اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ اور رات کی جب کہ وہ چھا جائے
۳۔۔۔ نہ تو چھوڑا ہے آپ کو آپ کے رب نے (اے پیغمبر !) اور نہ ہی وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ناراض ہوا ہے
۴۔۔۔ اور یقیناً پچھلی حالت آپ کے لئے بہتر ہے پہلی حالت سے
۵۔۔۔ اور یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو (وہ کچھ) دے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خوش ہو جائیں گے
۶۔۔۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس نے پایا آپ کو یتیم پھر ٹھکانا دیا؟
۷۔۔۔ اور پایا آپ کو ناواقف راہ پھر ہدایت بخشی
۸۔۔۔ اور آپ کو تنگ دست پایا پھر مالدار کر دیا
۹۔۔۔ پس آپ یتیم پر سختی نہ کرنا
۴۔۔۔ اس میں پیغمبر کے لئے تسلی وتسکین کا سامان بھی ہے، اور عظیم الشان بشارت بھی، سو اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی کہ جن مشکل حالات سے آج آپ کو سابقہ اور واسطہ پیش آ رہا ہے وہ بدل جائیں گے اور آپ کا مستقبل ماضی اور حاضر سے بہر حال کہیں بہتر ہو گا، جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر بھی آپ کو اس کی بشارت سنائی گئی ہے۔ اور قدیم صحیفوں کے اندر بھی آپ کو اسی طرح کی بشارت سنائی گئی ہے چنانچہ قدیم صحیفوں میں آپ صلی اللہ علیہ کی دعوت کو رائی کے دانے سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہوتا تو بہت چھوٹا سا ہے لیکن ہوتا ایسا بابرکت اور عظیم الشان ہے کہ جب اگتا ہے تو اس کا پودا سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پرندے بھی اس میں بسیرا کر لیتے ہیں، علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
۱۱۔۔۔ اس میں آنحضرت کو تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ علم و حکمت کی جس دولت بے مثال و لازوال سے آپ کو آپ کے رب نے نوازا ہے اس کے شکر کے طور پر اس کی تحدیث کرو۔ اور جس طرح آپ کے رب نے آپ کو یہ سب خزانے مفت بخشے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ آگے ان کو مفت اور فیاضانہ بانٹیں۔ اور آپ نے ایسے ہی کیا، اور بدرجہ تمام و کمال علیہ الصلوٰۃ والسلام، سو اس میں آپ صلی اللہ علیہ کے توسط سے آپ کی امت کے لئے بھی شکر نعمت کی یہی تعلیم و تلقین ہے۔ و باللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید