صحابہ نے اللہ کی کتاب کو اسی سے شروع کیا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورہ نمل کی ایک آیت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ اور ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورہ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لئے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور متاخرین کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نازل نہیں ہوتی تھی۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ایک مرسل حدیث میں یہ روایت حضرت سعید بن جبیر سے بھی مروی ہے۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم، حضرت عطا، حضرت طاؤس، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مکحول اور حضرت زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ بسم اللہ ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورہ برات کے۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابو عبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ البتہ امام مالک امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ بسم اللہ نہ تو سورہ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔ امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔ داؤد کہتے ہیں کہ ہر سورت کے اول میں بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔ امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے ابو بکر رازی نے ابو حسن کرخی کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابو حنیفہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔ یہ تو تھی بحث بسم اللہ کے سورہ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔ (صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے واللہ اعلم۔ مترجم)
اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورہ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورہ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے۔ ان میں اختلاف ہے۔ شافعی رحمت اللہ کا مذہب ہے کہ سورہ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و موخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابن عمر، ابن عباس، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بیہقی، ابن عبدالبر نے حضرت عمر اور حضرت علیسے بھی روایت کیا اور امام خطیب بغدادی نے چاروں خلیفوں سے بھی روایت کیا لیکن سند غریب بیان کیا ہے۔ تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر، حضرت عکرمہ حضرت ابو قلابہ، حضرت زہری، حضرت علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطا، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابو وائل ابن سیرین کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابو شعثا، مکحول، عبد اللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبد اللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرات اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورہ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرات میں اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں۔ اس حدیث کو دار قطنی خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سنائی بسم اللہ پر مد کیا الرحمن پر مد کیا الرحیم پر مد کیا۔ مسند احمد، سنن ابو داؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرات الگ الگ ہوتی تھی جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر الحمد للہ رب العلمین پھر ٹھہر کر الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر ملک یوم الدین دار قطنی اسے صحیح بتاتے ہیں۔ امام شافعی، امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو بسم اللہ پڑھی۔ غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لئے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا چاہیے۔ خلفاء اربعہ اور عبد اللہ بن معقل، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہی ثابت ہے۔ ابو حنیفہ، ثوری، احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے بسم اللہ پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند کیا۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو تکبیر سے اور قرات کو الحمد للہ رب العلمین سے ہی شروع کیا کرتے تھے۔ صحیحین میں ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔ مسلم میں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرات کے شروع میں نہ اس قرات کے آخر میں۔ سنن میں حضرت معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ ہے دلیل ان ائمہ کے بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ فالحمد للہ (بسم اللہ کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زوردار ہیں واللہ اعلم۔ مترجم)
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں۔ ابن مردویہ میں بھی یہی کی روایت ہے۔ ابن مردویہ یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے بسم اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا بسم اللہ کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا "ب" سے مراد اللہ تعالیٰ کا "بہا" یعنی بلندی ہے اور "س" سے مراد اس کی سنا یعنی نور اور روشنی ہے اور "م" سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور "اللہ" کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور "رحمن" کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو "رحیم" کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو۔ ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے لیکن سند کی روسے یہ بے حد غریب ہے ، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو واللہ اعلم۔ ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری۔ وہ آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم" اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لئے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے۔ اس کے بھی انیس حروف ہیں۔ ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے اس کی تائید ایک اور حدیث بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ پڑھا تھا اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح بسم اللہ میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا۔ ہاں بسم اللہ کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے۔ نسائی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ بسم اللہ کہہ کر بسم اللہ کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا۔ اسی لئے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں بسم اللہ کہہ لینا مستحب ہے۔ خطبہ کے شروع میں بھی بسم اللہ کہنی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے۔ پاخانہ میں جانے کے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔ حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے۔ مسند احمد اور سنن میں ابو ہریرہ، سعید بن زید اور ابو سعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا۔ " یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ "جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور بسم اللہ پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی" لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے ، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی بسم اللہ پڑھنی مستحب ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر بن ابو سلمہ سے فرمایا (جو آپ کی پرورش میں حضرت ام المومنین ام سلمہ کے اگلے خاوند سے تھے ) کہ بسم اللہ کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نو آلہ اٹھایا کرو۔ " بعض علماء اس وقت بھی بسم اللہ کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔ بیوی سے ملنے کے وقت بھی بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقتنا یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا" فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بسم اللہ کی "ب" کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ بسم اللہ ابتدائی یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے۔ قرآن میں ہے ارکبوا فیھا بسم اللہ مرجریھا ومرسھا الخ اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ ابدا بسم اللہ اور ابتدات بسم اللہ ان کی دلیل آیت اقرا باسم دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لئے کہ فعل کے لئے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لئے امداد چاہنے کے لئے اور قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے واللہ اعلم۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا اے محمد کہئے استعیذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پھر کہا کہئے بسم اللہ الرحمن الرحیم مقصود یہ تھا کہ اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو۔ "
اسم یعنی نام ہی مسمیٰ یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی مسمی ہے۔ ابو عبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے۔ باقلانی اور ابن نور کی رائے بھی یہی ہے۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس مسمیٰ ہے اور نفس تسمیہ کا غیر ہے اور معزلہ کہتے ہیں کہ اسم مسمی کا غیر ہے اور نفس تسمیہ ہے۔ ہمارے نزدیک اسم مسمی کا بھی غیر ہے اور تسمیہ کا بھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ مسمی کا غیر ہے اور اگر اسم سے مراد ذات مسمی ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور مسمی کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے مسمی ہوتا ہی نہیں جیسے معدوم کا لفظ۔ کبھی ایک مسمی کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مشترک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور مسمیٰ اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے۔ اور نام والا الگ ہے۔ اور دلیل سنئے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے۔ مسمیٰ کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے۔ اور سنئے اگر اسم ہی کو مسمیٰ مانا جائے تو چاہئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ اور دلیل سنئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو۔ حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ مسمی ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ ہے اسی طرح اسماء کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا، اور جگہ فرمانا فسبح باسم ربک العظیم وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور مسمی اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت ہے۔ اسی طرح یہ وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا وظللہ الاسماء الحسنی یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور۔ اب ان کے دلائل بھی سنئے جو اسم اور مسمی کو ایک ہی بتاتے ہے۔ تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینت پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینت ہے ہو جاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ "باسم" کے متعلق تھا اب لفظ "اللہ" کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لئے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے ھو اللہ الذی یعنی وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہرو باطن کا جاننے والا ہے ، جو رحم کرنے والا مہربان ہے۔ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے ، سلامتی والا ہے ، امن دینے والا ہے ، محافظ ہے ، غلبہ والا ہے ، زبردست ہے ، برائی والا ہے ، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا ، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام اللہ ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں[1] پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ اور فرماتا ہے اللہ کو پکارو۔ یا رحمن کو پکارو جس نام سے پکارو۔ اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں اللہ ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں حضرت امام شافعی امام خطابی امام الحرمین امام غزالی بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ الف لام اس میں لازم ہے۔ امام خطابی نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ یا اللہ اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ یا داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ہذا کا الف لام والے اسم پر داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم میں داخل ہونا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن لجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں مصدر تَاَلَہ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع اَلَہَ یأَلَہ، اَلھتہ اور تالھا ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ ویذرک الھتک پڑھتے تھے مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ ) مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت (وھو اللہ فی السموت وفی الارض) اور آیت میں ہے (وھوالذی فی السماء الہ وفی الارض الہ) یعنی وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ الہ تھا جیسے فعال پھر ہمزہ کے بدلے الف و لام لایا گیا جیسے "الناس:کہ اس کی اصل "اناس" ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل الاہ ہے
الف لام حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل الالہ تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے لام کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت(لکنا ھو اللہ ربی) میں لکن انا کا لکنا ہوا ہے۔ چنانچہ حسن کی قرات میں لکن انا ہی ہے اور اس کا اشتقاق ولہ سے ہے اور اس کے معنی تحیر ہیں ولہ عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لئے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ ولاہ تھا۔ واؤ کو ہمزہ سے بدل دیا گیا جیسے کہ وشاح اور وسادۃ میں اشاح اور اسادہ کہتے ہیں۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ الھت الی فلان سے مشتق ہے جو کہ معنی میں "سکنت" کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اس کی معرفت میں ہے اس لئے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے ، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے آیت (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب)الخ یعنی ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لاہ یلوہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الہ الفصیل سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب الہ الرجل یالہ اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ، اس لئے اس کو اللہ کہتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے آیت(وھو یجیر ولا یجار علیہ) یعنی وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا (وھو منعم) حقیقی منعم وہی فرماتا ہے تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں، وہی مطعم ہے فرمایا ہے وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا۔ وہی موجد ہے فرماتا ہے ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہا کا یہی قول ہے ، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے رحمن، رحیم، مالک، قدوس وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ آیت(عزیز الحمید اللہ) الخ جو آتا ہے وہاں یہ عطف بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے آیت(ھل تعلم لہ سمیا) یعنی کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو؟ لیکن یہ غور طلب ہے واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی فرماتے ہیں کہ "مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پر خار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ ویران ہے۔ " ان معانی کی بناء پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو "لاہ" کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں لاھت الشمس چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور الہ کے معنی عبادت کرنے اور تالہ کے معنی حکم برداری اور قربانی کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لئے اسے اللہ کہتے ہیں۔ ابن عباس کی قرات میں ہے ویذرک والھتک اس کی اصل الالہ ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کالام زائد لام سے جو تعریف کے لئے لایا گیا ہے ملا دیا گیا پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ "اللہ" کی تھی۔
آیت(الرحمن الرحیم) کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے الرحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمن مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں بالمومنین رحیما آیا ہے۔ مبرد کہتے ہیں رحمن عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابو اسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ رحیم عربی لفظ ہے اور رحمن عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابو اسحٰق فرماتے ہیں "اس قول کو دل نہیں مانتا۔ " قرطبی فرماتے ہیں "اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا۔ " اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی گوئی گنجائش نہیں۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ "رحمن اور رحیم کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے ندمان اور ندیم۔ " ابو عبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فعلان فعیل کی طرح نہیں۔ فعلان میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے غضبان اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور فعیل صرف فاعل اور صرف مفعول کے لئے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ "رحمن عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ رحیم باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے آیت(وکان بالمومنین رحیما) مومنون کے ساتھ رحیم ہے۔ " ابن عباس فرماتے ہیں "یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔ " حضرت ابن عباس کی اس روایت میں لفظ ارق ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ ارفق کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ "اللہ تعالیٰ رفیق یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا۔ " ابن المبارک فرماتے ہیں "رحمن اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگاجائے عطا فرمائے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔ " ترمذی کی حدیث میں ہے "جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ " بعض شاعروں کا قول ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ رحمن کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور رحیم کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ دیکھئے قرآن کریم کی دو آیتوں آیت(ثم استوی علی العرش اور الرحمن علی العرش استوی) میں استویٰ کے ساتھ رحمن کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ رحیم فرمایا آیت(وکان بالمومنین رحیما) پس معلوم ہوا کہ رحمن میں مبالغہ بہ نسبت رحیم کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں یا رحمن الدنیا والاخرۃ ورحیمھما بھی آیا ہے۔ رحمن یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے آیت(واسئل من ارسلنا) الخ یعنی ان سے پوچھ لو تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے رحمن کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام رحمن العیامہ رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ رحیم میں رحمن سے زیادہ مبالغہ ہے اس لئے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت رحمن بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ اللہ کو یا رحمن کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لئے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بد ترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی کے دل میں نہ آئی۔ رحیم کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے۔ فرماتا ہے آیت(لقد جاءکم )الخ اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے وابستہ کیا ہے۔ جیسے آیت (انا خلقنا الانسان)الخ میں انسان کو سمیع اور بصیر کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے اللہ اور رحمن، خالق اور رزاق وغیرہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت رحمن سے کی۔ اس لئے کہ رحیم کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے ، اس لئے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم۔ پھر اس سے کم۔ اگر کہا جائے کہ جب رحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟ تو اس کے جواب میں حضرت عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے رحمن کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لئے رحیم کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔ رحمن و رحیم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب رحمن سے واقف ہی نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت (قل ادعوا اللہ وادعوا الرحمن) الخ نازل فرما کر ان کی تردید کی۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے۔ بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم رحمن یمامہ کو جانتے ہیں کسی اور رحمن کو نہیں جانتے۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے آیت(واذا قیل لھم اسجدواللرحمن) الخ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ رحمن کون ہے ؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں۔ درحقیقت یہ بد کار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر رحمن سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے نا آشنا تھے۔ اس لئے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام رحمن موجود ہے جو انہی کے سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن جریر میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہ رحمن فعلان کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔ حسن فرماتے ہیں رحمن کا نام دوسروں کے لئے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ ام سلمہ والی حدیث جس میں کہ ہر آیت پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ٹھہرا کرتے تھے۔ پہلے گزر چکی ہے اور ایک جماعت اسی طرح بسم اللہ کو آیت قرار دے کر آیت الحمد کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ میم کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب میم کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر میم کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرات کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت(بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی تفسیر ختم ہوئی اب آگے سنئے۔"
۲۔ساتوں قاری الحمد کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور الحمد للہ کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔
سفیان بن عینیہ اور روبہ بن عجاج کا قول ہے کہ دال پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔ ابن ابی عبلہ الحمد کی دال کو اور اللہ کے پہلے لام دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس لام کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے مگر اس کی شہادت زبان عرب سے ملتی ہے شاذ ہے۔ حسن اور زید بن علی ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور لام کے تابع دال کو کرتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں "الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے ، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بے شمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے شائق ہے۔ الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔ " بعض نے کہا کہ الحمد للہ کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور الشکرللہ کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق، ابن عطا صوفی بھی فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ الحمد للہ ہے۔ قرطبی نے ابن جریر کے قول کو معتبر کرنے کے لئے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی الحمد للہ شکرا کہے تو جائز ہے۔ دراصل علامہ ابن جریر کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے ، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ حمد کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ حمد کا لفظ عام ہے یا شکر کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ حمد کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر شکر کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر حمد تہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہو سکتا ہے یہ لفظ خاص اور شکر کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے شکر کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر شکرتہ نہیں کہہ سکتے البتہ شکرتہ علی کرمہ واحسانہ الی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ماحصل واللہ اعلم۔ ابو نصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں "حمد" مقابل ہے "ذم" کے۔ لہٰذا یوں کہتے ہیں کہ حمدت الرجل احمدہ حمداو و محمدۃ فھو حمید و محمود تحمید میں حمد سے زیادہ مبالغہ ہے۔ حمد شکر سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو شکر کہتے ہیں۔ عربی زبان میں شکرتہ اور شکرت لہ دونوں طرح کہتے ہیں لیکن لام کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ حمد سے بھی زیادہ عام ہے اس لئے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے ، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا واللہ اعلم۔
حضرت عمر نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ اکبر کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ الحمد للہ کا کیا مطلب؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا۔ اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العلمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا اسود بن سریع ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی) ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گی۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد للہ کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہو گا۔ قرطبی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں٠ جتنی الحمد للہ کہنے کی توفیق دینا ہے اس لئے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے المال والبنون الخ یعنی مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے ، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں۔ ابن ماجہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک وعظیم سلطانک تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے ، فرمایا تم یونہی اسے لکھ لو میں آپ اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا۔ قرطبی ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ سے بھی الحمد للہ رب العلمین افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔ اور علماء کا خیال ہے کہ لا الہ الا اللہ افضل ہے اس لئے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے ، اس کے کہلوانے کے لئے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری مسلم حدیث میں ہے ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے۔ حضرت جابر کی ایک مرفوع حدیث پہلے گذر چکی ہے کہ افضل ذکر لا الہ الہ اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ، الحمد میں الف لام استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں۔ رب کہتے ہیں مالک اور متصرف کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لئے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لئے یہ خوب جچتا ہے۔ رب کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جا سکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔
عالمین جمع ہے عالم کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ لفظ عالم بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی عوالم یعنی کئی عالم کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے ، ایک ایک وقت کو بھی عالم کہا جاتا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ علی ہذا القیاس۔ اس سے جنات اور انسان بھی مراد لئے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح سے بھی یہ مروی ہے۔ حضرت علی سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت لیکون للعالمین نذیرا بھی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ عالمین یعنی جن اور انس کے لئے ڈرانے والا ہو جائے۔ فرا اور ابو عبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہٰذا انسان، جنات، فرشتے ، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ زید بن اسلم، ابو محیص فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں ابن مروان بن حکم عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنو امیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروقکی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہو گئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیرالمومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے درپے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔ اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں۔ سعید بن میب رحمہ اللہ سے بھی یہ قول مروی ہے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب۔ عالم کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لئے کہ عالم یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔
یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے الحمد کے بعد اب الرحمن الرحیم کی تفسیر سنئے۔"
اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں۔ قرطبی فرماتے ہیں آیت(رب العلمین کے وصف کے بعد آیت(الرحمن الرحیم کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے۔ جیسے فرمایا آیت(نبی عبادی الخ یعنی میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی دردناک عذاب ہیں۔ اور فرمایا تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے۔ رب کے لفظ میں ڈراوا ہے اور رحمن اور رحیم کے لفظ میں امید ہے۔ صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا تو اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا۔"
بعض قاریوں نے ملک پڑھا ہے اور باقی سب نے مالک اور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور مالک نے لام کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ۔ اور ملیک اور ملکی بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی۔ زمخشری نے ملک کو ترجیح دی ہے اس لئے کہ حرمین والوں کی یہ قرات ہے۔ اور قرآن میں بھی آیت(لمن الملک الیوم اور قولہ الحق ولہ الملک ہے۔ امام ابو حنیفہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ملک پڑھا اس بنا پر کہ فعل اور فاعل اور مفعول آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بے حد غریب ہے۔ ابو بکر بن داؤد نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور حضرت معاویہ اور ان کے لڑکے مالک پڑھتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے ملک پڑھا۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرات کی صحت کا علم تھا۔ راوی حدیث ابن شہاب کو علم نہ تھا واللہ اعلم۔ ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مالک پڑھتے تھے۔ مالک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے آیت(انا نحن نرث الارض) الخ یعنی زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے۔ اور فرمایا آیت(قل اعوذ برب الناس ملک الناس) یعنی کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی۔ اور ملک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے فرمایا آیت(لمن الملک الیوم) الخ یعنی آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا۔ اور فرمایا آیت(قولہ الحق الخ اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے۔ اور فرمایا آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لئے کہ پہلے اپنا وصف رب العالمین ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا۔ جیسے فرمایا جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا اور فرمایا جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا۔ بعض ان میں سے بد بخت ہوں گے اور بعض سعادت مند۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ آیت(یوم الدین سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یا اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض سعادت مند۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ آیت(یوم الدین) سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ، تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔ جیسے کہ فرمان ہے آیت(الملک یومئذ الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے جیسا کہ فرمایا آیت(ویوم یقول کن فیکون) یعنی جس دن کہے گا "ہو جا" بس اسی وقت "ہو جائے گا" واللہ اعلم۔ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسے فرمایا آیت(ھواللہ الذی لا الہ الا ھو الملک الخ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بد ترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ " ایک اور حدیث میں ہے کہ "اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے۔ " قرآن عظیم میں ہے کس کی ہے آج بادشاہی؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی اور کسی کو ملک کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے جیسے کہ قرآن میں طالتون کو ملک کہا گیا اور آیت(وکان ورائھم ملک) کا لفظ آیا۔ اور بخاری مسلم میں ملوک کا لفظ آیا ہے اور قرآن کی آیت میں آیت(اذ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا) یعنی تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا، آیا ہے۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں ہے اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے اور جگہ ہے آیت(ائنا لمدینون) کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا؟ حدیث میں ہے "دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے۔ " جیسے کہ حضرت عمر فاروق اعظم کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کو خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں۔"
ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے "ایاک" پڑھا ہے۔ عمرو بن فائد نے ایاک پڑھا ہے۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے۔ اس لئے کہ "ایا" کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ھیاک پڑھا ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی ھیاک ہے۔ نستعین کی یہی قرات تمام کی ہے۔ سوائے یحییٰ بن وہاب اور اعمش کے۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں۔ قبیلہ بنو اسد، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو۔ اسی طرح بغیر معبد اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کا۔ لفظ ایاک کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حل صرف یہی دو حیزیں ہیں۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورہ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت آیت(ایاک نعبد و ایاک نستعین میں ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔ جیسے فرمایا آیت(فاعبدوہ وتوکل علیہ الخ یعنی اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔ فرمایا آیت(قل ھو الرحمن الخ کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا فرمایا آیت(رب المشرق والمغرب لا الہ الا ھو فاتحذہ وکیلا) یعنی مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لئے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الٰہی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ "الہ" ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی "ثناء" انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لئے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ جب بندہ آیت(الحمد للہ رب العلمین) کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب کہتا ہے آیت(الرحمن الرحیم) اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب وہ کہتا ہے آیت(مالک یوم الدین اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔
جب وہ آیت(ایاک نعبد و ایاک نستعین) کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لئے ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (ایاک نعبد) کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں، نہ ڈریں، نہ امید رکھیں۔ اور آیت(ایاک نستعین) سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو آیت(ایاک نعبد کو پہلے لانا اس لئے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر یہ جمع کے لئے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لئے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لئے آگے بڑھا ہوا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لئے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب آیت(ایاک نعبد و ایاک نستعین) کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ آیت(ایاک نعبد) میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ ایاک عبدنا میں نہیں اس لئے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔ کسی شاعر کا قول ہے (ترجمہ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، معراج کرانا وغیرہ۔ فرمایا آیت(الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ) الخ فرمایا آیت(وانہ لما قام عبد اللہ )الخ فرمایا آیت(سبحان الذی اسری بعبدہ) ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔ فرمان ہے آیت(ولقد نعلم یعنی ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لئے۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لئے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا۔ اس کی تکالیف کے لئے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لئے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو۔ اسی لئے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لئے ہو تو باطل ہے۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لئے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ حضرت معاذ جیسا میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں۔"
جمہور نے صراط پڑھا ہے۔ بعض نے سراط کہا ہے اور زے کی بھی ایک قراۃ ہے۔ فرا کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لئے ہے اور آدھا میرے بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لئے تیر بہدف ہے ، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی۔ کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا آیت(رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر) پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔ حضرت یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا آیت(لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی حدیث(الھمنا وفقنا ارزقنا اور اعطنا) یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے اور جگہ ہے آیت(وھدیناہ النجدین) یعنی ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی اور برائی دونوں کے۔ اور کبھی ہدایت "الی" کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے فرمایا آیت(اجتباہ وھداہ الی صراط مستقیم) اور فرمایا آیت(فاھدوھم الی صراط الحجیم) یہاں "ہدایت" ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے۔ اسی طرح فرمان ہے آیت(وانک لتھدی) الخ یعنی تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے اور کبھی ہدایت لام کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے آیت(الحمد للہ الذی ھدانا لھذا) یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا۔ صراط مستقیم کے معنی سنئے۔ امام ابو جعفر ابن جریر فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بے شمار شواہد موجود ہیں۔ صراط کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھا پن کے ساتھ بھی آتا ہے۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور تابعداری ہے۔
ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مسند احمد ترمذی حضرت علی کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے واللہ اعلم۔ حضرت عبد اللہ سے بھی یہی روایت ہے ابن عباس کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آیت(اھدنا الصراط مستقیم) کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بہت سے صحابہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے۔ ابن حنفیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا قول ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ صراط مستقیم کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے ، جو کہتا ہے کہ اے لوگو! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ گے۔ پس صراط مستقیم تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم ابن جریر ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں واللہ اعلم۔ مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں۔ ابو العالیہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے۔ لہٰذا صراط مستقیم کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ فالحمد للہ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ صراط مستقیم وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑا۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو، صراط مستقیم یہی ہے۔ اس لئے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی، صدیق، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے۔ اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے چاروں خلیفوں اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی صراط مستقیم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لئے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لئے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے۔ بھلا اور نیک بخث انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے۔ بالخصوص بے قرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا وہ ضامن ہے۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے۔ آیت(یاایھا الذین امنوا امنوا باللہ) الخ اے ایمان والو اللہ پر، اس کے رسولوں پر اس کی اس کتاب پر، جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں، سب پر ایمان لاؤ۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور دیکھئے اللہ رب العزت نے اپنے ایمان دار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں آیت(ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا میں لدنک) رحمۃ انک انت الوھاب یعنی اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے۔ یہ بھی وارد ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورہ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس آیت(اھدنا الصراط المستقیم) کے معنی یہ ہوئے کہ الٰہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا۔"
اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت صراط مستقیم کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے واللہ اعظم۔ اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورہ نساء میں آچکا ہے فرمان ہے آیت(ومن یطع اللہ والرسول فاؤلئک مع الذین انعم اللہ علیھم) الخ یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی، صدیق، شہید، صالح لوگ ہیں، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں، نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا۔ یہ آیت ٹھیک آیت(ومن یطع اللہ) کی طرح ہے۔ ربیع بن انس کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں۔ ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں مومن ہیں۔ وکیع کہتے ہیں مسلمان۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں۔ ابن عباس کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے واللہ اعلم۔ جمہور کی قرات میں غیرے کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے۔ زمحشری کہتے ہیں رے کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عمر بن خطاب کی قرات یہی ہے اور ابن کثیر سے بھی یہی روایت کی گئی ہے۔ علیھم میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور انعمت عامل ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اطاعت گزار، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے۔
ان کی راہ سے بچا، جن پر غضب و غصہ کیا گیا، جن کے ارادے فاسد ہو گئے ، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ کر اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جانے کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لئے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ غیر کا لفظ یہاں پر استثناء کے لئے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے۔ غیر المغضوب سے مراد غیر صراط المغضوب ہے۔ مضاف الیہ کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لئے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آچکا ہے۔ بعض کہتے ہیں آیت(ولا الضالین) میں لا زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے آیت(غیر المغضوب علیھم والضالحین) اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آیت(غیر المغضوب علیھم وغیر الضالین) پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح حضرت ابی بن کعب سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا۔ تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ لا نفی کی تاکید کے لئے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہی نہ ہو کہ یہ انعمت علیھم پر عطف ہے اور اس لئے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے۔ اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں علم نہیں اسی لئے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی۔ اس لئے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد کرنے کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لئے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے آیت(من لعنہ اللہ وغضب علیہ) اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے۔ آیت(قدضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السببیل) یعنی یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مسند احمد میں ہے۔ حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند لوگوں کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبر گیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بھاگتا پھرتا ہے ؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ حضرت علی تھے آپ نے فرمایا لو ان سے سواری مانگ لو۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ سن کر میں بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بے تکلفی کے ساتھ بولتے ہیں۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا عدی آیت(لا الہ الا اللہ) کہنے سے کیوں بھاگتے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے ؟ آیت(اللہ اکبر) کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے ؟ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بے تکلفی کا ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آیت(مغضوب علیھم) سے مراد یہود ہیں اور آیت(الضالین) سے مراد نصاریٰ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عدی کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا۔ بعض روایتوں میں ان کا نام عبد اللہ ابن عمرو ہے واللہ اعلم۔ ابن مردویہ میں ابو ذر سے بھی یہی روایت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں سے بھی یہ تفسیر منقول ہے۔ ربیع بن انس، عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری۔ دوسری سورہ بقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے آیت(بئس ما اشتروابہ) الخ اس آیت میں کہ اس پر غضب پر غضب نازل ہوا۔ اور سورہ مائدہ کی آیت (قل ھل انبئکم بشر) الخ میں بھی ہے کہ ان پر غضب الٰہی نازل ہوا اور جگہ فرمان الٰہی ہے آیت(لعن الذین کفروا) یعنی بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے اور تاریخ کی کتابو ں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جبکہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الٰہی کا ایک حصہ نہ پا لو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لئے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اس لئے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا۔ انہی میں حضرت ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الٰہی نے ان کی رہبری کی اور یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
ضاد اور ظے کی قرات میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں۔ اس لئے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے ، ضاد کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور ظے کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف مجہورہ اور رخوہ اور مطبقہ ہیں پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو، اسے معاف ہے کہ ضاد کو ظے کی طرح پڑھ لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میں ضاد کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے۔
یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بے کسی اور بے بسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں۔ تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہودو نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور انعمت کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور آیت(مغضوب علیھم کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت(غضب اللہ علیھم) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں حالانکہ اور جگہ ہے آیت(من یہد اللہ فھوالمھتد ومن یضلل) الخ یعنی اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں۔ اور جگہ فرمایا آیت(من یضلل اللہ فلا ھادی لہ) الخ یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے۔ آیت(فاماالذین فی قلوبھم زیغ) یعنی جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لئے آیت(الحمد للہ) بدعتیوں کے لئے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لئے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے۔
سورہ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ آمین مثل یاسین کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ تو قبول فرما۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد، ابو داؤد اور ترمذی میں وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آیت(غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین) کہہ کر آمین کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے۔ ابو داؤد میں ہے آواز بلند کرتے تھے۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ حضرت علی حضرت ابن مسعود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے اور دارقطنی بتاتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے (ابو داؤد) حسن بصریٰ اور جعفر صادق سے آمین کہنا مروی ہے۔ جیسے کہ آیت(امین البیت الحرام) قرآن میں ہے۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہئے۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے۔ نمازی خود اکیلا ہو، خواہ مقتدی ہو، خواہ امام ہو، ہر حالت میں آمین کہے۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب امام ولاالضالین کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا۔ ابن عباس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں۔ آپ نے فرمایا اے اللہ تو کر۔ جوہری کہتے ہیں اس کے معنی "اسی طرح ہو" ہیں۔ ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ہماری امیدوں کو نہ توڑ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی "اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما" کے ہیں۔ مجاہد، جعفر صادق ہلال بن سیاف فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ابن عباس سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں۔ امام مالک کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو۔ اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو۔ لیکن بخاری مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پڑھ کر آمین کہتے تھے۔
جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے ، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی با آواز بلند آمین کہیں۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی با آواز بلند نہ کہیں۔ امام ابو حنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ اور ایک روایت میں امام مالک سے بھی مروی ہے اس لئے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے۔ لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی با آواز بلند آمین نہ کہیں اس لئے کہ وہ امام کی قرات سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے واللہ اعلم۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرات پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہئے۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو، خواہ منفرد، مترجم، مسند احمد میں صرف عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں۔ ایک تو جمعہ کو اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا۔ ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو۔ اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں۔ ابن مردویہ میں بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر۔ حضرت انس والی حدیث میں ہے کہ نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا۔ اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا آیت(ربنا انک اتیت فرعون) الخ ہے یعنی الٰہی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے آیت(قداجیبت دعوتکما) الخ یعنی تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ تم مضبوط رہو اور بے علموں کی راہ نہ جاؤ۔ دعا صرف حضرت موسیٰ کرتے تھے اور حضرت ہارون صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرات نہ کرے ، اس لئے کہ اس کا سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرات اس کی قرات ہے۔ (مسند احمد) حضرت بلال کہا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے۔ اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں الحمد کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں واللہ اعلم۔ (یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے ) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام آیت(غیر المغضوب علیھم ولاالضالین) کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے ، غالب آئے مالِ غنیمت جمع کرے ، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے "یہ کیوں۔ " تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے۔ !"