اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ نہیں میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی
۲۔۔۔ درآنحالیکہ آپ اس میں تشریف فرما ہیں
۳۔۔۔ اور میں قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس کی سب اولاد کی
۴۔۔۔ بلاشبہ ہم نے پیدا کیا انسان کو بڑی مشقت میں (گھرا ہوا)
۵۔۔۔ کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر بس نہیں چلے گا کسی کا؟
۶۔۔۔ کہتا ہے میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا
۷۔۔۔ کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کسی نے دیکھا نہیں اس کو (اور اس کے کرتوتوں کو؟)
۸۔۔۔ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں نہیں دیں ؟
۹۔۔۔ اور کیا ہم نے اس کو ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں عطا کئے ؟
۱۰۔۔۔ اور کیا ہم نے اس کو بتا نہیں دئیے (پوری صراحت و وضاحت سے خیر و شر) کے دونوں راستے ؟
۱۱۔۔۔ مگر اس نے ہمت نہ کی (حق و صداقت کی) اس دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی
۱۲۔۔۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟
۱۳۔۔۔ وہ چھڑا دینا ہے کسی گردن کو (غلامی کے بندھن سے )
۱۴۔۔۔ یا کھانا کھلا دینا ہے بھوک کے دن میں
۱۶۔۔۔ یا کسی خاک نشین محتاج کو
۱۷۔۔۔ پھر وہ ہو بھی ان لوگوں میں سے جو ایمان رکھتے ہیں (تمام غیبی حقائق پر) اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو (فہمائش و) تلقین کرتے ہیں صبر (و استقامت) کی اور وہ (فہمائش و) تلقین کرتے ہیں رحم (و کرم) کی
۱۸۔۔۔ یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے
۱۹۔۔۔ اور (اس کے برعکس) جو لوگ کفر (و انکار) کرتے ہیں ہماری آیتوں کا یہی ہیں بائیں ہاتھ والے (بدبخت)
۲۰۔۔۔ ان پر مسلط ہو گی ایک ایسی ہولناک آگ جس کو ان پر موندھ دیا گیا ہو گا (اوپر سے )
۷۔۔۔ اس سے مادہ و معدہ کے پجاری ان ابناء دنیا کے دلوں پر دستک دی گئی ہے، جو دنیا ہی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں اور اپنے دنیاوی مال و دولت اور جاہ و منصب وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش کو سمجھنے کے بجائے الٹا ایسے لوگ اس کو اپنا موروثی حق اور اپنی قابلیت و لیاقت کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے لوگ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے تو کچھ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، لیکن اپنی نمود و نمائش کے لئے خوب خرچ کرتے ہیں اور اپنی شاہ خرچیوں کے بڑے اشتہار دیتے ہیں، اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے ڈھیروں مال اڑا دیا، جیسا کہ ہمارے ملک میں بھی بعض اوقات اخبارات وغیرہ کے ذریعے اس طرح کی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے کسی بیٹے وغیرہ کی شا دی پر ہیلی کوپٹر کے ذریعے دعوت نامے تقسیم کئے، یا شا دی پر اتنا اتنا اور اس قدر خرچہ کیا، وغیرہ وغیرہ اور سو ایسوں کے لئے تنبیہ و تحذیر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کوئی ان کو دیکھتا نہیں؟ یعنی کیا وہ خالق و مالک ان کو اور ان کے طور طریقوں کو نہیں دیکھتا کہ یہ لوگ اپنا مال کن کن طریقوں سے حاصل کرتے، اور کہاں کہاں خرچ کرتے ہیں اور کن کن نیتوں اور ارادوں سے خرچ کرتے ہیں؟ تو کیا وہ سمیع وبصیر جو کہ اپنے علم اور اپنی قدرت کے اعتبار سے ہمیشہ اور ہر حال میں ان کے ساتھ ہے کیا وہ ان سے کبھی حساب کتاب نہیں لے گا؟ سبحانہ و تعالیٰ۔
۱۰۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ انسان کو مشاہدہ و شعور اور نطق و بیان کی صلاحیتوں سے نوازنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ عظیم الشان کرم و احسان بھی فرمایا ہے، کہ اس کو خیر و شر اور ہدایت و ضلالت کے دونوں راستوں سے بھی آگاہ فرما دیا تاکہ یہ حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان فرق و تمیز کے بعد راہ حق و ہدایت کو اپنائے سو نجدین سے مراد خیر و شر اور ہدایت و غوایت ہی کے یہ دو راستے ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا (الدھر۔۳) یعنی ہم نے اس کو راہ بھی دکھا دی۔ خواہ یہ شکر گزار بنے، یا ناشکرا۔ اور دوسرے مقام پر اس بارے اس طرح ارشاد فرمایا گیا وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا فَالْہَمُہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوَاہَا (الشمس۔۷۔٨) یعنی قسم ہے نفس کی اور اس کی جس نے اس کو برابر کیا۔ پھر اس نے اس کو الہام کر دیا اس کی بدی اور نیکی کا۔ و الحمد للہ جل و علا