یعنی ہم نے تیرے سینے کو منور کر دیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کر دیا اور جگہ ہے فمن برد اللّٰہ الخ، یعنی جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ جس طرح آپ کا سینہ کشادہ کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح آپ کی شریعت بھی کشادگی والی نرمی اور آسانی والی بنا دی، جس میں نہ تو کوئی حرج ہے نہ تنگی، نہ ترشی، نہ تکلیف، اور سختی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گزر چکا، امام ترمذی نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہو سکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنا دینا۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی دلیری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا؟ آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ابوہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں ؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آ رہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آ کر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لئے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوۓ ہے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چنانچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی نہ برا محسوس ہوا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چنانچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش، حسد و بغض سب نکال دو، چنانچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہر بڑے پر رحمت ہے (مسند احمد) پھر فرمان ہے کہ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کر دیا تھا۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یعنی جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے اشہدان لا الہ اللہ واشہد ان محمد ارسول اللہ ۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کر دیا کوئی خطیب کوئی واعظ کوئی کلمہ گو کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو پورا علم ہے فرمایا جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ کا بھی ذکر کیا جائے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تو نے ہوا کو تابعدار کر دیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا راہ گم کردہ پاکر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا فقیر پاکر غنی نہیں بنا دیا ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا ؟ میں نے کہا بیشک کیا ہے۔ ابو نعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عز و جل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی، ابراہیم کو خلیل بنایا، موسیٰ کو کلیم بنایا داؤد کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا، سلیمان کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے، پس میرے لیے کیا کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کر دیا کہ وہ قرآن کو قرات سے پڑھتے ہیں۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جو لاحول ولا قوت الا باللّٰہ العلی العظیم ہے ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ اس سے مراس اذان ہے یعنی اذان میں آپ کا ذکر ہے جس طرح حضرت حسان کے شعروں میں ہے۔
اغر علیہ للنبوۃ خاتم من اللّٰہ من نور یلوح ویشھد
وضم الالہ اسم النبی اسمہ اذا قال فی الخمس الموذن اشھد
وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد
یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ پر ثبت فرمایا جو آپ کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت اشھد کہتا ہے آپ کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء علیہم السلام سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جائے، صرصری نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسند یدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ تم نہیں دبکنے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کا ذکر بار بار اس میں نہ آئے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی دشواری کے ساتھ سہولت ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی۔ اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری۔ مسند بزار حم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہا گر دشواری اس پتھر میں داخل ہو جائے تو آسانی آ کر اسے نکالے گی، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی، یہ حدیث عائز بن شریح حضرت انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابو حاتم راضی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود سے یہ موقوف مروی ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی، حضرت حسن ابن جریر میں مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ہرگز ایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آسکتی۔ پھر اس آیت کی آپ نے تلاوت کی، یہ حدیث مرسل ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کو خوش خبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ عسرہ کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور یسر کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہو گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ معونتہ یعنی امداد الٰہی بقدر معونتہ یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبرمصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں
صبر اجمیلا ما اقرب الفرجا من راقب اللّٰہ فی الامر نجا
من صدق اللّٰہ لم ینلہ اذی ومن رجاہ یکون حیث رجا
یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے ؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا، نجات یافتہ ہے، اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذا نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے۔ حضرت ابو حاتم سجستانی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار ہیں کہ جب مایوسی دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہو جاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارکردگی نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ تنگیاں جب کہ بھر پور آ پڑی ہیں پروردگار معاوسعتیں نازل فرما کر نقصن کو فائدے سے بدل دیتا ہے کسی اور شاعر نے کہا ہے
ولرب نازل یضیق بہ الفتی ذرھا وعند اللّٰہ منھا المخرج
کملت فلما :ستحلت حلقا تھا فرجت وکان یظنھا لا تفرج
یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہو جاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہو جاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے، مضبوط ہو جاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح دور کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب تو دنیوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا، اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہو جا۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھاناسامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو۔ حضرت مجاہد اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر، حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں یعنی دعا کر، زید بن اسلم اور ضحاک فرماتے ہیں جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا، ثوری فرماتے ہیں اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔
سورہ الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ ۔