمایا اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اس نے کہا اچھا میں دس دس اونٹنیوں کی شرط بدتا ہوں۔ اگر تین سال تک رومی فارسیوں پر غالب آ گئے تو میں تمہیں دس اونٹنیاں دوں گا ورنہ تم مجھے دینا۔ حضرت صدیق اکبر نے یہ شرط قبول کر لی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آ کر اس کا ذکر کیا تو آپ نے کہا میں نے تم سے تین سال کا نہیں کہا تھا بضع کا لفظ قرآن میں ہے اور تین سے نو تک بولا جاتا ہے۔ جاؤ اونٹنیاں بھی بڑھا دو اور مدت بھی بڑھا دو۔ حضرت ابوبکر چلے جب ابی کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا شاید تمہیں پچھتاوا ہوا؟ آپ نے فرمایا سنو میں تو پہلے سے بھی زیادہ تیار ہو کر آیا ہوں۔ آؤ مدت بھی بڑھاؤ اور شرط کا مال بھی زیادہ کرو۔ چنانچہ ایک سو اونٹ مقرر ہوئے اور نو سال کی مدت ٹھہری اسی مدت میں رومی فارس پر غالب آ گئے اور مسلمان قریش پر چھا گئے۔ رومیوں کے غلبے کا واقعہ یوں ہوا کہ جب فارس غالب آ گئے تو شہر براز کا بھائی فرخان شراب نوشی کرتے ہوئے کہنے لگا میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں کسریٰ کے تخت پر آگیا ہوں اور فارس کا بادشاہ بن گیا ہوں۔ یہ خبر کسریٰ کو بھی پہنچ گئی۔ کسریٰ نے شہر براز کو لکھا کہ میرا یہ خط پاتے ہی اپنے اس بھائی کو قتل کر کے اسکا سر میرے پاس بھیج دو۔ شہر براز نے لکھا کہ اے بادشاہ تم اتنی جلدی نہ کرو۔ فرخان جیسا بہادر شیر اور جرات کے ساتھ دشمنوں کے جمگھٹے میں گھسنے والا کسی کو تم نہ پاؤ گے بادشاہ نے پھر جواب لکھا کہ اس سے بہت زیادہ اور شیر دل پہلوان میرے دربار میں ایک سے ایک بہتر موجود ہیں تم اس کا غم نہ کرو اور میرے حکم کی فورا تعمیل کرو شہربراز نے پھر اس کا جواب لکھ اور دوبارہ بادشاہ کسریٰ کو سمجھایا اس پر بادشاہ آگ بگولا ہو گیا اس نے اعلان کر دیا کہ شہر براز سے میں نے سرداری چھین لی اور اس کی جگہ اس کے بھائی فرخان کو اپنے لشکر کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر قاصد کے ہمراہ شہر بزار کو بھیج دیا کہ تم آج سے معزول ہو اور تم اپنا عہدہ فرخان کو دے دو۔ ساتھ ہی قاصد کو ایک پوشیدہ خط دیا کہ شہربراز جب اپنے عہدے سے اتر جائے اور فرخان اس عہدے پر آ جائے تو تم اسے میرا یہ فرمان دے دینا۔ قاصد جب وہاں پہنچا تو شہر براز نے خط پڑھتے ہی کہا کہ مجھے بادشاہ کا حکم منظور ہے، میں بخوشی اپنا عہدہ فرخان کو دے رہا ہوں۔ فرخان جب تخت سلطنت پر بیٹھ گیا اور لشکر نے اس کی اطاعت قبول کر لی تو قاصد نے وہ دوسرا خط فرخان کے سامنے پیش کیا جس میں شہربراز کے قتل کا اور اس کا سر دربار شاہی میں بھیجنے کا فرمان تھا۔ فرخان نے اسے پڑھ کر شہر براز کو بلایا اور اس کی گردن مارنے کا حکم دے دیا شہربراز نے کہا بادشاہ جلدی نہ کر مجھے وصیت تو لکھ لینے دے۔ اس نے منظور کر لیا تو شہربراز نے اپنا دفتر منگوایا اور اس میں وہ کاغذات جو شاہ کسریٰ نے فرخان کے قتل کے لئے اسے لکھے تھے وہ سب نکالے اور فرخان کے سامنے پیش کئے اور کہا دیکھ اتنے سوال و جواب میرے اور بادشاہ کے درمیان تیرے بارے میں ہوئے۔ لیکن میں نے اپنی عقلمندی سے کام لیا اور عجلت نہ کی تو ایک خط دیکھتے ہی میرے قتل پر آمادہ ہو گیا۔ ذرا سوچ لے ان خطوط کو دیکھ کر فرخان کی آنکھیں کھل گئیں وہ فورا تخت سے نیچے اتر گیا اور اپنے بھائی شہربراز کو پھر سے مالک کل بنا دیا۔ شہربراز نے اسی وقت شاہ روم ہرقل کو خط لکھا کہ مجھے تم سے خفیہ ملاقات کرنی ہے اور ایک ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے اسے میں نہ تو کسی قاصد کی معرفت آپ کو کہلوا سکتا ہوں  نہ خط میں لکھ سکتا ہوں۔ بلکہ میں خود ہی آمنے سامنے پیش کروں گا۔ پچاس آدمی اپنے ساتھ لے کر خود آ جائے اور پچاس ہی میرے ساتھ ہوں گے قیصر کو جب یہ پیغام پہنچا تو وہ اس سے ملاقات کے لئے چل پڑا۔ لیکن احتیاطا اپنے ساتھ پانچ ہزار سوارلے لئے۔ اور آگے آگے جاسوسوں کو بھیج دیا تاکہ کوئی مکر یا فریب ہو تو کھل جائے جاسوسوں نے آ کر خبردی کہ کوئی بات نہیں اور شہربراز تنہا اپنے ساتھ صرف پچاس سواروں کو لے کر آیا ہے اس کے ساتھ کوئی اور نہیں۔ چنانچہ قیصر نے بھی مطمئن ہو کر اپنے سواروں کو لوٹا دیا اور اپنے ساتھ صرف پچاس آدمی رکھ لئے۔ جو جگہ ملاقات کی مقرر ہوئی تھی وہاں پہنچ گئے۔ وہاں ایک ریشمی قبہ تھا اس میں جا کر دونوں تنہا بیٹھ گئے پچاس پچاس آدمی الگ چھوڑ دئے گئے دونوں وہاں بے ہتھیار تھے صرف چھریاں پاس تھیں اور دونوں کی طرف سے ایک ترجمان ساتھ تھا۔ خیمہ میں پہنچ کر شہر براز نے کہا اے بادشاہ روم بات یہ ہے کہ تمہارے ملک کو ویران کرنے والے اور تمہارے لشکروں کو شکست دینے والے ہم دونوں بھائی ہیں ہم نے اپنی چالاکیوں اور شجاعت سے یہ ملک اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔ لیکن اب ہمارا بادشاہ کسریٰ ہمارا حسد کرتا ہے اور ہمارا مخالف بن بیٹھا ہے مجھے اس نے میرے بھائی کو قتل کرنے کا فرمان بھیجا میں نے فرمان کو نہ مانا تو اس نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ ہم آپ کے لشکر میں آ جائیں اور کسریٰ کے لشکروں سے آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں۔ قیصر نے یہ بات بڑی خوشی سے منظور کر لی۔ پھر ان دونوں میں آپس میں اشاروں کنایوں سے باتیں ہوئی جن کا مطلب یہ تھا کہ یہ دونوں ترجمان قتل کر دئیے جائیں ایسانہ ہو کہ یہ راز ان کی وجہ سے کھل جائے کیونکہ جہاں دو کے سوا تیسرے کے کان میں کوئی بات پہنچی تو پھر وہ پھیل جاتی ہے۔ دونوں اس پر اتفاق کر کے کھڑے ہو گئے اور ہر ایک نے اپنے ترجمان کا کام تمام کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کسریٰ کو ہلاک کر دیا اور حدیبیہ والے دن اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ملی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بہت خوش ہوئے۔ یہ سیاق عجیب ہے اور یہ خبر غریب ہے۔ اب آیت کے الفاظ کے متعلق سنئے۔ حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں ان کی بحث تو ہم کر چکے ہیں سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں دیکھ لیجئے۔ رومی سب کے سب عیص بن اسحاق بن ابراہیم کی نسل سے ہیں بنو اسرائیل کے چچازاد بھائی ہیں۔ رومیوں کو بنو اصفر بھی کہتے ہیں یہ یونانیوں کے مذہب پر تھے یونانی یافث بن نوح کی اولاد میں ہے ترکوں کے چچا زاد بھائی ہوتے ہیں یہ ستارہ پرست تھے ساتوں ستاروں کو مانتے اور پوجتے تھے۔ انہیں متحیرہ بھی کہا جاتا ہے یہ قطب شمالی کو قبلہ مانتے تھے۔ دمشق کی بنا انہی کے ہاتھوں پڑی وہیں انہوں نے اپنی عبادت گاہ بنائی جس کے محراب شمال کی طرف ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے بعد بھی تین سو سال تک رومی اپنے پرانے خیالات پر ہی رہے ان میں سے جو کوئی شام کا اور جزیرے کا بادشاہ ہو جاتا اسے قیصر کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے رومیوں کا بادشاہ قسطنطین بن قسطس نے نصرانی مذہب قبول کیا۔ اس کی ماں کا نام مریم تھا۔ ہیلانیہ غندقانیہ تھی حران کی رہنے والی۔ پہلے اسی نے نصرانیت قبول کی تھی پھر اس کے کہنے سننے سے اس کے بیٹے نے بھی یہی مذہب اختیار کر لیا۔ یہ بڑا فلفسی عقلمند اور مکار آدمی تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے دراصل دل سے اس مذہب کو نہیں مانا تھا۔ اس کے زمانے میں نصرانی جمع ہو گئے۔ ان میں اپس میں مذہبی چھیڑ چھاڑ اور اختلاف اور مناظرے چھڑ گئے۔ عبد اللہ بن اویوس سے بڑے بڑے مناظرے ہوئے اور اس قدر انتشار اور تفریق ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ تین سو اٹھارہ پادریوں نے مل کر ایک کتاب لکھی جو بادشاہ کو دی گئی اور وہ شاہی عقیدہ تسلیم کی گئی۔ اسی کو امانت کبریٰ کہا جاتا ہے۔ جو درحقیقت خیانت صغریٰ ہے۔ یہیں فقہی کتابیں اسی کے زمانے میں لکھی گئی۔ ان میں حلال حرام کے مسائل بیان کئے گئے اور ان کے علماء نے دل کھول کر جو چاہا ان میں لکھا۔ جس قدر جی میں آئی کمی یا زیادتی اصل دین مسیح میں کی۔ اور اصل مذہب محرف و مبدل ہو گیا مشرق کی جانب نمازیں پڑھنے لگے۔ بجائے ہفتہ کے اتوار کو بڑا دن بنایا۔ صلیب کی پرستش شروع ہو گئی۔ خنزیر کو حلال کر لیا گیا اور بہت سے تہوار ایجاد کر لئے جیسے عید صلیب عید قدرس عید غطاس وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان علماء کے سلسلے قائم کئے گئے ایک تو بڑا پادری ہوتا تھا پھر اس کے نیچے درجہ بدرجہ اور محکمے ہوتے تھے۔ رہبانیت اور ترک دنیا کی بدعت بھی ایجاد کر لی۔ کلیسا اور گرجے بہت سارے بنا لئے گئے اور شہر قسطنطیہ کی بنا رکھی گئی۔ اور اس بڑے شہر کو اسی بادشاہ کے نام پر نامزد کیا گیا۔ اس بادشاہ نے بارہ ہزار گرجے بنا دئیے۔ تین محرابوں سے بیت لحم بنا۔ اس کی ماں نے بھی قمامہ بنایا۔ ان لوگوں کو ملکیہ کہتے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر تھے۔ ان کے بعد یعقوبہ پھر سطوریہ۔ یہ سب سطور کے مقلد تھے۔ پھر ان کے بہت سے گروہ تھے جیسے حدیث میں ہے کہ انکے بہتر (۷۲) فرقے ہو گئے۔ ان کی سلطنت برابر چلی آتی تھی ایک کے بعد ایک قیصر ہونا آتا تھا یہاں تک کہ آخر میں قیصر ہرقل ہوا۔ یہ تمام بادشاہوں سے زیادہ عقلمند تھا بہت بڑا عالم تھا دانائی زیرکی دوراندیشی اور دور بینی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس نے سلطنت بہت وسیع کر لی اور مملکت دور دراز تک پھیلا دی اس کے مقابلے میں فارس کا بادشاہ کسریٰ کھڑا ہوا اور چھوٹی چھوٹی سلطنتوں نے بھی اس کا ساتھ دیا اس کی سلطنت قیصر سے بھی زیادہ بڑی تھی۔ یہ مجوسی لوگ تھے آگ کو پوجتے تھے۔ مندرجہ بالا روایت میں تو ہے کہ اس کا سپہ سالار مقابلہ پر گیا لیکن مشہور بات یہ ہے کہ خود کسریٰ اس کے مقابلے پر گیا۔ قیصر کو شکست ہوئی یہاں تک کہ وہ قسطنطیہ میں گھر گیا۔ نصرانی اس کی بڑی عزت اور تعظیم کرتے تھے گو کسریٰ لمبی مدت تک محاصرہ کئے پڑا رہا لیکن دارالسلطنت کو فتح نہ کر سکا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا ملک نصف سمندر کی طرف تھا اور نصف خشکی کی طرف تھا۔ تو شاہ قیصر کو کمک اور رسد تری کے راستے سے برابر پہنچتی رہی آخر میں قیصر ایک چال چلا اس نے کسریٰ کو کہلوا بھیجا کہ آپ جو چاہیں مجھ سے تسلی لے لیجئے اور جن شرائط پر چاہیں مجھ سے صلح کر لیجئے۔ کسریٰ اس پر راضی ہو گیا اور اتنا مال طلب کیا کہ وہ اور یہ مل کر بھی جمع کرنا چاہے تو ناممکن تھا۔ قیصر نے اسے قبول کر لیا کیونکہ اس نے اس سے کسریٰ کی بیوقوفی کا پتہ چلا لیا کہ یہ وہ چیز مانگتا ہے جس کا جمع کرنا دنیا کے اختیار سے باہر ہے بلکہ ساری دنیا مل کر اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتی۔ قیصر نے کسریٰ سے کہلوا بھیجا کہ مجھے اجازت دے کہ میں اپنے ملک سے باہر چل پھر کر اس دولت کو جمع کر لو اور آپ کو سونپ دو۔ اس نے یہ درخواست منظور کر لی اب شاہ روم نے اپنے لشکر کو جمع کیا اور ان سے کہا میں ایک ضروری اور اہم کام کے لئے اپنے مخصوص احباب کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اگر ایک سال کے اندر اندر آ جاؤں تو یہ ملک میرا ہے ورنہ تمہیں اختیار ہے جسے چاہو اپنا بادشاہ تسلیم کر لینا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے بادشاہ تو آپ ہی ہیں خواہ دس سال تک بھی آپ نہ لوٹے تو کیا ہوا۔ یہ یہاں سے مختصر سی جانباز جماعت لے کر چپ چاپ چل کھڑا ہوا۔ پوشیدہ راستوں سے نہایت ہوشیاری احتیاط اور چالاکی سے بہت جلد فارس کے شہروں تک پہنچ گیا اور یکایک دھاوا بول دیا چونکہ یہاں کی فوجیں تو روم پہنچ چکی تھیں عوام کہاں تک مقابلہ کرتے۔ اس نے قتل عام شروع کیا۔ جو سامنے آیا تلوار کے کام آیا یونہی بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ مدائن پہنچ گیا جو کسریٰ کی سلطنت کی کرسی تھی وہاں کی محافظ فوج پر بھی غالب آیا انہیں بھی قتل کر دیا اور چاروں طرف سے مال جمع کیا۔ ان کی تمام عورتوں کو قید کر لیا اور تمام لڑنے والوں کو قتل کر ڈالا۔ کسریٰ کے لڑکے کو زندہ گرفتار کیا اس محل سرائے کی عورتوں کو زندہ گرفتار کیا۔ اس کی دربار دار عورتیں وغیرہ بھی پکڑی گئیں اسکے لشکر کا سر منڈوا کر گدھے پر بٹھا کر عورتوں سمیت کسریٰ کی طرف بھیجا کہ لیجئے جو مال اور عورتیں اور غلام تو نے مانگے تھے وہ سب حاضر ہیں۔ جب یہ قافلہ کسریٰ کے پاس پہنچا کسریٰ کو سخت صدمہ ہوا یہ ابھی تک قسطنطیہ کا محاصرہ کئے پڑا تھا اور قیصر کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے پاس اس کا کل خاندان اور ساری حرم سرا اس ذلت کی حالت میں پہنچی۔ یہ سخت غضبناک ہوا اور شہر پر بہت سخت حملہ کر دیا لیکن اس میں کوئی کامیابی نہ ہوئی اب یہ نہر جیحون کی طرف چلا کہ قیصر کو وہاں روک لے کیونکہ قیصر کا فارس سے قسطنطیہ آنے کا راستہ یہی تھا۔ قیصر نے اسے سن کر پہلے سے بھی زبردست حملہ کیا یعنی اس نے اپنے لشکر کو تو دریا کے اس دہانے چھوڑا اور خود تھوڑے سے آدمی لے کرسوار ہو کر پانی کے بہاؤ کی طرف چل دیا کوئی ایک دن رات کا راستہ چلنے کے بعد اپنے ساتھ جو کئی چارہ لید گوبر وغیرہ لے گیا تھا اسے پانی میں بہا دیا۔ یہ چیزیں پامی میں بہتی ہوئی کسرا کے لشکر کے پاس سے گزریں تو وہ سمجھ گئے کہ قیصر یہاں سے گزر گیا ہے۔ یہ اس کے لشکروں کے جانوروں کے آثار ہیں۔ اب قیصر واپس اپنے لشکر میں پہنچ گیا ادھر کسریٰ اس کی تلاش میں آگے چلا گیا۔ قیصر اپنے لشکروں سمیت جیحون کا دہانہ عبور کر کے راستہ بدل کر قسطنطیہ پہنچ گیا۔ جس دن یہ اپنے دارالسلطنت میں پہنچا نصرانیوں میں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ کسریٰ کو جب یہ اطلاع ہوئی تو اس کا عجب حال ہوا کہ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن نہ تو روم ہی فتح ہوا اور نہ فارس ہی رہا رومی غالب آ گئے فارس کی عورتیں اور وہاں کے مال ان کے قبضے میں آئے۔ یہ کل امور نو سال میں ہوئے اور رومیوں نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت فارسیوں سے دوبارہ لے لی اور مغلوب ہو کر غالب آ گئے۔ اذراعات اور بصرہ کے معرکے میں اہل فارس غالب آ گئے تھے اور یہ ملک شام کا وہ حصہ تھا جو حجاز سے ملتا تھا یہ بھی قول ہے کہ یہ ہزیمت جزیرہ میں ہوئی تھی جو رومیوں کی سرح کا مقام ہے اور فارس سے ملتا ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر نو سال کے اندر اندر رومی فارسیوں پر غالب آ گئے قرآن کریم میں لفظ بضع کا ہے اور اس کا اطلاق بھی نو تک ہوتا ہے اور یہی تفسیر اس لفظ کی ترمذی اور ابن جریر والی حدیث میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت صدیق اکبر سے فرمایا تھا کہ تمہیں احیتاطاف دس سال تک رکھنے چاہئے تھے کیونکہ بضع کے لفظ اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے اس کے بعد قبل اور بعد پر پیش اضافت ہٹا دینے کی وجہ ہے کہ اس کے بعدحکم اللہ ہی کا ہے اس دن جب کہ روم فارس پر غالب آ جائے گا تو مسلمان خوشیاں منائیں گے اکثر علماء کا قول ہے کہ بدر کی لڑائی والے دن رومی فارسیوں پر غالب آ گئے۔ ابن عباس سدی ثوری اور ابو سعید یہی فرماتے ہیں ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ غلبہ حدیبیہ والے سال ہوا تھا عکرمہ زہری اور قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے بعض نے اس کی توجیہہ یہ بیان کی کہ قیصر روم نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے فارس پر غالب کرے گا تو وہ اس کے شکر میں پیادہ بیت المقدس تک جائے گا چنانچہ اس نے اپنی نذر پوری کی اور بیت المقدس پہنچا یہ یہی تھا اور اس کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نامہ مبارک پہنچاجو آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معرفت بصری کے گورنر کو بھیجا تھا اور اس نے ہرقل کو پہنچایا تھا ہرقل نے نامہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پاتے ہی شام میں جو حجازی عرب تھے انہیں اپنے پاس بلایا ان میں ابوسفیان صخر بن حرب اموی بھی تھا اور دوسرے بھی قریش کے ذی عزت بڑے بڑے لوگ تھے اس نے ان سب کو اپنے سامنے بٹھا کر ان سے پوچھا کہ تم میں سے اس کا سب زیادہ قریبی رشتہ دار کون ہے؟ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا میں ہوں۔ بادشاہ نے انہیں آگے بٹھا لیا اور ان کے ساتھیوں کو پیچھے بٹھا لیا اور ان سے کہا کہ دیکھو میں اس شخص سے چند سوالات کروں گا اگر یہ کسی سوال کا غلط جواب دے تو تم اس کو جھٹلا دینا ابوسفیان کا قول ہے کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ اگر میں جھوٹ بولوں گا تو لوگ اس کو ظاہر کر دیں گے اور پھر اس جھوٹ کو میری طرف نسبت کریں گے تو یقیناً میں جھوٹ بولتا۔ اب ہرقل نے بہت سے سوالات کئے۔ مثلاً حضور کے حسب نسب کہ نسبت آپ کے اوصاف وعادات کے متعلق وغیرہ وغیرہ ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا وہ غداری کرتا ہے ابوسفیان نے کہا کہ آج تک تو کھبی بدعہدی وعدہ شکنی اور غداری کی نہیں۔ اس وقت ہم میں اس میں ایک معاہدہ ہے نہ جانے اس میں وہ کیا کرے؟ ابوسفیان کے اس قول سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور قریش کے درمیان یہ بات ٹھہری تھی کہ آپس میں دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہو گی۔ یہ واقعہ اس قول کی پوری دلیل بن سکتا ہے کہ رومی فارس پر حدیبیہ والے سال غالب آئے تھے۔ اس لیے کہ قیصر نے اپنی نذر حدیبیہ کے بعد پوری کی تھی واللہ اعلم۔ لیکن اس کا جواب وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غلبہ روم فارس پر بدر والے سال ہوا تھا یہ دے سکتے ہیں کہ چونکہ ملک کی اقتصادی اور مالی حالت خراب ہو چکی تھی ویرانی غیر آبادی وتنگ حالی بہت بڑھ گئی تھی اس لئے چار سال تک ہرقل نے اپنی پوری توجہ ملک کی خوشحالی اور آبادی پر رکھی۔ اس کے بعد اس طرف سے اطمینان حاصل کر کے نذر کو پوری کرنے کے لئے روانہ ہوا واللہ اعلم۔ یہ اختلاف کوئی ایسا اہم امر نہیں۔ ہاں مسلمان رومیوں کے غلبہ سے خوش ہوئے اس لئے گواہ وہ کیسے ہی ہوں تاہم تھے اہل کتاب۔ اور ان کے مقابلے مجوسیوں کی جماعت تھی جنہیں کتاب سے دور کا تعلق بھی نہ تھا تو ظاہری بات ہے کہ مسلمان ان کے غلبے سے خوش اور فارس کے غلبے سے ناخوش ہو۔ خود قرآن میں موجود ہے کہ ایمان والوں کے سب سے زیادہ دشمن یہود اور مشرک ہیں اور ان سے دوستیاں رکھنے میں سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں کو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس لئے کہ ان میں علماء اور درویش لوگ ہیں اور یہ متکبر نہیں قرآن سن کر یہ رو دیتے ہیں کیونکہ حق کو جان لیتے ہیں پھر اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم ایمان لائے تو ہمیں بھی ماننے والوں میں کر لے۔ پس یہاں بھی یہی فرمایا کہ مسلمان اس دن خوش ہونگے جس دن اللہ تعالیٰ رومیوں کی مدد کرے گا وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے وہ بڑا غالب اور بہت مہربان ہے۔ حضرت زبیر کلامی فرماتے ہیں میں نے فارسیوں کا رومیوں پر غالب آنا پھر رومیوں کا فارسیوں پر غالب آنا پھر روم اور فارس دونوں پر مسلمانوں کا غالب آنا اپنی آنکھوں سے پندرہ سال کے اندر دیکھا لیا آخر آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے بدلہ اور انتقام لینے پر قادر اور اپنے دوستوں کے خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرمانے والا ہے۔ جو خبر تمہیں دی ہے کہ رومی عنقریب فارسیوں پر غالب آ جائیں گے یہ اللہ کی خبر ہے رب کا وعدہ ہے پروردگار کا فیصلہ ہے۔ ناممکن ہے کہ غلط نکلے ٹل جائے یا خلاف ہو جائے۔ جو حق کے قریب ہو اسے بھی رب حق سے بہت دور والوں پر غالب رکھتے ہیں ہاں اللہ کی حکمتوں کو کم علم نہیں جان سکتے۔ اکثر لوگ دنیا کا علم تو خوب رکھتے ہیں اس کی گتھیاں منٹوں میں سلجھا دیتے ہیں اس میں خوب دماغ دوڑاتے ہیں۔ اس کے برے بھلے نقصان کو پہچان لیتے ہیں بہ یک نگاہ اس کی اونچ نیچ دیکھ لیتے ہیں۔ دنیا کمانے کا پیسے خوب جوڑنے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں لیکن امور دین میں اخروی کاموں میں محض جاہل غبی اور کم فہم ہوتے ہیں۔ یہاں نہ ذہن کام نہ کرے نہ سمجھ پہنچ سکے نہ غور فکر کی عادت۔ حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں بہت ایسے بھی ہے کہ نماز تک تو ٹھیک پڑھ نہیں سکتے لیکن درہم چٹکی میں لیتے ہی وزن بتا دیا کرتے ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں دنیا کی آبادی اور رونق تو بیسیوں صورتیں ان کا ذہن گھڑ لیتا ہے۔ لیکن دین میں محض جاہل اور آخرت سے بالکل غافل ہیں

 

۸

کائنات کا ہر ذرہ دعوت فکر دیتا ہے

چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ حق جل و علا کی قدرت کا نشان ہے اور اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرنے والا ہے اس لئے ارشاد ہوتا ہے کہ موجودات میں غور و فکر کیا کرو اور قدرت اللہ کی نشانیوں سے اس مالک کو پہچانو اور اس کی قدر و تعظیم کرو۔ کبھی عالم علوی کو دیکھو کبھی عالم سفلی پر نظر ڈالو کبھی اور مخلوقات کی پیدائش کو سوچو اور سمجھو کہ یہ چیزیں عبث اور بیکار پیدا نہیں کی گئیں۔ بلکہ رب نے انہیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں۔ اس کے بعد نبیوں کی صداقت کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ دیکھ لو ان کے مخالفین کا کس قدر عبرتناک انجام ہوا؟ اور ان کے ماننے والوں کو کس طرح دونوں جہاں کی عزت ملی؟ تم چل پھر کر اگلے واقعات معلوم کرو کہ گذشتہ امتیں جو تم سے زیادہ زور اور تھیں تم سے زیادہ مال وزر والی تھیں تم سے زیادہ آبادیاں انہوں نے کیں تم سے زیادہ کھیتیاں اور باغات ان کے تھے اس کے باوجود جب ان کے پاس اس زمانے کے رسول آئے انہوں نے دلیلیں اور معجزے دکھائے اور پھر بھی اس زمانے کے ان بدنصیبوں نے ان کی نہ مانی اور اپنے خیالات میں مستغرق رہے اور سیاہ کاریوں میں مشغول رہے تو بالاخر عذاب اللہ ان پر برس پڑے۔ اس وقت کوئی نہ تھا جو انہیں بچاسکے یا کسی عذاب کو ان پر سے ہٹاسکے۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے۔ یہ عذاب تو انکے اپنے کرتوتوں کا وبال تھا۔ یہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے رب کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ان کی بے ایمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو انکی نگاہوں پھیر دیا اور انہیں ان کی سرکشی میں حیران چھوڑ دیا ہے۔ اور آیت میں ہے ان کی کجی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اور اس آیت میں ہے کہ اگر اب بھی منہ موڑیں تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض گناہوں پر ان کی پکڑ کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ اس بنا پر السوای منصوب ہو گا اساوا کا مفعول ہو کر۔ اور یہ بھی قول ہے کہ سوای یہاں پر اس طرح واقع ہے کہ برائی کا انجام ہوئی۔ اس لئے کہ وہ آیات اللہ کے جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے تھے۔ تو اس معنی کی رو سے یہ لفظ منصوب ہو گا کان کی خبر ہو کر۔ امام ابن جریر نے یہی توجیہہ بیان کی ہے اور ابن عباس اور قتادہ سے نقل بھی کی ہے۔ ضحاک بھی یہی فرماتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اس کے بعد وکانوا بھا یستہزون ہے

 

۱۱

اعمال کے مطابق فیصلے

فرمان باری ہے کہ سب سے پہلے مخلوقات کو اسی اللہ نے بنایا اور جس طرح وہ اس کے پیدا کرنے پر اس وقت قادر تھا اب فنا کر کے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی وہ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ قادر ہے تم سب قیامت کے دن اسی کے سامنے حاضر کئے جانے والے ہو۔ وہاں وہ ہر ایک کو اسکے اعمال کا بدلہ دے گا۔ قیامت کے دن گنہگار نا امید رسوا اور خاموش ہو جائیں گے۔ اللہ کے سوا جن جن کی دنیا میں عبادت کرتے رہے ان میں سے ایک بھی ان کی سفارش کے لئے کھڑا نہ ہو گا۔ اور یہ انکے پوری طرح محتاج ہوں گے لیکن وہ ان سے بالکل آنکھیں پھیر لیں گے اور خود ان کے معبودان باطلہ بھی ان سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ ہم میں ان میں کوئی دوستی نہیں۔ قیامت قائم ہوتے ہی اس طرح الگ الگ ہو جائیں گے جس کے بعد ملاپ ہی نہیں۔ نیک لوگ تو علیین میں پہنچا دئے جائیں گے اور برے لوگ سجین میں پہنچا دئیے جائیں گے وہ سب سے اعلیٰ بلندی پر ہوں گے یہ سب سے زیادہ پستی میں ہوں گے پھر اس آیت کی تفصیل ہوتی ہے کہ نیک نفس تو جنتوں میں ہنسی خوشی سے ہوں گے اور کفار جہنم میں جل بھن رہے ہوں گے

 

۱۷

خالق کل مقتدر کل ہے

اس رب تعالیٰ کا کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کے لے آتا ہے۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کا جملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ زمین وآسمان میں قابل حمد و ثنا وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے۔ پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گزرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملا لیا ۔ جو پوری اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے۔ بیشک تمام پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے۔ اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں۔ والنھار اذاجلھا والیل اذایغشھا اور والیل اذایغشیٰ والنھار اذاتجلیٰ اور والضحیٰ والیل اذاسجیٰ وغیرہ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا نام خلیل اللہ وفادار کیوں رکھا؟ اس لئے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا فسبحان اللہ سے تظہرون تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں۔ طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ جس نے صبح و شام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پا لیا ۔ پھر بیان فرمایا کہ موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے۔ ہر شے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت درخت سے دانے مرغی سے انڈہ انڈے سے مرغی نطفے سے انسان انسان سے نطفہ مومن سے کافر کافر سے مومن غرض ہر چیز اور اسکے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے۔ خشک زمین کو وہی تر کرتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا کہ خشک زمین کا ترو تازہ ہو کر طرح طرح کے اناج و پھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کام نشان ہے۔ ایک اور آیت میں ہے تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتا ہو دو بوند سے تر کر کے میں لہلہا دیتا ہوں  اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کر دیتا ہوں۔ اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا۔ یہاں فرمایا اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کر کے کھڑے کر دئیے جاؤ گے

 

۲۰

بتدریج نظام حیات

فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ تم سب کو اس نے بے وقعت پانی کے قطرے سے پیدا کیا۔ پھر تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں نطفے سے خون بستہ کی شکل میں پھر گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ڈھال کر پھر ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں کو گوشت پہنایا۔ پھر روح پھونکی، آنکھ، کان، ناک پیدا کئے ماں کے پیٹ سے سلامتی سے نکالا، پھر کمزوری کو قوت سے بدلا، دن بدن طاقتور اور مضبوط قد آور زورآور کیا، عمر دی حرکت وسکون کی طاقت دی اسباب اور آلات دئیے اور مخلوق کا سردار بنایا اور ادھر سے ادھر پہنچنے کے ذرائع دئیے۔ سمندروں کی زمین کی مختلف سواریاں عطا فرمائیں عقل سوچ سمجھ تدبر غور کے لیے دل ود ماغ عطا فرمائے۔ دنیاوی کام سمجھائے رزق عزت حاصل کرنے لے طریقے کھول دئیے۔ ساتھ ہی آخرت کو سنوارنے کا علم اور دنیاوی علم بھی سکھایا۔ پاک ہے وہ اللہ جو ہر چیز کا صحیح اندازہ کرتا ہے ہر ایک کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے۔ شکل و صورت میں بول چال میں امیری فقیری میں عقل و ہنر میں بھلائی برائی میں سعادت و شقاوت میں ہر ایک کو جداگانہ کر دیا۔ تاکہ ہر شخص رب کی بہت سی نشانیاں اپنے میں اور دوسریا میں دیکھ لے۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی کی لیکر اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ پس زمین کے مختلف حصوں کی طرح اولاد آدم کی مختلف رنگتیں ہوئیں۔ کوئی سفید کوئی سرخ کوئی سیاہ کوئی خبیث کوئی طیب کوئی خوش خلق کوئی بد خلق وغیرہ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو۔ یہ اس لئے کہ تمہیں ان سے سکوں و راحت آرام وآسائش حاصل ہو۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے۔ حضرت حوا حضرت آدم کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت و رحمت ان میں نہ ہو سکتی۔ یہ پیار اخلاص یک جنسی کی وجہ سے ہے۔ ان میں اپس میں محبت مودت رحمت الفت پیار اخلاص رحم اور مہربانی ڈال دی پس مرد یا تو محبت کی وجہ سے عورت کی خبر گیری کرتا ہے یا غم کھا کر اس کا خیال رکھتا ہے۔ اس لئے کہ اس سے اولاد ہو چکی ہے اس کی پرورش ان دونوں کے میل ملاپ پر موقوف ہے الغرض بہت سی وجوہات رب العلمین نے رکھ دی ہیں۔ جن کے باعث انسان با آرام اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ بھی رب کی مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی ایک زبردست نشانی ہے۔ ادنی غور سے انسان کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے

 

۲۲

یہ رنگ یہ زبانیں اور وسیع تر کائنات

رب العلمین اپنی زبردست قدرت کی ایک نشانی اور بیان فرماتا ہے کہ اس قدر بلند کشادہ آسمان کی پیدائش اس میں ستاروں کا جڑاؤ ان کی چمک دمک ان میں سے بعض کا چلتا پھرتا ہونا بعض کا ایک جا ثابت رہنا زمین کو ایک ٹھوس شکل میں بنانا اسے کثیف پیدا کرنا اس میں پہاڑ میدان جنگل دریا سمندر ٹیلے پتھر درخت وغیرہ جما دینا۔ خود تمہاری زبانوں میں رنگتوں میں اختلاف رکھنا عرب کی زبان تاتاریوں کی زبان، کر دوں ، رومیوں ، فرنگیوں ، تکرونیوں ، بربر، حبشیوں ، ہندیوں ، ایرانیوں ، حقابلہ، آرمینوں ، جزریوں اور اللہ جانے کتنی کتنی زبانیں زمین پر بنو آدم میں بولی جاتی ہیں۔ انسانی زبانوں کے اختلاف کیساتھ ہی ان کی رنگتوں کا اختلاف بھی شان اللہ کا مظہر ہے۔ خیال تو فرمائیے کہ لاکھوں آدمی جمع ہو جائیں ایک کنبے قبیلے کے ایک ملک ایک زبان کے ہوں لیکن ناممکن ہے کہ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی اختلاف نہ ہو۔ حالانکہ اعضائے بدن کے اعتبار سے کلی موافقت ہے۔ سب کی دو آنکھیں دو پلکیں ایک ناک دو دو کان ایک پیشانی ایک منہ دو ہونٹ دو رخسار وغیرہ لیکن تاہم ایک سے ایک علیحدہ ہے۔ کوئی نہ کوئی عادت خصلت کلام بات چیت طرز ادا ایسی ضرور ہو گی کہ جس میں ایک دوسرے کا امتیاز ہو جائے گو وہ بعض مرتبہ پوشیدہ سی اور ہلکی سی چیزیں ہو۔ گو خوبصورتی اور بدصورتی میں کئی ایک یکساں نظر آئیں لیکن جب غور کیا جائے تو ہر ایک کو دوسرے سے ممتاز کرنے والا کوئی نہ کوئی وصف ضرور نظر آ جائے گا۔ ہر جاننے والا اتنی بڑی طاقتوں اور قوتوں کے مالک کو پہچان سکتا ہے اور اس صنعت سے صانع کو جان سکتا ہے۔ نیند بھی قدرت کی ایک نشانی ہے جس سے تھکان دور ہو جاتی ہے راحت وسکون حاصل ہوتا ہے اس کے لئے قدرت نے رات بنا دی۔ کام کاج کے لئے دنیا حاصل کرنے کے لئے کمائی دھندے کے لئے تلاش معاش کے لئے اللہ نے دن کو پیدا کر دیا جو رات کے بالکل خلاف ہے۔ یقیناً سننے سمجھنے والوں کے لئے یہ چیزیں نشان قدرت ہیں۔ طبرانی میں حضرت زید بن ثاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ راتوں کو میری نیند اچاٹ ہو جایا کرتی تھی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس امر کی شکایت کی آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو۔ اللھم غارت النجوم وھدات العیون وانت حی قیوم یاحی یاقیوم انم عینی واھدی لیلی۔ میں نے جب اس دعا کو پڑھا تو نیند نہ آنے کی بیماری بفضل اللہ دور ہو گئی

 

 

۲۴

قیام ارض وسما

اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والی ایک اور نشانی بیان کی جا رہی ہے کہ آسمانوں پر اس کے حکم سے بجلی کوندتی ہے جسے دیکھ کر کبھی تمہیں دہشت لگنے لگتی ہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ کڑک کسی کو ہلاک کر دے کہیں بجلی گرے وغیرہ اور کبھی تمہیں امید بندھتی ہے کہ اچھا ہوا اب بارش برسے گی پانی کی ریل پیل ہو گی ترسالی ہو جائے گی وغیرہ۔ وہی ہے جو آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اس زمین کو جو خشک پڑی ہوئی تھی جس پر نام نشان کی کوئی ہر یادل نہ تھی مثل مردے کے بے کار تھی اس بارش سے وہ زندہ کر دینے پر قادر ہے۔ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ زمین وآسمان اسی کے حکم سے قائم ہیں وہ آسمان کو زمین پر گرنے نہیں دیتا اور آسمان کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں زوال سے بچائے ہوئے ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کوئی تاکیدی قسم کھانا چاہتے تو فرماتے اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین وآسمان ٹھہرے ہوئے ہیں۔ پھر قیامت کے دن وہ زمین وآسمان کو بدل دے گا مردے اپنی قبروں سے زندہ کر کے نکالے جائیں گے۔ خود اللہ انہیں آواز دے گا اور یہ صرف ایک آواز پر زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی حمد کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی کم رہے۔ اور آیت میں ہے فانما ھی زجرۃ واحدۃ فاذاھم بالساھرۃ صرف ایک ہی آواز سے ساری مخلوق میدان حشر میں جمع ہو جائے گی اور آیت میں ہے ان کانت الا صیحتہ واحدۃ فاذاھم جمیع لدینا محضرون یعنی وہ تو صرف ایک آواز ہو گی جسے سنتے ہی سب کے سب ہمارے سامنے حاضر ہو جائیں گے

 

۲۶

جس کا کوئی ہمسر نہیں

فرماتا ہے کہ تمام آسمانوں اور ساری زمینوں کی مخلوق اللہ ہی کی ہے سب اس کے لونڈی غلام ہیں سب اسی کی ملکیت ہیں۔ ہر ایک اس کے سامنے عاجز و لاچار مجبور و بے بس ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں قنوت کا ذکر ہیں وہاں مراد اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ ابتدائی پیدائش بھی اسی نے کی اور وہی اعادہ بھی کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتدا کے عادتاً آسان اور ہلکا ہوتا ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اور اسے یہ چاہیے نہیں تھا۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اور یہ بھی اسے لائق نہ تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اس نے مجھے اولاد پیدا کیا اس طرح دوبارہ پیدا کر نہیں سکتا حالانکہ دوسری مرتبہ کی پیدائش پہلی دفعہ کی پیدائش سے بالکل آسان ہوا کرتی ہے اس کا مجھے برا کہنا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ کی اولاد سے حالانکہ میں احد اور صمد ہوں۔ جس کی نہ اولاد نہ ماں باپ اور جس کو کوئی ہمسر نہیں۔ الغرض دونوں پیدائشیں اس مالک کی قدر کی مظہر ہیں نہ اس پر کوئی کام بھاری نہ بوجھل۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ھو کی ضمیر کا مرجع خلق ہو مثل سے مراد یہاں اس کی توحید الوہیت اور توحید ربوبیت ہے نہ کہ مثال اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مثال سے پاک ہے فرمان ہے لیس کمثلہ شئی اس کی مثال کوئی اور نہیں۔ بعض اہل ذوق نے کہا ہے کہ جب صاف شفاف پانی کا ستھرا پاک صاف حوض ٹھہرا ہوا ہو اور باد صبا کے تھپیڑے اسے ہلاتے جلاتے نہ ہوں اس وقت اس میں آسمان صاف نظر آتا ہے سورج اور چاند ستارے بالکل دکھائی دیتے ہیں اسی طرح بزرگوں کے دل ہیں جن میں وہ اللہ کی عظمت و جلال کو ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ غالب ہے جس پر کسی کا بس نہیں نہ اس کے سامنے کسی کی کچھ چل سکے ہر چیز اس کی ماتحتی میں اور اس کے سامنے پست و لاچار عاجز و بے بس ہے۔ اس کی قدرت سطوت سلطنت ہر چیز محیط ہے۔ وہ حکیم ہے اپنے اقوال، افعال، شریعت، تقدیر، غرض ہر ہر امر میں۔ حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں مثل اعلی سے مراد لا الہ الا اللہ ہے

 

۲۸

اپنے دلوں میں جھانکو

مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ وہ حج و عمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جا رہا ہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں۔ اور بہت اچھی طرح غور و خوض کر سکیں۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس مر پر رضامند ہو گا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کر کے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کر سکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہو سکتا۔ یہ عجب نا انصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑ جاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا۔ یہ گو دوسروں کا اپنا رکارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف کب ہلا سکے۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا

 

۳۰

بچہ اور ماں باپ

ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کر دیا ہے اور جسے اے نبی آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرا لیا  گیا تھا کہ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بے شک تو ہی ہمارا رب ہے۔ وہ حدیثیں عنقریب ان شاء اللہ بیان ہو گی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے۔ لوگو اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہو گی جیسے من دخلہ کان امنا میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں۔ دوسرے معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل تغیر نہیں۔ امام بخاری نے یہی معنی کئے ہیں کہ یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے بخاری شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمان رسول ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی فطر اللہ اللتہ فطرالناس علیھا لاتبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم مسند احمد ہے حضرت اسود بن سریع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا آپ کے ساتھ مل کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آ گئے اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کر ڈالا حضور کو پتہ چلا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کر دیا ہے۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی آپ نے فرمایا نہیں نہیں۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا نابالغوں کے قتل سے رک جانا۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے پھر اسکے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنا لیتے ہیں۔ جابر بن عبد اللہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آ جائے۔ اب یا تو شا کر بنتا ہے یا کافر۔ مسند میں بروایت حضرت ابن عباس مروی کہ حضور علیہ السلام سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کیساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کر کے مجھے سنایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ مجھے جناب باری عز و جل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں۔ فرمایا کہ جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لئے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب و عجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے صرف آزمائش کے لئے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہو گی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتاروں گا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا۔ پھر مجھ سے جناب باری عز و جل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کر دوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنا دیں ؟ تو فرمایا سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالوں گا دتو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دوں گا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کے لے اپنے فرمانوں پر چڑھائی کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن سوال اور حرام سے بچنے ولا عیالدار آدمی۔ اہل جنت پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بے وقعت کمینے لوگ جو بے زر اور بے گھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل و عیال میں دھوکے میں رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکر و فریب میں لگے رہتے ہیں۔ پھر آپ نے بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بد زبان بد گو ہیں (مسلم وغیرہ) یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچے اور سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے۔ ایک اور آیت میں ہے اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے۔ تم سب اللہ کی طرف راغب رہو اسی کی جانب جھکے رہو اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو۔ حضرت معاذ سے حضرت عمر نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپ نے سچ کہا۔ تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے فرقوا کی دوسری قرأت فارقوا ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جیسے یہود، نصاریٰ، مجوسی، بت پرست سے اور دوسرے باطل مذاہب والے۔ جیسے ارشاد ہے جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کر لی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہو گئیں تھی۔ اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گذشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی۔ جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا من کان علی ما انا علیہ واصحابی یعی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں (برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن وحدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید؟)۳۱

 

۳۳

انسان کی مختلف حالتیں

اللہ تعالیٰ لوگوں کی حالت بیان فرما رہا ہے کہ دکھ درد مصیبت و تکلیف کے وقت تو وہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کو بڑی عاجزی زاری نہایت توجہ اور پوری دلسوزی کے ساتھ پکارتے ہیں اور جب اس کی نعمتیں ان پر برسنے لگتی ہے تو یہ اللہ کیساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔ لیکفروا میں لام بعض تو کہتے ہیں لام عاقبت ہے اور بعض کہتے ہیں لام تعلیل ہے۔ لیکن لام تعلیل ہونا اس وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے لئے یہ مقرر کیا پھر انہیں دھمکایا کہ تم ابھی معلوم کر لو گے۔ بعض بزرگوں کا فرمان ہے کہ تو ال پاسپاہی اگر کسی کو ڈرائیے دھمکائے تو وہ کانپ اٹھتا ہے تعجب ہے کہ اس کے دھمکانے سے ہم دہشت میں آئیں جس کے قبضے میں ہر چیز ہے اور جس کا صرف یہ کہہ دینا ہر امر کے لئے کافی ہے۔ کہ ہو جا پھر مشرکین کا محض بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے ان کی شرک کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ پھر انسان کی ایک بہیودہ خصلت بطور انکار بیان ہو رہی ہے کہ سوائے چند ہستیوں کے عموماً حالت یہ ہے کہ راحتوں کے وقت پھول جاتے ہیں اور سختیوں کے وقت مایوس ہو جاتے ہیں۔ گویا اب کوئی بہتری ملے گی نہیں۔ ہاں مومن سختیوں میں صبر اور نرمیوں میں نیکیاں کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے مومن ہر تعجب ہے اس کے لئے اللہ کی ہر قضا بہتر ہی ہوتی ہے۔ راحت پر شکر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے اور مصیبت پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی متصرف اور مالک ہے۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق جہان کا نظام چلارہاے کسی کو کم دیتا ہے کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ کوئی تنگی ترشی میں ہے کوئی وسعت اور فراخی میں۔ اس میں مومنوں کے لئے نشان ہیں

 

۳۸

صلہ رحمی کی تاکید

قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسافر جس کا خرچ کم پڑگیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لئے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو ابن عباس مجاہد ضحاک قتادہ عکرمہ محمد بن کعب اور شعبی سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہو گا۔ اسی کی مشابہ آیت ولاتمنن تستکثر ہے یعنی زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سود یعنی نفع کی دوصورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کھجور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ اللہ ہی خالق و رازق ہے۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا بے علم بے کان بے آنکھ بے طاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطا فرماتا ہے۔ مال ملکیت کمائی تجارت غرض بے شمار نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ دو صحابیوں کا بیان ہے کہ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھو سرہلنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں اتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کر رہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا۔ اس کی مقدس منزہ معظم اور عزت و جلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ احد ہے صمد ہے فرد ہے ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کف کوئی نہیں

 

۴۱

زمین کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مضمر ہے

ممکن ہے بر یعنی خشکی سے مراد میدان اور جنگل ہوں اور بحر یعنی تری سے مراد شہر اور دیہات ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بر کہتے ہیں خشکی کو اور بحر کہتے ہیں تری کو خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا پیداوار کا نہ ہونا قحط سالیوں کا آنا۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا جس سے پانی کے جانور اندھے ہو جاتے ہیں۔ انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کافساد ہے۔ بحر سے مراد جزیرے اور بر سے مراد شہر اور بستیاں ہیں۔ لیکن اول قول زیادہ ظاہر ہے اور اسی کی تائید محمد بن اسحاق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضور نے ایلہ کے بادشاہ سے صلح کی اور اس کا بحر یعنی شہر اسی کے نام کر دیا پھلوں کا اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان زمین کے بگاڑنے والے ہیں۔ آسمان و زمین کی اصلاح اللہ کی عبادت و اطاعت سے ہے۔ ابوداؤد میں حدیث ہے کہ زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کہ حد قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے۔ اور جب گناہ نہ ہو گے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہوں گی۔ چنانچہ آخر زمانے میں جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلاً خنزیر کا قتل صلیب کی شکست جزئیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ پھر جب آپ کے زمانے میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہو جائیں گے یاجوج ماجوج تباہ ہو جائیں گے تو زمین سے کہا جائیے گا کہ اپنی برکتیں لوٹا دے اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اتنا بڑا ہو گا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کر لیں۔ ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے کو کفایت کرے گا۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہوں گی جیسے جیسے عدل و انصاف مطابق شرع شریف بڑھے گا ویسے ویسے خیر و برکت بڑھتی چلی جائے گی۔ اس کے برخلاف فاجر شخص کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر بندے شہر درخت اور جانور سب راحت پا لیتے ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ زیاد کے زمانے میں ایک تھیلی پائی گئی جس میں کھجور کی بڑی گٹھلی جیسے گیہوں کے دانے تھے اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں اگتے تھے جس میں عدل و انصاف کا کام میں لایا جاتا تھا۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ فساد سے شرک ہے لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال اور پیداوار کی اور پھر اناج کی کمی بطور آزمائش کے اور بطور ان کے بعض اعمال کے بدلے کے ہے۔ جیسے اور جگہ ہے وبلوناھم بالحسنات والسیات لعلھم یرجعون۔ ہم نے انہیں بھلائیوں برائیوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوٹ جائیں۔ تم زمین میں چل پھر کر آپ ہی دیکھ لو کہ تم سے پہلے جو مشرک تھے اس کے نتیجے کیا ہوئے؟ رسولوں کی نہ ماننے اللہ کیساتھ کفر کرنے کا کیا وبال ان پر آیا؟ یہ دیکھو اور عبرت حاصل کرو

 

۴۳

اللہ کے دین میں مستحکم ہو جاؤ

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دین پر جم جانے کی اور چستی سے اللہ کی فرمانبرداری کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے۔ مضبوط دین کی طرف ہم تن متوجہ ہو جاؤ۔ اس سے پہلے کہ قیامت کا دن آئے۔ جب اس کے آنے کا اللہ کا حکم ہو چکے گا پھر اس حکم کو یا اس آنے والی جماعت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اس دن نیک بد علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے۔ ایک جماعت جنت میں ایک جماعت بھڑکتی ہوئی آگ میں۔ کافر اپنے کفر کے بوجھ تلے دب رہے ہوں گے۔ لوگ اپنے کئے ہوئے نیک اعمال بہترین آرام دہ ذخیرے پر خوش و خرم ہوں گے۔ رب انہیں ان کی نیکیوں کا اجر بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر کئی کئی گناہ کر کے دے رہا ہو گا۔ ایک ایک نیکی دس دس بلکہ سات سات سو بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کر کے انہیں ملے گی۔ کفار اللہ کے دوست نہیں لیکن تاہم ان پر بھی ظلم نہ ہو گا

 

۴۶

مسلمان بھائی کی اعانت پر جہنم سے نجات کا وعدہ

بارش کے آنے سے پہلے بھینی بھینی ہواؤں کا چلنا اور لوگوں کو بارش کی امید دلانا۔ اس کے بعد مینہ برسانا تاکہ بستیاں آباد ہیں اور جاندار زندہ رہیں سمندروں اور دریاؤں میں جہاز اور کشتیاں چلیں۔ کیونکہ کشتیوں کا چلنا بھی ہوا پر موقوف ہے۔ اب تم اپنی تجارت اور کمائی دھندے کے لئے ادھر سے ادھر سے ادھر جا اسکو۔ پس تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ان بیشمار ان گنت نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ پھر اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دینے کے لئے فرماتا ہے کہ اگر آپ کو لوگ جھٹلاتے ہیں تو آپ اسے کوئی انوکھی بات نہ سمجھیں۔ آپ سے پہلے کے رسولوں کو بھی ان کی امتوں نے ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے فقرے سنائے ہیں۔ وہ بھی صاف روشن اور واضح دلیلیں معجزے اور احکام لائے تھے بالاخر جھٹلانے والے عذاب کے شکنجے میں کس دئیے گئے اور مومنوں کو اس وقت ہر قسم کی برائی سے نجات ملی۔ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے اپنے نفس کریم پر یہ بات لازم کر لی ہے کہ وہ اپنے با ایمان بندوں کو مدد دے گا۔ جیسے فرمان ہے کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آبرو بچالے اللہ پر حق ہے کہ وہ اس سے جہنم کی آگ کو ہٹا لے۔ پھر آپ نے پڑھا وکان حقا علینا نصرالمومنین

 

۴۸

نا امیدی کے اندھیروں امید کے اجالے رحمت و زحمت کی ہوائیں

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا تو سمندر پر سے یا جس طرح اور جہاں سے اللہ کا حکم ہو۔ پھر رب العالمین ابر کو آسمان پر پھیلا دیتا ہے اسے بڑھا دیتا ہے تھوڑے کو زیادہ کر دیتا ہے تم نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بالشت دو بالشت کا ابر اٹھا پھر جو وہ پھیلا تو آسمان کے کنارے ڈھانپ لئے۔ اور کبھی یہ بھی دیکھا ہو گا کہ سمندروں سے پانی کے بھرے ابر اٹھتے ہیں۔ اسی مضمون کو آیت وھو الذی یرسل الریاح الخ، میں بیان فرمایا ہے پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے اور تہ بہ تہ کر دیتا ہے۔ وہ پانی سے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ زمین کے قریب ہو جاتے ہیں۔ پھر بارش ان بادلوں کے درمیان سے برسنے لگتی ہے جہاں برسی وہیں کے لوگوں کی باچھیں کھل گئیں۔ پھر فرماتا ہے یہی لوگ بارش سے نا امید ہو چکے تھے اور پوری نا امیدی کے وقت بلکہ نا امیدی کے بعد ان پر بارشیں برسیں اور جل تھل ہو گئے۔ دو دفعہ من قبل کا لفظ لانا تاکید کے لئے ہے۔ ہ کی ضمیر کا مرجع انزال ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تاسیسی دلالت ہو۔ یعنی بارش ہونے سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے وقت کے ختم ہو جانے کے قریب بارش نہ ہونے کی وجہ سے یہ مایوس ہو چکے تھے۔ پھر اس نا امیدی کے بعد دفعۃً ابر اٹھتا ہے اور برس جاتا ہے اور ریل پیل کر دیتا ہے۔ اور ان کی خشک زمین تر ہو جاتی ہے قحط سالی ترسالی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو زمین صاف چٹیل میدن تھی یا ہر طرف ہریاول دکھائی دینے لگتی ہے۔ دیکھ لو کہ پروردگار عالم بارش سے کس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے یاد رکھو جس رب کی یہ قدرت تم دیکھ رہے وہ ایک دن مردوں کو ان قبروں سے بھی نکالنے والا ہے حالانکہ ان کے جسم گل سڑ گئے ہوں گے۔ سمجھ لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر ہم باد تند چلائیں اگر آندھیاں آ جائیں اور ان کی لہلاتی ہوئی کھیتیاں پژمردہ ہو جائیں تو وہ پھر سے کفر کرنے لگ جاتے ہیں چنانچہ سورۃ واقعہ میں بھی یہی بیان ہوا ہے۔ افرایتم ماتحرثون سے محرومون تک حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں چار رحمت کی چار زحمت کی۔ ناشرات مبشرات مرسلات اور ذاریات تو رحمت کی ہیں۔ اور عقیم صرصر عاصف اور قاصف عذاب کی۔ ان میں پہلی دو خشکیوں کی ہیں اور اخری دو تری کی۔ حضور فرماتے ہیں ہوائیں دوسری سے مسخر ہیں یعنی دوسری زمین سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہلاکت کا ارادہ کیا تو ہواؤں کے داروغہ کو یہ حکم دیا اس نے دریافت کیا کہ جناب باری کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا سوراخ کر دو جتنا بیل کا نتھا ہوتا ہے؟ تو فرمان اللہ ہوا کہ نہیں نہیں اگر ایسا ہوا تو کل زمین اور زمین کی پوری چیزیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ اتنا نہیں بلکہ اتنا روزن کر جتنا انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے۔ اب صرف اتنے سوراخ سے وہ ہوا چلی جو جہاں پہنچی وہاں بھس اڑا دیا۔ جس چیز پر سے گزری اسے بے نشان کر دیا۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا مرفوع ہونا مکروہ ہے زیادہ ظاہر یہی ہے کہ یہ خود حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے

 

۵۲

مسئلہ سماع موتی

باری تعالیٰ عز و جل فرماتا ہے کہ جس طرح یہ تیری قدرت سے خارج ہے کہ مردوں کو جو قبروں میں ہوں تو اپنی آواز سناسکے۔ اور جس طرح یہ ناممکن ہے کہ بہرے شخص کو جبکہ وہ پیٹھ پھیرے منہ موڑے جا رہا ہو تو اپنی بات سناسکے۔ اسی طرح سے جو حق سے اندھے ہیں تو ان کی رہبری ہدایت کی طرف نہیں کر سکتا۔ ہاں اللہ تو ہر چیز پر قادرہے جب وہ چاہے مردوں کو زندوں کو آواز سناسکتا ہے۔ ہدایت ضلالت اسکی طرف سے ہے۔ تو صرف انہیں سناسکتا ہے جو با ایمان ہوں اور اللہ کے سامنے جھکنے والے اس کے فرمانبردار ہوں۔ یہ لوگ حق کو سنتے ہیں اور مانتے بھی ہیں یہ تو حالت مسلمان کی ہوئی اور اس سے پہلے جو حالت بیان ہوئی ہے وہ کافر کی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے انما یستجیب الذین یسمعون الخ، تیری پکار وہی قبول کریں گے جو کان دھر کرسنیں گے مردوں کو اللہ تعالیٰ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مشرکین سے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے تھے اور بدر کی کھائیوں میں ان کی لاشیں پھینک دی گئی تھی ان کی موت کے تین دن بعد ان سے خطاب کر کے انہیں ڈانٹا اور غیر دلائی۔ حضرت عمر نے یہ دیکھ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ ان سے خطاب کرتے ہیں جو مر کر مردہ ہو گئے، تو آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم بھی میری اس بات کو جو میں انہیں کہ رہا ہوں اتنا نہیں سنتے جتنا یہ سن رہے ہیں۔ ہاں وہ جواب نہیں دے سکتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس واقعہ کو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی سن کر فرمایا کہ آپ نے یوں فرمایا کہ وہ اب بخوبی جانتے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ حق ہے پھر آپ نے مردوں کے نہ سن سکنے پر اسی آیت سے استدالال کیا کہ انک لاتسمع الموتی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا تھا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات انہوں نے سن لی تاکہ انہیں پوری ندامت اور کافی شرم ساری ہو۔ لیکن علماء کے نزدیک حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بالکل صحیح ہے کیونکہ اس کے بہت سے شواہد ہیں۔ ابن عبدالبر نے ابن عباس سے مرفوعاً ایک روایت صحت کر کے وارد کی ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر کے پاس گزرتا ہے جسے یہ دنیا میں پہچانتا تھا اور اسے سلام کرتا ہے تو اللہ اسکی روح لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جواب دے

 

۵۴

پیدائش انسان کی مرحلہ وار روداد

انسان کی ترقی و تنزل اس کی اصل تو مٹی سے ہے۔ پھر نطفے سے پھر خون سے بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف و نحیف ہو کر نکلتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہو جاتی ہے۔ اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے پھر بڈھا ہوتا ہے پھرپھوس ہو جاتا ہے طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے۔ کہ ہمت پست ہے، دیکھنا سننا چلنا پھرنا اٹھنا اچکنا پکڑنا غرض ہر طاقت گھٹ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہو جاتی ہے۔ بدن پر جھریاں پڑ جاتی ہیں۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہو جاتے ہیں۔ یہ قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنی کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک وہ عالم و قادر نہ اس کا ساکس کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت۔ حضرت عطیہ عوفی کہتے ہیں میں نے اس آیت کو ضعفا تک حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پڑھا تو آپ نے بھی اسے تلاوت کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس آیت کو اتنا ہی پڑھا تھا جو آپ پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کر دی (ابوداؤد ترمذی مسند احمد)

 

۵۵

واپسی ناممکن ہو گی

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کیساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور آخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہو گا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی۔ ہمیں معذور سمجھاجائے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے۔ فرماتا ہے کہ علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں ا نہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو۔ تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بے علم اور نرے جاہل لوگ ہو۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بے سود رہے گا۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے۔ جیسے فرمان ہے وان یستعتبوا فماھم من المعتبین یعنی اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے

 

۵۸

نماز میں مقتدی اور امام کا تعلق

حق کو ہم نے اس کلام پاک میں پوری طرح واضح کر دیا ہے اور مثالیں دے دے کر سمجھا دیا ہے کہ لوگوں پر حق کھل جائے اور اس کی تابعداری میں لگ جائیں۔ انکے پاس تو کوئی بھی معجزہ آ جائے کیساہی نشان حق دیکھ لیں لیکن یہ جھٹ سے بلا غور علی الفور کہیں گے کہ یہ جادو ہے باطل ہے جھوٹ ہے۔ دیکھئے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ خود قرآن کریم کی آیت ان الذین حقت علیھم الخ، میں ہے کہ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے گو ان کے پاس تمام نشانیاں آ جائیں یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب کا معائنہ کر لیں۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ بے علم لوگوں کے دلوں پر اسی طرح اللہ کی مہر لگ جاتی ہے۔ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ صبر کیجئے ان کی مخالفت اور دشمنی پر درگزر کئے چلے جائیے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ ضرور تمہیں ایک دن ان پر غالب کرے گا اور تمہاری امداد فرمائے گا۔ اور دنیا اور آخرت میں تجھے اور تیرے تابعداروں کو مخالفین پر غلبہ دے گا۔ تہیں چاہیے کہ اپنے کام پر لگے رہو حق پر جم جاؤ اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو اسی میں ساری ہدایت ہے باقی سب باطل کے ڈھیڑ ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ صبح کی نماز میں تھے کہ ایک خارجی نے آپ کا نام لے کر زور سے اس آیت کی تلاوت کی۔ ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین آپ نے خاموشی سے اس آیت کو سنا سمجھا اور نماز ہی میں اس کے جواب میں آیت فاصبر ان وعد اللہ حق ولایستخفنک الذین لایوقنون تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم) وہ حدیث جس سے اس مبارک سورۃ کی فضیلت اور اس کی قرأت کا صبح کی نماز میں مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے) ایک صحابی عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے اسی سورت کی قرأت کی۔ اثناء قرأت میں آپ کو وہم ساہو گیا فارغ ہو کر فرمانے لگے تم میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ ٹھیک ٹھاک وضو نہیں کرتے۔ تم میں سے جو بھی ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو اسے اچھی طرح وضو کرنا چاہئیے (مسند احمد) اس کی اسناد حسن ہے متن بھی حسن ہے اور اسمیں ایک عجیب بھید ہے اور بہت بڑی خیر ہے اور وہ یہ کہ آپ کے مقتدیوں کے وضو بالکل درست نہ ہونے کا اثر آپ پر بھی پڑا۔ پس ثابت ہوا کہ مقتدیوں کی نماز امام کی نماز کے ساتھ معلق ہے۔