تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ البَیّنَة

(سورۃ البینۃ ۔ سورہ نمبر ۹۸ ۔ تعداد آیات ۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     باز آنے والے نہیں تھے اہل کتاب کے کافر لوگ اور (دوسرے کھلے ) مشرک (اپنے کفر و باطل سے ) یہاں تک کہ آ جائے ان کے پاس (حق و باطل کو آخری حد تک واضح کر دینے والی) وہ کھلی دلیل

۲۔۔۔     یعنی اللہ کی طرف سے ایک ایسا عظیم الشان رسول جو کہ پڑھ کر سنائے (ان کو) ایسے عظیم الشان صحیفے جن کو پاک (و صاف) کر دیا گیا ہو (ہر طرح کے غل و غش سے)

۳۔۔۔     جن میں (ثبت و مندرج) ہوں عظیم الشان سیدھے اور درست مضامین

۴۔۔۔     اور تفرقے (اور اختلاف) کا ارتکاب نہیں کیا ان لوگوں نے جن کو کتاب دی گئی تھی مگر اس کے بعد کہ آ چکی تھی ان کے پاس (حق و ہدایت کو واضح کر دینے والی) وہ کھلی (سند اور) دلیل

۵۔۔۔     حالانکہ ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا مگر اس بات کا کہ وہ عبادت (و بندگی) کریں صرف اللہ کی خالص کر کے اس کے لئے اپنے دین کو (ہر شائبہ شرک و ریا سے ) یکسو ہو کر اور وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی ہے نہایت درست دین

۶۔۔۔     بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور (دوسرے کھلے ) مشرک وہ سب جہنم کی آگ میں ہوں گے جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہو گا یہی لوگ ہیں بدترین مخلوق

۷۔۔۔     (اس کے برعکس) جو لوگ (صدق دل سے ) ایمان لے آئے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے تو بلاشبہ یہی لوگ ہیں بہترین مخلوق

۸۔۔۔     ان کا صلہ ان کے رب کے یہاں ہمیشہ رہنے کی ایسی عظیم الشان جنتیں ہیں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان نہریں جہاں ان (خوش نصیبوں ) کو ہمیشہ ہمیش رہنا نصیب ہو گا اللہ راضی ہو گیا ان سے (اپنے کرم بے پایاں کی بناء پر) اور یہ راضی ہو گئے اس سے

تفسیر

 

۴۔۔۔     یعنی وہ واضح دلیل جس کے بعد کسی خفاء و غموض کا کوئی موقع نہیں رہتا۔ بلکہ حق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود ان لوگوں کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ یہ حق کو ماننے اور اس کے آگے جھکنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ سو عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں پس یہ چیز محرومیوں کی محرومی، اور زیغ و ضلال اور فساد و انحراف کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۵۔۔۔    یہاں القَیِّمَۃ کی صفت کا موصوف محذوف ہے اور جہاں حذف کا قرینہ موجود ہوں وہاں پر اس طرح کا حذف معروف اور بلاغت کلام کا تقاضا ہوتا ہے سو اصل عبارت یوں ہو گی وَذٰلِکَ دِیْنُ الْمِلَّۃِ الْقَیِّمَۃِ۔ اور ملت قیمہ یعنی درست دین سے یہاں پر مراد ملت ابراہیمی ہے جو کہ واضح اور عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے جیسا کہ اس بارے سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۴: میں اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے۔ کہو کہ بیشک میرے رب نے میری راہنمائی فرما دی سیدھی راہ کی طرف یعنی اس درست اور فطری دین کو اپنانے کی جو کہ ابراہیم کی ملت ہے یکسو ہو کر (الانعام۔۱۶۱) سو یہاں پر زیر بحث اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ اگر سیدھے سادے صحیح دین کے طالب اور ملت ابراہیمی کے حامل ہونے کے دعویدار ہیں تو وہ ملت ابراہیمی اب اس دین حنیف کی صورت میں ان لوگوں کے سامنے آ گئی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا کامل اور آخری دین ہے تو پھر یہ لوگ اس سے اعراض و روگردانی کیوں برتتے ہیں؟

۷۔۔۔    اس ارشاد سے ایک تو یہ بات واضح فرما دی گئی کہ حق کا انکار اور اس کی تکذیب کرنے والے سب ایک برابر ہیں خواہ ان کا تعلق اہل کتاب سے ہو یا دوسرے کھلے مشرکوں سے سو اس سے ان لوگوں کی غلط فہمی دور ہو جاتی ہے جو اہل کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ چونکہ فی الجملہ آسمانی کتاب کے حامل اور اس کے ماننے والے ہیں اس لئے یہ خاص رعایت کے مستحق ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہی بات خود ان لوگوں کے خلاف جاتی ہے کیونکہ انہوں نے اگر اہل کتاب ہونے کے باوجود اسی اندھے پن کو اپنایا جس کا مظاہرہ مشرکین نے کیا تو ایسے میں ان کا جرم اور بھی بڑھ جاتا ہے تو پھر یہ کسی خاص رعایت کے مستحق کس طرح قرار پا سکتے ہیں؟ اور دوسری اہم بات اس میں یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ ایسے منکر حق اہل کتاب اور کھلے مشرکوں نے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ میں داخل ہونا۔ اور اس میں ہمیشہ رہنا ہے اور تیسری بات اس میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ ایسے لوگ شَرُّ الْبَرِیَّۃ یعنی بدترین مخلوق ہیں و العیاذُ باللہ العظیم

۸۔۔۔     سو اس سے کامیاب اور فائز المرام لوگوں کی بھی نشاندہی فرما دی گئی، اور ان کی کامیابی اور فائز المرامی کے سبب اور باعث کی بھی اور ان کو ملنے والے انعام کی بھی، سو کامیاب اور فائز المرام لوگوں کی نشاندہی کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے وہ ہیں خیر البریۃ یعنی سب سے اچھی اور بہترین مخلوق، اور ان کا صلہ و بدلہ یہ ہے کہ ان کو ہمیشہ رہنے کی ایسی عظیم الشان جنتوں سے نوازا جائے گا، جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہوں گی، جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا۔ اللہ ان سے راضی ہو گا اور یہ اللہ سے راضی ہوں گے۔ اور یہ چیز ہر اس شخص کو نصیب ہو گی جو اللہ سے ڈرتا رہا ہو گا، سو اللہ تعالیٰ کے یہاں فوز و فلاح کا دارو مدار اصل میں انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل وکردار پر ہے، و باللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید، بکل حالٍ مِّن الاحوال،