تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ البَیّنَة

سات قرأت اور قرآن حکیم

جب یہ سورت اتری تو حضرت جبرئیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا اللہ کا آپ کو حکم ہوا ہے کہ یہ سورت حضرت ابی کو سناؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابی سے یہ ذکر کیا تو حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا وہاں میرا ذکر کیا گیا آپ نے فرمایا ہاں ہاں، تو حضرت ابی رو پڑے مسند احمد۔ مسند ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابی نے پوچھا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا؟ یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے مسند کی اور روایت میں ہے کہ جس وقت حضرت ابی نے یہ واقعہ بیان کیا اس وقت حضرت عبدالرحمن با البزی نے کہا کہ پھر تو تم اے ابو منذر بہت ہی خوش ہوئے ہو گے کہاں ہاں خوش کیوں نہ ہوتا اللہ خود فرماتا ہے قل بفضل اللّٰہ وبرحمۃ فبذالک فلیفرحوا ھوا خیر مما یجمعونیعنی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ لوگ خوش ہوا کریں یہ ان کے جمع کیے ہوئے سے بہت ہی بہتر ہے اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سورت حضرت ابی کے سامنے پڑھی اس میں یہ آیت بھی تھی۔ لو ان ابن ادام سال وادیا من مال فاعطیہ لسأال ثانیا ولو سأال ثانیا فاعطیہ لسأال ثالثا ولا یملا جوف ابن آدم الا التواب و یتوب اللّٰہ علی من تاب وان ذات الدین عند اللہ الحنیفۃ غیر المشرکتہ ولا الیھودیتہ ولا النصر اتیتہ ومن یفعل خیرا فلن یکفرہ، یعنی اگر انسان مجھ سے ایک جگل بھر کر سونا مانگے اور میں اسے دے دوں تو پھر دوسرا مانگے گا اور دوسرے کو بھی دے دوں تو یقیناً تیسرے کی طلب کرے گا انسان کے پیٹ کو سوا مٹی کے کوئی چیز نہیں بھر سکتی جو توبہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اللہ کے نزدیک دیندار وہ ہے جو یکطرفہ ہو کر صرف اس کی عبادت کرے نہ وہ مشرک ہو نہ یہودی ہو نہ نصرانی ہو جو شخص بھی کوئی نیک کام کرے اللہ کے ہاں اس کی ناقدری نہ کی جائے گی (مسند احمد) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے طبرانی میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابی سے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں تو حضرت ابی نے فرمایا کہ حضرت میں اللہ پر ایمان لایا آپ کے ہاتھ پر اسلام لایا آپ ہی سے علم دین حاصل کیا آپ نے پھر یہی فرمایا اس پر حضرت ابی نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میرا وہاں ذکر کیا گیا آپ نے فرمایا تیرے نام اور نسب کے ساتھ ملاء الاعلی، میں تیرا ذکر ہوا حضرت ابی نے فرمایا اچھا پھر پڑھئے یہ روایت اس طریقہ سے غریب ہے اور ثابت وہ ہے جو پہلے بیان ہوا یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اس سورت کو حضرت ابی کے سامنے پڑھنا یہ ان کی ثابت قدمی اور ان کے ایمان کی زیادتی کے لیے تھا مسند احمد، نسائی ابو داؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت سن کر حضرت ابی بگڑ بیٹھے تھے کیونکہ انہوں نے جس طرح اس سورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیکھا تھا حضرت عبد اللہ نے اسی طرح نہیں پڑھا تھا تو غصے میں آ کر انہیں لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں سے قرآن سنا اس نے اپنے طریقے سے اس نے اپنے طور پر پڑھا آپ نے فرمایا دونوں نے درست پڑھا حضرت ابی فرماتے ہیں میں تو اس قدر شک و شبہ میں پڑ گیا کہ جاہلیت کے زمانہ کا شک سامنے آ گیا آپ نے یہ حالت دیکھ کر میرے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس سے میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور اس قدر مجھ پر خوف طاری ہوا کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے فرمایا سن جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا اللہ کا حکم ہے کہ قرآن ایک ہی قرأت پر اپنی امت کو پڑھاؤ میں نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر اور بخشش و مغفرت چاہتا ہوں پھر مجھے دو طرح کے قرأتوں کی اجازت ہوئی لیکن میں پھر بھی زیادہ طلب کرتا رہا یہاں تک کہ سات قرأتوں کی اجازت ملی۔ یہ حدیث بہت سی سندوں اور مختلف الفاظ سے تفسیر کے شروع میں پوری طرح بیان ہو چکی ہے اب جبکہ یہ مبارک سورت نازل ہوئی اور اس میں آیت رسول من اللّٰہ یتلو صحفا مطھرۃ فیھا کتب قیمۃ، بھی نازل ہوئی تھی اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوا کہ بطور پہنچا دینے کے اور ثابت قدمی عطا فرمانے کے اور آگاہی کرنے کے پڑھ کر حضرت ابی کو سنا دیں کسی کو یہ خیال نہ رہے کہ بطور سیکھنے کے اور یاد رہنے کے آپ نے یہ سوتر ان کے پاس تلاوت کی تھی واللہ اعلم پس جس طرح آپ نے حضرت ابی کے اس دن کے شک و شبہ کے دفع کرنے کے لیے جو انہیں مختلف قرأت کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جائز رکھنے پر پیدا ہوا تھا ان کے سامنے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی ٹھیک اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے بھی تھا کہ کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ شریف جائیں گے اور طواف کریں گے آپ نے فرمایا ہاں یہ تو ضرور کہا تھا لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال یہ ہو گا یقیناً وہ وقت آ رہا ہے کہ تو وہاں پہنچے گا اور طواف کرے گا اب حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے سورہ فتح نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر کو بلوایا اور یہ سورت پڑھ کر سنائی جس میں یہ آیت بھی ہے لقد صدق اللّٰہ رسولہ الرء یا بالحق لتد خلن المسجد الحرام ان شآاللّٰہ امنین الخیعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب سچا کر دکھایا یقیناً تمہارا داخلہ مسجد حرام میں امن و امان کے ساتھ ہو گا جیسے کہ پہلے اس کا بیان بھی گزر چکا حافظ ابو نعیم اپنی کتاب اسماء صحابہ میں حدیث لائے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب سورہ لم یکن کی قرأت سنتا ہے تو فرماتا ہے میرے بندے خوش ہو جا مجھے اپنی عزت کی قسم میں تجھے جنت میں ایسا ٹھکانا دوں گا کہ تو خوش ہو جائے گا یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ میں تجھے دنیا اور آخرت کے احوال میں سے کسی حال میں نہ بھولوں گا۔

 

۱

پاک و شفاف اوراق کی زینت قرآن حکیم

اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور مشرکین سے مراد بت پوجنے والے عرب اور آتش پرست عجمی ہیں فرماتا ہے کہ یہ لوگ بغیر دلیل حاصل کیے باز رہنے والے نہ تھے پھر بتایا کہ وہ دلیل اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو پاک صحیفے یعنی قرآن کریم پڑھ سناتے ہیں جو اعلیٰ فرشتوں نے پاک اوراق میں لکھا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے فی صحف مکرمۃ، الخ کہ وہ نامی گرامی بلند و بالا پاک صاف اور اق میں پاک باز نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں پھر فرمایا کہ ان پاک صحیفوں میں اللہ کی لکھی ہوئی باتیں عدل و استقامت والی موجود ہیں جن کے اللہ کی جانب سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ ان میں کوئی خطا اور غلطی ہوئی ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم عمدگی کے ساتھ قرآنی وعظ کہتے ہیں اور اس کی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں ابن زید فرماتے ہیں ان صحیفوں میں کتابیں ہیں استقامت اور عدل و انصاف والی پھر فرمایا کہ اگلی کتابوں والے اللہ کی حجتیں قائم ہو چکنے اور دلیلیں پانے کے بعد اللہ کے کلام کے مطالب میں اختلاف کرنے لگے اور جدا جدا راہوں میں بٹ گئے جیسے کہ اس حدیث میں ہے جو مختلف طریقوں سے مروی ہے کہ یہودیوں کے اکہتر فرقے ہو گئے اور نصرانیوں کے بہتر اور اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے سو ایک کے سب جہنم میں جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ ایک کون ہے فرمایا وہ جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں پھر فرمایا کہ انہیں صرف اتنا ہی حکم تھا کہ خلوص اور اخلاص کے ساتھ صرف اپنے سچے معبود کی عبادت میں لگے رہیں جیسے اور جگہ فرمایا ومآارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون، یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو اسی لیے ہاں بھی فرمایا کہ یکسو ہو کر یعنی شرک سے دور اور توحید میں مشغول ہو کر جیسے اور جگہ ہے ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا ان عبدہ اللہ واجتنبو الطاغوت، یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو حنیف کی پوری تفسیر سورہ انعام میں گزر چکی ہے جسے لوٹانے کی اب ضرورت نہیں۔ پھر فرمایا نمازوں کو قائم کریں جو کہ بدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلی عبادت ہے اور زکوٰۃ دیتے رہیں یعنی فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ سلوک کرتے رہیں یہی دین مضبوط سیدھا درست عدل والا اور عمدگی والا ہوے بہت سے ائمہ کرام نے جیسے امام زہری، امام شافعی، وغیرہ نے اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کی عبادت اور نماز و زکوٰۃ کو دین فرمایا گیا ہے۔

 

۶

ساری مخلوق سے بہتر اور بدتر کون ہے؟

اللہ تعالیٰ کافروں کا انجام بیان فرماتا ہے وہ کافر خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین عرب و عجم ہوں جو بھی انبیاء اللہ کے مخالف ہوں اور کتاب اللہ کے جھٹلانے والے ہوں وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں ڈال دئیے جائیں گے اور اسی میں پڑے رہیں گے نہ وہاں سے نکلیں گے نہ رہا ہوں گے یہ لوگ تمام مخلوق سے بدتر اور کمتر ہیں پھر اپنے نیک بندوں کے انجام کی خبر دیتا ہے جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جو اپنے جسموں سے سنت کی بجا آوری میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں کہ یہ ساری مخلوق سے بہتر اور بزرگ ہیں اس آیت سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ ایمان والے انسان فرشتوں سے بھی افضل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا نیک بدلہ ان کے رب کے پاس ان لازوال جنتوں کی صورت میں ہے جن کے چپے چپے پر پاک صاف پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں جن میں دوام اور ہمیشہ کی زندگی کے ساتھ رہیں گے نہ وہاں سے نکالے جائیں نہ وہ نعمتیں ان سے جدا ہوں نہ کم ہوں نہ اور کوئی کھٹکا ہے نہ غم پھر ان سب سے بڑھ چڑھ کر نعمت و رحمت یہ ہے کہ رضائے رب مرضی مولا انہیں حاصل ہو گئی ہے اور انہیں اس قدر نعمتیں جناب باری نے عطا فرمائی ہیں کہ یہ بھی دل سے راضی ہو گئے ہیں پھر ارشاد فرماتا ہے کہ یہ بہترین بدلہ یہ بہت بڑی جزاء یہ اجر عظیم دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہنے کا عوض ہے ہر وہ شخص جس کے دل میں ڈر ہو جس کی عبادت میں اخلاص ہو جو جانتا ہو کہ اللہ کی اس پر نظریں ہیں بلکہ عبادت کے وقت اس مشغولی اور دلچسپی سے عبادت کر رہا ہو کہ گویاخود وہ اپنی آنکھوں سے اپنے خالق مالک سچے رب اور حقیقی اللہ کو دیکھ رہا ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بہتر شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا ضرور فرمایا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگا تھامے ہوئے ہے کہ کب جہاد کی آواز بلند ہو اور کب میں کود کر اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاؤں اور گرجتا ہوا دشمن کی فوج میں گھسوں اور داد شجاعت دوں لو میں تمہیں ایک اور بہترین مخلوق کی خبر دوں وہ شخص جو اپنی بکریوں کے ریوڑ میں ہے نہ نماز کو چھوڑتا ہے نہ زکوٰۃ سے جی چراتا ہے آؤ اب میں بدترین مخلوق بتاؤں وہ شخص کہ اللہ کے نام سے سوال کرے اور پھر نہ دیا جائے سورہ لم یکن کی تفسیر ختم ہوئی، اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان ہے۔