واقدی کی روایت سے پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید الضحیٰ اور عید الفطر کی نماز میں سورہ ق اور سورہ اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے اسی طرح بڑی بڑی محفلوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ کیونکہ اس میں وعدے وعید کا، ابتداء آفرینش اور دوبارہ زندگی کا ساتھ ہی توحید اور اثبات رسازلت وغیرہ اہم مقاصد اسلامیہ کا ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے (اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ) اللہ کا امر آ چکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا (اقترب للناس حسابھم) الخ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آپہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گزرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گزرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہو چکا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابوہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہو سکتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام حاشر آیا ہے اور حاشر وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہو چکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھا لیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہو گی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی (مسلم) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکرے ہو گیا۔ بے شک قیامت قریب آ چکی ہے بے شک چاند پھٹ گیا ہے بے شک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہو گا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہو گی ؟ جس میں آگے نکلنا ہو گا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم، دھواں، لزام، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گزر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہو گیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کر دیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبثہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کر سکتا، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چنانچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابوبکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آ چکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لا سکتا جیسے فرمایا (قل فللہ الحجۃ البالغۃ) الخ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لاکھڑا کرتا اور جگہ ہے (فما تغنی الایات والنذر عن قوم لا یومنون) بے ایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا۔
ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم ان کافروں کو جنہیں معجزہ وغیرہ بھی کار آمد نہیں چھوڑ دو ان سے منہ پھیر لو اور انہیں قیامت کے انتظار میں رہنے دو، اس دن انہیں حساب کی جگہ ٹھہرنے کے لئے ایک پکارنے والا پکارے گا جو ہولناک جگہ ہو گی جہاں بلائیں اور آفات ہوں گی ان کے چہروں پر ذلت اور کمینگی برس رہی ہو گی، مارے ندامت کے آنکھیں نیچے کو جھکی ہوئی ہوں گی اور قبروں سے نکلیں گے، پھر ٹڈی دل کی طرح یہ بھی انتشار و سرعت کے ساتھ میدان حساب کی طرف بھاگیں گے پکارنے والے کی پکار پر کان ہوں گے اور تیز تیز چل رہے ہوں گے نہ مخالفت کی تاب ہے نہ دیر لگانے کی طاقت، اس سخت ہولناکی کے سخت دن کو دیکھ کر کافر چیخ اٹھیں گے کہ یہ تو بڑا بھاری اور بے حد سخت دن ہے۔
یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس امت سے پہلے امت نوح نے بھی اپنے نبی کو جو ہمارے بندے حضرت نوح تھے تکذیب کی اسے مجنون کہا اور ہر طرح ڈانٹا ڈپٹا اور دھمکایا، صاف کہہ دیا تھا کہ اے نوح اگر تم باز نہ رہے تو ہم تجھے پتھروں سے مار ڈالیں گے، ہمارے بندے اور رسول حضرت نوح نے ہمیں پکارا کہ پروردگار میں ان کے مقابلہ میں محض ناتواں اور ضعیف ہوں میں کسی طرح نہ اپنی ہستی کو سنبھال سکتا ہوں نہ تیرے دین کی حفاظت کر سکتا ہوں تو ہی میری مدد فرما اور مجھے غلبہ دے ان کی یہ دعا قبول ہوتی ہے اور ان کی کافر قوم پر مشہور طوفان نوح بھیجا جاتا ہے۔ موسلا دھار بارش کے دروازے آسمان سے اور ابلتے ہوئے پانی کے چشمے زمین سے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ جو پانی کی جگہ نہ تھی مثلاً تنور وغیرہ وہاں سے زمین پانی اگل دیتی ہے ہر طرف پانی بھر جاتا ہے نہ آسمان سے برسنا رکتا ہے نہ زمین سے ابلنا تھمتا ہے پس حد حکم تک پہنچ جاتا ہے۔ ہمیشہ پانی ابر سے برستا ہے لیکن اس وقت آسمان سے پانی کے دروازے کھول دئیے گئے تھے اور عذاب الٰہی پانی کی شکل میں برس رہا تھا نہ اس سے پہلے کبھی اتنا پانی برسا نہ اس کے بعد کبھی ایسا برسے ادھر سے آسمان کی یہ رنگت ادھر سے زمین کو حکم کہ پانی اگل دے پس ریل پیل ہو گئی، حضرت علی فرماتے ہیں کہ آسمان کے دہانے کھول دئیے گئے اور ان میں سے براہ راست پانی برسا۔ اس طوفان سے ہم نے اپنے بندے کو بچا لیا انہیں کشتی پر سوار کر لیا جو تختوں میں کیلیں لگا کر بنائی گئی تھی۔ دسر کے معنی کشتی کے دائیں بائیں طرف کا حصہ اور ابتدائی حصہ جس پر موج تھپیڑے مارتی ہے اور اس کے جوڑے اور اس کی اصل کے بھی کئے گئے ہیں، وہ ہمارے حکم سے ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری حفاظت میں چل رہی تھی اور صحیح و سالم آرپار جار ہی تھی۔ حضرت نوح کی مدد تھی اور کفار سے یہ انتقام تھا ہم نے اسے نشانی بنا کر چھوڑ ا۔ یعنی اس کشتی کو بطور عبرت کے باقی رکھا، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس امت کے اوائل لوگوں نے بھی اسے دیکھا ہے لیکن ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کے نمونے پر اور کشتیاں ہم نے بطور نشان کے دنیا میں قائم رکھیں، جیسے اور آیت میں ہے (وابنہ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون) یعنی ان کے لئے نشانی ہے کہ ہم نے نسل آدم کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا اور کشتی کے مانند اور بھی ایسی سواریاں دیں جن پر وہ سوار ہوں اور جگہ ہے (انا لما طغی الماء) الخ، یعنی جب پانی نے طغیانی کی ہم نے تمہیں کشتی میں لے لیا تاکہ تمھارے لئے نصیحت وعبرت ہو اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھ سکیں، پس کوئی ہے جو ذکر و وعظ حاصل کرے؟ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدکر پڑھایا ہے، خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی اس لفظ کی قرأت اسی طرح مروی ہے، حضرت اسود سے سوال ہوتا ہے کہ یہ لفظ دال سے ہے یا ذال سے ؟ فرمایا میں نے عبد اللہ سے دال کے ساتھ سنا ہے اور وہ فرماتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دال کے ساتھ سنا ہے، پھر فرماتا ہے میرا عذاب میرے ساتھ کفر کرنے اور میرے رسولوں کو جھوٹا کہنے اور میری نصیحت سے عبرت نہ حاصل کرنے والوں پر کیسا ہوا ؟ میں نے کس طرح اپنے رسولوں کے دشمنوں سے بدلہ لیا اور کس طرح ان دشمنان دین حق کو نیست ونابود کر دیا۔ ہم نے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کو ہر اس شخص کے لئے آسان کر دیا جو اس سے نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھے، جیسے فرمایا (کتاب انزلنہ الیک مبارک) الخ، ہم نے تیری طرف سے یہ مبارک کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں تدبر کریں اور اس لئے کہ عقلمند لوگ یاد رکھ لیں اور جگہ ہے (فا نما یسرنہ بلسانک) الخ، یعنی ہم نے اسے تیری زبان پر اس لئے آسان کیا ہے کہ تو پرہیزگار لوگوں کو خوشی سنا دے اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کی قرأت اور تلاوت اللہ تعالیٰ نے آسان کر دی ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس میں آسانی نہ رکھ دیتا تو مخلوق کی طاقت نہ تھی کہ اللہ عز و جل کے کلام کو پڑھ سکے۔ میں کہتا ہوں انہی آسانیوں میں سے ایک آسانی وہ ہے جو پہلے حدیث میں گزر چکی کہ یہ قرآن سات قرأتوں پر نازل کیا گیا ہے، اس حدیث کے تمام طرق و الفاظ ہم نے پہلے جمع کر دئیے ہیں، اب دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔ پس اس قرآن کو بہت ہی سادہ کر دیا ہے کوئی طالب علم جو اس الٰہی علم کو حاصل کرے اس کے لئے بالکل آسان ہے۔
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ قوم ہود نے بھی اللہ کے رسولوں کو جھوٹا کہا اور بالکل قوم نوح کی طرح سرکشی پر اتر آئے تو ان پر سخت ٹھنڈی مہلک ہوا بھیجی گئی وہ دن ان کے لئے سراسر منحوس تھا برابر ان پر ہوائیں چلتی رہیں اور انہیں تہ و بالا کرتی رہیں، دنیوی اور اخروی عذاب میں گرفتار کر لئے گئے ہوا کا جھونکا آتا ان میں سے کسی کو اٹھا کر لے جاتا یہاں تک کہ زمین والوں کی حد نظر سے وہ بالا ہو جاتا پھر اسے زمین پر اوندھے منہ پھینک دیتا سر کچل جاتا بھیجا نکل پڑتا، سر الگ دھڑ الگ ایسا معلوم ہوتا گویا کھجور کے درخت کے بن سرے ٹنڈ ہیں دیکھو میرا عذاب کیسا ہوا؟ میں نے قرآن کو آسان کر دیا جو چاہے نصیحت و عبرت حاصل کر لے۔
ثمودیوں نے رسول اللہ حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا اور تعجب کے طور پر محال سمجھ کر کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ہمیں میں سے ایک شخص کے تابعدار بن جائیں ؟ آخر اس کی اتنی بڑی فضیلت کی کیا وجہ ؟ پھر اس سے آگے بڑھے اور کہنے لگے ہم نہیں مان سکتے کہ ہم سب میں سے صرف اسی ایک پر اللہ کی باتیں نازل کی جائیں، پھر اس سے بھی قدم بڑھایا اور نبی اللہ کو کھلے لفظوں میں جھوٹا اور پرلے سرے کا جھوٹا کہا بطور ڈانٹ کے اللہ فرماتا ہے اب تو جو چاہو کہہ لو لیکن کل کھل جائے گا کہ دراصل جھوٹا اور اور جھوٹ میں حد سے بڑھ جانے والا کون تھا؟ ان کی آزمائش کے لئے فتنہ بنا کر ہم ایک اونٹنی بھجنے والے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی طلب کے موافق پتھر کی ایک سخت چٹان میں سے ایک چکلے چوڑے اعضاء والی گابھن اونٹنی نکلی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ تم اب دیکتھے رہو کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور ان کی سختیوں پر صبر کرو دنیا اور آخرت میں انجام کار غلبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا رہے گا اب ان سے کہد یجئے کہ پانی پر ایک دن تو ان کا اختیار ہو گا اور ایک دن اس اونٹنی کا۔ جیسے اور آیت میں ہے (لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم) ہر باری موجود کی گئی ہے یعنی جب اونٹنی نہ ہو تو پانی موجود ہے اور جب اونٹنی ہو تو اس کا دودھ حاضر ہے انہوں نے مل جل کر اپنے رفیق قدار بن سالف کو آواز دی اور یہ بڑا ہی بدبخت تھا، جیسے اور آیت میں ہے (اذ انبعث اشقاھا) ان کا بدترین آدمی اٹھا اس نے آ کر اسے پکڑا اور زخمی کیا پھر تو ان کے کفرو تکذیب کا میں نے بھی پورا بدلہ لیا اور جس طرح کھیتی کے کٹے ہوئے سوکھے پتے اڑ اڑ کر کافور ہو جاتے ہیں انہیں بھی ہم نے بے نام و نشان کر دیا، خشک چارہ جس طرح جنگل میں اڑتا پھرتا ہے اسی میں انہیں بھی برباد کر دیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ اونٹوں کو خشک کانٹوں دار باڑے میں رکھ لیا کرتے تھے۔ جب اس باڑھ کو روندھ دیا جائے اس وقت اس کی جیسی حالت ہو جاتی ہے وہی حالت ان کی ہو گئی کہ ایک بھی نہ بچا نہ بچ سکا۔ جیسے مٹی دیوار سے جھڑ جاتی ہے اسی طرح ان کے بھی پر پرزے اکھڑگئے یہ سب اقوال مفسرین کے اس جملہ کی تفسیریں ہیں لیکن اول قوی ہے واللہ اعلم۔
لوطیوں کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کر کے کس مکروہ کام کو کیا جسے ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا یعنی اغلام بازی، اسی لئے ان کی ہلاکت کی صورت بھی ایسی ہی انوکھی ہوئی، اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل نے کی بستیوں کو اٹھا کر آسمان کے قریب پہنچا کر اوندھی مار دیں اور ان پر آسمان سے ان کے نام کے پتھر برسائے مگر لوط کے ماننے والوں کو سحر کے وقت یعنی رات کی آخری گھڑی میں بچا لیا انہیں حکم دیا گیا کہ تم اس بستی سے چلے جاؤ، حضرت لوط پر ان کی قوم میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا تھا یہاں تک کہ خود حضرت لوط کی بیوی بھی کافرہ ہی تھی قوم میں سے ایک بھی شخص کو ایمان نصیب نہ ہوا۔ پس عذاب الٰہی سے بھی کوئی نہ بچا آپ کی بیوی بھی قوم کے ساتھ ہی ساتھ ہلاک ہوئی صرف آپ اور آپ کی لڑکیاں اس نحوست سے بچا لئیے گئے شاکروں کو اللہ اسی برے اور آڑے وقت میں کام آتا ہے اور انہیں ان کی شکر گزاری کا پھل دیتا ہے۔ عذاب کے آنے سے پہلے حضرت لوط انہیں آگاہ کرچکے تھے لیکن انہوں نے توجہ تک نہ کی بلکہ شک و شبہ اور جھگڑا کیا، اور ان کے مہمانوں کے بارے میں انہیں چکمہ دینا چاہا۔ حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل، وغیرہ فرشتے انسانی صورتوں میں حضرت لوط کے گھر مہمان بن کر آئے تھے، نہایت خوبصورت چہرے پیاری پیاری شکلیں اور عنفوان شباب کی عمر۔ ادھر یہ رات کے وقت حضرت لوط کے گھر اترے ان کی بیوی کافرہ تھی قوم کو اطلاع دی کہ آج لوط کے ہاں مہمان آئے ہیں ان لوگوں کو اغلام کی بدعادت تو تھی ہی دوڑ بھاگ کر حضرت لوط کے مکان کو گھیر لیا حضرت لوط نے دروازے بند کر لئے انہوں نے ترکیبیں شروع کیں کہ کسی طرح مہمان ہاتھ لگیں جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا شام کا وقت تھا حضرت لوط انہیں سمجھا رہے تھے ان سے کہہ رہے تھے کہ یہ میری بیٹیاں یعنی جو تمہاری جوروئیں موجود ہیں تم اس بدفعلی کو چھوڑ و اور حلال چیز سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ان سرکشوں کا جواب تھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں عورتوں کی چاہت نہیں ہمارا جو ارادہ ہے وہ آپ سے مخفی نہیں تم ہمیں اپنے مہمان سونپ دو۔ جب اسی بحث و مباحثہ میں بہت وقت گزر چکا اور وہ لوگ مقابلہ پر تل گئے اور حضرت لوط بے حد زچ آ گئے اور بہت ہی تنگ ہوئے، تب حضرت جبرئیل باہر نکلے اور اپنا پر ان کی آنکھوں پر پھیرا سب اندھے بن گئے آنکھیں بالکل جاتی رہیں اب تو حضرت لوط کو برا کہتے ہوئے دیواریں ٹٹولتے ہوئے صبح کا وعدہ دے کر پچھلے پاؤں واپس ہوئے، لیکن صبح کے وقت ہی ان پر عذاب الٰہی آگیا جس میں سے نہ بھاگ سکے نہ اس سے پیچھا چھڑا سکے عذاب کے مزے اور ڈراوے کی طرف دھیان نہ دینے کا وبال انہوں نے چکھ لیا یہ قرآن توبہت ہی آسان ہے جو چاہے نصیحت حاصل کر سکتا ہے کوئی ہے جو بھی اس سے پند و وعظ حاصل کر لے ؟
فرعون اور اس کی قوم کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام بشارت اور ڈراوے لے کر آتے ہیں بڑے بڑے معجزے اور زبردست نشانیاں اللہ کی طرف سے انہیں دی جاتی ہیں جو ان کی نبوت کی حقانیت پر پوری پوری دلیل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ فرعونی ان سب کو جھٹلاتے ہیں جس کی بدبختی میں ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتے ہیں اور انہیں بالکل ہی سوکھے تنکوں کی طرح اڑا دیا جاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے اے مشرکین قریش اب بتلاؤ تم ان سے کچھ بہتر ہو ؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے لئے اللہ نے اپنی کتابوں میں چھوٹ دے رکھی ہے؟ کہ ان کے کفر پر تو انہیں عذاب کیا جائے لیکن تم کفر کئے جاؤ اور تمہیں کوئی سزا نہ جائے ؟ پھر فرماتا ہے کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ایک جماعت کی جماعت ہیں آپ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے اور ہمیں کوئی برائی ہماری کثرت اور جماعت کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا انہیں ہزیمت دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھریں گے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بدر والے دن اپنی قیام گاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی دعا فرما رہے تھے اے اللہ تجھے تیرا عہدو پیمان یاد دلاتا ہوں اے اللہ اگر تیری چاہت یہی ہے کہ آج کے دن کے بعد سے تیری عبادت و وحدانیت کے ساتھ زمین پر کی ہی نہ جائے بس اتنا ہی کہا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بس کیجئے آپ نے بہت فریاد کر لی۔ اب آپ اپنے خیمے سے باہر آئے اور زبان پر دونوں آیتیں (سیھزم) الخ، جاری تھیں، حضرت عمر فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے کے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سے مراد کونسی جماعت ہو گی ؟ جب بدر والے دن میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ زرہ پہنے ہوئے اپنے کیمپ سے باہر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے، اس دن میری سمجھ میں اس کی تفسیر آ گئی۔ بخاری میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں میری چھوٹی سی عمر تھی۔ اپنی ہمجولیوں میں کھیلتی پھرتی تھی اس وقت یہ آیت (بل الساعتہ) الخ، اتری ہے۔ یہ روایت بخاری میں فضائل القرآن کے موقعہ پر مطول مروی ہے مسلم میں یہ حدیث نہیں۔
بدکار لوگ گمراہ ہو چکے ہیں راہ حق سے بھٹک چکے ہیں اور شکوک و اضطراب کے خیالات میں ہیں،۔ یہ لوگ خواہ کفار ہوں خواہ اور فرقوں کے بدعتی ہوں۔ ان کا یہ فعل انہیں اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹوائے گا اور جس طرح یہاں غافل ہیں وہاں اس وقت بھی بے خبر ہوں گے کہ نہ معلوم کس طرف لئے جاتے ہیں۔ اس وقت انہیں ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کہا جائے گا کہ اب آتش دوزخ کے لگنے کا مزہ چکھو ہم نے ہر چیز کو طے شدہ منصوبہ سے پیدا کیا ہے جیسے اور آیت میں ہے ہر چیز کو ہم نے پیدا کیا پھر اس کا مقدر مقرر کیا۔ اور جگہ فرمایا اپنے رب کی جو بلند و بالا ہے پاکی بیان کر جس نے پیدا کیا اور درست کیا اور محور عمل مقرر کیا اور راہ دکھائی۔ یعنی تقدیر مقرر کی پھر اس کی طرف رہنمائی کی ائمہ اہل سنت نے اس سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر ان کی پیدائش سے پہلے ہی لکھ دی ہے یعنی ہر چیز اپنے ظہور سے پہلے اللہ کے ہاں لکھی جا چکی ہے فرقہ قدریہ اس کا منکر ہے یہ لوگ صحابہ کے آخر زمانہ میں ہی نکل چکے تھے۔ اہل سنت ان کے مسلک کے خلاف اس قسم کی آیتوں کو پیش کرتے ہیں اور اس مضمون کی احادیث بھی اور اس مسئلہ کی مفصل بحث میں ہم صحیح بخاری کتاب الایمان کی شرح میں لکھ دی ہیں یہاں صرف وہ حدیثیں لکھتے ہیں جو مضمون آیت کے متعلق ہیں، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں مشرکین قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تقدیر کے بارے میں بحث کرنے لگے اس پر یہ آیتیں اتریں (مسند احمد مسلم وغیرہ) بروایت حضرت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ مروی ہے کہ یہ آیتیں منکرین تقدیر کی تردید ہی میں اتری ہیں (بزار) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا یہ میری امت کے ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے اور تقدیر کو جھٹلائیں گے۔ حضرت عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں میں حضرت ابن عباس کے پاس آیا آپ اس وقت چاہ زمزم سے پانی نکال رہے تھے آپ کے کپڑوں کے دامن بھیگے ہوئے تھے میں نے کہا تقدیر کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے لوگ اس مسئلہ میں موافق و مخالف ہو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا لوگوں نے واقعی ایسا ہی کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں ایسا ہو رہا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ آیتیں انہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں (ذوقو مس سقرہ انا کل شئی خلقنا بقدر) یاد رکھو یہ لوگ اس امت کے بدترین لوگ ہیں ان کے بیماروں کی تیمارداری نہ کرو ان کے مردوں کے جنازے نہ پڑھو ان میں سے اگر کوئی مجھے مل جائے تو میں اپنی ان انگلیوں سے اس کی آنکھیں نکال دوں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس کے سامنے ذکر آیا کہ آج ایک شخص آیا ہے جو منکر تقدیر ہے فرمایا اچھا مجھے اس کے پاس لے چلو لوگوں نے کہا آپ نابینا ہے آپ اس کے پاس چل کر کیا کریں گے؟ فرمایا اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میرا بس چلا تو میں اس کی ناک توڑ دوں گا اور اگر اس کی گردن میرے ہاتھ میں آ گئی تو مروڑ دوں گا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بنو فہر کی عورتیں خزرج کے اردگرد طواف کرتی پھرتی ہیں ان کے جسم حرکت کرتے ہیں وہ مشرکہ عورتیں ہیں اس امت کا پہلا شرک یہی ہے اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی بے سمجھی یہاں تک بڑھے گی کہ اللہ تعالیٰ کو بھلائی کا مقرر کرنے والا بھی نہ مانیں گے جس طرح برائی کا مقدر کرنے والا نہ مانا (مسند احمد) حضرت عبد اللہ بن عمر کا ایک دوست شامی تھا جس سے آپ کی خط وکتابت تھی حضرت عبد اللہ نے کہیں سے سن پایا کہ وہ تقدیر کے بارے میں کچھ موشگافیاں کرتا ہے آپ نے جھٹ سے اسے خط لکھا کہ میں نے سنا ہے تو تقدیر کے مسئلہ میں کچھ کلام کرتا ہے اگر یہ سچ ہے تو بس مجھ سے خط وکتابت کی امید نہ رکھنا آج سے بند سمجھنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سنا ہے کہ میری امت میں تقدیر کو جھٹلانے والے لوگ ہوں گے (ابو داؤد)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں میری امت کے مجوسی وہ لگو ہیں جو تقدیر کے منکر ہوں اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازے نہ پڑھو (مسندا حمد) اس امت میں مسخ ہو گا یعنی لوگوں کی صورتیں بدل دی جائیں گی یاد رکھو یہ ان میں ہو گا جو تقدیر کو جھٹلائیں اور زندیقیت کریں (ترمذی وغیرہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر ایک کی تقدیر مقرر کردہ اندازے سے ہے یہاں تک کہ نادانی اور عقل مندی بھی (مسلم) صحیح حدیث میں ہے اللہ سے مدد طلب کر اور عاجز و بیوقوف نہ بن پھر اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو کہہ دے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تھا اور جو اللہ نے چاہا کیا پھر یوں نہ کہہ کہ اگر یوں کرتا تو یوں ہوتا اس لئے کہ اس طرح “اگر”کہنے سے شیطانی عمل کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابن عباس سے فرمایا کہ جان رکھ اگر تمام امت جمع ہو کر تجھے وہ نفع پہنچانا چاہے جو اللہ تعالیٰ نے تیری قسمت میں نہیں لکھا تو نہیں پہنچا سکتی اور اگر سب اتفاق کر کے تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں اور تیری تقدیر میں وہ نہ ہو تو نہیں پہنچا سکتے قلمیں خشک ہو چکیں اور دفتر لپیٹ کر تہہ کر دئیے گئے۔ حضرت ولید بن عبادہ نے اپنے باپ حضرت عبادہ بن صامت کی بیماری میں جبکہ ان کی حالت بالکل غیر تھی کہا کہ ابا جی ہمیں کچھ وصیت کر جائیے آپ نے فرمایا اچھا مجھے بٹھا دو جب لوگوں نے آپ کو بٹھا دیا تو آپ نے فرمایا اے میرے پیارے بچے ایمان کا لطف تجھے حاصل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو علم تجے ہے اس کی تہہ تک تو نہیں پہنچ سکتاجب تک تیرا ایمان تقدیر کی بھلائی برائی پر پکا نہ ہو میں نے پوچھا ابا جی میں یہ کیسے معلوم کر سکتا ہوں کہ میرا ایمان تقدیر کے خیرو شر پر پختہ ہے ؟ فرمایا اس طرح کہ تجھے یقین ہو کہ جو تجھے نہ ملا وہ ملنے والا ہی نہیں اور جو تجھے پہنچا وہ ٹلنے والا ہی نہ تھا میرے بچو سنو ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے فرمایا لکھ پس وہ اسی وقت چل پڑا اور قیامت تک جو ہونے والا تھا سب لکھ ڈالا اے بیٹے اگر تو انتقال کے وقت تک اس عقیدے پر نہ رہے تو تو جہنم میں داخل ہو گا ترمذی میں یہ حدیث ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں حسن صحیح غریب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی شخص ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ چار باتوں پر اس کا ایمان نہ ہو گواہی دے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں جسے اس نے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور مرنے کے بعد جینے پر ایمان رکھے اور تقدیر کی بھلائی برائی منجانب اللہ ہونے کو مانے (ترمذی وغیرہ) صحیح مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں۔ پھر پروردگار عالم اپنی چاہت اور احکام کے بے روک ٹوک جاری اور پورا ہونے کو بیان فرماتا ہے کہ جس طرح جو کچھ میں نے مقدر کیا ہے وہ اگر وہی ہوتا ہے تو ٹھیک اسی طرح جس کام کا میں ارادہ کروں صرف ایک دفعہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے دوبارہ تاکیدا حکم دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ایک آنکھ جھپکنے کے برابر وہ کام میری حسب چاہت ہو جاتا ہے عرب شاعر نے کیا ہی اچھا کہا ہے
اذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولۃ فیکون
یعنی اللہ تعالیٰ جب کبھی جس کسی کام کا ارادہ کرتا ہے صرف فرما دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتا ہے ہم نے تم جیسوں کو تم سے پہلے ان کی سرکشی کے باعث فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے پھر تم کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ ان کے عذاب اور ان کی رسوائی کے واقعات میں کیا تمہارے لئے نصیحت و تذکیر نہیں ؟ جیسے اور آیت میں فرمایا (و حیل بینھم وبین ما یشتھون کما فعل باشیا عھم من قبل) یعنی ان کے اور ان کی چاہ کے درمیان پردہ ڈال دیا گیا ہے جیسے کہ ہم نے ان جیسے پہلے والوں کے ساتھ کیا تھا۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے نامہ اعمال میں مکتوب ہے جو اللہ کے امین فرشتوں کے ہاتھ میں محفوظ ہے۔ ان کا ہر چھوٹا بڑا عمل جمع شدہ ہے اور لکھا ہوا ہے۔ ایک بھی تو ایسا نہیں رہا جو تحریر میں رہ گیا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں صغیرہ گناہ کو بھی ہلکا نہ سمجھو اللہ عز و جل کی طرف سے اس کا بھی مطالبہ پورا ہونے والا ہے (نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ) حضرت سلیمان بن مغیرہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ مجھ سے ایک گناہ سرزد ہو گیا جسے میں نے حقیر سمجھا رات کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک آنے والا آیا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے اے سلیمان
لا تحقرن من الذنوب صغیرا ان الصغیر غدا یعود کبیرا
ان الصغیر ولو تقادم عھدہ عند اللہ مسطر تسطیرا
فاز جر ھوا اک عندا لابطالتہ تکن صعب القیاد وشمرن تشمیرا
ان للحب اذا احب الھہ طار الفواد والھم التفکیر
فاسال ہدایتک الا لہ فتئد فکفی بربک ھادیا ونصیرا
یعنی صغیرہ گناہوں کو بھی حقیر اور ناچیز نہ سمجھ، یہ صغیرہ کل کبیرہ ہو جائیں گے گو گناہ چھوٹے چھوٹے ہوں اور انہیں کئے ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہو۔ اللہ کے پاس وہ صاف صاف لکھے ہوئے موجود ہیں بدی سے اپنے نفس کو روکے رکھ اور ایسا نہ ہو جا۔ کہ مشکل سے نیکی کی طرف آئے بلکہ اونچا دامن کر کے بھلائی کی طرف لپک، جب کوئی شخص سچے دل سے اللہ کی محبت کرتا ہے تو اس کا دل اڑنے لگتا ہے اور اسے اللہ کی جانب سے غوروفکر کی عادت الہام ہو جاتی ہے اپنے رب سے ہدایت طلب کر اور نرمی اور ملائمت کر۔ ہدایت اور نصرت کرنے والا رب تجھے کافی ہو گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان بدکاروں کے خلاف نیک کار لوگوں کی حالت ہو گی وہ تو ضلالت و تکلیف میں تھے اور اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے گئے اور سخت ڈانٹ ڈپٹ ہوئی، لیکن یہ نیک کار جنتوں میں ہوں گے بہتے ہوئے خوشگوار صاف شفاف چشموں کے مالک ہوں گے اور عزت و کرام، رضوان و فضیلت، جود و احسان، فضل و امتنان نعمت و رحمت آسائش و راحت کے مکان میں خوش خوش رہیں گے باری تعالیٰ مالک و قادر کا قرب انہیں نصیب ہو گا جو تمام چیزوں کا خالق ہے سب کے انداز مقرر کرنے والا ہے ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ ان پرہیزگار رحم دل لوگوں کی ایک ایک خواہش پوری کرے گا ایک ایک چاہت عطا فرمائے گا مسندا حمد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں عدل و انصاف سے ہی کام لیتے ہیں یہ حدیث صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سورہ اقتربت کی تفسیر بھی ختم ہوئی اللہ ہمیں نیک توفیق دے اور برائیوں سے بچائے۔