تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الاٴعرَاف

اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں معہ اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد انا اللہ افضل ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں، سعید بن جیر سے بھی یہ مروی ہے، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اس میں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ ہونا، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر و استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے، یہ قرآن مومنوں کے لئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو، اس کے قدم بہ قدم چلو، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے۔ اور آیت میں ہے وان تطع اکثر من فی الا رح یضلوک عن سبیل اللہ یعنی  اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی جین لیں گے۔ سورۃ یوسف میں فرمان ہے اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے۔

۴

سابقہ باغیوں کی بستیوں کے کھنڈرات باعث عبرت ہیں

ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے انہیں جھٹلاتے تھے تم سے پہلے ہم ہلاک کر چکے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی، جیسے فرمان ہے تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق نے انہیں سوبالا کر دیا، ایک اور آیت میں ہے، بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کر دیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں اور جگہ ارشاد ہے بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کر دیئے دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے۔ حقیقتاً وارث و مالک ہم ہی ہیں ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آ گئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت، کہیں رات کے سونے کے وقت، چنانچہ ایک آیت میں ہے افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائماون اوامن اھل القری ان یاتیھم باسنا ضحی وھم یلعبون یعنی لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آ جائے ؟ یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دہاڑے دوپہر کو ان کے آرام کے وقت ان پر ہمارا عذاب آ جائیں ؟ اور آیت میں ہے کہ مکاریوں کی وجہ سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ یا ان کے پاس عذاب الٰہی اس طرح آ جائے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے یا اللہ انہیں ان کی بے خبری میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کر سکے، یہ تو رب کی رحمت و رافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں، عذاب رب آ جانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے لیکن اس وقت کیا نفع ؟ اسی مضمون کو آیت وکم قصمنا میں بیان فرمایا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا انہیں عذاب نہیں کرتا، عبدالملک سے جب یہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا انہیں عذاب نہیں کرتا تو آپ نے یہ آیت فما کان دعوھم الخ، پڑھ سنائی پھر فرمایا امتوں سے بھی، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہو گا، جیسے فرمان ہے ویوم ینادیھم فیقول ماذا اجبتم المرسلین یعنی اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟ اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے اور آیت میں ہے یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم الخ، رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں غیب کا جاننے والا تو ہی ہے پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے۔ بادشاہ سے آ سکی رعایا کا ہر آدمی سے اس کی اہل و عیال کا، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہو گا۔ راوی حدیث حضرت طاؤس نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر آیت کی تلاوت کی۔ اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے اور زیادتی ابن مردویہ نے نقل کی ہے، قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی جائے گی۔ اللہ ہر شخص کے اعمال سے با خبر ہے اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔ زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ ہوتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے۔ تر و خشک چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے۔

۸

میزان اور اعمال کا دین

قیامت کے دن نیکی بدی انصاف و عدل کے ساتھ تولی جانے کی، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ جیسے فرمان ہے ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ الخ، قیامت کے دن ہم عدل کی ترازو رکھیں گے، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بری ظلم نہیں کرتا، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے احر عظیم عطا فرماتا ہے۔ سورۃ قارعہ میں فرمایا جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے اور آیت میں ہے فاذا نفخ فی الصور فلاانساب بینھم یومئذ والا یتساء لون یعنی جب فصحہ پھونک دیا جائے گا سارے رشتے ناتے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے، کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پالی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تو لے جائیں گے کوئی کہتا ہے نامہ اعمال تو لے جائیں گے۔ کوئی کہتا ہے خود عمل کرنے والے تو لے جائیں گے۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی عمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے اللہ اعلم۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بے جسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یادو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا۔ حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنا دور تک نظر پہنچے۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لا یا جائے گا جس پر لا الہ الا اللہ ہو گا۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تاعلی فرمائے گا تو اس سے بے خطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے، اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے (ترمذی) تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی فلا نقیم لھم یوم القیامۃ و زنا ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے۔

۱۰

اللہ تعالیٰ کے احسانات

اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کے لئے بنائی۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں اس میں چشمے جاری کئے اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سے نفع کی چیزیں اس لئے پیدائش فرمائیں۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لئے کھیت اور باغات پیدا کئے۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گزاری نہیں کرتے ایک آیت میں فرمان ہے وان تعدوانعمۃ اللہ محصوھا ان الا نسان لظلوم کفار یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں۔ لیکن انسان بڑا ہی نا انصاف اور نا شکرا ہے معایش تو جمہور کی قرات ہے لیکن عبدالرحمن بن ہر مزاعرج معایش پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ معایش جمع ہے معیشۃ کی۔ اس کا باب عاش یعیش عیشا ہے معیشۃ کی اصل معیشۃ ہے۔ کسرہے پر تقلیل تھا نقل کر کے ماقیل کو دیا معیشۃ ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسرہے پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا پس مفاعل کے وزن پر معایش ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں یا اصلی ہے۔ بخلاف مدائین، صہائف اور بصائر کے جو مدینہ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف اور ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۱

ابلیس، آدم علیہ السلام اور نسل آدم

انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم کا حسد کیا۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت واذ قال ربک للملا ئکتہ انی خالق بشرا میں بھی ہے۔ حضرت آدم کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورۃ بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی پسند فرمایا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ہی ہوا تھا۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت وظللنا علیکم الغمام الخ، اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی۔ یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت ولقد خلقنا الانسان من سلالتہ من طین الخ، ہے کہ مراد آدم ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین واللہ اعلم۔

۱ ۲

عذر گناہ بد تر از گناہ

الا تسجد میں لا بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کے لئے ہے۔ جیسے کہ شاعر کے قول ماان رایت ولا سمعت بمثلہ میں مانا فیہ پر ان نفی کے لئے صرف تاکید اً داخل ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے لم یکن من الساجدین ہے پھر مامنعکس الا تسجد ہے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں منعک ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقریر عبارت یوں ہوئی ما احوجک والزمک وا ضطرک الا تسجد اذا مرتک یعنی تجھے کس چیز نے بے بس محتاج اور ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے؟ وغیرہ۔ یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے۔ واللہ اعلم۔ ابلیس نے جو وجہ بتائی سچ تو یہ ہے کہ وہ عذر گناہ بد تراز گناہ کی مصداق ہے۔ گویا وہ اطاعت سے اس لئے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو  مفضول کے سامنے سجدہ کئے جانے کا حکم ہی نہیں دیا جا سکتا۔ تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر بہتر ہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا یہ مٹی سے۔ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کہ اللہ عزوجل نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اپنی روح پھونکی ہے۔ پاس اس وجہ سے کہ اس نے فرمان الٰہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہو گیا۔ اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی۔ مٹی کے اوصاف ہیں، نرم ہونا، حامل مشقت ہونا، دوسروں کا بوجھ سہانا، چیزوں کو اگانا، بڑھانا، پرورش کرنا، اصلاح کرنا وغیرہ اور آگ کی صفت ہے جلدی کرنا، جلا دینا، بے چینی پھیلانا، پھونک دینا، اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور حضرت آدم نے اپنے گناہ کی معذرت کی، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا، اپنے گناہ کا اقرار کیا، رب سے معافی چاہی، بخشش کے طالب ہوئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے (مسلم) ایک اور روایت میں ہے فرشتے نور عرش سے جنت آگ سے۔ ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں۔ امام حسن فرماتے ہیں ابلیس نے یہ کام کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔ حضرت امام ابن سیرین رحمۃ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے۔ یاد رکھو سورج چاند کی پرستش اسی کی بدولت شروع ہوئی ہے۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے۔

۱۳

نا فرمانی کی سزا

ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نا فرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں۔ بعض نے کہا ہے فیھا کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سر کش رہ نہیں سکتا۔ جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا۔ اس حکام پر کسی کی حکومت نہیں، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے۔ وہ سریع الحساب ہے۔

۱۶

ابلیس کا طریقہ واردات اس کی اپنی زبانی

ابلیس نے جب عہد الٰہی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تو نے میری راہ ماری میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ فبما میں باء قسم کے لئے ہے یعنی مجھے قسم ہے میں اپنی بربادی کے مقابلہ میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا۔ عون بن عبد اللہ کہتے ہیں میں مکے کے راستے پر بیٹھ جاؤں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر۔ چنانچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتا ہے وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے اسلام لانے والے کے دل میں و سو سے پیدا کرتا ہے کہ تو اپنے اور اپنے باپ داد اکے دین کو کیوں چھوڑتا ہے۔ اللہ کو اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے۔ ہجرت کی راہ سے روکنے کے لئے اڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے؟ اپنی زمین و آسمان سے الگ ہوتا ہے؟ غربت و بے کسی کی زندگی اختیار کرتا ہے؟ لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں اتا اور ہجرت کر گزرتا ہے۔ پھر جہاد کی روک کے لئے آتا ہے اور جہاد مال سے ہے اور جان سے۔ اس سے کہتا ہے کہ تو کیوں جہاد میں جاتا ہے؟ وہاں قتل کر دیا جائے کا، پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اس کی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھ دنیا ہے پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گو وہ جانور سے گر کر ہی مر جائیں۔ اس دوسری آیت کی تفسیر میں ابن عباس کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملہ میں شک و شبہ میں پیدا کرنا ہے۔ دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاؤں گا دائیں طرف سے آنا امردین کو مشکوک کرنا ہے بائیں طرف سے آنا گناہوں کو لذیذ بنانا ہے شیطانوں کا یہی کام ہے ایک اور روایت میں ہے کہ شیطان کہتا ہے میں ان کی دنیا و آخرت، نیکیاں بھلائیاں سب تباہ کر دینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں۔ وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے۔ وہ بائیں سے آ کر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں پس ہر طرف سے آ کر ہر طرح بہکاتا ہے ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آ سکتا۔ اللہ کے بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الٰہی کی روک نہیں بن سکتا۔ پس سامنے یعنی دنیا اور پیچھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کی دیکھیں اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں یہ اقوال سب ٹھیک ہیں۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور سر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے، اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں وہ سمت رحمت رب کے آنے کے لئے خالی ہے اور وہاں شیطان کی روک نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو تو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد۔ ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن نکلا مطابق واقعہ۔ جیسے فرمان ہے ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ الخ، یعنی ابلیس نے اپنا گمان پورا کر دکھایا سوائے مومنوں کی پاکباز جماعت کے اور لوگ اس کے مطیع بن گئے حالانکہ شیطان کی کچھ حکومت تو ان پر نہ تھی مگر ہاں ہم صحیح طور سے ایمان رکھنے والوں کو اور شکی لوگوں کو الگ الگ کر دینا چاہتے تھے۔ تیرا رب ہر حیز کا حافظ ہے۔ مسند بزار کی ایک حسن حدیث میں ہر طرف سے پناہ مانگنے کی ایک دعا آئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں اللھم انی اسأالک العفو والعفۃ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی اللھم استر عورانی وامن روعانی واحفظنی من بین یدی ومن خلقی وعن یمیں ی وعن شمالی و من فوقی و اعوذبک اللھم ان افتال من تحتی مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر صبح شام اس دعا کو پڑھتے تھے اللھم انی اسأالک العافیۃ فی الدین والا خرۃ اس کے بعد کی دعا کے کچھ فرق سے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔

۱۸

اللہ تعالیٰ کے نافرمان جہنم کا ایندھن ہیں

اس پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ہے، رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے۔ فرشتوں کی جامعت سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ عیب دار کر کے اتار دیا جاتا ہے، لفظ مذوم ماخوذ ہے ذام اور ذیم سے، یہ لفظ بہ نسبت لفظ ذم کے زیادہ مبالغے والا ہے، پس اس کے معنی عیب دار کے ہوئے اور مد حور کے منی دور کئے ہوئے کے ہیں مقصد دونوں سے ایک ہی ہے۔ پس یہ ذلیل ہو کر اللہ کے غضب میں مبتلا ہو کر نیچے اتار دیا گیا۔ اللہ کی لعنت اس پر نازل ہوئی اور نکال دیا گیا اور فرمایا گیا کہ تو اور تیرے ماننے والے سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں جیسے اور آیت میں ہے فان جھنم جز اوکم الخ، تمہاری سب کی سزا جہنم ہے تو جس طرح چاہ انہیں بہکا لیکن اس سے مایوس ہو جا کہ میرے خاص بندے تیرے وسوسوں میں آ جائیں ان کا وکیل میں آپ ہوں۔

۱۹

پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام

ابلیس کو نکال کر حضرت آدم و حوا کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہوا نہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کر دوں۔ چنانچہ جھوٹ افترا باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقا اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ۔ جیسے فرمان ہے یبین اللہ لکم ان تضلو ا مطلب یہ ہے کہ لئلا تضلوا اور آیت میں ہے ان تمید بکم یہاں بھی یہی مطلب ہے۔ ملکین کی دوسری قرات ملکین بھی ہے لیکن جمہور کی قرات لام کے زبر کے ساتھ ہے۔ پھر اپنا اعتبار جمانے کے لئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھا لو بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے قاسم باب مفاصلہ سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں قاسم آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لئے۔ اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں حضرت آدم آ گئے۔ سچ ہے مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں۔

 ۲ ۲

لغزش کے بعد کیا ہوا؟

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے، شرمسار ہوں، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں، درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نا فرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔ چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گزری کھانے پینے کو ترس گئے، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی، کھیتی کا کام بتایا گیا، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے، وہ آگے بڑھے، بالیں نکلیں، دانے پکے، پھر توڑے گئے، پھر پیسے گئے، آٹا گندھا، پھر روٹی تیار ہوئی، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ!

 ۲۴

سفر ارضی کے بارہ میں یہودی روایات

بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدم، حضرت حوا، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے۔ بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدم ہیں اور شیطان ملعون۔ جیسے سورۃ طہ میں ہے اھبطا منھا جمیعا حوا حضرت آدم کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے، شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن میں یا حدیث میں ضرور ہوتا، کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا۔ جیسے فرمان ہے منھا خلقنا کم وفیھا نعید کم ومنھا نخر جکم تارۃ اخری پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بی یہ اور مرنے کی جگہ بھی یہی، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے، پھر بدلہ دیئے جائیں گے۔

 ۲۶

لباس اور داڑھی جمال و جلال

یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت رونق اور جمال کے پہنا جائے۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال و خوش لباسی کے بھی ہیں۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا الہمد اللہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی و اتجمل بہ فی حیاتی پھر فرمانے لگے میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی (ترمذی ابن ماجہ وغیرہ) مسند احمد میں ہے حضرت علی نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کو خریدا اور اسے پہنا جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی الحمد اللہ الذی رزقنی من ریاش ما اتجمل بہ فی الناس واواری بہ عورتی یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں ؟ فرمایا میں نے اسے حضور سے سنا ہے لباس التقویٰ کی دوسری قرات لباسَ التقویٰ سین کے زبر سے بھی ہے۔ رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کے دن پرہیز گاروں کو جو لباس عطا ہو گا وہ ہے۔ ابن جریج کا قول ہے لباس تقوی ایمان ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے، عروہ کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے۔ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مرادیہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور باہم یک دیگر قریب قریب ہیں۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حضرت حسن سے مرقوم ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو اللہ سے ڈورو خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کا نا پھوسی کرنے میں۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر علانیہ ڈال دے گا اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے۔ ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ حضرت عثمان نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔

 ۲۷

ابلیس سے بچنے کی تاکید

تمام انسانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ ہوشیار کر رہا ہے کہ دیکھو ابلیس کی مکاریوں سے بچتے رہنا وہ تمہارا بڑا ہی دشمن ہے دیکھو اسی نے تمہارے باپ آدم کو دار سرور سے نکالا اور اس مصیبت کے قید خانے میں ڈالا ان کی پردہ دری کی۔ پس تمہیں اس کے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہئے۔ جیسے فرمان ہے افتخذو نہ و ذریۃ اولیاء من دونی وھم لکم عدو بئس للظالمیں بدلا یعنی کیا تم ابلیس اور اس کی قوم کو اپنا دوست بناتے ہو؟ مجھے چھوڑ کر ؟ حالانکہ وہ تو تمہارا دشمن ہے ظالموں کا بہت ہی برا بدلہ ہے۔

 ۲۸

جہالت اور طواف کعبہ

مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں اسی حالت میں طواف کریں گے۔ عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں۔

الیوم یبدو بعضہ اوکلہ وما بدا منہ فلا احلہ

آج اس کا تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو جائے گا اور جتنا بھی ظاہر ہو میں اسے اس کے لئے جائز نہیں رکھتی۔ اس پر آیت واذا افعلوا الخ، نازل ہوئی ہے۔ یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب بیت اللہ شریف کا طواف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں نہیں کرتے تھے سمجھتے تھے کہ یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نا فرمانیاں کی ہیں اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہنے ہوئے طواف کر سکیں ہاں قریش جو اپنے تئیس حمس کہتے تھے اپنے کپڑوں میں بھی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں وہ بھی ان کے دیئے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں۔ پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار ڈالتا تھا اب یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے۔ پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اس کو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا ہو کر طواف کرے۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد عورت اپنے آگے کے عضو پر ذرا سی کوئی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گزرا لیکن عموماً عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں یہ بدعت انہوں نے از خود گھڑ لی تھی اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہہ دیتے تھے کہ اللہ کا بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فرمودۂ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے۔ اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا۔ ایک تو برا کام کرتے ہوں دورے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہو یہ چوری اور سینہ زوری ہے۔ کہہ دے کہ رب العالمیں کا حکم تو عدل و انصاف کا ہے، استقامت اور دیانت داری کا ہے، برائیوں اور گندے کاموں کے چھوڑنے کا ہے، عبادات ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق ہوں، جن کی سچائی ان کے زبر دست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے، ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا۔ اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا، دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا، آخرت کے دن بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا، پہلے تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں بنایا۔ اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا۔ جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتدا کی تھی اس طرح پھر سے تمہارا اعدہ کرے گا چنانچہ حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک وعظ میں فرمایا لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدنوں بے ختنہ جمع کئے جاؤ گے جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دوہرائیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں۔ یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے ویسے ہی تم ہوؤ گے۔ ایک روایت میں ہے جیسے تمہارے اعمال تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بد بختی لکھ دی ہے وہ بد بختی اور بد اعمالی تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بد بختی لکھ دی ہے وہ بد بختی اور بد اعمالی کی طرف ہی لوٹے گا گو درمیان میں نیک ہو گیا اور جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے وہ انجام کار نیک ہی ہو گا گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سرزد ہو جائیں۔ جیسے کہ فرعون کے زمانے کے جادوگر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں اور کفر میں کٹی لیکن آخر وقت مسلمان اولیاء ہو کر مرے۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر پیدا کر چکا ہے ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش مومن و کافر ہونے کی حالت میں کی جیسے فرمان ہے ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مومن و کافر کے گروہوں میں۔ اسی قول کی تائید صحیح بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھ آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے، دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اس کے وہ کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں۔ اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے اور حدیث میں ہے ہر نفس اسی پر اٹھا یا جائے گا جس پر تھا (مسلم) ایک اور روایت میں ہے جس پر مرا۔ اگر اس آیت سے مرد یہی لی جائے تو اس میں اس کے بعد فرمان فاقم و جھک میں اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں اور صحیح مسلم کی حدیث جس میں فرمان باری ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا، اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مومن و کافر ہونے کے لئے پیدا کیا۔ گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھٹی میں رکھ دیا تھا اس کے باوجود اس نے مقدمہ کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بد بخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے۔ جیسے فرمان ہے اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن اور حدیث میں ہے ہر شخص صبح کرتا ہے پھر اپنے نفس کی خرید فروخت کرتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ کی تقدیر، اللہ کی مخلوق میں جاری ہے، اسی نق مقدر کیا اسی نے ہدایت کی، اسی نے ہر ایک کو اس کی پیدائش دی پھر رہنمائی کی۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ سعادت والوں میں سے ہیں ان پر نیکوں کے کام آ سان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں ان پر بدیاں آسان ہوں گی۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے اس فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی۔ پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھور کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے، اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کسی معصیت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تا وقتیکہ اس کے پاس صحیح چیز صاف آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد اور عناد سے جما رہے۔ کیونکہ اگر یہ مذہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے تئیس ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں ان میں کوئی فرق نہ ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں فرق کیا ان کے نام میں بھی اور ان کے احکام میں بھی۔ آیت آپ کے سامنے موجود ہے پڑھ لیجئے۔

۳۱

برہنہ ہو کر طواف ممنوع قرار دے دیا گیا

اس آیت میں مشرکین کا رد ہے وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گزرا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں۔ پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جاؤ، اللہ تعالیٰ زینت کے لینے کو حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپا لے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے واللہ اعلم۔ یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے۔ خصوصاً جمعہ کے دن اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لئے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے۔ جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔ سنن کی ایک اور حدیث میں ہے سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو۔ طبرانی میں مروی ہے کہ حضرت تمیم داری نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کر دیا ارشاد ہے کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہ کھا جو چاہ پی لیکن دو باتوں سے بچ اسراف اور تکبر۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کھاؤ پیو پہنو اور پڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے۔ آپ فرماتے ہیں کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو، فرماتے ہیں انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ای کھانے کے لئے ایک پانی کے لئے ایک سانس کے لئے۔ فرماتے ہیں یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے کھائے۔ لیکن حدیث غریب ہے۔ مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کر تے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کر لیا جائے۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پئے۔ حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ۔ نہ حرام کو حلال کرو نہ حلال کو حرام کہو۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے۔

۳ ۲

آخر کار مومن ہی اللہ کی رحمت کا سزا وار ٹھہرا

کھانے پینے پہننے کی ان بعض چیزوں کو بغیر اللہ کے فرمائے حرام کر لینے والوں کی تردید ہو رہی ہے اور انہیں ان کے فعل سے روکا جا رہا ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کے لئے ہی تیار ہوئی ہیں گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں لیکن پھر قیامت کے دن یہ الگ کر دیئے جائیں گے اور صرف مومن ہی اللہ کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔ ابن عباس راوی ہیں کہ مشرک ننگے ہو کہ اللہ کے گھر کا طواف کر تے تھے سیٹیاں اور تالیاں بجاتے جاتے تھے پس آیتیں اتریں۔

۳۳

 بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں۔ سورۃ انعام میں چھپی کھلی بے حیائیوں کے متعلق پوری تفسیر گزر چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ کو حرام کر دیا ہے اور ناحق ظلم و تعدی، سرکشی اور غرور کو بھی اس نے حرام کیا ہے پس اثم سے مراد ہر وہ گناہ ہے جو انسان آپ کرے اور بغی سے مراد وہ گناہ ہے جس میں دوسرے کا نقصان کرے یا اس کی حق تلفی کرے۔ اسی طرح رب کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا بھی حرام ہے اور ذات حق پر بہتان باندھنا بھی۔ مثلاً اس کی اولاد بتانا وغیرہ۔ خلاف واقعہ باتیں بھی جہالت کی باتیں ہیں۔ جیسے فرمان ہے فاجتنبو الارجس من الا وثان الخ، بتوں کی نجاست سے بچو، الخ۔

۳۴

موت کی ساعت طے شدہ ہے۔ اور اٹل ہے

ہر زمانے اور ہر زمانے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے انتہائی مدت مقرر ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ ناممکن ہے کہ اس سے ایک منٹ کی تاخیر ہو یا ایک لمحے کی جلدی ہو۔ انسانوں کو ڈراتا ہے کہ جب وہ رسولوں سے ڈرانا اور رغبت دلانا سنیں تو بدکاریوں کو ترک کر دیں اور اللہ کی اطاعت کی طرف جھک جائیں۔ جب وہ یہ کریں گے تو وہ ہر کھٹکے، ہر ڈر سے، ہر خوف اور نا امیدی سے محفوظ ہو جائیں گے اور اگر اس کے خلاف کیا نہ دل سے مانا نہ عمل کیا تو وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہیں پڑے جھلستے رہیں گے۔

۳۷

اللہ پر بہتان لگانے والا سب سے بڑا ظالم ہے

واقعہ یہ ہے کہ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے اور وہ بھی جو اللہ کے کلام کی آیتوں کو جھوٹا سمجھے۔ انہیں ان کا مقدر ملے گا اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ انہیں سزا ہو گی، ان کے منہ کالے ہوں گے، ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا۔ اللہ کے وعدے و عید پورے ہو کر رہیں گے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان کی عمر، عمل، رزق جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے وہ دنیا میں تو ملے گا۔ یہ قول قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد کا جملہ اس کی تائید کرتا ہے۔ اسی مطلب کی آیت ان الذین یفترون علی اللہ الکذب الخ، ہے کہ اللہ پر جھوٹ باتیں گھڑ لینے والے فلاح کو نہیں پاتے، گو دنیا میں کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر کار ہمارے سامنے ہی پیش ہوں گے، اس وقت ان کے کفر کے بدلے ہم انہیں سخت سزا دیں گے۔ ایک آیت میں ہے کافروں کے کفر سے تو غمگین نہ ہو، ان کا لوٹنا ہماری جانب ہی ہو گا، پھر ہم فرمایا کہ ان کی روحوں کو قبض کرنے کے لئے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آتے ہیں تو ان کو بطور طنز کہتے ہیں کہ اب اپنے معبودوں کو کیوں نہیں پکارتے کہ وہ تمہیں اس عذاب سے بچا لیں۔ آج وہ کہاں ہیں ؟ تو یہ نہایت حسرت سے جواب دیتے ہیں کہ افسوس وہ تو کھوئے گئے، ہمیں ان سے اب کسی نفع کی امید نہیں رہی پس اپنے کفر کا آپ ہی اقرار کر کے مرتے ہیں۔

۳۸

کفار کی گردنوں میں طوق

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کو جو اللہ پر افترا باندھتے تھے، اس کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے، فرمائے گا کہ تم بھی اپنے جیسوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں خواہ انسانوں میں سے جہنم میں جاؤ۔ فی النار یاتو فی امم کا بدل ہے یا فی امم میں فی معنی میں مع کے ہے۔ ہر گروہ اپنے ساتھ کے اپنے جیسے گروہ پر لعنت کرے گا جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے سے اس روز کفر کرو گے اور آیت میں ہے اذتھبر ا یعنی وہ ایسا برا وقت ہو گا کہ گرو اپنے چیلوں سے دست بردار ہو جائیں گے، عذابوں کو دیکھتے ہی آپس کے سارے تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ مرید لوگ اس وقت کہیں گے کہ اگر ہمیں بھی یہاں سے پھر واپس دنیا میں جانا مل جائے تو جیسے یہ لوگ آج ہم سے بیزار ہو گئے ہیں ہم بھی ان سے بالکل ہی دست بردار ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان کے کرتوت ان کے سامنے لائے گا جو ان کے لئے سرتا سر موجب حسرت ہوں گے اور یہ دوزخ سے کبھی آزاد نہ ہوں گے۔ یہاں فرماتا ہے کہ جب یہ سارے کے سارے جہنم میں جا چکیں گے تو پچھلے یعنی تابعدار مرید اور تقلید کرنے والے اگلوں سے یعنی جن کی وہ مانتے رہے ان کی بابت اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے اس سے ظاہر ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے ان سے پہلے ہی جہنم میں موجود ہوں ے کیونکہ ان کا گناہ بھی بڑھا ہوا تھا کہیں گے کہ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کر چنانچہ اور آیت میں ہے یوم تقلب وجو ھھم فی النار الخ، جبکہ ان کے چہرے آتش جہنم میں ادھر سے ادھر جھلسے جاتے ہوں گے۔ اس وقت حسرت و افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول کے مطیع ہوتے۔ یا اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی تابعداری کی جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کر۔ انہیں جواب ملا کہ ہر ایک کے لئے دگنا ہے۔ یعنی ہر ایک کو اس کی برائیوں کا پورا پورا بدلہ مل چکا ہے۔ جیسے فرمان ہے الذین کفروا اوصدوا عن سبیل اللہ زدنا ھم عذابا الخ، جنہوں نے کفر کیا اور راہ رب سے روکا ان کا ہم عذاب اور زیادہ کریں گے اور آیت میں ہے ولیحملو اثقالھم مع اثقالھم یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور آیت میں ہے ان کے بوجھ ان پر لادے جائیں گے جن کو انہوں نے بے علمی سے گمراہ کیا۔ اب وہ جن کی مانی جاتی رہی اپنے ماننے والوں سے کہیں گے کہ جیسے ہم گمراہ تھے تم بھی گمراہ ہوئے اب اپنے کرتوت کا بدلہ اٹھاؤ اور آیت میں ہے ولو تری اذالظالمون موقوفون عندربھم کاش کہ تو دیکھتا جب کہ یہ گنہگار اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ہوں گے ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہوں گے۔ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن بن جاتے۔ وہ جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا؟ وہ تو تمہارے سامنے کھلی ہوئی موجود تھی بات یہ ہے کہ تم خود ہی گنہگار بد کردار تھے۔ یہ پھر کہیں گے کہ نہیں نہیں تمہاری دن رات کی چالاکیوں نے اور تمہاری اس تعلیم نے (کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں ) ہمیں گم کردہ راہ بنا دیا۔ بات یہ ہے کہ سب کے سب اس وقت سخت نادم ہوں گے لیکن ندامت کو دبانے کی کوشش میں ہوں گے۔ کفار کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور دیا جائے گا نہ کم نہ زیادہ (پورا پورا)

۴۰

بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں

کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں، نہ ان کی روحوں کے لئے آسمان کے دروازے کھلیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب بدکاروں کی روحیں قبض کی جاتی ہیں اور فرشتے انہیں لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے؟ یہ اس کا بد سے بد نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں کی۔ یہاں تک کہ یہ اسے آسمان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں لیکن ان کے لئے دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت لا تفتح لھم ابواب السماء پڑھی یہ بہت لمبی حدیث ہے جو سنن میں موجود ہے۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں موجود ہے۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں ہم حضور کے ساتھ تھے جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی سب بیٹھ گئے ہم اس طرح خاموش اور با ادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ زمین پر پھرا رہے تھے تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھا کر دو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو، پھر فرمایا مومن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے وہ آ کر مرنے والے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے اطمینان والی روح اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چل یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جتنی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو۔ اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا وہ لے کر کہتے ہیں فلاں کی۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہو جاتی ہے اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں اللہ عزوجل فرماتا ہے اس میرے بندے کی کتاب علیین میں رکھ کر اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔ پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے کون تھے وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ تھے صلی اللہ علیہ و سلم۔ فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا۔ وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے اس کے لئے جنت کا فرش بچھا دو۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دو۔ پس اس کے پاس جنت کی تر و تازگی اس کی خوشبو اور وہاں کی ہوا آتی رہتی ہے اور اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے اس کے پاس ایک نہایت حسین و جمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے خوش ہو جا یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ان سے پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اب تو مومن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہو جائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پالوں اور کافر کی جب دنیا کی آخر گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ کی ناراضگی اور اس کے غصب کی طرف چل یہ سن کر وہ روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بد بو نکلتی ہے یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں فرشتوں کا جو گر وہ ملتا ہے اس سے پوچھتا ہے کہ یہ ناپاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کی روح جس کا بدترین نام دنیا میں تھا انہیں بتاتے ہیں پھر آسمان کا دروازہ اس کے لئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی یہ آیت لا تفتح الخ، تلاوت فرمائی۔ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے اس کی کتاب سحبین میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اس کی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ومن یشرک باللہ فکا نما خرمن السماء فتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق یعنی جس نے اللہ کے ساتھ شریک یا گویا وہ آسمان سے گر پڑا پس اسے یا تو پرند اچک لے جائیں گے یا ہوائیں کسی دور دراز کی ڈراؤنی ویران جگہ پر پھینک دیں گے۔ اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ اور اس کے پاس وہ فرشتے پہنچتے ہیں اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ یہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے خبر نہیں۔ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ جواب دیتا ہے افسوس مجھے اس کی بھی خبر نہیں۔ پوچھتے ہیں بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟ یہ کہتا ہے آہ میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا۔ اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے اس غلام نے غلط کہا اس کے لئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو وہاں سے اے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں اس کی قبر اس پر تنگ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں، اس کے پاس ایک شخص نہاتی مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا برے کپڑے پہنے بری بد بو والا آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا یہ پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے؟ یہ جواب دیتا ہے کہ میں تریا خبیث عمل ہوں۔ یہ کہتا ہے یا اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ اسی روایت کی دوسری سند میں ہے کہ مومن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دروازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے اس میں یہ بھی ہے کہ کافر کی قبر میں اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گر ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے پھر اسے جیسا وہ تھا اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے۔ فرشتہ دوبارہ اسے گز مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ابن جریر میں ہے کہ نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں اسے مطمئن نفس جو طیب جسم میں تھا تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے، یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ برے شخص سے وہ کہتے ہیں اے خبیث نفس ! جو خبیث جسم میں تھا تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل۔ اس کے نکلنے تک فرشتے اسے یہی سناتے رہتے ہیں۔ پر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اس خبیث کو مرحبا نہ کہو۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں بد بن کر لوٹ جا۔ اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے۔ امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں نہ ان کی روحیں اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس کے بعد کے جملے میں جمہور کی قرات تو جمل ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں۔ لیکن ایک قرات میں جمل ہے اس کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں۔ مطلب بہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکے نہ پہاڑ، اسی طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ظالموں کی یہی سزا ہے۔

۴ ۲

اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل انسانی بس میں ہے

اوپر گنہگاروں کا ذکر ہوا یہاں اب نیک بختوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ جن کے دل میں ایمان ہے اور جو اپنے جسم سے قرآن و حدیث کے مطابق کام کرتے ہیں بخلاف بدکاروں کے کہ وہ دل میں کفر رکھتے ہیں اور عمل سے دور بھاگتے ہیں۔ پھر فرمان ہے کہ ایمان اور نیکیاں انسان کے بس میں ہیں اللہ کے احکام انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں۔ ایسے لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں ہی رہیں گے۔ ان کے دلوں میں سے آپس کی کدورتیں حد بغض دور کر دیئے جائیں گے۔ چنانچہ صحیح بکری شریف کی حدیث میں ہے کہ مومن آگ سے چھٹکارا حاصل کر کے جنت و دوزخ کے درمیان ایک ہی پل پر روک دیئے جائیں گے وہاں ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ ہو جائے گا اور پاک ہو کر جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔ واللہ وہ لوگ اپنے اپنے درجوں کو اور مکانوں کو اس طرح پہچان لیں گے جیسے دنیا میں جان لیتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اہل جنت دروازہ جنت پر ایک درخت دیکھیں گے جس کی جڑوں کے پاس سے دو نہریں بہ رہی ہوں گی یہ ان میں سے ایک کا پانی پئیں گے جس سے دلوں کی کدورتیں دھل جائیں گی یہ شراب طہور رہے پھر دوسری نہر میں غسل کریں گے جس سے چہروں پر تر و تازگی آ جائے گی پھر نہ تو بال بکھریں نہ سرمہ لگانے اور سنگھار کرنے کی ضرورت پڑے۔ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی جیسا قول مروی ہے جو آیت وسیق الذین اتقوا کی تفسیر میں آئے گا ان شاء اللہ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انشاء اللہ میں اور عثمان اور طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ صاف کر دے گا۔ فرماتے ہیں کہ ہم اہل بدر کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ہر جنتی کو اپنا جہنم کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ وہ اور بھی شکر کرے اور وہ کہے گا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت عنایت فرمائی اور ہر جہنمی کو اس کا جنت کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ اس کی حسرت بڑھے اس وقت وہ کہے گا کاش کہ میں بھی راہ یافتہ ہوتا۔ پھر جنتیوں کو جنت کی جگہیں دے دی جائیں گی اور ایک منادی ندا کرے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم بہ سبب اپنی نیکیوں کے وارث بنا دیئے گئے یعنی تمہارے اعمال کی وجہ سے تمہیں رحمت رب ملی اور رحمت رب سے تم داخل جنت ہوئے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا یاد رکھو! تم میں سے کوئی بھی صرف اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جا سکتا لوگوں نے پوچھا آپ بھی نہیں ؟ فرمایا ہاں میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت و فضل میں ڈھانپ لے۔

۴۴

جنتیوں اور دوزخیوں میں مکالمہ

جنتی جب جنت میں جا کر امن چین سے بیٹھ جائیں گے تو دوزخیوں کو شرمندہ کرنے کے لئے ان سے دریافت فرمائیں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے کئے گئے تھے صحیح پایا تم اپنی کہو۔ ان یہاں پر منسرہ ہے قول مخدوف کا اور قد تحقیق کے لئے ہے۔ اس کے جواب میں مشرکین ندامت سے کہیں گے کہ ہاں ہم نے بھی اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے تھے ٹھیک پایا۔ جیسا سورۃ صافات میں فرمان ہے کہ اہل جنت میں سے ایک کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا جو مجھ سے تعجب کے ساتھ سوال کیا کرتا تھا کہ کیا تو بھی ان لوگوں میں سے ہے جو قیامت کے قائل ہیں ؟ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے کیا واقعہ ہی ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ اور ہمیں بدلے دیئے جائیں گے؟ یہ کہہ کروہ اوپر سے جھانک کر دیکھے گا تو اپنے اس ساتھی کو بیچ جہنم میں پائے گا کہے گا قسم اللہ کی تو تو مجھے بھی تباہ کرنے ہی کو تھا اگر میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی آج گرفتار عذاب ہوتا۔ اب بتاؤ دنیا میں جو کہا کرتا تھا کیا سچا تھا کہ ہم مر کر جینے والے اور بدلہ بھگتنے والے ہی نہیں ؟ اس وقت فرشتے کہیں گے یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھوٹا مان رہے تھے اب بتاؤ کیا یہ جادو ہے؟ یا تمہاری آنکھیں نہیں ہیں ؟ اب یہاں پڑے جلتے بھنتے رہو صبر اور بے صبری دونوں نتیجے کے اعتبار سے تمہارے لئے یکساں ہے۔ تمہیں اپنے کئے کا بدلہ پانا ہی ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار قریش کے ان مقتولوں کو جو بدر میں کام آئے تھے اور جن کی لاشیں ایک کھائی میں تھیں ڈانٹا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اے ابوجہل بن ہشام، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ اور دوسرے سرداروں کا بھی نام لیا اور فرمایا کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ میں نے تو اپنے رب کے وہ وعدے دیکھ لئے جو اس نے مجھ سے کئے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! آپ ان سے باتیں کر رہے ہیں جو مر کر مردار ہو گئے؟ تو آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری بات کو تم بھی ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وقت ایک منادی ندا کر کے معلوم کرا دے گا کہ ظالموں پر رب کی ابدی لعنت واقع ہو چکی۔ جو لوگوں کو راہ حق اور شریعت ہدیٰ سے روکتے تھے اور چاہتے تھے کہ اللہ کی شریعت ٹیڑھی کر دیں تاکہ اس پر کوئی عمل نہ کرے۔ آخرت پر بھی انہیں یقین نہ تھا اللہ کی ملاقات کو نہیں مانتے تھے اسی لئے بے پرواہی سے برائیاں کرتے تھے۔ حساب کا ڈر نہ تھا اس لئے سب سے زیادہ بد زبان اور بد اعمال تھے۔

۴۶

جنت اور جہنم میں دیوار و حجاب

جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک اور حجاب حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے اسی دیوار کا ذکر آیت فضرب بینھم بسور الخ، میں ہے یعنی ان کے درمیان ایک دیوار ہائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے۔ اسی کا نام اعراف ہے۔ اعراف عرف کی جمع ہے ہر اونچی زمین کو عرب میں عرفہ کہتے ہیں اسی لئے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں عرف الدیک کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ ایک اونچی جگہ ہے جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے۔ سدی فرماتے ہیں اس کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں۔ یہاں کون لوگ ہوں گے؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برابر ہوں گی بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے۔ حضرت حذیفہ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود وغیرہ نے یہی فرمایا ہے۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضور سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بد یاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت بغیر پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا۔ ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف روایتیں ہوں۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے۔ حضرت حذیفہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے پس یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ میں نے تمہیں بخشا۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گئی تو دوزخ میں جائے گا پھر آپ نے فمن ثقلت موازینہ سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی ہے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر ہوئیں یہ اعراف والے ہیں یہ ٹھہرا لئے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے یہ جب جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا اس وقت سجے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے مجود ہو گا انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی، لوگو ایک نیکی دس گنی کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے جتنی ہو، افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے اصحاب اعراف وہیں ہوں گے۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا انہیں ہر حیات کی طرف لے جاؤ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے اس کی مٹی مشک خالص ہو گی اس میں غوطہ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لئے جائیں یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو چاہو مانگو یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا پھر فرمائے گا ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے، وہ علامت ان پر موجود ہو گی جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا، یہی روایت حضرت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا، رب العالمیں جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں جاؤ جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں۔ ابن عساکر میں فرمان نبی ہے کہ مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں انہیں عذاب بھی ہو گا، ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وہ اعراف میں ہوں گے جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ اعراف کیا ہے؟ فرمایا جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں (بیہقی ) حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ صالح دینار فقہاء علما لوگ ہوں گے ابو مجاز فرماتے ہیں یہ فرشتے ہیں جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کے تلاوت کی اور فرمایا سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بے خوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ۔ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے کیونکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے۔ حضرت مجاہد کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا غرابت سے خالی نہیں واللہ اعلم۔ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں۔ صلحا، انبیاء، ملائکہ وغیرہ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے یہ یہاں اسی لئے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کر لیں اور سب کو پہچان لیں یہ جنتیوں سے سلام کریں گے جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پانہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لئے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ظالموں میں سے نہ کر۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا۔

 

۴۸

کفر کے ستون اور ان کا حشر

کفر کے جن ستونوں کو، کافروں کے جن سرداروں کو اعراف والے ان کے چہروں سے پہچان لیں گے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کے پوچھیں گے کہ آج تمہاری کثرت جمعیت کہاں گئی؟ اس نے تو تمہیں مطلقاً فائدہ نہ پہنچایا۔ آج وہ تمہاری اکڑ فوں کیا ہوئی تم تو بری طرح عذابوں میں جکڑ دیئے گئے۔ ان کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں فرمایا جائے گا کہ بد بختو انہی کی نسبت تم کہا کرتے تھے کہ اللہ انہیں کوئی راحت نہیں دے گا۔ اے اعراف والو میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جاؤ بہ آرام بے کھٹکے جنت میں جاؤ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اعراف والوں کے اعمال صالحہ اس قابل نہ نکلے کہ انہیں جنت میں پہنچائیں لیکن اتنی برائیاں بھی ان کی نہ تھیں کہ دوزخ میں جائیں تو یہ اعراف پر ہی روک دیئے گئے، لوگوں کو ان کے اندازے سے پہچانتے ہوں گے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کر چکے گا شفاعت کی اجازت دے گا لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں ہماری شفاعت اللہ تعالیٰ کی جانب میں کیجئے۔ آپ جواب دیں گے کہ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہوا، اپنی روح اس میں پھونکی ہو، اپنی رحمت اس پر اپنے غضب سے پہلے پہنچائی ہو، اپنے فرشتوں سے اسے سجدہ کرایا ہو؟ سب جواب دیں گے کہ نہیں ایسا کوئی آپ کے سوا نہیں۔ آپ فرمائیں گے میں اس کی حقیقت سے بے خبر ہوں میں تمہاری شفاعت نہیں کر سکتا ہوں تم میرے لڑکے ابراہیم کے پاس جاؤ۔ اب سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے۔ آپ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا اور کوئی خلیل اللہ ہوا ہو؟ یا اللہ کے بارے میں اس کی قوم نے آگ میں پھینکا ہو؟ سب کہیں گے نہیں آپ کے سوا اور کوئی نہیں، فرمائیں گے مجھے اس کی حقیقت معلوم نہیں میں تمہاری درخواست شفاعت نہیں لے جا سکتا تم میرے لڑکے موسیٰ کے پاس جاؤ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ بتاؤ میرے سوا اللہ نے کسی کو اپنا کلیم بنایا، اپنی سرگوشیوں کے لئے نزدیکی عطا فرمائی ؟ جواب دیں گے کہ نہیں۔ فرمائیں گے میں اس کی حقیقت سے بے خبر ہوں میں تمہاری سفارش کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہاں تم حضرت عیسیٰ کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ان سے شفاعت طلبی کا تقاضا کریں گے یہ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ نے بے باپ کے پیدا کیا ہو؟ جواب ملے گا کہ نہیں۔ پوچھیں گے جانتے ہو کہ کوئی مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم اللہ میرے سوا اچھا کرتا ہو یا کوئی مردہ کو بحکم الہ زندہ کر دیتا ہو؟ کہیں گے کہ کوئی نہیں۔ فرمائیں گے کہ میں تو آج اپنے نفس کے بچاؤ میں ہوں، میں اس کی حقیقت سے بے خبر ہوں۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں کہ تمہاری سفارش کر سکوں، ہاں تم سب کے سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پا سجاؤ۔ چنانچہ سب لوگ میرے پا س آئیں گے میں اپنا سینہ ٹھونک کر کہوں گا کہ ہاں ہاں میں اسی لئے موجود ہوں، پھر میں چل کر اللہ کے عرش کے سامنے ٹھہر جاؤں گا۔ اپنے رب عزوجل کے پاس پہنچ جاؤں گا اور ایسی ایسی اس کی تعریفیں بیان کروں گا کہ کسی سننے والے نے کبھی نہ سنی ہوں۔ پھر سجدے میں گر پڑوں گا پھر مجھ سے فرمایا جائے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنا سر اٹھاؤ۔ مانگو دیا جائے گا۔ شفاعت کرو، قبول کی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا میرے رب میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ سب تیری ہی ہے۔ پھر تو ہر ہر پیغمبر اور ہر ایک فرشتہ رشک کرنے لگے گا۔ یہی مقام مقام محمود ہے۔ پھر میں ان سب کو لے کر جنت کی طرف آؤں گا۔ جنت کا دروازہ کھلواؤں گا اور وہ میرے لئے اور ان کے لئے کھول دیا جائے گا پھر انہیں ایک نہر کی طرف لے جائیں گے جس کا نام نہر الحیوان ہے اس کے دونوں کناروں پر سونے کے محل ہیں جو یا قوت سے جڑاؤ کئے گئے ہیں اس میں غسل کریں گے جس سے جنتی رنگ اور جنتی خوشبو ان میں پیدا ہو جائے گی اور چمکتے ہوئے ستاروں جیسے وہ نورانی ہو جائیں گے ہاں ان کے سینوں پر سفید نشان باقی رہ جائیں گے جس سے وہ پہچانے جائیں گے انہیں مساکین اہل جنت کہا جائے گا۔

۵۰

جیسی کرنی ویسی بھرنی

دوزخیوں کی ذلت و خواری اور ان کا بھیک مانگنا اور ڈانٹ دیا جانا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جنتوں سے پانی یا کھانا مانگیں گے۔ اپنے نزدیک کے رشتے کنبے والے جیسے باپ بیٹے بھائی بہن وغیرہ سے کہیں گے کہ ہم جل بھن رہے ہیں، بھوکے پیاسے ہیں، ہمیں ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانا دے دو۔ وہ بحکم الٰہی انہیں جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ کفار پر حرام ہے۔ ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے مروی ہے کہ جب ابو طالب موت کی بیماری میں مبتلا ہوا تو قریشیوں نے اس سے کہا کسی کو بھیج کر اپنے بھتیجے سے کہلواؤ کہ وہ تمہارے پاس جنتی انگور کا ایک خوشہ بھجوا دے تاکہ تیری بیماری جاتی رہے۔ جس وقت قاصد حضور کے پاس آتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پاس موجود تھے۔ سنتے ہی فرمانے لگے اللہ نے جنت کی کھانے پینے کی چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔ پھر ان کی بد کرداری بیان فرمائی کہ یہ لوگ دین حق کو ایک ہنسی کھیل سمجھے ہوئے تھے دنیا کی زینت اور اس کے بناؤ چناؤ میں ہی عمر بھر مشغول رہے۔ یہ چونکہ اس دن کو بھول بسر گئے تھے اس کے بدلے ہم بھی ان کے ساتھ ایس امعاملہ کریں گے جو کسی بھول جانے والے کا معاملہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ بھولنے سے پاک ہے اس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں سکتی۔ فرماتا ہے لا یضل ربی ولا ینسی نہ وہ بہکے نہ بھولے۔ یہاں جو فرمایا یہ صرف مقابلہ کے لئے ہے جیسے فرمان ہے نسو اللہ فنسیھم اور جیسے دوسری آیت میں ہے کذا لک اتتک ایا تنا فنسیقا وکذالک الیوم تنسی فرمان ہے الیوم ننسا کم کما نسیتم لقاء یومکم ہذا تیرے پاس ہماری نشانیاں آئی تھیں جنہیں تو بھلا بیٹھا تھا اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا وغیرہ۔ پس یہ بھلائیوں سے بالقصد بھلا دیئے جائیں گے۔ ہاں برائیاں اور عذاب برابر ہوتے رہیں گے۔ انہوں نے اس دن کی ملاقات کو بھلایا ہم نے انہیں آگ میں چھوڑا رحمت سے دور کیا جیسے یہ عمل سے دور تھے۔ صحیح حدیث میں ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیئے تھے؟ کیا عزت آبرو نہیں دی تھی ؟ کیا گھوڑے اور اونٹ تیرے مطیع نہیں کئے تھے؟ اور کیا تجھے قسم قسم کی راحتوں میں آزاد نہیں رکھا تھا ؟ بندہ جواب دے گا کہ ہاں پروردگار بیشک تو نے ایسا ہی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر کیا تو میری ملاقات پر ایمان رکھتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس میں بھی آج تجھے ایسا ہی بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھول گیا تھا۔

۵ ۲

آخری حقیقت جنت اور دوزخ کا مشاہدہ

اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے کل عذر ختم کر دیئے تھے اپنے رسولوں کی معرفت اپنی کتاب بھیجی جو مفصل اور واضح تھی۔ جیسے فرمان ہے کتاب احکمت ایاتہ ثم فضیلت الخ، اس قرآن کی آیتیں مضبوط اور تفصیل وار ہیں۔ اس کی جو تفصیل ہے وہ بھی علم پر ہے جیسے فرمان ہے انزلہ بعلمہ اسے اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ آیت اسی آیت پر جاتی ہے جس میں فرمان ہے کتاب انزل الیک فلا یکن فی صدرک حرج منہ الخ، یہ کتاب تیری طرف نازل فرمائی گئی ہے پس اس سے تیرے سینے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہئے۔ یہاں فرمایا ولقد جئنا ہم بکتاب الخ، لیکن یہ محل نظر ہے اس لئے کہ فاصلہ بہت ہے اور یہ قول بے دلیل ہے درحقیقت جب ان کے اس خسارے کا ذکر ہوا جو انہیں آخرت میں ہو گا تو بیان فرمایا کہ دنیا میں ہی ہم نے تو اپنا پیغام پہنچا دیا تھا رسول بھی کتاب بھی۔ جیسے ارشاد ہے کہ جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا۔ انہیں تو اب جنت دوزخ کے اپنے سامنے آنے کا انتظار ہے۔ یا یہ مطلب کہ اس کی حقیقت یکے بعد دیگرے روشن ہوتی رہے گی یہاں تک کہ آخری حقیقت یعنی جنت دوزخ ہی سامنے آ جائیں گی اور ہر ایک اپنے لائق مقام میں پہنچ جائے گا قیامت والے دن یہ واقعات رونما ہو جائیں گے اب جو سن رہے ہیں اس وقت دیکھ لیں گے اس وقت اسے فراموش کر کے بیٹھ رہنے والے عمل سے کورے لوگ مان لیں گے کہ بیشک اللہ کے انبیاء سچے تھے رب کی کتابیں برحق تھیں کاش اب کوئی ہمارا سفارشی کھڑا ہو اور ہمیں اس ہلاکت سے نجات دلائے یا ایسا ہو کہ ہم پھر سے دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو جو کام کئے تھے اب ان کے خلاف کریں۔ جیسے فرمان ہے ولو تری اذوقفواعلی النار الخ، کاش کہ ہم پھر دنیا میں لوٹائے جاتے، اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور مومن بن جاتے۔ اس سے پہلے جو وہ چھپا رہے تھے اب ظاہر ہو گیا حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ دنیا میں بھیجے بھی جائیں تو جس چیز سے روکے جائیں گے وہی دوبارہ کریں گے اور جھوٹے ثابت ہوں۔ انہوں نے آپ ہی اپنا برا کیا اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں رکھتے رہے آج سب باطل ہو گئیں نہ کوئی ان کا سفارشی نہ حمایتی

۵۴

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا

بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہو چکی۔ اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمولی دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ حضرت مجاہد کا قول ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباس کا قول ہے۔ ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی۔ اسی لئے اس کا نام عربی میں یوم السبت ہے سبت کے معنی قطع کرنے ختم کرنے کے ہیں۔ ہاں مسند احمد نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک۔ حضور نے حضرت ابوہریرہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی۔ اسی وجہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ زبر دست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت حضرت ابوہریرہ نے کعب احبار سے لی ہے فرمان رسول نہیں ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے۔ جیسے امام مالک، امام اوزاعی، امام ثوری، امام لیث، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راہو یہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف رجہم اللہ۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے اسی طرح اسے رکھا جائے بغیر کیفیت کے، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے، ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں۔ فرمان ہے لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے دیکھنے والا ہے۔ بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے فرمائی ہے انہی میں سے حضرت نعیم بن حماد خزاعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ حضرات امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کے لئے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ان میں ہرگز تشبیہ نہیں۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہٗ لاشریک لہ کے ثابت ہیں انہیں اسی طرح جانے جو اللہ کی جلالت شان کے شایان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے۔ پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہو جاتا ہے، ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے یہ گیا وہ آیا وہ گیا یہ آیا۔ جیسے فرمایا وایۃ لھم اللیل الخ، ان کے سمجھنے کے لئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آ جاتے ہیں۔ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے۔ ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے۔ نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیر تے پھرتے ہیں۔ رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں ایک کا جانا ہی دوسرے کا آ جانا ہے ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے والشمس والقمر والنجوم کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے۔ معنی مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے۔ یہ سب اللہ کے زیر فرمان، اس کے ماتہت اور اس کے ارادے میں ہیں۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے۔ فرمان ہے تبارک الذی جعل فی السماء بروجاالخ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جس کسی نے کسی نیک پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے الا لہ الخلق والا مر الخ، (ابن جریر) ایک مرفوع دعا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے اللھم لک الملک کلہ ولک الحمد کلہ والیک یرجع الا مر کلہ اسأالک من الخیر کلہ و اعوذبک من الشر کلہ یا اللہ سارا ملک تیرا ہی ہے سب حمد تیرے لئے ہی ہے سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

۵۵

انسان دعا مانگے، قبول ہو گی

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی، مسکینی اور آہستگی سے پکارو جیسے فرمان ہے واذکر ربک فی نفسک الخ، اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکار رہے ہو وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے۔ ابن عبس سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے، امام ابن جریر فرماتے ہیں تضرعا کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گزاری کے ہیں اور خفیۃ کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے، یقین کی صحت سے، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو نہ کہ ریا کاری کے ساتھ بہت بلند آواز سے۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، لوگ بہت بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو، یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں۔ یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں دعا میں بلند آواز، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ و زاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا۔ ابن عباس فرماتے ہیں دعا وغیرہ میں حد سے گزر جانے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔ ابو مجاز کہتے ہیں مثلاً اپنے لئے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ۔ حضرت سعد نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چہی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گزر جا یا کریں گے۔ ایک سند سے مروی ہے کہ وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں (ابو داؤد ) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں یہ کہہ رہے تھے کہ یا اللہ جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں۔ پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا، دعا کرنے کا، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں جیسے فرمایا و رحمتی وسعت کل شئی یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دونگا پرہیزگار لوگوں کے لئے۔ چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے اس لئے قریب کہا قریبۃ نہ کہا یا اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے۔

۵۷

تمام مظاہر قدرت اس کی شان کے مظہر ہیں

اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے۔ سب پر قبضہ رکھنے والا، حاکم، تدبیر کرنے والا، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے بشر اکی دوسری قرات مبشرات بھی ہے۔ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے جیسے فرمان ہے وھو الذی ینزل الغیث من بعد ماقنطو اوینشر رحمۃ وھو الولی الحمید وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت کی ریل پیل کر دیتا ہے وہ والی ہے اور قابل تعریف۔ ایک اور آیت میں ہے رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں انہیں یہ ہوائیں اٹھا لے چلتی ہیں یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت زید بن عمرو بن نفیل رحمۃ اللہ کے شعروں میں ہے میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گزار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے۔ پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں خشک اور بنجر ہے جیسے آیت وایۃ لھم الارض میں بیان ہوا ہے پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سر سبز بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے۔ پھر فرمایا یہ تمہاری نصیحت کے لئے ہے۔ اچھی زمین میں سے پیداوار عمدہ بھی نکلتی ہے اور جلدی بھی جیسے فرمان ہے وانبتھا نباتا حسنا اور جو زمین خراب ہے جیسے سنگلاخ زمین شور زمین وغیرہ اس کی پیداوار بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ یہی مثال مومن و کافر کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے تھے ان پر بھی وہ پانی برسا لیکن نہ تو وہاں رکا نہ وہاں کچھ اگا۔ یہی مثال اس کی ہے جس نے دین حق کی سمجھ پیدا کی اور میری بعثت سے اس نے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے سر ہی نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت ہی نہ لی جو میری معرفت بھیجی گئی (مسلم و نسائی)

۵۹

پھر تذکرہ انبیاء

چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے۔ آپ نوح بن لمک بن مقوشلخ بن اخنوخ (یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام۔ ائمہ نسب جیسے امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے۔ انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے۔ حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گزرے تھے۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہو گئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے۔ ود، سواع، بغوث، یعوق، نسر وغیرہ۔ جب بت پرستی کا رواج ہو گیا، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوح کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو۔ قوم نوح کے بڑوں نے، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے۔ قران میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بہک میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے۔ ہر رسول مبلغ، فصیح، بلیغ، ناصح، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو شاہد رہ، یا اللہ تو گواہ رہ۔

۶۳

نوح علیہ السلام پر کیا گزری

حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہوشیار کر دے پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پا لو اور تم پر گو نا گوں رحمتیں نازل ہوں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں نے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ کیا یہ انہیں جھٹلاتے رہے مخالفت سے باز نہ آئے ایمان قبول نہ کیا صرف چند لوگ سنور گئے۔ پس ہم نے ان نیک لوگوں کو اپنے نبی کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہ آب غرق کر دیا۔ جیسے سورۃ نوح میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کر دیئے گئے پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے اور کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی کسی قسم کی مدد کرتا۔ یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے، نابینا ہو گئے تھے، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی۔ پس اللہ نے اپنے نبی کو اپنے دوستوں کو نجات دی۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہ آب برباد کر دیا۔ جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں۔ دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے ان پرہیز گاروں کے لئے ہی عافیت ہے۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئے گئے۔ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اسی آدمیوں نے نجات پائی ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی۔ ابن ابی حاتم میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے متصلاً مروی ہے۔

۶۵

ہود علیہ السلام اور ان کا رویہ

فرماتا ہے کہ جیسے قوم نوح کی طرف حضرت نوح کو ہم نے بھیجا تھا قوم عاد کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو ہم نے نبی بنا کر بھیجا یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص بن سام بن نوح کی اولاد تھے۔ یہ عاد اولیٰ ہیں۔ یہ جنگل میں ستونوں میں رہتے تھے۔ فرمان ہے الم ترکف فعل ربک بعادارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھافی البلاہ یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد ارم کے ساتھ تیرے رب نے کیا کیا؟ جو بلند قامت تھے دوسرے شہروں میں جن کی مانند لوگ پیدا ہی نہیں کئے گئے۔ یہ لوگ بڑے قوی طاقتور اور لانبے چوڑے قد کے تھے جیسے فرمان ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے زیادہ قوی کون ہے؟ کیا انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا یقیناً ان سے زیادہ طاقت ولا ہے۔ وہ ہماری آیتوں سے انکار کر بیٹھے ان کے شہر یمن میں احقاف تھے، یہ ریتلے پہاڑ تھے۔ حضرت علی نے حضرت موت کے ایک شخص سے کہا کہ تو نے ایک سرخ ٹیلہ دیکھا ہو گا جس میں سرخ رنگ کی راکھ جیسی مٹی ہے اس کے آس پاس پیلو اور بیری کے درخت بکثرت ہیں وہ ٹیلہ فلاں جگہ حضر موت میں ہے اس نے کہا امیر المومنین آپ تو اس طرح کے نشان بتا رہے ہیں گویا آپ نے بچشم خود دیکھا ہے آپ نے فرمایا نہیں دیکھا تو نہیں لیکن ہاں مجھ تک حدیث پہنچی ہے کہ وہیں حضرت ہود علیہ السلام کی قبر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستیاں یمن میں تھیں اسی لئے ان کے پیغمبر وہیں مد فون ہیں آپ ان سب میں شریف قبیلے کے تھے اس لئے کہ انبیاء ہمیشہ حسب نسب کے اعتبار سے عالی خاندان میں ہی ہوتے رہے ہیں لیکن آپ کی قوم جس طرح جسمانی طور سے سخت اور زوردار تھی اسی طرح دلوں کے اعتبار سے بھی بہت سخت تھی جب اپنے نبی کی زبانی اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی نصیحت سنی تو لوگوں کو بھاری اکثریت اور ان کے سردار اور بڑے بول اٹھے کہ تو تو پاگل ہو گیا ہے ہمیں اپنے بتوں کی ان خوبصورت تصویروں کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی دعوت کیوں دی ؟ حضرت ہود نے انہیں جواب دیا کہ مجھ میں تو بیوقوفی کی بفضلہ کوئی بات نہیں۔ میں تو تمہیں کلام اللہ پہنچا رہا ہوں تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور امانت داری سے حق رسالت ادا کر رہا ہوں۔ یہی وہ صفتیں ہیں جو تمام رسولوں میں یکساں ہوتی ہیں یعنی پیغام حق پہنچانا، لوگوں کی بھلائی چاہنا اور امانتداری کا نمونہ بننا۔ تم میری رسالت پر تعجب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر بجا لاؤ کہ اس نے تم میں سے ایک فرد کو اپنا پیغمبر بنایا کہ وہ تمہیں عذاب الٰہی سے ڈرا دے۔ تمہیں رب کے اس احسان کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اس نے تمہیں ہلاک ہونے والوں کے بقایا میں ہے بنایا۔ تمہیں باقی رکھا اتنا ہی نہیں بلکہ تمہیں قوی ہیکل، مضبوط اور طاقتور کر دیا۔ یہی نعمت حضرت طالوت پر تھی کہ انہیں جسمانی اور علمی کشادگی دی گئی تھی۔ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ نجات حاصل کر سکو۔

۷۰

قوم عاد کا باغیانہ رویہ

قوم عاد کی سرکشی، تکبر، ضد اور عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کی تشریف آوری کا مقصد یہی ہے کہ ہم اللہ واحد کے پرستار بن جائیں اور باپ دادوں کے پرانے معبودوں سے روگردانی کر لیں ؟ سنو اگر یہی مقصود ہے تو آ سکا پورا ہونا محال ہے۔ ہم تیار ہیں اگر تم سچے ہو تو اپنے اللہ سے ہمارے لئے عذاب طلب کرو۔ یہی کفار مکہ نے کہا تھا کہنے لگے کہ یا اللہ محمد کا کہا حق ہے اور وہ واقعی تیرا کلام ہے اور ہم نہیں مانتے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی اور سخت المناک عذاب ہمیں کر۔ قوم عاد کے بتوں کے نام یہ ہیں صمد۔ صمودھبا۔ ان کی اس ڈھٹائی کے مقابلے میں اللہ کا عذاب اور اس کا غضب ثابت ہو گیا۔ رجس سے مراد رجز یعنی عذاب ہے ناراضی اور غصے کے معنی یہی ہیں۔ پھر فرمایا کہ تم ان بتوں کی بابت مجھ سے جھگڑ رہے ہو جن کے نام بھی تم نے خود رکھے ہیں یا تمہارے بڑوں نے۔ اور خواہ مخواہ بے وجہ انہیں معبود سمجھ بیٹھے ہو یہ پتھر کے ٹکڑے محض بے ضرر اور بے نفع ہیں۔ نہ اللہ نے ان کی عبادت کی کوئی دلیل اتاری ہے۔ ہاں اگر تم مقابلے پر اتر ہی آئے ہو تو منتظر رہو میں بھی منتظر ہوں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ مقبول بار گاہ رب کون ہے اور مردود بار گاہ کون ہے؟ کون مستحق عذاب ہے اور کون قابل ثواب ہے؟ آخرش ہم نے اپنے نبی کو اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو نجات دی اور کافروں کی جڑیں کاٹ دیں۔ قرآن کریم کے کئی مقامات پر جناب باری عزوجل نے ان کی تباہی کی صورت بیان فرمائی ہے کہ ان پر خیر سے خالی، تند اور تیز ہوائیں بھیجی گئیں جس نے انہیں اور ان کی تمام چیزوں کو غارت اور برباد کر دیا۔ عاد لوگ بڑے زناٹے کی سخت آندھی سے ہلاک کر دیئے گئے جو ان پر برابر سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی۔ سارے کے سارے اس طرح ہو گئے جیسے کھجور کے درختوں کے تنے الگ ہوں اور شاخیں الگ ہوں۔ دیکھ لے ان میں سے ایک بھی اب نظر آ رہا ہے؟ ان کی سرکشی کی سزا میں سرکش ہوا ان پر مسلط کر دی گئی جو ان میں سے ایک ایک کو اٹھا کر آسمان کی بلندی کی طرف لے جاتی اور وہاں سے گراتی جس سے سر الگ ہو جاتا دھڑ الگ گر جاتا۔ یہ لوگ یمن کے ملک میں، عمان اور حضر موت میں رہتے تھے، ادھر ادھر نکلتے اور لوگوں کو مار پیٹ کی جبراً و قہراً ان کے ملک و مال پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے۔ سارے کے سارے بت پرست تھے۔ حضرت ہود جو ان کے شریف خاندانی شخص تھے ان کے پاس رب کی رسالت لے کر آئے، اللہ کی توحید کا حکم دیا، شرک سے روکا لوگوں پر ظلم کرنے کی برائی سمجھائی لیکن انہوں نے اس نصیحت کو قبول نہ کیا۔ مقابلے پر تن گئے اور اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے۔ گو بعض لوگ ایمان لائے تھے لیکن وہ بھی بیچارے جان کے خوف سے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔ باقی لوگ بد ستور اپنی بے ایمانی اور نا انصافی پر جمے رہے، خواہ مخواہ فوقیت ظاہر کرنے لگے، بیکار عمارتیں بناتے اور پھولے نہ سماتے۔ ان سب کاموں کو اللہ کے رسول ناپسند فرماتے، انہیں روکتے، تقوے کی، اطاعت کی ہدایت کرتے لیکن یہ کبھی تو انہیں بے دلیل بتاتے، کبھی انہیں مجنوں کہتے۔ آپ اپنی برات ظاہر کرتے اور ان سے صاف فرماتے کہ مجھے تمہاری قوت طاقت کا مطلقاً خوف نہیں جاؤ تم سے جو ہو سکے کر لو۔ میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی بھروسے کے لائق نہ عبادت کے قابل ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز پست اور لا جار ہے۔ سچی راہ اللہ کی راہ ہے۔ آخر جب یہ اپنی برائیوں سے باز نہ آئے تو ان پر بارش نہ برسائی گئی تین سال تک قحط سالی رہی۔ زچ ہو گئے تنگ آ گئے آخر یہ سوچا کہ چند آدمیوں کو بیت اللہ شریف بھیجیں وہ وہاں جا کر اللہ سے دعائیں کریں۔ یہی ان کا دستور تھا کہ جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے تو وہاں وفد بھیجتے اس وقت ان کا قبیلہ عمالیق حرم شریف میں بھی رہتا تھا یہ لوگ عملیق بن آدم بن سام بن نوح کی نسل میں سے تھے ان کا سردار اس زمانے میں معاویہ بن بکر تھا۔ اس کی ماں قوم عاد سے تھی جس کا نام جاہد وہ بنت خبیری تھا عادیوں نے اپنے ہاں سے ستر شخصوں کو منتخب کر کے بطور وفد مکے شریف کو روانہ کیا۔ یہاں آ کر یہ معاویہ کے مہمان بنے۔ پرتکلف دعوتوں کے اڑانے، شراب خوری کرنے اور معاویہ کی دو لونڈیوں کا گانا سننے میں اس بے خودی سے مشغول ہو گئے کہ کامل ایک مہینہ گزر گیا۔ انہیں اپنے کام کی طرف مطلق توجہ نہ ہوئی۔ معاویہ ان کی یہ روش دیکھ کر اور اپنی قوم کی بری حالت سامنے رکھ کر بہت کڑھتا تھا لیکن یہ مہمان نوازی کے خلاف تھا کہ خود ان سے کہتا کہ جاؤ۔ اس لئے اس نے کچھ اشعار لکھے اور ان ہی دونوں کنیزوں کو یاد کرائے کہ وہ یہی گا کر انہیں سنائیں۔ ان شعروں کا مضمون یہ تھا کہ اے لوگو جو قوم کی طرف سے اللہ سے دعائیں کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو کہ اللہ عادیوں پر بارش برسائے جو آج قحط سالی کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں بھوکے پیاسے مر رہے ہیں بڈھے بچے مرد عورتیں تباہ حال پھر رہے ہیں یہاں تک کہ بولنا چالنا ان پر دو بھر ہو گیا ہے۔ جنگلی جانور ان کی آبادیوں میں پھر رہے ہیں کیونکہ کسی آدمی میں اتنی قوت کہاں کہ وہ تیر چلا سکے۔ لیکن افسوس کہ تم یہاں اپنے من مانے مشغلوں میں منہمک ہو گئے اور بے فائدہ وقت ضائع کرنے لگے۔ تم سے زیادہ برا وفد دنیا میں کوئی نہ ہو گا یاد رکھو اگر اب بھی تم نے مستعدی سے قومی خدمت نہ کی تو تم برباد اور غارت ہو جاؤ گے۔ یہ سن کر ان کے کان کھڑے ہوئے یہ حرم میں گئے اور دعائیں مانگنا شروع کیں اللہ تعالیٰ نے تین بادل ان کے سامنے پیش کئے ایک سفید ایک سیاہ بادل پسند کیا تھا جو اسی وقت عادیوں کی طرف چلا۔ اس شخص کا نام قیل بن غز تھا۔ جب یہ بادل عادیوں کے میدان میں پہنچا جس کا نام مغیث تھا تو اسے دیکھ وہ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ اس ابر سے پانی ضرور برسے گا حالانکہ یہ وہ تھا جس کی یہ لوگ نبی کے مقابلہ میں جلدی مچا رہے تھے جس میں المناک عذاب تھا جو تمام چیزوں کو فنا کر دینے والا تھا۔ سب سے پہلے اس عذاب الوہی کو ایک عورت نے دیکھا جس کا نام ممید تھا یہ چیخ مار کر بیہوش ہو گئی۔ جب ہوش آئی تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا آگ کا بگولہ جو بصورت ہوا تھا جسے فرشتے گھسیٹے لئے چلے آتے تھے۔ برابر سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ آگ والی ہوا ان پر چلتی رہی اور عذاب کا بادل ان پر برستا رہا۔ تمام عادیوں کا ستیاناس ہو گیا۔ حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کے مومن ساتھی ایک باغیچے میں چلے گئے وہاں اللہ نے انہیں محفوظ رکھا وہی ہوا ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہو کر ان کے جسموں کو لگتی رہی جس سے روح کو تازگی اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی رہی۔ ہاں عادیوں پر اس ہوا نے سنگباری شروع کر دی، ان کے دماغ پھٹ گئے۔ آخر انہیں اٹھا اٹھا کر دے پٹخا سر الگ ہو گئے دھڑ الگ جا پڑے یہ ہوا سوار کو سواری سمیت ادھر اٹھا لیتی تھی اور بہت اونچے لے جا کر اسے اوندھا دے پٹختی تھی۔ یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سے فوائد ہیں۔ عذاب الٰہی کے آ جانے سے حضرت ہود کو اور مومنوں کو نجات مل گئی رحمت حق ان کے شامل حال رہی اور باقی کفار اس بدترین سزا میں گرفتار ہوئے۔ مسند احمد میں ہے حضرت حارث بکری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے ہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر چلا جب میں ربذہ میں پہنچا تو بنو تمیم کی ایک بڑھیا لا چار ہو کر بیٹھی ہوئی ملی۔ مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے مجھے سرکار رسالت مآب میں پہنچنا ہے۔ کیا تو میرے ساتھ اتنا سلوک کرے گا کہ مجھے دربار رسالت میں پہنچا دے؟ میں نے کہا آؤ چنانچہ میں نے اسے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور مدینے پہنچا دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے سیاہ جھنڈے لہرا رہے ہیں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تلوار لٹکائے کھڑے ہیں میں نے پوچھا کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں کہیں لشکر بھیجنے والے ہیں۔ میں تھوری دیر بیٹھا رہا اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی منزل میں تشریف لے گئے۔ میں آپ کے پیچھے ہی گیا۔ اجازت طلب کی اجازت ملی جب میں نے اندر جا کر سلام کیا تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تم میں اور بنو تمیم میں کچھ چشمک ہے؟ میں نے کہا حضور اس کے ذمہ دار وہی ہیں۔ میں اب حاضر خدمت ہو رہا تھا تو راستے میں قبیلہ تمیم کی ایک بڑھیا عورت مل گئی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی اس نے مجھ سے درخواست کی اور میں اسے اپنی سواری پر بٹھا کر یہاں لایا ہوں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ نے اسے بھی اندر آنے کی اجازت دی۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر دیجئے۔ اس پر بڑھیا تیز ہو کر بولی اگر آپ نے ایسا کر دیا تو پھر آپ کے ہاں کے بے بس کہاں پناہ لیں گے؟ میں نے کہا سبحان اللہ! تیری اور میری تو وہی مثل ہوئی کہ بکری اپنی موت کو آپ اٹھا کر لے گئی، میں نے ہی تجھے یہاں پہنچایا، مجھے اس کے انجام کی کیا خبر تھی؟ اللہ نہ کرے کہ میں بھی عادی قبیلے کے وفد کی طرح ہو جاؤں۔ تو حضور نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ بئی عادیوں کے وفد کا قصہ کیا ہے؟ باوجود یہ کہ آپ کو مجھ سے زیادہ اس کا علم تھا لیکن یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے قصہ شروع کر دیا کہ حضور جس وقت عادیوں میں قحط سالی نمودار ہوئی تو انہوں نے قیل نامی ایک شخص کو بطور اپنے قاصد کے بیت اللہ شریف دعا وغیرہ کرنے کے لئے بھیجا۔ یہ معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر مہمان بنا۔ یہاں شراب و کباب اور راگ رنگ میں ایسا مشغول ہوا کہ مہینے بھر تک جام لنڈھاتا رہا اور معاویہ کی دو لونڈیوں کے گانے سنتا رہا ان کا نام جرادہ تھا۔ مہینے بھر کے بعد مہرہ کے پہاڑوں پر گیا اور اللہ سے دعا مانگنے لگا کہ باری تعالیٰ میں کسی بیمار کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کے فدیئے کے لئے نہیں آیا یا اللہ عادیوں کو تو وہ پلا جو پلایا کرتا تھا اتنے میں وہ دیکھتا ہے کہ چند سیاہ رنگ کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں ان میں سے ایک غیبی صدا آئی کہ ان میں سے جو تجھے پسند ہو قبول کر لے۔ اس نے سخت سیاہ بادل کو اختیار کیا اسی وقت دوسری آواز آئی کہ لے لے خاک راکھ جو عادیوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑے۔ عادیوں پر ہوا کے خزانے میں سے صرف بقدر انگوٹھی کے حلقے کے ہوا چھوڑی گئی تھی جس نے سب کو غارت اور تہ و بالا کر دیا۔ ابودائل کہتے ہیں۔ یہ واقعہ سارے عرب میں ضرب المثل ہو گیا تھا جب لوگ کسی کو بطور وفد کے بھتیجے تھے تو کہہ دیا کرتے تھے کہ عادیوں کے وفد کی طرح نہ ہو جانا۔ اسی طرح مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے سنن کی اور کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے۔ واللہ اعلم

۷۳

ثمود کی قوم اور اس کا عبرت ناک انجام

علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح۔ یہ بھائی تھا جد بس بن عامر کا۔ اسی طرح قبیلہ طسم یہ سب خالص عرب تھے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے پہلے ثمودی عادیوں کے بعد ہوئے ہیں ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القری اور اس کے اردگرد مشہور ہیں۔ سنہ ٩ھ میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گزرے تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم تبوک کے میدان میں اترے لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں ے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں۔ پھر فرمایا یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گزرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آ جائیں جو ان پر آئے تھے۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کہا الصلوۃ جامعۃ جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الٰہی نازل ہوا۔ راوی حدیث ابو کبشہ فرماتے ہیں رسول اللہ کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا۔ میں نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھے آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتا رہا ہوں تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتا رہا ہے جو گزر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں یاد رکھو ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کر سکیں گے۔ حضرت ابو کشبہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا معجزے نہ طلب کرو دیکھو قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سر تاب کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے سب کے سب ڈھیر ہو گئے۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا لوگوں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا؟ فرمایا ابو غال یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ثمودی قبیلے کی طرف سے ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ تمام نبیوں کی طرح آپ نے بھی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید الٰہی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، صرف میری ہی عبادت کرو اور ارشاد ہے ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو۔ حضرت صالح فرماتے ہیں لوگو تمہارے پاس دلیل الٰہی آ چکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے۔ ان لوگوں نے حضرت صالح سے یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کا تبہ تھا اس سے آپ ایک اونٹنی نکالیں جو گا بھن ہو (دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو) حضرت صالح نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو تم ایمان قبول کر لو گے؟ انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی دعا کی ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی اس کے بیچ سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کے لئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن ہمر بن جلمس وغیرہ نے انہیں روک دیا۔ حضرت جندع کا بھتیجا شہاب نامی تھا یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن انہی بد بختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مومن ثمودی مہوش بن غنمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی قریب تھا کہ وہ مشرف باسلام ہو جائے اور اگر ہو جاتا تو اس کی عزت سوا ہو جاتی مگر بد بختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا۔ اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا ایک مت تک دونوں ان میں رہے۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی۔ اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے جیسے قران میں ہے ونبئھم ان الماء قسمۃ بینھم الخ، اور آیت میں ہے ھذہ ناقۃ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم یہ ہے اونٹنی اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں۔ یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی ایک راہ جاتی دوسری راہ آتی یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی جس راہ سے گزرتی سب جانور ادھر ادھر ہو جاتے۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو۔ چنانچہ قران کریم میں ہے فکذبوہ فعقروھا الخ، قوم صالح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کر دیا۔ ایک اور آیت میں ہے کہ ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لئے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے۔ امام ابن جریر وغیرہ کا فرمان ہے کہ اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت عنم بن مجلز جو ایک بڑھیا کا فرہ تھی اور حضرت صالح سے بڑی دشمنی رکھتی تھی اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدقہ بنت محیا بن زہیر بن مختار تھا۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی اس کے خاوند مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اس سر کش عورت نے ان کو چھوڑ دیا۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہو جائے اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کر دے، صدقہ نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آ جاؤں گی اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کر دیا، اس پر اس نے مصدع بن مہرج بن محیا کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتوں تھا اس برائی پر آمادہ ہو گیا۔ ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے اسے میں تجھے دے دو گی اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہو گیا یہ تھا بھی زنا کاری کا بچہ، سالف کی اولاد میں نہ تھا، جیسان نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زنا کاری کی تھی اسی سے یہ پیدا ہوا تھا اب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا چنانچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہو گئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے جیسے قران کریم میں ہے وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون فی الارض ولا یصلحون اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا سراسر فسادی ہی تھے۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہو گئے اور اونٹنی کے واپس آنے کا راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمیں گاہوں میں بیٹھ گئے جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مار اجو اس کی ران کی ہڈی میں پیوست ہو گیا اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا اس نے کہا قدار کیا دیکھتے ہو اٹھو اور اس کا کام تمام کر دو۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہو گیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مر گئی اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور تین مرتبہ بلبلایا۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی پھر جس چٹان سے نکلا تھا اسی میں سما گیا۔ یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا تھا۔ واللہ اعلم۔ حضرت صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے دیکھا کہ اونٹنی بے جان پڑی ہے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے، ہوا بھی یہی۔ بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا اس لئے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کر لیا کہ آج شام کو صالح کو بھی مار ڈالو اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے؟ اور اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آؤ روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہو جائیں۔ چنانچہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہ تیغ کرو اور صاف انکار کر دو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بے خبر رہے اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا؟ رات کو یہ اپنی بد نیتی سے حضرت صالح کے گھر کی طرف چلے آپ کا گھر پہاڑی کی بلندی پر تھا ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا۔ ان کا تو یہ حشر ہوا ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہو گئے اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ان کے منہ سیاہ ہو گئے تین دن جب گزر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک دہشت انگیز چنگھاڑنے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے ساتھ ہی نیچے سے زبر دست زلزلہ آیا ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہو گیا، مردوں سے مکانات، بازار، گلی، کوچے بھر گئے۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہو گئے شان رب دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لئے ایک کا فرہ عورت بچا دی گئی، یہ بھی بڑی خبیثہ تھی حضرت صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی آ سکی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا ادھر اس کے پاؤں کھل گئے اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا۔ ابھی پوری پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الٰہی آ پڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ ہاں ابو دغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا ثمودیوں میں سے سوائے حضرت صالح اور انکے مومن صحابہ کے اور کوئی بھی نہ بچا، ابو رغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہو چکا ہے قبیلہ ثقیف جو طالئف میں ہے مذکور ہے کہ یہ اسی کی نسل سے ہیں۔ عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب گزرے تو فرمایا جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ابو دغال کی قبر ہے۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا اپنی قوم کے عذاب کے وقت یہ حرم میں تھا اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی۔ چنانچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے۔ ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے، یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کر دی گئی تھی یہی نشان اس کی قبر کا ہے اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چنانچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکل لی۔ ابو داؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے لیکن میں کہتا ہوں اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بحیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے اور بقول حضرت امام یحییٰ بن معین سوائے اسماعیل بن ابی امیہ کے اسے اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطانہ ہو یہ عبد اللہ بن عمورو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے۔ میرے استاد شیخ ابو الحجاج اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے۔ واللہ اعلم۔

۷۹

صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں

قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بے سمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کا لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابوجہل، اے عتبہ، اے شیبہ، اے فلاں، اے فلاں، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہو گئے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسروں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو۔ یہی حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئ فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ابھی ابھی گزرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ صحاح ستہ میں نہیں۔

۸۰

لوط علیہ السلام کی بد نصیب قوم

فرمان ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر، حضرت لوط علیہ السلام ہار ان بن آزر کے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا نیکیوں کے کرنے برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے۔ عمرو بن دینار یہی فرماتے ہیں۔ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو میں تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کر لے اسی لئے حضرت لوط علیہ السلام نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا۔ عورتوں کو جو اس کام کے لئے تھیں چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہو گی ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں مفسرین فرماتے ہیں جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔

۸ ۲

قوم لوط پر بھی نبی کی نصیحت کار گر نہ ہوئی ملکہ الٹا دشمنی کرنے لگے اور دیس نکالا دینے پر تل گئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مع ایمانداروں کے وہاں سے صحیح سالم بجا لیا اور تمام بستی والوں کو ذلت و پستی کے ساتھ تباہ و غارت کر دیا، ان کا یہ کہنا کہ یہ بڑے پاکباز لوگ ہیں بطور طعنے کے تھا اور یہ بھی مطلب تھا کہ یہ اس کام سے جو ہم کرتے ہیں دور ہیں پھر ان کا ہم میں کیا کام ؟ مجاہد اور ابن عباس کا یہی قول ہے۔

۸۳

لوطی تباہ ہو گئے

حضرت لوط اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا جیسے فرمان رب ہے فما و جلنا فیھا غیربیت من المسلمیں یعنی وہاں جتنے مومن تھے ہم نے سب کو نکال دی ا۔ لیکن بجز ایک گھر والون کے وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں۔ بلکہ کاندان لوط میں سے بھی خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی ای لئے حضرت لوط سے کہہ دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی تھی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ ظاہر قول پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے حضرت لوط نے عذاب کی خبر کی نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی۔ غابرین کے معنی بھی باقی رہ جانے گا والے ہیں۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کئے ہیں وہ بطور لزوم کے ہیں۔ کیونکہ جو باقی تھے وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کے لئے آسمان سے گر رہے تھے۔ گو اللہ کے عذاب کو بے انصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ اے پیغمبر آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول اللہ کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ امام ابوحنفیہ فرماتے ہیں لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیے کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بے شادی ہو۔ امام شافعی کے دو قول میں سے ایک یہی ہے۔ اس کی دلیل مسند احمد، ابوداؤد و ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو۔ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ بھی مثل زنا کاری کے ہے شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے۔ امام شافعی کا دوسرا قل بھی یہی ہے۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے آ سکا پورا بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔

۸۵

خطیب الانبیاء شعیب علیہ اسلام

مشہور مورخ حضرت امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ لوگ مدین بن ابراہیم کی نسل سے ہیں۔ حضرت شعیب میکٰیل بن نیشجر کے لڑکے تھے ان کا نام سریانی زبان میں یژون تھا۔ یہ یاد رہے کہ قبیلے کا نام بھی مدین تھا اور اس بستی کا نام بھی یہی تھا یہ شہر معان سے ہوتے ہوئے حجاز جانے والے کے راستے میں آتا ہے۔ آیت قرآن ولما و رد ماء مدین میں شہر مدین کے کنویں کا ذکر موجود ہے اس سے مراد ایکہ والے ہیں جیسا کہ انشاء اللہ بیان کریں گے۔ آپ نے بھی تمام رسولوں کی طرح انہیں توحید کی اور شرک سے بچنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے میری نبوت کی دلیلیں تمہارے سامنے آ چکی ہیں۔ خالق کا حق بتا کر پھر مخلوق کے حق کی ادائیگی کی طرف رہبری کی اور فرمایا کہ ماپ تول میں کمی کی عادت چھوڑ و لوگوں کے حقوق نہ مارو۔ کہو کچھ اور کرو کچھ یہ خیانت ہے فرمان ہے ویل للمطففین ان ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ویل ہے۔ اللہ اس بد خصلت سے ہر ایک کو بچائے۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا اور وعظ بیان ہوتا ہے۔ آپ کو بہ سبب فضاحت عبارت اور عمدگی وعظ کے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا علیہ الصلوۃ والسلام۔

۸۶

قوم شعیب کی بد اعمالیاں

فرماتے ہیں کہ مسافروں کے راستے میں دہشت گردی نہ پھیلاؤ۔ ڈاکہ نہ ڈالو اور انہیں ڈارا دھمکا کر ان کا مال زبر دستی نہ چھینو۔ میرے پاس ہدایت حاصل کرنے کے لئے جو آنا چاہتا ہے اسے خوفزدہ کر کے روک دیتے ہو۔ ایمانداروں کو اللہ کی راہ پر چلنے میں روڑے اٹکاتے ہو۔ راہ حق کو ٹیڑھا کر دینا چاہتے ہو ان تمام برائیوں سے بچو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ظاہر ہے کہ ہر رستے پر نہ بیٹھنے کی ہدایت سے تو قتل و غارت سے روک کے لئے ہو جو ان کی عادت تھی اور پھر راہ حق سے مومنوں کو نہ روکنے کی ہدایت بپھر کی ہو۔ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ گنتی میں قوت میں تم کچھ نہ تھے بہت ہی کم تھے اس نے اپنی مہربانی سے تمہاری تعداد بڑھا دی اور تمہیں زور اور کر دیا رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرو۔ عبرت کی آنکھوں سے ان کا انجام دیکھ لو جو تم سے پہلے ابھی ابھی گزرے ہیں جن کے ظلم و جبر کی وجہ سے جن کی بد امنی اور فساد کی وجہ سے رب کے عذاب ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ اللہ کی نافرمانیوں میں رسولوں کے جھٹلانے میں مشغول رہے دلیر بن گئے جس کے بدلے اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوئی۔ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی باقی نہیں رہی نیست و نابود ہو گئے مر مٹ گئے۔ دیکھو میں تمہیں صاف بے لاگ ایک بات بتا دوں تم میں سے ایک گروہ مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور ایک گروہ نے میرا نکار اور بری طرح مجھ سے کفر کیا ہے۔ اب تم خود دیکھ لو گے کہ مدد ربانی کس کا ساتھ دیتی ہے اور اللہ کی نظروں سے کون گر جاتا ہے ؟ تم رب کے فیصلے کے منتظر رہو۔ وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے اچھا اور سچا فیصلہ کرنے والا ہے۔ تم خود دیکھ لو کہ اللہ والے با مراد ہوں گے اور دشمنان اللہ ناشاد ہوں گے۔

۸۸

شعیب علیہ السلام کی قوم نے اپنی بربادی کو آواز دی

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کر دیا ہمارے مذہب میں آ جاؤ۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی؟ اگر اللہ کرے ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہو گا؟ اس کے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے دو گھڑی پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعوی کیا تھا۔ خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی علیہ السلام نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے؟ لیکن چونکہ اسنان کمزور ہے۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے؟ اس لئے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں۔ ہر چیز کے آغاز انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے۔ اے اللہ تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ہماری مدد فرما تو سب حاکموں کا حاکم ہے، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، عادل ہے، ظالم نہیں۔

۹۰

قوم شعیب کا شوق تباہی پورا ہوا

اس قوم کی سرکشی بد باطنی ملاحظہ ہو کر مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کے لئے انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ شعیب علیہ السلام کی اطاعت تمہیں غارت کر دے گی بڑے نقصان میں اتر جاؤ گے۔ ان مومنوں کے دلوں کو ڈرانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمانی عذاب بصورت زلزلہ زمین سے آیا اور انہیں سچ مچ لرزا دیا  اور غارت و برباد ہو کر خود ہی نقصان میں پھنس گئے۔ یہاں اس طرح بیان ہوا۔ سورۃ ہود میں بیان ہے کہ آسمانی کڑاکے کی آواز سے یہ ہلاک کئے گئے۔ وہاں بیان ہے کہ انہوں نے اپنے وطن سے نکل جانے کی دھمکی ایمان داروں کو دی تھی تو آسمانی ڈانٹ کی آواز نے ان کی آواز پست کر دی اور ہمیشہ کے لئے یہ خاموش کر دیئے گئے۔ سورۃ شعراء میں بیان ہے کہ بادل ان پر سے عذاب بن کر برسا۔ کیونکہ وہیں ذکر ہے کہ خود انہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ اگر سجے ہو تو ہم پر آسمان کو کوئی ٹکڑا گرادو۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ تینوں عذاب ان پر ایک ساتھ آئے۔ ادھر ابر اٹھا جس سے شعلہ باری ہونے لگی، آگ برسنے لگی۔ ادھر تند اور سخت کڑاکے کی آواز آئی، ادھر زمین پر زلزلہ آیا۔ نیچے اوپر کے عذابوں سے دیکھتے ہی دیکھتے تہ و بالا کر دیئے گئے، اپنی اپنی جگہ ڈھیر ہو گئے یا وہ وقت تھا کہ یہاں سے مومنوں کو نکالنا چاہتے تھے یا یہ وقت ہے کہ یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کسی وقت یہاں یہ لوگ آباد بھی تھے یا مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ تم نقصان میں اترو گے یا یہ ہے کہ خود برباد ہو گئے۔

۹۳

 قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ چکنے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے فرمایا کہ میں سبکدوش ہو چکا ہوں۔ اللہ کا پیغام سنا چکا، سمجھا بجھا چکا، غم خواری ہمدردی کر چکا۔ لیکن تم کافر کے کافر ہی رہے اب مجھے کیا پڑی کہ تمہارے افسوس میں اپنی جان ہلکان کروں ؟

۹۴

ادوار ماضی

اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں، فقریری، مفلسی، تنگی۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوٹا، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موعہ دیا۔ سختی کو نرمی ے، برائی کو بھلائی سے، بیماری کو تندرستی سے، فقریری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہو جائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں۔ مصیبت پر صبر، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مومن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کے لئے بہتر ہوتی ہیں۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے، انجام بہتر ہوتا ہے، سکھ پر شکر کرتا ہے، نیکیاں پاتا ہے، پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتا ہے۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جیسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا؟ (اوکمال قال) پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آ پکڑا یہ محض بے خبر تھے اپنی خر مستیوں میں لگے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اچانک موت مومن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے۔

۹۶

عوام کی فطرت

لوگوں سے عام طور پر جو غلطی ہو رہی ہے اس کا ذکر ہے کہ عموماً ایمان سے اور نیک کاموں سے بھاگتے رہتے ہیں۔ صرف حضرت یونس علیہ السلام کی پوری بستی ایمان لائی تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ عذابوں کو دیکھ لیا اور یہ بھی صرف ان کے ساتھ ہی ہوا کہ آئے ہوئے عذاب واپس کر دیئے گئے اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچ گئے یہ لوگ ایک لاکھ بلکہ زائد تھے۔ اپنی پوری عمر تک پہنچے اور دنیوی فائدے بھی حاصل کرتے رہے تو فرماتا ہے کہ اگر نبیوں کے آنے پر ان کے امتی صدق دل سے ان کی تابعداری کرتے، برائیوں سے رک جاتے اور نیکیاں کرنے لگتے تو ہم ان پر کشادہ طور پر بارشیں برساتے اور زمین سے پیداوار اگاتے۔ لیکن انہوں نے رسولوں کی نہ مانی بلکہ انہیں جھوٹا سمجھا اور روبرو جھوٹا کہا۔ برائیوں سے حرام کاریوں سے ایک انچ نہ ہٹے، اس وجہ سے تباہ کر دیے گئے۔ کیا کافروں کو اس بات کا خوف نہیں کہ راتوں رات ان کی بے خبری میں ان کے سوتے ہوئے عذاب الٰہی آ جائے اور یہ سوئے کے سوئے رہ جائیں ؟ کیا انہیں ڈر نہیں لگتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن دہاڑے ان کے کھیل کود اور غفلت کی حالت میں اللہ جل جلالہ کا عذاب آ جائے؟ اللہ کے عذابوں سے، اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے، اس کی بے پایاں قدرت کے اندازے سے غافل وہی ہوتے ہیں جو اپنے آپ بربادی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہوں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مومن نیکیاں کرتا ہے اور پھر ڈرتا رہتا ہے اور فاسق فاجر شخص برائیاں کرتا ہے اور بے خوف رہتا ہے۔ نتیجے میں مومن امن پاتا ہے اور فاجر پیس دیا جاتا ہے۔

۱۰۰

گناہوں میں ڈوبے لوگ؟

ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بد اعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے جیسے فرمان ہے افلم یدھلھم کم اھلکنا قبلھم من القرون یمشون فی مساکنھم الخ، یعنی کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لئے بہت سی عبرتیں تھیں اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کیا یہ سن نہیں رہے ؟ ایک آیت میں فرمایا تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آنے کا ہی نہیں حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کر دیئے گئے تھے۔ خالی گھر رہ گئے۔ ایک اور آیت میں ہے وکم اھلکنا قبلھم من قرن الخ، ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دین نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے نہ کسی کی آواز سنائی دے اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے، مال دار تھے، عیش و عشرت میں تھے، راحت و آرام میں تھے، اوپر سے ابر برستا تھا نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہو گئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے۔ عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آ گئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیوی وجاہت بھی ان کے پاس تھی آنکھ، کان، ھل سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے، نہ عقل آئی نہ اسباب بچے۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے انہیں غور سے سنو۔ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دین اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے۔ زمین میں چل پھر کر، آنکھیں کھول کر، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بے کار ہوں۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا۔ ایسے گھیرے گئے کہ ایک بھی نہ بچا۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں، اس کے وعدے اٹل ہیں وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے۔

۱۰۱

عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا

پہلے قوم نوح، ہود، صالح، لوط اور قوم شعیب کا بیان گزر چکا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے، معجزے دکھائے، سمجھایا، بجھایا، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہو گئے، صرف ماننے والے بچ گئے۔ اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ جب تک رسول نہ آ جائیں، خبردار نہ کر دیئے جائیں عذاب نہیں دیئے جاتے، ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ان پر باوجود دلیلین دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے۔ بما کذبوا میں بسبیہ ہے جیسے واذا سمعوا کے پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ تم کیا جانو؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے، ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے جھوڑ دیں گے، یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہرین لگا دیا کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بد عہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا اور اسی پر پیدا کئے گئے اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پروانہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی۔ اللہ کو مالک خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بے دلیل، خلاف عقل و نقل، خلاف فطرت اور خلاف شرع، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں۔ بخاری و مسلم میں ہے ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی نصرانی مجوسی بنا لیتے ہیں۔ خود قرآن کریم میں ہے ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اے دنیا کے لوگو تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو۔ اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لئے مقرر کئے تھے؟ اور فرمان ہے ولقد بعثنافی کل امۃ رسولا ان اعبدو اللہ و اجتنبو الطاغوت ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ایمان نہ لائے۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور نا خوشی سے ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے۔

۱۰۳

نابکار لوگوں کا تذکرہ۔ انبیاء اور مومنین پر نظر کرم

جن رسولوں کا ذکر گزر چکا ہے یعنی نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب صلوات اللہ و سلا مہ علیھم وعلی سائر الانبیاء اجمعین کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کو اپنی دلیلیں عطا فرما کر بادشاہ مصر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ لیکن انہوں نے بھی جھٹلایا اور ظلم و زیادتی کی اور صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا۔ اب آپ دیکھ لو کہ اللہ کی راہ سے رکنے والوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا؟ وہ مع اپنی قوم کے ڈبو دیئے گئے اور پھر لطف یہ ہے کہ مومنوں کے سامنے بے کسی کی پکڑ میں پکڑ لئے گۓ تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور عبرت ہو۔

۱۰۴

موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمیں کا رسول ہوں۔ جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں ب اور علی یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں حقیقی کے معنی حریض کے ہیں۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنین کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں۔ میں اپنی صداقت کی الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظالم سے آزاد کر دے، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں۔ فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعہ ہی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر۔

۱۰۷

عصائے موسیٰ اور فرعون

آپ نے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی جو بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی، وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ اللہ کے لئے اسے روک، اس نے اس قدر اپنا منہ کھولا تھا کہ نیچے کا جبڑا تو زمین پر تھا اور اوپر کا جبڑا محل کی بلندی پر۔ خوف کے مارے فرعون کی ہوا نکل گئی اور چیخنے لگا کہ موسیٰ اسے روک لے، میں ایمان لاتا ہوں اور اقرار کتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا۔ حضرت موسیٰ نے اسی وقت اس پر ہاتھ رکھا اور اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا۔ حضرت وہب فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی فرعون کہنے لگا میں تجھے پہچانتا ہوں۔ آپ نے فرمایا یقیناً اس نے کہا تو نے بچپن ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر ہی تو گزارا ہے۔ اس کا جواب حضرت موسیٰ دے ہی رہے تھے کہ اس نے کہا اسے گرفتار کر لو۔ آپ نے جھٹ سے اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی جس نے سانپ بن کر ان پر حملہ کر دیا اس بد حواسی میں ایک دوسرے کو کچلتے اور قتل کرتے ہوئے وہ سب کے سب بھاگے چنانچہ پچیس ہزار آدمی اسی ہنگامے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے اور فرعون سیدھا اپنے گھر میں گھس گیا لیکن اس واقعہ کے بیان کی سند میں غرابت ہے واللہ اعلم۔ اسی طرح دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اپنا ہاتھ اپنی چادر میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئ روگ یا برص یا داغ ہو وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا۔

۱۰۹

درباریوں سے مشورے ہوئے

جب ڈر خوف جاتا رہا فرعون پھر سے اپنے تخت پر آ بیٹھا اور درباریوں کے اوسان درست ہو گئے تو فرعون نے کہا بھئی مجھے تو یہ جادوگر لگتا ہے اور ہے بھی بڑا استاد۔ ان لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا حضور درست فرما رہے ہیں۔ اب مشورے کرنے لگے کہ اگر یہ معاملہ یونہی رہا تو لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور جب یہ قوت پکڑے گا تو ہم سے بادشاہت چھین لے گا ہمیں جلا وطن کر دے گا بتاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ اللہ کی شان ہے جس سے خوف کھایا وہی سامنے آیا۔

۱۱۱

درباریوں کا مشورہ

درباریوں نے مشورہ دیا کہ ان دونوں بھائیوں کا معاملہ تو اس وقت رفع دفع کرو، اسے ملتوی رکھو اور ملک کے ہر حصے میں ہر کارے بھیج دو جو جادوگروں کو جمع کر کے آپ کے دربار میں لائیں۔ تو جب تمام استاد فن جادوگر آ جائیں ان سے مقابلہ کرایا جائے تو یہ ہار جائے گا اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا، یہ اگر جادو جانتا ہے تو ہماری رعایا میں جادو گروں کی کیا کمی ہے؟ بڑے بڑے ماہر جادوگر ہم میں موجود ہیں جو اپنے فن میں بے نظیر ہیں اور بہت چست و چالاک ہیں۔ چنانچہ حضور موسیٰ سے کہا گیا کہ ہم سمجھ گئے کہ تو جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال دینے کے ارادے سے آیا ہے تو اگر تجھ میں کوئی سکت ہے تو آ ہاتھ ملا ہم تجھ سے مقابلے کا دن اور جگہ مقرر کرتے ہیں اور جگہ مقرر ہو جائے پھر جو بھاگے وہی ہارا۔ آپ نے فرمایا اچھا یہ ہوس بھی نکال لو۔ جاؤ تمہارا عید کا دن مجھے منظور ہے اور دن چڑھے اجالے کا وقت اور شرط یہ کہ یہ مقابلہ مجمع عام میں ہو۔ چنانچہ فرعون اس تیاری میں مصروف ہو گیا۔

۱۱۳

 جادو گروں نے پہلے ہی فرعون سے قول و قرار لے لیا تاکہ محنت کالی نہ جائے اور اگر ہم جیت جائیں تو خالی ہاتھ نہ رہ جائیں۔ فرعون نے وعدہ کیا کہ منہ مانگا انعام اور ہمیشہ کے لئے خاص درباریوں میں داخلہ دوں گا۔ یہ قول و قرار لے کر میدان میں اتر آئے۔

۱۱۵

جادوگروں سے مقابلہ

جادوگروں کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ سب فی الحقیقت اپنے اس فن کے لاجواب استاد تھے اس لئے انہوں نے آتے ہی حضرت موسیٰ کو چیلنج دیا کہ لو ہوشیار ہو جاؤ تمہیں اختیار ہے میدان میں اپنے کرتب پہلے دکھاؤ اور اگر کہو تو پہل ہم کر دیں۔ آپ نے فرمایا بہتر ہے کہ تمہارے حوصلے نکل جائیں اور لوگ تمہارا کمال فن دیکھ لیں اور پھر اللہ کی قدرت کو بھی دیکھ لیں اور حق و باطل میں دیک بھال کر فیصلہ کر سکیں وہ تو یہ چاہتے ہی تھے انہوں نے چھت سے اپنی رسیاں اور لکڑیاں نکال نکال کر میدان میں ڈالنی شروع کر دین ادھر وہ میدان میں پڑتے ہی چلتی پھرتی اور بنی بنائی سانپ معلوم ہونے لگیں۔ یہ صرف نظر بندی تھی۔ فی الواقع خرج میں ان کا وجود بدل نہیں گیا تھا بلکہ اس طرح لوگوں کو دھکائی دیتی تھیں کہ گویا زندہ ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خطرہ محسوس کرنے لگے۔ اللہ کی طرف سے اسی وقت وحی آئی کہ خوف نہ کر تو ہی غالب رہے گا۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی ڈال تو سہی ان کا کیا دھرا یہ تو سب ہڑپ کر جائے گی۔ یہ سب تو جادوگری کا کرشمہ ہے بھلا جادو والے بھی کبھی کامیاب ہوئے ہیں ؟ بڑی موٹی موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں انہوں نے ڈالی تھیں جو سب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی معلوم ہو رہی تھیں، یہ جادوگر پندرہ ہزار یا تیس ہزار یا ستر ہزار کی تعداد میں تھے، ہر ایک اپنے ساتھ رسیاں اور لکڑیاں لایا تھا صف بستہ کھڑے تھے اور لوگ چاروں طرف موجود تھے ہر ایک ہمہ تن شوق بنا ہوا تھا فرعون اپنے لاؤ لشکر اور درباریوں سمیت بڑے رعب سے اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ادھر وقت ہوا ادھر سب کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک درویش صفت اللہ کا نبی اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لئے ہوئے لکڑی ٹکاتے ہوئے آ رہے ہیں۔ یہ تھے جن کے مقابلے کی یہ دھوم دھام تھی۔ آپ کے آتے ہی جادوگروں نے صرف یہ دریافت کر کے کہ ابتدا کس کی طرف سے ہونی چاہئے خود ابتدا کر دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پھر فرعون کی پھر تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا۔ اب جو اپنی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو ہزار رہا کی تعداد میں پہاڑوں کے برابر سانپ نظر آنے لگے جو اوپر تلے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں میدان بھر گیا ہے انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کر دکھایا۔

۱۱۷

جادوگر سجدہ ریز ہو گئے

اسی میدان میں جادوگروں کے اس حملے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکڑی کو صرف زمین پر گرا وہ اسی وقت ان کے سارے ہی لغویات ہضم کر جائے گی۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آپ کی لکڑی نے اژدھا بن کر سارے میدان کو صاف کر دیا جو کچھ وہاں تھا سب کو ہڑپ کر گیا۔ ایک بھی چیز اب میدان میں نظر نہ آتی تھی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جہاں اس پہ ہاتھ رکھا ویسی کی ویسی لکڑی بن گئی۔ یہ دیکھتے ہی جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کی طرف کا معجزہ ہے۔ حق ثابت ہو گیا باطل دب گیا۔ تمیز ہو گئی معاملہ صاف ہو گیا۔ فرعونی بری طرح ہارے اور بری طرح پسپا ہوئے۔ ادھر جادوگر اپنا ایمان چھپا نہ سکے جان کے خوف کے باوجود وہ اسی میدان میں سجدہ ریز ہو گئے اور کہنے لگے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جادو نہیں۔ یہ تو اللہ کی طرف سے معجزہ ہے جو خود اللہ نے اسے عطا فرما رکھا ہے۔ ہم تو اس اللہ پر ایمان لائے۔ حقیقتاً رب العالمیں وہی ہے۔ پھر کسی کو کچھ اور شبہ نہ ہو یا کوئی کسی طرح کی تاویل نہ کر کسے اور صفائی کر دی کہ ان دونوں بھائیوں اور اللہ کے سجے نبیوں یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہما السلام کے پروردگار کو ہم نے تو مان لیا۔ حضرت قاسم کا بیان ہے کہ جب یہ سجدے میں گرے تو اٹھنے سے پہلے ہی پروردگار عالم نے دوزخ دکھائی جس سے انہیں بچایا گیا تھا اور جنت دکھائی جو انہیں دی گئی۔

۱ ۲۳

فرعون سیخ پا ہو گیا

جادوگروں کے اس طرح مجمع عام میں ہار جانے پھر اس طرح سب کے سامنے بے دھڑک اسلام قبول کر لینے سے فرعون آگ بگولا ہو گیا اور اس اثر کو روکنے کے لئے سب سے پہلے تو ان مسلمانوں سے کہنے لگا تمہارا بھید مجھ پر کھل گیا ہے تم سب مع موسیٰ کے ایک ہی ہو یہ تمہارا استاد ہے تم اس کے شاگرد ہو تم نے آپس میں پہلے یہ طے کیا کہ بھئی تو پہلے چلا جا پھر ہم آ جائیں گے اس طرح میدان قائم ہو ہم مصنوعی لڑائی لڑ کر ہار جائیں ے اور اس طرح اس ملک کے اصلی باشندوں کو یہاں سے نکال باہر کریں گے۔ فرعون کے اس جھوٹ پر اللہ کی مار ہے۔ کوئی بے وقوف انسان بھی اس کے ایک جملہ کو بھی صحیح نہیں سمجھ سکتا۔ سب کو معلوم تھا موسیٰ علیہ السلام اپنا بچپن فرعون کے محل میں گزارتے ہیں، اس کے بعد مدین میں عمر کا ایک حصہ بسر کرتے ہیں، مدین سے سیدھے مصر کو پہنچ کر اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں اور معجزے دکھاتے ہیں جن سے عاجز آ کر فرعون اپنے جادوگروں کو جمع کرتا ہے وہ براہ راست اس کی سپاہ کے ساتھ اس کے دربار میں پیش ہوتے ہیں انعام و اکرام کے لالچ میں سے ان کے دل بڑھائے جاتے ہیں وہ اپنی فتح مندی کا یقین دلاتے ہیں فرعون انہیں اپنی رضامندی کا یقین دلاتا ہے خوب تیاریاں کر کے میدان جماتے ہیں حضرت موسیٰ ان میں سے ایک سے بھی واقف نہیں کبھی نہ کسی کو دیکھا ہے نہ سنا ہے نہ ملے ہیں نہ جانتے ہیں۔ لیکن وزیرے چنیں شہر یارے چناں وہاں تو ان لوگوں کا مجمع تھا کہ فرعون نے جب کہا کہ میں رب اعلیٰ ہوں تو سب نے گردنیں جھکا کر کہا بیشک حضور آپ خدا ہیں تو ایسے جہالت کے پلندوں سے کوئی بات منوا لینی کی مشکل تھی؟ اس کے رعب میں آ کر ایمان لانے کا ارادہ بدلا اور اور سمجھ بیٹھے کہ واقعی فرعون ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کے امیر سے فرمایا کہ اگر میں غالب آ جاؤ تو کیا تو مجھ پر ایمان لائے گا؟ اس نے کہا آج میدان میں ہماری جانب جو جادو پیش کیا جائے گا اس کا جواب ساری مخلوق کے پاس نہیں تو اگر اس پر غالب آ گیا تو مجھے بیشک یقین ہو جائے گا کہ وہ جادو نہیں معجزہ ہے۔ یہ گفتگو فرعون کے کانوں تک پہنچی اسے یہ دوہرا رہا ہے کہ تم نے ملی بھگت کر لی۔ اس طرح لوگوں کے دل حقانیت سے ہٹا کر انہیں بد ظن کرنے کے لئے دوسری چال یہ چلتا اور کہتا ہے کہ تم اپنے ایکے، اتفاق اور پوشیدہ جال سے چاہتے یہ ہو کہ ہماری دولت و شوکت چھین لو ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو، اس طرح اپنی قوم کے دل ان کی طرف سے پھیر کر پھر انہیں خوفزدہ کرنے کے لئے چوتھی چال چلتا ہے کہ ان نومسلموں سے کہتا ہے کہ دیکھو تو تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں۔ مجھے بھی قسم ہے جو تمہارے ہاتھ پاؤں نہ کٹوائے اور وہ بھی الٹی طرح یعنی پہلے اگر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے تو پھر بایاں پاؤں اور اگر پہلے سیدھا پاؤں کاٹا گیا تو پھر الٹا ہاتھ۔ اسی طرح بے دست و پا کر کے کھجوروں کی شاخوں پر لٹکا دوں گا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ظالم بادشاہ سے پہلے ان دونوں سزاؤں کا رواج نہ تھا۔ یہ دھمکی سے کر وہ سمجھتا تھا کہ اب یہ نرم پڑ جائیں گے لیکن وہ تو ایمان میں اور پختہ ہو گئے، بالاتفاق جواب دیتے ہیں کہ اچھا ڈرایا ؟ یہاں سے تو واپس اللہ کے پاس جانا ہی ہے اسی کے قبضہ و قدرت میں سب کچھ ہے آج اگر تیری سزاؤں سے بچ گئے تو کیا اللہ کے ہاں کی سزائیں بھی معاف ہو جائیں گی؟ ہمارے نزدیک تو دنیا کی سزائیں بھگت لینا بہ نسبت آخرت کے عذاب کے بھگتنے کے بہت ہی آسان ہے۔ تو ہم سے اللہ کے نبی کا مقابلہ کر اچکا ہے لیکن اب جبکہ ہم پر حق واضح ہو گیا ہم اس پر ایمان لے آئے تو تو چڑ رہا ہے۔ کہنے کو تو یہ سب کچھ کہہ گئے لیکن پھر خیال آیا کہ کہیں ہمارا قدم پھسل نہ جائے اس لئے دعا میں دل کھول دیا کہ اے اللہ ہمیں صبر عطا فرما، ثابت قدمی دے، ہمیں اسلام پر ہی موت دے، تیرے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہوں۔ ایسا نہ ہو اس ظالم کے رعب میں یا اس کی دھمکیوں میں آ جائیں یا سزاؤں سے ڈر جائیں یا ان کے برداشت کی تاب نہ لائیں۔ ان دعاؤں کے بعد دل بڑھ جاتے ہیں، ہمتیں دگنی ہو جاتی ہیں فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں تجھے جو کرنا ہے اس میں کمی نہ کر، کسر اٹھا نہ رکھ، جو جی میں ہے کر گزر تو دنیا ہی میں سزائیں دے سکتا ہے۔ ہم صبر کر لیں گے کیا عجب کہ ہمارے ایمان کی وجہ سے اللہ ہماری خطائیں معاف فرمائے خصوصاً ابھی کی یہ خطا کہ ہم نے جھوت سے سچ کا مقابلہ کیا۔ بیشک اللہ بہتر ہے اور زیادہ باقی۔ گناہگاروں کے لئے اس کے ہاں جہنم کی سزا ہے جہاں نہ موت آئے نہ کار آمد زندگی ہو۔ اور مومنوں کے لئے اس کے پاس جنتیں ہیں جہاں بڑے بلند درجے ہیں۔ سبحان اللہ یہ لوگ دن کے ابتدائی حصے میں کافر اور جادوگر تھے اور اسی دن کے آخری حصے میں مومن بلکہ نیک شہید تھے۔

۱ ۲۷

آخری حربہ بغاوت کا الزام

فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں۔ ویذرک میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے؟ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں ہے وقد ترکو ک ان یعبدوالھتک اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں۔ بعض کی قرات الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو۔ اسی لئے سامری نع بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے۔ پہلے سرکش فرعون اور مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کر دیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھا یا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں۔ یقین مانو کہ تمہارا بد خواہ ہلاک ہو گا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے۔

۱۳۰

اعمال کا خمیازہ

اب آل فرعون پر بھی سختی کے مواقع آئے تکہ ان کی آنکھیں کھلیں اور اللہ کے دین کی طرف جھکیں، کھیتیاں کم آئیں، قحط سالیاں پڑ گئیں، درختوں میں پھل کم لگے یہاں تک کہ ایک درخت میں ایک ہی کھجور لگی یہ صرف بطور آزمائش تھا کہ وہ اب بھی ٹھیک ٹھاک ہو جائیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو راستی سے دشمنی ہو گئی شادابی اور فراخی دیکھ کر تو اکڑ کر کہتے کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور خشک سالی اور تنگی دیکھ کر آواز لگاتے کہ یہ موسیٰ اور مومنوں کی وجہ سے ہے۔ جب کہ مصیبتیں اور راحتیں اللہ کی جانب سے ہیں لیکن بے عملی کی باتیں بناتے رہے ان کی بد شگونی ان کے بد اعمال تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر مصیبتیں لاتے تھے۔

۱۳ ۲

سیاہ دل لوگ اقرار کرے بعد انکار کرتے رہے

ان کی سرکشی اور ضد دیکھئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنی ہی دلیلیں پیش کریں کیس یہی معجزے بتائیں ہم ایمان لانے والے نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب آپ کے جادو کے کرشمے ہیں۔ ان پر طوفان آیا، بکثرت بارشیں برسیں جس سے پھل اور اناج تباہ ہو گئے اور اسی سے وبا اور طاعون کی بیماری پھیل پڑی۔ اسی لئے بعض مفسرین نے کہا ہے طوفان سے مراد موت ہے۔ بعض کہتے ہیں کوئی زبر دست آسمانی آفت آئی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا۔ ٹڈیوں کی مصیبت ان پر آئی۔ یہ ایک حلال جانور ہے۔ عبد اللہ بن ابی اونی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا سات غزوے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کئے ہیں۔ ہر ایک میں ہم تو ٹڈیاں کھاتے رہے، مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہمارے لئے حلال کئے گئے ہیں مچھلی اور ٹڈی اور کلیجی اور تلی۔ ابو داؤد میں ہے حضور سے ٹڈی کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا اللہ کے لشکر بہت سے ہیں جنہیں نہ کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں۔ حضور نے جی نہ چاہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جیسے کہ گو آپ نے نہیں کھایا حالانکہ دوسروں کو اس کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ اسی میں تصنیف فرمایا ہے اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور ٹڈی نہیں کھاتے تھے اور نہ گردے کھاتے تھے اور نہ گوہ۔ لیکن انہیں آپ نے حرام نہیں کیا۔ ٹڈی اس وجہ سے کہ وہ عذاب ہے، گردے اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کے قریب ہیں اور گوہ اس وجہ سے کہ آپ کو خوف تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ امت نہ ہو، پھر یہ روایت بھی غریب ہے صرف یہی ایک سند ہے، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ٹڈی کو بڑی رغبت سے کھایا کرتے، تلاش کر کے منگوایا کرتے۔ چنانچہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا کہ ٹڈی کھائی جائے؟ آپ نے فرمایا کاش کہ ایک دو پس مل جاتیں تو کیسے مزے سے کھاتے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ امہات المومنین تو طباقوں میں لگا کر ٹڈیاں ہدیے اور تحفے کے طور پر بھیجتی تھیں۔ امام بغوی ایک روایت لائے ہیں کہ حضور نے فرمایا حضرت مریم بنت عمران علیہما السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایسا گوشت مجھے کھلا جس میں خون نہ ہو اللہ تعالیٰ نے انہیں ٹڈی کھلائی آپ نے ان کے لئے دعا کی کہ اے اللہ اسے بغیر دودھ پینے کے زندگی دے اور اس کی اولاد کو بغیر آواز نکالے اس کے پیچھے لگا دے۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے ٹڈیوں کو مارو نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ ٹڈیاں ان کے دروازوں کی کیلیں کھا جاتی تھیں اور لکڑی چھوڑ دیتی تھیں اور زاعی کہتے ہیں میں ایک دن جنگل میں تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ٹڈیاں بہت سی آسمان کی طرف ہیں اور ان میں سے ایک ٹڈی پر ایک شخص سوار ہے جو ہتھیار بند ہے جو جس طرف اشارہ کرتا ہے ساری ٹڈیاں اس طرف کو جھک جاتی ہیں اور وہ زبان سے برابر کہہ رہا ہے کہ دنیا باطل ہے اور اس میں جو ہے وہ بھی باطل ہے۔ شریح قاضی فرماتے ہیں اس جانور میں سات مختلف جانوروں کی شان ہے اس کا سر گو گھوڑے جیسا ہے گردن بیل جیسی ہے سینہ شیر جیسا ہے پر گدھ جیسے ہیں پر اونٹ جیسے ہیں دم سانپ کی طرح کی ہے۔ پیٹ بچھو جیسا ہے آیت احل لیکم صید البحر کی تفسیر میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج یا عمرے میں جا رہے تھے تو سامنے سے ہمیں ٹڈی دل ملا ہم نے احرام کی حالت میں انہیں لکڑیوں سے مارنا شروع کیا حضور سے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا دریائی شکر میں محرم کو کوئی حرج نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب ان ٹڈیوں کے لئے بد دعا کرتے تو فرماتے اے اللہ جتنی ان میں سے بڑی ہیں تو انہیں سب کو ہلاک کر ڈال اور جتنی چھوٹی ہیں سب کو قتل کر ڈال ان کے انڈے خراب کر دے ان کی نسل کاٹ دے ان کے منہ ہماری روزی سے روک لے ہمیں روزیاں عطا فرما بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اس پر حضرت جابر نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ کے ایک لشکر کے غارت و برباد ہو جانے کی آپ دعا کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو سمندر کے اندر کی مچھلیوں کا ناک جھاڑن ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے مچھلی میں سے اسی طرح نکلتے دیکھا ہے۔ جب مچھلی سمندر کے کنارے انڈے دے جاتی ہے وہاں سے جب پانی ہٹ جاتا ہے اور دھوپ پڑنے لگتی ہے تو وہ انڈے سب کے سب پھوٹ جاتے ہیں اور ان میں سے ٹڈیاں نکلتی ہیں جو پرواز کر جاتی ہیں۔ آیت قرآن الاامم امثالکمکی تفسیر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث ہم نے بیان کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور جار سو خشکی میں۔ سب سے پہلے ہلاکت ٹڈیوں کی ہو گی۔ امام ابوبکر بن ابو داؤد ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لکڑی تلوار کے مقابلے پر کچھ نہیں اور درخت کی چھال ٹڈی کے مقابلے میں کچھ نہیں یہ حدیث غریب ہے۔ قتل کے بارے میں ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ وہ سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جو گیہوں میں سے نکلتے ہیں اور قول ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی بے پر کی ٹڈیاں ہیں۔ سعید کہتے ہیں سیاہ رنگ کے چھوٹے سے کیڑے ہیں۔ اس کا واحد قملہ ہے۔ یہ جانور جب اونٹ کو چمٹ جاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں۔ الغرض ایسے ہی موذی جانور بصورت عذاب فرعونیوں کے لئے بھیجے گئے تھے۔ فرعون کی سرکشی اور انکار پر طوفان آیا جس سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ گڑ گڑا کر حضرت موسیٰ سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے یہ موسلا دھار پانی رک جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ کر دیں گے۔ آپ نے دعا کی طوفان ہٹ گیا تو یہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔ پھر اللہ کی شان ہے کہ کھیتیاں اور باغات اس قدر پھلے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں پھلے تھے جب تیار ہو گئے تو ٹڈیوں کا عذاب آیا اسے دیکھ کر پھر گھبرائے اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہٹا لے اب ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں آپ کی دعا سے یہ عذاب بھی ہٹ گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ شکنی کی۔ فصلیں کاٹ لائے کھلیان اٹھا لئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب پھر اور شکل میں آیا تمام اناج وغیرہ میں کیڑا لگ گیا اس قدر بکثرت یہ جانور پھیل گئے کہ دس پیمانے لے کر کوئی شخص پسوانے نکلتا تو پسوائے تک وہ جانور سات پیمانے کھا لیتے۔ گھبرا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے پھر وعدے کئے آپ پھر دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس آفت کو بھی ہٹا لیا۔ لیکن انہوں نے پھر بے ایمانی کی۔ نہ بنی اسرائیل کو رہا کیا نہ ایمان قبول کیا۔ اس پر میں ڈکوں کا عذاب آیا۔ دربار میں فرعون بیٹھا ہوا ہے تو وہیں میں ڈک ظاہر ہو کر ٹرانے لگا سمجھ گئے کہ یہ نئی شکل کا عذاب الٰہی ہے۔ اب یہ پھیلنے اور بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ آدمی بیٹھتا تو اس کی گردن تک آس پاس سے اسے میں ڈک گھیر لیتے۔ جہاں بات کرنے کے لئے کوئی منہ کھولتا کہ میں ڈک تڑپ کر اس کے منہ میں گھس جاتا۔ پھر تنگ آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس عذاب کے ہٹنے کی درخواست کی اور اقرار کیا کہ ہم خود ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے آپ نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو بھی دفع کر دیا لیکن پھر مکر گئے۔ چنانچہ ان پر خون کا عذاب آیا تمام برتنوں میں خون کھانے پینے کی چیزوں میں خون کنویں میں سے پانی نکالیں تو خون۔ تالاب سے پانی لائیں تو خون۔ پھر تڑپ اٹھے فرعون نے کہا یہ بھی جادو ہے لیکن جب تنگ آ گئے تو آخر حضرت موسیٰ سے مع وعدہ درخواست کی کہ ہم تو پانی سے ترس گئے۔ چنانچہ آپ نے قول قرار لے کھر پور دعا کی اور اللہ نے اس عذاب کو بھی ہٹا لیا لیکن یہ پھر منکر ہو گئے۔ فرعون جب میدان سے ناکام واپس لوٹا تھا اس نے ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو میں ایمان نہ لاؤں گا۔ چنانچہ طوفان کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکھٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں مکانات گرنے لگے پھر حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری۔ جس میں سے بے شمار چچڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں۔ کھانا، پینا، سونا، بیٹھنا، سب بند ہو گیا۔ پھر میں ڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو میں ڈک نظر آنے لگے۔ پھر خون کا عذاب آیا نہریں، تالاب، کنویں، مٹکے گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں۔ عبید اللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں ڈک کو نہ مارو یہ جب بصورت عذاب فرعونیوں کے پاس آئے تو ایک نے اللہ کی رضا جوئی کے لئے تنور میں چھلانگ ماری۔ اللہ نے اس کے بدلے انہیں پانی کی ٹھنڈک عطا فرمائی اور ان کی آواز کو اپنی تسبیح بنایا۔ یہ بھی مروی ہے کہ خون سے مراد نکسیر پھوٹنا ہے الغرض ہر عذاب کو دیکھ کر اقرار کرتے لیکن جب حضرت موسیٰ کی دعا سے وہ ہٹ جاتا تو پھر انکار کر جاتے۔

۱۳۶

انجام سرکشی

جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور کود پسندی میں اتنے بڑھ گئے کہ باری تعالیٰ کی بار بار کی نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان لانے سے برابر انکار کرتے رہے تو قدرت نے اپنے زبر دست انتقام میں انہیں پھانس لیا اور سب کو دریا برو کر دیا۔ بنو اسرائیل بحکم اللہ تعالیٰ ہجرت کر کے چلے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا ان کے لئے خشک ہو گیا پھر فرعون اور اس کے ساتھی اس میں اترے تو دریا میں پھر روانی آ گئی اور پانی کا ریلہ آج اور وہ سب ڈوب گئے۔ یہ تھا انجام اللہ کی باتوں کو جھوٹ سمجھنے اور ان سے غافل رہنے کا۔ پھر پروردگار نے بنو اسرائیل جیسے کمزور ناتواں لوگوں کو اس زمین کا وارث بنا دیا۔ مشرق و مغرب ان کے قبضے میں آگیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے ان بے بسوں پر احسان کرنا چاہا اور انہیں امام اور وارث بنانا چاہا۔ انہیں حکومت سونپ دی اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکریوں کو وہ نتیجہ دکھایا جس سے وہ بھاگ رہے تھے۔ فرعونیوں سے ہرے بھرے باغات چشمے کھیتیاں، عمدہ مقامات، فراواں نعمتیں چھڑوا کر ہم نے دوسری قوم کے سپرد کر دیں۔ یہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ سر زمین شام برکت والی ہے۔ بنی اسرائیل کا صبر نیک نتیجہ لایا فرعون اور اس کی قوم کی بنی بنائی چیزیں غارت ہوئیں۔

۱۳۸

شوق بت پرستی

اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آ سکے جواب میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض نا واقف ہو۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے۔ ابو واقد لیشی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہان مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لئے بھی مقرر کر دیں۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری ذات ہے کہ تم نے قوم موسیٰ جیسی بات کہہ دی کہ ہمارے لئے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں وہ باطل ہے (ابن جریر) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے حضرت ابو واقد لیشی تھے جو اب سے پہلے یہ سوال سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے۔

۱۴۰

ماضی کی یاد دہانی

انہیں اس گمراہ خیالی سے روکنے کے لئے آپ اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلا رہے ہیں کہ فرعونیوں کی غلامی سے اللہ نے تمہیں آزادی دلوائی، ذلت و رسوائی سے چھٹکارا دیا۔ پھر اوج و عزت عطا فرمائی تمہارے دیکھتے ہوئے تمہارے دشمنوں کو غارت کر دیا۔ ایسے رب کے سوا اور کوئی لائق عبادت کیسے ہو سکتا ہے؟ فرعون کے وقت کی اپنی ابتری کو بھول گئے جس سے اللہ نے نجات دی۔ اس کی پوری تفسیر سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔

۱۴ ۲

احسانات پہ احسانات

اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنا وہ احسان یاد دلاتا ہے جس کی وجہ سے موسیٰ کو شرف ہم کلامی حاصل ہوا اور تورات ملی جو ان سب کے لئے باعث ہدایت و نور تھی جس میں ان کی شریعت کی تفصیل تھی اور اللہ کے تمام احکام موجود تھے۔ تیس راتوں کا وعدہ ہوا، آپ نے یہ دن روزوں سے گزارے۔ وقت پورا کر کے ایک درخت کی چھال کو چبا کر مسواک کی۔ حکم ہوا کہ دس اور پورے کر کے پورے چالیس کرو۔ کہتے ہیں کہ ایک مہینہ تو ذوالقعدہ کا تھا اور دس دن ذوالحجہ کے۔ تو عید والے دن وہ وعدہ پورا ہوا اور اسی دن اللہ کے کلام سے آپ کو شرف ملا اسی دن دین محمدی بھی کامل ہوا ہے۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے الیوم اکملت لکم دینکم الخ، وعدہ پورا کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے طور کا قصد کیا جیسے اور آیت میں ہے کہ اسے گروہ نبی اسرائیل ہم نے تمہیں دشمن سے نجات دی اور طور ایمان کا وعدہ کیا۔ آپ نے جاتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا اور انہیں اصلاح کی اور فساد سے بچنے کی ہدایت کی۔ یہ صرف بطور وعظ کے تھا ورنہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے شریف و کریم اور ذی عزت پیغمبر تھے۔ صلوات اللہ و سلامہ علیہ و علی سائر

۱۴۳

طلب زیارت اور موت

وعدے کے مطابق حضرت موسیٰ طور پہاڑ پر پہنچے، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی، جواب ملا کہ یہ تیرے لئے نا ممکن ہے۔ اس سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہو گا کیونکہ لن ابدی نفی کے لئے آتا ہے لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مومنوں کو قیامت کے دن اللہ کے دیدار ہو گا۔ وہ حدیثیں آیت وجوہ یومئذ نا ضرۃ الی ربھا ناظرۃ اور آیت کلا انھم عن ربھم یومئذ لمجحوبون کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لئے نہ کہ آخرت کے لئے بھی۔ کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مومنوں کو قطعاً ہو گا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے اس طرح کوئی معارضہ بھی باقی نہیں رہتا۔ یہ آیت مثل لا تدرکہ الابصار کے ہے جس کی تفسیر سورۃ انعام میں گزر چکی ہے۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے وہ مر جائے۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں چنانچہ پہاڑ کا حال کود کلیم اللہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بے ہوش ہو گئے۔ امام ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضور فرماتے ہیں کہ جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی، اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ چکنا چور ہو گیا۔ راوی حدیث ابو اسماعیل نے اپنے شاگردوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا، لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام واضح نہیں کیا گیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کو اپنی چھنگلیا کی اوپر کی پور پر رکھ کر بتایا کہ اتنے سے جمال سے پہاڑ زمین کے ساتھ ہموار ہو گیا۔ مسند کی روایت میں ہے کہ حمید نے اپنے استاد سے کہا اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو استاد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ حضرت انس بن مالک سے میں نے یہ سنا اور انہوں نے آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم سے۔ ترمذی میں بھی یہ ہدایت ہے اور امام صاحب نے اسے حسن صحیح غریب فرمایا ہے۔ مستدرک میں اسے وارد کر کے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم پر ہے اور صحیح ہے۔ خلال کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں۔ ابن مردویہ میں بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن اس کی بھی سند صحیح نہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں صرف بقدر چھنگلی انگلی کے تجلی ہوئی تھی جس سے وہ مٹی کی طرح چور چور ہو گیا اور کلیم اللہ بھی بے ہوش ہو گئے۔ کہتے ہیں وہ پہاڑ دھنس گیا سمندر میں چلا گیا اور حضرت موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے بعض بزرگ فرماتے ہیں وہ پہاڑ اب قیامت تک ظاہر نہ ہو گا بلکہ زمین میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے اس تجلی سے چھ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ گئے جن میں سے تین مکے میں ہیں اور تین مدینے میں۔ احد رقان اور رضوی مدینے میں۔ حرا، ثبیر اور ثور مکے میں۔ لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے بلکہ منکر ہے۔ کہتے ہیں کہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے پہاڑ بالکل صاف تھے اس کے بعد ان میں غار اور کھڈ اور شاخیں قائم ہو گئیں۔ جناب کلیم اللہ کی آرزو کے جواب میں انکار ہوا اور پھر مزید تشفی کے لئے فرمایا گیا کہ میری ادنیٰ سی تجلی کی برداشت تجھ سے تو کیا بہت زیادہ قوی مخلوق میں بھی نہیں۔ دیکھ پہاڑ کی جانب خیال رکھ پھر اس پر اپنی تجلی ڈالی جس سے پہاڑ جھک گیا اور موسیٰ بیہوش ہو گئے صرف اللہ کی نظر نے پہار کو ریزہ ریزہ کر دیا وہ بالکل مٹی ہو کر ریت کا میدان ہو گیا۔ بعض قراتوں میں اسی طرح ہے اور ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے۔ حضرت موسیٰ کو غشی آ گئی یہ ٹھیک نہیں کہ موت آ گئی گو معنی یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے فصعق من فی المسوات میں موت کے معنی ہیں۔ لیکن وہاں قرینہ موجود ہے جو اس لفظ سے اسی معنی کے ہونے کی تائید کرتا ہے اور یہاں کا قرینہ بے ہوشی کی تائید کرتا ہے کیونکہ آگے فرمان ہے فلما افاق ظاہر ہے کہ افاقہ بیہوشی سے ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ ہوش میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تعظیم و جلال بیان فرمانے لگے کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی زندہ اس کے جمال کی تاب نہیں لا سکتا۔ پھر اپنے سوال سے توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب نبی اسرائیل سے پہلے میں ایمان لانے والا بنتا ہوں۔ میں اس پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ واقعی کوئی زندہ آنکھ تجھے دیکھ نہیں سکتی۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ سے پہلے کوئی مومن ہی نہ تھا بلکہ مرادیہ ہے کہ اللہ کا دیدار زندوں کے لئے نا ممکن ہے۔ ابن جریر میں اس آیت کی تفسیر میں محمد بن اسحاق بن یسار کی روایت سے ایک عجیب و غریب مطول اثر نقل کیا گیا ہے عجب نہیں کہ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہو واللہ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک یہود کو کسی نے ایک تھپڑ مارا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس شکایت لایا کہ آپ کے فلاں انصاری صحابی نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ آپ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا۔ اس نے کہا سچ ہے۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ کہہ رہا تھا اس اللہ کی قسم ہے جس نے موسیٰ کو تمام جہاں پر فضیلت دی تو میں نے کہا کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ؟ اور غصے میں آ کر میں نے اسے تھپڑ مار دیا۔ آپ نے فرمایا سنو نبیوں کے درمیان تم مجھے فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت میں سب بیہوش ہوں گے سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ تھا مے ہوئے ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوا ؟ یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش ہی نہیں ہوئے؟ یہ حدیث بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور مسلم شریف میں بھی ہے اور ابو داؤد میں بھی ہے۔ بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا جھگڑا ہو گیا اس پر مسلمان نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام جہان پر فضیلت دی اور یہودی نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر فضیلت دی۔ اس پر مسلمان نے اسے تھپڑ مارا۔ اس روایت میں ہے کہ شاید موسیٰ ان میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے بیہوشی سے استثنا کر لیا۔ حافظ ابوبکر ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ یہ تھپڑ مارنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ لیکن بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہ کوئی انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ یہی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح ہے واللہ اعلم۔ اس حدیث میں یہ فرمان کہ تم نبیوں کے درمیان مجھے فضیلت نہ دو ایسا ہی ہے جیسے اور حدیث میں بھی فرمان ہے کہ نبیوں میں مجھے فضیلت نہ دو۔ نہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت دو۔ یہ فرمان بطور تواضع کے ہے یا یہ فرمان اس سے پہلے ہے کہ آپ کو اپنی فضیلت کا علم اللہ کی طرف سے ہوا ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ غصے میں آ کر یا تعصب کی بنا پر مجھے فضیلت نہ دو یا یہ کہ صرف اپنی رائے سے میری فضیلت قائم نہ کرو۔ واللہ اعلم۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش ہوں گے یہ بیہوشی میدان قیامت کی بعض ہولناکیوں کی وجہ سے ہو گی واللہ اعلم۔ بہت ممکن ہے یہ اس وقت کا حال ہو جب الہ الملک و دیان تبارک و تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرنے کے لئے تشریف لائے گا تو اس کی تجلی سے لوگ بیہوش ہو جائیں گے۔ جیسے حضرت موسیٰ اللہ کے جمال کی برداشت کو طور پر نہ لا سکے۔ اسی لئے آپ کا فرمان ہے کہ نہ معلوم مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہوا یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش نہ ہوئے۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الشفا کے شروع میں لکھتے ہیں کہ دیدار الٰہی کی اس تجلی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس چیونٹی کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے جو دس فرسخ دور رات کے اندھیرے میں کسی پتھر پر چل رہی ہو اور بہت ممکن ہے کہ ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا معراج کے واقعہ کے بعد مخصوص ہوئے ہوں اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا قاضی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس کی سند غور طلب ہے۔ اس میں مجہول راوی ہیں اور ایسی باتیں جب تک ثقہ راویوں کے سلسلے نہ ثابت ہوں قابل قبول نہیں ہوتیں۔ واللہ اعلم۔

۱۴۴

انبیاء کی فضیلت پر ایک تبصرہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جناب باری فرماتا ہے کہ دوہری نعمت آپ کو عطا ہوئی یعنی رسالت اور ہم کلامی۔ مگر چونکہ ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمام اول و آخر نبیوں کے سردار ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسالت ختم کرنے والا آپ کو بنایا کہ قیامت تک آپ ہی کی شریعت جاری رہے گی اور تمام انبیاء اور رسولوں سے آپ کے تابعدار تعداد میں زیادہ ہوں گے فضیلت کے اعتبار سے آپ کے بعد سب سے افضل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جو خلیل اللہ تھے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں جو کلیم اللہ تھے۔ اے موسیٰ جو مناجات اور کلام تجھے میں نے دیا ہے وہ لے لے اور مضبوطی سے اس پر استقامت رکھ اور اس پر جتنا تجھ سے ہو سکے شکر بجا لایا کر۔ کہا گیا ہے کہ تورات کی تختیاں جواہر کی تھیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے تمام احکام حلال حرام کے تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے تھے ان ہی تختیوں میں تورات تھی جس کے متعلق فرمان ہے کہ اگلے لوگوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ کو لوگوں کی ہدایت کے لئے کتاب عطا فرمائی۔ یہ بھی مروی ہے کہ تورات سے پہلے یہ تختیاں ملی تھیں واللہ اعلم۔ الغرض دیدار الٰہی جس کی تمنا آپ نے کی تھی اس کے عوض یہ چیز آپ کو ملی۔ کہا گیا اسے ماننے کے ارادے سے لے لو اور اپنی قوم کو ان اچھائیوں پر عمل کرنے کی ہدایت کرو۔ آپ کو زیادہ تاکید ہوئی اور قوم کو ان سے کم۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری حکم عدولی کرنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ جیسے کوئی کسی کو دھمکاتے ہوئے کہے کہ تم میری مخالفت انجام بھی دیکھ لو گے۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں شام کے بدکاروں کے گھروں کا مالک بنا دوں گا یا مراد اس سے فرعونیوں کا ترکہ ہو۔ لیکن پہلی بات ہی زیادہ ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ فرمان تیہ کے میدان سے پہلے اور فرعون سے نجات پا لینے کے بعد کا ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۴۶

تکبر کا پھل محرومی

تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے ایسے لوگوں کو حق کو سمجھنے، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے بے ایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں، آنکھ کان بے کار ہو جاتے ہیں۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے۔ علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سمانے نہ جھکائے وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے۔ متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہا؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں۔ اس امت کے لوگ ہوں یا اور امتوں کے سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کے کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لئے دشوار ہے۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بے طرح اس پر لپکے۔ اس لئے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بے خبر ہیں۔ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، آخرت کا یقین نہ رکھیں، اسی عقیدے پر مریں ان کے اعمال اکارت ہیں۔ ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

۱۴۸

بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا

حضرت موسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے گھوڑ یکی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہو گیا اور چونکہ کھو کھلا تھا اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کر دی بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر حضرت موسیٰ کو اس فتنے کی خبر دی۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی یہ اللہ ہی جانے۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے موسیٰ بھول گئے ہیں۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بے عقلی کے اور کیا ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا کر دیتی ہے پھر جب اس محبت میں کمی آئی آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کر لیا کہ واقعی ہم گمراہ ہو گئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے۔ ایک قرات میں تغفرتے سے بھی ہے۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو جار ہو جائیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے۔

۱۵۰

موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو چکا تھا اس لئے سخت غضبناک ہو کر واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالائقی کی۔ تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا میری ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھینک دیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ زمرد یا یا قوت یا کسی اور چیز کی تھیں۔ سچ ہے جو حدیث میں ہے کہ دیکھنا سننا برابر نہیں، اپنی قوم پر غصے ہو کر الواح ہاتھ سے گرا دیں۔ ٹھیک بات یہی ہے جمہور سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے لیکن ابن جریر نے قتادہ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں۔ ابن عطیہ وغیرہ نے اس کی بہت تردید کی ہے اور واقعی وہ تردید کے قابل بھی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ قتادہ نے یہ اہل کتاب سے لیا ہو اور ان کا کیا اعتبار ہے؟ ان میں جھوٹے، بناوٹ کرنے والے، گھڑ لینے والے، بد دین، بے دین ہر طرح کے لوگ ہیں اس خوف سے کہ کہیں حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انہیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تو نے میری ما تحتی میں انہیں کیوں نہ روکا؟ کیا تو بھی میرے فرمان کا منکر بن گیا؟ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان میرے سر کے اور داڑھی کے بال نہ پکڑیں میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انہیں روکا زیادہ اس لئے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے نبی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تو نے میرا انتظار کیوں نہ کیا؟ ورنہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا۔ انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہو گئے۔ آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں نہ ان میں ملائیں۔ حضرت ہارون کا یہ فرمانا کہ اے میرے ماں جائے بھائی یہ صرف اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ کو رحم آ جائے، ماں باپ دونوں کے ایک ہی تھے۔ جب آپ کو اپنے بھائی ہارون کی برات کی تحقیق ہو گئی اللہ کی طرف سے بھی ان کی پاک دامنی اور بے قصوری معلوم ہو گئی کہ انہوں نے اپنی قوم سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس تم فتنے میں پڑ گئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا پروردگار بڑا ہی رحیم و کریم ہے تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے واقعی دیکھنے والے میں اور خبر سننے والے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ قوم کی گمراہی کی خبر سنی تو تختیاں ہاتھ سے نہ گرائیں لیکن اسی منظر کو دیکھ کر قابو میں نہ رہے تختیاں پھینک دیں۔

۱۵ ۲

باہم قتل کی سزا

ان گو سالہ پر ستوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کر لیا ان کی توبہ قبول نہ ہوئی جیسے کہ سورۃ بقرہ کی تفسیر میں تفصیل وار بیان ہو چکا ہے کہ انہیں حکم ہوا تھا کہ اپنے خالق سے توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہی تمہارے حق میں ٹھیک ہے پھر وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم والا ہے۔ اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی۔ ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھوٹا طوفان اٹھائے یہی سزا ہے۔ رسول کی مخالفت اور بدعت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر اس کے کندھوں پر آ پڑتا ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں گو وہ دنیوی ٹھاٹھ رکھتا ہو لیکن ذلت اس کے چہرے پر برستی ہے۔ قیامت تک یہی سزا ہر جھوٹے افترا باز کی اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر بدعتی ذلیل ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے خواہ کیسا ہی گناہ ہو لیکن توبہ کے بعد وہ معاف فرما دیتا ہے گو کفر و شرک اور نفاق و  شفاق ہی کیوں نہ ہو۔ فرمان ہے کہ جو لوگ برائیوں کے بعد توبہ کر لیں اور ایمان لائیں تو اے رسول رحمت اور اے نبی نور (یعنی قرآن) تیرا رب اس فعل کے بعد بھی غفور و رحیم ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کاری کرے پھر اس سے نکاح کر لے تو؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی کوئی دس دس مرتبہ اسے تلاوت کیا اور کوئی حکم یا منع نہیں کیا۔

۱۵۴

 حضرت موسیٰ کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا جب وہ جاتا رہا تو سخت غصے کی حالت میں جن تختیوں کو انہوں نے زمین پر ڈال دیا تھا اب اٹھا لیں۔ یہ غصہ صرف اللہ کی راہ میں تھا کیونکہ آپ کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ ان تختیوں میں ہدایت و رحمت تھی۔ کہتے ہیں کہ جب کلیم اللہ نے تختیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ ٹوٹ گئیں پھر انہیں جمع کیا۔ تو ان میں رہبری اور رحم پایا اور تفصیل اٹھا لی گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ان تختیوں کے ٹکڑے شاہی خزانوں میں بنی اسرائیل کے پاس دولت اسلامیہ کے ابتدائی زمانے تک محفوظ رہے واللہ اعلم۔ اس کی صحت کا کوئی پتہ نہیں حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ تختیاں جنتی جو ہر کی تھیں اور اس آیت میں ہے کہ پھر حضرت موسیٰ نے خود ہی انہیں اٹھا لیا اور ان میں رحمت و ہدایت پائی چونکہ رحمت متضمن ہے خشوع و خضوع کو اس لئے اسے لام سے متعدی کیا۔ قتادہ کہتے ہیں ان میں آپ نے لکھا دیکھا کہ ایک امت تمام امتوں سے بہتر ہو گی جو لوگوں کے لئے قائم کی جائے گی جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گی تو حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو یہی امت بنا دے جواب ملا کہ یہ امت امت احمد ہے ( صلی اللہ علیہ و سلم ) پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو دنیا میں سب سے آخر آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا پھر پڑھا کہ ایک امت ہو گی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہوں گی جس کی وہ تلاوت کریں گے یعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں۔ اگر ان کی کتابیں اٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیونکہ انہیں حفظ نہیں۔ اس طرح کا حافظہ اسی امت کے لئے مخصوص ہے کسی اور امت کو نہیں ملا۔ اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا۔ پھر دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک امت ہو گی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی۔ اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا۔ پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک امت ہو گی جو خود بھی شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ یہ مرتبہ میری امت کو دے۔ جواب ملا یہ امت امت احمد ہے (صلی اللہ علیہ و سلم ) ہے اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے اے اللہ مجھے امت احمد میں کر دے۔

۱۵۵

موسیٰ علیہ السلام کی طور پر واپسی

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حسب فرمان الٰہی اپنی قوم سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے کہنے لگے اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو نہ ہمارے بعد کسی کو دے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ نا پسند آئی اور ان پر بھونچال آ گیا۔ جس سے گھبرا کر حضرت موسیٰ اللہ سے دعائیں کرنے لگے۔ سدی کہتے ہیں انہیں لے کر آپ اللہ تعالیٰ سے بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی کی معذرت کرنے کے لئے گئے تھے۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ہم تو جب تک کود اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے حضرت موسیٰ نے رونا شروع کیا کہ اللہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ان کے یہ بہترین لوگ تھے اگر یہی منشا تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کر دیا ہوتا۔ امام محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کے لئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہو جاؤ پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے۔ مناجات میں مشغول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں آپ نے دعا کی جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے قوم سے فرمایا تم بھی قریب آ جاؤ یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب معمول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا آپ نے حجاب کر لیا لوگ سب سجدے میں گر پڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے یہ کر یہ نہ کر وغیرہ۔ جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا ہم تو جب تک اللہ کو خود خوب ظاہر نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑا کا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مر گئے موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور مناجات شروع کر دی اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو اور شبر اور شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے۔ ہارون ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کر لی گئی جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کر دیا اس پر آپ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کر دو انہوں نے کر دیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور حضرت ہارون کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا ؟ اللہ کی قدرت سے وہ بولے کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوں انہوں نے کہا بس موسیٰ اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مر گئے اب تو حضرت موسیٰ بہت گھبرائے دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی التجا قبول کر لی ان سب کو زندہ کر دیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے اس قول کی دلیل میں حضرت موسیٰ کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے؟ پھر فرماتے ہیں یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے تیرا ہی حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے۔ ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے جس کو تو ہدایت دے اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا۔ تو جس سے روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ ملک کا مالک تو اکیلا، حکم کا حاکم صرف تو ہی۔ خلق و امر تیرا ہی ہے تو ہمارا ولی ہے، ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے۔ غفر کے معنی ہیں چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہو جائے۔ گناہوں کا بخش دینے والا صرف تو ہی ہے۔ پس جس چیز سے ڈر تھا اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کے لئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اسے ہمارے نام لکھ دے واجب و ثابت کر دے۔ حسنہ کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ چونکہ انہوں نے ھدنا کہا تھا اس لئے انہیں یہودی کہا گیا ہے لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔

۱۵۶

اللہ تعالیٰ کی رحمت اور انسان

چونکہ کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یہ محض تیری طرف سے آزمائش ہے اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ عذاب تو صرف گنہگاروں کو ہی ہوتا ہے اور گنہگاروں میں سے بھی انہی کو جو میری نگاہ میں گنہگار ہیں نہ کہ ہر گنہگار کو۔ میں اپنی حکمت عدل اور پورے علم کے ذریعے سے جانتا ہوں کہ مستحق عذاب کون ہے ؟ صرف اسی کو عذاب پہنچاتا ہے۔ ہاں البتہ میری رحمت بڑی وسیع چیز ہے جو سب پر شامل، سب پر حاوی اور سب پر محیط ہے۔ چنانچہ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اردگرد رہنے والے فرشتے فرماتے رہا کرتے ہیں کہ اے رب تو نے اپنی رحمت اور اپنے علم سے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی آیا اونٹ بٹھا کر اسے باندھ کر نماز میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر اونٹ کو کھول کر اس پر سوار ہو کر اونچی آواز سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر رحم کر اور اپنی رحمت میں کسی اور کو ہم دونوں کا شریک نہ کر۔ آپ یہ سن کر فرمانے لگے بتاؤ یہ خود راہ گم کردہ ہونے میں بڑھا ہوا ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا بھی اس نے کیا کہا؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں حضور سن لیا آپ نے فرمایا اے شخص تو نے اللہ کی بہت ہی کشادہ رحمت کو بہت تنگ چیز سمجھ لیا سن اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اتارا اسی سے مخلوق ایک دوسرے پر ترس کھاتی ہے اور رحم کرتی ہے، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں باقی کے ننانوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہار قیامت کے دن ہو گا اور روایت میں ہے کہ بروز قیامت اسی حصے کے ساتھ اور ننانوے حصے جو موخر ہیں ملا دیئے جائیں گے ایک اور روایت میں ہے کہ اسی نازل کردہ ایک حصے میں پرند بھی شریک ہیں۔ طبری میں ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو اپنے دین میں فاجر ہے جو اپنی معاش میں احمق ہے وہ بھی اس میں داخل ہے۔ اس کی قسم جو میری جان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ بھی جنت میں جائے گا جو مستحق جہنم ہو گا۔ اس کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے کرشمے دیکھ کر ابلیس بھی امیدوار ہو کر ہاتھ پھیلا دے گا۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کا راوی سعد غریب معروف ہے۔ پس میں اپنی اس رحمت کو ان کے لئے واجب کر دونگا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے۔ جیسے فرمان ہے تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو ان کے لئے واجب کر دوں گا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے۔ جیسے فرمان ہے تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے۔ پس جن پر رحمت رب واجب ہو جائے گی ان کے اوصاف بیان فرمائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے امت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) ہے جو تقویٰ کریں یعنی شرک سے اور کبیرہ گناہوں سے بچیں زکوٰۃ دیں یعنی اپنے ضمیر کو پاک رکھیں اور مال کی زکوٰۃ بھی ادا کریں ـ(کیونکہ یہ آیت مکی ہے) اور ہماری آیتوں کو مان لیں ان پر ایمان لائیں اور انہیں سچ سمجھیں۔

۱۵۷

سابقہ کتابوں میں آخری پیغمبر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے جو اوصاف بیان ہوئے تھے جس سے ان نبیوں کی امت آپ کو پہچان جائے وہ بیان ہو رہے ہیں سب کو حکم تھا کہ ان صفات کا پیغمبر اگر تمہارے زمانے میں ظاہر ہو تو تم سب ان کی تابعداری میں لگ جانا۔ مسند احمد میں ہے ایک صاحب فرماتے ہیں میں کچھ خرید و فروخت کا سامان لے کر مدینے آیا جب اپنی تجارت سے فارغ ہوا تو میں نے کہا اس شخص سے بھی مل لوں میں چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابوبکر و عمر کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا آپ ایک یہودی عالم کے گھر گئے اس کا نوجوان خوبصورت تنو مند بیٹا نزع کی حالت میں تھا اور وہ اپنے دل کو تسکین دینے کے لئے تورات کھولے ہوئے اس کے پاس بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے اس کی قسم جس نے یہ تورات نازل فرمائی ہے کیا میری صفت اور میرے مبعوث ہونے کی خبر اس میں تمہارے پاس ہے یا نہیں ؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ اسی وقت اس کا وہ بچہ بول اٹھا کہ اس کی قسم جس نے تورات نازل فرمائی ہے ہم آپ کی صفات اور آپ کے آنے کا پورا حال اس تورات میں موجود پاتے ہیں اور میری تہ دل سے گواہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا اس یہودی کو اپنے بھائی کے پاس سے ہٹاؤ پھر آپ ہی اس کے کفن دفن کے والی بنے اور اس کے جنازے کی نماز پڑھائی۔ مستدرک حاکم میں ہے حضرت ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کے لئے روانہ ہوئے۔ غوطہ دمشق میں پہنچ کر ہم حیلہ بن ایم غسانی کے ہاں گئے اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم اس سے باتیں کر لیں۔ ہم نے کہا واللہ ہم تم سے کوئی بات نہ کریں گے ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور کود جواب دین ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرن انہیں چاہتے۔ قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نہ نکال دوں گا اس سیاہ لبادے کو نہ اتاروں گا۔ قاصد اسلام نے یہ سن کر پھر کہا بادشاہ ہوش سنبھالو اللہ کی قسم یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ کے بڑھے بادشاہ کا پائے تخت بھی انشاء اللہ عنقریب ہم اپنے قبضے میں کر لیں گے۔ یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے۔ اس نے کہا تم وہ لوگ نہیں ہاں ہم سے ہمارا یہ تخت و تاج و قوم چھینے گی جو دنوں کو روزے سے رہتے ہوں اور راتوں کو تہجد پڑھتے ہوں۔ اچھا تم بتاؤ تمہارے روزے کے احکام کیا ہیں ؟ اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا۔ اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا انہیں شاہ روم کے پاس لے جاؤ جب ہم اس کے پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے عمدہ سواریاں لا دوں ان پر سوار ہو کر تم شہر میں چلو ہم نے کہا نا ممکن ہے ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا وہاں سے اجازت آئی کہ اچھا انہیں اونٹوں پر ہی لے آؤ ہم اپنے اونٹوں پر سوار گلے میں تلواریں لٹائے شاہی محل کے پاس پہنچے وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ہمارے منہ سے بے ساختہ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ اسی وقت شام اور روم کا محل تھرا اٹھا اس طرح جس طرح کسی خوشے کو تیز ہوا کا جھونکا ہلا رہا ہو اسی وقت محل سے شاہی قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنے دین کو اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو، چلو تم کو بادشاہ سلامت یاد کر رہے ہیں چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے دیکھا کہ چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے ہے تمام دربار پادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے۔ جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر کہنے لگا جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے تم نے مجھے وہ سلام کیوں نہ کیا؟ ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے اس کے لائق تم نہیں اور جو آداب کا دستور تم میں ہے وہ ہمیں پسند نہیں۔ اس نے کہا اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے؟ ہم نے کہا السلام علیکم اس نے کہا اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو؟ ہم نے کہا صرف ان ہی الفاظ سے۔ پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ہم نے کہا یہی الفاظ وہ کہتے ہیں۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ اللہ عزوجل کی قسم ادھر ہم نے یہ کلمہ کہا ادھر پھر سے محل میں زلزلہ پڑا یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا۔ بادشاہ ہیبت زدہ ہو کر پوچھنے لگا کیوں جی اپنے گھروں میں بھی جب کبھی تم یہ کلمہ پڑھتے ہو تمہارے گھر بھی اس طرح زلزلے میں آ جاتے ہیں ؟ ہم نے کہا کبھی نہیں ہم نے تو یہ بات یہیں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے۔ بادشاہ کہنے لگا کاش کہ تم جب کبھی اس کلمے کو کہتے تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا۔ ہم نے پوچھا یہ کیوں ؟ اس نے جواب دیا اس لئے کہ یہ آسان تھا بہ نسبت اس بات کے کہ یہ امر نبوت ہو۔ پھر اس نے ہم سے ہمارا ارادہ دریافت کیا ہم نے صاف بتایا۔ اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو؟ ہم نے دونوں باتیں بتا دیں اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا۔ تین دن جب گزرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلا نے آیا ہم پھر دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا ہم نے اسے دوہرایا پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا منڈھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ہم نے دیکھا کہ اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں بڑی رانیں ہیں۔ بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے اور سر کے بال دو حصوں میں نہایت کو بصورت لمبے لمبے ہیں ہم نے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے جسم پر بال بہت ہی تھے۔ پھر دوسرا دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ ریشم کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے گھونگر والے بال تھے سرخ رنگ آنکھیں تھیں بڑے کلے کے آدمی تھے اور بڑی خوش وضع داڑھی تھی ہم سے پوچھا انہیں پہچانتے ہو؟ ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ، بہت خوبصورت آنکھیں، کشادہ پیشانی، لمبے رخسار، سفید داڑھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانا؟ ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھولا اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تھی۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا یہ حضرت محمد ہیں صلی اللہ علیہ و سلم۔ یہ کہا اور ہمارے آنسو نکل آئے۔ بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا اب وہ بیٹھ گیا اور ہم سے دوبارہ پوچھا کہ یہی شکل حضور کی ہے ہم نے کہا واللہ یہی ہے اسی طرح کہ گویا تو آپ کو آپ کی زندگی میں دیکھ رہا ہے۔ پس وہ تھوڑی دیر تک غور سے اسے دیکھتا رہا پھر ہم سے کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے اور گھروں کو جھوڑ کر اسے بیچ میں ہی اس لئے کھولا دیا کہ تمہیں آزما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں۔ پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے بھی سیاہ رنگ ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں نرمی والی صورت تھی۔ بال گھنگھردار آنکھیں گہری نظریں تیز تیور تیکھے دانت پر دانت ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں۔ ہم سے پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے انکار کیا بادشاہ نے کہا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اسی کے متصل ایک اور صورت تھی جو قریب قریب اسی کی سی تھی۔ مگر ان کے سر کے بال گویا تیل لگے ہوئے تھے۔ ماتھا کشادہ تھا، آنکھوں میں کچھ فراخی تھی ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہمارے انکار پر کہا یہ حضرت ہارون بن عمر ان علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید رنگ ریشم کا ٹکڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا ایک شخص تھا گویا وہ غضبناک ہے پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا یہ حضرت لوط علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکال کر دکھایا جس میں سنہرے رنگ کے ایک آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا رخسار ہلکے تھے چہرہ خوبصورت تھا ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہ انہیں، کہ یہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ کا ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک شکل تھی سفید رنگ خوبصورت اونچی ناک والے اچھے قامت والے نورانی چہرے والے جس میں خوف اللہ ظاہر تھا رنگ سرخی مائل سفید تھا پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں، کہا یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔ پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشمی کپڑے کا ٹکڑا نکال کر دکھایا جس میں ایک صورت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کی صورت سے بہت ہی ملتی جلتی تھی اور چہرہ تو سورج کی طرح روشن تھا، پوچھا انہیں پہچانا؟ ہم نے لا علمی ظاہر کی تو کہا یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشم کا پارچہ نکال کر ہمیں دکھایا جس میں ایک صورت تھی سرخ رنگ بھری پنڈلیاں کشادہ آنکھیں اونچا پیٹ قدرے چھوٹا قد تلوار لٹکائے ہوئے۔ پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں۔ کہا یہ حضرت داؤد علیہ السلام ہیں پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشم نکالا جس میں ایک صورت تھی موٹی رانوں والی لمبے پیروں والی گھوڑے سوار۔ پوچھا انہیں پہنچانا؟ ہم نے کہ انہیں، کہا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں۔ پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ حریری پارچہ نکالا جس میں ایک صورت تھی۔ سفید رنگ نوجوان سخت سیاہ داڑھی بہت زیادہ بال خوش نما آنکھیں خوبصورت چہرہ۔ پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں۔ ہم نے پوچھا آپ کے پاس یہ صورتیں کہاں سے آئیں ؟ یہ تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ تمام انبیاء کی اصلی صورت کے بالکل ٹھیک نمونے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت کو بالکل ٹھیک اور درست پایا۔ بادشاہ نے جواب دیا بات یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے رب العزت سے دعا کی کہ آپ کی اولاد میں سے جو انبیاء علیہم السلام ہیں ان سب کو آپ کو دکھایا جائے پس ان کی صورتیں آپ پر نازل ہوئیں جو حضرت آدم علیہ السلام کے خزانے میں جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تھا محفوظ تھیں ذوالقرنین نے انہیں وہاں سے لے لیا اور حضرت دانیال کو دیں۔ پھر بادشاہ کہنے لگے کہ میں تو اس پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہت چھوڑ دوں میں اگر غلام ہوتا تو تمہارے ہاتھوں بک جاتا اور تمہاری غلامی میں اپنی پوری زندگی بسر کرتا۔ پھر اس نے ہمیں بہت کچھ تحفے تحائف دے کر اچھی طرح رخصت کیا۔ جب ہم خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں پہنچے اور یہ سارا واقعہ بیان کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روئے اور فرمانے لگے اس مسکین کے ساتھ اللہ کی توفیق رفیق ہوتی تو یہ ایسا کر گزرتا۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا ہے کہ نصرانی اور یہودی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف اپنی کتابوں میں برابر پاتے ہیں۔ یہ روایت امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے۔ اس کی اسناد بھی خوف و خطر سے خالی ہے۔ حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو صفتیں تورات میں ہوں وہ مجھے بتاؤ تو انہوں نے فرمایا ہاں واللہ آپ کی صفتیں تورات میں ہیں جو قرآن میں بھی ہیں کہ اے نبی ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور ان پڑھوں کو گمراہی سے بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور رسول ہیں، آپ کا نام متوکل ہے، آپ بدگو اور بد خلق نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہ کرے گا جب تک کہ آپ کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے لا الہ الا اللہ کہلوا کر ٹیڑھے دین کو درست نہ کر دے۔ بند دلوں کو کھول دے گا، بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا، اندھی آنکھوں کو دیکھتی کر دے گا۔ یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے۔ حضرت عطا فرماتے ہیں پھر میں حضرت کعب سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا ایک حرف کی بھی کمی بیشی دونوں صاحبوں کے بیان میں نہ تھی یہ اور بات ہے کہ آپ نے اپنے لغت میں دونوں کے الفاظ بولے۔ بخاری شریف کی اس روایت میں اس ذکر کے بعد کہ آپ بد خلق نہیں یہ بھی ہے کہ آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں، آپ برائی کے بدلے برائی کرنے والے نہیں بلکہ معافی اور درگزر کرنے والے ہیں۔ عبد اللہ بن عمرو کی حدیث کے ذکر کے بعد ہے کہ سلف کے کلام میں عموماً تورات کا لفظ اہل کتاب کی کتابوں پر بولا جاتا ہے۔ اس کے مشابہ اور بھی روایتیں ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں حضرت جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ میں تجارت کی غرض سے شام میں گیا وہاں میری ملاقات اہل کتاب کے ایک عالم سے ہوئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ نبی تم میں ہوئے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں، اس نے کہا اگر تمہیں ان کی صورت دکھائیں تو تم پہچان لو گے؟ میں نے کہا ضرور چنانچہ وہ مجھے ایک گھر میں لے گیا جہاں بہت سی صورتیں تھیں لیکن ان میں میری نگاہ میں حضور کی کوئی شبیہ نہ آئی، اسی وقت ایک اور عالم آیا ہم سے پوچھا کیا بات ہے؟ جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو وہ ہمیں اپنے مکان لے گیا وہاں جاتے ہی میری نگاہ آپ کی شبیہ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ گویا کوئی آپ کے پیچھے ہی آپ کو تھامے ہوئے ہے، میں نے یہ دیکھ کر اس سے پوچھا یہ دوسرے صاحب پیچھے کیسے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ جو نبی آیا اس کے بعد بھی نبی آیا لیکن اس نبی کے بعد کوئی نبی نہیں اس کے پیچھے کا یہ شخص اس کا خلیفہ ہے۔ اب جو میں نے غور سے دیکھا تو وہ بالکل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل تھی۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے موذن اقرع کو ایک پادری کے پاس بھیجا آپ اسے بلا لائے امیر المومنین نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم میری صفت اپنی کتابوں میں پاتے ہو؟ اس نے کہا ہاں، کہا کیا؟ اس نے جواب دیا کہ قرن۔ آپ نے کوڑا اٹھا کر فرمایا قرن کیا ہے؟ اس نے کہا گویا کہ وہ لوہے کا سینگ ہے وہ امیر ہے دین میں بہت سخت۔ فرمایا اچھا میرے بعد والے کی صفت کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خلیفہ تو وہ نیک صالح ہے لیکن اپنے قرابتداروں کو وہ دوسروں پر ترجیح دے گا۔ آپ نے فرمایا اللہ عثمان پر رحم کرے تین بار یہ فرمایا پھر فرمایا اچھا ان کے بعد؟ اس نے کہا لوہے کے ٹکڑے جیسا۔ حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور افسوس کرنے لگے اس نے کہا اے امیر المومنین ہوں گے تو وہ نیک خلیفہ لیکن بنائے ہی اس وقت جائیں گے جب تلوار کھچی ہوئی ہو اور خون بہ رہا ہو ( ابو داؤد) ان کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ نیکیوں کا حکم دیں گے برائیوں سے روکیں گے۔ فی الواقع آپ ایسے ہی تھے کونسی بھلائی ہے جس کا آپ نے حکم نہ دیا ہو؟ کونسی برائی ہے جس سے آپ نے نہ روکا ہو؟ جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں تم جب قرآن کے یہ لفظ سنو کہ اے ایمان والو تو اسی وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ کیونکہ یا تو کسی خیر کا تمہیں حکم کیا جائے گا یا کسی شر سے تمہیں بچایا جائے گا۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید اللہ کی وحدانیت تھی جس کا حکم برابر ہر نبی کو ہوتا رہا۔ قرآن شاہد ہے کہ ہر امت کے رسول کو پہلا حکم یہی ملا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ماسوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمہارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمہارے بھی اس سے بہت دور ہوں۔ اس کی سند بہت پکی ہے۔ اسی کی ایک اور روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیز گاری والا ہو۔ پھر حضور کی ایک صفت بیان ہو رہی ہے کہ آپ کل پاک صاف اور طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں بہت سی چیزیں ان میں ایسی تھیں جنہیں لوگوں نے از خود حرام قرار دے لیا تھا جیسے جانوروں کو بتوں کے نام کر کے نشان ڈال کر انہیں حرام سمجھنا وغیرہ اور خبیث اور گندی چیزیں آپ لوگوں پر حرام کرتے ہیں جیسے سور کا گوشت سود وغیرہ اور جو حرام چیزیں لوگوں نے از خود حلال کر لی تھیں۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں کھاؤ وہ دین میں بھی ترقی کرتی ہیں اور بدن میں بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان سے بچو کیونکہ ان سے دین کے نقصان کے علاوہ صحت میں بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ چیزوں کی اچھائی برائی دراصل عقلی ہے۔ اس کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن یہ جگہ اس کے بیان کی نہیں اسی آیت کو زیر نظر رکھ کر بعض اور علماء نے کہا ہے کہ جن چیزوں کا حلال حرام ہونا کسی کو نہ پہنچا ہو اور کوئی آیت حدیث اس کے بارے میں نہ ملی ہو تو دیکھنا چاہئے کہ عرب اسے اچھی چیز سمجھتے ہیں یا اس سے کراہت کرتے ہیں اگر اسے اچھی چیز جان کر استعمال میں لاتے ہیں تو حلال ہے اور اگر بری چیز سمجھ کر نفرت کر کے اسے نہ کھاتے ہوں تو وہ حرام ہے۔ اس اصول میں بھی بہت کچھ گفتگو ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ آپ بہت صاف آسان اور سہل دین لے کر آئیں گے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ میں ایک طرف آسان دین دے کر مبعوث کیا گیا ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل کو جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، مل کر رہنا، اختلاف نہ کرنا۔ آپ کے صحابی ایوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں میں حضور کے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی امتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس امت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میری امت کے دلوں میں جو وسوسے گزریں ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں۔ فرماتے ہیں میری امت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کئے کرائے جائیں ان سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمائی کہ کہو کہ اے ہمارے پروردگار تو ہماری بھول چوک پر ہماری پکڑ نہ کر۔ اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ لاؤ جو ہم سے پہلوں پر تھا۔ اے ہمارے رب ہمیں ہماری طاقت سے زیادہ بوجھل نہ کر۔ ہمیں معاف فرما، ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کار ساز مولیٰ ہے۔ پس ہمیں کافروں پر مدد عطا فرما۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے یہ قبول فرمایا۔ پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے اس نور کی پیروی کریں وہی دنیا آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔

۱۵۸

النبی العالم اور النبی الخاتم صلی اللہ علیہ و سلم

اللہ تعالیٰ اپنے نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ تمام عرب عجم گوروں کالوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں۔ آپ کی شرافت و عظمت ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام دنیا کے لئے صرف آپ ہی نبی ہیں۔ جیسے فرمان قرآن ہے قل اللہ شھید بینی وبینکم واو حی الی ھذا القران لا نذر کم بہ ومن بلغ یعنی اعلان کر دے کہ مجھ میں تم میں اللہ گواہ ہے اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لئے اتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ یعنی مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ سے انکار کرے اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے اور آیت میں ہے وقل للذین اوتواالکتاب ولا مبین ااسلمتم فان اسلموافقد اھتدواوان تولوافانما علیک البلاغی یعنی اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سے کہہ دو کہ کیا تم مانتے ہو؟ اگر تسلیم کر لیں مسلمان ہو جائیں تو راہ پر ہیں ورنہ تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بے شمار ہیں۔ دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اتفاق سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر میں کچھ چشمک ہو گئی۔ حضرت صدیق نے حضرت فاروق کو ناراض کر دیا حضرت فاروق اسی حالت میں چلے گئے حضرت صدیق نے درخواست کی کہ آپ معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لئے بخشش چاہیں لیکن حضرت عمر راضی نہ ہوئے بلکہ کو اڑ بند کر لئے۔ آپ لوٹ کر دربار محمدی میں آئے اس وقت اور صحابہ بھی حضور کی مجلس میں موجود تھے آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی نے انہیں ناراض اور غضبناک کر دیا۔ حضرت عمر حضرت صدیق کی واپسی کے بعد بہت ہی نادم ہوئے اور اسی وقت دربار رسالت ماب میں حاضر ہو کر تمام بات کہہ سنائی۔ حضور ناراض ہوئے۔ ابوبکر صدیق بار بار کہتے جاتے تھے کہ یا رسول اللہ زیادہ ظلم تو مجھ سے سر زد ہوا ہے۔ حضور نے فرمایا کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑتے نہیں ؟ سنو جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تم نے کہا تو جھوٹا ہے لیکن اس ابوبکر نے کہا آپ سچے ہیں۔ ابن عبا سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ یاد رہے کہ میں اسے فخراً نہیں کہتا میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی جانب بھیجا گیا ہوں اور میری مدد مہینے بھر کے فاصلے سے صرف رعب کے ساتھ کی گئی ہے اور میرے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں کئے گئے تھے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کے لئے حلال کر دی گئی ہے اور مجھے اپنی امت کی شفاعت عطا فرمائی گئی ہے جسے میں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر رکھا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ (مسند امام احمد) روایت ہے کہ غزوہ تبوک والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے پس بہت سے صحابہ آپ کے پیچھے جمع ہو گئے کہ آپ کی چوکیداری کریں نماز کے بعد آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اس رات مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہیں دی گئیں میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے مجھے اپنے دشمنوں پر رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں وہیں وہ مرعوب ہو جاتے ہیں۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی پاک چیز بنا دی گئی ہے جہاں کہیں میرے امتی کو نماز کا وقت آ جائے وہ تیمم کر لے اور نماز ادا کر لے مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لئے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا آپ دعا کیجئے مانگئے کیا مانگتے ہیں ؟ ہر نبی مانگ چکا ہے تو میں نے اپنے اس سوال کو قیامت پر اٹھا رکھا ہے پس وہ تم سب کے لئے ہے اور ہر اس شخص کے لئے جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دے۔ اس کی اسناد بہت پختہ ہے اور مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے کہ میری اس امت میں سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں نہیں جا سکتا یہ حدیث اور سند سے صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا ذکر اس امت کے جس یہودی نصرانی کے پاس پہنچے اور وہ مجھ پر اور میری وحی پر ایمان نہ لائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے۔ مسند کی ایک اور حدیث میں آپ نے ان پانچوں چیزوں کا ذکر فرمایا جو صرف آپ کو ہی ملی ہیں پھر فرمایا ہر نبی نے شفاعت کا سوال کر لیا ہے اور میں نے اپنے سوال کو چھپا رکھا ہے اور ان کے لئے اٹھا رکھا ہے جو میری امت میں سے توحید پر مرے۔ یہ حدیث جابر بن عبد اللہ کی روایت سے بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کی مسافت تک رعب سے امداد و نصرت، ساری زمین کا مسجد و طہور ہونا کہ میری امت کو جہاں وقت نماز آ جائے ادا کر لے، غنیمتوں کا حلال کیا جانا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھیں۔ شفاعت کا دیا جانا، تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جانا حالانکہ پہلے کے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ کہو مجھے اس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے سب چیزوں کا خالق مالک ہے جس کے ہاتھ میں ملک ہے جو مارنے جلانے پر قادر ہے جس کا حکم چلتا ہے۔ پس اے لوگو تم اللہ پر اور اس کے رسول و نبی پر ایمان لاؤ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود دنیا کو پڑھا رہے ہیں انہی کا تم سے وعدہ تھا اور ان ہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں بھی ہے۔ انہی کی صفتیں اگلی کتابوں میں ہیں۔ یہ خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ قول و فعل سب میں اللہ کے کلام کے مطیع ہیں۔ تم سب ان کے ماتحت اور فرمانبردار ہو جاؤ۔ انہی کے طریقے پر چلو انہی کی فرمانبرداری کرو، تم راہ راست پر آ جاؤ گے۔

۱۵۹

انبیاء کا قاتل گروہ

خبر ہے کہ امت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے من اھل الکتاب امۃ قائمۃ الخ، اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے اور آیت میں ہے وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ الخ، یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر ہے اور آیت میں ہے الذین اتینا ھم الکتاب یتلو نہ حق تلاوۃ اولئک یومنون بہ الخ، جو لوگ ہماری کتاب پائے ہوئے ہیں اور اسے حق تلاوت کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور فرمان ہے ان الذین اوتوا العلم من قبلہ الخ، جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں۔ ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں۔ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خرب لکھی ہے کہ ابن جریج فرماتے ہیں جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ان کے بارے گروہ تھے ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہ اللہ تعالیٰ سے معذرت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہ میں وہ تفریق کر دے۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آیت وقلنا من بعد لبنی اسرائیل اکنواالارض الخ، کا یہی مطلب ہے۔ اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے۔ کہتے ہیں اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے۔ کہتے ہیں اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے۔

۱۶۰

 یہ سب آیتیں سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہیں اور وہیں ان کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم نے بیان کر دی ہے وہ سورت مدینہ ہے اور یہ مکیہ ہے۔ ان آیتوں اور ان آیتوں کا فرق بھی مع لطافت کے ہم نے وہیں ذکر کر دیا ہے دوبارہ کی ضرورت نہیں۔

۱۶۳

تصدیق رسالت سے گریزاں یہودی علماء

پہلے آیت ولقد علمتم الذین اعتدوامنکم فی السبت گزر چکی ہے اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی۔ اس واقعہ کو یاد دلا کہ یہ بھی میری نا گہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں انہیں نہ چھپائیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب ان کی بے خبری میں برس پڑیں۔ ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آئلہ تھا۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام متنا تھا۔ یہ مدین اور عینوں کے درمیان تھا۔ انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کھیلیں، مچھلی نہ پکڑیں۔ ادھر مچھلیوں کی بحکم الٰہی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں کھلم کھلا ہاتھ لگتیں تیرتی پھرتیں سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی۔ یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد۔ چونکہ یہ لوگ فاسق اور بے حکم تھے اس لئے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لئے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لینا۔ اس حدیث کو امام ابن بطو لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے اس کے راوی احمد ہیں۔ محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے باقی اور سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے۔

۱۶۴

اصحاب سبت

جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ان کے تین گروہ ہو گئے تھے ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے حوالوں سے مچھلی پکڑنے والا۔ دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہو جانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا نہ اس سے روکنے والا جیسے کہ سورہ بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں۔ جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لئے ہیں رب کے غضب کے لئے تیار ہو گئے ہیں اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہو جائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے۔ معذرت کے پیش سے بھی ایک قرات ہے تو گوایا ھذا کا لفظ یہاں مقرر ما نا یعنی انہوں نے کہا یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرات پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں یہ کام بطور اس کے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کسی وقت کی نصیحت ان پر اثر کر جائے یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آ جائیں اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے۔ آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو تو جو برابر ان سے نالاں رہا ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھتا بجھتا رہا نجات دے دی اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا۔ عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کی نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کے حالات سے سکوت کیا گیا، اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے۔ یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت عالنیہ کی جائے نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا جھوڑ دیا تھا اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے۔ آپ کے شاگرد حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ پہلے حضرت ابن عباس کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قران گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آ کر سلام کیا بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ سورہ اعراف ہے اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کر دی گئی اور ان کی آزمائش کے لئے مچھلیوں کو حکم ہوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے۔ تر و تازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اچھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں۔ کچھ دنوں تو ان کے دلوں کے اندر حکم الٰہی کی عظمت ہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے تم نے آج کھانا نہیں۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا۔ سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہر چند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو شکار کھیلنا شروع نہ کرو شکار اور کھانا دونوں ممنوع ہیں۔ اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ایک ان کے دائیں ایک بائیں۔ دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لئے تیاری نہ کرو۔ بائیں والوں نے کہا میاں تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیر اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں۔ ہماری تو عین منشا یہ ہے لیکن یہ بدکار اپنی بے ایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کار گر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا تم نے ہمارا کہا نہ مانا۔ اللہ کی نا فرمانی کی، ارتکاب حرمت کیا۔ عجب نہیں راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے۔ رات ہم تو یہیں گزاریں گے تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے۔ جب صبح ہو گئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کوڑ کھٹ کھٹائے، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھا یا اس نے دیکھا تو حیران ہو گیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے۔ اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی۔ یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہ دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے۔ تو اب یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والے نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا؟ اب ہم بھی بہت سی خلاف باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے، میں نے آپ سے یہ سن کر کہا اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ان کی مخالفت کرتے تھے جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے، آپ کی سمجھ میں آ گیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چار دریں انعام میں دی جائیں۔ الغرض اس بیچ کی جامعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا۔ ابن رومان فرماتے ہیں کہ ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں پانی ان سے بھر جاتا پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا، سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا، مچھلی کو اس میں ہفتے کے دن پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا اتوار کی رات کو جا کر نکال لیں بھونا لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا۔ ہر چند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا آخرش بات بنا دی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا میں نے اسے بھونا تھا، دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا لوگ آ گئے تو اس نے کہا میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نا فرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور اکثر لوگ یونہی کرنے لگے۔ یہ لوگ رات کو شہر پناہ کے پھاٹک بند کر کے سوتے تھے جس رات عذاب آیا حسب دستور یہ شہر پناہ کے پھاٹک لگا کر سوئے تھے۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے آوازیں دیں کوئی جواب نہ مال قلعہ پر چڑھ گئے دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے اس سے پہلے سورہ بقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پر بالتفصیل ان واقعات کو اچھی طرح بیان کر چکے ہیں وہیں دیکھ لیجئے۔ فالحمد اللہ، دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے، ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہو گیا کہ اس دن مچھلی کا شکار نہ کرو پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی اس کی ناک میں سوراخ کر کے دوڑ باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھا لی سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا نہ منع کیا نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا۔ ایک اور جامعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے وہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا۔ لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہو گئے۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے ایک تو شکار کھیلنے والا، ایک منع کرنے والا، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بیکار ہے۔ بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور دونوں جماعتیں ہلاک کر دی گئیں۔ سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن حضرت ابن عباس کا حضرت عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے اس لئے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی واللہ علم۔ پھر فرمان ہے کہ ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے بچ گئے۔ بئیس کی کئی ایک قراتیں ہیں اس کے معنی سخت کے، دردناک کے، تکلیف دہ کے ہیں اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے۔ ان کی سرکشی اور ان کے حد سے گزر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہہ دیا کہ تم ذلیل حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ چنانچہ و ایسے ہی ہو گئے۔

۱۶۷

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا انجام ذلت و رسوائی

اللہ تعالیٰ نے یہود کو اطلاع کر دی کہ ان کی اس سخت نا فرمانی و بار بار کی بغاوت اور ہر موقعہ پر نافرمانی، رب سے سرکشی اور اللہ کے حرام کو اپنے کام میں لانے کے لئے حیلہ جوئی کر کے اسے حلال کی جامہ پوشی کا بدلہ یہ ہے کہ قیامت تک تم دبے رہو ذلت میں رہو لوگ تمہیں پست کرتے چلے جائیں۔ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان پر تاوان مقرر کر دیا تھا سات سال یا تیرہ سال تک یہ اسے ادا کرتے رہے، سب سے پہلے خراج کا طریقہ آپ نے ہی ایجاد کیا پھر ان پر یونانیوں کی حکومت ہوئی پھر کسرانیوں کلدانیوں اور نصرانیوں کی۔ سب کے زمانے میں ذلیل اور حقیر رہے ان سے جز یہ لیا جاتا رہا اور انہیں پستی سے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا۔ پھر اسلام آیا اور اس نے بھی انہیں پست کیا جزیہ اور خراج برابر ان سے وصول ہوتا رہا۔ غرض یہ ذلیل رہے اس امت کے ہاتھوں بھی حقارت کے گڑھے میں گرے رہے۔ بالآخر یہ دجال کے ساتھ مل جائیں گے لیکن مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جا کر ان کی تخم ریزی کر دین گے، جو بھی شریعت الہ کی مخالفت کرتا ہے، اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے اللہ اسے جلدی ہی سزا دے دیتا ہے۔ ہاں جو اس کی طرف رغبت و رجوع کرے، توبہ کرے، جھکے تو وہ بھی اس کے ساتھ بخشش و رحمت سے پیش آتا ہے چونکہ ایمان نام ہے خوف اور امید کا اسی لئے یہاں اور اکثر جگہ عذاب و ثواب، پکڑ دھکڑ اور بخشش اور لالچ دونوں کا ایک ساتھ بیان ہوا ہے۔

۱۶۸

رشوت خوری کا انجام ذلت و رسوائی ہے

بنی اسرائیل مختلف فرقے اور گروہ کر کے زمین میں پھیلا دیئے گئے۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تم زمین میں رہو، سہو، جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تمہیں جمع کر کے لائیں گے ان میں کچھ تو نیک لوگ تھے کچھ بد تھے، جنات میں بھی یہی حال ہے جیسے سورہ جن میں ان کا قول ہے کہ ہم میں کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں ہمارے بھی مختلف رقے ہوتے آئے ہیں پھر فرمان ہے کہ میں نے انہیں سختی نرمی سے، لالچ اور خوف سے، عافیت اور بلا سے غرض ہر طرح پر کھ لیا تاکہ وہ اپنے کرتوت سے ہٹ جائیں جب یہ زمانہ بھی گزرا جس میں یک بد ہر طرح کے لوگ تھے ان کے بعد تو ایسے نا خلف اور نالائق آئے جن میں کوئی بھلائی اور خیریت تھی ہی نہیں۔ یہ اب تورات کی تلاوت والے رہ گئے ممکن ہے اس سے مراد صرف نصرانی ہوں اور ممکن ہے کہ یہ خبر عام نصرانی غیر نصرانی سب پر مشتمل ہو وہ حق بات کو بدلنے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے جیب بھر دو جو چاہو کہلوا لو۔ پس ہوس یہ ہے کہ ہے کیا؟ توبہ کر لیں گے معاف ہو جائے گا پھر موقع آیا پھر دنیا لے کر اللہ کی باتیں بدل دیں۔ گناہ کیا توبہ کی پھر موقعہ ملتے ہی لپک کر گناہ کر لیا۔ مقصود ان کا دنیا طلبی ہے حلال سے ملے چاہے حرام سے ملے پھر بھی مغفرت کی تمنا ہے۔ یہ ہیں جو وارث رسول کہلواتے ہیں اور جن سے اللہ نے عہد لیا ہے جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ان کے بعد ایسے نا خلف آئے جنہوں نے نماز تک ضائع کر دی۔ بنی اسرائیل کا آوے کا آوا بگڑ گیا آج ایک کو قاضی بناتے ہیں وہ رشوتیں کھانے اور احکام بدلنے لگتا ہے وہ اسے ہٹا کر دوسرے کو قائم کرتے ہیں اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے پوچھتے ہیں بھئی ایسا کیوں کرتے ہو؟ جواب ملتا ہے اللہ غفور و رحیم ہے پھر وہ ان لوگوں میں سے کسی کو اس عہدے پر لاتے ہیں جو اگلے قاضیوں حاکموں اور ججوں کا شاکی تھا لیکن وہ بھی رشوتیں لینے لگتا ہے اور ناحق فیصلے کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ حالانکہ تم سے مضبوط عہد و پیمان ہم نے لے لیا ہے کہ تم حق کو ظاہر کیا کرو اسے نہ چھپاؤ لیکن ذلیل دنیا کے لالچ میں آ کر عذاب رب مول لے رہے ہو اسی وعدے کا بیان آیت واذا کذ اللہ میثاق الذین اوتو االکتاب الخ، میں ہوا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہیں گے اور اس کی کوئی بات نہ چھپائیں گے۔ یہ بھی اس کے خلاف تھا کہ گناہ کرتے چلے جائیں توبہ نہ کریں اور بخشش کی امید رکھیں پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس کے اجرو ثواب کی لالچ دکھاتا ہے کہ اگر تقویٰ کیا حرام سے بچے خواہش نفسانی کے پیچھے نہ لگے رب کی اطاعت کی تو آخرت کا بھلا تمہیں لے گا جو اس فانی دنیا کے ٹھاٹھ سے بہت ہی بہتر ہے۔ کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ گراں بہا چیز کو چھور کر ردی چیز کے پیچھے پڑے ہو؟ پھر جناب باری عزوجل ان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو کتاب اللہ پر قائم ہیں اور اس کتاب کی راہنمائی کے مطابق اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرتے ہیں، کلام رب پر جم کر عمل کرتے ہیں، احکام الٰہی کو دل سے مانتے ہیں اور بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے رک گئے ہیں، نماز کو پابندی، دلچسپی، خشوع اور خضوع سے ادا کرتے ہیں حقیقتاً یہی لوگ اصلاح پر ہیں ناممکن ہے کہ ان نیک اور پاک باز لوگوں کا بدلہ اللہ ضائع کر دے۔

۱۷۱

 اسی طرح کی آیت ورفعنا فوقھم الطور الخ، ہے یعنی ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کیا۔ اسے فرشتے اٹھا لائے تھے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام انہیں ارض مقدس کی طرف لے چلے اور غصہ اتر جانے کے بعد تختیاں اٹھا لیں اور ان میں جو حکم احکام تھے، وہ انہیں سنائے تو انہیں وہ سخت معلوم ہوئے اور تسلیم و تعمیل سے صاف انکار کر دیا تو بحکم الیہ فرشتوں نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لا کھڑا کر دیا (نسائی) مروی ہے کہ جب کلیم اللہ علیہ صلوات نے فرمایا کہ لوگو اللہ کی کتاب کے احکام قبول کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں سناؤ اس میں کیا احکام ہیں ؟ اگر آسان ہوئے تو ہم منظور کر لیں گے ورنہ نہ مانیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بار بار کے اصرار پر بھی یہ لوگ یہی کہتے رہے آخر اسی وقت اللہ کے حکم سے پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر نے فرمایا بو لو اب مانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں فنا کر دے؟ اسی وقت یہ سب کے سب مارے ڈر کے سجدے میں گر پڑے لیکن بائیں آنکھ سجدے میں تھی اور دائیں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ گر نہ پڑے۔ چنانچہ یہودیوں میں اب تک سجدے کا طریقہ یہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کے سجدے نے ہم پر سے عذاب الٰہی دور کر دیا ہے۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تختیوں کو کھولا تو ان میں کتاب تھی جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اسی وقت تمام پہاڑ درخت پتھر سب کانپ اٹھے۔ آج بھی یہودی تلاوت تورات کے وقت کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے سر جھک جاتے ہیں۔

۱۷ ۲

ہر روح نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق مانا

اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ ٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب، خالق، مالک، معبود صرف وہی ہے۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پید کیا۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی نا ممکن ہے، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحدو مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں۔ قبیلہ بن سعد کے ایک صحابی حضرت اسود بن سریع فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چار غزوے کئے لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بجوں کو بھی پکڑ لیا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں ؟ کسی نے کہا حضور وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں ؟ فرمایا سنو تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں یاد رکھو ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں۔ اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے (ابن جریر) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو اس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے لیکن تو اے توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا۔ مسند میں ہے نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا کہ میں تم سب کا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں پھر آپ نے مبطلون تک تلاوت فرمائی۔ یہ روایت موقوف ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے۔ حضرت ضحاک بن مزاحم کے چھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا جابر نے حکم کی بجا آوری کی، پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بجے سے کیا سوال ہو گا اور کون سوال کرے گا؟ فرمایا اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے سوال کی جائے گا۔ میں نے پوچھا وہ میثاق کیا ہے؟ فرمایا میں نے حضرت ابن عباس سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں سب کی روحیں آ گئیں اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے خود ان کے رزق کا کفیل بنا پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی اسے پہلے کا وعدہ کچھ فائدہ نہ دے گا۔ بچپن میں ہی جو مر گیا وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسی نکلایں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا انہوں نے اقرار کیا فرشتوں نے شہادت دی اس لئے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم کو پیدا کیا اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا اس سے اولاد نکلی فرمایا میں ے انہیں جہنم کے لئے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو جتنی ہے اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائیں گے ہاں جو جہنم کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہو گا (ابوداؤد) اور حدیث میں ہے کہ اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ تیری اولاد ہے ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ان کا نام داؤد ہے پوچھا ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال کہا یا اللہ چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر پس جب حضرت آدم کی روح کو قبض کرنے کیلء فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں، فرشتے نے کہا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے حضرت داؤد کو ہبہ کر دیئے ہیں۔ بات یہ ہے چونکہ آدم نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے آدم خود بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے آدم نے خطا کی ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے، یہ حدیث ترمذی میں ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح لکھتے ہیں اور روایت میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے کوئی کوڑھی ہے کوئی اندھا ہے کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یا اللہ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ فرمایا یہ کہ میرا شکریہ کیا جائے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ ان میں یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں ؟ فرمایا یہ انبیاء ہیں۔ کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قضیہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں ماہ اعمال ملنے والا ہے انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا پھر فرمایا اے دائیں طرف والو انہوں نے کہا لبیک وسعد یک فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ہاں پھر سب کو ملا دیا کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا؟ فرمایا اس لئے کہ ان کے لئے اور اعمال ہیں جنہیں یہ کرنے والے ہیں یہ تو صرف اس لئے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے۔ پھر سب کو صلب آدم میں لوٹا دیا۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا، صورتیں دیں، بولنے کی طاقت دی، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ یا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا جس کا بیان آیت واذا خذنا من النبین میثاقھم الخ، میں ہے۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت فطرۃ اللہ میں ہے اسی لئے فرمان ہے ھذا نذیر من النزر الا ولی اسی کا بیان اس آیت میں ہے وما وجدنا لا کثرھم من عھد ( مسند احمد) حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت سعید بن جبیر، حضرت حسن، حضرت قتادہ، حضرت سدی اور بہت سے سلف سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہو جائے گا ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا جنتی دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کر لیا یہ جن دو احادیث میں ہے وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں اسی لئے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گزرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنے ہے جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ من بنی آدم فرمایا اور من ظھور ھم کہا ورنہ من آدم اور من ظھرہ ہوتا۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں۔ جیسے فرمان ہے ھوالذی جعلکم خلائف الارض اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے اور جگہ ہے وہی تمہیں زمین کے خلیفہ بنا رہا ہے اور آیت میں ہے جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا۔ شہادت قولی ہوتی ہے جیسے آیت شھدنا علی انفسانا میں اور شہادت کبھی حال سے ہوتی ہے جیسے آیت شاھدین علی انفسھم بالکفر میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے اس طرح کی آیت وانہ علی ذالک لشھیدہ ہے۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی حال سے۔ جیسے فرمان ہے واتا کم من کل ما سالتموہ اس نیت میں تمہارے کا منہ مانگا دیا۔ کہتی ہیں کہ اس بات پر یہ دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول سے خبر پا لینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو رسولوں کو ہی نہیں مانتے وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے۔

۱۷۵

بلعم بن باعورا

مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا۔ اس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسی مکر و فریب سے اپنا کر لیا۔ اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کچھ انعام اکرام دیا۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابوصلت ہے۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا، لیکن مشرکین کے میل جول، ان میں امتیاز، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اس اسلام اور قبول حق سے روک دیا۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثئے کہے، لعنۃ اللہ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں تھا کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر۔ اس نے منظور کر لیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو۔ اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بے حقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے۔ یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی۔ اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہو گئیں اور یہ خالی ہاتھ بے خیر رہ گیا۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ نبی تھا۔ یہ محض غلط ہے، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سرہو گئی۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا۔ بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا۔ سدی کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں۔ یہ آمادہ ہو گئے، بیعت کر لی۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاً ہلاک ہو جائے گا۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے۔ شیطان اس پر غالب آ گیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہو گیا۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قران پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہو گا اور دینی ترقی پر ہو گا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا، اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہو گا؟ یہ تہمت لگانے والا؟ وہ جسے تہمت لگا رہا ہے فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہو گیا۔ اسے سجدہ کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا۔ اس کی بھی سمجھ میں آ گیا اٹھ کر بد دعا شروع کی۔ اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگتا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی۔ قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں ؟ اس نے کہا کیا کروں ؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہو گی۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زنا کاری میں مبتلا ہو جائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت نا پسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے۔ ان بے غیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کر دی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بے قابو ہو گئے حرام کاری سے بچ نہ سکے۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرو دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہو گئے۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے؟ اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا اس کا نام یا تو بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھ اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے؟ اس نے دیکھا تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا اس کا نام یا تو بلعام تھا۔ یا بلعم بن با عورایا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن ماب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر۔ یہ بلقا کا رئیس تھا، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا۔ واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا، اسے اللہ نے زبان دی۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا۔ اب ان کے لئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی۔ قوم نے کہا کیا کر رہے ہو؟ کہا بے بس ہوں۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گزری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہو گیا۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہہ دیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے؟ آپ نے کہا بیشک۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا۔ حضرت فہاص بن غیر اربن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کو کھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نا فرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگا یا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے۔ دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آ جائیں۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ کالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ جھوڑ دو۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ انہیں وعظ و پند کہنا نہ کہنا سب برابر ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ان کے لئے تو استغفار کریا نہ کر اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبر دست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو طاہر کریں۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے۔ حضور فرماتے ہیں ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کر تے ہیں۔ طاعت مولیٰ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں۔

۱۷۸

بہترین دعا

رب جنہیں راہ دکھائے انہیں کوئی بے راہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ ہی غلط راہ پر ڈال دے اس کی شومی قسمت میں کیا شک ہے ؟ اللہ کا چاہا ہوتا ہے اس کا نہ چاہا کبھی نہیں ہو سکتا۔ ابن مسعود کی حدیث میں ہے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور اسی سے بخشش مانگتے ہیں۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ لیتے ہیں اور اپنے اعمال کی برائی سے بھی۔ اللہ کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا اور اس کے گمراہ کئے ہوئے کو کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود صرف اللہ ہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئ شریک نہیں اور میری گواہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (مسند احمد وغیرہ)

۱۷۹

اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے

بہت سے انسان اور جن جہنمی ہونے والے ہیں اور ان سے ویسے ہی اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ مخلوق میں سے کون کیسے عمل کرے گا؟ یہ علام الغیوب کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے۔ پس اپنے علم کے مطابق اپنی کتاب میں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے ہی لکھ لیا۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور ایک انصاری نا بالغ بچے کے جنازے پر بلوائے گئے تو میں نے کہا مبارک ہو اس کو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کی نہ برائی کا وقت پایا آپ نے فرمایا کچھ اور بھی؟ سن اللہ تعالیٰ نے جنت کو اور جنت والوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں جنتی مقرر کر دیا ہے حالانکہ ابھی تو وہ اپنے باپوں کی پیٹھوں میں ہی تھے اسی طرح اس نے جہنم بنائی ہے اور اس کے رہنے والے پیدا کئے ہیں انہیں اسی لئے مقرر کر دیا ہے درآں حالیکہ اب تک وہ اپنے باپوں کی پشت میں ہی ہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیثیں ہیں اور تقدیر کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں کہ یہاں پورا بیان ہو جاتے۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ ایسے خالی از خیر محروم قسمت لوگ کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھاتے تمام اعضاء ہوتے ہیں لیکن قوتیں سب سے چھن ہو جاتی ہیں اندھے بہرے گونگے بن کر زندگی گڑھے میں ہی گزار دیتے ہیں اگر ان میں خیر باقی ہوتی تو اللہ اپنی باتیں انہیں سناتا بھی۔ یہ تو خیر سے بالکل خالی ہو گئے سنتے ہیں اور ان سنی کر جاتے ہیں آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں۔ رحمان کے ذکر سے منہ موڑ نے کی سزا یہ ملی ہے کہ شیطان کے بھائی بن گئے ہیں، راہ حق سے دور جا پڑے ہیں مگر سمجھ یہی رہے ہیں کہ ہم سچے اور صحیح راستے پر ہیں۔ ان میں اور چوپائے جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ نہ یہ حق کو دیکھیں، نہ ہدایت کو دیکھیں، نہ اللہ کی باتوں کو سوچیں۔ چوپائے بھی تو اپنے حواس کو دنیا کے کام میں لاتے ہیں اسی طرح یہ بھی فکر عقبیٰ سے، ذکر رب سے، راہ مولا سے غافل، گو نگے اور اندھے ہیں۔ جیسے فرمان ہے ومثل الذین کفروا کمثل الذی ینعق بمالا یسمع الا دعاء ونداء الخ، یعنی ان کافروں کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو اس کے پیچھے چلا رہا ہے جو درحقیقت سنتی ونتی خاک بھی نہیں ہاں صرف شور و غل تو اس کے کان میں پڑتا ہے۔ چوپائے آواز تو سنتے ہیں لیکن کیا کہا؟ اسے سمجھے ان کی بلا۔ پھر ترقی کر کے فرماتا ہے کہ یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ اپنی پیدائش کی غایت کو آج تک معلوم ہی نہیں کیا، جبھی تو اللہ سے کفر کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو اللہ کا مطیع انسان ہو وہ اللہ کے اطاعت گزار فرشتے سے بہتر ہے اور کفار انسان سے چوپائے جانور بہتر ہیں ایسے لوگ پورے غافل ہیں۔

۱۸۰

اسماء الحسنیٰ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں انہیں جو محفوظ کر لے وہ جنتی ہے وہ وتر ہے طاق کو ہی پسند فرماتا ہے ( بخاری وغیرہ ) ترمذی میں ہے ننانوے نام اس طرح ہیں اللہ الذی لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر الاخالق الباری المصور الغفار القھار الوھاب الرزاق الفتاح العلیم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السمیع البصیر الحکم العدل اللطیف الخبیر الحلیم العظیم الغفور الشکور العلی الکبیر الحفیظ المقیت الہسیب الجلیل الکریم الرقیب المجیب الواسع الحکیم الودود المجید الباعث الشھید الحق الوکیل القوی المتین الولی الحمید المحصی المبدی المعید المحی الممیت الحی القیوم الواجد الواحد الا حد الفرد الصمد القادر المقتدر المقدم الموخر الا ول الاخر الظاہر الباطن الوالی المتعالیٰ البر التواب المنتقم العفو الروف مالک الملک ذوالجلال والا کرام المقسط الجامع الغنی المغنی المانع الضار النافع النور الھا دی البدیع الباقی الوارث الرشید الصبور۔

یہ حدیث غریب ہے کچھ کمی زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں اور نہ ہوں یہ بات نہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے اللھم انی عبدک ابن عبدک ابن امتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قصاوک اسالک بکل اسم ھولک سمیت بہ نفسک وانزلتہ فی کتابک اوعلمۃ احد امن خقک اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القران العظیم ربیع قلبی ونور صدری و جلاء حزنی و ذھاب ہمی۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے عم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و کوشی عطا فرمائے گا۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک جو اسے سنے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے۔ امام ابو حاتم بن حبان بستی بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں۔ امام ابوبکر بن عربی بھی اپنی کتاب الاہوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کتاب و سنت سے جمعئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے، واللہ اعلم۔ اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عزی نام رکھا۔ یہ بھی معنی ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں انہیں چھوڑو۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ان سے منہ موڑ لو۔ الحاد کے لفظی معنی ہیں درمیانہ سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا۔ اسی لئے بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے۔

۱۸۱

امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف

یعنی بعض لوگ حق و عدل پر قائم ہیں۔ حق بات ہی زبان سے نکالتے ہیں، حق کام ہی کرتے ہیں، حق کی طرف ہی اوروں کو بلاتے ہیں، حق کے ساتھ ہی انصاف کرتے ہیں اور بعض آثار میں مروی ہے کہ اس سے مراد امت محمد یہ ہے چنانچہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فرماتے کہ یہ تمہارے لئے ہے تم سے پہلے یہ وصف قوم موسیٰ کا تھا۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ حضور کا ارشاد ہے میری امت میں سے ایک جماعت حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم اتریں وہ خواہ کبھی بھی اتریں۔ بخاری و مسلم میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ظاہر رہے گا انہیں ان کی دشمنی کرنے والے کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے وہ اسی پر رہیں گے۔ ایک روایت میں ہے (اس وقت ) وہ شام میں ہوں گے۔

۱۸ ۲

سامان تعیش کی کثرت عتاب الٰہی بھی ہے

یعنی ایسے لوگوں کو روزی میں کشادی دی جائے گی، معاش کی آسانیاں ملیں گی، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے۔ جب پورے مست ہو جائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گزری کر دیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہو جائیں تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے۔ اس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منہ تکتے رہ جائیں گے اور ان ظالموں کی رگ کٹ جائے گی۔ حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انہیں میں تو ڈھیل دونگا اور یہ میرے اس داؤ سے بے خبر ہوں گے۔ میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔

۱۸۴

صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی

کیا ان کافروں نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں جنوں کی کوئی بات بھی ہے؟ جیسے فرمان ہے قل انما اعظکم بواحدۃ الخ، آؤ میری ایک بات تو مان لو ذرا سی دیر خلوص کے ساتھ اللہ کو حاضر جان کر اکیلے و کیلے غور تو کرو کہ مجھ میں کونسا دیوانہ پن ہے ؟ میں تو تمہیں آنے والے سخت خطرے کی اطلاع دے رہا ہوں کہ اس سے ہوشیار رہو۔ جب تم یہ کرو گے تو خود اس نتیجے پر پہنچ جاؤ گے کہ میں مجنون نہیں بلکہ اللہ کا پیغام دے کر تم میں بھیجا گیا ہوں۔ حضور نے ایک مرتبہ صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریشیوں کے ایک ایک قبیلے کا الگ الگ نام لے کر انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسی طرح صبح کر دی تو بعض کہنے لگے دیوانہ ہو گیا ہے اس پر یہ آیت اتری۔

۱۸۵

شیطانی چکر

اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور و فکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ با ایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بے نظیر و بے شبہ واحد و فرد مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے؟ پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟ انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں ؟ جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ راست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے؟ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کڑک اور کھڑکھڑاہٹ ہو رہی ہے، میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ بھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے میں نے حضرت جبرئیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتلایا یہ سود خور ہیں جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آ کر میں نے دیکھا کہ نیچے کی جانب دھواں، غبار اور شور غل ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ جبرئیل نے کہا یہ شیاطین ہیں جو اپنی خر مستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غور و فکر نہ کر سکیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے۔ اس کے ایک راوی علی بن زید بن جادعان کی بہت سی روایات منکر ہیں۔

۱۸۶

میری نشانیاں اور تعلیم گمراہوں کے لئے بے سود ہیں

جس پر گمراہی لکھ دی گئی ہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ وہ جاہے ساری نشانیاں دیکھ لے لیکن سب بے سود۔ اللہ کا ارادہ جس کے لئے فتنے کا ہو تو اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ میرا حکم تو یہی ہے کہ آسمان و زمین کی میری بے شمار نشانیوں پر غور کرو لیکن یہ ظاہر ہے کہ آیتیں اور ڈراوے بے ایمانوں کے لئے سود مند نہیں۔

۱۸۷

قیامت کب اور کس وقت؟

یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لئے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے اس لئے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو۔ ادھر بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں۔ ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے دو روز کی گمراہی میں تو وہی ہیں۔ پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہو گی؟ جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے بجز اس کے کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے، ان کے رہین والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے۔ وہ جب آئے گی سب پر ایک ہی دقت واقع ہو گی، سب کو ضرر پہنچے گا۔ آسمان پھٹ جائے گا ستارے جھڑ جائیں گے سورج بے نور ہو جائیں گے پہاڑ اڑنے لگیں گے اسی لئے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے۔ زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بے خبر ہیں۔ وہ تو اچانک سب کی بے خبری میں ہی آئے گی۔ کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں۔ وہ تو سب کی بے خبری میں ہی آ جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دنیا کے کل کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پلانے کے حوض درست کر رہے ہوں گے، تجارت والے تول تال میں مشغول ہوں گے جو قیامت آ جائے گی۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کر لیں گے لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لئے بے سود ہو گا۔ جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں۔ قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہو گا اور دوسرا دیکھ رہا ہو گا بھاؤ تاؤ ہو رہا ہو گا کہ قیامت ہو جائے گی نہ یہ خرید و فروخت کر سکین گے نہ کپڑے کی تہ کر سکیں گے کوئی دودھ دوہ کر لے آ رہا ہو گا پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی کوئی حوض درست کر رہا ہو گا ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہو گا ابھی منہ میں نہ ڈالا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آدمی دودھ کا کٹورا اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہو گا ابھی منہ سے نہ لگ پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی کپڑے کے خریدار بھی سود نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی حوض والے بھی لیپا پوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سجا رفیق ہے یہ تیرے پکے دوست ہیں۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں۔ قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور ہم تو آپ کے قرابتدار ہیں ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے جیسے فرمان ہے ان اللہ عندہ علم الساعۃ قیامت کا علم صرف اللہ کو ہی ہے یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں واللہ اعلم۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی وضع میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے نہ تجھے۔ اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے اس سوال کے جواب میں اپنی لا علمی ظاہر کر کے پور سورہ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یعنی علم قیامت، بارش کا آنا، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال، کل کے حالات، موت کی جگہ۔ ہاں جب آپ نے اس کی علامتیں پوچھیں تو حضور نے بتا دیں۔ پھر اسی آیت کو تلاوت فرمایا جبرئیل آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ نے تعجب سے پوچھا کہ حضور یہ کون صاحب تھے؟ آپ نے فرمایا جبرئیل تھے تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔ جب کبھی وہ میرے پاس جس ہیئت میں آئے میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اب کی مرتبہ تو میں کود اب تک نہ پہچان سکا تھا۔ الحمد اللہ میں نے اس کے تمام طریقے کل سندوں کے ساتھ پوری بحث کر کے بخاری شریف کی شرح کے اول میں ہی ذکر کر دیئے ہیں۔ ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ اس نے کہا قیامت کب ہو گی؟ آپ نے فرمایا وہ آنے والی تو قطعاً ہے، تو بتا تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ روزے نماز تو میرے پاس زیادہ نہیں البتہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے اپنے دل کو پر پاتا ہوں آپ نے فرمایا انسان اسی کے ہمراہ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہو، مومن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی۔ آپ کی عادت مبارک ہی تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو۔ اسی لئے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا؟ ہو سکے تو تیاری کر لو۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اعراب لوگ حضور سے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے۔ اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے بعض روایتوں میں ان کے اس قسم کے سوال پر آنحضرت کا علی الا طلاق یہی فرمانا بھی مروی ہے کہ اس نوعمر کے بڑھاپے تک قیامت آ جائے گی یہ اطلاق بھی اسی تقلید پر محمول ہو گا یعنی مراد اس سے ان لوگوں کی موت کا وقت ہے، وفات سے ایک ماہ قبل آپ نے فرمایا تم مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہو اس کے صحیح وقت کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، میں قسمیہ بیان کرتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر جتنے متنفس ہیں ان میں سے ایک بھی سو سال تک باقی نہ رہے گاـ(مسلم) مطلب اس سے یہ ہے کہ سو سال تک اس زمانے کے موجود لوگوں سے یہ دنیا خالی ہو جائے گی۔ آپ فرماتے ہیں معراج والی شب میری ملاقات حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی وہاں قیامت کے وقت کا ذکر چلا تو حضرت ابراہیم کی طرف سب نے بات کو جھکا دیا۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں سب حضرت موسیٰ کی طرف متوجہ ہوئے یہی جواب وہاں سے ملا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی وہاں قیامت کے وقت کا ذکر چلا تو حضرت ابراہیم کی طرف سب نے بات کو جھکا دیا۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں سب حضرت موسیٰ کی طرف متوجہ ہوئے یہی جواب وہاں سے ملا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا اس کے واقع ہونے کا وقت تو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ ہاں مجھ سے میرے رب نے فرما رکھا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے میرے ساتھ دو شاخیں ہوں گی وہ مجھے دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا آخر اللہ اسے میرے ہاتھوں ہلاک کرے گا یہاں تک کہ درخت اور پتھر بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان یہاں میرے نیچے ایک کافر چھپا ہوا ہے اور اسے قتل کر ڈالا جب اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کر دے گا تب لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کو لوٹیں گے۔ اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو کودتے پھلانگتے چاروں طرف پھیل جائیں گے جہاں سے گزریں گے تباہی پھیلا دیں گے جس پانی سے گزریں گے سب پی جائیں گے۔ آخر لوگ تنگ آ کر مجھ سے شکایت کریں گے میں اللہ سے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ سب کو ہلاک کر دے گا ان کی لاشوں کا سڑاند پھیلے گی جس سے لوگ تنگ آ جائیں گے اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا جو ان کی لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال آئے گی پھر تو پہاڑ اڑنے لگیں گے اور زمین سکڑنے لگے گی۔ جب یہ سب کچھ ظاہر ہو گا اس وقت قیامت ایسی قریب ہو گی جیسی پورے دن والی حاملہ عورت کے بچہ ہونے کا زمانہ قریب ہوتا ہے کہ گھر کے لوگ ہوشیار رہتے ہیں کہ نہ جانیں دن کو ہو جائے یا رات کو۔ ـ(ابن ماجہ مسند وغیرہ) اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا علم کسی رسول کو بھی نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس کی علامات بیان فرماتے ہیں نہ کہ مقررہ وقت۔ اس لۓ کہ آپ احکام رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے جاری کرنے اور دجال کو قتل کرنے اور اپنی دعا کی برکت سے یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کے لئے اس امت کے آخر زمانے میں نازل ہوں گے جس کا علم اللہ نے آپ کو دے دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے قیامت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا اس کا علم اللہ کے پاس ہی ہے سوائے اس کے اسے اور کوئی نہیں جانتا ہاں میں تمہیں اس کی شرطیں بتلاتا ہوں اس سے پہلے بڑے بڑے فتنے اور لڑائیاں ہوں گی لوگوں کے خو ایسے سفید ہو جائیں گے کہ گویا کوئی کسی کو جانتا پہچانتا ہی نہیں (مسند) آپ اس آیت کے اترنے سے پہلے بھی اکثر قیامت کا ذکر فرماتے رہا کرتے تھے پس غور کر لو کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم جو سید الرسل ہیں خاتم الانبیاء ہیں نبی الرحمہ ہیں نبی اللہ ہیں الملحمہ ہیں عاقب ہیں مقفی ہیں ہاشر ہیں جن کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا جن کا فرمان ہے کہ میں اور قیامت اس طرح آئے ہیں اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر بتائیں یعنی شہادت کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی لیکن باوجود اس کے قیامت کا علم آپ کو نہ تھا۔ آپ سے جب سوال ہوا تو یہی حکم لا جواب دو کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔

۱۸۸

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو علم غیب نہیں تھا

اللہ تعالیٰ ٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد الہ کریں اور صاف کہہ دیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے۔ جیسے سورہ جن میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا۔ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور کے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنا لیتے۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ہے کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا۔ ارزانی کے وقت گرانی کے علم سے سودا جمع کر لیتا۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو۔ سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں جیسے فرمان ہے فانما یسر نا بلسانک ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے۔

۱۸۹

ایک ہی باپ ایک ہی ماں اور تمام نسل آدم

تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم علیہ السلام سے ہی پیدا کیا۔ انہی سے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی۔ جیسے فرمان ہے یا ایھا الناس انا خلقنا کم من ذکر وانثی الخ، لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے رہو۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیز گاری میں سب سے آگے ہے۔ سورۃ نساء کے شروع میں ہے اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں چنانچہ ایک اور آیت میں ہے لتسکنو االیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ لوگو یہ بھی اللہ کی ایک مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنا دیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو اور اس نے تم میں تاہم محبت و الفت پیدا کر دی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کر دیتا ہے۔ اسی لئے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں۔ عورت مرد کے ملنے سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے جب تک وہ نطفے، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے وہ برابر اپنے کام کاج میں آمدورفت میں لگی رہتی ہے کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اسے تو یونہی سا کچھ وہم کبھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو۔ کچھ وقت یونہی گزر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے حمل ظاہر ہو جاتا ہے بچہ پیت میں بڑا ہو جاتا ہے طبیعت تھکنے لگتی ہے اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گزاری کریں گے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہو جائے۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔ مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے وہ بھی بیان کروں گا پھر جو بات صحیح ہے اسے بتاؤں گا ان شاء اللہ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت حوا کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے شیطان نے سیکھا یا کہ اب اس کا نام عبد الحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا۔ امام ترمذی نے بھی نے بھی اسے وارد کیا ہے پھر فرمایا ہے حسن غریب ہے، میں کہتا ہوں اس حدیث میں تین علتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے گو امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ابن مردویہ نے اسے معمر سے اس نے اپنے باپ سے اس نے سمرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے واللہ اعلم دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً حضت سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ابن جرید میں خود حضرت عمرہ بن جندب کا اپنا فرمان ہے کہ حضرت آدم نے اپنے لڑکے کا نام عبدالہارث رکھا۔ تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حضرت حسن سے بھی اس کے علاوہ بھی مروی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں۔ یہ سب اسنادیں حضرت حسن تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کو جو کچھ تفسیر کی گئی ہے اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے۔ خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر روایت کرے پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے یہ بالکل ان ہونی بات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ حضرت سمرہ کا اپنا قول ہے۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ حضرت سمرہ نے اسے ہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو جیسے کعب وہب وغیرہ جو مسلمان ہو گئے تھے ان شاء اللہ اس کا بیان بھی عنقریب ہو گا بہر صورت اس روایت کا مرفوع ہونا ہم تسلیم نہیں کرتے واللہ اعلم۔ اب اور آثار جو اس بارے میں ہیں انہیں سنئے۔ ابن عباس کہتے ہیں حضرت حوا کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا نام عبد اللہ عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں وہ بچے فوت ہو جاتے تھے پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے چنانچہ ان دونوں نے یہی کیا جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام عبدالحارث رکھا اس کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ ان کے دو بجے اس سے پہلے مر چکے تھے اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے؟ ممکن ہے کوئی جانور ہی ہو ممکن ہے صحیح سالم نہ پیدا ہو ممکن ہے اگلوں کی طرح یہ بھی مر جائے تم میری مان لو اور اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام میرے نام پر رکھو تو اسنان ہو گا صحیح سالم ہو گا زندہ رہے گا یہ بھی اس کے بہکاوے میں آ گئے اور عبدالحارث نام رکھا۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلوایا اب یا تم میری اطاعت کرو۔ ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ہر چند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا دوبارہ حمل ٹھہرا پھر یہ ملعون پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی چنانچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے۔ ابن عباس سے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے جیسے حضرت مجاہد حضرت سعید بن جبیر حضرت عکرمہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ سدی وغیرہ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اسے ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے۔ جن کی بابت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوتی۔ ان کی روایتیں تین طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے۔ ایک وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو۔ ایک وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں لیکن تصدیق تکذیب جائز نہیں۔ میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے انہوں نے اسے تیسری قسم کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت آدم و حوا کا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند و بالا ہے ان آیتوں میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدم و حوا کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا اور ان ہی کا شرک بیان ہوا۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر جیسے آیت ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیع میں ہے یعنی ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں وہ جھڑتے نہیں ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں، واللہ اعلم۔

۱۹۱

انسان کا المیہ خود ساز خدا اور اللہ سے دوری ہے

جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو بوجتے ہیں وہ سب اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں وہی ان کا پالنے والا ہے وہ بالکل بے اختیار ہیں کسی نفع نقصان کا انہیں اختیار نہیں وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ تو ہل جل بھی نہیں سکتے دیکھ اور سن بھی نہیں سکتے۔ ان بتوں سے تو ان کے پجاری ہی تو نا تندرست اور اچھے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی ہیں کان بھی ہیں یہ بیوقوف تو انہیں پوجتے ہیں جنہوں نے ساری مخلوق میں سے ایک چیز کو بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ جیسے اور جگہ ہے کہ لوگو آؤ ایک لطیف مثال سنو تم جنہیں پکار رہے ہو یہ سارے ہی جمے ہو کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو ان کی طاقت سے خارج ہے۔ بلکہ ان کی کمزوری تو یہاں تک ہے کہ کوئی مکھی ان کی کسی چیز کو چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس بھی نہیں کر سکتے طلب کرنے والے اور جن سے طلب کی جا رہی ہے بہت ہی بودے میں تعجب ہے کہ اتنے کمزوروں کی عبادت کی جاتی ہے جو اپنا حق بھی ایک مکھی سے نہیں لے سکتے وہ تمہاری روزیوں اور مدد پر کیسے قادر ہوں گے؟ حضرت خلیل الرحمن علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم خود ہی گھڑتے اور بناتے ہو؟ وہ نہ تو اپنے پجاریوں کی مدد کر سکتے ہیں نہ کود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے انہیں توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا لیکن ان سے یہ نہ ہو سکا کہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیتے۔ ہاتھ میں تبر لے کر سب کو چورا کر دیا اور ان معبود ان باطل سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی طرح اپنا بچاؤ کر لیتے، خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں بھی حضرت معاذ بن عمرو بن جموح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہی کام کرتے تھے کہ رات کے وقت چپکے سے جا کر مشرکین کے بت توڑ آتے اور جو لکڑی کے ہوتے انہیں توڑ کر بیوہ عورتوں کو دے دیتے کہ وہ اپنا ایندھن بنا لیں اور قوم کے بت پرست عبرت حاصل کریں۔ خود حضرت معاذ کا باپ عمرو بن جموح بھی بت پرست تھا یہ دونوں نوجوان دوست وہاں بھی پہنچتے اور اس بت کو پلیدی سے آلودہ کر آتے۔ جب یہ آتا تو اپنے خدا کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھاتا، پھر دھوتا، پھر اس پر خوشبو ملتا۔ ایک مرتبہ اس نے اس کے پاس تلوار رکھ دی اور کہا دیکھ آج تیرا دشمن آئے تو اس تلوار سے اس کا کام تمام کر دینا۔ یہ اس رات بھی پہنچے اور اس کی درگت کر کے پاخانے سے لیپ کر کے چلے آئے مگر تاہم اسے اثر نہ ہوا صبح کو اسی طرح اس نے دھو دھا کر ٹھیک ٹھاک کر کے خوشبو لگا کر بیٹھا کر ڈنڈوت کی یعنی (اٹھک بیٹھک) کی۔ جب ان دونوں نے دیکھا کہ کسی طرح یہ نہیں مانتا تو ایک رات اس بت کو اٹھا لائے اور ایک کتے کا پلا جو مرا پڑا تھا اس کے گلے میں باندھ دیا اور محلے کے ایک کنویں میں ڈال دیا صبح اس نے اپنے بت کو نہ پا کر تلاش کی تو کنویں میں اسے نظر آیا کہ کتے کے مردہ بچے کے ساتھ پڑا ہوا ہے اب اسے بت سے اور بت پرستی سے نفرت ہو گئی اور اس نے کہا

تاللہ لو کنت الھا مستدن لم تک والکلب جمیعافی قرن

یعنی اگر تو سچ مچ اللہ ہوتا تو کنوئیں میں کتے کے پلے کے ساتھ پڑا ہوا نہ ہوتا پھر حاضر حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے پھر تو اسلام میں پورے پکے ہو گئے۔ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور کفار کو قتل کر تے ہوئے شہدی ہو گئے رضی اللہ عنہ وارضا ہ وجعل جنت الفردوس ماوا۔ انہیں اگر بلا یا جائے تو یہ قبول کرنا تو درکنار سن بھی نہیں سکتے محض پتھر ہیں، بے جان ہیں، بے آنکھ اور بے کان ہیں جیسے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے والد! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکیں نہ تیرے کسی کام آ سکین۔ انہیں پکار نا نہ پکارنا دونوں برابر ہیں۔ یہ تو تم جیسے ہی بے بس اور اللہ کی مخلوق ہیں بتاؤ تو کبھی انہوں نے تمہاری فریاد رسی کی ہے؟ یا کبھی تمہاری دعا کا جواب دیا ہے؟ حقیقت میں ان سے افضل و اعلیٰ تو تم خود ہو۔ تم سنتے دیکھتے چلتے پھرتے بولتے چالتے ہو یہ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ اچھا تم ان سے میرا کچھ بگاڑ نے کی درخواست کرو میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ان سے ہو سکے تو بلا تامل اپنی پوری طاقت سے جو میرا بگاڑ سکتے ہوں بگاڑ لیں۔ سنو میں تو اللہ کو اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتا ہوں وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اسی سے میرا لگاؤ ہے۔ میں ہی نہیں ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے اور وہ بھی اپنے تمام سچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگراں اور محافظ وہی ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام سے آپ کی قوم نے کہا کہ ہمارا تو خیال ہے کہ تو جو ہمارے معبودوں پر ایمان نہیں رکھتا اسی سبب سے انہوں نے تجھے ان مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا سنو تم کو اور اللہ کو گواہ کر کے میں کہتا ہوں اور علیٰ الاعلان کہتا ہوں کہ میں تمہارے اللہ کے سوا اور تمام معبودوں سے بری اور بیزار اور ان سب کا دشمن ہوں۔ تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو تمہیں بھی قسم ہے جو ذرا سی کوتاہی کرو۔ میرا توکل اللہ کی ذات پر ہے تمام جانداروں کی چوٹیاں اسی کے ہاتھ ہیں میرا رب ہی سچی راہ پر ہے حضرت خلیل الرحمن علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ تم اور تمہارے بزرگ جن کی پرستش کرتے ہیں میں ان سب کا دشمن ہوں اور وہ مجھ سے دور ہیں سوائے اس رب العالمیں کے جس نے مجھے پیدا کیا اور میری رہبری کی۔ آپ نے اپنے والد اور قوم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے معبود ان باطل سے بری اور بیزار ہوں سوائے اس سچے معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی میری رہبری کرے گا ہم نے اسی کلمے کو اس کی نسل میں ہمیشہ کے لئے باقی رکھ دیا تاکہ لوگ اپنے باطل خیالات سے ہٹ جائیں۔ پہلے تو غائبانہ فرمایا تھا پھر اور تاکید کے طور پر خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں۔ یہ تو سن ہی نہیں سکتے تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر تم انہیں پکارو تو وہ سنتے نہیں چونکہ وہ تصاویر اور بت ہیں ان کی مصنوعی آنکھیں ہیں محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن دراصل دیکھ نہیں رہے چونکہ وہ پتھر بصورت انسان ہیں اس لئے ضمیر بھی ذوی العقول کی لائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کفار ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے یہی امام ابن جریر کا اختیار کردہ اور قتادہ کا قول بھی یہی ہے۔

۱۹۹

اچھے اعمال کی نشاندہی

ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگزر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول، تجسس نہ کرو۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرئیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگزر کر۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔ عرف سے مراد نیک ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حربن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بڑھے۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفو و درگزر کی عادت رکھ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منے ہیں۔ انہوں نے کہ اہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کر لی۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کر لیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کچھ نہ کہنا۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے۔

 خذا لعفو وامربعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین

 ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین

یعنی درگزر کیا کر، بھلی بات بتا دیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے، نا دانوں سے ہٹ جا یا کر، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کر لے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے ادفع بالتی ھی احسن الخ، بہترین طریق سے دفع کر دو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہو سکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں۔ اس کے بعد شیطانی و سوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگزر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں۔ یہ تینوں حکم جو سورہ اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورہ مومنون میں بھی ہیں اور سورہ حم السجدہ میں بھی۔ شیطان تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے۔ وہ کلمہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ہے کیس نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں ؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے۔

 بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ

 لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ

یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جاہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں۔

 ۲۰۱

جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ شیطان اس سے ڈرتا ہے

طائف کی دوسری قرات طیف ہے۔ یہ دونوں مشہور قراتیں ہیں دونوں کے معنی ایک ہیں بعض نے لفظی تعریف بھی کی ہے۔ فرمان ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جنہیں اللہ کا ڈر ہے جو نیکیوں کے عامل اور برائیوں سے رکنے والے ہیں انہیں جب کبھی غصہ آ جائے، شیطان ان پر اپنا کوئی داؤ چلانا چاہے، ان کے دل میں کسی گناہ کی رغبت ڈالے، ان سے کوئی گناہ کرانا چاہے تو یہ اللہ کے عذاب سے بچنے میں جو ثواب ہے اسے بھی یاد کر لیتے ہیں رب کے وعدے و عید کی یاد کرتے ہیں اور فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں، توبہ کر لیتے ہیں، اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطانی شر سے پناہ مانگنے لگتے ہیں اور اسی وقت اللہ کی جناب میں رجوع کر تے ہیں اور استقامت کے ساتھ صحت پر جم جاتے ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ ایک عورت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی جسے مرگی کا دورہ پڑا کرتا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میرے لئے آپ دعا کیجئے آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اللہ تمہیں شفا بخشے اور اگر چاہو تو صبر کرو واللہ تم سے حساب نہ لے گا۔ اس نے کہا حضور میں صبر کرتی ہوں کہ میرا حساب معاف ہو جائے۔ سنن میں بھی یہ حدیث ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ میں گر پڑتی ہوں اور بیہوشی کی حالت میں میرا کپڑا کھل جاتا ہے جس سے بے پردگی ہوتی ہے اللہ سے میری شفا کی دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا تم ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لو یا تو میں دعا کروں اور تمہیں شفا ہو جائے یا تم صبر کرو اور تمہیں جنت ملے اس نے کہا میں صبر کرتی ہوں کہ مجھے جنت ملے۔ لیکن اتنی دعا تو ضرور کیجئے کہ میں بے پردہ نہ ہو جایا کروں۔ آپ نے دعا کی چنانچہ ان کا کپڑا کیسی ہی وہ تلملاتیں اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا تھا۔ حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ اپنی تاریخ میں عمرو بن جامع کے حالات میں نقل کرتے ہیں کہ ایک نوجوان عابد مسجد میں رہا کرتا تھا اور اللہ کی عبادت کا بہت مشتاق تھا ایک عورت نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کئے یہاں تک کہ اسے بہکا لیا قریب تھا کہ وہ اس کے ساتھ کو ٹھڑی میں چلا جائے جو اسے یہ آیت اذامسھم الخ، یاد آئی اور غش کھا کر گڑ پڑا بہت دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا اس نے پھر اس آیت کو یاد کیا اور اس قدر اللہ کا خوف اس کے دل میں سمایا کہ اس کی جان نکل گئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے والد سے ہمدردی اور غم خواری کی۔ چونکہ انہیں رات ہی کو دفن کر دیا گیا تھا آپ ان کی قبر پر گئے آپ کے ساتھ بہت سے آدمی تھے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے آواز دے کر فرمایا اے نوجوان ! ولمن خاف مقام ربہ جنتان جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے اس کے لئے دو دو جنتیں ہیں۔ اسی وقت قبر کے اندر سے آواز آئی کہ مجھے میرے رب عزوجل نے وہ دونوں دو دو مرتبے عطا فرما دیئے۔ یہ تو تھا حال اللہ والوں اور پرہیز گاروں کا کہ وہ شیطانی جھٹکوں سے بچ جاتے ہیں اس کے فن فریب سے چھوٹ جاتے ہیں اب ان کا حال بیان ہو رہا ہے جو خود شیطان کے بھائی بنے ہوئے ہیں۔ جیسے فضول خرچ لوگوں کو قرآن نے شیطان کے بھائی قرار دیا ہے ایسے لوگ اس کی باتیں سنتے ہیں، مانتے ہیں اور ان پر ہی عمل کرتے ہیں۔ شیاطین ان کے سامنے برائیاں اچھے رنگ میں پیش کرتے ہیں، ان پر وہ آسان ہو جاتی ہیں اور یہ پوری مشغولیت کے ساتھ ان میں پھنس جاتے ہیں۔ دن بدن اپنی بدکاری میں بڑھتے جاتے ہیں، جہالت اور نادانی کی حد کر دیتے ہیں۔ نہ شیطان ان کے بہکانے میں کوتاہی برتتے ہیں نہ یہ برائیاں کرنے میں کمی کرتے۔ یہ ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور وہ ان وسوسوں میں پھنستے رہتے ہیں یہ انہیں بھڑکاتے رہتے ہیں اور گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں وہ برے عمل کئے جاتے ہیں اور برائیوں پر مداومت اور لذت کے ساتھ جمے رہتے ہیں۔

 ۲۰۳

سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے

یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے  کہ نبی ہوتا تو ایسا کر لیتا، بنا لیتا، اللہ سے مانگ لیتا، اپنے آپ گھڑ لیتا، آسمان سے گھسیٹ لاتا۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی۔ جیسے فرمان قرآن ہے ان نشاء ننزل علیھم من السماء ایۃ الخ، اگر ہم چاہتے تو کوئی نشان ان پر آسمان سے اتارتے جس سے ان کی گردنیں جھک جاتیں۔ وہ لوگ حضور سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے۔ تو حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الٰہی کا تابع ہوں۔ میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کر سکتا، آگے نہیں بڑھ سکتا، جو حکم دے صرف اسے بجا لاتا ہوں۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے دکھا دوں۔ جو وہ طاہر نہ فرمائے میں اسے لا نہیں سکتا میرے بس میں کچھ نہیں میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا مجھے میں اتنی جرات نہیں ہاں اگر اس کی اجازت پا لیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے۔ میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے جو حکمت ہدایت اور رحمت سے پر ہے اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے سچے عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی۔

 ۲۰۴

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے لا تسموعو الھذا القران والغوا فیہ الخ، اس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو۔ اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرات پڑھتا ہو۔ جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے کہ امام اقتدا کے کئے جانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو۔ اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے۔ امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ( یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرات کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرات کے لئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں من صلی خلف الا مام فلیقر ابفا تہۃ الکتاب یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھ لے۔ پس سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرات کے وقت خاموشی کا حکم ہے، واللہ اعلم۔ مترجم) اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپ سے میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری۔ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ (واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرات کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرات والی نماز میں، نہ بلند آواز کی قرات والی نماز میں الحمد سے خاموشی۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے انہ قرافی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الا ولیین بام القران و سورۃ یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرات کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرات کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم۔ مترجم حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری۔ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابوہیریہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے با آواز بلند قرات پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا؟ ایک شخص نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ آپ نے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟ راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرات پڑھا کرتے تھے قرات سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابور حاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں (مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرات پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد وغیرہ میں ہے جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا لا تفعلو الا بفا تہتہ الکتاب فانہ لا صلوۃ لمن لم یقراء بھا یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورہ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرات کی نماز میں جس قرات سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ بلکہ ساتھ ہی فرما دیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں واللہ اعلم۔ مترجم) زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرات پڑھے تو انہیں امام کی قرات کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرات کرے تو مقتدی پر نہ سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب، ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گزر چکا۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورہ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے۔ صحابہ تابعین اور ان کے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں مقتدی پر مطلقاً قرات واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرات پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرات پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرات مقتدیوں کی بھی قرات ہے۔ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ یہی حدیث موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے یعنی یہ قول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ہونا زیادہ صحیح ہے نہ کہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا (لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ کنا نقرافی الظھر و العصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفا تحۃ الکتاب و سورۃ وفی الا خریین یفاتہتہ الکتاب یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کر تے تھے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرات اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرات ہے۔ واللہ اعلم، مترجم) یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبد اللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرات اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے واللہ اعلم۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے۔ طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطا بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ وعظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟ انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہو گئے۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہو گئے۔ میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نماز میں ہے۔ حضرت مجادہ سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے۔ حضرت عطاء سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ حسن فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت، سعید بن جبیر فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرات پڑھے۔ ابن جریر کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو۔ مجاہد نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا (حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے سوال کرتے۔ مترجم) حضرت حسن فرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر۔ مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا۔

 ۲۰۵

اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے

اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کی بکثرت یاد کر۔ یہاں بھی یہ فرمایا اور جگہ بھی ہے فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب یعنی اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے۔ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے غدو کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو اصال جمع ہے اصیل کی۔ جیسے کہ ایمان جمع ہے یمن کی۔ حکم دیا کہ رغبت، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے۔ صحابہ نے جب حضور سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علانے یہ آیت اتاری واذا سأالک عبادی عنی الخ، جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے قبول فرما لیا کرتا ہوں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ لوگوں نے ایک سفر میں با آواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر ترس کھاؤ تم کسی بہرے کو یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکارتے ہو وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے، ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت والا تجھر بصلاتک الخ، سے ہے۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو جبرئیل کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند نہ بہت آہستہ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ کہ مراد اس سے یا تو نماز میں ہے یا نماز اور خطبے میں اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے۔ خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی۔ پس مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں۔ (ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے۔ تفسیر بیصاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے دونوں آیتوں کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے واللہ اعلم) اسی لۓ فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ ان کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے، اسی لئے ہمارے لئے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے۔ اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ وجاب ہے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کو سجدے کی آیتوں میں سے گنا۔

الحمد اللہ سورہ اعراف کی تفسیر ختم ہوئی۔