تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المدَّثِّر

(سورۃ المدثر ۔ سورہ نمبر ۷۴ ۔ تعداد آیات ۵۶)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اے کپڑے میں لپٹنے والے

۲۔۔۔     اٹھو اور خبردار کرو

۳۔۔۔     اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو

۴۔۔۔     اپنے کپڑوں کو پاک رکھو

۵۔۔۔     گندگی سے دور رہو

۶۔۔۔     اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لئے

۷۔۔۔     اور اپنے رب (کی رضا) کے لئے صبر سے کام لیتے رہو

۸۔۔۔     پھر (ان کو خبردار کر دو اس ہولناک انجام سے کہ) جب پھونک مار دی جائے گی اس کھوکھری چیز (صور) میں

۹۔۔۔     تو یہ دن بڑا ہی سخت دن ہو گا

۱۰۔۔۔     کافروں پر وہ (کسی بھی طرح) آسان نہیں ہو گا

۱۱۔۔۔     چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جس کو میں نے پیدا کیا اکیلا

۱۲۔۔۔     اور اس کو میں نے بہت سارا مال بھی دیا

۱۳۔۔۔     اور حاضر رہنے والے بیٹے بھی

۱۴۔۔۔     اور بھی اس کے لئے ہر طرح کا سامان مہیا کر دیا

۱۵۔۔۔     پھر بھی وہ اس بات کی طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں

۱۶۔۔۔     ہرگز نہیں کہ وہ میری آیتوں سے عناد رکھتا ہے

۱۷۔۔۔     میں تو اسے (دوزخ کے ایک پہاڑ یعنی) صعود پر چڑھاؤں گا

۱۸۔۔۔     اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی

۱۹۔۔۔     پس خدا کی مار ہو اس پر اس نے کیسی بات بنانے کی کوشش کی

۲۰۔۔۔     ہاں پھر اس پر خدا کی مار ہو اس نے کیسی بات بنانے کی کوشش کی

۲۱۔۔۔     پھر اس نے (لوگوں کی طرف) دیکھا

۲۲۔۔۔     پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا

۲۳۔۔۔     پھر اس نے پیٹھ پھیری اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا

۲۴۔۔۔     پھر اس نے (اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے ) کہا کہ نہیں ہے یہ (قرآن) مگر ایک جادو جو نقل ہوتا چلا آ رہا ہے

۲۵۔۔۔     یہ نہیں ہے مگر انسان کا (بنایا ہوا) کلام

۲۶۔۔۔     میں عنقریب ہی جھونک دوں گا اس کو دوزخ (کی اس دہکتی بھڑکتی آگ) میں

۲۷۔۔۔     اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ (کی دہکتی آگ)؟

۲۸۔۔۔     وہ نہ کسی پر ترس کھائے گی اور نہ کسی کو چھوڑے گی

۲۹۔۔۔     وہ انسان کو جھلس جھلس کر رکھ دے گی

۳۰۔۔۔     اور اس پر انیس (کارندے ) مقرر ہوں گے

۳۱۔۔۔     اور ہم نے دوزخ کے یہ کارندے نہیں بنائے مگر فرشتے اور ان کی اس تعداد کو بھی ہم نے نہیں بنایا مگر ایک آزمائش کفر والوں کے لئے تاکہ یقین کر لیں وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے اور ان لوگوں کا ایمان اور بڑھ جائے جو ایمان لا چکے ہیں اور شک میں نہ پڑیں وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے اور ایمان والے اور تاکہ کہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور (دوسرے ) کھلے کافر کہ بھلا اللہ کو کیا لگے ایسی مثالوں کے بیان سے ؟ اسی طرح اللہ گمراہی میں ڈال دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت سے سرفراز فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور نہیں جان سکتا کوئی تمہارے رب کے لشکروں کو مگر خود وہی اور نہیں ہے یہ (سفر اور اس کے احوال کا ذکر) مگر ایک عظیم الشان نصیحت سب لوگوں کے لئے

۳۲۔۔۔     ہرگز نہیں قسم ہے چاند کی

۳۳۔۔۔     اور رات کی جب کہ وہ ڈھل جائے

۳۴۔۔۔     اور صبح کی جب کہ وہ روشن ہو جائے

۳۵۔۔۔     بلاشبہ وہ (دوزخ) بڑی بھاری چیزوں میں سے ایک ہے

۳۶۔۔۔     ایک بڑا بھاری ڈراوا (نوع) بشر کے لئے

۳۷۔۔۔     تم میں سے ہر ایک شخص کے لئے جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے

۳۸۔۔۔     ہر شخص اپنے کئے کے بدلہ میں رہن ہو گا

۳۹۔۔۔     مگر دائیں بازو والے

۴۰۔۔۔     کہ وہ عالیشان جنتوں میں ہوں گے پوچھتے ہوں گے

۴۱۔۔۔     مجرم لوگوں سے

۴۲۔۔۔     کہ کس چیز نے داخل کر دیا تم کو دوزخ (کی اس دہکتی آگ) میں ؟

۴۳۔۔۔     وہ کہیں گے کہ ہم نہیں تھے نماز پڑھنے والوں میں

۴۴۔۔۔     اور نہ ہی ہم کھانا کھلایا کرتے تھے مسکین کو

۴۵۔۔۔     اور ہم باتیں بنانے میں لگے رہا کرتے تھے (حق کے خلاف) باتیں بنانے والوں کے ساتھ

۴۶۔۔۔     اور ہم جھٹلایا کرتے تھے بدلے کے دن کو

۴۷۔۔۔     یہاں تک کہ آ پہنچی ہم کو وہ یقینی حقیقت (یعنی موت)

۴۸۔۔۔     تب انکے کچھ بھی کام نہ آ سکے گی سفارش کرنے والوں کی کوئی سفارش

۴۹۔۔۔     تو کیا ہو گیا ان لوگوں کو جو اس (عظیم الشان) نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں

۵۰۔۔۔     گویا کہ یہ بدکنے والے (جنگلی) گدھے ہیں

۵۱۔۔۔     جو بھاگ کھڑے ہوئے ہیں شیر سے

۵۲۔۔۔     بلکہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو براہ راست دیئے جائیں کھلے ہوئے نوشتے

۵۳۔۔۔     ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ڈرتے نہیں آخرت (کی پکڑ اور اس کے عذاب) سے

۵۴۔۔۔     ہرگز نہیں یہ (قرآن) تو قطعی طور پر ایک عظیم الشان نصیحت (اور یاد دہانی) ہے

۵۵۔۔۔     سو جس کا جی چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے

۵۶۔۔۔     اور یہ لوگ نصیحت نہیں حاصل کر سکتے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے وہی ہے اس لائق کہ اس سے ڈرا جائے اور اسی کی شان ہے بخشش فرمانا

تفسیر

 

۱۔۔۔   مُدَّثِر مشتق و ماخوذ ہے دثار سے اور دِثَار اس چادر کو کہا جاتا ہے جو سونے والا اپنے اوپر لیتا ہے، سو مزمل اور مدثر دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ اور چادر لپیٹے رکھنا جیسا کہ ہم اوپر سورہ المزمل کے شروع میں بھی عرض کر چکے ہیں انسان کی فکر مندی اور غمگساری کی کی علامت ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی بعثت شریفہ کے شروع میں جو خاص مشاہدات پیش آئے اور جو تجربات ہوئے اول تو وہ خود ہی بڑے گراں بار تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا اظہار اپنے خاندان والوں کے سامنے کیا اور انہوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا تو آپ کی اس فکر مندی میں اور اضافہ ہو گیا تو ایسی حالت میں آپ زیادہ تر اپنی چادر لپیٹے عام لوگوں سے الگ تھلگ رہتے جس طرح کہ ایک فکر مند انسان رہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی فکر و پریشانی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نہایت عنایت اور شفقت و پیار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مزمل اور مدثر کے انہی دو لفظوں سے خطاب فرمایا تاکہ اس خطاب ہی سے آپ کو تسلی مل جائے کہ رب کریم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حال سے اچھی اور پوری طرح واقف و آگاہ ہے پھر سورہ مزمل میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وصف و عنوان کے ساتھ خطاب فرمانے کے بعد اس کے علاج کے طور پر قیام لیل کی تعلیم و تلقین فرمائی جس میں اس فکر و پریشانی کا علاج بھی تھا۔ اور اس مہم کی ادائیگی کے لئے استعداد و تیاری کا درس بھی جو فریضہ رسالت کی ادائیگی کے سلسلے میں آپ پر ڈالی جانے والی تھی۔ اور جس کا ذکر آگے آ رہا ہے، اور جس کی اولین ہدایت قُمْ فَاَنْذِرْ کے ارشاد سے فرمائی گئی کہ اٹھو اور خبردار کرو، یعنی غفلت میں پڑی دنیا کو ان کی غفلت و لاپرواہی کے عواقب و نتائج سے خبردار کرو۔ اور اشرار کی مخالفت و مزاحمت اور حالات کی نامساعدگی اور ماحول کی اجنبیت کی پرواہ مت کرو جب تم ہمت کر کے اٹھ کھڑے ہوؤ گے تو اللہ تمہارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ اور تمہاری تائید کے لئے غیب سے اسباب پیدا ہونگے، و الحمد للہ

۲۷۔۔۔   استفہام یہاں پر تہویل و تفخیم کے لئے ہے سو مطلب یہ ہے کہ اس کی عظمت و ہولناکی بیان سے باہر ہے تم کیا جانو کہ کیا ہے دوزخ کی وہ دہکتی بھڑکتی آگ، جس سے منکرین و مکذبین کو واسطہ پڑنے والا ہے اور جس کی طرف یہ غافل اور بدبخت لوگ پوری غفلت و لا پرواہی کے ساتھ بڑھے چلے جا رہے ہیں اور ان کو اس کا کوئی شعور و احساس نہیں کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس سے پیغمبر کے فریضہ دعوت و ارشاد کے اولیں اور اہم رکن کو واضح فرما دیا گیا کہ وہ ہے انذار، اور اس کی اہمیت اس اعتبار سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس کے بغیر غفلت میں پڑا ہوا انسان حق بات کو سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا، اور جب وہ دعوت حق کو سننے، اور اس کے لئے کان کھولنے کو تیار ہی نہ ہو تو پھر اس میں دعوت حق کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے؟ اس لئے سب سے پہلے پیغمبر کو اسی کی ہدایت فرمائی گئی کہ لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کرو، اور پھر اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہوتا ہے دعوت حق کو ماننے والوں کے لئے بشارت و خوشخبری کا مرحلہ، کہ ان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی بشارت و خوشخبری ہے اسی لئے بشیر و نذیر پیغمبر کی دو اہم اور بنیا دی صفتیں ہوتی ہیں، علی نبینا وعلیٰ سائرہم الصلوٰۃ والسلام

۲۸۔۔۔   اَبْقیٰ عَلَیْہِ کے معنی ہوتے ہیں کہ اس نے اس پر ترس کھایا اور رحم کیا، یہاں پر اس کا صلہ اگرچہ مذکور نہیں کہ اس کے اظہار کا موقع نہیں تھا۔ لیکن قرینہ مقام دلیل ہے کہ یہاں پر اس کا استعمال اسی معنی میں ہوا ہے سو مطلب یہ ہے کہ وہ دوزخ بڑی ہی ظالم چیز ہو گی۔ ایسی ظالم کہ نہ تو وہ کسی پر کسی طرح کا کوئی رحم اور ترس کھائے گی کہ اس کے عذاب میں کسی طرح کی کوئی تخفیف ہو جائے، اور نہ ہی وہ کسی کو نظر انداز کرے گی کہ وہ کسی طرح اس سے بچ نکلے۔ پس نہ تو اس سے کسی طرح کے رحم اور ترس کی کوئی امید کی جا سکے گی اور نہ ہی اس کے نظر انداز کئے جانے کی کوئی صورت ممکن ہو گی۔ پس وہ انتہائی بے رحم بھی ہو گی۔ اور انتہائی چوکس بھی العیاذ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال،

۲۹۔۔۔   سو اس سے دوزخ کی ہولناکی کو مزید واضح فرما دیا گیا۔ بَشَر جسم کی چمڑی اور ظاہری کھال کو کہا جاتا ہے اور لَوَّاہَۃ سے یہاں پر مراد دوزخ کی وہ شعلے دار آگ ہے جس کے شعلے دور دور تک پہنچتے ہونگے، سو دوزخ کی اس ہولناک آگ کا حال یہ ہو گا کہ وہ دور ہی سے مجرموں کی کھال کو جھلس کر رکھ دے گی جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ نَزَاعَۃَ لِلْشَویٰ (المعارج۔۱۶) سو اس سے آتش دوزخ کی شدت و تمازت کے ان اثرات و احوال کو بیان فرمایا گیا ہے جو مجرموں پر ان کے اصل مقام عذاب پر پہنچنے سے پہلے ہی پڑنا شروع ہو جائیں گے۔ اور اس سے اصل مقصود یہ دکھانا ہے کہ جس آگ اور عذاب کا آغاز اور اس کی ابتداء کا حال یہ ہو گا اس کی اصل حقیقت اور اس کے انجام کا اندازہ کرنا کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم، مگر دنیا ہے کہ اس انتہائی ہولناک انجام سے نچنت و بے فکر ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہے کہ ابنائے کفر و باطل، اور ان کے ہمنوا نام نہاد اور دین فروش مسلمان ان علماء حقانیین کے وجود تک کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں جو ان کو ان کے اس ہولناک انجام سے خبردار کرتے ہیں، تاکہ یہ اس سے بچنے کا سامان کر سکیں، فالی اللہ المشتکیٰ وہو المستعان وعلیہ التکلان فی کل حینِ وَاٰن،

۳۱۔۔۔   سو اس ارشاد سے ان ابناء دنیا اور بندگان مادہ و معدہ کے بت پندار پر چوٹ لگائی گئی ہے جو ہمہ دانی کے غرور میں مبتلا ہو کر طرح طرح کی ایسی حماقتوں کا ارتکاب کرتے ہیں، جو ان کی دانش فروشی کا مظہر، اور ان کی محرومی اور بدبختی کی عکاس و آئینہ دار ہوتی ہیں سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے رب کے لشکروں کو کوئی نہیں جان سکتا سوائے اسی وحدہٗ لاشریک کے وہی جانتا ہے کہ اس کے لشکر کتنے کیسے اور کون کونسے ہیں کونسی یونٹ کن صلاحیتوں کی مالک، اور کن کن اسلحہ سے لیس ہے؟ کس کی ڈیوٹی کس محاذ پر ہے اور کون کونسے آفیسر کس کی ڈیوٹی پر مامور و متعین ہیں، یہ اور اس طرح کی دوسری تمام باتیں اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں ان باتوں کو اس وحدہٗ لاشریک کے سوا دوسرا کوئی نہ جانتا ہے، اور نہ جان سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے رموز سلطنت میں سے جن بھیدوں سے انسان کو آگاہ کر دے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس پر اس واہب مطلق جل جلالہ کا شکر ادا کرے۔ اور اس چیز کو اپنے خزانہ علم میں بیش قیمت اضافہ سمجھے نہ یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے کہ خداوند قدوس کی کائنات اتنی ہی ہے جتنی کہ اس کے علم و مشاہدہ میں آئی ہے اور بس۔

۳۶۔۔۔   سو ان آیات کریمات میں آفاق کی بعض خاص نشانیوں کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا کہ جس قیامت اور دوزخ سے لوگوں کو آگاہ اور خبردار کیا جا رہے وہ کائنات کے عظیم حوادث میں سے ایک بڑا ہی اہم اور انتہائی ہولناک حادثہ ہے جس کا ظہور و وقوع قطعی ہے۔ مگر اس کا ایک وقت مقرر ہے جس کا علم حضرت خالق حکیم و قدیر کے سوا اور کسی کو نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اور حضرت خالق حکیم کے یہاں چونکہ ہر کام کے لئے ایک ترتیب و تدریج ہے اس لئے ہر چیز کا وقوع اسی کے مطابق اپنے وقت مقرر پر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اس کا وقوع نہیں ہو سکتا، اس لئے قیامت کا وقوع بھی اس کے وقت مقرر سے پہلے ممکن نہیں۔ اور وقت مقرر کے آ جانے کے بعد اس کو روکنا اور ٹالنا کسی کے بس میں نہیں ہو سکے گا۔ لَیْسَ لَہ، دَافِعٍ، سو یہاں پر آفاق کی ان نشانیوں کے ذکر اور ان کی قسم کھانے سے پہلے کلمہ تردید و تاکید کے ذریعہ منکرین و مکذبین کی تردید فرمائی گئی کہ ہرگز نہیں یعنی ایسا ہرگز نہیں جیسا کہ ان منکر لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ قیامت وغیرہ کوئی نہیں ہو گی سو ایسا نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ قیامت نے لازماً اور بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے۔ کہ یہ چیز حضرت خالق حکیم کی صفات کریمہ اور خاص کر اس کی صفت عدل و حکمت کا تقاضا اور خود اس کائنات کے وجود کا مقتضیٰ ہے اس کے بغیر اس کائنات کی تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کا وقوع اللہ تعالیٰ کی تقویم کے مطابق اپنے اسی وقت مقرر میں ہو گا جو اس نے اس کے لئے مقرر فرما رکھا ہے۔ سو اس وقت اس کا وقوع منٹ اور سیکنڈ کی تاخیر کے بغیر ہو گا۔ پس جس طرح چاند درجہ بدرجہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے فوراً ماہ کامل نہیں بن جاتا۔ خواہ دنیا اس کے لئے کتنا ہی زور صرف کرے رات کے آنے کے بعد صبح فوراً نمودار نہیں ہو سکتی۔ اور صبح کے ظہور کے فوری بعد رات نہیں آ سکتی۔ خواہ دنیا پوری مل کر بھی اس کے لئے زور لگائے۔ اسی طرح قیامت کے ظہور و وقوع کے لئے بھی قدرت کے یہاں ایک خاص وقت مقرر ہے وہ اس سے پہلے ظہور پذیر نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا محض اس کی اس تاخیر کی بناء پر اس کا انکار کرنا بڑی حماقت ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۵۶۔۔۔   ہُوَ اَہْلُ التَّقْویٰ کی ضمیر منفصل کے مرجع کے بارے میں دو قول و احتمال ہیں اول یہ کہ اس کا مرجع اللہ ہے، اور یہی ظاہر و متبادر بھی ہے اور عام مفسرین کرام کا اختیار بھی اور ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے جیسا کہ ظاہر ہے جبکہ اس سے متعلق دوسرا قول و احتمال یہ بھی ہے کہ اس کا مرجع کلمہ مَنْ ہو جو کہ فَمَنْ شَاءَ ذکَرَہ، میں مذکور ہے۔ جو واحد اور جمع دونوں کے لئے آتا ہے اور اس کے لئے ضمیریں بھی دونوں قسم کی استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ احتمال اگرچہ تبادر ظاہری کے اعتبار بعید ہے، لیکن معنی و مفہوم کے اعتبار سے زیادہ موثر اور وقیع ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جو قرآن حکیم کی اس عظیم الشان اور بے مثال نصیحت کو اپنائے گا وہی فیض پائے گا، وہی تقوی و پرہیزگاری کے لائق، اور مغفرت و بخشش کا اہل اور مستحق ہو گا، سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ قرآن حکیم کی اس تذکیر و یاد دہانی سے فائدہ وہی لوگ اٹھائیں گے جن کے اندر خداوند قدوس کا خوف موجود ہو گا، اور ایسے ہی لوگ اس کی مغفرت و بخشش کے اہل اور مستحق ٹھہریں گے رہے وہ لوگ جن کے سینے خوف خدا سے خالی ہیں، وہ اس کی فیض بخشی سے محروم ہی رہیں گے اور جب وہ اس سے محروم ہونگے تو اس کے نتیجے میں وہ اس کی مغفرت و بخشش سے بھی محروم ہونگے۔ سو یہ وہی مضمون ہے جو سورہ بقرہ کے شروع میں ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ سے ذکر و بیان فرمایا گیا ہے، یعنی یہ کہ قرآن حکیم سراسر ہدایت تو ہے، لیکن اس سے مستفید اور فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں، اور وہی ہو سکتے ہیں جو کہ متقی اور پرہیزگار ہوں، یا وہ متقی اور پرہیزگار بننا چاہتے ہوں، رہ گئے معاند اور ہٹ دھرم لوگ تو ان کے لئے محرومی کے سوا کچھ نہیں اور یہ ایک طبعی اور فطری امر ہے، کہ حکیم و طبیب کی حکمت و طب سے فائدہ انہی مریضوں کو پہنچتا ہے اور پہنچ سکتا ہے، جو کہ اس کی طرف رجوع کرتے، اور اس کی ہدایت کے مطابق دوائی استعمال کرتے ہیں، ورنہ ان کے لئے بہر حال کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جو ڈاکٹر کو ڈاکٹر ماننے، اور اس کی ہدایات کے مطابق دواء استعمال کرنے کے لئے تیار ہی نہ ہوں، والعیاذباللہ، بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ قرآن حکیم ایک عظیم الشان نصیحت اور یاد دہانی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت بے نہایت، اور فضل بے غایت سے دنیا کو نوازا ہے اور یہ ایسی عظیم الشان اور بے مثال نصیحت و یاد دہانی ہے جس جیسی دوسری کوئی نصیحت نہ کبھی ہوئی ہے، اور نہ قیامت تک کبھی ممکن ہے، پس اب جس کا جی چاہے اس سے فائدہ اٹھائے، اور سیدھا راستہ اختیار کرے، اور جو اس سے فائدہ اٹھائیں گے وہ اپنا ہی بھلا کریں گے اور جو اس سے منہ موڑیں گے وہ یقیناً اپنا ہی نقصان کریں گے، اللہ کا یا اس کے رسول کا یا اس نصیحت کا کچھ نہیں بگاڑیں گے، پیغمبر کام پیغام حق کو پہنچا دینا ہوتا ہے اور بس آگے اس کو منوا لینا، اور لوگوں کے دلوں کے اندر اس کو اتار دینا نہ ان کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی یہ ان کے بس میں ہے، پس اس سے وہ حقیقت پھر تازہ اور واضح ہو جاتی ہے جو ہم جگہ جگہ ذکر کرتے آئے ہیں کہ انسان کی صلاح و فلاح اور اس کے بناء و بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے و باللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی مایحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وہو العزیز الوہاب اور اسی پر سورہ مدثر کی اس تفسیر مختصر کا اختتام کرتے ہیں و الحمد للہ جل و علا