اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ جب یہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ آپ قطعی طور پر اس کے رسول ہیں مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی طور پر جھوٹے ہیں
۲۔۔۔ انہوں نے تو اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پھر یہ (دوسروں کو بھی) روکتے ہیں اللہ کی راہ سے بلاشبہ بڑی ہی بری ہیں وہ حرکتیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں
۳۔۔۔ یہ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے کفر کیا تو انکے دلوں پر مہر کر دی گئی جسکے نتیجے میں اب یہ کچھ نہیں سمجھتے
۴۔۔۔ اور جب تم انہیں دیکھو انکے ڈیل ڈول تم کو اچھے لگیں اور اگر یہ بولیں تو تم انکی باتیں سنتے رہ جاؤ (مگر حقیقت میں ) یہ گویا لکڑی کے ایسے کندے ہیں جو (دیوار وغیرہ کی) ٹیک پر رکھ دئیے گئے ہوں ہر اونچی آواز کو یہ لوگ اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں یہ دشمن ہیں پس تم ان سے بچ کر رہو اللہ انہیں غارت کرے یہ کہاں سے کہاں بہکے جا رہے ہیں
۵۔۔۔ اور (انکا حال تو یہ ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تم لوگ (بارگاہِ رسالت میں ) تاکہ بخشش کی دعاء کریں تمہارے لیے اللہ کے رسول تو یہ اپنے سر جھٹک کر (اور پیٹھ پھیر کر) چل دیتے ہیں اور تم انکو دیکھو گے تو (انکو ایسا پاؤ گے کہ) یہ بے رخی برتتے ہیں (قبولِ حق سے ) اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر
۶۔۔۔ (اے پیغمبر) آپ ان کیلئے معافی کی درخواست کریں یا نہ کریں ان کیلئے بہر حال برابر ہے اللہ انکو ہرگز معاف نہیں کرے گا بے شک اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا ایسے بدکار لوگوں کو
۷۔۔۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں پر مت خرچ کرو جو رسول اللہ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ تتر بتر ہو جائیں حالانکہ اللہ ہی کے لیے ہیں سب خزانے آسمانوں اور زمین کے مگر یہ منافق لوگ سمجھتے نہیں
۸۔۔۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینے واپس پہنچ گئے تو جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو وہاں سے نکال کر دم لے گا حالانکہ عزت تو اصل میں اللہ ہی کیلئے ہے اور اس کے رسول اور ایمان والوں کیلئے مگر یہ منافق جانتے نہیں
۹۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو (خبردار! کہیں ) غافل نہ کرنے پائیں تم کو تمہارے مال اور نہ تمہاری اولاد اللہ کے ذکر (اور اس کی یاد دلشاد) سے اور جو کوئی ایسا کرے گا تو ایسے لوگ خود اپنا ہی نقصان کرنے والے ہونگے
۱۰۔۔۔ اور خرچ کرو تم اس میں سے جو کہ دیا ہے ہم نے تم کو (اپنے کرم سے ) قبل اس سے کہ آ پہنچے تم میں سے کسی کو موت پھر وہ (مارے افسوس کے ) یوں کہنے لگے کہ اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہ دے دی تاکہ میں خوب صدقہ (و خیرات) کرتا اور میں ہو جاتا نیک لوگوں میں سے
۱۱۔۔۔ اور اللہ ہرگز ڈھیل نہیں دیتا کسی شخص کو جبکہ آ پہنچے اس کا وقت (مقرر) اور اللہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو
۱۔۔۔ منافق انسان چونکہ اپنے ضمیر کے سامنے جھوٹا ہوتا ہے اس کو اپنے اندر کی حقیقت کا پورا پتہ ہوتا ہے اس لئے وہ دوسروں کے سامنے قسمیں کھا کر اپنا اعتبار قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ سچا انسان اپنے اندر سے اور اپنے ضمیر کے سامنے چونکہ سچا ہوتا ہے اس لئے اس کو قسمیں کھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اس لئے وہ اپنے قلب و باطن کے اعتبار سے مطمئن رہتا ہے، سو سچائی اور صدق و اخلاص کی دولت انسان کو اس کے قلب و باطن کے اعتبار سے مطمئن رکھتی ہے اور اس طرح مومن صادق کو اس کے صدق و اخلاص کا یہ ایک نقد اور فوری صلہ و بدلہ ملتا ہے جبکہ منافق شخص اپنے چھپے کفر و نفاق اور اندرونی قلق و اضطراب کے نتیجے میں سکون و اطمینان کی دولت سے محروم اور بے اعتباری و بے کلی کی کیفیت سے دو چار رہتا ہے اور اس طرح اس کو اپنے کفر و نفاق کی ایک نقد سزا یہیں ملتی رہتی ہے مگراس کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا، اور وہ برابر قلق و اضطراب اور بے کلی و بے چینی ہی میں مبتلا رہتا ہے بہر کیف یہاں پر پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ جب منافق لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں سو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی قطعی حقیقت ہے جو ان لوگوں کی شہادت و گواہی کی محتاج نہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ قطعی طور پر اور پرلے درجے کے جھوٹے ہیں کیونکہ ان کی یہ گواہی دل سے نہیں، بلکہ یہ محض ان لوگوں محض زبانی کلامی جمع خرچ ہے جس کا کوئی وزن و اعتبار نہیں، کہ ان کی قسمیں تو محض دھوکہ دہی اور اپنے کفر و نفاق کو چھپانے کے لئے ہوتی ہیں جیسا کہ اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے تو اپنی قسموں کو محض اپنے لئے ڈھال بنا رکھا ہے، تاکہ اس طرح یہ اپنے آپ کو اہل حق کی گرفت و پکڑ سے بچا سکیں۔
۲۔۔۔ یعنی پہلے ان لوگوں نے ایمان کی طرف قدم بڑھایا جس سے ان کے لئے نور ایمان سے سرفرازی کی راہ کھل گئی تھی لیکن پھر انہوں نے اپنے خبث باطن اور سوء اختیار کی بناء پر اس سے قدم روک لیا اور اپنی جھوٹی قسموں کو ہی اپنی ڈھال بنالیا۔ اور یہ سمجھا کہ جب اس طرح کی ظاہر داری اور جھوٹی قسموں سے کام چل جاتا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم پوری طرح اسلام میں داخل ہو کر دوسروں سے کٹ جائیں اور خواہ مخواہ ان کے طعنے مول لیں سو اس طرح ان بدبختوں نے اپنے منافقانہ رویے سے نور حق و ہدایت کی نعمت عظمیٰ کی بے قدری اور ناشکری کا ارتکاب کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا قانون اور اس کی سنت و دستور یہی ہے کہ جو لوگ نور حق و ہدایت کی اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرتے ہیں وہ ان کی اس روشنی میں اضافہ فرماتا ہے اور اگر وہ اس کی ناشکری اور بے قدری کرتے ہیں تو وہ اس کی پاداش میں ان سے اس روشنی کو سلب کر لیتا ہے اور ان کے بعد ان کے دلوں پر مہر کر دی جاتی ہے جس کا اثر و نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ صحیح طور سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ اس سب سے بڑے اور دائمی خسارے میں مبتلاء ہو جاتے ہیں جس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت ان کے لئے باقی نہیں رہ جاتی وَذَالِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْن۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،
۶۔۔۔ سو اس سے ایک طرف تو ان لوگوں کے اس جرم کفر و نفاق کی سنگینی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایسے بدبخت ہیں کہ اگر حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کے لئے مغفرت و بخشش کی دعا کریں تو وہ بھی ان کے حق میں کبھی قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے بدکاروں اور نافرمانوں کو ہدایت کی نعمت سے کبھی نہیں نوازتا، وہ ہدایت کی نعمت اور اس کی روشنی سے وہ انہی لوگوں کو سرفراز فرماتا ہے جو اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تو ایسوں کے حق میں اللہ تعالیٰ بلاشبہ بڑا ہی بخشنے والا، اور تواب و رحیم ہے جیسا کہ سورہ نساء کی آیت نمبر۶۴ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے سو صدق و اخلاص اور توبہ و رجوع الی اللہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے اور دوسری حقیقت اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے، جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کیونکہ اول تو استغفار یعنی مغفرت و بخشش کی دعا کرنا ہی اختیار کلی کے منافی ہے، کیونکہ دعا و درخواست پیش کرنے اور اختیار کلی کے درمیان منافات ہے، جو مختار کل ہوتا ہے وہ دعاء و درخواست نہیں کرتا بلکہ اس کا کام حکم و ارشاد فرمانا ہوتا ہے، اور جو دعاء و درخواست کرتا ہے وہ مختار کل نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس مختار کل کا محتاج ہوتا ہے جس کے حضور وہ اپنی دعاء و درخواست پیش کرتا ہے، اور دوسرے اس لئے کہ یہاں پر پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا ہے، کہ آپ ان لوگوں کے لئے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں ایک برابر ہے کیونکہ اللہ ان کی بخشش کبھی نہیں فرمائے گا۔ اور سورہ توبہ میں تو اس بارے اور بھی زیادہ سختی کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش کی دعا کریں، تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی بخشش کبھی نہیں فرمائے گا۔ (التوبۃ۔٨٠) اور ستر کا لفظ یہاں پر تکثیر کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے نہ کہ تحدید کے لئے جیسا کہ ہر زبان کے اندر اس طرح کے استعمالات و مشہور و معروف ہیں خود ہماری اپنی زبان اور ہمارے عرف و محاورے کے اندر بھی اس کی طرح طرح کی نظیریں موجود ہیں پس اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے لئے جتنا بھی استغفار کریں اور ان کی بخشش کی دعاء مانگیں اللہ ان کی بخشش کبھی نہیں فرمائے گا۔ اسی لئے روایات میں وارد ہے کہ اس پر حضرت نبی رحمت علیہ الصلوٰۃ و اسلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار پر بھی ان کی بخشش ہو جائے گی تو میں اس کے لئے بھی تیار ہوں یعنی ایسا بھی ہونے کا نہیں سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے۔ بلکہ مختار کل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں سبحانہ و تعالیٰ۔ بہرکیف اس سے ایک طرف تو ان بدبختوں کی محرومی اور بدبختی کی شدت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ اپنے غرور واستکبار اور اعراض و رُوگردانی کی بناء پر اس قدر محروم اور بدبخت ہو گئے کہ اگر پیغمبر بھی ان کے لئے مغفرت و بخشش کی دعاء کریں تو وہ بھی ان کے حق میں قبول نہیں ہو گی، اور دوسری طرف اس سے ان کی اس بدبختی اور محرومی کے سبب اور باعث کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ فاسق اور بدکار لوگ ہیں، اور اللہ تعالیٰ ایسے فاسق اور بدکار لوگوں کو نور ہدایت سے نہیں نوازتا، والعیاذ باللہ جل و علا، اس کے یہاں نور حق و ہدایت کی دولت سے سرفرازی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو سچے دل سے اس کے طالب بن کر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ و باللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی لاحیاۃ،
۱۱۔۔۔ یعنی آج آپ لوگوں کو اپنی زندگیوں میں اور اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جو موقع ملا ہوا ہے اس کو غنیمت سمجھو اور اللہ کے دیے بخشے مال و دولت میں سے اللہ کی راہ میں اور اس کی رضاء کے لئے خرچ کر کے اس کو آخرت کی اپنی حقیقی اور ابدی زندگی کے لئے محفوظ کر لو، اور اس کو توشہ آخرت بنا لو۔ ورنہ موت کی گھڑی کے آ جانے کے بعد تم لوگ اپنے لئے تاخیر و مہلت کے حصول کے لئے جتنا بھی چیخو چلاؤ گے اس کا کوئی بھی فائدہ تم لوگوں کو کسی بھی طرح نہیں ہو سکے گا کہ کسی شخص کی موت کے وقت کے آ جانے کے بعد اس کے ٹلنے کی پھر کوئی صورت اس کے لئے ممکن نہیں ہو سکتی، اللہ تم لوگوں کے کرتُوتُوں سے پوری طرح باخبر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ اگر بالفرض تم لوگوں کو واپسی کی مہلت مل بھی جائے، تو تم نے پھر بھی وہی کچھ کرنا ہے جو اس سے پہلے کرتے رہے ہو، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ (الانعام۔۲٨) یعنی اگر ایسے لوگوں کو بالفرض واپس لوٹا بھی دیا جائے تو انہوں نے یقیناً پھر بھی وہی کچھ کرنا ہے جس میں سے ان کو روکا گیا تھا، اور یہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں وَنَکْتَفِی بہٰذا القدر من التفسیر المختصر لسورۃ المنافقون والحمد للہ جل و علا