تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ النّجْم

صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ سب سے پہلی سورت جس میں سجدہ تھا سورہ والنجم اتری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اور آپ کے آگے پیچھے جتنے تھے سب نے سجدہ کیا لیکن ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر اسی پر سجدہ کر لیا پھر میں نے دیکھا کہ وہ اس کے بعد کفر کی حالت میں ہی مارا گیا یہ امیہ بن خلف تھا لیکن اس میں ایک اشکال ہے یہ کہ دوسری روایت میں ہے کہ یہ عتبہ بن ربیعہ تھا۔

 

۱

 حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھالے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی (ابن ابی حاتم) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہو نا ہے۔ بعض کہتے ہیں مرادزہرہ نامی ستارہ ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مرادس اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہو سکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے۔ اس آیت جیسی ہی آیت (فلا اقسم بمواقع النجوم) الخ، ہے۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بے علمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپ کو حکم الٰہی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسندا حمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا۔

 

۵

تعارف جبرئیل امین علیہ السلام

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے معلم حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے (انہ لقول رسول کریم) الخ، یہ قرآن ایک بزرگ زور اور فرشتے کا قول ہے جو مالک عرش کے ہاں با عزت سب کا مانا ہوا ہے وہاں معتبر ہے یہاں بھی فرمایا وہ قوت والا ہے (ذو مرۃ) کی ایک تفسیر تو یہی ہے دوسری یہ ہے کہ وہ خوش شکل ہے حدیث میں بھی مرۃ کا لفظ آیا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں صدقہ مالدار پر اور قوت والے تندرست پر حرام ہے۔ پھر وہ سیدھے کھڑے ہو گئے یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام۔ اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھے جہاں سے صبح چڑھتی ہے جو سورج کے طلوع ہونے کی جگہ ہے ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا ہے ایک مرتبہ آپ کی خواہش پر امین اللہ اپنی صورت میں آپ کو دکھائی دئیے آسمانوں کے تمام کنارے ان کے جسم سے ڈھک گئے تھے۔ دوبارہ اس وقت جبکہ آپ کو لے کر حضرت جبرئیل اوپر چڑھے تھے۔ یہ مطلب (وھو بالافق الاعلیٰ) کا امام ابن جریر نے اس تفسیر میں ایک ایسا قول کہا ہے جو کسی نے نہیں کہا اور خود انہوں نے بھی اس قول کی اضافت دوسرے کی طرف نہیں کی ان کے فرمان کا ماحصل یہ ہے کہ جبرئیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دونوں آسمانوں کے کناروں پر سیدھے کھڑے ہوئے تھے اور یہ واقعہ معراج کی رات کا ہے امام ابن جریر کی اس تفسیر کی تائید کسی نے نہیں کی گو امام صاحب نے عربیت کی حیثیت سے اسے ثابت کیا ہے اور عربی قواعد سے یہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہے یہ واقعہ کے خلاف اس لئے کہ یہ دیکھنا معراج سے پہلے کا ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زمین پر تھے آپ کی طرف جبرئیل اترے تھے اور قریب ہو گئے تھے اور اپنی اصلی صورت میں تھے چھ سو پر تھے پھر اسکے بعد دوبارہ سدرۃ المنتہی کے پاس معراج والی رات دیکھا تھا۔ یہ تو دوسری مرتبہ کا دیکھنا تھا لیکن پہلی مرتبہ کا دیکھنا تو شروع رسالت کے زمانہ کے وقت کا ہے پہلی وحی (اقرا باسم) الخ کی چند آیتیں آپ پر نازل ہو چکی تھیں پھر وحی بند ہو گئی تھی جس کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑا خیال بلکہ بڑا ملال تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ آپ کا ارادہ ہوا کہ پہاڑ سے گر پڑوں لیکن بروقت آسمان کی طرف سے حضرت جبرئیل کی یہ ندا سنائی دیتی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔ آپ کا غم غلط ہو جاتا دل پرسکون اور طبیعت میں قرار ہو جاتا واپس چلے آتے۔ لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد شوق دامنگیر ہوتا اور وحی الہی کی لذت یاد آتی تو نکل کھڑے ہوتے اور پہاڑ پر سے اپنے آپ گرادینا چاہتے اور اسی طرح حضرت جبرئیل تسکین و تسلی کر دیا کرتے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ابطح میں حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے چھ سو پر تھے جسامت کے آسمان کے تمام کنارے ڈھک لئے تھے اب آپ سے قریب آ گئے اور اللہ عز و جل کی وحی آپ کو پہنچائی اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اس فرشتے کی عظمت و جلالت معلوم ہوئی اور جان گئے کہ اللہ کے نزدیک یہ کس قدر بلند مرتبہ ہے۔ مسند بزار کی ایک روایت امام ابن جریر کے قول کی تائید میں پیش ہو سکتی ہے مگر اس کے راوی صرف حارث بن عبید ہیں جو بصرہ کے رہنے والے شخص ہیں۔ ابو قدامہ ایادی ان کی کنیت ہے مسلم میں ان سے روایتیں آئی ہیں لیکن امام بان معین انہیں ضعیف کہتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں، امام احمد فرماتے ہیں یہ مضطرب ال حدیث ہیں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے کہ ان کی حدیثیں لکھ لی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں لی جاسکتی ابن حبان فرماتے ہیں یہ بڑے وہمی تھے ان سے احتجاج درست نہیں، پس یہ حدیث صرف ان ہی کی روایت سے ہے تو علاوہ غریب ہونے کے منکر ہے اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو ممکن ہے یہ واقعہ کسی خواب کا ہو اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میں بیٹھا تھا کہ ایک درخت ہے جس میں پرندوں کے آشیانوں کی طرح بیٹھنے کی جگہیں بنی ہوئی ہیں ایک میں تو حضرت جبرئیل بیٹھ گئے اور دوسرے میں میں بیٹھ گیا۔ پھر وہ درخت بلند ہونے لگا یہاں تک کہ میں آسمان سے بالکل قریب پہنچ گیا میں دائیں بائیں کروٹیں بدلتا تھا اور اگر میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر آسمان کو چھو لیتا میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل اس وقت ہیبت الہی سے مثل بورئیے کے پیچھے جا رہے تھے، اس وقت میں سمجھ گیا کہ اللہ کی جلالت و قدر کے علم میں انہیں مجھ پر فضیلت ہے۔ آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ مجھ پر کھل گیا میں نے بہت بڑا عظیم الشان نور دیکھا اور پردے کے پاس در و یاقوت کو ہلتے اور حرکت کرتے دیکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی فرمانی چاہی وہ فرمائی۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرئیل کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا ہے ان کے چھ سو پر تھے ہر ایک ایسا جس میں آسمان کے کنارے پر کر دئیے تھے ان سے زمرد موتی اور مروارید جھڑ رہے تھے۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جبرئیل صلی اللہ علیہ و سلم سے خواہش کی کہ میں آپ کو آپ کی اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں حضرت جبرئیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے آپ نے دعا کی تو مشرق کی طرف سے آپ کو کوئی چیز اونچی اٹھتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی نظر آئی جسے دیکھ کر آپ بے ہوش ہو گئے جبرئیل فوراً آئے اور آپ کو ہوش میں لائے اور آپ کی باچھوں سے تھوک دور کیا۔ ابن عساکر میں ہے کہ ابو لہب اور اس کا بیٹا عتبہ شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا سفر میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ ذرا محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا اے محمد جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آگیا میں تو اس کا منکر ہوں (چونکہ یہ ناہنجار سخت بے ادب تھا اور بار بار گستاخی سے پیش آتا تھا) حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے اس کے لئے بد دعا نکل گئی کہ باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے، یہ جب لوٹ کر اپنے باپ کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا بیٹا اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہو گیا اس کی دعا رد نہ جائے گی، اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سرزمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا راہب نے ان سے کہا یہاں تو بھیڑئیے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آ گئے؟ ابو لہب یہ سن کر ٹھٹک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے کیسے کچھ حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ تم سب اسے قبول کرو گے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت نے میرے جگر گوشے کے لئے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے تم اپنا سب اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس پر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو لوگوں نے اسے منظور کر لیا یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار رہے کہ اچانک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے جست کی اور ایک چھلانگ میں اس مچان پر پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑا دئیے، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، اس وقت ابو لہب کہنے لگا اس کا تو مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا۔ پھر فرماتا ہے کہ حضرت جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے قریب ہوئے اور زمین کی طرف اترے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اور حضرت جبرئیل کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیکی ہو گئی یہاں لفظ (او)جس کی خبر دی جاتی ہے اس کے ثابت کرنے کے لئے آیا ہے اور اس پر جو زیادتی ہو اس کے نفی کے لئے جیسے اور جگہ ہے پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے پس وہ مثل پتھروں کے ہیں (او اشد قسوۃ) بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت یعنی پتھر سے کم کسی صورت میں نہیں بلکہ اس سے بھی سختی میں بڑھے ہوئے ہیں ایک اور فرمان ہے وہ لوگوں سے ایسا ڈرتے ہیں جیسا کہ اللہ سے (او اشد خشیۃ) بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور جگہ ہے ہم نے انہیں ایک لاکھ کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ کی طرف یعنی وہ ایک لاکھ سے کم تو تھے ہی نہیں بلکہ حقیقتاً وہ ایک لاکھ تھے یا اس سے زیادہ ہی زیادہ۔ پس اپنی خبر کی تحقیق ہے شک و تردد کے لئے نہیں خبر میں اللہ کی طرف سے شک کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتا۔ یہ قریب آنے والے حضرت جبرئیل تھے جیسے ام المومنین عائشہ، ابن مسعود، ابوذر ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فرمان ہے اور اس بابت کی حدیثیں بھی عنقریب ہم وارد کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا جن میں سے ایک کا بیان اس آیت (ثم دنا) میں ہے۔ حضرت انس والی معراج کی حدیث میں ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العزت قریب ہوا اور نیچے آیا اور اسی لئے محدثین نے اس میں کلام کیا ہے اور کئی ایک غرابتیں ثابت کی ہیں اور اگر ثابت ہو جائے کہ یہ صحیح ہے تو بھی دوسرے وقت اور دوسرے واقعہ پر محمول ہو گی اس آیت کی تفسیر نہیں کہی جا سکتی۔ یہ واقعہ تو اس وقت کا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زمین پر تھے نہ کہ معراج والی رات کا۔ کیونکہ اس کے بیان کے بعد ہی فرمایا ہے ہمارے نبی نے اسے ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا ہے پس یہ سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھنا تو واقعہ معراج کا ذکر ہے اور پہلی مرتبہ کا دیکھنا یہ زمین پر تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے جبرئیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ابتداء نبوت کے وقت آپ نے خواب میں حضرت جبرئیل کو دیکھا پھر آپ پھر آپ اپنی ضروری حاجت سے فارغ ہونے کے لئے نکلے تو سنا کہ کوئی آپ کا نام لے کر آپ کو پکار رہا ہے ہر چند دائیں بائیں دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ تیسری بار آپ نے اوپر کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ حضرت جبرئیل اپنے دونوں پاؤں میں سے ایک کو دوسرے سمیت موڑے ہوئے آسمان کے کناروں کو روکے ہیں، قریب تھا کہ حضور دہشت زدہ ہو جائیں کہ فرشتے نے کہا میں جبرئیل ہوں میں جبرئیل ہوں ڈرو نہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ضبط نہ ہو سکا، بھاگ کر لوگوں میں چلے آئے اب جو نظریں ڈالیں تو کچھ دکھائی نہ دیا پھر یہاں سے نکل کر باہر گئے اور آسمان کی طرف نظر ڈالی تو پھر حضرت جبرئیل اسی طرح نظر آئے آپ پھر خوف زدہ لوگوں کے مجمع میں آ گئے تو یہاں کچھ بھی نہیں باہر نکل کر پھر جو دیکھا تو وہی سماں نظر آیا پس اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے قاب آدھی انگلی کو بھی کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت جبرئیل پر دو ریشمی حلے تھے پھر فرمایا اس نے وحی کی اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ حضرت جبرئیل نے اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف وحی کی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف جبرئیل کی معرفت اپنی وحی نازل فرمائی۔ دونوں معنی صحیح ہیں حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس وقت کی وحی (الم یجدک یتیما) اور (ورفعنا لک ذکرک) تھی اور حضرات سے مروی ہے کہ اس وقت یہ وحی نازل ہوئی تھی۔ کہ نبیوں پر جنت حرام ہے جب تک کہ آپ اس میں نہ جائیں اور امتوں پر جنت حرام ہے جب تک کہ پہلے اس کی امت داخل نہ ہو جائے، ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے اپنے دل سے اللہ کو دو دفعہ دیکھا ہے حضرت ابن مسعود نے دیکھنے کو مطلق رکھا ہے یعنی خواہ دل کا دیکھنا ہو خواہ ظاہری آنکھوں کا یہ ممکن ہے کہ اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کریں یعنی آپ نے اپنے دل سے دیکھا جن بعض حضرات نے کہا ہے کہ اپنی ان آنکھوں سے دیکھا انہوں نے ایک غریب قول کہا ہے اس لئے کہ صحابہ سے اس بارے میں کوئی چیز صحت کے ساتھ مروی نہیں، امام بغوی فرماتے ہیں ایک حضرات اس طرف گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی آنکھوں دیکھا جیسے حضرت انس، حضرت حسن اور حضرت عکرمہ ان کے اس قول میں نظر ہے واللہ اعلم۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں میں نے یہ سن کر کہا پھر یہ آیت کہاں جائے گا جس میں فرمان ہے (لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار) اسے کوئی نگاہ نہیں پا سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پا لیتا ہے آپ نے جواب دیا کہ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اپنے نور کی پوری تجلی کرے ورنہ آپ نے دو دفعہ اپنے رب کو دیکھا۔ یہ حدیث غریب ہے ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ ابن عباس کی ملاقات حضرت کعب سے ہوئی اور انہیں پہچان کر ان سے ایک سوال کیا جو ان پر بہت گراں گزرا ابن عباس نے فرمایا ہمیں بنو ہاشم نے یہ خبر دی ہے تو حضرت کعب نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار اور اپنا کلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت موسیٰ کے درمیان تقسیم کر دیا حضرت موسیٰ سے دو مرتبہ باتیں کیں اور آنحضرت کو دو مرتبہ اپنا دیدار کرایا۔ ایک مرتبہ حضرت مسروق حضرت عائشہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا تو نے تو ایسی بات کہہ دی کہ جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میں نے کہا مائی صاحبہ قرآن کریم فرماتا ہے آپ نے اپنے رب کی نشانیاں دیکھیں آپ نے فرمایا کہاں جا رہے ہو ؟ سنو اس سے مراد حضرت جبرئیل کا دیکھنا ہے جو تم سے کہے کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا یا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے کسی فرمان کو چھپا لیا یا آپ ان پانچ باتوں میں سے کوئی بات جانتے تھے یعنی قیامت کب قائم ہو گی ؟ بارش کب اور کتنی برسے گی ؟ ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ ؟ کون کل کیا کرے گا ؟ کون کہاں مرے گا ؟ اس نے بڑی جھوٹ بات کہی اور اللہ پر بہتان باندھا بات یہ ہے کہ آپ نے دو مرتبہ اللہ کے اس جبرئیل امین کو دیکھا تھا آپ نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک تو سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک مرتبہ جیاد میں ان کے چھ سو پر تھے اور آسمان کے کل کنارے انہوں نے بھر رکھے تھے نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ خلت حضرت ابراہیم کے لئے تھی اور کلام حضرت موسیٰ کے لئے اور دیدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے صحیح مسلم میں حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا وہ سراسر نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ ایک روایت میں ہے میں نے نور دیکھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ صحابہ کے اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا میں نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ نے آیت (ما کذب الفواد) پڑھی۔ اور روایت میں ہے میں نے اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہاں دل سے دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ نے آیت (ثم دنا فتدلیٰ) پڑھی حضرت عکرمہ سے (ما کذب الفواد) کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ہاں آپ نے دیکھا اور پھر دیکھا سائل نے پھر حضرت حسن سے بھی سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس کے جلال عظمت اور چادر کبریائی کو دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک مرتبہ یہ جواب دینا بھی مروی ہے کہ میں نے نن ہر دیکھی اور نہر کے پیچھے پردہ دیکھا اور پردے کے پیچھے نور دیکھا اس کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ایک حدیث مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا ہے اس کی اسناد شرط صحیح پر ہے لیکن یہ حدیث حدیث خواب کا مختصر ٹکڑا ہے چنانچہ مطول حدیث میں ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آج کی رات آیا (راوی کہتا ہے میرے خیال میں)خواب میں آیا اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم جانتے ہو بلند مقام والے فرشتے کس مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو بازوؤں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی، پس زمین و آسمان کی ہر چیز مجھے معلوم ہو گئی پھر مجھ سے وہی سوال کیا میں نے کہا اب مجھے معلوم ہو گیا وہ ان نیکیوں کے بارے میں جو گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور جو درجے بڑھاتی ہیں آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں مجھ سے حق جل شانہ نے پوچھا اچھا پھر تم بھی بتاؤ کفارے کی نیکیاں کیا کیا ہیں ؟ میں نے کہا نمازوں کے بعد میں مسجدوں میں رکے رہنا جماعت کے لئے چل کر آنا۔ جب وضو ناگوار گزرتا ہو اچھی طرح مل مل کر وضو کرنا۔ جو ایسا کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا اور خیر کے ساتھ انتقال ہو گا اور گناہوں سے اس طرح الگ ہو جائے گا جیسے آج دنیا میں آیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز پڑھو یہ کہو (اللھم انی اسئلک فعل الخیرات وترک المنکرات وحب المساکین واذا اردت بعبادک فتنۃ ان تقبضنی الیک غیر مفتون) یعنی یا اللہ میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے برائیوں کے چھوڑنے مسکینوں سے محبت رکھنے کی توفیق طلب کرتا ہوں تو جب اپنے بندوں کو فتنے میں ڈالنا چاہے تو مجھے فتنے میں پڑنے سے پہلے ہی اپنی طرف اٹھا لینا فرمایا اور درجے بڑھانے والے اعمال یہ ہیں کھانا کھلانا سلام پھیلانا لوگوں کی نیند کے وقت رات کو تہجد کی نماز پڑھنا اسی کی مثل روایت سورہ ص مکی کی تفسیر کے خاتمے پر گزر چکی ہے ابن جریر میں یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے جس میں غربت والی زیادتی اور بھی بہت سی ہے اس میں کفارے کے بیان میں ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے پیدل چلنے کے قدم ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار میں نے کہا یا اللہ تو نے حضرت ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ کو اپنا کلیم بنایا اور یہ کیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا اور تیرا بوجھ ہٹا نہیں دیا ؟ اور فلاں اور فلاں احسان تیرے اوپر نہیں کئے؟ اور دیگر ایسے ایسے احسان بتائے کہ تمہارے سامنے ان کے بیان کی مجھے اجازت نہیں۔ اسی کا بیان ان آیتوں (ثم دنا فتدلیٰ)ٌالخ، میں ہے پس اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کا نور میرے دل میں پیدا کر دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا۔ اس کی اسناد ضعیف ہے اوپر عتبہ بن ابو لہب کا یہ کہنا کہ میں اس قریب آنے اور نزدیک ہونے والے کو نہیں مانتا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اس کے لئے بد دعا کرنا اور شیر کا اسے پھاڑ کھانا بیان ہو چکا ہے یہ واقعہ زرقا میں یا سراۃ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشگوئی فرما دی تھی کہ یہ اس طرح ہلاک ہو گا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت جبرئیل کو دوبارہ دیکھنا بیان ہو رہا ہے جو معراج والی رات کا واقعہ ہے۔ معراج کی حدیثیں نہایت تفصیل کے ساتھ سورہ سبحان کی شروع آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہیں جن کے دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں یہ بھی بیان گزر چکا ہے کہ حضرت ابن عباس معراج والی رات دیدار باری تعالیٰ کے ہونے کے قائل ہیں ایک جماعت سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے اور صحابہ کی بہت سی جماعتیں اس کے خلاف ہیں اسی طرح تابعین اور دورے بھی اس کے خلاف ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا جبرئیل کو پروں سمیت دیکھنا وغیرہ اس قسم کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں حضرت عائشہ سے حضرت مسروق کا پوچھنا اور آپ کا جواب بھی ابھی بیان ہوا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ صدیقہ اپنے اس جواب کے بعد آیت (لا تدرکہ الابصار) الخ، کی تلاوت کی اور (ماکان لبشر) کی بھی تلاوت فرمائی یعنی کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پالیتا ہے کسی انسان سے اللہ کا کلام کرنا ممکن نہیں ہاں وحی سے یا پردے کے پیچھے سے ہو تو اور بات ہے پھر فرمایا جو تم سے کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کل کی بات کا علم تھا اس نے غلط اور جھوٹ کہا پھر آیت (ان اللہ عندہ علم الساعۃ) آخر تک پڑھی۔ اور فرمایا جو کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی کسی بات کو چھپا لیا اس نے بھی جھوٹ کہا اور تہمت باندھی اور پھر آیت(یا ایھا الرسول بالغ ما انزل الیک من ربک) پڑھی یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو تمہاری جو تمہاری جانب تمہارے رب کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو۔ ہاں آپ نے حضرت جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسروق نے حضرت عائشہ کے سامنے سورہ نجم کی آیت (بالافق المبین) اور (نزلۃ اخرٰی) پڑھیں اس کے جواب میں ام المومنین حضرت عائشہ نے فرمایا اس امت میں سب سے پہلے ان آیتوں کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے سوال کیا تھا آپ نے فرمایا اس سے مراد میرا حضرت جبرئیل کو دیکھنا ہے آپ نے صرف دو دفعہ اس امین اللہ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک مرتبہ آسمان سے زمین پر آتے ہوئے اس وقت تمام خلاء ان کے جسم سے پر تھا یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبد اللہ بن شفیق نے حضرت ابوذر سے کہا کہ اگر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا تو آپ سے ایک بات ضرور پوچھتا حضرت ابوذر نے کہا کیا پوچھتے؟ کہا یہ کہ آپ نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا ہے ؟ حضرت ابوذر نے فرمایا یہ سوال تو خود میں نے جناب رسالت مآب سے کیا تھا آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا، صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے دونوں کے الفاظ میں کچھ ہیرپھیر ہے۔ حضرت امام احمد فرماتے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس حدیث کی کیا توجیہ کروں دل اس پر مطمئن نہیں ابن ابی حاتم میں حضرت ابوذر سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دل سے دیدار کیا ہے آنکھوں سے نہیں امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں عبد اللہ بن شفیق اور حضرت ابوذر کے درمیان انقطاع ہے اور امام ابن جوزی فرماتے ہیں ممکن ہے حضرت ابوذر کا یہ سوال معراج کے واقعہ سے پہلے کا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت یہ جواب دیا ہو اگر یہ سوال معراج کے بعد آپ سے کیا جاتا تو ضرور آپ اس کے جواب میں ہاں فرماتے انکار نہ کرتے۔ لیکن یہ قول سرتاپا ضعیف ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ کا سوال قطعاً معراج کے بعد تھا لیکن آپ کا جواب اس وقت بھی انکار میں ہی رہا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ان سے خطاب ان کی عقل کے مطابق کیا گیا یا یہ کہ ان کا یہ خیال غلط ہے چنانچہ ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں یہی لکھا ہے دراصل یہ محض خطا ہے اور بالکل غلطی ہے واللہ اعلم، حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو دل سے تو دیکھا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہاں حضرت جبرئیل کو اپنی آنکھوں سے ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہی پر اس وقت فرشتے بہ کثرت تھے اور نور ربانی اس پر جگمگا رہا تھا اور قسم قسم کے رنگ جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں معراج والی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سدرۃ المنتہی تک پہنچے جو ساتویں آسمان پر ہے زمین سے جو چیزیں چڑھتی ہیں وہ یہیں تک چڑھتی ہیں پھر یہاں سے اٹھا لی جاتی ہیں اسی طرح جو چیزیں اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں یہیں تک پہنچتی ہیں پھر یہاں سے پہنچائی جاتی ہیں اس وقت اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں لدی ہوئی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو وہاں تین چیزیں عطا فرمائی گئیں پانچوں وقت کی نمازیں سورہ بقرہ کی خاتمہ کی آیتیں اور آپ کی امت میں سے جو مشرک نہ ہو اس کے گناہوں کی بخشش(مسلم) فرشتے چھا رہے تھے وہاں جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ جو مانگنا ہو مانگو۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس درخت کی شاخیں مروارید یاقوت اور زبرجد کی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھا اور اپنے دل کی آنکھوں سے اللہ کی بھی زیارت کی۔ ابن زید فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ آپ نے سدرہ پر کیا دیکھا ؟ آپ نے فرمایا اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھانکے ہوئے تھیں اور ہر ایک پتے پر ایک ایک فرشتہ کھڑا ہوا اللہ کی تسبیح کر رہا تھا۔ آپ کی نگاہیں دائیں بائیں نہیں ہوئیں جس چیز کے دیکھنے کا حکم تھا وہیں لگی رہیں۔ ثابت قدمی اور کامل اطاعت کی یہ پوری دلیل ہے کہ جو حکم تھا وہی بجا لائے جو دئیے گئے وہی لے کر خوش ہوئے اسی کو ایک نظم نے تعریفاً کہا ہے۔ آپ نے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں جیسے اور جگہ ہے (لنزیک من ایاتنا الکبری) اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں جو ہماری کامل قدرت اور زبردست عظمت پر دلیل بن جائیں۔ ان دونوں آیتوں کو دلیل بنا کر اہل سنت کا مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس رات اللہ کا دیدار اپنی آنکھوں سے نہیں کیا کیونکہ ارشاد باری ہے کہ آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، اگر خود اللہ کا دیدار ہوا ہوتا تو اسی دیدار کا ذکر ہوتا اور لوگوں پر سے اسے ظاہر کیا جاتا ابن مسعود کا قول گزر چکا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی خواہش پر دوسری دفعہ آسمان پر چڑھتے وقت جبرئیل کو آپ نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔ پس جبکہ جبرئیل نے اپنے رب عز و جل کو خبر دی اپنی اصلی صورت میں عود کر گئے اور سجدہ ادا کیا، پس سدرۃ المنتہی کے پاس دوبارہ دیکھنے سے انہی کا دیکھنا مراد ہے، یہ روایت مسندا حمد میں ہے اور غریب ہے۔

 

۱۹

بتکدے کیا تھے؟

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں۔ لات ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا غلاف چڑھائے جاتے تھے مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ لات بنایا تھا گویا اس کا مونث بنایا تھا اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ لات تاکہ تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے لات اس معنی میں اس لئے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کر دی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح لفظ عزیٰ لفظ عزیر سے لیا گیا ہے مکے اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے۔ ابو سفیان والے نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا نہیں جس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کہلوایا تھا اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری کوئی نہیں صحیح بخاری میں ہے جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھابیٹھے اسے چاہیے کہ فورا لا الہ الا للہ کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آجوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیے حضرت سعد بن وقاص ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گئے آپ نے فرمایا (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک و آلہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر) پڑھ لو اور تین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا مکے اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں مناۃ تھا۔ قبیلہ خزاعہ، اوس، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باند کر وہ حج کعبہ کے لئے جاتے تھے اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لئے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا اس بت کے توڑنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہتے جاتے تھے ؎

یا عزی کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک

اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی آپ نے فرمایا تم نے کچھ نہیں کیا لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ حضرت خالد کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر یا عزیٰ یا عزیٰ کے نعرے لگائے حضرت خالد نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے آپ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دی آپ نے فرمایا عزیٰ یہی تھی۔ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنا دی، مناۃ اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو سفیان کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت علی کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا۔ ذوالخعلہ نامی بت خانہ دوس اور کشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ حضرت جریر بن عبد اللہ کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے فنا ہوا فلس نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر حضرت علی مامور ہوئے تھے آپ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دوتلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں، قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں ریام نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کر دیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور رضا نامی بت کدہ بنع ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستو غر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا۔ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ذوالکعبات نامی صنم خانہ بکر تغلب اور یاد قبیلے کا سنداد میں تھا پھر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہو گا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لئے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لئے لڑکے پسند کرو پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مظبوط ٹھہرا کر جا چاہا نام گھڑ لیا ہے ورنہ نہ وہ معبود ہیں نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آ جانے اللہ کی باتیں واضح ہو جانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا ؟ تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہو گا۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لئے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا۔ جیسے فرمایا (من ذالذی) الخ، کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کر سکے اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی۔ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو ! تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے تمام رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے۔

 

۲۷

آخرت کا گھر اور دنیا

اللہ تعالیٰ مشرکین کے اس قول کی تردید فرماتا ہے کہ اللہ کے فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں۔ جیسے اور جگہ ہے (وجعلو الملائکہ) الخ، یعنی اللہ کے مقبول بندوں اور فرشتوں کو انہوں نے اللہ کی لڑکیاں ٹھہرا دیا ہے کیا ان کی پیدائش کے وقت یہ موجود تھے ؟ ان کی شہادت لکھی جائے گی اور ان سے پرستش کی جائے گی یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ فرشتوں کے زنانہ نام رکھتے ہیں جو ان کی بے علمی کا نتیجہ ہے محض جھوٹ کھلا بہتان بلکہ صریح شرک ہے یہ صرف ان کی اٹکل ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اٹکل پچو کی باتیں حق کے قائم مقام نہیں ہو سکتیں۔ حدیث شریف میں ہے گمان سے بچو گمان بدترین جھوٹ ہے پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ حق سے اعراض کرنے والوں سے آپ بھی اعراض کر لیں ان کا مطمع نظر صرف دنیا کی زندگی ہے اور جس کی غایت یہ سفلی دنیا ہو اس کا انجام کبھی نیک نہیں ہوتا ان کے علم کی غایت بھی یہی ہے کہ دنیا طلبی اور کوشش دنیا میں ہر وقت منہمک رہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کا (آخرت میں) گھر نہ ہو اور دنیا اس کا مال ہے جس کا مال (آخرت میں) کنگال نہ ہو، ایک منقول دعا میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ الفاظ بھی آئے ہیں (اللھم لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبا غ علمنا) پروردگار تو ہماری اہم تر کوشش اور مطمع نظر اور مقصد معلومات صرف دنیا ہی کو نہ کر۔ پھر فرماتا ہے کہ جمیع مخلوقات کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے صحیح طور پر وہی واقف ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے ضلالت دے سب کچھ اس کی قدرت علم اور حکمت سے ہو رہا ہے وہ عادل ہے اپنی شریعت میں اور انداز مقرر کرنے میں ظلم و بے انصافی نہیں کرتا۔

 

۳۱

گناہ اور ضابطہ الٰہی

مالک آسمان و زمین بے پرواہ مطلق شہنشاہ حقیقی عادل خالق حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا دہی دے گا اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بہ تقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے، جیسے اور آیت میں ہے (ان تجتنبو کبائر ما تنھون عنہ) الخ، اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے، یہاں بھی فرمایا مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں لم کی تفسیر میرے خیال میں حضرت ابوہریرہ کی بیان کردہ اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ یقیناً پا کر ہی رہے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے زبان کا زنا بولنا ہے دل امنگ اور آرزو کرتا ہے، اب شرمگاہ خواہ اسے سچا کر دکھائے یا جھوٹا (بخاری و مسلم) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے اور ہونٹوں کا بوسہ لینا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا چلنا ہے اور شرمگاہ اسے سچا کرتی ہے یا جھوٹا کر دیتی ہے یعنی اگر شرمگاہ کو نہ روک سکا اور بدکاری کر بیٹھا تو سب اعضاء کا زنا ثابت اور اگر اپنے اس عضو کو روک لیا تو وہ سب لم میں داخل ہے، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ لم بوسہ لینا چھڑنا دیکھنا مس کرنا ہے اور جب شرمگاہیں مل گئیں تو غسل واجب ہو گیا اور زناکاری کا گناہ ثابت ہو گیا، حضرت ابن عباس سے اس جملہ کی تفسیر یہی مروی ہے یعنی جو پہلے گزر چکا، مجاہد فرماتے ہیں گناہ سے آلودگی ہو پھر چھوڑ دے تو لم میں داخل ہے، شاعر کہتا ہے

ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبد لک ما الما

اے اللہ جبکہ تو معاف فرماتا ہے تو سب کچھ ہی معاف فرما دے ورنہ یوں آلودہ عصیاں تو ہر انسان ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں اہل جاہلیت اپنے طواف میں عموماً اس شعر کو پڑھا کرتے تھے۔ ابن جریر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اس شعر کو پڑھنا بھی مروی ہے ترمذی میں بھی یہ مروی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں، بزار فرماتے ہیں ہمیں اس کی اور سند معلوم نہیں صرف اسی سند سے مرفوعاً مروی ہے ابن ابی حاتم اور بغوی نے بھی اسے نقل کیا ہے بغوی نے اسے سورہ تنزیل میں روایت کیا ہے لیکن اس مرفوع کی صحت میں نظر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مراد یہ ہے کہ زنا سے نزدیکی ہونے کے بعد توبہ کرے اور پھر نہ لوٹے چوری کے قریب ہو جانے کے بعد چوری نہ کی اور توبہ کر کے لوٹ آیا اسی طرح شراب پینے کے قریب ہو کر شراب نہ پی اور توبہ کر کے لوٹ گیا یہ سب المام ہیں جو ایک مومن کو معاف ہیں، حضرت حسن سے بھی یہی مروی ہے ایک روایت میں ہے صحابہ سے عموماً اس کا مروی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں۔ ابن زبیر فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہ ہے جیسے فرمان ہے (قل یا عبادی الذین اسرفوا) اے میرے وہ بندو!جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے پھر فرمایا وہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر حال کا علم رکھنے والا اور تمہارے ہر کلام کو سننے والا اور تمہارے تمام تر اعمال سے واقف ہے جبکہ اس نے تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی جو چیونٹیوں کی طرح پھیل گئی پھر ان کی تقسیم کر کے دو گروہ بنا دئیے ایک جنت کے لئے اور ایک جہنم کے لئے اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے اس کی مقرر کردہ فرشتے نے روزی عمر عمل نیکی بدی لکھ لی بہت سے بچے پیٹ سے ہی گر جاتے ہیں۔ بہت سے دودھ پینے کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں، بہت سے دودھ چھٹنے کے بعد بلوغت سے پہلے ہی چل بستے ہیں بہت سے عین جوانی میں دار دنیا خالی کر جاتے ہیں، اب جبکہ ہم تمام منازل کو طے کر چکے اور بڑھاپے میں آ گئے جس کے بعد کوئی منزل موت کے سوا نہیں اب بھی اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہم سے بڑھ کر غافل کون ہے ؟ خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اپنے آپ سراہنے نہ لگو جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے اور آیت میں ہے (الم ترالی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء ولا یظلمون فتیلا) کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔ محمد بن عمرو بن عطا فرماتے ہیں میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے حضرت زینت بنت ابو سلمہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ نے فرمایا تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا زینب نام رکھو مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ نے فرمایا افسوس تو نے اس کی گردن ماری کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں گمان فلاں کی طرف سے ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ۔ ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر حضرت مقداد بن اسود اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں۔

 

۳۳

منافق و کافر کا نفسیاتی تجزیہ

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اللہ کی فرمانبرداری سے منہ موڑ لیں سچ نہ کہیں نہ نماز ادا کریں بلکہ جھٹلائیں اعراض کریں راہ للہ بہت ہی کم خرچ کریں دل کو نصیحت قبول کرنے والا نہ بنائیں کبھی کچھ کہنا مان لیا پھر رسیاں کاٹ کر الگ ہو گئے عرب “اکدیٰ “اس وقت کہتے ہیں مثلاً کچھ لوگ کنواں کھود رہے ہوں درمیان میں کوئی سخت چٹان آ جائے اور وہ دستبردار ہو جائیں فرماتا ہے کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس سے اس نے جان لیا کہ اگر میں راہ للہ اپنا زرومالک دوں گا تو خالی ہاتھ رہ جاؤں گا ؟ یعنی دراصل یوں نہیں بلکہ یہ صدقے نیکی اور بھلائی سے ازروئے بخل، طمع، خودغرضی، نامردی و بے دلی کے رک رہا ہے، حدیث میں ہے اے بلال خرچ کر اور عرش والے سے فقیر بنا دینے کا ڈر نہ رکھ خود قرآن میں ہے (وما انفقتم من شئی فھو یخلفہ وھو خیرا لرازقین) تم جو کچھ خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ دے گا اور وہی بہترین رازق ہے۔ وفی کے معنی ایک تو یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں حکم کیا گیا تھا وہ سب انہوں نے پہنچا دیا دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ جو حکم ملا اسے بجا لائے۔ ٹھیک یہ ہے کہ یہ دونوں ہی معنی درست ہیں جیسے اور آیت میں ہے (واذابتلیٰ) الخ، ابراہیم کو جب کبھی جس کسی آزمائش کے ساتھ اس کے رب نے آزمایا آپ نے کامیابی کے ساتھ اس میں نمبر ملا لئے یعنی ہر حکم کو بجا لائے ہر منع سے رکے رہے رب کی رسالت پوری طرح پہنچا دی پس اللہ نے انہیں امام بنا کر دوسروں کا ان کا تابعدار بنا دیا جیسے ارشاد ہوا ہے (ثم او حینا الیک ان اتبوع ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین) پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرک نہ تھا ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ہر روز وہ دن نکلتے ہی چار رکعت ادا کیا کرتے تھے یہی ان کی وفا داری تھی ترمذی میں ایک حدیث قدسی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حضرت ابراہیم کے لئے لفظ وفی اس لئے فرمایا کہ وہ ہر صبح شام ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے (فسبحان اللہ حین تمسون وحین تصبحون) یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت ختم کی۔ پھرصغیرہ یا کبیرہ کیا تو اس کا وبال خود اس پر ہے اس کا یہ بوجھ کوئی اور نہ اٹھائے گا۔ جیسے قرآن کریم میں ہے (وان تدع مثقلۃ) الخ، اگر کوئی بوجھل اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گا تو اس میں سے کچھ نہ اٹھا یا جائے گا اگرچہ وہ قرابتدار ہو ان صحیفوں میں یہ بھی تھا کہ انسان کے لئے صرف وہی ہے جو اس نے حاصل کیا یعنی جس طرح اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا دوسروں کی بداعمالیوں میں یہ بھی نہیں پکڑاجائے گا اور اسی طرح دوسرے کی نیکی بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے گی۔ حضرت امام شافعی اور ان کے متعبین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ قرآن خوانی کا ثواب مردوں کا پہنچایا جائے تو نہیں پہنچتا اس لئے کہ نہ تو یہ ان کا عمل ہے نہ کسب یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ اس کا جواز بیان کیا نہ اپنی امت کو اس پر رغبت دلائی نہ انہیں اس پر آمادہ کیا نہ تو کسی صریح فرمان کے ذریعہ سے نہ کسی اشارے کنائیے سے ٹھیک اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قرآن پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ میت کے لئے بھیجا ہو اگر یہ نیکی ہوتی اور مطابق شرع عمل ہوتا تو ہم سے بہت زیادہ سبقت نیکیوں کی طرف کرنے والے صحابہ کرام تھے رضی اللہ عنہم اجمعین۔ ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نیکیوں کے کام قرآن حدیث کے صاف فرمان صحیح ثابت ہوتے ہیں کسی قسم کے رائے اور قیاس کا ان میں کوئی دخل نہیں ہاں دعا اور صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اس پر اجماع ہے اور شارع علیہ السلام کے الفاظ سے ثابت ہے جو حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انسان کے مرنے پر اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین چیزیں نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے یا وہ صدقہ جو اس کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے، اس کا یہ مطلب ہے کہ درحقیقت یہ تینوں چیزیں بھی خود میت کی سعی اس کی کوشش اور اس کا عمل ہیں، یعنی کسی اور کے عمل کا اجرا سے نہیں پہنچ رہا، صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر انسان کا کھانا وہ ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہو اس کی اپنی کمائی ہو اور انسان کی اولاد بھی اسی کی کمائی اور اسی کی حاصل کردہ چیز ہے پس ثابت ہوا کہ نیک اولاد جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرتی ہے وہ دراصل اسی کا عمل ہے اسی طرح صدقہ جاریہ مثلاً وقف وغیرہ کہ وہ بھی اسی کے عمل کا اثر ہے اور اسی کا کیا ہوا وقف ہے۔ خود قرآن فرماتا ہے (انا نحن نحی الموتی ونکتب ما قدمو و اثارھم ٌ) الخ، یعنی ہم مردوں کا زندہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے پیچھے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات نیک کا ثواب انہیں پہنچتا رہتا ہے، رہا وہ علم جسے اس نے لوگوں میں پھیلایا اور اس کے انتقال کے بعد بھی لوگ اس پر عامل اور کاربند رہے وہ بھی اصل اسی کی سعی اور اسی کا عمل ہے جو اس کے تابعداری کریں ان سب کے برابر اجر کے اسے اجر ملتا ہے درآنحالیکہ ان کے اجر گھٹتے نہیں پھر فرماتا ہے اس کی کوشش قیامت کے دن جانچی جائے گی اس دن اس کا عمل دیکھا جائے گا جیسے فرمایا (وقل اعملوا) الخ، یعنی کہہ دے کہ تم عمل کئے جاؤ گے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال سے خبردار کرے گا یعنی ہر نیکی کی جزا اور ہر بدی کی سزا دے گا یہاں بھی فرمایا پھر اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

 

۴۳

سب کی آخری منزل۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ادراک سے بلند ہے

فرمان ہے کہ بازگشت آخر اللہ کی طرف ہے۔ قیامت کے دن سب کو لوٹ کر اسی کے سامنے پیش ہونا ہے حضرت معاذ نے قبیلہ بنی اود میں خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا اے بنی اود میں اللہ کا پیغمبر کا قاصد بن کر تمہاری طرف آیا ہوں تو یقین کرو کہ تمہارا سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے پھر یا تو جنت میں پہنچائے جاؤ یا جہنم میں دھکیلے جاؤ بغوی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات میں فکر کرنا جائز نہیں، جیسے اور حدیث میں ہے مخلوق پر غور بھری نظریں ڈالو لیکن ذات خالق میں گہرے نہ اترو۔ اسے عقل وادراک فکرو ذہن نہیں پاسکتا، گو ان لفظوں سے یہ حدیث محفوظ نہیں مگر صحیح حدیث میں یہ بھی مضمون موجود ہے اس میں ہے کہ شیطان کسی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اسے کس نے پیدا کیا؟ پھر اسے کس نے پیدا کیا ؟ یہاں تک کہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب تم میں سے کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا تو اعوذ پڑھ لے اور اس خیال کو دل سے دور کر دے، سنن کی ایک حدیث میں ہے مخلوقات اللہ میں غور و فکر کرو لیکن ذات اللہ میں غوروفکر نہ کرو سنو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جس کے کان کی لو سے لے کر مونڈھے تک تین سو سال کا راستہ ہے او کما قال پھر فرماتا ہے کہ بندوں میں ہنسنے رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کئے ہیں جو بالکل مختلف ہیں وہی موت و حیات کا خالق ہے جیسے فرمایا (الذٰ خلق الموت والحیاۃ) اس نے موت و حیات کو پیدا کیا اسی نے نطفہ سے ہر جاندا کو جوڑ جوڑ بنایا، جیسے اور جگہ فرمان ہے (ایحسب الانسان ان یترک سدی) الخ، کیا انسان سمجھتا ہے کہ وہ بیکار چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا جو (رحم میں)ٹپکایا جاتا ہے ؟ پھر کیا وہ بستہ خون نہ تھا ؟ پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست کیا اور اس سے جوڑے یعنی نرو مادہ بنائے کیا (ایسی قدرتوں والا) اللہ اس بات پر قادر نہیں ؟ کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ پھر فرماتا ہے اسی پر دوبارہ زندہ کرنا یعنی جیسے اس نے ابتداء پیدا کیا اسی طرح مار ڈالنے کے بعد دوبارہ کی پیدائش بھی اسی کے ذمہ ہے اسی نے اپنے بندوں کو غنی بنا دیا اور مال ان کے قبضہ میں دے دیا ہے جو ان کے پاس ہی بطور پونجی کے رہتا ہے اکثر مفسرین کے کلام کا خلاصہ اس مقام پر یہی ہے گو بعض سے مروی ہے کہ اس نے مال دیا اور غلام دئیے اس نے دیا اور خوش ہوا اسے غنی بناکر اور مخلوق کو اس کا دست نگر بنا دیا جسے چاہا غنی کیا جسے چاہا فقیر لیکن یہ پچھلے دونوں قول لفظ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے۔ شعری اس روشن ستارے کا نام ہے جسے مرزم الجوزاء بھی کہتے ہیں بعض عرب اس کی پرستش کرتے تھے، عاد و اولیٰ یعنی قوم ہود کو جسے عاد بن ارم بن سام بن نوح بھی کہا جاتا ہے اسی نے ان کی نافرمانی کی بنا پر تباہ کر دیا جیسے فرمایا (الم ترکیف فعل ربک بعاد) الخ، یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا ؟ یعنی ارم کے ساتھ جو بڑے قدآور تھے جن کا مثل شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا تھا یہ قوم بڑی قوی اور زورآور تھی ساتھ ہی اللہ کی بڑی نافرمان اور رسول سے بڑی سرتاب تھی ان پر ہوا کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن برابر رہا اسی طرح ثمودیوں کو بھی اس نے ہلاک کر دیا جس میں سے ایک بھی باقی نہ بچا اور ان سے پہلے قوم نوح تباہ ہو چکی ہے جو بڑے ناانصاف اور شریر تھے اور لوط کی بستیاں جنہیں رحمن و قہار نے زیرو زبر کر دیا اور آسمانی پتھروں سے سب بدکاروں کا ہلاک کر دیا انہیں ایک چیز نے ڈھانپ لیا یعنی (پتھروں نے)جن کا مینہ ان پر برسا اور برے حالوں تباہ ہوئے۔ ان بستیوں میں چار لاکھ آدمی آباد تھے آبادی کی کل زمین کی آگ اور گندھک اور تیل بن کر ان پر بھڑک اٹھی حضرت قتادہ کا یہی قول ہے جو بہت غریب سند سے ابن ابی حاتم میں مروی ہے۔ پھر فرمایا پھر تو اے انسان اپنے رب کی کس کس نعمت پر جھگڑے گا؟ بعض کہتے ہیں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن خطاب کو عام رکھنا بہت اولیٰ ہے ابن جریر بھی عام رکھنے کو ہی پسند فرماتے ہیں۔

 

۵۶

نذیر “کا مفہوم۔۔۔۔ نذیر کہتے کسے ہیں "

یہ خوف اور ڈر سے آگاہ کرنے والے ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آپ کی رسالت بھی ایسی ہی ہے جیسے آپ سے پہلے رسولوں کی رسالت تھی جیسے اور آیت میں ہے (قل ما کنت بدعا من الرسل) یعنی میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں رسالت مجھ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ دنیا میں مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں قریب آنے والی کا وقت آئے گا یعنی قیامت قریب آ گئی۔ نہ تو اسے کوئی دفع کر سکے نہ اس کے آنے کے صحیح وقت معین کا کسی کو علم ہے۔ نذیر عربی میں اسے کہتے ہیں مثلا ایک جماعت ہے جس میں سے ایک شخص نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی اور اپنی قوم کو اس سے آگاہ کرتا ہے یعنی ڈر اور خوف سنانے والا جیسے اور آیت میں ہے (انی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید) میں تمہیں سخت عذاب سے مطلع کرنے والا ہوں حدیث میں ہے تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ یعنی جس طرح کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے کہ وہ قوم کے قریب پہنچ چکی ہے اور پھر جس حالت میں ہو اسی میں دوڑا بھاگا آ جائے اور قوم کو دفعۃً متنبہ کر دے کہ دیکھو وہ بلا آ رہی ہے فوراً تدارک کر لو اسی طرح قیامت کے ہولناک عذاب بھی لوگوں کی غفلت کی حالت میں ان سے بالکل قریب ہو گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان عذابوں سے ہوشیار کر رہے ہیں جیسے اس کے بعد کی سورت میں ہے (اقتربت الساعۃ ٌ) قیامت قریب آ چکی مسند احمد کی حدیث میں ہے لوگو گناہوں کو چھوٹا اور حقیر جاننے سے بچو سنو چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قافلہ کسی جگہ اترا سب ادھر ادھر چلے گئے اور لکڑیاں سمیٹ کر تھوڑی تھوڑی لے آئے تو چاہے ہر ایک کے پاس لکڑیاں کم کم ہیں لیکن جب وہ سب جمع کر لی جائیں تو ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے دیگیں پک جائیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اور اچانک اس گنہگار کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے اور حدیث میں ہے میری اور قیامت کی مثال ایسی ہے پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان کی انگلی اٹھا کر ان کا فاصلہ دکھایا میری اور قیامت کی مثال دو ساعتوں کی سی ہے میری اور آخرت کے دن کی مثال ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ایک قوم نے کسی شخص کو اطلاع لانے کے لئے بھیجا اس نے دشمن کے لشکر کو بالکل نزدیک کی کمین گاہ میں چھاپہ مارنے کے لئے تیار دیکھا یہاں تک کہ اسے ڈر لگا کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یہ نہ پہنچ جائیں تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہیں کپڑا ہلا ہلا کر انہیں اشارے سے بتا دیا کہ خبردار ہو جاؤ دشمن سر پر موجود ہے پس میں ایسا ہی ڈرانے والا ہوں۔ اس حدیث کی شہادت میں اور بھی بہت سی حسن اور صحیح حدیثیں موجود ہیں۔ پھر مشرکین کے اس فعل پر انکار فرمایا کہ وہ قرآن سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بے پرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بے پرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق اور ہنسی کرنے لگتے ہیں چاہیے یہ تھا کہ مثل ایمان داروں کے اسے سن کر روتے عبرت حاصل کرتے جیسے مومنوں کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اس کلام اللہ شریف کو سن کر روتے دھوتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور خشوع وخضوع میں بڑھ جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (سمد) گانے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے آپ سے (سامدون) کے معنی اعراض کرنے والے اور تکبر کرنے والے بھی مروی ہیں حضرت علی اور حسن فرماتے ہیں غفلت کرنے والے۔ پھر اپنے بندوں کا حکم دیتا ہے کہ توحید و اخلاص کے پابند رہو خضوع، خلوص اور توحید کے ماننے والے بن جاؤ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں نے مشرکوں نے اور جن و انس نے سورۃ النجم کے سجدے کے موقعہ پر سجدہ کیا مسندا حمد میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ نجم پڑھی پس آپ نے سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی جو آپ کے پاس تھے راوی حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں میں نے اپنا سراٹھایا اور سجدہ نہ کیا یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے بعد جس کسی کی زبانی اس سورہ مبارکہ کی تلاوت سنتے سجدہ کرتے یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے۔