تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الاٴحزَاب

(سورۃ الأحزاب ۔ سورہ نمبر ۳۳ ۔ تعداد آیات ۷۳)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اے پیغمبر ڈرتے رہو آپ اللہ سے اور (دین کے بارے میں ) کبھی بات نہیں ماننی کافروں اور منافقوں کی بے شک اللہ (سب کچھ) جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے

۲۔۔۔     اور پیروی کرتے رہو اس وحی کی جو بھیجی جاتی ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے بے شک اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۳۔۔۔     اور بھروسہ اللہ ہی پر رکھنا کہ اللہ کافی ہے کارسازی کے لئے

۴۔۔۔     اللہ نے کسی کے دھڑ میں دو دل نہیں رکھے اور نہ ہی اس نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم لوگ ظہار کر دیتے ہو (تمہارے کہنے سے ) تمہاری مائیں بنا دیا اور نہ ہی اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ سب تمہارے اپنے مونہوں کی باتیں ہیں اور اللہ حق فرماتا ہے اور وہی سیدھی راہ بتاتا ہے

۵۔۔۔     تم لوگ ان (اپنے منہ بولے بیٹوں ) کو ان کے اصلی باپوں کی نسبت سے ہی پکارا کرو اللہ کے یہاں یہ پورے انصاف کی بات ہے پھر اگر تم کو ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور تم پر اس صورت میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سے (بھول) چوک ہو جائے لیکن جو بات تم اپنے دل کے ارادہ سے کہو اور اللہ پاک بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے

۶۔۔۔     (اور یہ حقیقت واضح رہے کہ) نبی ایمان والوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کی رو سے آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے مگر یہ کہ تم لوگ اپنے طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی بھلائی کرنا چاہو (تو کر سکتے ہو) یہ بات اس کتاب لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے

۷۔۔۔     اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے خوب پختہ عہد لیا

۸۔۔۔     تاکہ وہ (وحدہٗ لاشریک) پوچھے سچوں سے ان کے سچ کے بارے میں (کہ انہوں نے اس کی کہاں تک پابندی کی) اور کافروں کے لئے اس نے ایک بڑا ہی دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

۹۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو یاد کرو تم اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر اس وقت فرمایا تھا جب کہ چڑھ آئے تھے تم پر بہت سے لشکر تو آخرکار ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی تھی اور ایسے بہت سے لشکر بھی (تمہاری مدد کے لئے ) جو تمہیں نظر نہیں آ رہے تھے اور اللہ پوری طرح دیکھ رہا تھا وہ سب کچھ جو تم لوگ کر رہے تھے

۱۰۔۔۔     جب کہ چڑھ آئے تھے تم پر وہ لوگ (یعنی تمہارے دشمن) تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے بھی اور جب پتھرا گئی تھیں آنکھیں اور منہ کو آ گئے تھے کلیجے اور تم لوگ اللہ (پاک) کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگ گئے تھے

۱۱۔۔۔     (سو اس طرح اس) موقع پر خوب آزمائش کی گئی ایمان والوں کی اور ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا بڑی سختی سے

۱۲۔۔۔     جب کہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا (کھلم کھلا) کہنے لگے تھے کہ ہم سے وعدہ نہیں کیا اللہ اور اس کے رسول نے مگر دھوکے اور فریب کا

۱۳۔۔۔     اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو! تمہارے لئے اب یہاں ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں پس تم لوٹ چلو اور ان میں سے ایک اور گروہ نبی سے اجازت مانگ رہا تھا (اس بہانے سے ) کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں حالانکہ وہ ایسے کسی خطرے میں نہیں تھے یہ لوگ محض بھاگنا چاہتے تھے

۱۴۔۔۔     اور (ان کا اندرونی حال یہ ہے کہ) اگر گھس آئے ہوتے ان پر دشمن اطراف مدینہ سے پھر ان کو دعوت دی جاتی فتنہ (و فساد) کی تو یہ (فوراً) اس میں کود پڑتے اور کچھ بھی توقف نہ کرتے

۱۵۔۔۔     حالانکہ اس سے پہلے یہ لوگ خود اللہ سے یہ عہد کر چکے تھے کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ سے کئے ہوئے عہد کی پوچھ تو بہر حال ہونی ہی تھی

۱۶۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ (یاد رکھو کہ) اگر تم بھاگو گے موت یا قتل سے تو تم کو یہ بھاگنا کچھ نفع نہ دے سکے گا اور اس صورت میں بھی تم لوگ زندگی کے مزے لوٹنے کا موقع نہ پا سکو گے مگر تھوڑا ہی عرصہ (یعنی موت تک)

۱۷۔۔۔     (ان سے ) پوچھو بھلا وہ کون ہو سکتا ہے جو تمہیں بچائے اللہ (کی گرفت) سے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانے پر آ جائے ؟ یا (وہ کون ہو سکتا ہے ؟ جو اس کی رحمت کو تم سے روک دے ) اگر وہ تم پر کوئی مہربانی فرمانا چاہے ؟ اور یہ لوگ کبھی نہیں پا سکیں گے اپنے لئے اللہ کے مقابلے میں کوئی حامی اور نہ کوئی مددگار

۱۸۔۔۔     اللہ پوری طرح جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو رکاوٹیں ڈالتے ہیں (راہ حق و صواب میں ) اور جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آ جاؤ اور وہ خود لڑائی میں حصہ نہیں لیتے مگر بالکل تھوڑا (اور محض برائے نام)

۱۹۔۔۔     تمہارے بارے میں سخت بخل سے کام لیتے ہوئے پھر جب خطرے کا وقت آ جائے تو تم ان کو دیکھو گے کہ یہ (مارے خوف و دہشت کے ) تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ چکرا رہی ہوتی ہیں ان کی آنکھیں (ان کے گڑھوں میں ) اس شخص کی طرح جس پر غشی طاری ہو رہی ہو موت کی وجہ سے پھر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہ لوگ تمہارا استقبال کرتے ہیں (قینچی کی طرح چلتی ہوئی) تیز زبانوں کے ساتھ سخت حریص بن کر دنیاوی فوائد (و منافع) پر یہ لوگ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں سو اس کے نتیجے میں اللہ نے اکارت کر دیا ان کے اعمال کو اور یہ اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں

۲۰۔۔۔     یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی تک گئے نہیں اور اگر وہ لشکر پر حملہ آور ہو جائیں تو ان لوگوں کی خواہش یہ ہو گی کہ کہیں باہر گاؤں میں جا کر دیہاتیوں کے بیچ میں رہیں ) اور وہیں سے ہو کر (تمہارے حالات کے بارہ میں پوچھتے رہیں اور اگر یہ تمہارے درمیان ہوتے بھی تو لڑائی میں حصہ نہ لیتے مگر بہت کم

۲۱۔۔۔     بلاشبہ تمہارے لئے (اے لوگوں !) بڑا ہی عمدہ نمونہ ہے رسول اللہ (کی زندگی) میں یعنی ہر اس شخص کے لئے جو امید رکھتا ہو اللہ (سے ملنے ) کی اور وہ ڈرتا ہو قیامت کے دن (کی پیشی) سے اور وہ یاد کرتا ہو اللہ کو کثرت سے

۲۲۔۔۔     اور (اس کے برعکس) جب سچے مومنوں نے دیکھا ان حملہ آور لشکروں کو تو وہ پکار اٹھے کہ اسی کا وعدہ فرمایا تھا ہم سے اللہ نے اور اس کے رسول نے اور بالکل سچ فرمایا تھا اللہ نے اور اس کے رسول نے اور اس سے ان کے ایمان اور جذبہءِ تسلیم و (رضا) میں اور اضافہ ہو گیا

۲۳۔۔۔     ایمان والوں میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے جنہوں نے سچ کر دکھایا تھا اپنے اس عہد و پیمان کو جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا پھر ان میں سے کچھ نے تو اپنی نذر پوری کر دی اور کچھ ابھی انتظار میں ہیں اور انہوں نے کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی (اپنے جذبہ و رویہ میں )

۲۴۔۔۔     (اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ) تاکہ اللہ بدلے دے سچوں کو ان کے سچ کی بناء پر اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان پر (رحمت اور) توجہ فرما دے بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے

۲۵۔۔۔     اور اللہ نے لوٹا دیا ان کافروں کو (اپنی قدرت و حکمت سے ) ان کے غیظ (و غضب) کے ساتھ (اور اس طرح کہ) وہ کچھ بھی خیر نہ پا سکے اور کافی ہو گیا اللہ ایمان والوں کو اس لڑائی میں اور اللہ بڑا ہی قوت والا انتہائی زبردست ہے

۲۶۔۔۔     اور اس نے اتار دیا ان اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے جنہوں نے پشت پناہی (اور مدد) کی تھی ان (حملہ آوروں ) کی اور اس نے ڈال دیا ان کے دلوں میں رعب (جس کے نتیجے میں ) تم ان میں سے کچھ کو قتل کر رہے تھے اور کچھ کو قیدی بنا رہے تھے

۲۷۔۔۔     اور اس (قادر مطلق) نے تمہیں وارث بنا دیا ان کی زمین کا ان کے گھروں کا ان کے مالوں کا اور (اس علاوہ) ایسی زمین کا بھی جس پر تم نے ابھی تک قدم بھی نہیں رکھے اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے

۲۸۔۔۔     اے پیغمبر! کہہ دو اپنی بیویوں سے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ تاکہ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھے طریقے سے رخصت کر دوں

۲۹۔۔۔     اور اگر تم اللہ اس کے رسول اور اور دار آخرت کی طالب ہو تو یقیناً اللہ نے تیار کر رکھا ہے تم میں سے نیکوکاروں کے لئے ایک بہت ہی بڑا اجر

۳۰۔۔۔     اے نبی کی بیویو! تم میں سے جس کسی نے ارتکاب کیا کسی کھلی بے حیائی کا تو اس کو (عام عورتوں کے مقابلے میں ) دوہرا عذاب دیا جائے گا اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بڑا آسان ہے

۳۱۔۔۔     اور جو تم میں سے فرمانبرداری کرے گی اللہ اور اس کے رسول (کی رضا) کے لئے اور وہ کام بھی نیک کرے گی تو اس کو ہم اجر بھی دوہرا (اور دگنا) دیں گے اور اس کے لئے ہم نے ایک بڑی عمدہ (اور عزت کی) روزی بھی تیار کر رکھی ہے

۳۲۔۔۔     اے نبی کی بیویو! (یاد رکھو) تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بشرطیکہ تم تقوی کو اپنائے رکھو پس تم (کسی نامحرم سے بوقت ضرورت) بات کرنے میں کسی لچک (اور نرمی) سے کام نہ لینا کہ کہیں لالچ میں پڑ جائے کوئی ایسا شخص جس کے دل میں روگ ہو اور (یوں ) بات بھلی ہی کہا کرو

۳۳۔۔۔     اور ٹک کر رہا کرو تم اپنے گھروں میں اور دکھاتی نہ پھرنا اپنا بناؤ سنگار (اور اپنی سج دھج) پہلی جاہلیت کے دکھلاوے کی طرح اور تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور فرمانبرداری کرتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ وہ دور کر دے تم سے گندگی (اپنی خاص توجہ اور عنایت سے ) اے نبی کے گھر والو اور وہ تم کو پاک کر دے خوب اچھی طرح سے

۳۴۔۔۔     اور یاد رکھو اللہ کی ان آیتوں اور حکمت کی ان باتوں کو جو (صبح و شام) پڑھی جاتی ہیں تمہارے گھروں میں بلاشبہ اللہ بڑا ہی باریک بیں نہایت ہی باخبر ہے

۳۵۔۔۔     بے شک مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں اور فرمانبرداری کرنے والے مردوں اور فرمانبرداری کرنے والی عورتوں راستباز مردوں اور راستباز عورتوں صبر کرنے والے مردوں اور صبر کرنے والی عورتوں (اللہ کے آگے ) عاجزی کرنے والے مردوں اور عاجزی کرنے والے عورتوں صدقہ کرنے والے مردوں اور صدقہ کرنے والی عورتوں روزہ رکھنے والے مردوں اور روزہ رکھنے والی عورتوں اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور حفاظت کرنے والی عورتوں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مردوں اور بہت یاد کرنے والی عورتوں کے لئے اللہ (پاک) نے تیار فرما رکھی ہے ایک عظیم الشان بخشش بھی اور بہت بڑا اجر بھی (اپنے کرم و احسان سے )

۳۶۔۔۔     اور روا نہیں کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لئے جب کہ فیصلہ فرما دے اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں یہ بات کہ ان کو اس کے بعد بھی اختیار حاصل رہے اپنے اس معاملے میں اور جس نے نافرمانی کی اللہ اور اس کے رسول کی تو یقیناً (اس نے اپنا ہی نقصان کیا کہ یقینی طور پر) وہ پڑ گیا کھلی گمراہی میں

۳۷۔۔۔     (اور وہ بھی یاد کرو کہ) جب آپ کہہ رہے تھے (اے پیغمبر !) اس شخص سے جس پر احسان فرمایا تھا اللہ نے اور آپ نے بھی اس پر احسان کیا تھا کہ اپنے عقد زوجیت میں رکھو تم اپنی بیوی کو اور ڈرو اللہ سے اور آپ چھپا رہے تھے اپنے دل میں وہ کچھ جس کو ظاہر کرنا تھا اللہ نے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ڈر رہے تھے لوگوں سے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی سے ڈرتے پھر جب پوری کر چکا زید اپنی حاجت اس خاتون سے تو (طلاق و عدت کے بعد) ہم نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ کوئی حرج (اور تنگی) باقی نہ رہے ایمان والوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں جب کہ وہ پوری کر چکیں ان سے اپنی حاجت اور اللہ کے اس حکم نے تو بہر حال ہو کر ہی رہنا ہوتا ہے

۳۸۔۔۔     پیغمبر پر کوئی تنگی (اور الزام) نہیں اس بات میں جو کہ اللہ نے مقرر فرما دی ہو ان کے لئے اللہ کے اس دستور (اور سنت) کے مطابق جو کہ رائج (اور مقرر) رہا ان پیغمبروں میں بھی جو کہ گزر چکے ہیں اس سے پہلے اور اللہ کا حکم تو بہر حال ایک مقرر (اور طے شدہ) امر ہوتا ہے

۳۹۔۔۔     (جو کہ اس وصف اور شان کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ) پہنچاتے ہیں اللہ کے پیغامات کو (بغیر کسی کمی بیشی کے ) اور وہ اسی سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ کسی سے نہیں ڈرتے سوائے ایک اللہ کے اور اللہ کافی ہے حساب لینے کے لئے

۴۰۔۔۔     (لوگو !) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۴۱۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو یاد کرتے رہا کرو تم اللہ کو بہت کثرت سے

۴۲۔۔۔     اور اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتے رہا کرو صبح و شام

۴۳۔۔۔     وہ (ایسا مہربان ہے کہ) تم پر خود بھی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ وہ نکال لائے تم کو (کفر و باطل کے ) طرح طرح کے اندھیروں سے (حق و ہدایت کے ) نور کی طرف اور وہ بڑا ہی مہربان ہے ایمان والوں پر

۴۴۔۔۔     (اور دنیا کی ان رحمتوں کے علاوہ آخرت میں بھی) جس روز وہ اس سے ملیں گے تو ان کا استقبال سلام سے ہو گا اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان (خوش نصیبوں ) کے لئے بہت بڑا اجر (و ثواب)

۴۵۔۔۔     اے پیغمبر! ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا

۴۶۔۔۔     اور بلانے والا اللہ کی طرف اسی کے حکم سے اور ایک عظیم الشان روشن کرنے والا چراغ بنا کر

۴۷۔۔۔     اور خوشخبری سنا دو ایمان والوں کو اس بات کی کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے ایک بڑا ہی عظیم الشان فضل ہے

۴۸۔۔۔     اور (دین کے بارے میں ) کبھی بات نہ ماننا کافروں اور منافقوں کی اور خاطر میں نہیں لانا ان کی ایذاء رسانیوں کو اور بھروسہ ہمیشہ اللہ ہی پر رکھنا اور اللہ کافی ہے کارسازی کے لئے

۴۹۔۔۔     اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم نکاح کرو مسلمان عورتوں سے پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس سے کہ تم نے ان کو چھوا ہو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو پھر (اس صورت میں ) تم ان کو کچھ (مال و) متاع دے کر انہیں اچھی طرح سے رخصت کر دیا کرو

۵۰۔۔۔     اے نبی ہم نے آپ کے لئے حلال کر دیں آپ کی وہ بیویاں جن کے مہر آپ نے ادا کر دئیے اور وہ باندیاں بھی جو آپ کی ملکیت میں آ چکی ہوں ان عورتوں میں سے جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں عطا فرمائیں ہیں اور آپ کی وہ چچا زاد پھوپھی زاد ماموں زاد وخالہ زاد بہنیں بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو اور وہ مومن عورت بھی جو بلاعوض اپنے آپ کو نبی کو دے دے اگر نبی اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں(یہ سب احکام) خاص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کیلئے ہیں نہ کہ دوسرے مسلمانوں کے لئے ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ کہ ہم نے فرض کیا ہے ان (عام مومنوں ) پر ان کی بیویوں اور ان کی ان باندیوں کے بارے میں جو کہ ان کی ملکیت میں ہوں (اور آپ کے لئے ایسا اس لئے کیا گیا کہ) تاکہ آپ پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے

۵۱۔۔۔     ان میں سے جس کو آپ چاہیں اپنے سے دور کر لیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور ان میں سے کہ جن کو آپ نے دور کر دیا ہو جس کو آپ چاہیں پھر طلب کر لیں تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں وہ آزردہ خاطر نہ ہوں اور جو بھی کچھ آپ ان کو دیں اس پر وہ راضی رہیں سب کی سب اور اللہ (پوری طرح) جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ تمہارے دلوں کے اندر ہے اور اللہ بڑا ہی علم والا نہایت ہی بردبار ہے

۵۲۔۔۔     آپ کے لئے (اے پیغمبر !) اس کے بعد اور عورتیں حلال نہیں اور نہ ہی یہ بات (جائز ہے ) کہ آپ ان کی جگہ اور بیویاں لے آئیں اگرچہ آپ کو پسند ہو ان کا حسن مگر وہ لونڈیاں جو آپ کی ملکیت میں ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے

۵۳۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو مگر یہ کہ تم کو اجازت دی جایا کرے کسی کھانے (وغیرہ) کی اور وہ بھی اس طرح نہیں کہ تم اس کی تیاری کے انتظار میں لگے رہو لیکن جب تمہیں دعوت دی تو تم حاضر ہو جایا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو تم اٹھ کر چلے جایا کرو اور بیٹھ نہ جایا کرو باتوں میں دل لگا کر بے شک اس سے نبی کو (تکلیف اور) ناگواری ہوتی ہے مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں لحاظ نہیں کرتا اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں ) سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو تم پردے کے پیچھے سے مانگا (اور پوچھا) کرو اس میں بڑی پاکیزگی ہے تمہارے دلوں کے لئے بھی اور ان کے دلوں کے لئے بھی اور تمہارے لئے نہ تو یہ بات کسی طرح جائز ہے کہ تم اللہ کے رسول کو کوئی تکلیف پہنچاؤ اور نہ ہی یہ کہ تم ان کی بیویوں سے نکاح کرو ان (کی وفات) کے بعد کبھی بھی بلاشبہ یہ اللہ کے نزدیک بھاری گناہ ہے

۵۴۔۔۔     تم کوئی چیز خواہ ظاہر کرو خواہ اسے چھپا کر رکھو تو اللہ (کو وہ بہر حال معلوم ہے کہ وہ) ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۵۵۔۔۔     نبی کی بیویوں پر نہ اپنے باپوں (کے سامنے ہونے ) میں کوئی گناہ ہے اور نہ اپنے بیٹوں میں نہ اپنے بھائیوں میں نہ اپنے بھتیجوں میں نہ اپنے بھانجوں میں نہ اپنی (میل جول کی) عورتوں میں اور نہ ہی اپنی لونڈیوں میں اور ڈرتی رہا کرو تم اللہ سے (اے نبی کی بیویو !) بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے

۵۶۔۔۔     بے شک اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں پیغمبر پر پس تم بھی اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ان پر درود بھی بھیجتے رہا کرو اور خوب خوب سلام بھی

۵۷۔۔۔     بے شک جو لوگ ایذاء پہنچاتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت (اور پھٹکار) ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت (کے اس ابدی جہاں ) میں بھی اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب

۵۸۔۔۔     اور جو لوگ ایذاء پہنچاتے ہیں ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بغیر کسی ایسے (جرم و) گناہ کے جس کا ارتکاب انہوں نے کیا ہو تو بلاشبہ انہوں نے بوجھ اٹھایا ایک بہت بڑے بہتان کا اور ارتکاب کیا کھلے (جرم اور) گناہ کا

۵۹۔۔۔     اے پیغمبر! کہو اپنی بیویوں بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہ وہ لٹکا دیا کریں اپنے (چہروں کے ) اوپر کچھ حصہ اپنی چادروں کا یہ طریقہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جایا کریں پھر ان کو کوئی ایذاء نہ پہنچنے پائے اور اللہ تو بہر حال بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے

۶۰۔۔۔     اگر باز نہ آئے منافق لوگ (اپنی بری حرکتوں سے ) اور وہ لوگ جن کے دل میں روگ ہے (شہوت پرستی اور چھیڑ خانی کا) اور ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے مدینے میں (اگر یہ لوگ باز نہ آئے اپنی ان حرکتوں سے ) تو ہم آپ کو ان پر ایسی سختی سے مسلط کر دیں گے کہ پھر یہ لوگ آپ کے ساتھ مدینہ میں رہنے بھی نہ پائیں گے مگر بہت کم

۶۱۔۔۔     اور وہ بھی ایسے پھٹکارے ہوئے کہ (مدت مہلت ختم ہونے پر) جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور چن چن کر قتل کئے جائیں گے

۶۲۔۔۔     جیسا کہ اللہ کا دستور رہا ہے ان لوگوں میں جو گزر چکے ہیں اس سے پہلے اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے

۶۳۔۔۔     یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں (قیامت کی) اس گھڑی کے بارے میں تو کہو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور تمہیں کیا پتہ کہ قریب ہی آ لگی ہو وہ گھڑی

۶۴۔۔۔     بے شک اللہ نے لعنت فرما دی کافروں پر اور اس نے تیار کر رکھی ہے ان کے لئے ایک بڑی (ہی ہولناک اور دہکتی) بھڑکتی آگ

۶۵۔۔۔     اس میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہو گا اور یہ اپنے لئے نہ کوئی حمایتی پا سکیں گے نہ مددگار

۶۶۔۔۔     جس روز الٹ پلٹ کیا جائے گا ان کے چہروں کو (دوزخ کی دہکتی بھڑکتی) اس آگ میں (اس وقت یہ انتہائی حسرت سے ) کہیں گے کہ اے کاش کہ ہم نے کہا مانا ہوتا اللہ کا اور اس کے رسول کا

۶۷۔۔۔     اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم تو اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کے کہنے پر چلتے رہے تو ان لوگوں نے (اپنی اغراض و اہواء کی خاطر) ہمیں بہکا دیا سیدھی راہ سے

۶۸۔۔۔     اے ہمارے رب ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر لعنت فرما بہت بڑی لعنت

۶۹۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو جانا جنہوں نے ایذاء (و تکلیف) پہنچائی موسیٰ کو پھر اللہ نے ان کو بری فرما دیا ان تمام باتوں سے جو ان لوگوں نے (ان کے خلاف) بنائی تھیں اور موسیٰ تو اللہ کے یہاں بڑی آبرو والے تھے

۷۰۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے اور بات ہمیشہ ٹھیک کیا کرو

۷۱۔۔۔     (اس کے صلے میں ) اللہ درست فرما دے گا تمہارے اعمال کو اور بخشش فرما دے گا تمہارے گناہوں کی اور جس نے اطاعت (و فرمانبرداری) کی اللہ کی اور اس کے رسول کی تو وہ یقیناً سرفراز ہو گیا بہت بڑی کامیابی سے

۷۲۔۔۔     بے شک ہم نے پیش (اپنی) اس امانت کو آسمانوں زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے انکار کر دیا اس کے اٹھانے سے اور وہ ڈر گئے اس (کی ذمہ داریوں کو نبھانے ) سے مگر اس کو اٹھا لیا اس انسان (ضعیف البنیان) نے بے شک یہ بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے

۷۳۔۔۔     تاکہ انجام کار اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اور اپنی توجہ (اور عنایت) سے نوازے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے

تفسیر

 

۴۔۔۔    یعنی اس قسم کی تمام باتیں جو تم لوگ کہتے اور بناتے ہو۔ وہ محض تمہارے اپنے مونہوں کی باتیں ہیں، جن کی نہ کوئی اصل ہے نہ اساس۔ جن کا نہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم سے کوئی تعلق ہے۔ اور نہ شریعت مطہرہ کی تعلیمات مقدسہ سے ان کا کوئی واسطہ و لگاؤ ہے۔ سو ایسی تمام باتیں باطل اور بے بنیاد ہیں، حق وہی اور صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اپنی کتاب حکیم اور اپنے رسول کریم کے ذریعے ارشاد تعلیم فرماتا ہے۔ پس یہی عقل و نقل کا تقاضا، اور فطرت سلیم کا مقتضی ہے۔ اور یہی راہ حقیقی کامیابی کی راہ، اور صراط مستقیم کی ہے۔ پس تم لوگ اسی کو اپناؤ کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا مدار و انحصار اسی پر ہے۔ وباللہ التوفیق

۵۔۔۔    سو اس معاملے میں اب تک جو کچھ تم لوگوں سے ہو گیا، وہ غلطی جہالت اور لاعلمی کی بناء پر ہوا اس لئے اس پر تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔ لیکن اس تنبیہ و تعلیم کے بعد بھی اگر تم لوگوں نے اس پر اصرار کیا تو اس کی نوعیت الگ، اور سابق سے مختلف ہو گی۔ کیونکہ اس کی نوعیت خطاء کی نہیں، جرم کی ہو گی۔ اس لئے کہ یہ جہالت اور لاعلمی کسی بناء پر نہیں ہو گی۔ بلکہ تمہارے دلوں کے قصد و ارادہ سے، اور دیدہ و دانستہ تعمد کا نتیجہ ہو گی اس لئے اس پر اللہ تعالیٰ ضرور تمہارا مواخذہ فرمائے گا۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ پس تم لوگ صدق دل سے اس بے راہ روی سے بچنے کی اور محتاط رہنے کی کوشش کرو، وباللہ التوفیق

۶۔۔۔    اولیٰ کے معنی اَحَقَّ کے ہیں جیسا کہ اسی کے متصل بعد رشتہ داروں کے بارے میں یہی لفظِ اولیٰ استعمال فرمایا گیا ہے، یعنی رشتہ دار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں بنسبت دوسرے اہلِ ایمان اور مہاجروں کے، نیز جیسا کے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ اِنَّ اَوْلیٰ النَّاس بِاِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ الایٰۃ(ال عمران۔ ۶٨) یعنی ابراہیم کے زیادہ قریبی اور اصل حقدار وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ سو زیر بحث آیت یعنی سورہ احزاب کی اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کا حق ایمان والوں پر دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر کا حق ان پر خود ان کی ان جانوں سے بھی زیادہ ہے۔ اسی لئے آگے اسی سورہ کریمہ کی آیت نمبر۳۶ میں ارشاد فرمایا گیا کہ کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرما دے تو ان کے لئے اپنے معاملے کے بارے میں کوئی اختیار باقی رہ جائے۔ بلکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم و ارشاد کو جُوں کا تُوں اور دل کی رضا و خوشنودی سے ماننا ہے، کہ یہی اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے، اور یہی اہل ایمان کے ایمان و عقیدے کا تقاضا ہے، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد ان کے لئے کسی چوں و چرا کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اور رسول کا فرمان بھی اللہ ہی کا فرمان ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے نمائندے کی حیثیت سے، اور اسی کی وحی کے مطابق فرماتے ہیں، اس لئے ان کا ہر حکم و ارشاد اللہ تعالیٰ ہی کے حکم و ارشاد کی طرح واجب العمل ہوتا ہے۔ اسی لئے ان کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ الایٰۃ (النسائ۔٨٠) یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ کہ اللہ کی اطاعت و بندگی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اس کے رسول کی اطاعت ہی ہے۔

۹۔۔۔    یہاں سے غزوہ احزاب کا ذکر و بیان شروع ہو رہا ہے۔ جس میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ اوپر آیت نمبر۳ میں ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھو، کہ وہ کافی ہے کار سازی کیلئے، تو اب اسی کی تاکید و تائید کے لئے اللہ تعالیٰ کی کارسازی اور اس کی نصرت و امداد کے ان کرشموں کی تذکیر و یاد دہانی کرائی جا رہی ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غزوہ احزاب میں نواز اور سرفراز فرمایا تھا، جو کہ ماضی قریب ہی میں واقع ہوا تھا۔ جس میں عرب کے تمام مشہور و معروف قبائل کے لشکر مسلمانوں کے خلاف امڈ آئے تھے۔ اور ایک نہایت ہی خوفناک صورت حال پیدا ہو گئی تھیں، دشمن مشرق و مغرب، اور پست و بالا ہر سمت سے مسلمانوں کے خلاف چڑھ آئے تھے۔ اور خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آ گئے تھے۔ ضعیف الاعتقاد لوگوں کے اوسان اس طرح خطاء ہو گئے تھے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کے وعدوں، اور اس کی قدرت حکمت کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگ گئے تھے۔ لیکن یہ حالت صرف ضعیف الاعتقاد مسلمانوں اور منافق لوگوں کی تھی۔ جبکہ پکے اور پختہ کار اہل ایمان کا معاملہ اس سے مختلف اور اس کے بالکل برعکس تھا۔ کیونکہ ان کا حال جیسا کہ آگے آیت نمبر ۲۲ میں ارشاد فرمایا گیا یہ تھا کہ جب سچے اہل ایمان نے دشمن کے ان مختلف گروہوں کو دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ یہ تو وہی صورت حال ہمیں پیش آرہی ہے۔ جس کا وعدہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے اس سے پہلے فرمایا تھا۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی ثابت ہوئی۔ اور اس چیز نے ان کے ایمان و یقین اور ان کے جذبہ تسلیم و رضا ہی میں اضافہ کیا۔ سو یہ شان تھی سچے اور پکے اہل ایمان کی۔ اور مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ایسے ہی صدق شعار، اور جان نثار مسلمانوں کی تھی۔ جن کا ایمان مضبوط اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ بھرپور تھا۔ اسی لئے وہ اپنے ایمان و تقویٰ اور توکل واعتماد علی اللہ کی بدولت اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و امداد سے سرفراز و سرشار ہوئے، اور اتنے بڑے لشکروں کے حملہ آور ہونے کی باوجود مسلمانوں کی نکسیر بھی نہ پھوٹی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و حکمت سے دشمن کی ان دل بادل فوجوں کو اپنی پھونک سے اڑا دیا، جیسا کہ فَاَرْسَلْنَا عَلیْہِمْ رِیْحًا کے کلماتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے۔ روایات کے مطابق غزوہ احزاب کے محاصرے کے آخری دنوں میں قدرت کی طرف سے ایک ایسی طوفانی آندھی چلی کہ دشمن کے ان لشکروں کے خیموں کی چوبیں اور طنابیں اکھڑ گئیں۔ ان کی دیگیں الٹ گئیں۔ سواریوں کے جانور تتر بتر ہو گئے۔ سردی کی شدت کے باوجود ان کے لئے آگ چلانا ناممکن ہو گیا۔ تاریکی کا یہ عالم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ صورتِ حال کی اس سنگینی نے ان کو خوف وہراس اور انکی مرعوبیت کی ایسی ہولناک صورت حال سے دوچار کر دیا تھا کہ ان کو اس ناگہانی آفت سے جان بچا کر بھاگ نکلنے، اور واپسی کی راہ لینے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہیں آ رہا تھا۔ سو اسلام کے وہ دشمن جو اپنے طور پر بڑی مضبوط اور پختہ جتھہ بندی کر کے نور حق کا چراغ بجھانے آئے تھے اس طرح ذلیل و خوار ہو کر واپس لوٹے کہ خود انکا اپنا چراغ ہی گل ہو گیا اور ان کی کمر ہمت ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گئی، چنانچہ اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا الاٰن نَغْزُوْہُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا یعنی اب ہم ان پر حملہ کریں گے یہ کبھی ہم پر حملہ آور نہیں ہو سکیں گے، اور ہوا کے اس لشکر کے علاوہ اس موقع پر اہل ایمان کی مدد کے لئے فرشتوں کے لشکر بھی اتارے گئے تھے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا وجُنُوْدًا لَمْ تَرَوْہَا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس باد تند و تیز کے ساتھ ساتھ تمہاری مدد کے لئے ایسے لشکر بھی اتارے تھے جو تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہے تھے یعنی فرشتوں کے وہ غیبی لشکر جو عام لوگوں کو تو نظر نہیں آتے۔ لیکن ان کے شاندار کارنامے مختلف شکلوں میں ظہور پزیر ہوتے رہتے ہیں، جس سے اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی ہے، اور ان کے دشمن مرعوب ہوتے رہتے ہیں۔ غزوہ بدر میں بھی ان کا نزول ہوا تھا جیسا کہ سورہ انفال میں ارشاد فرمایا گیا۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ اللہ پر صحیح طور پر توکل و اعتماد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو طرح طرح سے اپنی نصرت و امداد سے سرفراز فرماتا ہے۔ اور اللہ اپنے اوپر اعتماد کرنے والوں کو تنہا ہی کافی ہے اور اس کی مدد اگر حاصل ہو تو ساری دنیا کی مخالفت بھی حق والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

۱۶۔۔۔    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ قتل یا موت سے ڈر کر بھاگنا، اور ادائے فرض سے راہِ فرار اختیار کرنا محض حماقت ہے، کیونکہ زندگی و موت کا معاملہ تمام کا تمام اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے جب اس کی طرف سے موت نے آنا ہوا، تو اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اور جب اس کی طرف سے موت آنے والی نہ ہوئی، تو کوئی کسی کو موت دے نہیں سکتا۔ تو پھر موت سے ڈرنے کا کیا فائدہ؟ اور اس کا کیا مطلب؟ سوائے اپنی بلادت و حماقت کے، اور جب موت نے اپنے وقت پر بہر حال آ کر اور واقع ہو کر ہی رہنا ہے تو پھر عقل وخرد کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی اس محدود اور فانی زندگی کو حق اور ہدایت کے تقاضوں کے مطابق صرف کیا جائے، تاکہ اس طرح یہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ بن جائے۔ اور جس کا طریقہ اور واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات اور اس کی ہدایات و تعلیمات کے مطابق صرف کیا جائے۔ ورنہ اگر کسی نے اس طرح موت یا قتل کے خوف سے بھاگ کر اپنی دانست کے مطابق اپنی زندگی کو بچا بھی لیا تو آخر کب تک؟ آخرکار اس نے بہر حال ایک دن مرنا اور اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہونا ہے، اور وقت مقرر پر ایسے بہر حال ہو کر رہے گا، اور وَاِذًا لاَّ تُمَتَّعُوْنَ اِلاَّ قَلِیْلًا کے ارشاد سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ایسے فراریوں اور بھگوڑوں کی عمر خیر و برکت سے بالکل محروم ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کے گریز و فرار سے حیات دنیا کی چند روزہ زندگی کے جتنے بھی دن گزارتے ہیں وہ دراصل ایک بے برکت اور بے خبری زندگی کے دن گزارتے ہیں، اس کے برعکس جو لوگ گریز و فرار کے بجائے راہِ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رہتے ہیں، اور وہ اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں تو ان کی زندگی خیر و برکت والی زندگی ہوتی ہے، اور ایسی اور اس حد تک کہ وہ اپنی اس چند روزہ زندگی اور اس کے اندر کی گئی اپنی مساعی جمیلہ کے عوض آخرت کی اَبَدی اور حقیقی زندگی میں ہمیشہ کی اور حقیقی و اَبَدی بادشاہی سے سرفراز ہوتے ہیں جو کہ اصل اور حقیقی کامیابی ہے۔ پس اسی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنانا چاہیئے، اور یہ چیز دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کو اپنائے بغیر ممکن نہیں سو ایمان و یقین اور اس کے مطابق عمل صالح ہی حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی کا واحد ذریعہ و وسیلہ ہے، اور ایسا عظیم الشان اور پاکیزہ و سیلہ ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرتا ہے، کہ اس سے انسان کو اس دنیا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی سعادت نصیب ہوتی ہے، اور اسی سے وہ آخرت کی فوز و فلاح سے سرفراز ہو سکتا ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید،

۲۰۔۔۔    سو اس سے ان مذکورہ بالا لوگوں کی منافقت اور انکی بزدلی کو اور واضح فرما دیا گیا، کہ حملہ آور گروہ تو رسوا ہو کر واپس چلے گئے، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں وہ ابھی واپس نہیں گئے اور مزید یہ کہ اگر آئندہ کبھی یہ گروہ دوبارہ حملہ آور ہو جائیں، تو یہ منافق لوگ چاہیں گے کہ اس وقت یہ مدینے میں رہیں ہی نہ، بلکہ باہر کہیں کسی دیہات میں جا کر رہنے لگیں، اور وہیں سے ان کے حالات معلوم کرتے رہیں، اور اہل ایمان کی تسلی کے لئے مزید ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ تمہارے اندر موجود ہوتے تو بھی یہ لڑتے نہ مگر بہت تھوڑا، یعنی محض دکھلاوے کیلئے، اور ظاہر داری کے طور پر سو اچھا ہے کہ یہ دور ہی رہیں، خس کم جہاں پاک،

۲۱۔۔۔    سو پیغمبر کے اسوہ حسنہ کی پیروی انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے اور پیغمبر کا یہ اسوہ انسان کی زندگی میں ہر موقع پر مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔ غزوہ احزاب کے اس ہولناک موقع پر بھی پیغمبر کا یہ اسوہ حسنہ سب کے سامنے موجود تھا۔ اور ہر کوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام تر خطرات کا نہایت عزم و ہمت اور صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جس کی برکات کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے دشمن اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے با وصف اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے ارادہ و پروگرام کے ساتھ انکے خلاف اس قدر دور سے ہر طرح کی تیاری کے ساتھ آنے کے باوجود، اور ان کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے خوفناک ارادوں اور منصوبوں کے ساتھ آنے کے باوجود یہ لوگ بے نیل مرام اور خائب و خاسر ہو کر واپس لوٹے۔ اور مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کی نکسیر بھی نہ پھوٹی۔ اور قدرت نے ان کی مدد کے لئے غیب سے امداد فرمائی۔ سو پیغمبر کے اسوہ حسنہ کی پیروی سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ لیکن اس کو اپنانے کی توفیق انہی خوش نصیبوں کو ملتی ہے جو قیامت کے یوم جزاء کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکلِّ حالٍ من الاحوال

۲۳۔۔۔    اوپر منافقین کی منافقت اور ان کی بزدلی کا حال بیان فرمایا گیا تھا۔ اب اس کے مقابلے میں یہاں پر سچے اور مخلص اہل ایمان کا حال بیان فرمایا گیا ہے، کہ انہوں نے دشمن کے ان ہولناک لشکروں کو دیکھنے کے بعد مرعوب ہونے کے بجائے کہا کہ یہی وہ چیز ہے جس کا وعدہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ بہر حال سچا ہے، اور اس سے ان کے جذبہ تسلیم و رضا ہی میں اضافہ ہوا، سو ایمان و یقین کی دولت انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کرنے والی دولت ہے، جبکہ اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، کہ مومن صادق کی زندگی خیر ہی خیر ہے، اس کے لئے ناکامی و نامرادی کسی بھی حالت میں نہیں ہو سکتی، وہ زندہ رہتا ہے تو خیر و برکت والی زندگی گزارتا ہے اور مرتا ہے اجر و ثواب کی دولت کے ساتھ مرتا ہے، جبکہ ایمان و یقین کی دولت سے محرومی ہر خیر سے محرومی کا بیش خیمہ اور خسارہ ہی خسارہ ہے، والعیاذُ باللہ العظیم بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یامَنْ بیدہ ملکوتُ کُلّ شَیْءٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَایُجَارُ علیہ،

۲۵۔۔۔    سو اس سے اس نتیجہ و انجام کو بیان فرمادیا گیا جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل و اعتماد کے نتیجے میں، اس جنگ، یعنی غزوہ احزاب میں ظاہر ہوا، کہ کافر لوگ جس طرح حق اور اہل حق کے خلاف دشمنی و عداوت اور بغض و عناد کے ساتھ بھرے ہوئے آتے تھے۔ اسی طرح اس بغض و عناد کی آگ کے ساتھ بھرے ہوئے واپس لوٹے اس کے کچھ حصے کو بھی یہ لوگ اپنے اندر سے نہ نکال سکے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ جو بڑے بڑے منصوبے لے کر آئے تھے ان میں سے کسی میں بھی ان کو کسی بھی طرح کی کوئی کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ اور اس لڑائی میں اللہ خود ہی مسلمانوں کو کافی ہو گیا۔ ان کو کوئی لڑائی لڑنی ہی نہیں پڑی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان کے دشمنوں کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے بادِ تند و تیز بھیج دی۔ اور ان کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کے لشکر اتار دیئے۔ آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ بڑا ہی قوت والا، انتہائی زبردست ہے وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے اس کے لئے نہ کچھ مشکل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پس جو لوگ صدق دل سے اس پر بھروسہ کریں گے اور اسی کے بھروسے پر اس کی راہ میں اٹھیں گے وہ ان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا۔ بلکہ عناصر کائنات کو ان کی مدد میں لگا دے گا۔ اور ان کی مدد کے لئے وہ ملائکہ کی فوج بھیج دے گا، سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۷۔۔۔    اس سے مراد یہود بنو قریظہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے امن و صلح کا معاہدہ کر رکھا تھا لیکن جب انہوں نے احزاب کی زبردست اجتماعی قوت کو دیکھا۔ اور انہوں نے ان کو بتایا کہ ہم مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے مٹانے اور نیست و نابود کر دینے کے ارادہ و پروگرام کے ساتھ آئے ہیں۔ اس لئے اس موقع پر تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ کہ یہ موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا، تو پہلے تو ان لوگوں نے اپنے اس معاہدہ امن و صلح کی بناء پر اس بارہ کچھ پس و پیش کیا۔ لیکن کچھ ہی توقف کے بعد یہ بھی اپنا وہ معاہدہ توڑ کر دشمنوں کے ساتھ شریک و شامل ہو گئے۔ جس سے دشمنوں کا حوصلہ دو چند ہو گیا۔ اور مسلمانوں کی پریشانی اور آزمائش بھی کہیں بڑھ گئی، مگر آخرکار اللہ تعالیٰ کے و فضل و کرم سے اور اس کی تائید غیبی کے نتیجے میں جس طرح ان احزاب کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اسی طرح انکو بھی نہایت ذلت آمیز انجام سے دو چار ہونا پڑا۔ روایات کے مطابق احزاب کے محاذ جنگ سے واپسی کے فوری بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بنو قریظہ پر حملے اور چڑھائی کا حکم و ارشاد ہو گیا، چنانچہ اس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا، جس پر انہوں نے بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا، جو تقریباً کوئی پچیس دن تک جاری رہا۔ آخرکار انہوں نے مرعوب ہو کر حضرت سعد بن معاذ کو اپنا حَکمَ مان لیا۔ کہ ہمارے بارے میں وہ جو بھی فیصلہ دیں گے ہمیں منظور ہو گا۔ چنانچہ حضرت سعد نے ان کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ انکے تمام قابل جنگ افراد کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ اسی فیصلے کو نافذ کیا گیا اور اسی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔ اور ان پر قدرت کی طرف سے ایسا رعب طاری کر دیا گیا، کہ یہ اس فیصلے کے خلاف چوں بھی نہیں کر سکے۔ آیت کریمہ میں اسی واقعے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ان کے قلعوں سے اتار دیا، اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔

۳۱۔۔۔    ان آیات کریمات سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مواخذہ اتمام حجت کے اعتبار سے ہو گا۔ اور اعمال کا صلہ و بدلہ ان حالات کے اعتبار سے ملے گا جن میں ان کو انجام دیا گیا ہو گا۔ ازواج مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجیت اور ان کی رفاقت و معیت کا جو شرف حاصل تھا وہ بلاشبہ ایک عظیم الشان اور بے مثال شرف واعزاز تھا، اور رسول اتمام حجت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں اس لئے جہاں ازواج مطہرات کا شرف و مرتبہ سب سے بڑا اور بلند تھا وہاں ان کی مسؤلیت اور ذمہ داری بھی سب سے بڑی تھی، اور اسی اعتبار سے ان کے مواخذے کی شدت بھی دوسروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہو گئی اور رسول کی رفاقت کے تقاضوں کو کما حقہ پورا کرنا، اور اس عظیم الشان رشتہ و تعلق کو پورا طرح نبھانا، کوئی سہل اور آسان کام نہیں تھا۔ اس لئے اس کا صلہ و بدلہ اور اجر و ثواب بھی دو گنا رکھا گیا۔ اعمال کے صلہ و بدلہ اور جرموں پر گرفت و مواخذہ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی رہا ہے اور یہ عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور مبنی بر عدل و حکمت ہے، اس لئے یہاں پر پیغمبر کے ذریعے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے سے ازواج مطہرات کو کہلوایا گیا کہ اگر بالفرض ان سے کوئی جرم و قصور صادر و سرزد ہو گیا، تو ان کو دوسروں کی نسبت سے دو گنا عذاب دیا جائے گا۔ اور اس کے برعکس جو صدق دل سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اور نیک عمل کرتی رہیں گی۔ انکو اجر و ثواب بھی دوہرا اور دو گنا دیا جائے گا۔ اور ان کو رزق کریم سے بھی نوازا جائے گا۔ رزق کے بارے میں حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس کی نسبت اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس سے مراد دراصل اس کا فضل وکرم اور انعام و احسان ہوتا ہے، اور اس کی صفت کریم لا کر اس فضل و کرم اور انعام و احسان کا درجہ و مرتبہ اور بلند کر دیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ ان کو یہ فضل و کرم بطور صدقہ و خیرات نہیں ملے گا۔ بلکہ یہ اس واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کی طرف سے بطور حق اور ہمیشہ کے لئے ملے گا اور ان کو یہ کسی قید و شرط کے بغیر اور بدوں کسی اندیشہ حساب و مواخذہ کے ملے گا۔ سبحان اللہ! کیا کہنے اس کی شان کرم کے، جس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے اس کے بندوں کو نوازا جاتا ہے، سو اس واہب مطلق جل وعلا کی طرف سے نوازتا ہی نوازنا ہے، اور ہمیشہ اور ہر طرح سے نوازنا، پس بندے کی طرف سے اپنے اس خالق و مالک کے ساتھ تعلق و رابطہ صحیح ہونا چاہیئے، کہ اس پر ایمان و یقین بھی پکا سچا ہو، اس پر بھروسہ و اعتماد بھی کامل ہو، اور وہ دل وجان سے رجوع بھی ہمیشہ اسی کی طرف رہے، اور مدد بھی اسی سے مانگے، اسی کی یاد دلشاد سے سرشار رہے، اور سب کچھ اسی سے ہونے کا یقین رکھے، کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۳۵۔۔۔    اس آیت کریمہ میں اسلامی معاشرے کے اہم اور بنیادی تقاضوں کو واضح فرما دیا گیا۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے یہاں جو معاشرہ مطلوب و محمود ہے، وہ کن کن صفات و خصال کا حامل اور امین و پاسدار ہونا چاہیے۔ اس لئے اس آیت کریمہ میں ایک جامع انداز و اسلوب کے ساتھ ان عمدہ صفات و خصال کو ذکر وبیان فرما دیا گیا جو اہل ایمان سے مطلوب ہیں۔ اسی لئے اس میں عورتوں کا ذکر ضمنا اور تبعا نہیں فرمایا گیا۔ بلکہ مردوں کے ساتھ ساتھ اور ان کے پہلو بہ پہلو فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ عورتوں کا تناسب معاشرے میں نصف ومساوی اور برابر سرابر ہے۔ اور معاشرے کی اصلاح و فساد اور اس کے بناؤ بگاڑ میں ان کا حصہ مردوں کے برابر، بلکہ ان سے بھی کسی قدر اور بعض اعتبارات سے بہت زیادہ ہے، سو اس آیت کریمہ میں ذکر و بیان فرمودہ ان صفات و خصال کے ذریعے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا گیا ہے کہ اس میں وہ اپنی تصویر خود دیکھ لیں کہ ان کو کیسا اور کیا ہونا چاہیئے؟ اور وہ کیسے اور کیا ہیں؟ اور اس طرح اس آئینے کی روشنی میں وہ اپنی اصلاح اور اپنا محاسبہ خود کرلیا کریں۔ نیز ان صفات کے ذکر سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل اعتبار فلاں ابن فلاں، یا کسی نسبت اور ذات وغیرہ کا نہیں، بلکہ انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اس کے عمل و کردار، اور اس کی صفات و خصال کا ہے، اور یہ صفات جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے تعداد میں کل دس ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ یہ اسلامی اخلاق و کردار کے تمام پہلوؤں کو شامل اور ان پر حاوی و محیط ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، اور کچھ کا حقوق العباد سے اور کچھ کا تعلق اصلاح نفس سے اور ان کے ذکر و بیان میں سب سے آخر میں ذکر اللہ کو بیان فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلشاد ہی ان سب صفات و خصال کا منبع و مصدر بھی ہے، اور وہی ان کا محافظ اور دفاعی حصار بھی، بندہ جس قدر زیادہ اور صحیح طور پر ذکر و یاد خداوندی سے سرفراز و سرشار ہو گا اسی قدر یہ عمدہ صفات و خصال اس کے اندر اور پختہ ہوتی جائیں گی۔ سو اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد دلشاد ہی سارے دین کی محافظ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کا سب سے بڑا مظہر اور اس سے سرفرازی کا سب سے عمدہ ذریعہ و وسیلہ نماز ہے، کہ نماز دراصل ذکر اللہ ہی کا دوسرا نام ہے، کہ اس میں انسان اپنے ظاہر و باطن، اپنے قلب و قالب، اپنے قیام و قعود، اور اپنی حرکات و سکنات سب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد دلشاد میں محو و مشغول ہوتا ہے، اس لئے قرآن حکیم میں اقامت صلوٰۃ یعنی نماز کو قائم کرنے کا حکم و ارشاد ذکر خداوندی سے سرشاری کے طور پر ہی فرمایا گیا، ارشاد ہوتا ہے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ، یعنی نماز قائم کرو میرے ذکر کیلئے، اور اس کے علاوہ قرآن حکیم میں دوسرے کئی مقامات پر بھی نماز کا ذکر اسی حیثیت سے فرمایا گیا ہے، کہ یہ تمام اعمال صالحہ اور خصال خیر کا منبع ومصدر بھی ہے۔ اور ان کے لئے محافظ اور دفاعی حصار بھی۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من الموطن فی الحیاۃ،

۴۰۔۔۔    یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت زید کا باپ قرار دے کر حضرت زینب کے نکاح کے بارے میں ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ یہ سب کچھ قطعی طور پر بے بنیاد تھا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زید کے اصل اور حقیقی باپ تھے ہی نہیں، کہ بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کا کوئی سوال پیدا ہوتا، سو اس ہر زہ سرائی کی تردید کے سلسلے میں ایسے لوگوں سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، کہ آپ کی کوئی نرینہ بالغ اولاد تھی ہی نہیں، کیونکہ آپ کی نرینہ اولاد سب کی سب بچپن ہی میں انتقال کر گئی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی رجال کی عمر کو نہیں پہنچا تھا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی مرد کے باپ ہیں ہی نہیں تو پھر کسی بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ کے نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے آپ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کا پورا کرنا آپ کے ذمے ضروری ہے، اور وہ آپ نے ادا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے بعد قیامت تک کسی نبی نے نہیں آنا۔ اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے ذریعہ متبنی سے متعلق جاہلیت کی رسم بد، اور جاہلانہ رواج، کی اصلاح کر دی جائے۔ کیونکہ آپ کے بعد اگر کسی اور نبی نے آنا ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے کو آئندہ کے لئے اٹھا رکھتا۔ لیکن جب آپ خاتم النبیین قرار پائے۔ سلسلہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پہنچ کر ختم ہو گیا۔ اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نہ کسی نبی نے آنا ہے نہ کسی رسول نے تو ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ہر اس چیز کی اصلاح کر دی جائے جو بگڑ چکی تھی، کیونکہ دین کی تکمیل آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ہو چکی۔ اور شریعت کو بھی آپ کے ذریعے مکمل کر دیا گیا۔ سو رسول کے بارے میں ضروری ہے کہ ان کو ان کے اصل منصب اور اصل ذمہ داریوں کے اعتبار سے دیکھا اور پرکھا جائے۔ نہ کہ اپنے رسم و رواج اور مفروضوں کے اعتبار سے۔

۴۲۔۔۔    اس سے منافقین و مفسدین کی محاذ آرائی کے مقابلے میں ثابت قدم رہنے کی تعلیم و تلقین بھی فرمائی گئی۔ اور اس کے لئے تدبیر بھی ارشاد فرمائی گئی کہ تم لوگ کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح بھی کرتے رہا کرو۔ اور ذکر خداوندی تو مومن کے لئے اس کی سانس کی طرح ہر وقت ضروری ہے، کہ یہی دراصل اس کی زندگی ہے اور اسی میں اس کی قوت و برداشت کا راز ہے۔ اور شیطان اور اس کی ذریت کی شرانگیزی اور غوغہ آرائی کے مقابلے میں کام آنے والی بھی، یہی چیز ہے اسی لئے قرآن حکیم میں جہاں جہاں معاندین و اشرار کے مقابلے میں اہل ایمان کو ثابت قدمی کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، وہاں ان کو نماز کی خاص طور پر تاکید فرمائی گئی ہے اور ذکر کے بعد یہاں پر دوسری چیز یہ ارشاد فرمائی گئی کہ تم لوگ صبح و شام اپنے رب کی تسبیح کرتے رہا کرو۔ جو کہ اصل میں تعبیر ہے نماز کی سو اس طرح یہاں پر عام کے بعد خاص کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور نماز کے لئے خاص خاص اوقات مقرر فرما دیئے گئے، جن کی جامع تعبیر صبح و شام ہے۔ پس نماز کا اپنے مقررہ وقتوں میں اہتمام ضروری ہے۔قرآن حکیم میں تو نماز کی طرف اشارے ہی فرمائے گئے ہیں، نماز کی ادائیگی اور اس سے متعلق دوسری تمام تفصیلات کو احادیث میں بیان فرمایا گیا ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں۔

۴۸۔۔۔    سو اس ارشاد میں اللہ کے رسول کے نذیر ہونے کے پہلو کو واضح فرما دیا گیا کہ آپ حق بات کی تبلیغ بہر حال کرتے رہیں، اور کافروں اور منافقوں کی باتوں پر کوئی دھیان اور توجہ نہ دیں۔ کہ آپ کا کام تو بہر حال انذار و تبلیغ ہے۔ ان معاندین و منکرین کی ایذاء رسانیوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ اور بھروسہ ہمیشہ اللہ ہی پر رکھیں، کہ وہ کار سازی کے لئے کافی ہے۔ وہ ایسے بدبختوں سے خود ہی نبٹ لے گا۔ سو اس ارشاد میں جہاں ایک طرف پیغمبر کے لئے تسلیہ و تسکین کا بڑا سامان ہے وہیں اس میں منکرین و مخالفین کے لئے سخت تنبیہ و تحذیر بھی ہے کہ وہ اپنی روش سے باز آ جائیں۔ ورنہ ان کا نتیجہ و انجام بہت برا ہو گا کہ ان کو اپنے کفر و نفاق اور عداوت و ہٹ دھری کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا۔ اور بڑی ہی ہولناک شکل میں، والعیاذ باللہ جل وعلا

۵۰۔۔۔    یہاں پر مِمَّا اَفَاءَ اللّٰہُ عَلَیْکَ کی تصریح سے اس امر کو واضح فرما دیا یا کہ یہاں پر مَامَلَکَتْ یَمِیْنُکَ سے مراد عام باندیاں نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ خاص عورتیں ہیں جو جنگ اور جہاد میں قید ہو کر آتیں۔ ان اسیرات میں بسا اوقات شریف خاندانوں اور سرداروں کی بہو بیٹیاں بھی ہوتی تھیں۔ جن کے ساتھ فی الجملہ امتیازی سلوک کرنا عقل ونقل دونوں کا تقاضا تھا، زمانہ جاہیت میں بھی ان کے ساتھ اس طرح کے امتیازی سلوک کی روایت موجود تھی اور اسلام نے بھی اس کو باقی رکھا۔ اس لئے اس طرح کی عورتیں تقسیم کے وقت بالعموم سرداروں ہی کو دی جاتی تھیں، اسی کے مطابق غزوہ بنو المصطلق میں حضرت جویرہ اور غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت صفیہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے حصے میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو لونڈیوں کی حیثیت سے بھی رکھ سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی خاندانی وجاہت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرما لیا اور یہ نکاح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی اجازت کے تحت کئے جو اس آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی تھی، یہ اجازت اگر آپ کو حاصل نہ ہوتی تو آپ ان دونوں سیدات کو لونڈیوں کی حیثیت سے تو رکھ سکتے تھے، لیکن بیویوں کی حیثیت سے نہیں رکھ سکتے تھے، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک قسم یک تنگی ہوتی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب عالی کے اعتبار سے بعض اخلاقی اور سیاسی مصالح میں مخل ہوتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح کی کسی تنگی سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ اجازت دے دی اور آپ کے یہ دونوں نکاح بالترتیب ۵ھ اور۷ھ میں ہوئے جس سے آپ کی ازواج مطہرات کی تعداد سات ہو گی۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام

 کسی خاتون کے کسی کے لئے ہبہ کر دینے کامطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حقوق زوجیت سے متعلق اپنے ہر حق سے دست بردار ہو جائے۔ اور اپنے آپ کو اس طرح اس کے حوالے کر دے کہ اس کا شوہر اس کے حقوق زوجیت میں سے جو کچھ اس کو بخش دے وہ اس پر راضی رہے گی۔ اور اسی پر قناعت کرے گی، اور ظاہر ہے کہ یہ ایثار نفس کی بڑی اونچی مثال ہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد صحابیات نے محض شرف نسبت حاصل کرنے کے لئے پیغمبر سے اس طرح کی خواہش کا اظہار کیا تھا حضور کی گھریلو زندگی کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ فقر و فاقہ اور عسرت و تنگدستی کی زندگی تھی۔ جس کے بارے میں صحیح روایت میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہاں لگاتار دو دو ماہ تک چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی عرض کیا گیا کہ پھر آپ لوگوں کا گزارا کس طرح ہوتا تھا؟ تو آپ نے فرمایا وَمَا ہُوَ اِلاَّ الاْسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُُ۔ یعنی ہمارا گزارا صرف دو کالی چیزوں پر ہوتا تھا یعنی پانی اور کھجور اسی لئے منافق عورتیں ازواج مطہرات کی اس فقیرانہ زندگی کی بناء پر ان کے اندر وسوسہ اندازی کرتی رہتی تھیں، کہ اگر وہ طلاق حاصل کریں تو وقت کے بڑے بڑے رئیسوں اور سرداروں کے ان کو نکاح کے پیغام آ سکتے ہیں اور اس طرح ان کی فقر و فاقہ کی یہ زندگی عیش و عشرت سے بدل سکتی ہے، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کوئی عورت کسی دنیاوی طمع کی خاطر ہبہ اور بخشش کی کوئی ایسی درخواست پیش نہیں کر سکتی تھی یہ قربانی تو وہی خواتین دے سکتی تھیں جن کے دلوں میں اللہ کے رسول سے محبت و عقیدت اور خدمت و قدویت کا ایسا غیر معمولی اور بے پناہ جذبہ موجود ہو جس کے لئے وہ اپنی زندگی کا ہر ارمان قربان کرنے کو تیار ہوں، اور وہ حضور کی خدمت کی سعادت و شرف کو دوسری ہر چیز پر فوقیت دیتی ہوں، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ جذبہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا لحاظ فرمایا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کی اجازت دی کہ اگر کوئی مومن عورت اس طرح اپنے آپ کو ان کے لئے ہبہ کر دے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم اگر اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں تو آپ ایسا کر سکتے ہیں اس کی ان کو اجازت ہے، کیونکہ یہ جذبہ اگرچہ بڑا پاکیزہ اور محمود جذبہ تھا۔ لیکن اس بارہ ہر درخواست کو قبول کر لینا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ممکن نہ تھا۔ اس لئے اس بارہ واضح فرما دیا گیا کہ یہ معاملہ کُلّیۃً حضور کی صوابدید پر منحصر ہے، کہ اس طرح کی کسی پیشکش کو اگر آپ چاہیں تو قبول کر لیں، نہیں تو نہیں، اور اس طرح کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی پیشکش قبول فرمائی تھی، اور وہ تھی اُمّ المومنین حضرت میمونہ کی پیشکش، جس کے مطابق ان کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عمرۃ القضاء کے موقع پر ۷ھ میں ہوا تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور کوئی نکاح نہیں فرمایا تھا۔ علیہ الصلوٰۃُ والسلام

۵۲۔۔۔    سو اس ارشاد سے ایک بات تو یہ واضح فرما دی گئی کہ مذکورہ بالا اصناف کی خواتین کے سوا دوسری تمام عورتوں کو پیغمبر کے لئے حرام فرما دیا گیا، جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے حضرات مفسرین کرام کی ایک بڑی ثقہ جماعت کی طرف سے اس بات کی اس طرح تصریح نقل فرمائی ہے وَمَا سِویٰ ذالک من اَصْناف النساء فَلَایَحِلُّ لَکَ۔ یعنی ان کے سوا دوسری تمام اقسام کی عورتیں تمہارے لئے جائز نہیں، یعنی اس مخصوص دائرہ کے باہر سے کسی بھی عورت سے آپ نکاح نہیں کر سکتے۔ اور دوسری بات اس میں یہ واضح فرما دی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواج میں سے کسی کو الگ کر کے ان کی جگہ کسی دوسری عورت کو اپنے عقد نکاح میں لے آئیں۔ اگرچہ وہ آپ کی نظروں میں کتنی ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو۔ اور تیسری بات اس میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے پس ہمیشہ اس بات کا دھیان رہے کہ اس کے ساتھ ہمارا معاملہ درست رہے۔ اور یہاں پر ظاہر ہے کہ اس کے مخاطب حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں اس لئے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر کوئی مسؤل اور جوابدہ ہے۔ اور جو جتنا بڑا ہو گا اتنا ہی زیادہ مسؤل ہو گا، جس سے یہ اہم درس ملتا ہے کہ ہر کسی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مواخذہ سے قبل اپنا محاسبہ خود کر لے اور اس یقین و اعتقاد کے ساتھ محاسبہ کرے کہ اس کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔ سبحانہ و تعالیٰ، اس لئے بندے کو ہمیشہ اسی اہم اور بنیادی تعلیم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ میرا معاملہ میرے اس خالق و مالک کے ساتھ ہر اعتبار سے صحیح اور درست رہے کہ یہ اس کا مجھ پر حق بھی ہے، اور اسی میں میرا بھلا اور فائدہ بھی ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بِکلِّ حَالٍ مِّن الاحوال،

۵۴۔۔۔    اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو چھپانا ممکن نہیں، کہ وہ ظاہر اور پوشیدہ ہر بات کو جانتا ہے اور پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے، اس لئے اس سے کوئی بھی بات، اور کسی کی کوئی بھی حالت اور کیفیت مخفی نہیں رہ سکتی، اس لئے اس کے یہاں صرف ظاہر داری کبھی نہیں چل سکے گی، سبحانہ و تعالیٰ، بلکہ اس کے ساتھ اپنے دل اور باطن کا معاملہ بھی صحیح رکھنے کی ضرورت ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید،

۵۵۔۔۔    اوپر والی آیت کریمہ میں ازواج مطہرات کے گھروں میں دوسروں کے داخل ہونے کے سلسلے میں جو خاص پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو ان پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں اور اس ضمن میں ان خاص اور اہم رشتہ داروں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن پر مذکورہ بالا پابندیاں عائد ہونگی جو سورہ نور کی آیت نمبر۳۱ میں ذکر فرمائی گئی ہیں، سو یہ آیت کریمہ بالکل اسی محل میں ہے جس میں سورہ نور کی مذکورہ بالا آیت کریمہ وارد ہوئی ہے دونوں کے اندر وارد ہونے والے الفاظ بھی اکثر مشترک ہیں، آخر میں ازواج مطہرات کو بھی اسی طرح کی تنبیہ فرمائی گئی جس طرح کی تنبیہ دوسروں اہل ایمان کے لئے ارشاد فرمائی گئی ہے، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی ہدایات کی پابندی کے سلسلہ میں محض ظاہر داری اور خانہ پوری مقصود نہیں، بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ ان کی تعمیل پوری خدا ترسی اور تقوی و پرہیزگاری کے تقاضوں کے مطابق کی جائے، اور اس اہم اور بنیادی حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں تم پر مطلع و شاہد ہے کسی کی کوئی بھی حالت و کیفیت اس سے کسی بھی طرح مخفی ومستور نہیں رہ سکتی اور کوئی بھی جگہ ایسی نہیں ہو سکتی جہاں انسان اس سے چھپ سکے۔ پس ہمیشہ اور ہر حال میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح و صاف رکھنے کی فکر و کوشش کی جائے کہ یہی اصل الاصول ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید،

۵۶۔۔۔    سو اس ارشاد سے اہل ایمان کو اللہ کے رسول پر صلوٰۃ و اسلام بھیجنے کی تعلیم تلقین اور اس کا حکم و ارشاد بھی فرمایا گیا ہے، اور ساتھ ہی اس کی عظمت و اہمیت بھی واضح فرما دی گئی، اور یہ کہ اس میں اہل ایمان کا خود اپنا ہی بھلا اور فائدہ ہے کہ اس سے ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ ہم آہنگ وہم رنگ ہونے کی وہ سعادت نصیب ہوتی ہے جس جیسی دوسری کوئی سعادت نہیں ہو سکتی، سو پیغمبر پر صلوٰۃ وسلام کی کثرت سے ایسے سچے ایمان والے اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ ہم نوائی کے شرف سے مشرف ہو کر اپنے آپ کو رحمت خداوندی کے حقدار و سزا وار بناتے ہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور صلوٰۃ کا لفظ ان الفاظ میں سے ہے جن میں نسبت بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں، پس جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو اس وقت اس کے معنی رحمت بھیجنے کے ہوتے ہیں، اور جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کے فرشتوں اور اس کے بندوں کی طرف ہوتی ہے تو اس وقت اس کے معنی اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعاء و درخواست کرنے کے ہوتے ہیں، بہر کیف پیغمبر پر درود وسلام بھیجنا ایک عظیم الشان سعادت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے خاص فضل و کرم سے نوازا ہے، فلہ والحمدللہ ولہ الشکر، فَصَلِّ اللّٰہُمَّ و سلم عَلیٰ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَمَنْ وَالَاہُ، مَاتَبْقیٰ ہٰذہ الْاَحْرُفُ وَالْکَلِمَاتُ، وَہُوَ العزِیْزُ الْوَہَّاب،

۵۹۔۔۔    اس آیت کریمہ میں پیغمبر کے اہل بیت یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات اور آپ کی بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین کے بارے میں یہ تعلیم دینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ جب ان کو کسی ضرورت کے پیش نظر اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے، تو وہ اپنی بڑی چادروں (جلابیب) کے کچھ حصوں کو اپنے اوپر لٹکا دیا کریں۔ تاکہ اس طرح ان کے اور دوسری غیر مسلم عورتوں اور لونڈیوں کے درمیان امتیاز ہو جائے۔ اور کسی کو ان سے کسی طرح کا تعرض اور چھیڑ خانی کرنے کی ہمت نہ ہو۔ واضح رہے کہ اس ہدایت کا تعلق گھر سے باہر کے پردے سے ہے۔ اور سورہ نور میں گھر کے اندر کے پردے سے متعلق ہدایت دی گئی ہے، یعنی جب ان کے اعزہ و اقرباء اجازت لے کر ان کے گھروں میں داخل ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنے کپڑوں کے اندر سمٹ سمٹا کر رہیں۔ ان کے سامنے اپنی زیب و زینت کا اظہار نہ کریں۔ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلیٰ جُیُوبِہِنَّ) اور ظاہر ہے کہ خمار یعنی اوڑھنی کا استعمال گھر کے اندر ہوتا ہے، اور جلباب یعنی بڑی چادر کا استعمال گھر کے باہر، سو مسلمان خواتین کو ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنی ان بڑی چاروں (جلابیب) کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یعنی اپنی ان بڑی چاروں کے گھونگٹ نکال۔ تاکہ اس طرح ان کا چہرہ بھی فی الجملہ ڈھنک جایا کرے۔ اور انکو چلنے پھرنے میں زحمت بھی پیش نہ آئے۔ اور یہی جلباب یعنی بڑی چادر ہمارے دیہاتوں میں شریف عورتوں اور بڑی بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے۔ اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سو برقعہ اسی جلباب ہی کے قائم مقام ہے، پس اس ارشاد ربانی سے برقعے کا ثبوت بڑے واضح الفاظ میں ملتا ہے، مغربی تہذیب کے دلدادگان اگر اس کا انکار کرتے ہیں تو یہ ان کی اپنی فریب خوردگی اور ان کی ذہنی مرعوبیت کا نتیجہ ہے، پھر اس حجاب کی افادیت و ضرورت کے سلسلے میں واضح فرما دیا گیا کہ یہ طریقہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ ان مسلم خواتین کی معرفت اور پہچان ہو جایا کرے، تاکہ کوئی ان سے کسی طرح کا تعرض یا چھیڑ خانی نہ کر سکے۔ اور یہ اس لئے کہ اس زمانے میں مدینہ طیبہ کے اندر غیر مسلم عورتیں بھی رہتی تھیں، جن کے یہاں پردے کی پابندی نہیں تھی۔ نیز وہاں پر لونڈیاں بھی ہوتی تھیں، جن کا معیار زندگی اور معیار اخلاق دونوں پست تھے، اس لئے شریر لوگوں کے لئے ان سے چھیڑ خانی کے لئے عذر اور بہانے بنانے کے مواقع بہت تھے۔ چنانچہ وہ اگر کسی مسلمان خاتون سے کسی طرح کی چھیڑخانی کرتے تو پھر کسی گرفت کے موقع پر کہہ دیتے کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے سمجھا کہ یہ فلاں لونڈی ہے، ہم اس سے فلاں بات معلوم کرنا چاہتے تھے، وغیرہ وغیرہ اس لئے مسلم خواتین کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ پردہ کر لیا کریں تاکہ ان کی پہچان ہو جایا کرے۔ اور وہ اس طرح کی کسی چھیڑخانی سے محفوظ رہیں۔ بہرکیف پردے میں حفاظت اور عزت و احترام کے کئی پہلو ہیں، اور یہ ایماندار خواتین کی عظمت شان کے اور انکی عفت و پاکدامنی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

۶۸۔۔۔    سو آج تو یہ لوگ اپنے لیڈروں اور اپنے بڑوں کے کہنے اور بہکانے میں آ کر حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، لیکن اس روز یہ لوگ رہ رہ کر افسوس کریں گے اور نہایت حسرت کے ساتھ اپنی اس تمنا کا اظہار کریں گے کہ اے کاش ہم نے اپنی دنیاوی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ اور ہم نے اپنے لیڈروں اور بڑوں کے چکمے میں آ کر اپنے لئے یہ شامت نہ بلائی ہوتی، سو آج تو یہ لوگ اپنے لیڈروں اور بڑوں کے خلاف کوئی بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے، لیکن اس روز یہ کھلم کھلا اپنی گمراہی کی ساری ذمہ داری انہی پر ڈالیں گے۔ اور صاف طور پر کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے دنیا میں ان کی بات مانی، اور ہم انہی کے کہنے پر چلتے رہے۔ تو انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ پس تو اے ہمارے رب! ان کو ہمارے مقابلے میں دوگنا عذاب دے۔ کہ انہوں نے ہی ہمیں گمراہ کیا۔ اور اس ہولناک انجام سے دوچار کیا، اور ان کی پیروی کی بناء پر جس لعنت کے مستحق ہم ٹھہرے۔ اس سے بھی بڑی لعنت ان پر فرما، یہاں پر ان لوگوں کی اس درخواست ہی کا حوالہ دیا گیا اللہ تعالیٰ ان کو اس کا جو جواب دے گا اس کا کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا۔ اس کا ذکر سورہ اعراف کی آیت نمبر۳٨ میں فرمایا گیا ہے چنانچہ وہاں پر ارشاد فرمایا گیا لِکُلٍّ ضِعْفٌ یعنی تم میں سے ہر گروہ کے لئے دوہرا عذاب ہے، کہ تم سب کا جرم دوہرا اور ڈبل ہے۔ یہاں پر سَادَتَنَا اور کُبَرَاءَ نَا کے دو لفظ ذکر فرمائے گئے ہیں، سادۃ جمع ہے سید کی جس کے معنی سردار کے آتے ہیں، سو اس سے مراد ان کے لیڈر اور سردار ہیں، اور کبراء جمع ہے کبیر کی جس سے مراد ان کے خاندانی اور مذہبی پیشوا ہیں، سو ان میں سے کسی کی بھی آنکھ بند کر کے، اندھی اور اوندھی اطاعت و فرمانبرداری جائز نہیں، بلکہ غور و فکر اور عقل و فہم کے استعمال کے بعد، اور اس بات کا جائزہ لے کر ان کی اطاعت کی جائے کہ ان میں سے کس کی بات حق اور اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو حق اور باطل کے درمیان فرق و تمیز کرنے کے لئے عقل کے عظیم الشان جوہر اور اس کی روشنی سے نوازا ہے۔ اس لئے ہر انسان کے ذمے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عقل وخرد کی اس عظیم الشان کسوٹی سے کام لے۔ اور معاملے کو اس پر پرکھ کر دیکھے، تاکہ وہ اس حق ہی کی پیروی کرے جو اس کو اپنے ان بڑوں سے ملا ہے۔ اور اگر وہ اس کسوٹی کی پرکھ سے دیکھتا ہے کہ ان کی بات راہ حق و صواب سے ہٹی ہوئی ہے تو وہ اس کی پیروی نہ کرے۔ کیونکہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِبَۃِ الْخالِقِ کے بنیادی اصول اور ضابطہ کلیہ کا تقاضا یہی ہے۔ یعنی یہ کہ خالق کی معصیت و نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، پس جو کوئی عقل کی اس کسوٹی سے صحیح طور پر کام لے گا وہ گمراہی کے کسی ایسے کھڈے میں نہیں گرے گا۔ اگر وہ کبھی کہیں ٹھوکر کھا بھی جائے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو سہارے دے دے گی۔ اور وہ اس کو معاف فرما دے گا، لیکن جو کوئی آنکھیں بند کر کے اپنی باگ دوسروں کے ہاتھ میں پکڑا دے گا اس کا حشر وہی ہو گا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ والعیاذ باللہ بکل حالٍ مِّن الاحوال۔