تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ السَّجدَة

۲

سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات ہیں ان کی پوری بحث ہم سورۃ بقرہ کے شروع میں کر چکے ہیں۔ یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کتاب قرآن حکیم بے شک و شبہ اللہ رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ مشرکین کا یہ قول غلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اسے گھڑ لیا ہے۔ نہیں یہ تو یقیناً اللہ کی طرف سے ہے اس لئے اتارا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس قوم کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی اور پیغمبر نہیں آیا۔ تاکہ وہ حق کی اتباع کر کے نجات حاصل کر لیں۔

 

۴

ہر ایک کی نکیل اللہ جل شانہٗ کے ہاتھ میں ہے

تمام چیزوں کا خالق اللہ ہے۔ اس نے چھ دن میں زمین وآسمان بنائے پھر عرش پر قرار پکڑا۔ اس کی تفسیر گزر چکی ہے۔ مالک و خالق وہی ہے ہر چیز کی نکیل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تدبیریں سب کاموں کی وہی کرتا ہے ہر چیز پر غلبہ اسی کا ہے۔ اس کے سوا مخلوق کا نہ کوئی والی نہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی۔ اے وہ لوگوجواس کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہو۔ دوسروں پربھروسہ کرتے ہو کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ اتنی بڑی قدرتوں والا کیوں کسی کو اپنا شریک کار بنانے لگا؟ وہ برابری سے، وزیر و مشیر سے شریک وسہیم سے پاک منزہ اور مبرا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اسکے علاوہ کوئی پالنہار ہے۔ نسائی میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ہیں میرا ہاتھ تھام کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی تمام چیزیں پیدا کر کے ساتویں دن عرش پر قیام کیا۔ مٹی ہفتے کے دن بنی۔ پہاڑ اتوار کے دن درخت سوموار کے دن برائیں منگل کے دن نور بدھ کے دن جانور جمعرات کے دن آدم جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں اسے تمام روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا جس میں سفید وسیاہ اچھی بری ہر طرح کی تھی اسی باعث اولاد آدم بھی بھلی بری ہوئی۔ امام بخاری اسے معلل بتلاتے ہیں فرماتے ہیں اور سند سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے اسے کعب احبار سے بیان کیا ہے اور حضرات محدثین نے بھی اسے معلل بتلایاہے۔ واللہ اعلم۔ اس کا حکم ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اترتا ہے اور ساتوں زمینوں کے نیچے تک پہنچتا ہے جسیے اور آیت میں ہے اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن یتنزل الامر بینھن اللہ تعالیٰ نے ساتھ آسمان بنائے اور انہی کے مثل زمینیں اس کا حکم ان سب کے درمیان اترتا ہے۔ اعمال اپنے دیوان کی طرف اٹھائے اور چڑھائے جاتے ہیں جو آسمان دنیا کے اوپر ہے۔ زمین سے آسمان اول پانچ سو سال کے فاصلہ پر ہے اور اتنا ہی اس کا گھیراؤ ہے۔ اتنا اترنا چڑھنا اللہ کی قدرت سے فرشتہ ایک آنکھ جھپکنے میں کر لیتا ہے۔ اسی لئے فرمایا ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے۔ ان امور کا مدبر اللہ ہے وہ اپنے بندوں کے اعمال سے با خبر ہے۔ سب چھوٹے بڑے عمل اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ وہ غالب ہے جس نے ہر چیز کو اپنے ماتحت کر رکھا ہے کل بندے اور کل گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں وہ اپنے مومن بندوں پر بہت ہی مہربان ہے عزیز ہے اپنی رحمت میں اور رحیم ہے اپنی عزت میں

 

۷

بہترین خالق بہترین مصور و مدیر

فرماتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر چیز کو قرینے سے بہترین طور سے ترکیب پر خوبصورت بنائی ہے۔ ہر چیز کی پیدائش کتنی عمدہ کیسی مستحکم اور مضبوط ہے۔ آسمان و زمین کی پیدائش کیساتھ ہی خود انسان کی پیدائش پر غور کرو۔ اس کا شروع دیکھو کہ مٹی سے پیدا ہوا ہے۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا  ہوئے۔ پر ان کی نسل نطفے سے جاری رکھی جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے۔ پھر اسے یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد ٹھیک ٹھاک اور درست کیا اور اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی۔ تمہیں کان آنکھ سمجھ عطا فرمائی۔ افسوس کہ پھر بھی تم شکر گذاری میں کثرت نہیں کرتے۔ نیک انجام اور خوش نصیب وہ شخص ہے جو اللہ کی دی ہوئی طاقتوں کو اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ جل شانہٗ وعزاسمہ

 

۱۰

انسان اور فرشتوں کا ساتھ

کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہو جائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جاسکتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے۔ جہاں کہا یوں ہو جا وہیں ہو گیا۔ اسی لئے فرما دیا کہ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کر دیں گے۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے۔ حضرت برا کی دہ حدیث جس کا بیان سورۃ ابراہیم میں گزر چکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں۔ ان کے لئے زمین سمٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو۔ کہ جو چاہا اٹھا لیا ۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ کا مقولہ بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ملک الموت میرے صحابی کے ساتھ آسانی کیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود با ایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں۔ سنو! یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم قسم ہے واللہ اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یا تری میں ہر دن میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ کو جانتا ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا جب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو۔ حضرت جعفر کا بیان ہے کہ ملک الموت علیہ السلام کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیا کرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے لا الہ اللہ محمدرسول اللہ کی تلقین کرتا ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں۔ کعب احبار اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دروازے پر ٹھہر کر دن میں بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہو چکا ہو۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے کئے کا پھل پانا ہے

 

۱۲

ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت و حقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہو گئیں کان کھل گئے۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہو جائیں گے۔ سب اندھا و بہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہو گیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت ولو تری اذوقفوا علی النار میں ہے۔ اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے یتے جیسے فرمان ہے۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورے پورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والا کیا کرتا ہے۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے الیوم ننساکم کما نسیتم لقاء یومکم ھذا آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسے اور آیت میں ہے لایذوقون فیھا بردا ولاشرابا وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سواگرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہو گا

 

۱۵

ایماندار وہی ہے جس کے اعمال تابع قرآن ہوں

سچے ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ دل کے کانوں سے ہماری آیتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ زبانی حق مانتے ہیں اور دل سے بھی برحق جانتے ہیں۔ سجدہ کرتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں۔ اور اتباع حق سے جی نہیں چراتے۔ نہ اکڑتے ضد کرتے ہیں۔ یہ بدعات کافروں کی ہے جیسے فرمایا ان الذین یستکبرون عن عبادتی سید خلون جھنم داخرین یعنی میری عبادت سے تکبر کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے۔ ان سچے ایمانداروں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ راتوں کو نیند چھوڑ کر اپنے بستروں سے الگ ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں ، تہجد پڑھتے ہیں۔ مغرب عشاء کے درمیان کی نماز بھی بعض نے مراد لی ہے۔ کوئی کہتا ہے مراد اس سے عشاء کی نماز کا انتظار ہے۔ اور قول ہے کہ عشاء کی اور صبح کی نمازیں با جماعت اس سے مراد ہے۔ وہ اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اس کے عذابوں سے نجات کے لئے اور اس کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے ساتھ ہی صدقہ خیرات بھی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق راہ اللہ میں دیتے رہتے ہیں۔ وہ نیکیاں بھی کرتے ہیں جن کا تعلق انہی کی ذات سے ہے۔ اور وہ نیکیاں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جن کا تعلق دوسروں سے ہے۔ ان بہترین نیکیوں میں سب سے بڑھے ہوئے وہ ہیں جو درجات میں بھی سب سے آگے ہیں۔ یعنی سید اولاد آدم فخر دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعروں میں ہے

وفینا رسول اللہ یتلو کتابہ اذانشق معروف من الصبح ساطع

یبیت یجافی جنبہ عن فراشہ اذاستثقلت بالمشرکین المضاجع

یعنی ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو صبح ہوتے ہی اللہ کی پاک کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ راتوں کو جبکہ مشرکین گہری نیند میں سوتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی کروٹ آپ کی بستر سے الگ ہوتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ دو شخصوں سے بہت ہی خوش ہوتا ہے ایک تو وہ جو رات کو میٹھی نیند سویا ہوا ہے لیکن دفعۃً اپنے رب کی نعمتیں اور اسکی سزائیں یاد کر کے اٹھ بیٹھتا ہے اپنے نرم و گرم بسترے کو چھوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو کر نماز شروع کر دیتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو ایک غزوے میں ہے کافروں سے لڑتے لڑتے مسلمانوں کا پانسہ کمزور پڑ جاتا ہے لیکن یہ شخص یہ سمجھ کر کہ بھاگنے میں اللہ کی ناراضگی ہے اور اگے بڑھنے میں رب کی رضامندی ہے میداں کی طرف لوٹتا ہے اور کافروں سے جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ اپنا سراس کے نام پر قربان کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فخر سے اپنے فرشتوں کو اسے دکھاتا ہے اور اس کے سامنے اس کے عمل کی تعریف کرتا ہے۔ مسند احمد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا صبح کے وقت میں آپ کے قریب ہی چل رہا تھا میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے الگ کر دے آپ نے فرمایا تو نے سوال تو بڑے کام کا کیا ہے لیکن اللہ جس پر آسان کر دے اس پر بڑا سہل ہے۔ سن تو اللہ کی عبادت کرتارہ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر نمازوں کی پابندی کر رمضان کے روزے رکھ بیت اللہ کا حج کر زکوٰۃ ادا کرتا رہ۔ آ اب میں تجھے بھلائیوں کے دروازے بتلاؤں۔ روزہ ڈھال ہے اور انسان کی آدھی رات کی نماز صدقہ گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے۔ پھر آپ نے آیت تتجافی کی یعملون تک کی تلاوت فرمائی۔ پھر آپ نے فرمایا آ اب میں تجھے اس امر کے سر اس کے ستون اور اس کی کوہان کی بلندی بتاؤں۔ اس تمام کا سر تو اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اس کے کوہان کی بلندی اللہ کی راہ کا جہاد ہے۔ پھر آپ نے فرمایا اب میں تجھے تمام کاموں کے سردار کی خبردوں ؟ پھر آپ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اسے روک رکھ میں نے کہا کیا ہم اپنی بات چیت پر بھی پکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اے معاذافسوس تجھے معلوم نہیں انسان کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز تو اس کے زبان کے کنارے ہیں۔ یہی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ایک میں یہ بھی ہے کہ اس آیت تتجافی کو پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس سے مراد بندے کا رات کی نماز پڑھنا ہے۔ ا ور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلمکا یہ فرمان مروی ہے کہ انسان کا آدھی رات کو قیام کرنا۔ پھر حضور کا اسی آیت کو تلاوت کرنا مروی ہے ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جبکہ اول و اخر سب لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو ایک منادی فرشتہ آواز بلند کرے گا جسے تمام مخلوق سنے گی۔ وہ کہے گا کہ آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے زیادہ ذی عزت اللہ کے نزدیک کون ہے؟ پھر لوٹ کر آواز لگائے گا کہ تہجد گذار لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور اس آیت کی تلاوت فرمائے گا تو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور گنتی میں بہت کم ہوں گے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو ہم لوگ مجلس میں بیٹھے تھے۔ اور بعض صحابہ مغرب بعد سے لے کر عشاء تک نماز میں مشغول رہتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث کی یہی ایک سند ہے۔ پھر فرماتا ہے ان کے لئے جنت میں کیا کیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ پوشیدہ بنا کر رکھی ہیں۔ اسی کا کسی کو علم نہیں چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ورنہ کسی دل میں اس کا خیال آیا۔ بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ رحمتیں اور نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ کے دیکھنے میں آئیں نہ کسی کان کے سننے میں نہ کسی کے دل کے سوچنے میں آئے ہوں۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوہریرہ راوی حدیث نے کہا قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو۔ فلاتعلم نفس الخ، اس روایت میں قرۃ کے بجائے قرأت پڑھنا بھی مروی ہے۔ اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہوں گی۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لئے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم وگمان آیا (مسلم) ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت کا وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر یہ آیت تتجا فی سے یعملون تک تلاوت فرمائی۔ حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہیں نہ کانوں نے سنی ہیں بلکہ اندازہ میں بھی نہیں آ سکتیں۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ ادنیٰ جنتی کا درجہ کیا ہے ؟ جواب ملا کہ ادنیٰ جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں۔ اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو اس پر خوش ہے ؟ کہ تیرے لئے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا۔ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرے لئے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت کیا ہے؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت فلا تعلم الخ، ہے۔ حضرت عباس بن عبد الواحد فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ایک جنتی اپنی حور کے ساتھ محبت پیار میں ستر سال تک مشغول رہے گا کسی دوسری چیز کی طرف اس کا التفات ہی نہیں ہو گا۔ پھر جو دوسری طرف التفات ہو گا تو دیکھے گا کہ پہلی سے بہت زیادہ خوبصورت اور نورانی شکل کی ایک اور حور ہے۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر خوش ہو کر کہے گی کہ اب میری مراد بھی پوری ہو گی یہ کہے گا کون ہے؟ وہ کہے گی میں اللہ کی مزید نعمتوں میں سے ہوں۔ اب یہ سراپا اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا پھر ستر سال کے بعد دوسری طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھی ایک اور حور ہے وہ کہے گی اب وقت آگیا کہ آپ میں میرا حصہ بھی ہو  پوچھے گا تم کون ہو؟ وہ جواب دے گی میں ان میں سے ہوں جن کی نسبت جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ہے کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کی کیا کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فرشتے جنتیوں کے پاس دنیا کے اندازے سے ہر دن میں تین تین بار جنت عدن کے اللہ کے تحفے لے کر جائیں گے جو ان کی جنت میں نہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ وہ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے۔ حضرت ابوالیمان فزاری یا کسی اور سے مروی ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں پہلا درجہ چاندی کا ہے اس کی زمین بھی چاندی کی ہے اس کے محلات بھی چاندی کے اس کی مٹی مشک کی ہے۔ تیسری موتی کی۔ زمین بھی موتی کی گھر بھی موتی کے برتن بھی موتی کے اور مٹی مشک کی۔ اور باقی ستانوے تو وہ ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نہ سنیں نہ کسی انسان کے دل میں گزریں۔ پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ ابن جریر میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت روح الامین سے روایت کرتے ہیں کہ انسان کی نیکیاں بدیاں لائی جائی گی۔ بعض بعض سے کم کی جائیں گی پھر اگر ایک نیکی بھی باقی بچ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا دے گا اور جنت میں کشادگی عطا فرمائے گا۔ راوی نے یزداد سے پوچھا کہ نیکیاں کہاں چلی گئیں ؟ تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی اولئک الذین نتقبل عنہم احسن ماعملوا ونتجاوزعن سیاتھم الخ، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم نے قبول فرما لئے اور ان کی برائیوں سے ہم نے درگزر فرما لیا ۔ راوی نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی ہیں ؟ فلاتعلم نفس الخ، فرمایا بندہ جب کوئی نیکی لوگوں سے چھپا کر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کے آرام کی خبریں جو اس کے لئے پوشیدہ رکھ چھوڑی تھیں عطا فرمائے گا

 

۱۸

نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے

اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بد کار برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلھم کالذین امنوا وعملوا الصالحات الخ، یعنی کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اور آیت میں ہے ام نجعل الذین امنوا وعملو ا الصالحات کالمفسدین فی الارض الخ، یعنی ایماندا نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں ؟ پرہیز گاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں ؟ اور آیت لایستوی اصحاب النار و اصحاب الجنۃ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے۔ یہاں بھی فرمایا کہ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلندبالا خانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہو گی۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہو گی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے کلما ارادو ان یخرجوا من غم اعیدوا فیھا یعنی جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے۔ حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں گے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہوں گے فرشتے انہیں سزائیں کر رہے ہوں گے اور جھڑک کر فرماتے ہوں گے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔ عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقررہ کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ حضرت ابی فرماتے ہیں چاند کا شق ہو جانا دھوئیں کا انا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ پھر فرماتا ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پا کر ان سے منہ موڑ لے بلکہ ان کا انکار کر جائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔ یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمانی کی جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ مجرموں سے باز پرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے۔ (ابن ابی حاتم)۱۹

 

۲۳

شب معراج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم

فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب تورات دی تو اس کے ملاقات کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہ۔ قتادہ فرماتے ہیں یعنی معراج والی رات میں۔ حدیث میں ہے میں نے معراج والی رات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ گندم گوں رنگ کے لانبے قد کے گھونگریالے بالوں والے تھے ایسے جیسے قبیلہ شنواہ کے آدمی ہوتے ہیں۔ اسی رات میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ درمیانہ قد کے سرخ وسفید تھے سیدھے بال تھے۔ میں نے اسی رات حضرت مالک کو دیکھا جو جہنم کے داروغہ ہیں اور دجال کو دیکھا یہ سب ان نشانیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھائیں پس اس کی ملاقات میں شک وشبہ نہ کر۔ آپ نے یقیناً حضرت موسیٰ کو دیکھا اور ان سے ملے جس رات آپ کو معراج کراکئی گئی۔ حضرت موسیٰ کو ہم نے بنی اسرائیل کا ہادی بنا دیا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ہم نے اسرائیلیوں کو ہدایت دی۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے واتینا موسیٰ الکتاب وجعلنا ہ ھدی لبنی اسرائیل الخ، یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنا دیا کہ تم میرے سواکسی کو کار ساز نہ سمجھو۔ پھر فرماتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اس کی نافرمانیوں کے ترک اس کی باتوں کی تصدیق اور اس کے رسولوں کی اتباع وصبر میں جمے رہے ہم نے ان میں سے بعض کو ہدایت کے پیشوا بنا دیا جو اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچاتے ہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں۔ لیکن جب ان کی حالت بدل گئی انہوں نے کلام اللہ میں تبدیلی تحریف تاویل شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہ منصب چھین لیا ان کے دل سخت کر دئیے عمل صالح اور اعتقاد صحیح ان سے دور ہو گیا۔ پہلے تو یہ دنیا سے بچے ہوئے تھے حضرت سفیان فرماتے ہیں آپ یہ لوگ ایسے ہی تھے لہذا انسان کے ضروری ہے کہ اس کا کوئی پیشوا ہو جس کی یہ اقتدا کر کے دنیا سے بچا ہوا رہے آپ فرماتے ہیں دن کے لئے علم ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے۔ حضرت سفیان سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کے بارے میں سوال ہو کہ صبر کی وجہ سے ان کو ایسا پیشوا بنا دیا کہ وہ ہمارے حکم کی ہدایت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا اللہ نے بھی انہیں پیشوا بنا دیا۔ چنانچہ فرمان ہے ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ روزیاں عنایت فرمائیں اور جہاں والوں پر فضلیت دی۔ یہاں بھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ جن عقائد واعمال میں ان کا اختلاف ہے ان کا فیصلہ قیامت کے دن خود اللہ کرے گا

 

۲۶

دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ کا خط

کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہ و بالا کر دیا ہے۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلا یا اللہ کی باتوں سے بے پرواہی کی۔ اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لئے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں۔ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کتنا بد انجام ہوا؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے نا آشنا ہیں۔ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف و کرم کو احسان و انعام کو بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کر ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے۔ بنجر غیرآباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے۔ گو مفسرین کو قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہو گئے ہوں زمین پیوست (خشکی) کے مارے پھٹنے لگی ہو۔ بیشک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتاجاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہرسال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسرآتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے۔ اس حکیم و کریم منان و رحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک با کرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلا کر رضامند کر لیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو ا سکا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں۔ سپہ سلار اسلام حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر نے جواب دیا کہ یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسانہیں کر سکتے۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہینہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا۔ لوگ تنگ آ کر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں۔ یہاں کی بود و باش ترک کر دیں اب فاتح مصر کو خیال گزرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پر چہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو۔ حضرت عمرہ بن عاص رضی اللہ تعالیٰ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے بندے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف۔ بعد حمد و صلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد و قہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہیں کہ وہ تجھے رواں کر دے۔ یہ پر چہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ ابھی ایک رات بھی گزرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بد گئی۔ خط کے ساتھ ہی خطہ کا خطہ سرسبز ہو گیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا۔ (کتاب السنہ للحافظ ابو القاسم اللالکائی) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے فلینظرالانسان الی طعامہ الخ، یعنی انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جرزہ وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ زمین یمن میں ہے حسن فرماتے ہیں ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں۔ ابن زید وغیرہ کو قول ہے یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہونے اور غبار آلود ہو۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے وایتہ لھم الارض المیتہ الخ، ان کے لئے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کر دیتے ہیں۔

 

۲۸

نافرمان اپنی بربادی کو آپ بلاوا دیتا ہے

کافر اعتراضاً کہا کرتے تھے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جو ہمیں کہا کرتے ہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کر دیا ہے کہ تم ہم پر فتح پاؤ گے اور ہم سے بدلے لو گے وہ وقت کب آئے گا؟ ہم تو مدتوں سے تمہیں مغلوب زیر اور بے وقعت دیکھ رہے ہیں۔ چھپ رہے ہو ڈر رہے ہو اگر سچے ہو تو اپنے غلبے کا اور اپنی فتح کو وقت بتاؤ۔ اللہ فرماتا ہے کہ جب عذاب اللہ آ جائے گا اور جب اس کا غصہ اور غضب اتر پڑتا ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اس وقت نہ تو ایمان نفع دیتا ہے نہ مہلت ملتی ہے۔ جیسے فرمان ہے فلما جاء تھم رسلم بالبینات الخ، یعنی جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر دلیلیں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر نازاں ہونے لگے پوری دو آیتوں تک۔ اس سے فتح مکہ مراد نہیں۔ فتح مکہ والے دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کافروں کو اسلام لانا قبول فرمایا تھا اور تقریباً دو ہزار آدمی اس دن مسلمان ہوئے تھے۔ اگر اس آیت میں یہی فتح مکہ مراد ہوتی تو چاہے تھا کہ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام ان کا اسلام قبول نہ فرماتے جیسے اس آیت میں ہے کہ اس دن کافروں کا اسلام لانا مقبول ہو گا۔ بلکہ یہاں مراد فتح سے فیصلہ ہے جیسے قرآن میں ہے فافتح بینی وبینھم فتحا ہمارے درمیان تو فتح کر یعنی فیصلہ کر۔ اور جیسے اور مقام پر ہے قل یجمع بیننا ربنا ثم یفتح بیننا بالحق یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے آپس کے فیصلے فرمائے گا اور آیت میں ہے واستفحوا وخاب کل جبار عنید یہ فیصلہ چاہتے ہیں سرکش ضدی تباہ ہوئے اور جگہ ہے وکانوا من قبل یستفحون علی الذین کفروا اس سے پہلے وہ کافروں پر فتح چاہتے تھے اور آیت میں فرمان باری ہے ان تستفتحوا فقدجاء کم الفتح اگر تم فیصلے کے آرزومند ہو تو فتح آ گئی۔ پھر فرماتا ہے آپ ان مشرکین سے بے پرواہ ہو جائیے جو رب نے اتارا ہے اسے پہنچاتے رہیے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اپنے رب کی وحی کی اتباع کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔ پھر فرمایا تم اپنے رب کے وعدوں کو سچا مان لو اسکی باتیں اٹل ہیں اس کے فرمان سچے ہیں وہ عنقریب تجھے تیرے مخالفین پر غالب کرے گا وہ وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ بھی منتظر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ آپ پر کوئی آفت آئے لیکن ان کی یہ چاہتیں بے سود ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے والوں کو بھولتا نہیں نہ انہیں چھوڑتا ہے بھلا جو رب کے احکام پر جمے رہیں اللہ کی باتیں دوسروں کو پہنچائیں وہ تائید ایزدی سے کیسے محروم کر دئیے جائیں ؟ یہ جو کچھ تم پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان پر اترے گا بدبختی (نکبت) و ادبار میں ہائے وائے واویلا میں گرفتار کئے جائیں گے۔ رب کے عذابوں کا شکار ہوں گے۔ کہہ دو کہ اللہ ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے