اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ قسم ہے اس حکمتوں بھرے قرآن کی
۳۔۔۔ بلاشبہ آپ (اے پیغمبر) قطعی طور پر رسولوں میں سے ہیں
۵۔۔۔ یہ (قرآن) سراسر اتارا ہوا ہے اس ذات کا جو (سب پر) غالب انتہائی مہربان ہے
۶۔۔۔ تاکہ آپ (اس کے ذریعے ) خبردار کریں ایسے لوگوں کو جن کے باپ داداؤں کو خبردار نہیں کیا گیا تھا (عہد قریب میں ) جس سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
۷۔۔۔ بلاشبہ ان میں سے اکثر پر پکی ہو گئی ہماری بات سو اب یہ ایمان نہیں لائیں گے
۸۔۔۔ بے شک ہم نے ڈال دئیے ان کی گردنوں میں ایسے بھاری بھر کم طوق جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں جن میں یہ (بری طرح) جکڑے ہوئے ہیں
۹۔۔۔ اور ہم نے ان کے آگے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے اور ان کے پیچھے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے پھر (اوپر سے بھی) ان کو ایسا ڈھانک دیا ہے کہ انہیں کچھ سوجھ کے ہی نہیں دیتا
۱۰۔۔۔ اور ان کے حق میں برابر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو خبردار کریں یا نہ کریں انہوں نے بہر حال ایمان نہیں لانا
۱۱۔۔۔ آپ کا خبردار کرنا تو اسی شخص کو فائدہ دے سکتا ہے جو ڈرتا ہو (خدائے ) رحمان سے بن دیکھے سو ایسوں کو خوشخبری سنا دو ایک بڑی بخشش اور عزت والے اجر کی
۱۲۔۔۔ بلاشبہ ہم زندہ کرتے ہیں (اور کریں گے ) مردوں کو اور ہم لکھتے جا رہے ہیں ان کے وہ اعمال بھی جو انہوں نے آگے بھیج دئیے ہیں اور ان کے وہ آثار (اور نشانات) بھی جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں اور (اس سے بھی بہت پہلے ) ہم نے ہر چیز کو ضبط کر رکھا ہے ایک واضح کتاب میں
۱۳۔۔۔ اور سناؤ ان کو قصہ ان بستی والوں کو (عبرت و) مثال کے طور پر جب کہ آئے ان کے پاس رسول
۱۴۔۔۔ یعنی جب کہ (شروع میں ) ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے تو ان لوگوں نے صاف طور پر جھٹلا دیا ان دونوں کو پھر ہم نے ان کی تائید (و تقویت) کے لئے ایک تیسرے رسول کو بھیجا تو ان تینوں نے (بستی والوں سے ) کہا کہ بلاشبہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں
۱۵۔۔۔ جواب میں بستی والوں نے کہا کہ تم تو ہم ہی جیسے بشر (اور انسان) ہو اور (خدائے ) رحمان نے کوئی چیز نہیں اتاری تم تو محض جھوٹ بولتے ہو
۱۶۔۔۔ ان رسولوں نے کہا کہ ہمارا رب خوب جانتا ہے کہ ہمیں یقینی طور پر تمہاری طرف بھیجا گیا ہے رسول بنا کر
۱۷۔۔۔ اور ہمارے ذمے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم (پیغام حق) پہنچا دیں کھول کر
۱۸۔۔۔ (پھر بھی) بستی والوں نے کہا کہ ہم تمہیں منحوس پاتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم یقیناً سنگسار کر دیں گے تم (تینوں ) کو اور تمہیں ضرور پہنچ کر رہے گا ہماری طرف سے ایک دردناک عذاب
۱۹۔۔۔ رسولوں نے جواب دیا کہ تمہاری نحوست تو خود تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے کیا اگر تمہیں نصیحت کی جائے (تو تم اس کو نحوست سمجھتے ہو نہیں ) بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ خود حد سے بڑھنے والے لوگ ہو
۲۰۔۔۔ ادھر ایک شخص دوڑتا ہوا آیا شہر کے اس (پرلے ) کنارے سے (اور اس نے آ کر ان سے ) کہا اے میری قوم کے لوگو! تم پیروی کرو رسولوں کی
۲۱۔۔۔ پیروی کرو تم ان کی جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اور وہ ہیں سیدھی راہ پر
۲۲۔۔۔ اور میرے لئے کیا عذر ہو سکتا ہے کہ میں بندگی نہ کروں اس (معبود برحق) کی جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے اور تم سب کو بہر حال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
۲۳۔۔۔ کیا میں اس (وحدہٗ لاشریک) کے سوا ایسے (خود ساختہ اور بے حقیقت) معبودوں کی پوجا کروں کہ اگر (خدائے ) رحمان مجھے کوئی تکلیف پہنچانے پہ آ جائے تو نہ ان کی سفارش مجھے کچھ کام آ سکے اور نہ ہی وہ مجھے (اس کی گرفت و پکڑ سے ) کسی طرح بچا سکیں ؟
۲۴۔۔۔ ایسی صورت میں تو یقیناً میں پڑا ہوں گا کھلی گمراہی میں
۲۵۔۔۔ یقیناً میں تو (صدق دل سے ) ایمان لے آیا تمہارے رب پر پس تم سب میری بات سنو
۲۶۔۔۔ (مگر ان لوگوں نے اسے شہید کر دیا) اور (شہید ہوتے ہی اس سے کہہ دیا گیا) کہ داخل ہو جا تو جنت میں اس پر اس نے کہا اے کاش کہ میری قوم جان لیتی
۲۷۔۔۔ (اس بات کو) جس کی بدولت میری بخشش فرما دی میرے رب نے اور مجھے شامل فرما دیا با عزت لوگوں میں
۲۸۔۔۔ اور اس کے بعد اس کی قوم پر نہ تو ہم نے آسمان سے کوئی لشکر اتارا اور نہ ہمیں لشکر اتارنے کی کوئی ضرورت ہی ہوتی ہے
۲۹۔۔۔ وہ تو بس ایک ہی ایسی ہولناک آواز تھی جس کے نتیجے میں وہ سب کے سب بجھ کر رہ گئے (ہمیشہ ہمیش کے لئے )
۳۰۔۔۔ افسوس! بندوں کے حال پر کہ ان کے پاس جو بھی کوئی رسول آیا انہوں نے (اس کو جھٹلایا) اور یہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے
۳۱۔۔۔ کیا ان لوگوں نے کبھی) اس بات پر (غور نہیں کیا کہ ان سے پہلے ہم (اسی جرم میں ) کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں کہ اب وہ ان کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے
۳۲۔۔۔ ان سب کو بہر حال اکٹھا کر کے ہمارے حضور حاضر کیا جانا ہے
۳۳۔۔۔ اور ان کے لئے ایک عظیم الشان نشانی تو (ان کے پیش پا افتادہ) یہ مردہ زمین بھی ہے جسے ہم زندہ کر کے اس سے نکالتے ہیں طرح طرح کے غلے جس سے یہ لوگ کھاتے ہیں
۳۴۔۔۔ اور اس میں ہم نے طرح طرح کے باغ پیدا کر دیئے کھجوروں اور انگوروں (وغیرہ) کے اور پھوڑ نکالے ہم نے اس میں قسما قسم کے چشمے
۳۵۔۔۔ تاکہ یہ لوگ کھائیں اس کے پھلوں سے اور (یہ سب کچھ ہم نے ہی کیا ورنہ) ان کے ہاتھوں نے اس کو نہیں بنایا تو کیا پھر بھی یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے
۳۶۔۔۔ پاک ہے وہ ذات جس نے پیدا کئے جوڑے ہر قسم کے ان چیزوں میں سے بھی جن کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کی اپنی جانوں سے بھی اور ان چیزوں سے بھی جن کو یہ لوگ جانتے تک نہیں
۳۷۔۔۔ اور ایک اور عظیم الشان نشانی ان کے لئے یہ رات بھی ہے جس سے کھینچ نکالتے ہیں ہم (اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے ) دن کو جس سے یہ لوگ (چمکتی دمکتی روشنی کی بجائے ) اندھیرے میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں
۳۸۔۔۔ اور سورج بھی جو کہ چلے جا رہا ہے اپنے مقرر ٹھکانے کی طرف یہ اندازہ مقرر کیا ہوا ہے اس ذات کا جو (سب پر) غالب انتہائی علم والی ہے
۳۹۔۔۔ اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ وہ (ان سے گزرتا ہوا آخرکار) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو کر رہ جاتا ہے
۴۰۔۔۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ ہی رات سبقت لے جا سکتی ہے دن پر ہر ایک تیرے جا رہا ہے اپنے مستقل دائرے میں
۴۱۔۔۔ اور ان کے لئے ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کو سوار کیا اس بھری کشتی میں
۴۲۔۔۔ اور ان کے لئے اسی جیسی اور بھی ایسی چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں
۴۳۔۔۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کو اس طرح غرق کر کے رکھ دیں کہ نہ تو ان کا کوئی فریاد رس ہو اور نہ ہی ان کو کسی طرح بچایا جا سکے
۴۴۔۔۔ مگر ہم نے محض اپنی رحمت کی وجہ سے اور ایک مدت تک ان کو فائدہ اٹھانے کا موقع دینے کے لئے (ان کو مہلت دے رکھی ہے )
۴۵۔۔۔ اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو تم اس عذاب سے جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سنی ان سنی کر دیتے ہیں )
۴۶۔۔۔ اور ان کے پاس جو بھی کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے آتی ہے تو یہ اس سے اعراض (اور سرتابی) ہی کرتے ہیں
۴۷۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ خرچ کرو اس میں سے جو کہ تم کو اللہ نے بخشا ہے (اپنی رحمت و عنایت سے ) تو وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر پر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم ان کو کھلائیں جن کو اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا تم لوگ تو صاف طور پر پڑے ہو کھلی گمراہی میں
۴۸۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ آخر کب پوری ہو گی تمہاری یہ دھمکی اگر تم سچے ہو؟
۴۹۔۔۔ یہ لوگ تو بس ایک ایسی ہولناک آواز ہی کی راہ تک رہے ہیں جو ان کو یکایک عین اس وقت آ پکڑے گی جب کہ یہ باہم جھگڑ رہے ہوں گے
۵۰۔۔۔ اس وقت نہ تو یہ کوئی وصیت کر سکیں گے اور نہ ہی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے
۵۱۔۔۔ اور جب پھونک مار دی جائے گی صور میں (دوسری مرتبہ) تو یہ سب یکایک اپنی قبروں سے نکل نکل کر دوڑے چلے جا رہے ہوں گے اپنے رب کی طرف
۵۲۔۔۔ تب یہ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی! کس نے اٹھایا ہمیں ہماری قبروں سے ؟ (جواب ملے گا کہ) یہی ہے وہ جس کا وعدہ فرمایا تھا (خدائے ) رحمان نے اور سچ کہا تھا اس کے رسولوں نے بھی
۵۳۔۔۔ بس زور کی ایک ایسی آواز ہو گی جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب یکایک ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے
۵۴۔۔۔ سو آج کسی بھی شخص پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں تمہارے انہی کاموں کا بدلہ دیا جائے گا جو تم لوگ خود کرتے رہے تھے (اپنی دنیاوی زندگی میں )
۵۵۔۔۔ جنت والے بلاشبہ اس دن دل پسند چیزوں میں خوش ہو رہے ہوں گے
۵۶۔۔۔ وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں اپنی مسندوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے
۵۷۔۔۔ ان کے لئے وہاں ہر قسم کے پھل بھی ہوں گے اور ان کو وہاں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ طلب کریں گے
۵۸۔۔۔ (مزید ایک اور بڑا انعام ان کے لئے یہ ہو گا کہ) ان کو سلام کہا جائے گا رب رحیم کی طرف سے
۵۹۔۔۔ اور (دوسری طرف دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ) الگ ہو جاؤ آج کے دن تم اے مجرمو !
۶۰۔۔۔ کیا میں نے تم کو تاکید نہ کر دی تھی کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرنا کہ وہ قطعی طور پر تمہارا کھلا دشمن ہے
۶۱۔۔۔ اور یہ کہ بندگی صرف میری ہی کرنا کہ یہی ہے سیدھا راستہ؟
۶۲۔۔۔ مگر (اس کے باوجود) اس نے گمراہ کر دیا تم میں سے ایک بڑی خلقت کو (طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ) تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے تھے ؟
۶۳۔۔۔ یہ ہے وہ جہنم جس سے تم کو ڈرایا جاتا تھا
۶۴۔۔۔ اب داخل ہو جاؤ تم اس میں اپنے اس کفر (و انکار) کی پاداش میں جس کا ارتکاب تم لوگ (اپنی دنیاوی زندگی میں ) کرتے رہے تھے
۶۵۔۔۔ آج ہم مہر لگا دیں گے ان کے مونہوں پر اور باتیں کریں گے ہم سے ان کے ہاتھ اور گواہی دیں گے ان کے پاؤں ان سب کاموں کی جو یہ لوگ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے
۶۶۔۔۔ اور اگر ہم چاہیں تو (اس دنیا ہی میں ) مٹا دیں ان کی آنکھوں کو پھر یہ (اندھے ہو کر) لپکیں راستے کی طرف مگر پھر کہاں (اور کیسے ) سوجھ سکے ان کو؟
۶۷۔۔۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کی اپنی جگہ پر ہی اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں کہ نہ تو یہ آگے چل سکیں اور نہ پیچھے پلٹ سکیں
۶۸۔۔۔ اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو ہم الٹا (اور اوندھا) کر دیتے ہیں اس کی خلقت (و پیدائش) میں تو کیا یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟
۶۹۔۔۔ اور ہم نے پیغمبر کو نہ تو شاعری سکھائی اور نہ ہی یہ آپ کی شان کے لائق تھی یہ (کلام جو آپ سنا رہے ہیں ) اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک عظیم الشان نصیحت (و یاد دہانی) اور کھول کر بیان کرنے والا قرآن ہے (حق اور حقیقت کو)
۷۰۔۔۔ تاکہ وہ خبردار کرے ہر اس شخص کو جو زندہ ہو اور تاکہ حجت قائم ہو سکے کافروں (اور منکروں ) پر
۷۱۔۔۔ کیا ان لوگوں نے کبھی اس امر میں غور نہیں کیا کہ (کس رحمت و عنایت کے ساتھ) پیدا کیا ہم نے ان کے لئے ان چیزوں میں سے جن کو ہم نے بنایا اپنے ہاتھوں سے ایسے (عظیم الفوائد) چوپایوں کو جن کے یہ مالک بنے ہوئے ہیں
۷۲۔۔۔ اور (کس طرح) ہم نے ان کو ان لوگوں کے بس میں کر دیا جس کے نتیجے میں ان میں سے کچھ پر یہ سواری کرتے ہیں اور کچھ سے یہ کھاتے ہیں
۷۳۔۔۔ اور ان کے لئے ان جانوروں میں اور بھی طرح طرح کے فائدہ بھی ہیں اور قسما قسم کی پینے کی چیزیں بھی تو کیا یہ لوگ شکر نہیں بجا لاتے ؟
۷۴۔۔۔ اور انہوں نے (اس سب کے باوجود) طرح طرح کے ایسے (خود ساختہ و من گھڑت) معبود بنا رکھے ہیں کہ شاید (ان کے ذریعے ) ان کی کوئی مدد کی جا سکے
۷۵۔۔۔ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے بلکہ الٹا یہ لوگ ان کے لئے حاضر باش لشکر بنے ہوتے ہیں
۷۶۔۔۔ پس غم میں نہ ڈالنے پائیں آپ کو (اے پیغمبر !) ان لوگوں کی (بے ہودہ اور دکھ دہ) باتیں ہمیں خوب معلوم ہے وہ سب کچھ جو کہ یہ چھپاتے ہیں اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں
۷۷۔۔۔ کیا انسان نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہم ہی نے پیدا کیا اس کو ایک (حقیر و مہین) نطفے سے پھر وہ (حق کے بارے میں ہی) کھلم کھلا جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا
۷۸۔۔۔ اور وہ ہمارے لئے تو مثالیں بیان کرتا ہے مگر خود اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے کہتا ہے کہ کون زندہ کرے گا ان ہڈیوں کو جب کہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟
۷۹۔۔۔ (اس سے ) کہو کہ ان کو وہی (قادر مطلق) زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے (عدم محض سے ) اور وہ ہر پیدائش کو پوری طرح جانتا ہے
۸۰۔۔۔ وہ جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی کہ تم جھٹ پٹ اس سے آگ سلگا لیتے ہو
۸۱۔۔۔ اور کیا جس نے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو پیدا کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے ؟ کیوں نہیں جب کہ وہی ہے اصل پیدا کرنے والا سب کچھ جانتا
۸۲۔۔۔ اس (قادر مطلق) کا معاملہ تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب وہ کسی چیز کو (وجود میں لانا) چاہتا ہے تو اسے صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا پس وہ کام ہو چکا ہوتا ہے
۸۳۔۔۔ سو پاک ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہے پورا اختیار ہر چیز کا اور تم سب کو اے لوگو! بہر حال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
۳۔۔۔ سو قرآن حکیم کی قسم کھا کر واضح فرما دیا گیا کہ آپ (اے پیغمبر!) واقعی آپ اللہ کے رسولوں میں سے ہیں، یعنی یہ قرآن حکیم اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں، کیونکہ ایسا حکمتوں بھرا کلام پیش کرنا اللہ کے رسول کے سوا اور کسی کے لئے ممکن نہیں سو اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اعجاز قرآن میں اصل دخل اس کے علم و حکمت ہی کو ہے، اس کی زبان کی بلاغت اس پر ایک شی مستزاد ہے اصل چیز اس کی معنوی حکمت و عظمت ہے، والحمدللہ جل وعلا، سو قرآن حکیم اس کے پیش کرنے والے پیغمبر کی صداقت و حقانیت کی ایک واضح اور قطعی دلیل ہے، اسی لئے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر اس کی قسم کھائی گئی ہے، اور اس کی صفات میں سے مختلف صفات کے اعتبار سے اس کے لئے کی گئی ہے مثلا یہاں پر اس کی قسم اس کی حکمت بے پایاں کے اعتبار سے کھائی گئی ہے، جبکہ ایک اور مقام پر اس کے ذکر و نصیحت اور تذکیر و یاد دہانی کے اعتبار سے کھائی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے وَالْقُرْانُ ذِی الذِّکْرِ، یعنی قسم ہے اس قرآن ذکر والے کی، اور ایک اور مقام پر اس کے مجدد و بزرگی کے اعتبار سے اس کی قسم کھائی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے، ق وَالْقُرْانِ الْمَجِیْدُ، یعنی قسم ہے اس قرآن بزرگی والے کی، وغیر ذالک،
۱۱۔۔۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کی تعلیم و تذکیر سے فائدہ انہی لوگوں کو پہنچ سکتا ہے جو ان کی آواز پر کان دھریں، اور ان کی نصیحت کو سنیں۔ اور اپنے دل و دماغ کے دریچے اس کے لئے کھولیں۔ اور یہ ایک طبعی اور معقول امر ہے کہ آسمان سے اترنے والی باران رحمت سے فائدہ اسی زمین کو ہو سکتا ہے جواس کے لئے اپنے مسام کھولے۔ اور اس پانی کو اپنے اندر جذب کرے۔ ورنہ پتھر اور پتھر جیسی سخت زمین کو اس سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ خواہ وہ بارش کتنی زیادہ اور زور دار کیوں نہ ہو۔ پس جو لوگ اپنی عقل و فکر سے کام لینے کے بجائے محسوسات ہی کے غلام بن کر رہ جائیں۔ وہ اس وقت تک کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہوں جب تک کہ ان پر عذاب کا کوڑا برس نہ جائے۔ تو ان کے لئے اس میں کوئی فائدہ نہیں، وہ اسی وقت مانیں گے، جب عذاب ان پر آ جائے، مگر اس وقت کے اس ماننے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، کہ وہ ایمان مشاہدہ کے بعد کا ہے جو کہ نہ مفید ہے، اور نہ ہی مطلوب، اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر اور مفید ایمان وہی ہے جو عقل وفکر، اور سمع و بصر، کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے اور پیغمبر کی دعوت و تبلیغ پر بالغیب یعنی بن دیکھے لایا جائے۔ پس ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ایک عظیم الشان بخشش اور اجر کریم کی خوشخبری دے دو جو نصیحت پر کان دھرتے، اور بن دیکھے خدائے رحمان سے ڈرتے ہیں۔
۱۸۔۔۔ یعنی ان رسولوں کی دعوت کے زمانے میں جب اس بستی کے لوگوں پر مختلف قسم کی مصیبتیں اور پریشانیاں آئیں تو انہوں نے بجائے اس کے کہ وہ ان سے سبق لیں، اور حق کی طرف جھکیں الٹا انہوں نے ان کو انہی رسولوں کی نحوست کا نتیجہ قرار دیا۔ کہ تم لوگوں اور تمہاری اس دعوت کے نتیجے میں ہمارے خود ساختہ معبود اور دیویاں دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں ہم پر یہ مصیبتیں اور آفتیں آتی ہیں۔ لہٰذا تم لوگ اپنے ان طور طریقوں سے باز آ جاؤ۔ ورنہ ہم تم کو سنگسار کر دیں گے۔ اور تم کو ہماری طرف سے بڑا دردناک عذاب پہنچ کر رہے گا۔ سو یہی نتیجہ و انجام ہوتا ہے کفر و شرک کی نحوست کا، کہ اس سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے جس کے باعث وہ سیدھی بات کو بھی الٹا سمجھنے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ نور حق و ہدایت سے مزید دور اور محروم ہوتا جاتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم،
۱۹۔۔۔ سو اس کے جواب میں ان رسولوں نے ان لوگوں سے فرمایا کہ تمہاری نحوست تو خود تمہارے ساتھ ہے۔ یعنی تمہارا وہ کفر و شرک جس کو تم لوگوں نے گلے لگا رکھا ہے، اور جو کچھ تم لوگوں کو پیش آ رہا ہے وہ خود تمہارے اپنے ہی عقائد و اعمال کا نتیجہ و ثمرہ ہے، اس لئے تم لوگوں کو چاہیے کہ تم دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے خود اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو۔ اور اپنے اعمال و عقائد کی اصلاح کرو۔ کیا تم لوگ ہمیں اسی بناء پر منحوس قرار دیتے ہو کہ ہماری طرف سے تم کو تذکیر و یاد دہانی کرائی گئی ہے؟ اور تم کو نیک و بد سے آگہی بخشی گئی ہے؟سو تم لوگوں کی ہلاکت و تباہی اور نحوست و مت ماری کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم سرکش اور حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔ اور اسی کے نتیجے میں تم لوگ ان بندگان خدا کو اپنی نحوست کا سبب قرار دے رہے ہو۔ جو تمہیں خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ تاکہ تم ان سے بچنے کی فکر کرو، اور اس طرح خود تمہارا بھلا ہو، مگر تم ہو کر الٹا اپنے ایسے محسنوں اور خیر خواہوں کو منحوس قرار دے رہے ہو، یہ کیسی بے انصافی، ناشکری اور سینہ زوری و ہٹ دھرمی ہے جس کا ارتکاب تم لوگ کرتے ہو؟ والعیاذُ باللہ العظیم،
۲۲۔۔۔ یعنی جب میرا خالق و مالک وہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا، اور وجود بخشا۔ اور اسی کے حضور تم سب کو آخرکار لوٹ کر جانا ہے۔ اور وہاں اپنے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ تو پھر میں اسی کی عبادت کیوں نہ کروں؟ اور جب اس کی اس شان میں کوئی بھی اس کا شریک و سہیم نہیں ہے، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم آخر کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس میں ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کی، اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کی عبادت و بندگی کروں گا، کہ ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، پس تم لوگ بھی اسی کی بندگی کرو کہ یہ اس خالق و مالک کا تم پر حق بھی ہے۔ اور اسی میں تمہارا بھلا اور فائدہ بھی ہے۔ اور اس کی عبادت و بندگی سے سرشاری کا طریقہ یہ ہے، کہ تم لوگ اس کے بھیجے ہوئے ان رسولوں کی اتباع اور پیروی کرو جو نہ تم سے کسی قسم کا کوئی اجر اور بدلہ مانگتے ہیں، اور نہ وہ کسی قسم کے صلہ وستائش کے طلب گار ہیں۔ اور وہ ہیں بھی راہ حق و ہدایت پر۔ پس سلامتی ان ہی کی اور صرف انہی کی پیروی میں منحصر ہے، اور نجات کی راہ بھی یہی ہے۔ جس سے اعراض و روگردانی سراسر محرومی اور ہلاکت و تباہی کی راہ ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۲۷۔۔۔ سو اس بندہ صدق و صفا نے قوم کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کے باوجود ان کے سامنے اپنے اس پکے ایمان و عقیدہ کا اعلان کر دیا۔ اور ان سے صاف کہہ دیا کہ میں تو بہر حال ایمان لا چکا تمہارے رب پر۔ پس تم لوگ میری بات سنو۔ کہ راہِ حق و ہدایت بہر حال یہی ہے، اور میں اسی پر ثابت قدم رہوں گا۔ اور اس سے کبھی ہٹنے اور ٹلنے والا نہیں، کیونکہ اس راہ سے ہٹنا اور ٹلنا دراصل رب کی راہ سے ہٹنا اور ٹلنا ہے جو کہ ہلاکت و تباہی کی راہ ہے۔ روایات کے مطابق جب اس نے اس طرح صاف طور پر اپنے ایمان و یقین کا اعلان کر دیا تو ان سب نے یکبارگی اس پر حملہ کر دیا۔ یہاں تک کہ اس کو شہید کر ڈالا (قرطبی، ابن کثیر، وغیرہ) تفسیری روایات میں اس مرد مومن کا نام حبیب النجار ذکر کیا گیا ہے، سو جب ان لوگوں نے اس بندہ مومن کو شہید کر دیا۔ تو اس کی شہادت کے فوری بعد اس کے صدق و اخلاص کی بناء پر، اور اس کی اس عظیم الشان قربانی کے نتیجے میں قدرت کی طرف سے اس کو اس انعام سے نوازا گیا تو اس بندہ صدق و صفا کو اس موقع پر بھی اپنی قوم یاد آئی۔ تو اس نے حسرت و افسوس کے انداز میں کہا کاش کہ میری قوم جان لیتی اس بات کو اور اس کی قدر و قیمت کو جس کے صلے اور بدلے میں مجھے یہ عزت وسرفرازی نصیب ہوئی۔ میرے رب نے میری بخشش فرمائی، اور مجھے ایسے با عزت اور فائز المرام لوگوں میں شامل فرما دیا۔ اسی لئے روایات میں اس کے بارے میں وارد ہے کہ اس نے اپنی قوم کی خیرخواہی کی اپنی زندگی میں بھی، اور اپنی موت کے بعد بھی، (نَصَحَ قَوْمَہ، حَیًّا وَمَیّتاً) (ابن کثیر۔ کشاف وغیرہ) سو صدق و اخلاص، اور ایمان و یقین کی دولت کی بناء پر، اور اس کے نتیجے میں وہ تو شہادت کے درجے اور مرتبے پر فائز ہو کر وہ بندہ مومن تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں چلا گیا، لیکن اس کی وہ بدبخت قوم اپنے کفر و انکار کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لقمہ عذاب بن گئی، والعیاذ ُباللہ العظیم
۳۴۔۔۔ سو حکمتوں، رحمتوں، عنایتوں، اور عبرتوں بھری اس زمین کے اندر پائے جانے والے طرح طرح کے یہ غلے اور اناج، کھجوروں اور انگوروں، وغیرہ کے یہ عظیم الشان باغات، قسما قسم کے یہ فرحت بخش چشمے، اور آب زلال و رواں کے یہ بیش قیمت خزانے وغیرہ وغیرہ، آخر یہ سب کچھ کس کی عطاء و بخشش اور کرم و احسان کے نمونے ہیں؟ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک، واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، جس کی عطاء و بخشش کے یہ انمول و لا تعداد نمونے اور بیش قیمت و بے مثال خزانے تمہاری نگاہوں کے سامنے اور ہر چہار سُو پھیلے بکھرے ہیں، جس سے تم لوگ ہمیشہ اور ہر حال میں اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو، اور زندگی کے ہر دائرے اور ہر حصے میں مستفید و فیضیاب ہوتے ہو تو پھر تم لوگ سوچتے کیوں نہیں کہ آخر اس خالق کل مالک مطلق رب کریم و رحیم کا تم لوگوں پر کیا حق عائد ہوتا ہے؟ اور اس کے اس حق کو ادا کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اور کیا تم لوگوں سے ان نعمتوں کے بارے میں کوئی پُرسش و پُوچھ نہیں ہو گی؟ اور کیا جس نے تمہاری ظاہری اور مادی زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایسے عظیم الشان اور پُر حکمت انتظامات فرمائے، آخر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری روحانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے کوئی سامان و انتظام نہ کرے؟ جبکہ روحانی ضرورتوں کی تکمیل، ان جسمانی اور مادی نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ضروری ہے، سو نعمتوں بھری اس کائنات میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لینے سے ان تمام سوالوں کا صحیح جواب مل سکتا ہے، اور اس طور پر کہ تم لوگوں کو حق و ہدایت کی صراط مستقیم بھی نصیب ہو سکتی ہے، اور تمہاری دنیا بھی سنور سکتی ہے، اور آخرت بھی بن سکتی ہے۔ سو اس خالق کل، اور مالک مطلق رب ذوالجلال والا کرام کا حق اس کی عبادت و بندگی اور اس کی اطاعت مطلقہ ہے، اور اس کی اطاعت و عبادت کا طریقہ وہ ہے، اور وہی ہو سکتا ہے جو اس نے اپنے رسول کو بھیج کر اور ان پر اپنی وحی اتار کر بتا دیا۔ اور پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ بتا دیا۔ پس جو لوگ اس کی تعلیم و ہدایت کے مطابق اس کی اطاعت و بندگی کا حق ادا کریں گے ان کو وہ اپنی خاص رحمتوں عنایتوں اور انعام و اکرام سے نوازے گا، اور اس کے برعکس جو اس سے اعراض و رُوگردانی برتیں گے، ان کو وہ اپنے عذاب میں پکڑے گا۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور علیٰ وجہ الکمال و التمام پورے ہوں اور یہ سب کچھ فصل و تمیز کے اس یوم عظیم میں ہو گا جس کو یوم قیامت کہا جاتا ہے سو کائنات کی اس کھلی کتاب میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لینے سے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ان لاتعداد و بے شمار نعمتوں میں نگاہ عبرت ڈالنے سے، اللہ تعالیٰ کی توحید و وحدانیت، اس کی قدرت و حکمت، ضرورت بعثت ورسالت، اور قیام قیامت، جیسے سب ہی بنیادی عقائد کے بارے میں واضح دلائل مل جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ انہی لوگوں کے لئے ہے جو نگاہ عبرت و بصیرت رکھتے ہیں۔ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَذِکْریٰ لِمَنْ کَانَ لَہ، قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ سو کائنات میں غورو فکر سے کام لینا، اور صحیح طریقے سے کام لینا، ایک بڑا اور اہم مطلب ہے، کہ اس سے انسان کے ایمان کو جلا ملتی، اور تقویت حاصل ہوتی ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ مِّن الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطنِ فی الحیاۃ،
۴۶۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حق سے اعراض و رُوگردانی محرومی کی جڑ بنیاد ہے۔ کیونکہ اس مرض کے مریض جب حق بات کو سننے ماننے اور اس کے لئے کان کھولنے کو تیار ہی نہیں ہوتے، تو پھر ان کو حق و ہدایت کی دولت آخر کیسے اور کیونکر نصیب ہو سکتی ہے؟ پس جو لوگ حق کے لئے اپنے دلوں اور دماغوں کے دریچے کھولتے ہیں۔ حق کی روشنی انہی کو نصیب ہو سکتی ہے۔ اور وہی اس سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں، اور جو ان کو بند رکھتے ہیں وہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں اور ان کے رب کی آیات میں سے جو بھی آیت ان کے پاس آتی ہے وہ ان کے حق میں بےسود اور لاحاصل ہی رہتی ہے، اور یہ اندھے کے اندھے ہی رہتے ہیں، سو اعراض و روگردانی اور غفلت و لا پرواہی محرومیوں کی محرومی اور سب سے بڑا خسارہ ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۵۰۔۔۔ یعنی یہ لوگ جو اس بے باکی اور لاپرواہی سے اس عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اس ہولناک عذاب سے خبردار کرنے والے کی صداقت تک چیلنج کرتے ہیں اور دھڑلے سے کہتے ہیں کہ آخر کب پوری ہو گی تمہاری یہ دھمکی اگر تم لوگ سچے ہو اپنے اس اعلان و بیان میں؟ تو اس بارے واضح فرما دیا گیا کہ ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کو واقع کرنا چاہے گا تو اس کے لئے اس کو کسی تیاری کی ضرورت نہ ہو گی۔ بلکہ وہ محض ایک ڈانٹ اور جھڑکی ہو گی جس سے ان سب کا کام تمام ہو جائے گا۔ اور ان میں سے جو جہاں ہو گا اس کو وہیں دھر لیا جائے گا۔ یہ لوگ اپنی بحثوں میں لگے۔ اور اپنی شورا شاری میں مشغول و منہمک ہونگے کہ وہ عذاب ان کو آ پکڑے گا اور اس طور پر کہ جو جہاں ہو گا وہیں گرفتارِ بلا ہو جائے گا۔ نہ اس کو اتنی فرصت ملے گی کہ کوئی وصیت کر سکے۔ اور نہ ہی اس کو کوئی موقع ملے گا کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ سکے۔ جیسا کہ آج بھی مختلف زلزلوں طوفانوں اور طرح طرح کے دوسرے عذابوں کی صورت میں اس کے مختلف نمونے اور مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں، سو عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے عذابوں سے بچنے کی فکر و کوشش کی جائے نہ یہ کہ اس کے لئے جلدی مچائی جائے اور اس کا مطالبہ کیا جائے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا
۵۳۔۔۔ سو جس طرح دنیاوی عذاب ان لوگوں پر کسی بھی صورت میں، اور کسی بھی وقت میں آ سکتا ہے، اسی طرح آخرت کا وہ یوم حساب جس میں سب کو ان کے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا وہ بھی صور میں پھونک مار دینے کے نتیجے میں اس طرح فوری طور پر واقع ہو جائے گا کہ نفخ صور کی آواز سنتے ہی سب کے سب لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ رہے ہونگے، اور سراسیمگی اور گھبراہٹ کے عالم میں کہہ رہے ہونگے کہ کس نے ہمیں اٹھا دیا ہماری قبروں سے؟ جواب ملے گا کہ یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ فرمایا تھا، اور اس کے رسولوں نے اس کے اس سچے وعدے کو تم لوگوں تک پہنچا دیا تھا مگر تم نے نہیں مانا تھا، تو اس یوم حساب کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ محض ایک جھڑکی اور ڈانٹ ہو گی جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب ایک ساتھ ہمارے یہاں موجود ہونگے یعنی سب چھوٹے بڑے امیر و مامور، اور عابد و معبود وہاں سب کے سب ہمارے یہاں حاضر ہونگے۔ جہاں انہوں نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، سو اس یوم عظیم کا قیام و وقوع تقاضائے عقل و نقل اور وجود کائنات کا طبعی مقتضیٰ ہے، اس لئے اس کا انکار نہایت ہی ہولناک خسارے کا سودا ہے، والعیاذُ اللہ العظیم،
۵۴۔۔۔ سو اس روز کامل عدل و انصاف کا ظہور ہو گا۔ کسی کے ساتھ ذرہ برابر کسی ظلم و زیادتی کا کوئی برتاؤ نہیں ہو گا۔ پس نہ کسی کی کسی نیکی کو کم کیا جائے گا۔ اور نہ کسی پر کسی ناکردہ گناہ کا کوئی بوجھ ڈالا جائے گا۔ بلکہ ہر کسی کو اس کے اپنے کئے کرائے ہی سے واسطہ پڑے گا۔ اچھا ہو گا تو بھی، اور بُرا ہو گا تو بھی، اچھائی کا بدلہ اچھائی کی صورت میں ملے گا۔ اور برائی کا برائی کی شکل میں۔ پس ہر کوئی خود دیکھ لے کہ وہ کل کے اس یوم حساب کے لئے کیا سامان کر رہا ہے وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ الٰایۃ (الحشرۃ۱٨) وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید،
۵۸۔۔۔ سو اس سے اہل جنت کی اس شاہانہ زندگی کی تصویر پیش فرما دی گئی جو انکو وہاں پر حاصل ہو گی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ وہاں پر اپنی بیویوں کے ساتھ گھنے سایوں کے اندر عظیم الشان مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے، جہاں ان کو طرح طرح کے میوے بھی ملیں گے، اور ان کی خدمت میں ہر وہ چیز پیش کی جائے گی جس کی وہ خواہش کریں گے، اور جو کچھ وہ چاہیں گے وہ ان کو ملے گا اور یہ اہل جنت کی وہ عظیم الشان اور بے مثال نعمت ہو گی جو اس دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نہ کبھی نصیب ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے جس کی ہر خواہش پوری ہو۔ مگر وہاں پر یہ نعمت ہر جنتی کو نصیب ہو گی۔ اور ہمیشہ کے لئے نصیب ہو گی اور ایک اور امتیازی شان ان کی وہاں پر یہ ہو گی، کہ ان کو ربِّ رحیم کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔ جو کہ سب سے بڑا اعزاز و اکرام اور ایک منفرد و عظیم الشان اور بے مثال انعام و احسان ہو گا، اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین،
۶۱۔۔۔ اہل جنت کے حال کو ذکر و بیان فرمانے کے بعد اس سے اہل دوزخ کے حشر و انجام کو واضح فرمایا گیا ہے، جس میں ان کے انجام کو بھی واضح فرما دیا گیا، اور ان کو اس انجام سے دو چار کرنے والے سبب اور باعث کو بھی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز ان سے کہا جائے گا کہ اب الگ ہو جاؤ تم لوگ اے مجرمو! یعنی دنیا کے دارالامتحان میں تم لوگ باہم ملے جلے رہتے تھے، کہ ابتلاء و آزمائش کا تقاضا یہی تھا۔ لیکن اب یہ فصل و تمیز اور جدائی و علیحدگی کا وقت آگیا ہے، جس میں ہر کسی سے اس کے عقیدہ و عمل کے مطابق ہی معاملہ کیا جائے گا۔ اب تم لوگ الگ اور اہل حق و صدق الگ، پھر ان کے جرم و قصور کے ذکرو بیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تم لوگوں کو اس کی تاکید نہیں کی تھی، کہ تم شیطان کی بندگی نہیں کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، بلکہ تم میری ہی عبادت و بندگی کرنا کہ یہی ہے سیدھا راستہ، یعنی وہ سیدھا راستہ جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والا واحد راستہ ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی واضح رہے کہ شیطان کی معروف معنوں میں عبادت و بندگی نہ کسی نے کبھی کی ہے، نہ کوئی کر سکتا ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی نہیں ہو سکتا جو شیطان کو شیطان سمجھتے ہوئے اس کے آگے رکوع وسجود وغیرہ کی کوئی بھی معروف عبادت بجا لائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا اور اس کے اوامر و ارشادات کے خلاف اور کسی کی بھی مطلق اطاعت و فرمانبرداری دراصل اس کی عبادت و بندگی ہی کے مترادف ہے، جو کہ اصل میں شرک اور ہلاکت و تباہی کی راہ ہے کہ مطلق اطاعت صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا حق ہے۔ اس کے سوا ہر کسی کی اطاعت و فرمانبرداری مشروط ہے۔ یعنی اس میں ہمیشہ اور ہر حال میں یہ شرط و قید ملحوظ ہے، کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کے کسی حکم و ارشاد کے خلاف نہ ہو۔ کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصیْۃِ الْخَالِقِ ایک معرف و مسلم اصول و ضابطہ ہے، یعنی یہ کہ مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس میں خالق کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب لازم آتا ہو، والعیاذُ باللہ العظیم،
۶۷۔۔۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کی جگہ ہی پر مسخ کر کے رکھ دیں۔ اور اس طور پر کہ یہ نہ آگے بڑھ سکیں۔ اور نہ پیچھے کو پلٹ سکیں۔ لیکن یہ ہماری رحمت و عنایت ہے کہ ہم ایسا نہیں کرتے۔ بلکہ ان کو مہلت ہی دیئے ہوئے ہیں، تاکہ یہ اگر سنبھلنا چاہیں تو سنبھل جائیں، اور اپنی اصلاح کر لیں۔ اپنے خالق و مالک کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کی قدر کریں۔ اور اپنی بگڑی بنانے کی فکر و کوشش کریں قبل اس سے کہ اصلاح احوال کی فرصت اور اس کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور اس کے نتیجے میں ان کو ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے، والعیاذُ باللہ العظیم،
۶۹۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کو نہ شاعری سکھائی گئی اور نہ ہی یہ چیز آپ کی شان کے لائق ہو سکتی ہے، اور یہ اس لئے کہ شاعری کا اصل تعلق تخیل واحساس سے ہوتا ہے، جتنی تخیل کی پرواز بلند ہو گی اتنی ہی شعر کی قدرو قیمت زیادہ ہو گی۔ جیسا کہ اس بارے میں کہا گیا ہے
چوں اکذب اوست احسن اوست کہ جتنا اس میں جھوٹ زیادہ ہو گا اتنا ہی اس کا مرتبہ زیادہ بلند ہو گا۔ کہ اس کا دارو مدار ہی فکر و تخیل کی بلند پروازی پر ہوتا ہے، پھر اس کو اچھے جذبات واحساسات کے اظہار و بیان کا ذریعہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور برے جذبات واحساسات کا ذریعہ بھی، اسی لئے حدیث میں اس سے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ شعر ایک صنف کلام ہے جو اچھا بھی ہو سکتا ہے، اور بُرا بھی، پس اس کا اچھا کلام اچھا ہے، اور بُرا بُرا، اسی لئے سورہ شعراء میں اس ضمن میں اہل ایمان شعرا کا استثناء فرمایا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس حضرات انبیاء کرام جس مشن پر مامور ہوتے ہیں اس کا مدار و انحصار جذبات و احساسات اور تخیلات کی بلند پروازی پر نہیں، بلکہ خالص وحی خداوندی اور ہدایت سماوی پر ہوتا ہے۔ جو جذبات و احساسات اور فکر و تخیل کے بجائے انسان کی عقل اور اس کے دل کو اپیل کرتی ہے، اور وہ زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ہدایت و راہنمائی سے نوازتی ہے اسی لئے حضرات انبیاء ورسل اور شعراء کی خصوصیات و روایات کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سورہ شعراء میں شاعروں کی تین خاص صفات کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے۔ اور وہ تینوں کی تینوں صفات حضرات انبیاء ورسل کی صفات و خصوصیات اور ان کی امتیازی شان کے یکسر منافی ہیں، وہاں پر ایک بڑی صفت شعراء کی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں، یہ کہتے وہ کچھ ہیں جو خود کرتے نہیں۔ جبکہ پیغمبر کی ہستی اپنے قول و ارشاد پر سب سے پہلے خود عمل کرتی ہے، اور ان کی صفت و شان اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اور اول المسلمین کی صفت و شان ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ خود کر کے دکھاتے ہیں، اور اپنا عملی نمونہ سب سے پہلے خود پیش کرتے ہیں، دوسری خصوصیت شعراء کی وہاں پر یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ ہر وادی میں بھٹکنے والے لوگ ہوتے ہیں، اور ان کا کلام متضاد افکار کا مجموعہ ہوتا ہے جبکہ پیغمبر کا ہر قول کانٹے کے تول پر حق و صدق ہوتا ہے، اور ان کی ہدایات و تعلیمات اصول و فروع ہر اعتبار سے باہم مربوط و مرتبط ہوتی ہیں۔ اور تیسری صفت اور خصوصیت شعراء کی وہاں پر یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں، جبکہ حضرات انبیاء ورسل کے پیروکار ایسے حضرات ہوتے ہیں جو معاشرے کے اخیار اور سب سے پاکیزہ نمونے ہوتے ہیں، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرات انبیاء ورسل اور شعراء کے درمیان اور ان کے کلام اور تعلیمات کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے نہ پیغمبر کو شعر سکھایا، اور نہ ہی ان کی شان کے لائق ہوتا ہے۔ سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے کہ سب کچھ جانتے ہوں کیونکہ فن شعر نہ ان کو سکھایا ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ان کی شان کے لائق ہو سکتا ہے۔ پس ان کے بارے میں اہل بدعت کے ایسے دعوے غلط ہیں۔
۷۸۔۔۔ سو اس سے منکر اور دولت ایمان و یقین سے محروم انسان کی بے انصافی اور ناشکری کا ایک نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے، کہ اس کو جس ربِّ قدیر نے پانی کے ایک حقیر قطرے سے پیدا کر کے اور عظیم الشان قوائے فکر و ادراک سے نواز کر، اور اپنی خاص تربیت و عنایت سے اس حد تک پہنچایا، اور اس کو کائنات کا مخدوم و مطاع بنا کر اس کی ہر چیز کو اس کی خدمت میں لگا دیا، اور نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے ساری مخلوق کو اس کے کام میں لگا دیا، جس سے یہ ہمیشہ اور ہر وقت مستفید و فیضیاب ہوتا ہے، اپنے اسی رب رحمان و رحیم کے بارے میں یہ کھلم کھلا جھگڑالو بن کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جب اس کو اس کی طرف سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جانے کے بارے میں بتایا جاتا ہے، تو یہ اس پر پھبتی کستے ہوئے اور اپنی پیدائش کو بھول کر، بڑی رعونت سے کہتا ہے کہ کون زندہ کرے گا ان ہڈیوں کو جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہونگی؟ والعیاذُ باللہ العظیم
۷۹۔۔۔ سبحان اللہ! جواب کتنا سادہ، کتنا جامع اور کس قدر موثر ہے جس سے انکار اور گریز و فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں، سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے خر دماغوں کے اس سوال و اعتراض، اور ان کے اس اچنبھے اور استہزاء کے جواب میں ان سے کہو کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا، اور وجود بخشا، یعنی جب ان کا کہیں کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا تو اس نے اپنی قدرت کاملہ حکمت بالغہ اور رحمت و عنایت شاملہ سے ان کو وجود بخشا، اور ان کو نیست سے ہست کیا، تو اس کے لئے آخر ان کو دوبارہ پیدا کرنا کیوں اور کیا مشکل ہو سکتا ہے؟ جبکہ عام قاعدہ اور دستور کے مطابق اعادہ ابداء، یعنی اصل خلق کے مقابلے میں کہیں زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے، چنانچہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَاُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہ، وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ الایۃ، (الروم،۲۷) یعنی وہ اللہ وہی ہے جس نے اپنی مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا فرمایا، اور وہی اس کو دوبارہ پیدا فرمائے گا اور یہ اس کے لئے کہیں زیادہ آسان ہے، اور یہ بھی دراصل عام لوگوں کی سمجھ اور ان کے فہم و تجربے کے اعتبار سے ہے، ورنہ اس قادر مطلق کے یہاں کا معاملہ تو اس سے یکسر مختلف ہے، کہ وہاں اسباب اور مسبیات کے احتیاج کی بات سرے سے ہے ہی نہیں، بلکہ وہاں کا معاملہ تو کُنْ فَیَکُوْنَ کا معاملہ ہے جیسا کہ اس کے ایک ہی آیت بعد یعنی آیت نمبر ٨۲ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، اور وہ بھی اِنَّمَا کے کلمہ حصر کے ساتھ، سو اس کی شان بالکل الگ اور بے مثال ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اس نے جب کسی کام کو کرنا ہوتا ہے تو اس کو فرماتا ہے کُنْ یعنی ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے، اسی لئے قیامت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا اِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ فَاِذَاہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ (النازعات۔ ۱۳۔۱۴) یعنی وہ تو محض ایک ڈانٹ اور جھڑکی ہو گی جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب یکایک کھلے میدان میں موجود ہونگے، نیز ارشاد فرمایا گیا وَمَا اَمْرُنَا اِلاَّ وَاحِدَۃٌ کَلَمْعٍ بِالْبَصَرِ (القمر۔۵٠) یعنی ہمارا معاملہ تو محض ایک ایک فرمان و ارشاد کا ہوتا ہے پلک جھپکنے کی طرح، سو اس وحدہٗ لاشریک کی صفت و شان سب سے الگ اور یکسر جدا ہے، سبحانہ و تعالیٰ،