اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بکھیرتی ہیں اڑا کر
۲۔۔۔ پھر ان بادلوں کو جو اٹھاتے ہیں ایک (بھاری بھر کم) بوجھ کو
۳۔۔۔ پھر ان کشتیوں کی جو چلتی ہیں نرمی سے
۴۔۔۔ پھر ان فرشتوں کی جو تقسیم کرتے ہیں حکم کے مطابق
۵۔۔۔ بلاشبہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے (اے لوگو) وہ قطعی طور پر سچی ہے
۶۔۔۔ اور بلاشبہ جزا و سزا (اور عدل و انصاف کے عمل) نے بہر حال ہو کر رہنا ہے
۷۔۔۔ قسم ہے راستوں والے آسمان کی
۸۔۔۔ بے شک تم لوگ پڑے ہو ایک سخت ہی اختلاف والی بات میں
۹۔۔۔ اس سے وہی پھیرا جاتا ہے جو (ازل سے ہی) پھیر دیا گیا
۱۰۔۔۔ ہلاک ہو گئے وہ اٹکل پچو باتیں بنانے والے
۱۱۔۔۔ جو نشے میں پڑے بھولے ہوئے ہیں
۱۲۔۔۔ جو (استہزاء کے طور پر) کہتے ہیں کہ کب ہو گا جی بدلے کا وہ دن؟
۱۳۔۔۔ (سو وہ اس دن ہو گا کہ) جس دن ان کو جلایا جائے گا اس (انتہائی ہولناک) آگ میں
۱۴۔۔۔ (اور ان سے کہا جائے گا کہ) لو اب چکھو تم مزہ اپنے فتنے کا یہی ہے وہ چیز جس کی تم لوگ جلدی مچایا کرتے تھے
۱۵۔۔۔ (اس کے برعکس) پرہیزگار لوگ (عیش کر رہے) ہوں گے عظیم الشان جنتوں اور طرح طرح کے چشموں میں
۱۶۔۔۔ (وہ بڑھ بڑھ کر) لے رہے ہوں گے ان نعمتوں کو جو انکو بخشی ہوں گی ان کے رب نے کیونکہ وہ اس دن سے پہلے (دنیا میں) نیکوکار تھے
۱۷۔۔۔ وہ راتوں کو بھی کم ہی سویا کرتے تھے اور
۱۸۔۔۔ (اس سب عبادت گزاری کے باوجود) وہ رات کے پچھلے پہروں میں (اپنے رب سے) معافی مانگا کرتے تھے
۱۹۔۔۔ اور ان کے مالوں میں حق ہوتا تھا مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی
۲۰۔۔۔ اور یقین لانے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں اس زمین میں بھی
۲۱۔۔۔ اور خود تمہاری اپنی جانوں میں بھی (اے لوگو) تو کیا تمہیں دکھلائی نہیں دیتا؟
۲۲۔۔۔ اور آسمان (یعنی عالم بالا) ہی میں تمہاری روزی بھی ہے اور وہ سب کچھ بھی جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے
۲۳۔۔۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے رب کی یہ قطعی طور پر حق ہے (ایسے ہی) جیسے تم لوگ آپس میں باتیں کرتے ہو
۲۴۔۔۔ کیا آپ کو ابراہیم کے ان معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؟
۲۵۔۔۔ جب کہ وہ آپ کے پاس آئے پھر انہوں نے آپ کو سلام کیا ابراہیم نے بھی سلام کا جواب دیا (اور کہا کہ) کچھ اوپرے سے لوگ ہی
۲۶۔۔۔ پھر آپ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ آپ ایک موٹا تازہ (بھنا ہوا) پورا بچھڑا لے آئے
۲۷۔۔۔ اور اسے ان کے سامنے رکھ کر کہا کیا آپ حضرات کھاتے نہیں ہیں ؟
۲۸۔۔۔ پھر (بھی ان کے نہ کھانے پر) آپ نے اپنے دل میں ایک خوف سا محسوس کیا انہوں نے کہا ڈرو نہیں اور (مزید یہ کہ) انہوں نے آپ کو خوشخبری بھی دی ایک بڑے (ہونہار اور) عالم فرزند کی
۲۹۔۔۔ اس پر آپ کی اہلیہ بولتی پکارتی نکل آئیں چنانچہ انہوں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا میں تو ایک بڑھیا ہوں بانجھ
۳۰۔۔۔ انہوں نے کہا یونہی فرمایا ہے آپ کے رب نے بلاشبہ وہی حکمت والا سب کچھ جانتا
۳۱۔۔۔ تب ابراہیم نے ان سے پوچھا کہ اچھا تو آپ حضرات کی اصل مہم کیا ہے اے فرستادو؟
۳۲۔۔۔ تو انہوں نے بتایا کہ ہم کو تو دراصل بھیجا گیا ہے ایک ایسی قوم کی طرف جو کہ سخت مجرم ہے
۳۳۔۔۔ تاکہ ہم برسا دیں ان پر پکی ہوئی مٹی کے ایسے پتھر
۳۴۔۔۔ جن پر نشان لگے ہوئے ہوں گے آپ کے رب کے یہاں سے حد سے بڑھنے والوں کے لئے
۳۵۔۔۔ پھر نکال دیا ہم نے اس بستی سے جو بھی کوئی ایماندار وہاں موجود تھا
۳۶۔۔۔ مگر ہم نے اس میں ایک کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر پایا ہی نہیں
۳۷۔۔۔ اور چھوڑ دی ہم نے اس (واقعے) میں ایک بھاری نشانی ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں دردناک عذاب سے
۳۸۔۔۔ اور موسیٰ (کے قصے) میں بھی جب کہ ہم نے ان کو بھیجا (رسول بنا کر) فرعون کی طرف ایک کھلی سند (اور دلیل) کے ساتھ
۳۹۔۔۔ مگر اس نے سرتابی ہی کی اپنے ارکان سلطنت کے ساتھ اور اس نے (پوری رعونت کے ساتھ) کہا کہ یہ شخص یا تو کوئی جادوگر ہے یا دیوانہ
۴۰۔۔۔ آخرکار ہم نے پکڑا اس کو بھی اور اس کے لشکروں کو بھی پھر ان سب کو ہم نے (کچرے کی طرح) پھینک دیا سمندر میں اس حال میں کہ وہ ملامت زدہ تھا
۴۱۔۔۔ اور عاد (کے قصہ) میں بھی (ہم نے بڑی بھاری نشانی رکھ دی) جب کہ ہم نے ان پر وہ انتہائی سخت آندھی بھیجی وہ (ایسی ہولناک ہوا تھی کہ) جس چیز پر سے بھی وہ گزرتی اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیتی
۴۲۔۔۔ وہ (ایسی ہولناک ہوا تھی کہ) جس چیز پر سے بھی وہ گزرتی اس کو بوسیدہ کر کے رکھ دیتی
۴۳۔۔۔ اور ثمود میں بھی جب کہ ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم لوگ مزے کر لو ایک خاص وقت تک
۴۴۔۔۔ مگر (اس تنبیہ و انذار کے باوجود) وہ لوگ سرتابی (و سرکشی) ہی کرتے چلے گئے اپنے رب کے حکم سے سو آخرکار آ پکڑا ان کو اس ہولناک کڑک نے جو (ان کے لئے مقدر ہو چکی تھی) ان کے دیکھتے ہی دیکھتے
۴۵۔۔۔ سو اس کے بعد نہ تو ان میں کھڑے ہونے کی کوئی سکت تھی اور نہ ہی اپنے بچاؤ کی کوئی طاقت (و قوت)
۴۶۔۔۔ اور قوم نوح کو بھی (ہم نے ہلاک کیا) اس سے پہلے بے شک وہ بھی بڑے بدکار لوگ تھے
۴۷۔۔۔ اور آسمان (کے اس عظیم الشان گنبد) کو بھی ہم ہی نے بنایا (اپنی قوت و) زور سے اور بے شک ہم بڑی ہی قدرت والے ہیں
۴۸۔۔۔ اور زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو بھی ہم ہی نے بچھایا سو ہم کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں
۴۹۔۔۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم لوگ (اس سے) سبق لو
۵۰۔۔۔ پس تم سب دوڑو اللہ کی طرف (اے لوگو!) بے شک میں تم سب کے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں
۵۱۔۔۔ اور مت بناؤ تم اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بلاشبہ میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں
۵۲۔۔۔ اسی طرح ان سے پہلوں کے پاس بھی جب بھی کوئی رسول آیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ ایک جادوگر ہے یا دیوانہ
۵۳۔۔۔ کیا ان لوگوں نے آپس میں اس بات پر کوئی سمجھوتہ کر لیا تھا؟ (نہیں) بلکہ یہ سب ہی سرکش لوگ ہیں
۵۴۔۔۔ پس آپ رخ پھیر لیں ان (کی ان بے ہودگیوں اور سرکشیوں) سے اس میں آپ پر کوئی الزام نہیں
۵۵۔۔۔ اور (یوں عام) نصیحت کرتے رہو کہ بے شک نصیحت بہر حال فائدہ دیتی ہے ایمان والوں کو
۵۶۔۔۔ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا اور کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں
۵۷۔۔۔ نہ تو میں ان سے کوئی روزی چاہتا ہوں اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں
۵۸۔۔۔ بلاشبہ اللہ ہی سب کو روزی دینے والا بڑی قوت والا انتہائی زور والا ہے
۵۹۔۔۔ پس ان لوگوں کے لئے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے ظلم (و باطل) پر یقیناً ایک حصہ ہے جیسا کہ انہی جیسے دوسرے لوگوں کو اپنا حصہ مل چکا ہے لہٰذا یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ مچائیں
۶۰۔۔۔ سو انجام کار بڑی (ہی خرابی اور) ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر ان کے اس دن سے جس سے ان کو ڈرایا (اور خبردار) کیا جا رہا ہے
۴۔۔ ان چار صفتوں کے موصوفوں کے بارے میں حضرات مفسرین کرام کے اقوال میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں، لیکن وہ اختلاف اس طرح کے نہیں کہ ان کے معانی و مطالب میں کوئی بنیادی فرق واقع ہو۔ بلکہ اصل مطلب اور حقیقی مدعا بہر حال ایک ہی رہتا ہے، ہم نے جس قول و احتمال کو اختیار کیا ہے وہ بہت سے اصحاب علم و فضل کا اختیار ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی قول و احتمال کو اپنایا ہے۔ سو ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا یہ پُر حکمت نظام جہاں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی قدرت بے نہایت اور اس کی حکمت بے غایت کا ثبوت ہے، وہیں یہ اس بات کی بھی ایک واضح دلیل اور علامت ہے کہ نہ یہ کارخانہ قدرت عَبَثَ و بیکار ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا مخدوم و مُطاع یہ انسان عبث و بیکار ہو سکتا ہے۔ بلکہ اس کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان اس پُر حکمت نظام میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیکر اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرفراز و سرشار ہو۔ اور اس کے نتیجے میں وہ دل و جان سے اس کے آگے جھک جائے، اور ہمیشہ جھکا جھکا ہی رہے، کہ یہ اس کے خالق و مالک کا اس پر حق بھی ہے اور اسی میں خود اس کا اپنا بھلا بھی ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس کے بعد آنے والا ہے نیز اس پُر حکمت نظام کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم فصل و تمیز آئے، جس میں اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں اور نا فرمانوں کے درمیان فرق و تمیز ہو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزاروں اور فرمانبرداروں کو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا صلہ و بدلہ ملے، اور سرکشوں و نا فرمانوں کو ان کی سرکشی وسرتابی کی سزا ملے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، جو حکمتوں بھری اس کائنات کی تخلیق اور اس کے وجود کا طبعی نتیجہ اور بدیہی تقاضا ہے، ورنہ اس کا وجود عبث اور بیکار ہو کر رہ جائے گا، جو حضرت خالق حکیم کی حکمت اور اس کی پُر حکمت کائنات کی تخلیق و تکوین کے تقاضوں کے خلاف ہے، سو وہی یوم فصل و تمیز قیامت کا یوم عظیم ہے، جس نے اپنے وقت پر بہر حال قائم اور بپا ہو کر رہنا ہے، پس اس کے تقاضوں سے غفلت و لاپرواہی خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو کائنات کی اس کھلی کتاب میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لینے میں حضرت خالق حکیم جَلَّ مَجْدُہٗ کی توحید و وحدانیت، رسالت اور معاد و آخرت کے تینوں بنیادی عقائد کے لئے عظیم الشان دلائل اور ثبوت موجود ہیں مگر انہی لوگوں کے لئے جو صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیں، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید،
۲۳۔۔ سو آفاق و انفس کے دلائل کو سمیٹتے ہوئے اور ان کے تقاضوں کو واضح کرتے ہوئے آسمان اور زمین کے رب کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ بات یعنی جزاء وسزا کے وقوع سے متعلق یہ بات قطعی طور پر حق اور صدق ہے، جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں سو جس روز جزا وسزا کی تم لوگوں کو تذکیر و یاد دہانی کرائی جا رہی ہے، اور پیغمبر کی تکذیب کے جس نتیجہ انجام سے تم کو خبردار کیا جا رہا ہے، وہ ایسے ہی ایک ہونی شدنی چیز ہے جس طرح کہ تم لوگ بولتے ہو سو جس طرح تمہیں اپنے اس کلام کے بارے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا جو تم اپنے مونہوں سے نکالتے ہو۔ اسی طرح جزاء وسزا کے اس معاملے میں بھی کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ اور جس طرح تمہیں اپنے مونہوں سے کوئی لفظ نکالنے کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اسی طرح حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کے لئے اس یوم جزا کو واقع کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، بلکہ محض اس کے ایک کلمہ کُنْ سے یہ سب کچھ واقع ہو کر رہے گا، کہ اس کی شان کُنْ فَیَکُوْنَ ہی کی شان ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور کلمہ حصر وقصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْ ءٍ اِذَا اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (النحل۔۴٠) یعنی ہم جب کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے اور اسی حقیقت کو ایک اور مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے اِنَّمَآ اَمْرُہ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ(یٰس۔ ٨۲) یعنی وہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے بس اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے، یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ آسمان اور زمین کے رب کی جو قسم کھائی گئی ہے تو اس میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح ہر مصنوع سے اس کے صانع کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آسمان و زمین کی اس کائنات اور اس کے اندر پائی جانے والی نشانیوں سے ان کے خالق کی صفات کا بھی اندازہ ہوتا ہے، سو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جزاء و سزا دینے والا ہے کیونکہ آسمان و زمین کی اس کائنات کے اندر پایا جانے والا عدل و قسط اور پُر حکمت توازن و بیلنس اپنی زبان حال سے اس چیز کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ جب یہ پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز نہایت ہی با مقصد، اور عدل و قسط پر مبنی ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا وجود اور اس کے گل سر سبد، اور اس کے مخدوم و مطاع انسان، کا وجود عَبَثَ و بیکار ہو؟ سو ایسا نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے، کہ یہ حکمتوں بھری اس کائنات کے وجود اور حضرت خالق حکیم کی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے منافی ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس اس کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب واقع ہو جس میں عدل و قسط کے تقاضے پورے ہوں، اور عملی طور پر اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، سو فصل و تمیز اور جزاء و سزا کا وہی دن یوم قیامت ہے، جس کا وقوع اس کائنات کے وجود کا طبعی تقاضا اور منطقی انجام ہے۔ سو اس یوم عظیم نے اپنے وقت پر بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے، تاکہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ اور بدلہ ملے، تاکہ اسطرح اللہ کے نیکوکار اور فرمانبردار لوگ جنت کی اَبَدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہوں اور اس کے باغی و سرکش اپنے کفر و بغاوت کے نتیجے میں دوزخ کے عذاب الیم سے دو چار ہوں، والعیاذُ باللہ العظیم،
۳۵۔۔ اس سے اس سنت خداوندی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو عذاب یافتہ قوموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ پائی گئی، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اتمام حجت کے بعد جب کسی قوم پر فیصلہ کن عذاب بھیجنا چاہتا ہے تو اس کے ظہور سے پہلے ان لوگوں کو وہاں سے بچا کر باہر نکال لیتا ہے جو اس سے پہلے اس کے پیغمبر پر ایمان لا چکے ہوتے ہیں، اس سنت الٰہی کو تمام رسولوں کی سرگزشتوں میں واضح فرمایا گیا ہے، اور حضرت لوط کی سرگزشت کے ضمن میں اس سنت الٰہی کا ذکر دوسرے مقام پر اس تصریح کے ساتھ فرمایا گیا ہے، کہ آپ اے لوط! آپ اپنے اٰل واَتْباع کو لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے ہی اس بستی کی حدود سے نکل جائیں جس پر عذاب آنے والا ہے، اور اس طور پر نکل جائیں کہ آپ لوگوں میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے الخ (ہود۔٨۱) کیونکہ اس کے بعد اس بدبخت قوم پر وہ فیصلہ کُنْ اور انتہائی ہولناک عذاب آنے والا تھا، جس نے اس کا قصہ تمام کر دینا تھا، اور ان کے وجود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا کر رکھ دینا تھا، سو اس طرح ان کو ہمیشہ کے لئے قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیا گیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ان سے متعلق ارشاد فرمایا گیا فَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِّجِیْلٍ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَایٰٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ (الحجر، ۷۳۔ ۷۴) یعنی ہم نے ان کی ان بستیوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا، اور ان پر کھنگروں کے پتھروں کی انتہائی ہولناک بارش برسائی، بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں تاڑ رکھنے والوں کیلئے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید،
۳۶۔۔ سو اس سے اس قوم کی محرومی اور بدبختی واضح ہو جاتی ہے کہ اس پوری بستی کے اندر ایک کے سوا کوئی بھی ایمان لانے والا متنفس موجود نہیں تھا۔ اور اس گھرانے سے مراد جیسا کہ ظاہر ہے حضرت لوط ہی کا گھرانہ تھا، سو ان کے سوا اور کسی کو بھی ایمان لانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی، سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کن عذاب کسی قوم پر اسی وقت نازل ہوتا ہے، جبکہ اس کا قومی مزاج بحیثیت مجموعی فاسد ہو جاتا ہے، اہل ایمان اس کے اندر سرے سے پائے ہی نہیں جاتے، یا ان کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ نہ ہونے ہی کے برابر ہوتے ہیں، اور ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ کسی قوم کے موجود اور باقی رہنے کا حق ختم ہو جاتا ہے، اس لئے ان کو مٹا کر ختم کر دیا جاتا ہے، تاکہ اللہ کی دھرتی ان کے ناپاک و ناروا وجود کے بوجھ سے پاک ہو جائے، والعیاذُ باللہ جل وعلا بکل حالِ من الاحوال، نیز اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء و رسل اور ان کے سچے پیروکاروں کا وجود رحمت خداوندی کے نزول اور اس سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہوتا ہے، کہ انہی سے دنیا کو حق و ہدایت کا نور ملتا ہے، اور خداوند قدوس کی عبادت و بندگی کا مقصد پورا ہوتا ہے، جو کہ جن وانس کی تخلیق اور ان کے وجود کا اصل مقصد ہے، اس لئے ان کے وجود سے خالی اور محروم ہو جانا ایسی بستیوں اور ایسے لوگوں پر عذاب الٰہی کے نزول کا پیش خیمہ ہوتا ہے، والعیاذ باللّٰہ جَلَّ وعلا، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحوال، وفی کُلِّ موطنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ، وَہُوَ العزیز الوہّاب، سبحانہ و تعالیٰ،
۴۸۔۔ سو اصول عقائد کے بارے میں تاریخی دلائل و شواہد کے ذکر وبیان کے بعد اب ان دونوں آیتوں میں آسمان و زمین کی ان دونوں عظیم الشان خلقتوں اور ان کے اندر پائے جانے والے درسہائے عبرت و بصیرت کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے، اور یہ اس لئے کہ آسمان و زمین کی یہ دونوں عبرتوں بھری خلقتیں ہر وقت ہر موقع پر اور ہر حال میں انسان کے سامنے رہتی ہیں، وہ اگر نیچے دیکھے تو اس کو اپنے پاؤں تلے بچھے ہوئے اس عظیم الشان بچھونہ ارضی اور اس میں پائے جانے والے نشان ہائے قدرت و حکمت کے عظیم الشان مظاہر نظر آئیں گے، اور وہ اگر نظر اٹھا کر اپنے اوپر دیکھے تو اس کو آسمان کی عظیم الشان چھت اور اس میں جھلمل جھلمل کرتے ان گنت ستاروں سیاروں اور دوسرے طرح طرح کے عظیم الشان اور جلیل القدر مظاہر قدرت دعوت غور و فکر دیتے نظر آئیں گے اور زمین و آسمان کی اس حکمتوں اور عبرتوں بھری کائنات اور اس میں پائے جانے والے طرح طرح کے ان نشان ہائے قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے ان لوگوں کو انعام دیا جائے جنہوں نے راہ حق کو اپنا کر اپنی زندگی اپنے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق گزاری ہو گی۔ اور اس کے برعکس ان لوگوں کو انکے کئے کرائے کی سزا ملے جنہوں نے حضرت خالق جل مجدہٗ کی مرضی کے بجائے من مانی کی ہو گی۔ اور تمرد و سرکشی کی زندگی گزاری ہو گی۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں۔ کہ یہ حضرت خالق حکیم جَلَّ مَجْدہٗ کی حکمت کا بھی تقاضا ہے، اور حکمتوں بھری اس کائنات کے وجود کا بھی، نیز آسمان اور زمین کی تخلیق میں یہ درس عظیم بھی ہے کہ جس خدائے قادر و قیوم نے آسمان کی اس عظیم الشان چھت کو اس پُر حکمت طریقے سے ساری دنیا پر تن دیا ہے اس کے لئے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا آخر کیونکر اور کیا مشکل ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح اس طرح فرمائی گئی۔ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ الایٰۃ (المؤمن۔۵۷) یعنی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے کہیں بڑھ کر بڑا کام ہے، اور اسی حقیقت کو دوسرے مقام پر استفہام تقریری کے طور پر اس طرح ذکر و بیان فرمایا گیا ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰہَا الخ (النازعات۔۲۷) یعنی کیا تم لوگوں کا پیدا کیا جانا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا؟ اس کو اللہ تعالیٰ نے بنا دیا، سو آسمان و زمین کی اس کائنات کی تخلیق و تکوین میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اس کی وحدانیت و یکتائی، اس کی رحمت و عنایت، ضرورت بعثت و رسالت، اور معاد و آخرت اور قیامت و بعث بعدالموت جیسے سب ہی بنیادی عقائد اور جلیل القدر حقائق کے بارے میں کھلے واضح اور عظیم الشان دلائل و شواہد موجود ہیں جو اپنی زبان حال سے پکار پکار کر لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں، تاکہ وہ صرف حیوانوں کی طرح اس کائنات سے استفادہ نہ کریں، بلکہ ان میں غور و فکر سے کام لے کر اپنے خالق و مالک کی معرفت، سے سرشار اور اپنے مقصد حیات کی طرف متوجہ ہوں، لیکن یہ سب کچھ انہی لوگوں کے لئے ہے جو صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیتے ہیں وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید،
۶۰۔۔ کیونکہ ایسے لوگوں نے اپنے کفر و انکار کی بناء پر لاپرواہی اور لاابالی کی زندگی گزاری، اور آخرت کی اس حقیقی اور اَبَدی زندگی کے لئے کوئی تیاری نہیں کی۔ جو اس دنیائے فانی کے بعد آنے والی تھی، یہاں تک کہ فرصت عمل تمام ہو گئی اور یہ ہمیشہ کے لئے محرومی کا شکار ہو گئے اور اس حد تک کہ اب ان کے لئے تلافی و تدارک کی کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی اور یہی ہے اصل حقیقی دائمی اور کھلا ہوا خسارہ۔ وذالک ہو الخسران المبین۔ والعیاذ باللہ العظیم