تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المجَادلة

(سورۃ المجادلۃ ۔ سورہ نمبر ۵۸ ۔ تعداد آیات ۲۲)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     بے شک سن لی اللہ نے بات اس عورت کی جو جھگڑا کر رہی ہے آپ سے (اے پیغمبر!) اپنے خاوند کے بارے میں اور شکایت کر رہی ہے (ا پنے معاملے کی) اللہ کے حضور اور اللہ سن رہا ہے گفتگو تم دونوں کی بے شک اللہ ہر کسی کی سنتا سب کچھ دیکھنے والا ہے

۲۔۔۔     تم میں سے جو لوگ ظہار کر لیں اپنی بیویوں سے وہ (ان کے کہنے سے ) ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے اور بلاشبہ ایسے لوگ ایک بڑی ہی نامعقول اور جھوٹی بات منہ سے نکالتے ہیں اور بے شک اللہ بڑا ہی معاف کرنے والا نہایت ہی درگزر کرنے والا ہے

۳۔۔۔     اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں پھر وہ اپنی کہی ہوئی بات سے پھرنا چاہتے ہیں تو ان کے ذمے ایک گردن (یعنی غلام یا لونڈی) کا آزاد کرنا ہے اس سے پہلے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اس حکم سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۴۔۔۔     پھر جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو اس کے ذمے روزے رکھنا ہے لگاتار دو ماہ کے اس سے قبل کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں پھر جس سے یہ بھی نہ ہو سکے تو اس کے ذمے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یہ حکم اس لئے دیا جا رہا ہے کہ تم لوگ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور کافروں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۵۔۔۔     بلا شبہ جو لوگ مخالفت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی وہ اسی طرح ذلیل و خوار ہوں گے جس طرح کہ ان سے پہلے والے لوگ ذلیل و خوار ہو چکے ہیں بلاشبہ ہم نے (حق و حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ) کھلی کھلی آیتیں نازل کر دی ہیں اور کافروں کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے

۶۔۔۔     جس دن کہ اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کر کے اٹھائے گا پھر ان کو وہ سب کچھ (کھول کر) بتا دے گا جو یہ لوگ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے یہ تو اسے بھول گئے ہیں مگر اللہ نے ان کا سب کیا دھرا گن گن کر محفوظ کر رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر مطلع ہے

۷۔۔۔     کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ اللہ کو قطعی طور پر معلوم ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے کوئی سرگوشی نہیں ہوتی تین آدمیوں کی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ کوئی اس سے کم اور نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں پھر وہ خبر کر دے گا ان کو قیامت کے دن ان کے ان تمام کاموں کی جو یہ لوگ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے بلاشبہ اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۸۔۔۔     کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا مگر وہ پھر وہی حرکت کئے جاتے ہیں جس سے انہیں روکا گیا ہے اور وہ سرگوشی کرتے ہیں گناہ کی اور (ظلم و) زیادتی کی اور (خدا کے ) رسول کی نافرمانی کی اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ان لفظوں سے سلام کرتے ہیں جن سے اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں ہماری ان باتوں پر عذاب کیوں نہیں دیتا ان کے لئے کافی ہے جہنم جس میں ان کو داخل ہونا ہو گا سو بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے وہ

۹۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو جب تمہیں آپس میں سرگوشی کرنا ہو تو گناہ زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی مت کرنا بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی سرگوشی کیا کرو اور ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے جس کے حضور تم سب کو حشر میں پیش ہونا ہے

۱۰۔۔۔     ایسی سرگوشی تو محض شیطان کی طرف سے ہوتی ہے تاکہ اس طرح وہ غم میں ڈالے ان لوگوں کو جو ایمان لائے حالانکہ وہ ان کا نقصان کچھ بھی نہیں کر سکتا مگر اللہ ہی کے اذن سے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے ے ایمان والوں کو

۱۱۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو جب تم سے کہا جایا کرے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشادہ کر دیا کرو اللہ تم کو کشادگی عطا فرمائے گا اور جب تم سے کہا جایا کرے کہ اٹھ جاؤ تو تم اٹھ جایا کرو اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند فرمائے گا جو ایمان لائے اور جن کو علم (کا نور) بخشا گیا ہے اور اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۱۲۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو جب تمہیں اللہ کے رسول سے کوئی تخلیے میں کرنا ہو تو تم اپنی اس بات سے پہلے کچھ صدقہ کر لیا کرو یہ تمہارے لئے بہت اچھا اور بڑا پاکیزہ طریقہ ہے پس اگر تم (اس کی گنجائش) نہ پاؤ تو (کوئی حرج نہیں کہ) یقیناً اللہ بڑا ہی معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے

۱۳۔۔۔     کیا تم لوگ اس بات سے ڈر گئے ہو کہ تمہیں تخلیے میں بات کرنے سے پہلے کچھ صدقات دینے ہوں گے ؟ پس جب تم ایسا نہیں کر سکے اور اللہ نے بھی تمہارے حال پر عنایت فرما دی تو اب (تمہیں صرف یہ ہدایت ہے کہ) تم نماز قائم رکھو، زکوٰۃ ادا کرو، اور (صدقِ دل سے ) اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور (یاد رکھو کہ) اللہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۱۴۔۔۔     کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایک ایسی قوم سے دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے یہ لوگ نہ تمہارے ساتھ ہیں نہ ان کے ساتھ اور یہ (ایسے بدبخت ہیں کہ) قسمیں کھاتے ہیں جھوٹ پر جانتے بوجھتے

۱۵۔۔۔     اللہ نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے ایک بڑا ہی سخت (اور ہولناک) عذاب بے شک بڑے ہی برے ہیں وہ کام جو یہ لوگ کرتے ہیں

۱۶۔۔۔     انہوں نے اپنی قسموں کو (اپنے بچاؤ کے لئے ) ایک ڈھال بنا رکھا ہے پھر وہ (دوسروں کو بھی) روکتے ہیں اللہ کی راہ سے سو ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے

۱۷۔۔۔     اللہ کے مقابلے میں نہ تو ان کے مال ان کے کچھ کام آ سکیں گے اور نہ ہی ان کی اولا دیں یہ جہنمی ہیں انہیں ہمیشہ اسی میں رہنا ہو گا

۱۸۔۔۔     جس دن اللہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ اس کے سامنے بھی اس طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح آج تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور یہ اپنے طور پر سمجھیں گے کہ یہ کسی بنیاد پر ہیں آگاہ رہو کہ یہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں

۱۹۔۔۔     شیطان نے ان پر اس طرح قابو پا لیا ہے کہ اس نے ان کو اللہ کی یاد (کی دولت) بھلا دی یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں آگاہ رہو کہ شیطانی گروہ کے لوگ ہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں

۲۰۔۔۔     جو لوگ مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی وہ (خواہ بظاہر کچھ بھی بنے پھرتے ہوں حقیقت میں وہ) ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں

۲۱۔۔۔     اللہ نے لکھ دیا ہے کہ غلبہ یقینی طور پر میرا اور میرے رسولوں ہی کا ہو گا بلاشبہ اللہ بڑا ہی قوت والا انتہائی زبردست ہے

۲۲۔۔۔     تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ جو لوگ (سچے دل سے ) ایمان رکھتے ہوں اللہ پر اور قیامت کے دن پر وہ دوستی رکھتے ہوں ان لوگوں سے جو مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ (قبیلہ) ہی کیوں نہ ہوں (کیونکہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے نقش فرما دیا (دولت) ایمان کو اور اس نے ان کی تائید (و تقویت) فرما دی اپنی طرف سے ایک عظیم الشان روح کے ذریعے اور وہ ان کو داخل فرمائے گا ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا اللہ ان سے راضی ہو گیا اور یہ اس سے راضی ہو گئے یہ لوگ ہیں اللہ کی جماعت آگاہ رہو کہ اللہ کی جماعت ہی یقینی طور پر فلاح پانے والی ہے

تفسیر

 

۱۔۔۔   اس آیت کریمہ میں جس خاتون کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے روایات میں ان کا نام خولہ بنت ثعلبہ آیا ہے، اور ان کے شوہر حضرت اوس بن ثابت انصاری صحابی تھے، جن کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کے مزاج میں کچھ تیزی تھی اور بعض روایات میں آتا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کا مزاج ایسا ہو گیا تھا سو انہوں نے ایک مرتبہ غصے میں آ کر اپنی بیوی سے کہہ دیا اَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ اُمِّیْ (یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) اور زمانہ جاہلیت کے دستور و رواج کے مطابق کسی شخص کے ایسا کہہ دینے سے اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی تھی، اور ایسی کہ اس کے بعد اس کے خاوند کے لئے اس کے رجوع اور اس کے لئے حلال ہونے کی کوئی صورت ممکن نہیں رہتی تھی، اور وہ ہمیشہ کے لئے اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جاتی تھی، اس لئے اس واقعہ کے بعد حضرت خولہ کو سخت پریشانی لاحق ہو گئی کہ اب ان کا کیا بنے گا اپنے شوہر اور بچوں سے الگ ہو کر اس عمر میں وہ کہاں جائیں گی؟ اور زندگی کس طرح گزاریں گی؟ اس لئے انہوں نے اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا، روایات میں اس سلسلہ میں ان کے بعض بڑے رقت آمیز اور درد انگیز کلمات مروی و منقول ہیں، بہر کیف انہوں نے اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اور بڑے اصرار و الحاح کے ساتھ آپ کی خدمت میں گزارش کی کہ مجھے اس بارے میں کوئی حل بتائیں۔ ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت تک اس معاملے سے متعلق وحی الٰہی کے اندر کوئی واضح ہدایت موجود نہیں تھی، کہ اس کی روشنی میں آپ ان کو فوری طور پر کوئی جواب دے سکیں، اس لئے آپ نے توقف سے کام لیا اور وحی کا انتظار فرمایا، جس کی بناء پر اس پریشان حال خاتون کو اس سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بار بار توجہ دلانا پڑی تاکہ اس کو اس پریشانی سے متعلق کوئی اطمینان بخش جواب مل سکے، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اس معاملے سے متعلق یہ وحی نازل ہوئی جس کے ذریعے یہ واضح ہدایت دی گئی اور اس طرح اس شکوہ و مجادلہ کی برکت سے نہ صرف یہ کہ اس پریشان حال خاتون کے لئے اس مشکل اور پریشانی سے نکلنے کی صورت پیدا ہو گئی بلکہ قیامت تک کے سب لوگوں کے لئے راہ حق و ہدایت واضح ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے بیشمار بندوں اور بندیوں کو جاہلیت کی اس بیہودہ رسم کے عواقب سے چھٹکارا مل گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس با برکت اور سعادت مند خاتون کی تعریف اپنے اس کلام حکیم میں فرمائی اور اس طرح ان کو اور ان کے اس مجادلہ کو زندہ جاوید اور ذریعہ عبرت و بصیرت بنا دیا۔ اور اس کے ذریعے لوگوں کو یہ عظیم الشان درس دیا گیا کہ ان کو اگر دین کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئے تو ان کو اس ایماندار خاتون کی طرح اپنی مشکل کو اپنے رب کے آگے پیش کرنا چاہیئے۔ یہ نہیں کہ وہ اس کو منافقوں کی طرح اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آرائی (محاذہ) کا بہانہ بنا لیں، اس خاتون نے چونکہ اپنا یہ شکوہ اور مجادلہ خاص اللہ تعالیٰ ہی سے کیا تھا اس لئے وَاللّٰہُ یَسْمَعَ تَحَاوُرَکُمَا کی تصریح سے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ خاص توجہ اور مہربانی سے اس کو سنتا رہا اور اس کے نتیجے میں اس سچی ایماندار خاتون کی مشکل کو اس مبارک و مسعود طریقے سے دور فرما دیا، سو اس سے یہ عظیم الشان درس ملتا ہے کہ جو لوگ اپنی مشکلات کے سلسلے میں صدق دل سے اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی عرض و گزارش اور دعاء و درخواست کو خاص توجہ اور رحمت سے سنتا ہے، کہ وہ سمیع و بصیر ہے جو ہر کسی کی سنتا اور سب کو دیکھتا ہے سبحانہ، و تعالیٰ اللّٰہُمَّ فَکُنْ لَنَا وَاجْعَلْنَا لَکَ بِکُلِّ حَالٍ مِّن الْاَحْوَالِ، وفی کُلِّ موطِنٍ مِّنَ المواطنِ فی الحیاۃ یاذا الجلال والاکرام۔

۷۔۔۔  سو اس سے اللہ تعالیٰ کے کمال علم کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمان و زمین کی اس کائنات کی کوئی بھی چیز اس سے نہ مخفی ہے، اور نہ ہو سکتی ہے، کہ وہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے اور اَلَمْ تَرَ کے اسلوب خطاب سے اس بات کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر شخص پر واضح رہنی چاہیے کہ جب آسمان و زمین کی اس ساری کائنات کا خالق و مالک بھی اللہ ہی ہے، اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے نہ اس کی خلق و ایجاد میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہے، اور نہ ہی اس کے حکم و تصرف میں، اس سارے حکمتوں بھرے نظام کو وہی وحدہٗ لاشریک چلا رہا ہے، اس کے ایک ایک پرزے کی حرکت اسی کے حکم و ارشاد سے ہوتی ہے اس کے ایک ایک متنفس کی زندگی اسی کے اذن اور اسی کے فضل و کرم سے قائم اور باقی ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ آسمان و زمین کی کوئی بھی چیز اس کے علم و آگہی سے باہر ہو؟ پس کائنات کی کوئی بھی چیز نہ اس خالق کل، اور حاکم مطلق کے علم سے باہر ہو سکتی ہے، اور نہ باہر ہے، کہ یہ اس کے خلق و ایجاد اور اس کے حکم و تصرف کا ایک بدیہی تقاضا ہے، اسی لئے دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر، یعنی کیا وہی نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا ہے جبکہ وہ بڑا ہی باریک بیں، اور نہایت ہی باخبر ہے؟ یعنی ہاں وہ ضروری جانے گا، پس ایسے نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی چیز اس کے علم سے باہر ہو، بلکہ کائنات کی ہر چیز اس کے علم و قدرت کے دائرے کے اندر ہی ہے، تمہاری کوئی بھی سرگوشی اس سے مخفی نہیں ہو سکتی۔ تمہاری ہر حالت اور ہر کیفیت اس کے علم میں ہے اس لئے تمہیں اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا۔ وہ ہر حال میں تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہوؤ، اور جس حال میں بھی ہوؤ، یعنی اپنے علم محیط اور اپنی قدرت کاملہ کے اعتبار سے، سبحانہ و تعالیٰ، پس تم لوگ اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا کرو، اور اس کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح رکھنے کی فکر و کوشش کیا کرو۔ و باللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید،

 یعنی قیامت کے روز وہ ان کو ان کے ان تمام کاموں سے آگاہ و خبردار کر دے گا جو یہ زندگی بھر کرتے رہے تھے، اور خبردار کر دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان کو محض بتا دے گا جس طرح کی کوئی کسی کو کوئی رپورٹ پیش کر دیتا ہے اور بس، سو ایسے نہیں، اور اس کا مطلب یہ نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس سب کا صلہ و بدلہ پانا، اور اس کا بھگتان بھگتنا ہو گا، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور علی وجہ التمام و الکمال پورے ہوں، پس لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ان کو اپنا کیا کرایا بھول جاتا ہے اسی طرح اللہ بھی بھول جائے گا وہ بڑا غلط سمجھتے ہیں، اور وہ سخت دھوکے کا شکار ہیں، والعیاذ باللہ، سو ایسا نہ ہے، اور نہ ہو سکتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے کئے کرائے کو اگرچہ بھول جائیں مگر اللہ کبھی نہیں بھولتا، بلکہ اس نے اس کو شمار کر کے محفوظ رکھا ہے، جیسا کہ اوپر والی آیت کریمہ میں اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی اَحْصٰہُ اللّٰہُ وَنَسُوْہُ یعنی انہوں نے تو اپنے کئے کرائے کا بھلا دیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سب کو گن گن کر محفوظ کر رکھا ہے کہ اللہ ہر چیز پر مطلع ہے، اور وہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس ہر کسی نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ بہر حال پانا ہے، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق پانا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل و انصاف اور اس کی حکمت و رحمت کا تقاضاء ہے ورنہ حکمتوں بھری اس کائنات کا وجود عبث وبیکار قرار پائے گا، جو کہ حضرت خالق حکیم جل جلالہ کی حکمت کے خلاف ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۲۱۔۔۔   سو اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اس نے ازل سے لکھ رکھی ہے یعنی یہ کہ جو کشمکش اللہ اور اس کے رسولوں اور شیطان کی پارٹی درمیان ہو گی اس میں غلبہ اللہ اور اس کے رسولوں ہی کو حاصل ہو گا، اور شیطان کی پارٹی ذلیل و خوار ہو گی۔ اور اللہ کے رسولوں کی جو سرگزشتیں قرآن حکیم میں بیان فرمائی گئی ہیں ان سب میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو واضح فرمایا گیا ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی رسول کسی قوم کے اندر آئے وہ اس کے اندر اس کی عدالت بن کر آئے، پس اگر کسی قوم نے بحیثیت مجموعی ان کو جھٹلایا تو اللہ کے رسول اور ان پر ایمان لانے والوں کو وہاں سے نکال کر کے باقی سب لوگوں کو کسی عذاب کے ذریعے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا گیا جیسا کہ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، اور قوم لوط وغیرہ کے سلسلہ میں ہوا، جن کی تفصیل قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر ذکر فرمائی گئی ہے، اور اگر کسی قوم کے اندر ایمان لانے والوں کی تعداد معتدبہ رہی تو اتمام حجت کے بعد اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ وہ ان منکرین و مکذبین کے خلاف جہاد کریں تاکہ اس طرح وہ اعدائے حق سے مقابلہ کر کے ان کا زور توڑ دیں، تاکہ اس کے نتیجے میں اللہ کی زمین ایسے اشرار سے پاک ہو جائے۔ قرآن حکیم میں جن رسولوں کی تاریخ پیش فرمائی گئی ہے ان میں سے اکثر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی پہلی صورت ہی پیش آئی۔ یعنی یہ کہ اللہ کے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو ان منکرین و مکذبین سے نکال لینے کے بعد باقی سب کو کسی عذاب کے ذریعے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا گیا، البتہ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس سنت الٰہی اور دستور خداوندی کی دوسری صورت پیش آئی کہ ہجرت کے بعد آپ کو جہاد کا حکم و ارشاد فرمایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم و ارشاد کے مطابق دشمنوں کے خلاف تلوار اٹھائی، جس سے دشمنان اسلام نے شکست کھائی، یہاں تک کہ ان کا قلع قمع ہو گیا، اور اسلام کا غلبہ ہو گیا، والحمد للہ جل و علا۔

۲۲۔۔۔   حِزْبُ اللّٰہ یعنی اللہ کی جماعت جس کی خصوصیات اور امتیازی صفات کا ذکر اوپر فرمایا گیا ان کے لئے اس آیت کریمہ میں کئی اہم انعامات کا اعلان فرمایا گیا ہے۔ جن میں سب سے بڑا انعام رضاء خداوندی کا انعام ہے، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا، یعنی ان کے صدق و اخلاص اور ان کے تقاء قلب اور صفاء باطن کی بناء پر اور یہ اللہ سے راضی ہو گئے، کیونکہ رب رحمان کے جن وعدوں پر، یہ لوگ جئے اور مرے تھے، وہ وہاں پر پورے ہو گئے ہونگے اور اس طور پر کہ جو کچھ ان کو اس کی طرف سے ملے گا، وہ ان کی امیدوں اور ان کے قیاس و گمان سے کہیں بڑھ کر ہو گا، کہ یہ صلہ و بدلہ اس اکرم الاکرمین کی طرف سے ہو گا، جس کی عطاء و بخشش کی نہ کوئی حد ہے نہ انتہا، سبحانہ و تعالی، اور آخر میں ان کے بارے میں حرف تنبیہ اور اسلوب حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے، اللہ ہم سب کو انہی میں سے کرے۔ آمین ثم آمین، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صدق ایمان اور اخلاص عمل دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ووسیلہ ہے، اور ایسے ہی لوگ حزب اللہ قرار پاتے اور فائز المرام ہوتے ہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اور کہیں کے بھی ہوں، وبااللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید، وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ المجادلۃ والحمد للہ،