بزار میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ قریش دارالندوہ میں جمع ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ آؤ مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ایسا نام تجویز کریں کہ سب کی زبان سے وہی نکلے تاہ باہر کے لوگ ایک ہی آواز سن کر جانیں، تو بعض نے کہا ان کا نام کاہن رکھو اس پر اوروں نے کہا درحقیقت وہ کاہن تو نہیں، کہا اچھا پھر ان کا نام مجنون رکھو اس پر بھی اوروں نے کہا کہ وہ مجنون بھی نہیں، پھر بعض نے کہا ساحر نام رکھو اس پر اور لوگوں نے کہا وہ ساحر یعنی جادوگر بھی نہیں، غرض وہ کوئی ایسا نام تجویز نہ کر سکے جس پر سب کا اتفاق ہو اور یہ مجمع یوں ہی اٹھ کھڑا ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ خبر سن کر منہ لپیٹ کر کپڑا اوڑھ کر لیٹ رہے جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور اسی طرح یعنی اے کپڑا لپیٹ کر اوڑھنے والے کہہ کر آپ کو مخاطب کیا، اس روایت کے ایک راوی معلی بن عبدالرحمٰن سے گو اہل علم کی جماعت روایت لیتی ہے اور اس سے حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن ان کی روایتوں میں بہت سی ایسی حدیثیں بھی ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی جاتی۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کر لیں، جیسے فرمان ہے تتجا فی جنوبھم عن المضاجع الخ، ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے ومن الیل فتھجد بہ ناقلتہ لک الخ، راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے، یہں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش مزمل کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے، اس حکم کے بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم عامل تھے، حضرت صدیقہ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر لفظ رحمان پر لفظ رحیم پر مد کیا، ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر وقف کرتے الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر وقف کرتے الرحمٰن الرحیم پڑھ کر وقف کرتے مالک یوم الدین پڑھ کر ٹھہرتے۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو، یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حس نصحیح کہتے ہیں، ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزید کرو، اور ہم میں سے وہ ہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابو موسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو (بغوی) ایک شخص آ کر حضرت ابن مسعود سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں آپ نے فرمایا پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہو گا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لئے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے، یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے، مسند احمد میں ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہو جاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی، صحیح بخاری شریف کے شروع میں ہے حضرت حارث بن ہشام پوچھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گن گناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ پر وحی اتر چکتی تو آپ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے، مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی، ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہولے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا ہے، حضرت عبدالرحمٰن سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔ پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لئے اور زبان کو درست کرنے کے لئے اکسیر ہے، نشاء کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں، رات بھر میں جب اٹھے اسے ناشتہ اللیل کہتے ہیں، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بہ نسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا، شور غل کا، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت انس نے اقوم قیلاً کو اصوب قیلا پڑھا تو لوگوں نے کا ہم تو اقوم پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اصوب اقوم اھیاء اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔ پھر فرماتا ہے دن میں تجھے بہت فراغت ہے، نیند کر سکتے ہو، سو بیٹھ سکتے ہو، راحت حاصل کر سکتے ہو، نوافل بہ کثرت ادا کر سکتے ہو، اسے دنیوی کام کاج پورے کر سکتے ہو۔ پھر رات کو آخرت کے کام کے لئے خاص کر لو، اس بنا پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کر دی اور فرمایا تھڑی سی رات کا قیام کرو، اس فرمان کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے ان ربک سے فاقروا ماتیسرمنہ تک پڑھا اور آیت ومن اللیل الخ، کی بھی تلاوت کی۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک، مسند احمد میں ہے کہ حضرت سعید بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں آپ ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہو جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا ککیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لئے اچھائی نہیں ہے؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آ جاؤ یہ حدیث سن کر حضرت سعید نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا اب حضرت سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں حضرت عبد اللہ بن عباسی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس گیا اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتری طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بتا سکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المومنین ہی سے دریافت کرو اور ام المومنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا۔ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المومنین کی خدمت میں لے چلو۔ انہوں نے فرمایا میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لئے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی حضرت علی اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ ام المومنین صاحبہ نے حضرت حکیم کی آواز پہچان لی اور کہا کیا حکیم ہے؟ جواب دیا گیا کہ ہاں حضور میں حکیم بن افلح ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا سعید بن ہشام پوچھا ہشام کون؟ عامر کے لڑکے؟ کہا ہاں عامر کے لڑکے، تو حضرت عائشہ نے حضرت عامر کے لئے دعاء رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے میں نے کہا ام المومنین مجھے بتایئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا بس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا خلق قرآن تھا اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کر لوں، اس سوال کے جواب میں ام المومنین نے فرمایا کیا تم نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا ہاں پڑھی ہے، فرمایا سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام لیل فرض ہوا اور سال بھر تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آگیا بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کر لوں تو میں نے کہا ام المومنین حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے، آپ نے فرمایا ہاں سنو ہم آپ کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے (اور ایک وتر پڑھتے) بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں، اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداو مت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے، اب میں ام المومنین سے رخصت ہو کر ابن عباس کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المومنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدار کرنے کے لئے وہ بھی آ گئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یا نماز فرض ہو جائے آپ ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ نے قیام لیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آ جائے آٹھ مہینے اسی طرح گزر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام لیل چھوڑ دیا، یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورہ مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے، صحیح وہی ہے جو بحو آلہ مسند پہلے گزر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورہ مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا۔ حضرت ابو اسامہ سے بھی ابن جریر میں اس طرح مروی ہے، حضرت ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آگیا پھر فاقروا ماتیسرمنہ الخ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی، حسن بصری اور سدی کا بھی یہی قول ہے۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت حضرت عائشہ سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ایک سال یا دوسال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہو گئی۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں (ابن جریر) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام لیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور علم ان سیکون سے ما تیسرمنہ تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کر دی اور تنگی نہ رکھی قلحہ الحمد پھر فرمان ہے اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لئے فارغ ہو جا، یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہو جا، جیسے اور جگہ ہے فاذا فرغت فانصب الخ، یعنی جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ، اخلاص فارغ البالی کوشش محنت دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کی طرف جھک جاؤ، ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تبل سے منع فرمایا یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو۔ وہ مالک ہے وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ، جیسے اور آیت میں ہے فاعبدوہ وتوکل علیہ اسیکی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر، یہی مضمون ایاک نعبدوایاک نستعین میں بھی ہے، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت، اطاعت، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خد ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بے فکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بے تعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہو گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہو جاؤ گے، یہ حدیث غریب ہے اور سورہ حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گزر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقیناً سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔
فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت و عبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پا لے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کر لے گا، جیسے دوسری سورت میں فرمایا وما تشاؤن الا ان یشاء اللہ ان اللہ کان علیما حکیما تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ کا اور آپ کے احاصب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گزرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دنبڑا، کبھی دن چھوٹا رات بڑی، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خوا اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے (بخاری و مسلم) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آ چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورہ فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے (پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سرہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام لیل کے ترک پر معذور ہیں، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جا سکے کر لیا کرو، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پویر قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا، میں نے کہا۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو و تر پڑھا کرو، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم (یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آ چکا ہے وقیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم۔ مترجم) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائے گی کیا کرو، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہو چکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی؟ نصاب کیا ہے؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کر دیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گزر چکا، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے۔ تم جو بھینیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر و ثواب میں بہت ہی زیادہ ہے، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ مزمل کی تفسیر ختم ہوئی۔