تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الاٴحقاف

(سورۃ الأحقاف ۔ سورہ نمبر ۴۶ ۔ تعداد آیات ۳۵)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     حٰم

۲۔۔۔     یہ سراسر اتاری گئی کتاب ہے اللہ کی طرف سے جو کہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۳۔۔۔     ہم نے نہیں پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی کائنات کو مگر حق کے ساتھ اور ایک مقرر وقت کے لئے مگر جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر وہ اس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے

۴۔۔۔     (ان سے) کہو کہ کیا تم نے ان چیزوں کو کبھی آنکھیں کھول کر دیکھا بھی جن کو تم لوگ (پوجتے) پکارتے ہو اللہ کے سوا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے کیا پیدا کیا زمین میں سے یا ان کا کیا حصہ ہے آسمانوں میں ؟ دکھاؤ مجھے (اپنی تائید میں) اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کسی علم کا کوئی بقیہ اگر تم لوگ سچے ہو (اپنے قول و قرار میں)

۵۔۔۔     اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو (پوجے) پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کا کوئی جواب نہ دے سکیں اور وہ ان لوگوں کی دعا (و پکار) سے بالکل بے خبر ہوں

۶۔۔۔     اور جب اکٹھا کیا جائے گا سب لوگوں کو (قیامت کے اس ہولناک دن میں) تو یہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کے بھی منکر ہو جائیں گے

۷۔۔۔     اور جب ان لوگوں کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری کھلی کھلی (اور صاف و واضح) آیتیں تو کافر لوگ (پوری ڈھٹائی سے) حق کے بارے میں کہتے ہیں جب کہ وہ ان کے پاس آ چکا ہوتا ہے کہ یہ تو ایک جادو ہے کھلا ہوا

۸۔۔۔     کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے ؟ تو (ان سے) کہہ دو کہ اچھا تو اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم مجھے اللہ سے بچانے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے وہ تو خوب جانتا ہے ان سب باتوں کو جو تم لوگ اس کے بارے میں بناتے ہو کافی ہے وہ (وحدہٗ لاشریک) گواہی دینے کو میرے اور تمہارے درمیان اور وہی ہے نہایت درگزر کرنے والا انتہائی مہربان

۹۔۔۔     (ان سے) کہو کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ میں تو بس پیروی کرتا ہوں اس وحی کی جو بھیجی جاتی ہے میری طرف اور میرا کام تو خبردار کر دینا ہے کھول کر (حق اور حقیقت کو)

۱۰۔۔۔     (ان سے) کہو کہ کیا تم لوگوں نے کبھی اس امر پر بھی غور کیا کہ اگر یہ (کلام) اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کا انکار کرو جب کہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسے کلام پر گواہی دے چکا ہو سو وہ اس پر ایمان لایا ہو مگر تم اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں (اس سے منہ موڑے) ہی رہے (تو پھر تمہارا انجام آخر کیا ہو گا؟) بے شک اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا ایسے ظالموں کو

۱۱۔۔۔     اور کافر لوگ ایمان والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر یہ دین سچا ہوتا تو یہ لوگ ہم سے اس معاملے میں سبقت نہ لے جاتے اور جب یہ لوگ اس سے ہدایت نہیں پا سکے تو اب انہوں نے یہی کہنا ہے کہ یہ تو ایک پرانا جھوٹ ہے

۱۲۔۔۔     حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی آ چکی ہے ایک عظیم الشان امام (و پیشوا) کے طور پر سراسر رحمت بن کر اور یہ کتاب بھی جو اس کی تصدیق کرنے والی ہے عربی زبان میں تاکہ یہ خبردار کرے ان لوگوں کو جو کمر بستہ ہیں ظلم پر اور خوشخبری سنائے (دارین کی فوز و فلاح کی) ان لوگوں کو جو نیکوکار ہیں

۱۳۔۔۔     بلاشبہ جن لوگوں نے (صدق دل سے) کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے تو ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے

۱۴۔۔۔     ایسے لوگ جنتی ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو وہ (دنیا میں) کرتے رہے تھے

۱۵۔۔۔     اور ہم نے تاکید کر دی انسان کو کہ وہ حسن سلوک کا معاملہ کرتا رہے اپنے ماں باپ کے ساتھ اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں رکھا (مشقت پر) مشقت اٹھا کر اور اس کو جنا تو بھی (مشقت پر) مشقت اٹھا کر اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے (پھر وہ برابر نشوونما پاتا رہا) یہاں تک کہ جب وہ اپنی (جوانی کی) بھرپور قوتوں کو پہنچ گیا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں شکر ادا کر سکوں تیری ان نعمتوں کا جو تو نے (محض اپنے کرم سے) مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمائی ہیں اور (اس کی بھی توفیق نصیب فرما کہ) میں ہمیشہ ایسے نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہوں اور میرے (سکھ اور چین کے) لئے میری اولاد کو بھی نیک بنا دے میں (صدق دل سے) توبہ کرتا ہوں جناب کے حضور اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں

۱۶۔۔۔     یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک کاموں کو ہم قبول کر لیں گے اور ان کی برائیوں سے ہم درگزر کر دیں گے یہ جنتی لوگوں میں سے ہوں گے اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے (دنیا میں) کیا جاتا رہا ہے

۱۷۔۔۔     اور (اس کے برعکس) جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے اس بات کا ڈراوا دیتے ہو کہ مجھے (مرنے کے بعد قبر سے) نکالا جائے گا؟ حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی ہی نسلیں گزر چکی ہیں (اور ان میں سے کوئی اب تک نہیں اٹھا) جب کہ وہ دونوں اس کو اللہ کی دوہائی دے کر کہتے ہیں کہ ارے کم بخت مان جا یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر وہ پھر بھی کہتا ہے کہ یہ تو بس کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی

۱۸۔۔۔     یہ وہ لوگ ہیں جن پر پکی ہو گئی ہماری بات (کہ انہوں نے عذاب پانا ہے انہی جیسے) جنوں اور انسانوں کے ان مختلف گروہوں میں جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے بلاشبہ یہ سب خسارہ اٹھانے والے ہیں

۱۹۔۔۔     اور ہر ایک کے لئے درجے ہیں ان کے ان اعمال کے مطابق جو وہ کرتے رہے (تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو) اور تاکہ وہ پورا بدلہ دے ان کو ان کے اعمال کا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا

۲۰۔۔۔     اور جس دن پیش کیا جائے گا کافروں کو (دوزخ) کی اس ہولناک آگ پر (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم لوگ حاصل کر چکے اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیاوی زندگی میں اور تم ان کے مزے وہیں لوٹ چکے سو اب تم کو ذلت کا عذاب ہی دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے ہماری زمین میں ناحق طور پر اور اس وجہ سے کہ تم لوگ حدوں سے نکل جایا کرتے تھے

۲۱۔۔۔     اور ان کو ذرا عاد کے بھائی (ہود) کا قصہ بھی سنا دو جب کہ انہوں نے ڈرایا (اور خبردار کیا) اپنی قوم کو احقاف میں اور ایسے ہی خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی کی بندگی مت کرو مجھے تمہارے بارے میں سخت اندیشہ ہے ایک بہت بڑے (اور) ہولناک دن کے عذاب سے

۲۲۔۔۔     انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس اسی لئے آئے ہو کہ ہمیں پھیر دو ہمارے معبودوں سے ؟ پس لے آؤ ہم پر وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو اگر تم سچے لوگوں میں سے ہو

۲۳۔۔۔     ہود نے کہا کہ اس کا علم تو حقیقت میں اللہ ہی کے پاس ہے میں تو صرف وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھیجا گیا ہے مگر میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ تو نری جہالت سے کام لے رہے ہو

۲۴۔۔۔     آخرکار جب انہوں نے دیکھا اس (عذاب) کو ایک ایسے بادل کی شکل میں جو بڑھا چلا آ رہا تھا ان کی وادیوں کی طرف تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک بادل ہے جو ہم پر برسنے آ رہا ہے (ارشاد ہوا کہ نہیں) بلکہ یہ تو وہی عذاب ہے جس کے لئے تم لوگ جلدی مچا رہے تھے یہ تو ہوا کا ایک طوفان ہے جس میں ایک بڑا دردناک عذاب ہے

۲۵۔۔۔     جو تباہ کر کے رکھ دے گی ہر چیز کو اپنے رب کے حکم (و ارشاد) سے چنانچہ اس کے نتیجے میں ان کا حال یہ ہو گیا کہ ان کے گھروں (کے کھنڈرات) کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں مجرم لوگوں کو

۲۶۔۔۔     اور ہم نے ان لوگوں کو ان باتوں میں قدرت دی تھی جن میں تم کو نہیں دی (اے دور حاضر کے بدمست لوگوں !) اور ان کو ہم نے کان بھی عطا کئے تھے اور آنکھیں اور دل بھی مگر نہ ان کے کان ان کے کچھ کام آ سکے نہ ان کی آنکھیں اور نہ دل کیونکہ وہ (جان بوجھ کر) انکار کرتے تھے اللہ کی آیتوں کا اور گھیر کر رہی ان کو وہی چیز جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے

۲۷۔۔۔     اور بلاشبہ ہم تمہارے گرد و بیش کی اور بھی بہت سی بستیوں کو ہلاک کر چکے ہیں اور ہم نے (ان کے لئے بھی) اپنی آیتیں طرح طرح سے بیان کیں تاکہ وہ باز آ جائیں

۲۸۔۔۔     پھر (عذاب آنے پر) کیوں نہ ان کی کوئی مدد کر سکیں وہ ہستیاں جن کو انہوں نے اللہ کے سوا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنا معبود بنا رکھا تھا؟ بلکہ (اس وقت) ان سے کھو گئیں (اور گم ہو کر رہ گئیں) وہ سب کی سب اور یہ تھا نتیجہ (و انجام) ان کے اس جھوٹ کا (جو یہ لوگ بولا کرتے تھے) اور ان کے ان ڈھکوسلوں کا جو یہ گھڑا کرتے تھے

۲۹۔۔۔     اور (ان سے اس کا بھی تذکرہ کیجئے کہ) جب ہم نے پھیر دیا آپ کی طرف (اے پیغمبر !) جنوں کے ایک گروہ کو جو کان لگا کر سن رہے تھے اس قرآن (عظیم) کو سو جب وہ وہاں پہنچ گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموش رہو پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ واپس لوٹے اپنی قوم کی طرف خبردار کرنے والے بن کر

۳۰۔۔۔     (اور ان سے) کہا کہ اے ہماری قوم کے لوگوں ہم ایک ایسی عظیم الشان کتاب سن کر آئے ہیں جس کو اتارا گیا ہے موسیٰ کے بعد جو تصدیق کرنے والی ہے ان تمام کتابوں کی جو آ چکی ہیں اس سے پہلے یہ (کتاب عظیم) راہنمائی کرتی ہے حق اور سیدھے راستے کی

۳۱۔۔۔     اے ہماری قوم کے لوگوں تم قبول کر لو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو اور (صدقِ دل) سے ایمان لے آؤ اس پر اللہ معاف فرما دے گا تمہارے گناہوں کو اور بچا دے گا تم کو ایک بڑے ہی دردناک عذاب سے

۳۲۔۔۔     اور جو کوئی بات نہیں مانے گا اللہ کے داعی کی تو وہ (اپنا ہی نقصان کرے گا کہ وہ) ایسا نہیں کہ نکل جائے اس کی گرفت (و پکڑ) سے نہ زمین میں (کہیں چھپ کر) اور نہ ہی اس کے کوئی مددگار ہو سکتے ہیں (جو اسے بچا سکیں) ایسے لوگ پڑے ہیں (صاف اور) کھلی گمراہی میں

۳۳۔۔۔     کیا ان لوگوں نے کبھی اس امر میں غور نہیں کیا کہ جس اللہ نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور اس کو ان کے پیدا کرنے سے کوئی تکان نہیں ہوئی وہ اس پر قادر ہے کہ زندہ کر دے مردوں کو؟ (ہاں) کیوں نہیں بلاشبہ وہ ہر چیز پر (پوری) پوری قدرت رکھتا ہے

۳۴۔۔۔     (اور یاد کرو اے لوگوں قیامت کے اس ہولناک دن کو کہ) جس دن پیش کیا جائے گا کافروں کو (دوزخ کی) اس ہولناک آگ پر (اور ان سے کہا جائے گا کہ) کیا یہ حق نہیں ہے ؟ تو وہ کہیں گے ہاں قسم ہے ہمارے رب کی (یہ قطعی طور پر حق ہے) حکم ہو گا کہ اچھا تو اب چکھتے رہو تم لوگ مزہ اس عذاب کا اپنے اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے تھے (دنیا میں)

۳۵۔۔۔     پس آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں (اے پیغمبر !) جس طرح کہ صبر سے کام لیا ہمارے دوسرے اولوالعزم رسولوں نے اور جلدی نہیں کرنا ان (لوگوں کے عذاب کے) لئے جس دن یہ خود دیکھ لیں گے اس چیز کو جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے تو ان کو یوں لگے گا کہ جیسے یہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے یہ ایک عظیم الشان پیغام ہے جو پہنچا دیا گیا سو اب کیا اور کوئی ہلاک ہو گا سوائے نافرمان لوگوں سے ؟

تفسیر

 

۳۔۔  سو بالحق اور اَجَلٍ مُّسَمًّی کے ان دو لفظوں سے دو عظیم الشان حقیقتوں کو واضح فرما دیا گیا، کہ آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی یہ عظیم الشان کائنات کوئی عبث اور بیکار چیز نہیں، بلکہ یہ نہایت ہی پُر حکمت اور با مقصد مخلوق ہے۔ اور اس کے بالحق اور با مقصد ہونے کے دو اہم پہلو ہیں۔ اول یہ کہ اس میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے کر انسان اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرشار ہو۔ کہ حکمتوں بھری اس کائنات میں حضرت خالق حکیم کی قدرت بے نہایت اور اس کی رحمت و عنایت بے غایت کے گوناگوں اور عظیم الشان مظاہر موجود ہیں۔ اور دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ جس خالق کل اور مالک مطلق نے اپنے بندوں کو ان عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے، وہی معبود برحق، اور ہر قسم کی عبادت و بندگی، حمد و ثنا، اور شکر کا مستحق ہے۔ پس اس کا تقاضا ہے کہ انسان ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کے لئے مخصوص کرے۔ اور اس کے ذکر و شکر سے ہمیشہ اور ہر حال میں سرشار اور رطب اللسان رہے۔ یہ اس معبود برحق کا اس کے بندوں پر حق بھی ہے، اور اسی میں ان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان بھی ہے، سو ذکر و شکر دو عظیم الشان نعمتیں ہیں، اور ان سے سرفرازی اسی صورت میں نصیب ہوتی ہے، اور ہو سکتی ہے، جبکہ انسان ان کو صحیح نقطہ نگاہ سے دیکھے، اسی سے انسان کو ایمان و یقین کی پختگی، اور عقیدہ توحید سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم کے اپنی مشرک قوم پر حجت قائم کرنے کے واقعہ سے واضح ہو جاتا ہے، اسی لئے حضرت ابراہیم کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا وَلَذَالِکَ نُرِیْ اِبْرَاہَیْمَ مَلَکُوْتُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الانعام۔۷۶) یعنی ہم اسی طرح دکھاتے رہے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی تاکہ وہ اس سے حق اور توحید پر استدلال کریں، اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعل ما یحب و یرید بکل حال من الاحوال، جبکہ دوسرے لفظ یعنی وَاَجَلٍ مُّسَمًّی سے اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اس کائنات کے مخلوق ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ یہ ہمیشہ اسی طرح نہ چلتی رہے، بلکہ ضروری ہے کہ یہ ایک مقرر اور معین مدت ہی تک چلے، اس کے بعد یوم حساب و جزاء آئے، تاکہ ہر کسی کو اس کی زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے۔ جس نے راہ حق و ہدایت کو اپنا کر اپنی آخرت کے لئے کمائی کی، اس کو اس کے صلہ میں دائمی انعام ملے۔ اور جس نے اس کے برعکس راہ حق و ہدایت سے منہ موڑ کر تمردو سرکشی اور اعراض و روگردانی کی روش کو اپنایا، اور بدی کی کمائی کی، اس کو اس کے کئے کرائے کی قرار واقعی سزا ملے۔ تاکہ اسطرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں۔ جو کہ تقاضا ہے حضرت خالق حکیم کی صفت عدل و حکمت کا، اور خود اس کائنات کے وجود کا۔ سو وہی دن قیامت کا یوم عظیم ہے، جس نے اس دنیا کے خاتمے کے بعد بپا ہونا ہے۔ اور ہر حال میں بپا ہونا ہے۔ ورنہ اس کائنات کی تخلیق و تکوین، اور اس کا وجود عبث و بیکار ہو کر رہ جائے گا، جو کہ اس کی تخلیق بالحق کے تقاضوں کے خلاف ہے، اور پھر آیت کریمہ کے آخر میں منکرین کے انکار اور ان کی محرومی کے اصل سبب اور باعث سے بھی آگاہ فرما دیا گیا، کہ وہ ہے ان لوگوں کا اعراض و رُوگردانی، جس عذاب اور ہولناک انجام سے ان کو خبردار کیا جاتا ہے یہ اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں، سو جب کوئی سننے ماننے کو تیار ہی نہ ہو تو اس کو راہ حق و ہدایت سے سرفرازی آخر کیسے نصیب ہو سکتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۷۔۔  سو اس سے ہٹ دھرم منکرین و کفار کے عناد اور ہٹ دھری کا ایک اور نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے کہ جب ان کو راہ حق و ہدایت سے متعلق ایسی کھلی اور واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جن سے توحید خداوندی اور قیامت و آخرت سے متعلق وہ حقائق پوری طرح واضح ہو جاتے ہیں۔ جن کی تعلیم اور دعوت قرآن دیتا ہے، اور قرآن کی دعوت اور اس کے دلائل کا جب ان سے کوئی جواب نہیں بن سکتا، اور اس کی تاثیر و تسخیر کو مانے بغیر جب ان کے لئے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا، تو یہ لوگ بجائے اس کے کہ اس کی عظمت و صداقت کے آگے جھک جاتے، اور اس کی دعوت حق و صدق کو صدق دل سے اپنا کر اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرتے۔ یہ الٹا اس کے لئے کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے کھلم کھلا۔ اور لَمَّا جَاءَ ہُمْ کی تصریح سے ان کے اس فعل انکار و تکذیب کی شناعت کو اور زیادہ واضح فرما دیا گیا کہ ان لوگوں نے اپنی بدبختی سے اس کو جادو اس وقت قرار دیا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ گیا، یعنی حق کے بارے میں کوئی غلط فہمی اگر اس وقت ہو جبکہ وہ ان کے پاس آیا نہ ہو، تو اس کے لئے پھر بھی کسی عذر کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے آ جانے کے بعد اس کے انکار کی شناعت اور بڑھ جاتی ہے، کیونکہ ایسے میں یہ بات دیکھنے کے بعد کھڈے میں گرنے کے مترادف ہے۔ اور اس طرح ایسے لوگ خود محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی محرومی کا سبب بنتے ہیں، جس سے ان کا جرم دوہرا اور ڈبل ہو جاتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔

۱۰۔۔  اس ارشاد سے منکرین کے دلوں پر دستک دی گئی ہے، کہ تم لوگ جو اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ اس کتاب حکیم کا انکار کرتے ہو۔ اور اس کو اللہ پر افتراء قرار دیتے ہو، تو آخر تم اتنا تو سوچو کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو تو پھر تم لوگوں کا کیا بنے گا؟ اور خاص کر ایسی صورت میں جبکہ بنی اسرائیل میں کا ایک شاہد اسی طرح کی ایک چیز پر گواہی دے چکا ہے، پھر وہ اس پر ایمان بھی لا چکا ہے، جبکہ تم لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں اس سے اعراض اور رُوگردانی ہی برت رہے ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو نور ہدایت سے نہیں نوازتا جو ظلم ہی پر کمربستہ ہوتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ، یہاں پر شاہد بنی اسرائیل (بنی اسرائیل کے گواہ) سے کون مراد ہے؟ اس کے بارے میں حضرات مفسرین کرام کے اقوال مختلف ہیں۔ جن میں سے ایک قول جسے بعض اہل علم نے کئی اہم وجوہ کی بناء پر راجح قرار دیا ہے، یہ ہے کہ شاہد بنی اسرائیل سے یہاں پر مراد حضرت عیسیٰ ہیں۔ کہ حضرت عیسیٰ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنی بعثت و تشریف آوری کا مقصد ہی یہ بتایا کہ میں نبی آخر الزمان کی بشارت و خوشخبری دینے آیا ہوں۔ جیسا کہ سورہ صف کی چھٹی آیت کریمہ میں تصریح فرمائی گئی ہے، وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ اَحْمَدُ یعنی میں اپنے بعد آنے والے ایک ایسے عظیم الشان رسول کی خوشخبری دینے آیا ہوں، جن کا نام نامی احمد ہے۔ اسی طرح مختلف انجیلوں میں بھی حضرت عیسیٰ کی اس خوشخبری کا ذکر موجود ہے، اور حضرت عیسیٰ کی اس شہادت ہی کا اثر تھا کہ موجودہ محرف عیسائیت سے پہلے جو لوگ اصل نصرانیت پر قائم تھے۔ وہ نزول قرآن کے بعد بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس پر ایمان لائے۔ جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر٨۲،٨۳ میں اس کی تصریح موجود و مذکور ہے۔ چنانچہ ان میں ان کے اس ایمان اور شہادت کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے رَبَّنَا امَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ یعنی اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہمیں گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ دے، یہاں پر آیت زیر بحث میں اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ کی شرط کا جواب ذکر نہیں فرمایا گیا۔ سو اس کا حذف بلاغت کے اس معروف اسلوب پر مبنی ہے کہ اس کا جواب ایسے ہولناک عواقب و نتائج پر مشتمل اور ان کو متضمن ہے کہ الفاظ و کلمات ان کی تعبیر سے قاصر ہیں۔

۱۷۔۔  سو اس سے مذکورہ بالا نمونے کے بالکل برعکس دوسرے نمونے کو پیش فرمایا گیا ہے، جو مادر پدر آزاد اور لا ابالیانہ زندگی گزارنے والے لوگوں کا نمونہ ہے، الذی کا کلمہ یہاں پر تمثیل کے لئے ہے، اور ایسے موقع پر یعنی جبکہ یہ کلمہ تمثیل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے مراد کوئی خاص شخص ہی ہو، بلکہ ایسے موقع پر اس سے ہر وہ شخص مراد ہوتا ہے جس پر یہ تمثیل منطبق ہوتی ہو، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اور کہیں کا بھی ہو، بہرکیف اس سے اس دوسرے نمونے کے ذکر و بیان اور اس کی توضیح و تمثیل کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو جب اس کے ماں باپ اس کی بے راہ راہی پر ٹوکتے، اور اس کو خداوند قدوس اور آخرت کی تذکیر و یاد دہانی کرتے ہیں، تو یہ نہایت بے دردی کے ساتھ اور گستاخانہ انداز میں ان کو جھڑک دیتا ہے، اس کے ماں باپ نہایت ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس کو سمجھاتے ہیں، کہ بیٹے! ایمان کی راہ اختیار کر، تمردو سرکشی کی راہ کو چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ کے وعدے نے بہر حال پورا ہو کر رہنا ہے، تو یہ اس کے جواب میں ان کے سامنے نہایت تمرد اور سرکشی کے ساتھ پیش آتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم مجھے بیوقوف بناتے ہو، اور مجھے یہ ڈراوے سناتے ہو، حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی ہی نسلیں ایسی گزر چکی ہیں جن میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا، یہ تو وہی سب اگلے لوگوں کے افسانے اور قصے ہیں، جن کو میں ماننے کے لئے تیار نہیں۔

۱۸۔۔  سو ایسے متمرد اور سرکش لوگوں کے انجام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی بات پکی ہو گئی، اللہ کی بات سے یہاں پر مراد اس کی وہی بات ہے جو اس نے ابلیس لعین کے چیلنج کے جواب میں ارشاد فرمائی تھی، کہ میں ضرور بالضرور جہنم کو بھر دوں گا، تجھ سے اور ان سے اور سب سے جو تیری پیروی کریں گے خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے، فِیْ اُمُمٍ کے کلمات سے یہاں پر ایسے بدبختوں کے زمرے کو ذکر فرما دیا گیا، یعنی انہوں نے جنوں اور انسانوں کے انہی گروہوں میں شامل ہو کر دوزخ میں داخل ہونا ہے، جو ان سے پہلے اسی طرح کی تمرد و سرکشی کی زندگی گزار کر اس ہولناک انجام سے دو چار ہو چکے ہیں، سو یہ لوگ بڑے ہی خسارے والے لوگ ہیں، سو ان آیات کریمات سے دونوں گروہوں کے حال و مال کو پوری طرح واضح فرما دیا، کہ جن لوگوں نے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ اس کے نتیجے میں رب کی معرفت و اطاعت سے سرشار ہو کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہو گئے، اور اس کے برعکس جنہوں نے والدین کی نافرمانی کی، وہ آخرکار جہنم سے ہمکنار ہو کر رہے، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کے حق کی معرفت اور اس کی ادائے گی ایک ایسی عظیم الشان سعادت ہے جو انسان کو رب کے حق کی معرفت سے سرشار کرتی، اور اس کے لئے دارین کی سعادت وسرخروئی سے محرومی کا باعث ہے، والعیاذُ بالل العظیم بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ مِّن المواطن فی الحیاۃ،

۲۱۔۔  کہ ان کے اس قصے میں بڑے درس ہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ اَخَا عاد (عاد کے بھائی) سے یہاں پر مراد حضرت ہود علیہ السلام ہیں، جن کو اس قوم کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ یہ چونکہ اس قوم ہی کے ایک فرد اور انہی میں سے، اور انہی کے ہم قوم تھے۔ اس لئے ان کو قوم عاد کا بھائی فرمایا گیا۔ رسول کا اپنی قوم میں سے، اور انہی کا ایک فرد ہونا اپنے اندر اتمام حجت کے کئی اہم پہلو رکھتا ہے۔ اس لئے یہاں پر ان کا ذکر اسی لفظ کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔ احقاف حِقْف کی جمع ہے، اور اس کا اطلاق ریت کے ان لمبے لمبے ٹیلوں پر ہوتا ہے جو بلندی میں پہاڑوں کی حد تک کو نہ پہنچے ہوں۔ اور یہاں پر اس سے مراد وہ ریگستان ہے جو صحرائے عرب (الربع الخالی) کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ جہاں آج کسی آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں، جبکہ یہی علاقہ کسی زمانے میں قوم عاد کا اصل مسکن تھا جو کہ اپنے دور کی بڑی ترقی یافتہ قوم تھی۔ سو اس نام سے ان کے ذکر کرنے میں اس عبرتناک انجام کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے، جس سے اس قوم کو دوچار ہونا پڑا۔ جو کسی زمانے میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ اس علاقہ میں آباد تھی۔ اور ظاہر ہے کہ جس دور میں قوم عاد یہاں آباد رہی ہو گی۔ اس دور میں یہ علاقے نہایت سرسبز و شاداب اور عظیم تمدنی شان و شوکت اور اس قوم کے تعمیری کارناموں سے معمور رہا ہو گا۔ لیکن اب وہی علاقہ ایک ایسے بے آب و گیاہ علاقے، اور لق و دق صحرا کی شکل میں پایا جاتا ہے جس کو دیکھ کر کوئی اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں بھی تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن کا کوئی نقش قائم ہوا ہو گا۔ سو اس سے باغی اور سرکش قوموں کے انجام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم جل وعلا

۲۵۔۔  سو اس باغی اور سرکش قوم پر جب وہ عذاب آیا جس کے لئے یہ لوگ جلدی مچا رہے تھے تو اس سے ان کو تباہی کے ایسے ہولناک گھاٹ پر اتار دیا کہ ان کو قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَجَعَلْنَاہُمْ اَحَادِیْثَ ان کی وہ بستیاں اس طرح اجڑ کر اور نیست و نابود ہو کر رہ گئیں، کہ انکے مکانوں اور ان کے کھنڈرات کے سوا وہاں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اور پھر کَذَالِکَ نَجْزِی الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ کے جملے سے دو اہم حقیقتوں کو واضح فرما دیا گیا ایک یہ کہ مجرم لوگوں کو ڈھیل خواہ جتنی بھی ملے۔ وہ بہر حال ڈھیل ہی ہوتی ہے۔ آخرکار انہوں نے اپنے انجام کو بہر حال پہنچ کر رہنا ہوتا ہے۔ عاد کی اس بدبخت قوم کا انجام اس کی ایک واضح مثال ہے، اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب و عتاب کسی خاص قوم کے لئے نہیں، بلکہ ہر مجرم قوم کے لئے ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اور کہیں کی بھی ہو۔ کہ اس کا قانون عام، بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے۔ سو وہ عذاب جس طرح کل کی ان مجرم قوموں پر آیا۔ آج بھی ایسے لوگوں پر آ سکتا ہے، اور بالفعل آتا بھی ہے۔ جس کے طرح طرح کے نمونے اور مظاہر ہم لوگ اپنی آنکھوں سے وقتاً فوقتاً جگہ جگہ دیکھتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ابھی کوئی دو ماہ قبل ایک ہولناک سمندری طوفان انڈونیشیاء، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ہندوستان کی ساحلی ریاستوں سمیت آٹھ مختلف ملکوں میں آیا۔ جس نے ایسی ہولناک تباہی مچائی کہ ماضی قریب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جس کو سونامی طوفان کا نام دیا گیا۔ جس میں یکایک سو سو فٹ کی ایسی بلند طوفانی لہریں اٹھیں کہ شہروں کے شہروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئیں۔ تقریباً تین لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں بے گھر ہو گئے۔ شہروں کے شہر ویران ہو گئے۔ اربوں کھربوں کے مال کا نقصان ہوا۔ وغیرہ وغیرہ، والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،

۲۶۔۔  سو اس سے قریش کو براہ راست خطاب کر کے ان کے دلوں پر دستک دی گئی، اور ان کو جھنجھوڑا گیا کہ ماضی کی ان بدبخت قوموں کو ہم نے اسباب و وسائل کی جو فراوانی بخشی تھی، اور تعمیر و تمدن اور مادی ترقی کے سلسلے میں جو عظمت و شوکت ان کو حاصل ہوئی تھی، وہ ان کو حاصل نہیں ہوئی، بلکہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَا اٰتَیْنَاہُمْ الایٰۃ(سبا۔۴۵) یعنی یہ لوگ اس کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچے، جو کچھ کہ ہم نے ان کو دیا تھا۔ لیکن آخرکار جب ہم نے ان کو پکڑا تو وہ کسی بھی طرح ہماری پکڑ سے نہ بچ سکے۔ ہم نے ان کو کانوں آنکھوں اور دلوں کی تمام عظیم الشان قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ مگر انہوں نے چونکہ ہماری آیتوں کی روشنی کو قبول نہ کیا، بلکہ ان کا انکار ہی کرتے گئے، تو اس کے نتیجے میں ان کے کان آنکھ اور دل وغیرہ سب بیکار ہو گئے، وہ ان کے کچھ کام نہ آ سکے۔ بلکہ وہ اپنی ساری ذہانت و فطانت کے باوجود اسی عذاب کی گرفت میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے۔ سو اس سے یہ اہم حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے کانوں آنکھوں اور ان کے دلوں کے اندر بھی اصل اور حقیقی روشنی اللہ تعالیٰ کی آیات ہی سے پیدا ہوتی ہے، پس جو آنکھیں کان اور دل و دماغ آیات الٰہی کے نور سے منور نہ ہوں، وہ ادراک حق و حقیقت کے اعتبار سے ماؤف اور بیکار ہو کر رہ جاتی ہیں، ان کی ساری رسائی صرف محسوسات تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور محسوسات کے سلسلے میں بھی ان کا سارا زور ان کے مادی اور محسوس فوائد ہی کے حاصل کرنے کے لئے صرف ہوتا ہے اور بس، اور اس طرح وہ ایک حیوان عاقل بن کر رہ جاتے ہیں، بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر برے اور بدتر ہو کر رہ جاتے ہیں، اس لئے کہ چار ٹانگوں والے معروف حیوان کو چونکہ عقل و فکر کی صلاحیتیں نہیں ملی ہوتیں، اس لئے وہ اپنی حیوانیت کے تقاضے اپنے محدود دائرے کے اندر، اور لگے بندھے طریقوں کے مطابق ہی پورے کرتا ہے، دوسرے کسی کو کچھ نہیں کہتا، اور اگر کبھی کسی کو کچھ کہے گا بھی تو وہ بھی اپنے محدود دائرے میں اور لگے بندھے طریقوں کے مطابق ہی یعنی کسی کو سینگ مار کر، یا لات مار کر، یا دانتوں سے کاٹ کر وغیرہ، لیکن دو ٹانگوں والا انسان جب حیوان بنتا ہے تو یہ اپنی عقل و فکر کی قوتوں کو استعمال کر کے وہ وہ ظلم کرتا اور قیامت ڈھاتا ہے کہ حیوان لایعقل کے لئے اس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں، چنانچہ یہ ایسے ایسے آلات اور مشینیں ایجاد کرتا ہے کہ صرف ایک بٹن دبا کر آن کی آن میں ہزاروں جانوں کو بھسم کر سکتا ہے اور بالفعل ایسے کرتا ہے، اور ہنستے بستے شہروں کو اجاڑ کر رکھ دیتا ہے، اور مزید یہ کہ ان کی اس مادہ پرستانہ ذہنیت اور محسوس پرستی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادراک حق و حقیقت کے سلسلے میں ان کی تمام اعلیٰ صلاحیتیں کند ہو کر رہ جاتی ہیں، اور ایسے لوگ اشیاء کے محسوس اور مادی پہلو کے سوا اور کسی طرف دیکھنے سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے، حالانکہ غور و فکر کے لائق اصل میں روحانی پہلو ہی ہوتا ہے، کہ وہی انسان کا امتیاز ہے، اور اسی سے انسان انسان بنتا ہے، اسی لئے ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ان کے دل ہیں جن سے یہ سوچتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، جن سے یہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے یہ سنتے نہیں۔ یہ چوپایوں جیسے ہیں، بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ اور بھٹکے ہوئے، یہی ہیں غافل (الاعراف۔۱۷٩) والعیاذُ باللہ جل وعلا،

۳۵۔۔    اس سے منکرین و مکذبین کو انذار فرمایا گیا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی اس بارے غور و فکر سے کام نہیں لیا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو پیدا فرمایا، اس کو نیست سے ہست کیا، اور حیطہ عدم سے نکال حیز وجود میں لایا، اور اس کو اس کام میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، تو کیا وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ پھر خود ہی جواب دیا ہاں کیوں نہیں، جبکہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، اور خود جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسی قطعی حقیقت ہے کہ مخاطب کے لئے اس سے گریز و فرار، اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں، سو آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات کا اس عظمت شان کے ساتھ موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مُردوں کا دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں، بلکہ اس اعتبار سے اس کے لئے یہ کام نہایت ہی آسان ہے، اس حقیقت کو قرآن حکیم نے دوسرے مختلف مقامات پر بھی مختلف انداز میں ذکر فرمایا ہے مثلاً ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنْ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (المومن۔ ۵۷) یعنی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا، لوگوں کے پیدا کرنے سے کہیں زیادہ بڑھ کر اور بڑا اہم ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں، حق اور حقیقت کو،

سو اس سے اس سورہ کریمہ کے آخر میں پیغمبر کو خطاب کر کے ان کو صبر و برداشت کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ آپ اسی طرح صبر و برداشت سے کام لیں جس طرح کہ آپ سے پہلے کے اولو العزم رسولوں نے صبر و برداشت سے کام لیا، اور منکروں کی طرف سے عذاب کے لئے جلدی مچانے کے جواب میں ان کے عذاب کے لئے جلدی نہیں کرنا۔ سو راہ حق ثبات و استقامت سے کام لینا دیں حنیف کے مطالب جلیلہ، اور اس کے مقاصد عظیمہ میں سے ایک ایک جلیل القدر مطلب اور عظیم الشان مقصد ہے، اس لئے پیغمبر کو اس کی بطور خاص ہدایت فرمائی گئی کہ آپ صبر و برداشت ہی سے کام لیں۔ اور منکرین و معاندین کے لئے کبھی کسی طرح کی جلد بازی سے کام نہیں لینا، کہ انہوں نے تو اپنے عذاب اور انجام کو بہر حال پہنچ کر رہنا ہے۔ کہ یہ انکار اور تکذیب حق کا لازمی نتیجہ اور منطقی انجام ہے، اور جس دن یہ اس عذاب کو دیکھیں گے جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے اور جس کے لئے یہ آج جلدی مچا رہے ہیں تو اس دن ان کو یوں لگے گا کہ گویا کہ یہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی رہے تھے اور بس، آج جس فرصت اور مہلت کو یہ لوگ طویل سمجھ رہے ہیں، اس دن ان کو یہ گھڑی بھر سے زیادہ نہیں معلوم ہو گی۔ آپ کا کام تو صرف اتنا ہے کہ آپ ان کو پیغام حق پوری طرح پہنچا دیں اور بس تاکہ حق پوری طرح واضح ہو جائے اور کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اس کے بعد اگر یہ تباہ ہوئے تو اس کی ذمہ داری خود انہی پر ہو گی۔ اور آخرکار ہلاکت و تباہی فاسق اور بدکار لوگوں ہی کی ہو گی سو فسق و فجور، اور کفر و ججود بہر حال باعث ہلاکت و تباہی ہے، اور ایسے لوگوں نے بہر حال اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہنا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،