تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الواقِعَة

(سورۃ الواقعۃ ۔ سورہ نمبر ۵۶ ۔ تعداد آیات ۹۶)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     جب واقع ہو جائے گی وہ ہو پڑنے والی

۲۔۔۔     تو اس وقت اس کے پیش آنے کو کوئی جھٹلانے والا نہیں ہو گا

۳۔۔۔     وہ پست و بلند کر دینے والی ہو گی

۴۔۔۔     جب کہ لرز اٹھے گی یہ (ٹھوس) زمین تھر تھرا کر

۵۔۔۔     اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے یہ (دیو ہیکل) پہاڑ ٹوٹ کر

۶۔۔۔     پھر یہ ہو جائیں گے ایک غبارِ پراگندہ

۷۔۔۔     اور تم لوگ اس وقت تقسیم ہو جاؤ گے تین مختلف گروہوں میں

۸۔۔۔     سو دائیں بازو والے کیا کہنے ان دائیں بازو والوں کے

۹۔۔۔     اور بائیں بازو والے کیسے بدنصیب (اور بدحال) ہوں گے وہ بائیں بازو والے

۱۰۔۔۔     اور جو سبقت لے گئے تو وہ سبقت لے گئے

۱۱۔۔۔     یہ وہ (خوش نصیب) ہیں جن کو نوازا گیا ہو گا قرب (خاص) سے

۱۲۔۔۔     یہ رہ بس رہے ہوں گے نعمتوں بھری عظیم الشان جنتوں میں

۱۳۔۔۔     ایک بڑا گروہ ہو گا اگلوں میں سے

۱۴۔۔۔     اور تھوڑے پچھلوں میں سے

۱۵۔۔۔     (براجمان ہوں گے یہ) سونے کی تاروں سے بنے ہوئے عظیم الشان تختوں پر

۱۶۔۔۔     (نہایت آرام و سکون سے) ان پر ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے

۱۷۔۔۔     ان کے پاس ایسے لڑکے آمد و رفت کر رہے ہوں گے جو سدا لڑکے ہی رہیں گے

۱۸۔۔۔     پیا لے اور جگ اٹھائے اور ایسے جامہائے شراب لئے ہوں جن کو بھرا گیا ہو گا بہتے ہوئے چشمے سے

۱۹۔۔۔     نہ تو اس سے ان کے سر چکرائیں گے اور نہ ہی ان کی عقلوں میں کوئی فتور آئے گا

۲۰۔۔۔     نیز وہ ان کے سامنے طرح طرح کے ایسے پھل لئے پھر رہے ہوں گے جنہیں وہ خود پسند کریں گے

۲۱۔۔۔     اور ان پرندوں کا گوشت بھی جس کی وہ خواہش کریں گے

۲۲۔۔۔     اور ان کے لئے خوبصورت آنکھوں والی عظیم الشان حوریں ہوں گی

۲۳۔۔۔     (صفائی اور نفاست میں) چھپا کر رکھے گئے موتیوں جیسی

۲۴۔۔۔     (یہ سب کچھ) ان کے ان اعمال کے بدلے میں ہو گا جو وہ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے

۲۵۔۔۔     وہ نہ تو وہاں کوئی بے کار بات سنیں گے اور نہ ہی کوئی گناہ کی بات

۲۶۔۔۔     بس سلام ہی سلام کی آواز سنائی دے گی

۲۷۔۔۔     اور دائیں بازو والے کیا ہی خوش نصیب ہوں گے وہ دائیں بازو والے

۲۸۔۔۔     (جو رہیں گے) بے خار بیریوں میں

۲۹۔۔۔     تہ بہ تہ چڑھے ہوئے کیلوں میں

۳۰۔۔۔     لمبے لمبے سایوں میں

۳۱۔۔۔     ہر دم رواں پانی میں

۳۲۔۔۔     اور طرح طرح کے ایسے با افراط پھلوں میں

۳۳۔۔۔     جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان میں کوئی روک ٹوک ہو گی

۳۴۔۔۔     بلند (مرتبہ و شان کے) بچھونوں میں

۳۵۔۔۔     بلاشبہ ہم (جنتیوں کو ملنے والی) ان عورتوں کو بالکل ایک ایسی نئی اٹھان دیں گے

۳۶۔۔۔     کہ انہیں کنواری بنا دیں گے

۳۷۔۔۔     دل لبھانے وا لیاں ہم عمر

۳۸۔۔۔     یہ سب کچھ دائیں بازو والوں کے لئے ہو گا

۳۹۔۔۔     بہت سے پہلوں میں سے ہوں گے

۴۰۔۔۔     اور بہت سے پچھلوں میں سے

۴۱۔۔۔     اور بائیں بازو والے کتنے ہی بدنصیب ہوں گے بائیں بازو والے

۴۲۔۔۔     وہ لو کی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے

۴۳۔۔۔     اور ایک نہایت ہی ہولناک سیاہ دھوئیں کے سائے میں

۴۴۔۔۔     جو نہ ٹھنڈا ہو گا نہ آرام دہ

۴۵۔۔۔     بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) اپنی خوشحالی میں مگن رہا کرتے تھے

۴۶۔۔۔     اور یہ (کفر و شرک کے) اس سب سے بڑے گناہ پر اصرار کرتے تھے

۴۷۔۔۔     اور یہ لوگ (بڑے تعجب سے اور استہزا کے طور پر) کہا کرتے تھے کہ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو کیا واقعی ایسی حالت میں ہم دوبارہ اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟

۴۸۔۔۔     اور کیا ہمارے وہ باپ دادا بھی جو ہم سے بھی کہیں پہلے گزر چکے ہیں ؟

۴۹۔۔۔     (ان سے) کہو کہ ہاں بلاشبہ اگلوں اور پچھلوں سب نے

۵۰۔۔۔     بہر حال اکٹھے ہو کر رہنا ہے مقرر دن کے طے شدہ وقت میں

۵۱۔۔۔     پھر تم سب کو اے گمراہو جھٹلانے والو

۵۲۔۔۔     بہر حال کھانا ہے زقوم کے ایک نہایت ہی ہولناک (اور کریہہ المنظر) درخت سے

۵۳۔۔۔     پھر (کھانا بھی اتنا اور اس قدر کہ) تمہیں اسی سے بھرنا ہو گا اپنے پیٹوں کو

۵۴۔۔۔     پھر تم نے اس پر پینا ہو گا (وہاں کے) اس کھولتے پانی سے

۵۵۔۔۔     پھر تمہارا یہ پینا بھی ایسے ہو گا جیسے تونس لگے ہوئے اونٹ پیتے ہیں

۵۶۔۔۔     یہ ہو گی (حق و ہدایت کے نور سے محروم) ان لوگوں کی مہمانی بدلے کے اس دن

۵۷۔۔۔     ہم ہی نے پیدا کیا ہے تم سب کو (اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے) پھر تم لوگ تصدیق کیوں نہیں کرتے ؟

۵۸۔۔۔     اچھا یہ تو بتاؤ کہ یہ منی جو تم گراتے ہو

۵۹۔۔۔     کیا تم اس سے بچہ پیدا کرتے ہو یا ہم ہی ہیں پیدا کرنے والے ؟

۶۰۔۔۔     ہم ہی نے مقدر کیا تمہارے درمیان تمہاری موت کو اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں

۶۱۔۔۔     کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور تم کو کسی ایسی صورت میں بنا کھڑا کریں جس کو تم نہیں جانتے

۶۲۔۔۔     اور تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو اپنی پہلی پیدائش کو تو پھر تم سبق کیوں نہیں لیتے (حق و حقیقت تک رسائی کا)؟

۶۳۔۔۔     پھر کیا تم نے اس بیج کے بارے میں بھی کبھی غور کیا جو تم لوگ زمین میں ڈالتے ہو؟

۶۴۔۔۔     کیا تم لوگ اس کو اگاتے ہو یا ہم ہی ہیں اس کے اگانے (اور پیدا کرنے) والے ؟

۶۵۔۔۔     اگر ہم چاہیں تو چورا چورا کر کے رکھ دیں اس (ہری بھری کھیتی) کو پھر تم لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ

۶۶۔۔۔     کہ جی یقیناً ہم پر تو بڑی چٹی پڑ گئی

۶۷۔۔۔     بلکہ ہماری تو قسمت ہی مار دی گئی

۶۸۔۔۔     پھر کیا تم نے کبھی اس پانی کے بارے میں بھی غور کیا جو تم لوگ (دن رات غٹاغٹ) پیتے ہو؟

۶۹۔۔۔     کیا اس کو بادل سے تم نے برسایا ہے یا ہم ہی ہیں اس کے برسانے والے ؟

۷۰۔۔۔     اگر ہم چاہیں تو اس کو کڑوا (اور کھاری) بنا کر رکھ دیں پھر تم لوگ شکر کیوں نہیں ادا کرتے (اپنے واہب مطلق رب کا؟)

۷۱۔۔۔     پھر کیا تم لوگوں نے کبھی اس آگ کے بارے میں بھی غور کیا جو تم سلگاتے ہو؟

۷۲۔۔۔     کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم ہی اس کے پیدا کرنے والے ؟

۷۳۔۔۔     ہم ہی نے اس کو بنا دیا یاد دہانی کا ایک عظیم الشان ذریعہ اور سامان زیست ضرورت مندوں کے لئے

۷۴۔۔۔     پس آپ تسبیح کریں اپنے رب کے نام (پاک) کی جو کہ بڑا ہی عظمت والا ہے

۷۵۔۔۔     پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں ان جگہوں کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں

۷۶۔۔۔     اور یقیناً یہ ایک بڑی ہی عظیم الشان قسم ہے اگر تم لوگ سمجھو

۷۷۔۔۔     بے شک یہ قرآن ہے بڑا ہی عزت (و عظمت) والا

۷۸۔۔۔     (جو ثبت و مندرج ہے) ایک (محفوظ و) پوشیدہ کتاب میں

۷۹۔۔۔     اس کو کوئی چھو نہیں سکتا سوائے ان کے جن کو ہر طرح سے پاک بنایا گیا ہے

۸۰۔۔۔     یہ سراسر اتارا ہوا کلام ہے رب العالمین کی طرف سے

۸۱۔۔۔     تو کیا تم لوگ اسی کلام (صدق نظام) سے لاپرواہی برت رہے ہو؟

۸۲۔۔۔     اور تم نے اپنی روزی ہی یہ بنا رکھی ہے کہ تم اسے جھٹلاتے جاؤ؟

۸۳۔۔۔     سو کیوں نہیں ہوتا (اس وقت) جب کہ روح (جان کنی کے موقع پر) حلق کو پہنچ جاتی ہے

۸۴۔۔۔     اور تم اس وقت (پاس بیٹھے) دیکھ رہے ہوتے ہو؟

۸۵۔۔۔     اور ہم (اس وقت) اس کے تم سے بھی کہیں زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھ نہیں سکتے

۸۶۔۔۔     سو اگر واقعی تمہارا کوئی حساب کتاب ہونے والا نہیں

۸۷۔۔۔     تو تم اس (روح) کو لوٹا کیوں نہیں دیتے اگر تم سچے ہو

۸۸۔۔۔     پھر اگر وہ مرنے والا مقربین میں سے ہو گا

۸۹۔۔۔     تو اس کے لئے ایک عظیم الشان راحت عمدہ روزی اور نعمتوں بھری جنت ہو گی

۹۰۔۔۔     اور اگر وہ دائیں جانب والوں میں سے ہو گا

۹۱۔۔۔     تو (اس سے کہا جائے گا کہ) سلام ہو تم کو کہ تم دائیں جانب والوں میں سے ہو

۹۲۔۔۔     اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہو گا

۹۳۔۔۔     تو اس کے لئے مہمانی ہو گی ایک کھولتے ہوئے ہولناک پانی سے

۹۴۔۔۔     اور اس کو گھسنا (اور داخل ہونا) ہو گا (دوزخ کی دہکتی) بھڑکتی آگ میں

۹۵۔۔۔     بے شک یہ سب کچھ (جو کہ ذکر و بیان ہوا) قطعی طور پر حق ہے

۹۶۔۔۔     پس تم تسبیح کرو اپنے رب کے نام (پاک) کی جو کہ بڑا ہی عظمت والا ہے

تفسیر

 

۲۔۔  سورۃ الواقعۃ کے لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ وہ ایک ایسی قطعی اور ہونی شدنی حقیقت ہے جس نے اپنے وقت پر بہر حال ہو کر رہنا ہے۔ اس وقت کوئی بھی متنفس ایسا نہیں ہو گا جو اس کو جھٹلا سکے۔ بلکہ ہر کوئی اس کو ماننے پر مجبور ہو گا۔ مگر جن لوگوں نے اس دنیا میں اس کو نہیں مانا ہو گا، ان کو اس روز کے ماننے سے کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے۔ کیونکہ وہ ماننا بالمشاہدہ یعنی دیکھنے کے بعد کا ماننا ہو گا۔ جو نہ معتبر ہے اور نہ مفید و مطلوب، کیونکہ ماننا وہ معتبر اور مطلوب و مفید ہے جو بالغیب یعنی بن دیکھے ہو۔ جس کا موقع اس دنیاوی زندگی میں ہے، اور بس، جو اس وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہو گی۔ سو اس سے دنیاوی زندگی کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت و عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۳۔۔  سو قیامت کا وہ حادثہ کبریٰ جہاں آسمان و زمین کی اس کائنات کے نظام کو تہ و بالا کر کے رکھ دے گا، اور ایک نیا جہاں نئے قوانین و نوامیس کے تحت وجود میں آئے گا۔ اسی طرح اس میں عزت و عظمت اور شرف و ذلت کے وہ تمام معیارات بھی یکسر تبدیل ہو جائیں گے، جو اس سے قبل اہل دنیا کے یہاں معروف و مشہور رہے ہوں گے۔ سو اس دن عزت و عظمت انہی لوگوں کو نصیب ہو گی جو دنیا میں ایمان صادق اور عمل صالح کی دولت سے سرفراز رہے ہوں گے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ اور اس کے بالمقابل پست اور ذلیل وہی لوگ ہوں گے جو ایمان و عمل کی اس دولت سے محرومی کے ساتھ ہی دنیا سے اٹھے ہوں گے۔ خواہ دنیا میں وہ مال و دولت اور جاہ و منصب وغیرہ کے دنیاوی اور مادی اعتبارات سے کتنے ہی بڑے کیوں نہ رہے ہوں۔

۱۴۔۔  سو اس سے اس خفض و رفع کی تفصیل بیان فرما دی گئی جس کا ذکر اوپر آیت نمبر۳ میں فرمایا گیا ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز تم لوگ تین گروہوں میں بٹ جاؤ گے ایک گروہ اصحاب میمنہ یعنی داہنے ہاتھ والوں کا ہو گا، اور یہ وہ خوش نصیب ہوں گے جن کو ان کے نامہ ہائے اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، جیسا کہ سورہ الحاقۃ کی آیت نمبر۱٩، میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، اور دوسرا گروہ اصحاب المشئمۃ یعنی بائیں ہاتھ والوں کا ہو گا اور یہ وہ بدبخت لوگ ہوں گے جن کو ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے، جیسا کہ اس کی تفصیل کو سورہ الحاقۃ کی آیات نمبر۲٩ تا آیت ۳۵ میں بیان فرمایا گیا ہے، اور تیسرا گروہ سابقون کا ہو گا۔ اور یہ وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے اور راہ حق میں مشکلات کے دور میں اپنے جان و مال کو قربان کرنے کے سلسلے میں سبقت کی سعادت پائی ہو گی۔ جیسا کہ آگے سورہ حدید کی آیت نمبر۱٠ میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور پھر ان تینوں گروہوں کے درجہ و مرتبہ اور ان کی شان کی وضاحت اور اس کے بیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ داہنے ہاتھ والوں کی عظمت شان کے کہنے ہی کیا؟ یعنی ان کے عیش جاوداں ان کی رفاہیت و خوشحالی، اور انکی بلندی مرتبت اور عالی مقامی ایسی ہو گی کہ الفاظ و کلمات ان کے احاطہ و بیان سے قاصر اور عاجز ہیں۔ اسی طرح بائیں ہاتھ والوں کی ذلت و خواری، اور ان کی محرومی و بد انجامی، کو ظاہر کرنے کے لئے اسی طرح کے استفہامی انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا، کہ ان کے حال بد کے پوچھنے ہی کیا؟ یعنی ان کے اس حال بد کی تصویر الفاظ و کلمات کے احاطہ میں آنے والی چیز نہیں اس کا اندازہ تو وہی بدبخت کر سکیں گے جن کو اس سے سابقہ اور واسطہ پڑے گا، والعیاذُ باللہ، جبکہ تیسرے گروہ یعنی سابقوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تو ہوں گے ہی سابق یعنی جب وہ ہوں گے ہی سابق، تو ان کے درجہ و مرتبہ کو پہچاننا، اور اس کا احاطہ و ادراک کرنا بھی کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ وہ تو اپنے سبق الی الخیرات کے نتیجے میں اور اپنے خالق و مالک کے فضل و کرم سے شرف و عزت کے اس نقطہ عروج و کمال کو پہنچیں گے جس کا احاطہ و ادراک اس عالم ناسوت میں کسی کے لئے ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور وہ چونکہ گل سر سبد اور سرخیل قافلہ کی حیثیت رکھتے ہوں گے۔ اس لئے آگے سب سے پہلے انہی کے اس صلہ و انعام کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے جس سے ان خوش نصیبوں کو اس جہان غیب اور عالم جزاء میں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی طرف سے نوازا جائے گا۔ اور اس خوش نصیب اور سعادت مند گروہ میں بڑی تعداد اگلوں کی ہو گی۔ اور ایک قلیل تعداد ان میں پچھلوں کی ہو گی۔ جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ۔

۲۶۔۔  سو اس سے ان خوش نصیبوں کے بے غل و غش عیش و عشرت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ وہاں پر ان کے کانوں میں نہ کوئی لغو اور بیکار بات پڑے گی، اور نہ ہی کسی قسم کے گناہ کی۔ بلکہ وہاں پر ان کے لئے رحمت ہی رحمت اور سلام ہی سلام کی دلنواز صدائیں ہوں گی۔ جو ان کو وہاں پر ہر طرف سے ملیں گی، اپنے رب غفور ورحیم کی طرف سے بھی، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (یٰس۔ ۵٨) یعنی ان کو سلام کہا جائے گا رب مہربان کی طرف سے، اسی طرح ان کو فرشتوں کی طرف سے بھی سلام کہا جائے گا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَالْمَلَئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ(الرعد۲۳۔۲۴) یعنی فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوتے ہوں گے، جو ان سے کہتے ہوں گے کہ سلام ہو تم پر کہ تم نے صبر سے کام لیا، سو کیا ہی عمدہ گھر ہے آپ لوگوں کا اس جہاں میں، نیز ان کو ان کے اپنے ساتھیوں دوستوں کی طرف سے بھی سلام کہا جائے گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلَامٌ(ابراہیم ۳۲) یعنی وہاں پر ان کی باہمی دعاء سلام ہو گی، اور دعاء و سلام کی یہ دلنواز صدائیں ان کو وہاں پر صبح و شام ہر وقت ملیں گی۔ جو کہ دراصل نتیجہ اور صلہ و ثمرہ ہو گا اس بات کا کہ انہوں نے حق کی خاطر دنیا میں دشمنوں کی طرف سے طرح طرح کے طعنے سنے، چرکے سہے، دکھ اٹھائے۔ اور نت نئی ایذا رسانیاں برداشت کیں۔ جس کے نتیجے میں ان کو وہاں پر ایسا پاکیزہ اور بے مثال ماحول ملے گا جس کا اس جہان فانی میں تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں، سو وہاں پر نہ کسی بکواسی کے بکواس کی کوئی آواز ان کے کان میں پڑے گی۔ اور نہ ہی کسی قسم کے گناہ کی کوئی آواز۔ بلکہ وہاں پر ان کے لئے ہر طرف سے اور ہر اعتبار سے سلامتی ہی سلامتی کی دلنواز صدائیں ہوں گی۔ اللہ نصیب فرمائے آمین۔ سو وہاں پر سلامتی ہی سلامتی ہو گی، اور وہ گھر سلامتی ہی کا گھر ہو گا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، وَاللّٰہُ یَدْعُوْا اِلیٰ دَارِ السَّلٰمِ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (یونس۔۲۵) یعنی اللہ بلاتا ہے سلامتی کے گھر کی طرف اور وہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرماتا ہے اس کو جس کو چاہتا ہے۔ پس سلامتی کے اس عظیم الشان اور بے مثال گھر سے سرفرازی انہی خوش نصیب اور نیک بخت لوگوں کو نصیب ہو گی جنہوں نے اپنی اس دنیاوی زندگی کو سلامتی کے دین یعنی اسلام کی سلامتی والی مقدس تعلیمات کے مطابق گزارا ہو گا، اور جنہوں نے اس سے منہ موڑا ہو گا ان کے لئے محرومی ہی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،

۴۳۔۔  سو اس سے بائیں بازو والے بدبختوں کے حال بد کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ شعلوں اور لوؤں کی لپٹ اور گرم کھولتے پانی کے بیچ میں ہوں گے، سو جب وہ گرمی کی شدت اور اس کی ایذاء سے گھبرا کر پانی کی طرف بھاگیں گے تو ان کو وہاں پر گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ پس آگ کی اس لو اور کھولتے ہوئے اس ہولناک پانی کے درمیان دوڑ بھاگ ہی میں ان کی عمر گزرے گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰن ٍ(الرحمن۔۴۴) یعنی وہ اس انتہائی شعلے مارتی ہوئی اس آگ اور انتہائی گرم اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگاتے رہیں گے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی پناہ میں رکھے، آمین۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جن کفار و منکرین کا انجام یہ ہونے والا ہے ان کو اگر اس دنیائے فانی میں دنیا بھر کی دولت بھی مل جائے، تو بھی ان سے بڑھ کر بدبخت اور محروم اور کون ہو سکتا ہے؟ اور اس کے برعکس جن ایمان والوں کو اس دوزخ سے بچا کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے ان سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ اگرچہ دنیا میں وہ نان جویں کے بھی محتاج رہے ہوں۔ سو اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، اور اصل اور حقیقی دولت ایمان و یقین ہی کی دولت ہے، جس کے حصول اور اس سے سرفرازی کا موقع حیات دنیا کی اسی فرصت محدود و مختصر ہی میں ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔

۴۸۔۔  سو اس سے ان بدبختوں کے ان بڑے جرائم کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کے نتیجے میں وہ اس انتہائی ہولناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ اور اس سبب و باعث سے بھی پردہ اٹھا دیا گیا جس کے نتیجے میں وہ ان ہولناک جرائم کے مرتکب ہوئے۔ سو ان کے جرائم کے اس اصل سبب اور باعث کی تعیین و نشاندہی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ دنیا میں بڑے مالدار اور عیش و رفاہیت والے لوگ تھے، جس کے باعث یہ ایسے کبر و غرور میں مبتلا ہو گئے تھے کہ حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی دی بخشی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹا یہ لوگ تکبر میں مبتلا ہو کر کفران نعمت کے مرتکب ہو گئے، اور اس زعم اور گھمنڈ میں پڑ گئے کہ ہم صحیح اور ہمارا طریقہ درست ہے، ورنہ ہمیں یہ مال و دولت اور سامان عیش و رفاہیت کیوں ملتا؟ اور اسی بناء پر یہ لوگ حق کے منکر اور باغی و سرکش بن گئے، اور کفر و شرک اور انکار حق کے اس گناہ عظیم پر اصرار کرنے لگے جو کہ جرموں کا جرم اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ اور پھر دوسرا بڑا جرم و گناہ جس نے ان کو ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا، وہ انکار آخرت کا جرم و گناہ تھا۔ سو ان لوگوں کا کہنا تھا کہ کیا جب ہم لوگ مر کر ہڈیاں اور مٹی ہو جائیں گے تو پھر ہمیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ناممکن ہے۔ سو اس طرح یہ لوگ اپنے اس ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے جو سب سے بڑا اور ہمیشہ ہمیشہ کا خسارہ ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو دنیاوی مال و دولت اور مادی ترقی و رفاہیت کا یہ پہلو بڑا خطرناک اور تباہ کن ہے، کہ ابنائے دنیا اس کی بناء پر کبر و غرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور ایسے اور اس حد تک کہ وہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے، اور اپنے کفر و باطل اور ہلاکت و تباہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں وہ اسی کو درست اور ٹھیک سمجھنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم

۶۲۔۔  یعنی تم لوگوں کو اس سے سبق لینا چاہیے کہ اس طرح تم کو اس راہ راست سے سرفرازی نصیب ہو گی، جو تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی کی اساس اور دارین کی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے سو تمہاری پہلی پیدائش بذات خود دلیل و ثبوت ہے تمہاری دوسری پیدائش کا، کیونکہ جس خالق نے تم لوگوں کو پہلی مرتبہ پیدا کیا، اور تمہیں وجود بخشا، آخر اس کے لئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کیوں اور کیا مشکل ہو سکتا ہے؟ جبکہ عام قاعدہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اعادہ ایجاد سے سہل اور آسان ہوتا ہے، اور جس خالق حکیم نے تم لوگوں کو وجود بخشا، اور وہ تم کو عدم سے نکال کر حیز وجود میں لایا ہے اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا نہ کچھ مشکل ہے اور نہ اس کے حیطہ قدرت سے خارج اور باہر، اور مزید یہ کہ اس کی شان ربوبیت اور اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ تم لوگوں کو دوبارہ پیدا کرے۔ اور تم سے تمہارے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب لے، تاکہ اس کے مطابق وہ ہر کسی کو اس کے اس صلے اور بدلہ سے نوازے جس کا وہ اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار کی بناء پر مستحق قرار پاتا ہے، کیونکہ وہ اگر ایسا نہ کرے تو مخدوم کائنات اس انسان کا وجود عبث اور بیکار قرار پاتا ہے جو کہ اس خالق حکیم کی حکمت اور اس کی شان عدل و انصاف کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے پس تم لوگوں کا دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا اس کی صفات عدل و حکمت کا مقتضیٰ ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۷۳۔۔    سو آگ کی یہ نعمت جس پر تمہاری بہت سی ضروریات زندگی کا مدار و انحصار ہے ذرا سوچو تو سہی کہ آخر یہ کس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے؟ سو وہی ہے اللہ جس نے اپنی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت سے تمہارے لئے آگ کے اس عظیم الشان اور نفع بخش جوہر کو ایسے پُر حکمت طریقے سے پیدا فرمایا اور اس کو وجود بخشا ہے، جس میں ضرورت مندوں کے لئے طرح طرح کے سامان ہائے زیست اور اسباب عیش و عشرت موجود ہیں سو اسی سے تم لوگ طرح طرح کی غذائیں پکاتے اور قسما قسم کے کھانے بناتے ہو۔ اور کھانے پینے کی بیشمار اور بیحد و حساب چیزیں تیار کرتے۔ اور ان سے طرح طرح سے لطف اندوز ہوتے ہو۔ اگر قدرت نے تم لوگوں کو آگ کے اس عظیم الشان اور نفع بخش جوہر سے نہ نوازا ہوتا تو تم لوگ بھی اسی طرح کچی چیزیں کھاتے رہتے جس طرح کہ دوسرے تمام حیوانات کھاتے ہیں، اور تم کام و دہن کی ان تمام لذتوں سے محروم ہی رہتے جن سے آگ کے ذریعے تم لوگ ہمیشہ اور دن رات کے ہر حصے میں مستفید و فیض یاب ہوتے ہو، اور مسلسل و لگاتار مستفید و فیضیاب ہوتے ہو۔ پھر آگ کے اسی جوہر سے تمہارے طرح طرح کے کارخانے چلتے اور کام بنتے ہیں، اور تمہاری طرح طرح کی اور بےحد و حساب مشینیں چلتی ہیں، اگر قدرت نے تمہارے لئے آگ کے اس عظیم الشان اور نفع بخش جوہر کو پیدا نہ فرمایا ہوتا، تو تمہاری زندگی ٹھٹھر کر رہ جاتی۔ اور تمہاری صلاحیتوں کا قفل کسی طرح کھلنے ہی نہ پاتا۔ سو اس میں ایک طرف تو تمہارے لئے طرح طرح کے سامان ہائے زیست کا انتظام اور بندوبست ہے، اور دوسری طرف اس میں اپنے اس خالق و مالک کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کی تذکیر و یاد دہانی اور دل و جان سے اس کے آگے جھکنے کا درس عظیم بھی، مگر دنیا ہے کہ ایسے تمام تقاضوں سے غافل و بے خبر، اور اپنے انجام سے نچنت و بے فکر ہے، اور اس کو نہیں پتہ کہ اس طرح وہ کتنے بڑے خسارے اور ہولناک انجام کی طرف بڑھے جا رہے ہیں بلکہ کتنے ہی بدبخت ایسے ہیں جو اسی آگ کو معبود قرار دے کر اس کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں، اور اس طرح وہ اپنی محرومی اور سیاہ بختی کے داغ کو اور پکا کرتے جا رہے ہیں مگر ان کو اس کا شعور و احساس ہی نہیں سو ایسوں کو دوزخ کی اس ہولناک آگ کو یاد کرنا چاہیے جس کی یاد دہانی دنیا کی یہ آگ کرا رہی ہے، والعیاذ باللہ جَل وعلا، مُقْوِیْن کے اصل معنی صحرا اور چٹیل میدانوں کے اندر سفر کرنے والوں کے ہیں اور ایسے لوگ چونکہ خاص طور پر کئی چیزوں کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں اسی لئے اس لفظ کا اطلاق محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لئے ہوتا ہے اسی لئے ہم نے ترجمہ کے اندر اسی کو اختیار کیا ہے۔ سو مَتَاعًا کے لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ آگ ضرورتمندوں کے لئے ایک عظیم الشان متاع اور سامان زیست ہے فالحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال، وبقاء

۸۱۔۔  اس ارشاد میں منکرین و مکذبین کے رویے پر اظہار افسوس بھی ہے اور اظہار تعجب بھی، مدہنون اِدہان سے مشتق و ماخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز سے لاپرواہی اور بے اعتنائی برتنے کے ہیں۔ سو اس سے منکرین و مکذبین کے رویے پر اظہار تعجب اور اظہار افسوس فرمایا گیا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو قرآن حکیم کی اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا، جو نعمتوں کی نعمت اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ، اور واحد ذریعہ و وسیلہ ہے جو سراسر اتارا ہوا کلام اور رب العالمین کی ربوبیت و رحمت کا کامل و بے مثال مظہر و نمونہ ہے، اور جس کے نازل کرنے کے لئے قدرت نے خاص اہتمام بھی فرمایا کہ یہ کلام حکمت نظام کامل حفاظت کے ساتھ جوں کا توں اس کے بندوں تک پہنچے، جس کے نتیجے میں یہ جوں کا توں محفوظ و موجود ہے اور ابتک موجود و محفوظ ہے مگر اس سب کے باوجود ان لوگوں کی اس سے یہ غفلت و لاپرواہی، اور اس سے اعراض و روگردانی، کتنا بڑا ظلم اور کس قدر بے قدری اور ناشکری ہے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان لوگوں نے اپنا حصہ اور نصیب اس کو جھٹلانا ہی بنا دیا ہے جو کہ بدبختی کی انتہاء اور محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۸۷۔۔  سو اس سے مرنے والے کی حالت نزع کی تصویر پیش کر کے منکرین و مکذبین کو درس عبرت دیا گیا ہے، یعنی اگر تم لوگ اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ قرآن پاک کا انکار کرتے، اور اس کا مذاق اڑاتے ہو، اور جس جزاء و سزا سے یہ تم کو خبردار کر رہا ہے اس کو تم لوگ محض ایک ڈراوا سمجھتے ہو، اور کہتے ہو کہ نہ تم کسی کے محکوم ہو، اور نہ کسی کے سامنے اپنے قول و فعل کے بارے میں جوابدہ ہو، تو پھر تم لوگ خود اپنے آپ کو یا اپنے کسی محبوب سے محبوب شخص کو موت کے پنجے سے کیوں نہیں بچا لیتے؟ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے، اور تم اس وقت اس کے سامنے بیٹھے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو، اور نہایت عاجزی اور بے بسی کے ساتھ تم کو اپنی جان فرشتہ اجل کے حوالے کرنی پڑتی ہے، تم خود تمہارے تمام احباب و اقارب، رشتہ دار و متعلقین اور تمہارے معالج اور ڈاکٹر وغیرہ سب وہاں موجود ہوتے ہیں، مگر کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ مبتلائے نزع شخص کی جان بچا لے، کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ فرشتہ اجل کا ہاتھ پکڑ لے، تمہاری سب جان نثاریاں اور جملہ تدبیریں بےسود و لاحاصل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ سو اپنی عاجزی اور بے بسی کے یہ نمونے اور مظاہر تم لوگ اپنی زندگی میں ہمیشہ دیکھتے ہو، اور اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہو تو پھر تم سبق کیوں نہیں لیتے؟ اور قرآن حکیم کی ان رحمتوں بھری تعلیمات کے آگے کیوں نہیں جھکتے جو تم لوگوں کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ مند کرنے کے لئے دی جا رہی ہیں؟

۹۶۔۔  سو اس سے منکرین و مکذبین کے جواب اور ان کے مقابلے میں رب تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے جس کے اولین مخاطب پیغمبر ہی ہیں، لیکن آپ کے توسط سے یہ تعلیم و تلقین امت کے ہر فرد اور ہر داعیِ حق کے لئے ہے، اور یہ اس لئے کہ مومن صادق کا اصل سہارا اور اس کی حقیقی قوت اس کے لئے رب تعالیٰ ہی کی مدد ہے، اور اس کے حصول کا ذریعہ رب تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس ہی ہے۔ اسی لئے یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سب کچھ جو کہ اوپر ذکر فرمایا گیا ہے، وہ سب قطعی طور پر حق ہے اس میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں، آپ کی قوم کے لوگ اگر ان قطعی حقائق کو نہیں مانتے تو یہ ان کی اپنی محرومی و بدبختی، اور ان کے عناد و ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے، اس لئے ایسے بدبختوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ اپنے انجام کو خود پہنچ کر رہیں گے، کہ معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کا آخری علاج یہی ہے، پس ان سے منہ موڑ کر آپ اپنے رب کے نام کی تسبیح کرتے رہیں حضرت عقبہ بن عامر الجہنی سے مروی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو اپنے رکوع میں رکھو۔ یعنی رکوع میں سبحان ربی العظیم کہا کرو۔ اور جب سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ کی آیت کریمہ نازل ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو اپنے سجدے میں رکھو۔ یعنی اس میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا کرو (احمد۔ ابوداؤد۔ اور سنن ابن ماجہ، وغیرہ) چنانچہ اسی بناء پر رکوع و سجود دونوں کے اندر یہی دونوں تسبیحیں آج تک پڑھی جاتی ہیں، جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ رکوع اور سجود کی انتہائی عاجزانہ حالتوں کے اندر ان تسبیحات کی اثر انگیزی اور زیادہ ہو جاتی ہے نیز یہ کہ منکرین و معاندین، اور ہٹ دھرم مخالفین کے مقابلے میں صبر و استقامت اور مطلوبہ قوت کے حصول اور اس سے سرفرازی کا اصل ذریعہ و وسیلہ تسبیح و تحمید ہی ہے، اور خاص کر وہ تسبیح و تحمید جو حالت نماز میں کی جائے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفِیْ کُلِ موطنٍ من الموطن فی الحیاۃ، وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الواقعۃ، و الحمدللہ جل وعلا