تفسیر ابنِ کثیر

سورة نُوح

عذاب سے پہلے نوح علیہ السلام کا قوم سے خطاب

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ و سلم بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کر لیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا، حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، یغفرلکم من ذنوبکم میں لفظ من یہاں زائد ہے، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ من زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے قد کان من مطر میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں عن کے ہو بلکہ ابن جریر تو اسی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ قول بھی ہے کہ من تبعیض کے لئے ہے یعنی تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا، اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اطاعت اللہ اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لئے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر کھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامن یتمام مخلوق پست ہے۔

 

۵

نوسو سال صدا بصحرا کے بعد بھی ایک پیغمبرانہ کوشش

یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ساڑھے نو سو سال تک کی لمبی مدت میں کس کس طرح حضرت نوح نبی نے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا قوم نے کس کس طرح اعراض کیا کیسی کیسی تکلیفیں اللہ کے پیارے پیغمبر کو پہنچائیں اور کس طرح اپنی ضد پر اڑ گئے، تو حضرت نوح علیہ السلام بطور شکایت کے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ الٰہی میں نے تیرے حکم کی پوری طرح سرگرمی سے تعمیل کی، تیرے فرمان عالیشان کے مطابق نہ دن کو دن سمجھا، نہ رات کو رات، بلکہ مسلسل ہر وقت انہیں راہ راست کی دعوت دیتا رہا لیکن کیا کروں کہ جس دل سوزی سے میں انہیں نیکی کی طرف بلاتا رہا وہ اسی سختی سے مجھ سے بھاگتے رہے حق سے روگردانی کرتے رہے، یہاں تک ہوا کہ میں نے ان سے کہا آؤ رب کی سنو تاکہ رب تمہیں بخشے لیکن انہوں نے میرے ان الفاظ کا سننا بھی گوارا نہ کیا، کان بند کر لئے، یہی حال کفار قریش کا تھا کہ کلام اللہ کو سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے جیسے ارشاد ہے وقال الذین کفروالاتسمعوا الھذا القرآن و الغوافیہ لعلکم تغلبون یعنی کافرو نے کہا اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ پڑھا جاتا ہو تو شور غل کرو تاکہ تم غالب رہو، قوم نوح نے جہاں اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالیں وہاں اپنے منہ میں کپڑوں سے چھپا لئے تاکہ وہ پہچانے بھی نہ جائیں اور نہ کچھ سنیں اپنے شرک و کفر پر ضد کے ساتھ اڑ گئے اور اتباع حق سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اس سے بے پرواہ ہی کی اور اسے حقیر جان کر تکبر سے پیٹھ پھیر لی، حضرت نوح فرماتے ہیں عام لوگوں کے جمع میں بھی میں نے انہیں کہا سنا با آواز بلند ان کے کان کھول دیئے اور بسا اوقات ایک ایک کو چپکے چپکے بھی سمجھایا غرض تمام جتن کر لئے کہ یوں نہیں یوں سمجھ جائیں اور اور یوں نہیں تو یوں راہ راست پر آ جائیں، میں نے ان سے کہا کہ کم از کم تم اپنی بدکاریوں سے توبہ ہی کر لو وہ اللہ غفار ہے ہر جھکنے والے کی طرف توجہ فرماتا ہے اور خواہ اس سے کیسے ہی بد سے بد تر اعمال سر زد ہوئے ہوں ایک آن میں معاف فرما دیتا ہے، یہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی وہ تمہیں تمہارے استغفار کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائے گا اور درد و دکھ سے بچا لے گا وہ تم پر خوب موسلادھار بارش برسائے گا۔ یہ یاد رہے کہ قحط سالی کے موقعہ پر جب نماز استقاء کے لئے مسلمان نکلیں تو مستحب ہے کہ اس نماز میں اس سورت کو پڑھیں، اس کی ایک دلیل تو یہی آیت ہے دوسرے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل بھی یہی ہے۔ آپ سے مروی ہے کہ بارش مانگنے کے لئے جب آپ نکلے تو منبر پر چڑھ کر آپ نے خوب استغفار کیا اور استغفار والی آیتوں کی تلاوت کی، جن میں ایک آیت یہ بھی تھی۔ پھر فرمانے لگے کہ بارش کو میں نے بارش کی تمام راہوں سے جو آسمان میں ہیں طلب کر لیا ہے یعنی وہ احکام ادا کئے ہیں، جن سے اللہ بارش نازل فرمایا کرتا ہے۔ حضرت نوح فرماتے ہیں اے میری قوم کے لوگو تم اگر ستغفار کرو گے تو بارش کے ساتھ ہی ساتھ رزق کی برکت بھی تمہیں ملے گی زمین و آسمان کی برکتوں سے تم مالا مال ہو جاء گے کھیتیاں خوب ہوں گی جانوروں کے تھن دودھ سے پر رہیں گے مال و اولاد میں ترقی ہو گی قسم قسم کے پھلوں سے لدے پھندے باغات تمہیں نصیب ہوں گے جن کے درمیان چاروں طرف اور بابرکت پانی کی ریل پیل ہو گی، ہر طرف نہریں اور دریا جاری ہو جائیں گے۔ اس طرح رغبت دلا کر پھر ذرا خوف زدہ بھی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں تم اللہ کی عظمت کے قائل کیوں نہیں ہوتے؟ اس کے عذاب سے بے باک کیوں ہو گئے ہو؟ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے تمہیں کن کن حالات میں کس کس طرح حالت بدل بدل کر ساتھ پیدا کیا ہے؟ پہلے پانی کی بوند پھر جامد خون پھر گوشت کالو تھڑا پھر اور صورت پھر اور حالت وغیرہ، اسی طرح دیکھو تو سہی کہ اس نے ایک پر ایک اس طرح آسمان پیدا کئے خواہ وہ صرف سننے سے ہی معلوم ہوئے ہوں یا ان وجوہ سے معلوم ہوئے ہوں جو محسوس ہیں جو ستاروں کی چال اور ان کے کسوف سے سمجھی جا سکتی ہیں جیسے کہ اس علم والوں کا بیان ہے گو اس میں بھی ان کا سخت تر اختلاف ہے کہ کواکب چلنے پھرنے والے بڑے بڑے سات ہیں۔ ایک ایک کو بے نور کر دیتا ہے، سب سے قریب آسمان دنیا میں چاند ہے جو دوسروں کو ماند کئے ہوئے ہے اور دوسرے آسمان پر عطارد ہے، تیسرے میں زہرہ ہے، چوتھے میں سورج ہے، پانچویں میں مریخ ہے، چھٹے میں مشتری، ساتویں میں زحل اور باقی کواکب جو ثوابت ہیں وہ آٹھویں میں ہیں جس کا نام یہ لوگ فلک ثوابت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو شرع والے ہیں وہ اسی کرسی کہتے ہیں اور نواں فلک ان کے نزدیک اطلس اور اثیر ہے جس کی حرکت ان کے خیال میں افلاک کی حرکت کے خلاف ہے اس لئے کہ دراصل اس کی حرکت اور حرکتوں کو مبداء ہے وہ مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے اور باقی سب آسمان مشرق سے مغرب کی طرف اور انہی کے ساتھ کواکب بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں، لیکن سیاروں کی حرکت افلاک کی حرکت کے بالکل برعکس ہے وہ سب مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتے ہیں اور ان میں کا ہر ایک اپنے آسمان کا پھیر اپنے مقدور کے مطابق کرتا ہے، چاند تو ہر ماہ میں ایک بار سورج ہر سال میں ایک بار زحل ہر تیس سال میں ایک مرتبہ۔ مدت کی یہ کمی بیشی با اعتبار آسمان کی لمبائی چوڑائی کے ہے ورنہ سب کی حرکت سرعت میں بالکل مناسبت رکھتی ہے، یہ خلاصہ ہے ان کی تمام تر باتوں کا جس میں ان میں آپس میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے نہ ہم اسے یہاں وارد کرنا چاہتے ہیں نہ اس کے تحقیق و تفتیش سے اس وقت کوئی غرض ہے مقصود صرف اس قدر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سات آسمان بنائے ہیں اور وہ اوپر تلے ہیں، پھر ان میں سورج چاند پیدا کیا ہے، دونوں کی چمک دمک اور روشنی اور اجالا الگ الگ ہے جس سے دن رات کی تمیز ہو جاتی ہے، پھر چاند کی مقررہ منزلیں اور بروج ہیں پھر اس کی روشنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بالکل چھپ جاتا ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنی پوری روشنی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جس سے مہینے اور سال معلوم ہوتے ہیں، جیسے فرمان ہے ھو الذی جعل الشمس ضیاء الخ اللہ وہ ہے جس نے سورج، چاند خوب روشن چمکدار بنائے اور چاند کی منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تمہیں سال اور حساب معلوم ہو جائیں ان کی پیدائش حق کے ساتھ ہے۔ عالموں کے سامنے اللہ کی قدرت کے یہ نمونے الگ الگ موجود ہیں، پھر فرمایا اللہ نے تمہیں زمین سے اگایا اس مصدر نے مضمون کو بے حد لطیف کر دیا پھر تمہیں مار ڈالنے کے بعد اسیم ہیں لوٹائے گا، پھر قیامت کے دن اسی سے تمہیں نکالے گا، جیسے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارا فرش بنا دیا اور وہ ہلے جلے نہیں اس لئے اس پر مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے، اسی زمین کے کشادہ راستوں پر تم چلتے پھرتے ہو اسی پر رہتے سہتے ہو ادھر سے ادھر جاتے آتے ہو، غرض حضرت نوح علیہا لسلام کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ عظمت رب اور قدرت اللہ کے نمونے اپنی قوم کے سامنے رکھ کر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی برکتوں کے دینے والے ہر چیز کے پیدا کرنے والے عالی شان قدرت کے رکھنے والے رازق خالق اللہ کا کیا تم پر اتنا بھی حق نہیں کہ تم اسے پوجو اس کا لحاظ رکھو اور اس کے کہنے سے اس کے سچے نبی کی راہ اختیار کرو، تمہیں ضرور چاہئے کہ صرف اسی کی عبادت کرو کسی اور کو نہ پوج، اس جیسا اس کا شریک، اس کا ساجھی، اس کا مثیل کسی کو نہ جانو، اسے بیوی اور ماں سے، بیٹوں پوتوں، وزیرو مشیر سے، عدیل و نظیر سے پاک مانو اسی کو بلند و بالا اسی کو عظیم و اعلیٰ جانو۔

 

۲۱

نوح علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں روداد غم

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی گزشتہ شکایتوں کے ساتھ ہی جناب باری تعالیٰ میں اپنی قمو کے لوگوں کی اس ورش کو بھی بیان کیا کہ میری پکار کو جو ان کے لئے سراسر نفع بخش تھی انہوں نے کان تک نہ لگایا ہاں اپنے مالداروں اور بے فکروں کی مان لی جو تیرے امر سے بالکل غافل تھے اور مال و اولاد کے پیچھے مست تھی، گو فی الواقع وہ مال و اولاد بھی ان کے لئے سراسر و بال جان تھی، کیونکہ ان کی وجہ سے وہ پھولتے تھے اور اللہ کو بھولتے تھے اور زیادہ نقصان میں اترتے جاتے تھے ولدہ کی دوسری قرات ولدہ بھی ہے اور ان رئیسوں نے جو مال و جاہ والے تھے ان سے بڑی مکاری کی۔ کبار اور کبار دونوں منی میں کبیر کے ہیں یعنی بہت بڑا۔ قیامت کے دن بھی یہ لوگ یہیں کیں گے کہ تم دن رات مکاری سے ہمیں کفر و شرک کا حکم کرتے رہے اور انہی بڑوں نے ان چھوٹں سے کہا کہ اپنے ان بتوں کو جنہیں تم پوجتے رہے ہرگز نہ چھوڑنا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قوم نوح کے بتوں کو کفار عرب نے لے لیا دومتہ الجندل میں قبیلہ کلب ود کو پوجتے تھے، ہذیل قبیلہ سواع کا پرستار تھا اور قبیلہ مراد پھر قبیلہ بنو غطیف جو صرف کے رہنے والے تھے یہ شہر سبابستی کے پاس ہے یغوث کی پوجا کرتا تھا، ہملان قبیلہ یعقوب کا پجاری تھا، آل ذی کلاع کا قبیلہ حمیر نسربت کا ماننے والا تھا، یہ سب بت دراصل قوم نوح کے صالح بزرگ اولیاء اللہ لوگ تھے ان کے اتنقال کے بعد شیطان نے اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالی کہ ان بزرگوں کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یادگار قائم کریں، چنانچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دیئے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو اس جگہ کی پرستش نہ ہوئی لیکن ان نشانات اور یادگار قائم کرنے والے لوگوں کو مر جانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد جو لوگ آئے جہالت کی وجہ سے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔ حضرت عکرمہ حضرت ضحاک حضرت قتادہ حضرت ابن اسحاق بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت محمد بنی قیس فرماتے ہیں یہ بزرگ عابد، اللہ والے، اولیاء اللہ ، حضرت آدم، اور حضرت نوح کے سچے تابع فرمان صالح لوگ تھے جن کی پیروی اور لوگ بھی کرتے تھے جب یہ مر گئے تو ان کے مقتدیوں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنا لیں تو ہمیں عبادت میں خوب دلچسپی رہے گی اور ان بزرگوں کی صورتیں دیکھ کر شوق عبادت بڑھتا رہے گا چنانچہ ایسا ہی کیا جب یہ لوگ بھی مرکھپ گئے اور ان کی نسلیں آئیں تو شیطان نے انیں یہ گھٹی پلائی کہ تمہارے بڑے ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور انہیں سے بارش وغیرہ مانگتے تھے چنانچہ انہوں نے اب باقاعدہ ان بزرگوں کی تصویروں کی پرستش شروع کر دی، حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیت علیہ السلام کے قصے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام کے چالیس بچے تھے بیس لڑکے بیس لڑکیاں ان میں سے جن کی بڑی عمریں ہوئیں ان میں ہابیل، قابیل، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا اور ودھتھا نہیں شیت اور ہبتہ اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ تمام بھائیوں نے سرداری انہیں کو دے رکھی تھی۔ ان کی اولدا یہ چاروں تھے یعنی سواع، یغوث، یعوق اور نسر۔ حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی بیماری کے قوت ان کی اولاد ود، یغوث، یعوق، سواع اور نسر تھی۔ ود ان سب میں بڑا اور سب سے نیک سلوک کرنے الا تھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جعفر رحمۃ اللہ علیہ نماز پڑھ رہے تھے اور لوگوں نے زید بن مہلب کا ذکر کیا آپ نے فارغ ہو کر فرمایا سنو وہ وہاں قتل کیا گیا جہاں اب سے پہلے غیر اللہ کی پرستش ہوئی واقعہ یہ ہوا کہ ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے وہ مر گیا، یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بے چین اور مصیبت زدہ ہو گئے ابلیس لعین نے یہ دیکھ کر انسانی صورت میں ان کے پاس آ کر ان سے کہا کہ اس بزرگ کی یادگار کیوں قائم نہیں کر لیتے؟ جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو سب نے اس رائے کو پسند کیا ابلیس نے اس بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کر دی جسے دیکھ دیکھ کر یہ لوگ اسے یاد کرتے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے، جب وہ سب اس میں شمغول ہو گئے تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے اس لئے یہ بہتر ہو گا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنا دوں تم انہیں اپنے اپنے گھروں میں ہی رکھ لو وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہو گیا، اب تک صرف یہ تصویریں اور یہ بت بطور یادگار کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جا کر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادا کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہو گئے، ان کا نام ود تھا اور یہی پہلا وہ بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی۔ انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا اس وقت سے لے کر اب تک عرب عجم میں اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہو گئی اور اللہ کی مخلوق بہک گئی، چنانچہ خلیل اللہ علیہ السلام اپنی دعا میں عرض کرتے ہیں میرے رب مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ یا الٰہی انہوں نے اکثر مخلوق کو بے راہ کر دیا۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے لئے بد دعا کرتے ہیں کیونکہ ان کی سرکشی ضد اور عداوت حق خوب ملاحظہ فرما چکے تھے تو کہتے ہیں کہ الٰہی انہیں گمراہی میں اور بڑھا دے، جیسے کہ حضرت مسویٰ علیہ السلام نے فرعون اور فرعونیوں کے لئے بد دعا کی تھی کہ پروردگار ان کے مال تباہ کر دے اور ان کے دل سخت کر دے انہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو جب تک کہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں، چنانچہ دعاء نوح قبول ہوتی ہے اور قوم نوح بہ سبب اپنی تکذیب کے غرق کر دی جاتی ہے۔

 

۲۵

کثرت کی وجہ سے یہ لوگ ہلاک کر دیئے گئے ان کی سرکشی، ضد اور ہٹ دھرمی ان کی مخالفت و دشمنی رسول صلی اللہ علیہ و سلم حد سے گزر گئی تو انہیں پانی میں ڈبو دیا گیا، اور یہاں سے آگ کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے اور کوئی نہ کھڑا ہوا جو انہیں ان عذابوں سے بچا سکتا، جیسے فرمان ہے لا عاصم الیوم من امر اللہ الامن رحم یعنی آج کے دن عذاب اللہ سے کوئی نہیں بچا سکتا صرف وہی نجات یافتہ ہو گا جس پر اللہ رحم کرے، نوح نبی علیہ السلام ان بدنصیبوں کی اپنے قادر و ذوالجلال اللہ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھ کر فریاد کرتے ہیں اور اس مالک سے ان پر آفت و عذاب نازل کرنے کی درخواست پیش کرتے ہیں کہ اللہ ابت و ان ناشکروں میں سے ایک کو بھی زمین پر چلتا پھرتا نہ چھوڑ اور یہی ہوا بھی کہ سارے کے سارے غرق کر دیئے گئے یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کا سگا بیٹا جو باپ سے الگ رہا تھا وہ بھی نہ بچ سکا، سمجھا تو یہ تھا کہ پانی میرا کیا بگاڑ لے گا میں کسی بڑے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ پانی تو نہ تھا وہ تو غضب الٰہی تھا، وہ تو بد دعائے نوح تھا اس سے بھلا کون بچا سکتا تھا؟ پانی نے اسے وہیں جا لیا اور اپنے باپ کے سامنے باتیں کرتے کرتے ڈوب گیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر طوفان نوح میں اللہ تعالیٰ کسی پر رحم کرتا تو اس کے لائق وہ عورت تھی جو پانی کو ابلتے اور برستے دیکھ کر اپنے بچے کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پہاڑ پر چڑھ گئی جب پانی وہاں بھی آ گیا تو بچے کو اٹھا کر اپنے مونڈھے پر بٹھا لیا جب پانی وہاں پہنچا تو اس نے بچے کو سر پر اٹھا لیا، جب پانی سر تک جا چڑھا تو اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سر سے بلند کر لیا لیکن آخر پانی وہاں تک جا پہنچا اور ماں بیٹا ڈوب گئے، اگر اس دن زمین کے کافروں میں سے کوئی بھی قابل رحم ہوتا تو یہ عورت تھی مگر یہ بھی نہ بچ سکی نہ ہی بیٹے کو بچا سکی۔ یہ حدیث غریب ہے لیکن راوی اس کے سب ثقہ ہیں۔ الغرض روئے زمین کے کافر غرق کر دیئے گئے۔ صرف وہ با ایمان ہستیاں باقی رہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں تھیں اور حضرت نوح نے انہیں اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا، چونکہ حضرت نوح علیہ السلام کو سخت تلخ اور دیرینہ تجربہ ہو چکا تھا اس لئے اپنی نا امیدی کو ظاہر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا الٰہی میری چاہت ہے کہ ان تمام کافر کو برباد کر دیا جائے، ان میں سے جو بھی باقی بچ رہا وہی دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے گا اور جو نسل اس کی پھیلے گی وہ بھی اسی جیسی بدکار اور کافر ہو گی، ساتھ ہی اپنے لئے بخشش طلب کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں میرے رب، مجھے بخش میرے والدین کو بخش اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں آ جائے اور ہو بھی وہ با ایمان، گھر سے مراد مسجد بھی لی ہے لیکن عام مراد یہی ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مومن ہی کے ساتھ بیٹھو، رہو، سہو اور صرف پرہیزگار ہی تیرا کھانا کھائیں، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف اسی اسناد سے یہ حدیث معروف ہے، پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہیں اور کہتے ہیں تمام ایماندار مرد و عورت کو بھی بخش خواہ زدہ ہوں خواہ مردہ اسی لئے مستحب ہے کہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھے تاکہ حضرت نوح علیہ السلام کی اقتدار بھی ہو اور ان احادیث پر بھی عمل ہو جائے جو اس بارے میں ہیں اور وہ دعائیں بھی آ جائیں جو منقول ہیں، پھر دعا کے خاتمے پر کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ان کافروں کو تو تباہی، بربادی، ہلاکت اور نقصان میں ہی بڑھاتا رہ، دنیا و آخرت میں برباد ہی رہیں۔ الحمد اللہ سورہ نوح کی تفسیر بھی ختم ہو گئی۔