تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الرّعد

(سورۃ الرعد ۔ سورہ نمبر ۱۳ ۔ تعداد آیات ۴۳)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     ا۔ ل۔ م۔رٰ یہ آیتیں ہیں اس عظیم الشان کتاب کی اور (یہ ایک حقیقت ہے کہ) جو کچھ اتارا گیا آپ کی طرف (اے پیغمبر) آپ کے رب کی جانب سے وہ سراسر حق ہے لیکن اکثر لوگ (پھر بھی) ایمان نہیں لاتے ۔

۲۔۔۔     اللہ ہی ہے جس نے اٹھایا ان (وسیع و عریض) آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے جن کو تم لوگ دیکھ سکو، پھر وہ (اپنی اس کائنات پر حکمرانی کے لئے) جلوہ فرما ہوا عرش پر، اور اس نے (اپنی بے پایاں قدرت اور لا محدود رحمت و عنایت سے) کام میں لگا دیا سورج اور چاند (کے ان عظیم الشان کُروں کو، (اپنی مخلوق کے بھلے کے لئے اس طور پر کہ ان میں سے) ہر ایک چل رہا ہے ایک مقرر وقت کے لئے ، وہی تدبیر فرماتا ہے ہر کام کی وہ کھول کر بیان کرتا ہے اپنی آیتوں کو تاکہ تم لوگ اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر سکو۔

۳۔۔۔      اور وہ وہی ہے جس نے بچھا دیا زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو، اور رکھ دیے اس میں (پہاڑوں کے) عظیم الشان لنگر، اور چلا دیے اس میں طرح طرح کے دریا، اور پیدا کر دیے اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے اور وہی ہے جو ڈھانک دیتا ہے رات کو دن پر، بے شک اس سب میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ،

۴۔۔۔      اور (اسی طرح یہ بھی قابل غور و فکر ہے کہ) اس زمین میں قسما قسم کے ٹکڑے ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور باغات انگوروں کے اور قسما قسم کی کھیتیاں ، اور طرح طرح کی کھجوروں کے درخت جن میں سے کچھ کھڑے ہوتے ہیں اور کچھ دوہرے اور جڑواں ، سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے مگر (اس کے باوجود) ہم ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دے دیتے ہیں مزے میں بے شک ان سب چیزوں میں بھی بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں

۵۔۔۔      اور اگر آپ تعجب کریں تو (واقعی) تعجب کے قابل ہے ان لوگوں کا یہ کہنا کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے (بے پایاں قدرت و رحمت والے اس) رب کے ساتھ، ان کی گردنوں میں طوق پڑے ہیں ، اور یہ یار ہیں دوزخ کے ، جہاں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا،

۶۔۔۔     اور یہ لوگ جلدی مچا رہے ہیں آپ سے برائی کے لئے بھلائی سے پہلے ، حالانکہ گزر چکی ہیں ان سے پہلے (کے لوگوں میں طرح طرح کے عذابوں کی) عبرتناک مثالیں ، اور بے شک تمہارا رب بڑا ہی بخشنے والا ہے لوگوں کو ان کے ظلم پر، اور بے شک تمہارا رب یقینی طور پر عذاب دینے میں بھی بڑا سخت ہے ،

۷۔۔۔      اور کہتے ہیں وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں ، اپنے کفر (و باطل) پر، کہ کیوں نہیں اتاری گئی اس شخص پر کوئی نشانی (یعنی ان کی فرمائش کے مطابق)، سوائے اس کے نہیں کہ آپ کا کام تو خبردار کر دینا ہے ، اور بس، اور (آپ کوئی انوکھے نبی نہیں ہیں بلکہ) ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہوتا چلا آیا ہے ،

۸۔۔۔      اللہ خوب جانتا ہے اس حمل کو جو کہ ہر مادہ کو رہتا ہے ، اور وہی پوری طرح باخبر ہے اس کمی بیشی سے جو کہ رحموں کے اندر ہوتی رہتی ہے ، اور ہر چیز اس کے یہاں ایک خاص اندازہ پر ہے ،

۹۔۔۔      وہی ہے (ایک برابر) جاننے والا پوشیدہ اور ظاہر کو، سب سے بڑا نہایت ہی عالی شان،

۱۰۔۔۔      ایک برابر ہے اس کے یہاں تم میں سے ہر وہ شخص جو چپکے سے کوئی بات کرے یا پکار کر کہے اور جو کہیں چھپا ہو رات (کے اندھیروں) میں ، یا چل پھر رہا ہو دن (کے اجالے) میں ،

۱۱۔۔۔      ہر شخص کی حفاظت کے لئے اس کے آگے پیچھے ایسے فرشتے مقرر ہیں ، جن کی بدلی ہوتی رہتی ہے ، جو اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں (ہر موذی چیز سے)، اللہ کے حکم سے ، بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (نعمت و عافیت) حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ (شکر نعمت اور اعمال کی صالحہ کی) اپنی حالت کو نہ بدل دے ، اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی شامت لانے کا فیصلہ کرے تو پھر وہ کسی سے ٹالے ٹل نہیں سکتی، نہ ہی ایسے لوگوں کے لئے اللہ کے مقابلے میں کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے ،

۱۲۔۔۔      وہ وہی ہے جو تمہیں دکھاتا ہے (کڑکتی چمکتی) بجلی، جس سے تمہیں (اس کے گرنے کا) خوف بھی لاحق ہوتا ہے اور (باران رحمت کی) امید بھی بندھتی ہے ، اور وہی اٹھاتا ہے پانی سے بھرے بادلوں کو،

۱۳۔۔۔      اور اسی کی پاکی بیان کرتی ہے ، اس کی تعریف کے ساتھ بادلوں کی گرج بھی، اور سب فرشتے بھی اس کے خوف (اور ہیبت) سے لرزتے ہوئے ، اور وہی بھیجتا ہے کڑکتی ہوئی بجلیاں ، پھر وہ (جب چاہتا ہے) ان کو جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے ، جبکہ وہ لوگ جھگڑ رہے ہوتے ہیں ، اللہ کے بارے میں اور وہ بڑی ہی سخت قوت والا ہے ،

۱۴۔۔۔      اسی کو پکارنا برحق ہے ، اور جن ہستیوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں اس کے سوا وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتیں ، مگر جیسے کوئی اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے کہ وہ خود بخود اس کے منہ میں آ جائے ، حالانکہ (اس طرح) وہ کبھی بھی اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں ، اور کافروں کا پکارنا محض گمراہی میں (اور سراسر اکارت) ہے ،

۱۵۔۔۔      اور اللہ ہی کے لئے سجدہ ریز ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے ، خواہ خوشی سے ہو، خواہ مجبوری سے ، اور ان کے سائے بھی صبح و شام،

۱۶۔۔۔      کہو کون ہے ، رب آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کا؟ (جواب چونکہ متعین ہے اس لئے خود ہی) کہو کہ وہ اللہ ہی ہے ، کہو کیا پھر بھی تم لوگوں نے اس کے سوا ایسوں کو اپنا کار ساز ٹھہرا رکھا ہے ، جو خود اپنے لئے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا، کہو، کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا اور آنکھوں والا؟ یا کہیں اندھیرے اور روشنی بھی باہم یکساں ہو سکتے ہیں ؟ کیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے کچھ ایسے شریک ٹھہرا رکھے ہیں ، جنہوں نے اللہ کی تخلیق کی طرح کچھ پیدا کیا ہو؟ کہو اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا، اور وہی ہے یکتا سب پر غالب

۱۷۔۔۔      اس نے اتارا آسمان سے پانی، پھر بہہ نکلیں اس سے مختلف قسم کی ندیاں اور نا لے اپنے اپنے ظرف کے مطابق، پھر (اس سے اٹھنے والا) وہ سیلاب اپنے اوپر اٹھا لیتا ہے پھولی ہوئی جھاگ، اور ایسی ہی جھاگ ان چیزوں پر بھی اٹھتی ہے ، جن کو لوگ زیور یا دوسرے اسباب بنانے کیلئے آگ پر پگھلاتے ہیں ، اللہ اسی طرح (کھول کر) بیان فرماتا ہے حق اور باطل کو، پھر جو جھاگ ہوتی ہے وہ تو یونہی جاتی رہتی ہے ، اور ہر چیز لوگوں کے لئے مفید ہوتی ہے وہ ٹھہر جاتی ہے زمین میں ، (قدرت کی عنایت و حکمت سے) اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے (قسما قسم کی) مثالیں ،

۱۸۔۔۔      جن لوگوں نے (صدق دل سے) اپنے رب کا حکم مان لیا ان کے لئے بھلائی ہے ، اور جنہوں نے اس کا حکم نہیں مانا، ان کے پاس اگر دنیا بھر کی دولت بھی ہو، اور اس کے ساتھ اتنی ہی دولت اور بھی، تو وہ یقیناً اس سب کو اپنے عذاب کے بدلے میں دینے کو تیار ہو جائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے بڑا برا حساب ہے ، اور ان سب کا ٹھکانا دوزخ ہے ، اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ

۱۹۔۔۔      بھلا جو شخص یقین جانتا ہو کہ جو کچھ اتارا گیا آپ کی طرف (اے پیغمبر!) آپ کے رب کی جانب سے ، وہ سراسر حق (اور صدق) ہے کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو (اس حقیقت سے) اندھا ہو؟ نصیحت تو بس وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل خالص رکھتے ہیں ،

۲۰۔۔۔      جو پورا کرتے ہیں اللہ کے عہد کو اور وہ اس کو توڑتے نہیں مضبوط باندھنے کے بعد،

۲۱۔۔۔      اور جو برقرار رکھتے ہیں ان روابط کو جن کے برقرار رکھنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور جو ڈرتے رہتے ہیں اپنے رب (کی ناراضگی اور اس کی پکڑ) سے ، اور اندیشہ رکھتے ہیں برے حساب کا،

۲۲۔۔۔      اور جو صبر (و ضبط) سے کام لیتے ہیں اپنے رب کی رضا جوئی کے لئے اور وہ قائم رکھتے ہیں نماز کو، اور خرچ کرتے ہیں (راہِ حق و صواب میں) ان چیزوں میں سے جو ہم نے ان کو بخشی دی ہیں ، پوشیدہ طور پر بھی اور اعلانیہ بھی، اور وہ ٹالتے ہیں برائی کو اچھائی کے ساتھ، ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے آخرت کا گھر،

۲۳۔۔۔      یعنی ہمیشہ رہنے کی ایسی جنتیں ، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے ، اور (ان کے سبب سے) ان کے آباؤ اجداد، ان کی بیویوں ، اور ان کی اولادوں ، میں سے وہ لوگ بھی جو اس کے لائق ہوں گے ، (اگرچہ درجات ان کے باہم مختلف ہوں گے) ان کے پاس فرشتے ہر طرف سے آ رہے ہوں گے ،

۲۴۔۔۔      (اور وہ ان سے کہہ رہے ہوں گے کہ) سلام ہو تم پر (اے جنت کے باسیو!) اپنے اس صبر کی بناء پر جس سے تم نے (زندگی بھر) کام لیا، پس کیا ہی خوب ہے (تمہارے لئے) آخرت کا یہ گھر،

۲۵۔۔۔      اور (اس کے برعکس) توڑ ڈالتے ہیں اللہ کے عہد کو اس کو پختہ باندھنے کے بعد، اور وہ کاٹ ڈالتے ہیں ان رشتوں کو جن کے جوڑے رکھنے کا حکم اللہ نے فرمایا ہے ، اور وہ فساد پھیلاتے ہیں (اللہ کی) زمین میں تو ایسے لوگوں کے لئے لعنت (اور پھٹکار) ہے ، اور ان کے لئے بڑا برا گھر ہے ،

۲۶۔۔۔      (آخرت میں) اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراوانی بخش دیتا ہے ۔ اور جسے چاہتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے ، اور یہ لوگ دنیاوی زندگی (اور اس کی متاع حقیر) پر مگن ہیں حالانکہ دنیا کی یہ زندگی (اور اس کا سارا سامان) آخرت کے مقابلے میں ایک متاع (قلیل) کے سوا کچھ بھی نہیں ،

۲۷۔۔۔      اور کہتے ہیں یہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر، کہ کیوں نہیں اتاری گئی اس شخص (پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم) پر کوئی نشانی (یعنی ہماری فرمائش کے مطابق)، کہو کہ بے شک (معاملہ میرے اختیار میں نہیں ، بلکہ) اللہ جسے چاہتا ہے ڈال دیتا ہے گمراہی میں ، اور وہ (راہِ حق و) ہدایت سے نواز دیتا ہے ہر اس شخص کو جو (صدق دل سے) اس کی طرف رجوع کرتا ہے ،

۲۸۔۔۔      یعنی ایسے لوگوں کو جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو چین ملتا ہے اللہ (پاک) کے ذکر سے ، آگاہ رہو کہ اللہ کے ذکر ہی سے چین ملتا ہے دلوں کو،

۲۹۔۔۔      غرض جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام بھی کئے تو ان کے لئے بڑی خوشخبری بھی ہے ، اور عمدہ ٹھکانا بھی،

۳۰۔۔۔      اس طرح ہم نے آپ کو (رسول بنا کر) بھیجا ایک ایسی امت میں جس سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں ، تاکہ آپ ان لوگوں کو پڑھ کر سنائیں وہ پیغام (حق و ہدایت) جو ہم نے بھیجا ہے آپ کی طرف وحی کے ذریعے ایسے حال میں کہ یہ لوگ کفر کرتے ہیں اس (خدائے) رحمان کے ساتھ (جس کی رحمت کا کوئی کنارہ نہیں) کہو وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے مجھے

۳۱۔۔۔      اور اگر (ان کی فرمائش کے مطابق) کوئی ایسا قرآن بھی اتار دیا جاتا جس سے چلا دیا جاتا پہاڑوں کو، یا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا زمین کو، اور بولنے لگتے اس سے مردے (تو بھی وہ یہی قرآن ہوتا، سو بات محض معجزے کی نہیں) بلکہ معاملہ سارا اللہ ہی کے اختیار میں ہے ، کیا پھر بھی ایمان والوں کو اس (حقیقت کا) یقین نہیں ہوا کہ اگر اللہ کو (خواہ مخواہ کا ایمان ہی) منظور ہوتا تو وہ سب لوگوں کو از خود (جبراً) راہ راست پر لے آتا، اور یہ کافر لوگ ہمیشہ اس حال میں رہیں گے کہ ان کو ان کے اپنے کرتوتوں کی پاداش میں کوئی نہ کوئی آفت پہنچتی ہی رہے گی، (خود ان پر) یا ان کے گھروں کے قریب ہی کہیں نازل ہوتی رہے گی، یہاں تک کہ آ پہنچے گا اللہ (کے آخری عذاب) کا وعدہٗ بے شک اللہ خلاف ورزی نہیں کرتا اپنے وعدے کی،

۳۲۔۔۔     اور بلاشبہ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے کافروں کو پھر بھی ڈھیل ہی دی، پھر آخرکار میں نے ان کو پکڑا (ان کے اپنے کئے پر) سو (دیکھ لو) کیسا تھا میرا عذاب؟

۳۳۔۔۔      تو کیا وہ ذات جو ہر کسی پر نگاہ رکھے ہوئے ہو اس کی کمائی کی بناء پر (کیا وہ تمہارے یہ بے حقیقت معبود ایک برابر ہو سکتے ہیں ؟ نہیں اور ہرگز نہیں) مگر ان لوگوں نے پھر بھی اللہ کے شریک ٹھہرا رکھے ہیں ، (ان سے) کہو کہ ذرا ان کے نام تو لو (کہ وہ ہیں کون؟) کیا تم لوگ اللہ کو وہ بات بتانے چلے ہو جس کو وہ نہیں جانتا (اپنی پیدا کردہ) اس زمین میں ؟ یا تم لوگ (بغیر کسی سند و دلیل کے) یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو؟ (نہیں) بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خوشنما بنا دیا گیا کافروں کے لئے ان کی مکاریوں کو، اور روک دیا گیا ان کو راہ (حق و صواب) سے ، اور جس کو اللہ ڈال دے گمراہی (کے گڑھے) میں تو اسے کوئی راہ پر نہیں لا سکتا

۳۴۔۔۔     ایسے لوگوں کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی ایک عذاب ہے ، اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں زیادہ سخت (اور ہولناک) ہے اور کوئی نہیں جو ان کو اللہ (کے عذاب) سے بچا سکے ،

۳۵۔۔۔      شان اس جنت کی جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا جا رہا ہے ، یہ ہے کہ اس کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں اس کے پھل دائمی ہوں گے ، اور اس کا سایہ لازوال، یہ انجام ہو گا ان لوگوں کا جنہوں نے تقویٰ کی زندگی گزاری ہو گی (دنیا کے دار الامتحان میں) اور انجام ان لوگوں کا جنہوں نے (زندگی بھر) کفر کو اپنائے رکھا ہو گا (دوزخ کی ہولناک) آگ ہو گا،

۳۶۔۔۔      اور جن لوگوں کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب ہدایت دی ہے وہ خوش ہو رہے ہیں اس کتاب سے جو اب آپ کی طرف اتاری گئی ہے (اے پیغمبر!) جب کہ انہی کے مختلف گروہوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انکار کرتے ہیں اس کے کچھ حصوں کا (ان سے) کہہ دو کہ مجھے تو بہر حال یہی حکم ہوا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کروں اور اس کے ساتھ (کسی بھی طرح کا) کوئی شرک نہ کروں ، میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور بلاتا رہوں گا، اور مجھے بہر حال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،

۳۷۔۔۔      اور اسی طرح (جس طرح کہ دوسرے پیغمبروں کو خاص خاص زبانوں میں احکام دیے گئے) ہم نے (آپ کی طرف اے پیغمبر!) یہ قرآن اتارا ہے حکم کے طور پر عربی زبان میں ، اور اگر کہیں تم نے پیروی کر لی ان لوگوں کی خواہشات کی اس علم کے بعد جو کہ تمہارے پاس آ چکا ہے تو اللہ کے یہاں تمہارا نہ کوئی حمایتی ہو گا نہ کوئی بچانے والا۔

۳۸۔۔۔      اور بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بھی بھیجے (اے پیغمبر!) بہت سے رسول (اپنے اپنے وقتوں میں) ان کو ہم نے بیویوں والا بھی بنایا اور انہیں اولا دیں بھی عطا کیں اور کسی پیغمبر کے بس (و اختیار) میں نہیں ، کہ وہ از خود کوئی معجزہ لا دکھائے مگر اللہ ہی کے اذن (و حکم) سے ، اور ہر دور کے لئے ایک کتاب ہوئی ہے

۳۹۔۔۔      اللہ (سبحان و تعالیٰ) جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب،

۴۰۔۔۔      اور اگر ہم (اے پیغمبر!) آپ کو اس عذاب کا کچھ حصہ آپ کے جیتے جی ہی دکھلا دیں جس کا وعدہ ہم ان لوگوں سے کر رہے ہیں ، یا (اس سے پہلے) آپ کو اٹھا لیں ، تو (اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ) آپ کا کام تو صرف پہنچا دینا ہے ، اور آگے حساب لینا ہمارا کام ہے ،

۴۱۔۔۔      کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم ان پر اس زمین کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اللہ ہی ہے جو فیصلہ فرماتا ہے (اس طرح کہ) کوئی اس کے فیصلہ کا پیچھا نہیں کر سکتا، اور وہی ہے بڑا جلد حساب لینے والا،

۴۲۔۔۔      اور (ان کی چال بازیوں سے نہ گھبرانا کہ) یقیناً ان سے پہلے کے لوگ بھی بڑی چا لیں چل چکے ہیں ، (مگر وہ حق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے ، کہ) سب چا لیں (اور ان کی کاریگری تو) اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے ، وہی جانتا ہے اس سب کو جو کماتا ہے ہر شخص اور کافر لوگ عنقریب خود ہی جان لیں گے کہ کس کے لئے ہے اچھا انجام اس جہان کا،

۴۳۔۔۔      اور وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر پر کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے نہیں ہو، (ان سے) کہو کافی ہے اللہ گواہی دینے والا میرے اور تمہارے درمیان، اور ہر وہ (انصاف پسند) شخص جس کے پاس علم ہے کتاب (ہدایت) کا۔

تفسیر

 

۱۔۔۔     ۱: سو اس سے قرآن حکیم کی عظمت شان کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ یہ کوئی من گھڑت کلام نہیں، بلکہ یہ گذشتہ آسمانی کتابوں میں ذکر کردہ پیشین گوئیوں اور آسمانی حقائق کی تصدیق اور دین حق سے متعلق ہر ضروری چیز کی تفصیل ہے۔ نیز یہ سراسر ہدایت اور عین رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔ والحمد للہ جل وعلا، وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ یوسف، والحمدللہ جل وعلا،

۲: یعنی یہ اس کتاب عظیم کی آیتیں ہیں جو موعود و منتظر کتاب تھی۔ سو اب یہ کتاب آ گئی اور اس کی آیتیں لوگوں کے پاس پہنچ گئیں۔ پس یہ حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی طرف سے ایک عظیم الشان انعام و احسان ہے جو اس نے دنیا والوں پر فرمایا ہے، اس لئے لوگوں کو دل و جان سے اس کی قدر کرنی چاہیے کہ اسی میں ان کا بھلا ہے، تاکہ اسطرح یہ اس کی خیرات و برکات سے متمتع ہو سکیں۔ اور اگر انہوں نے اس کی ناقدری کی اور کفر و انکار ہی سے کام لیا تو ان کو اس کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا، اور بڑے ہی ہولناک انداز میں بھگتنا ہو گا۔ والعیاذ باللہ اس کے بعد پیغمبر کو خطاب کر کے تسلی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے قطعی طور پر حق ہے لیکن اکثر لوگ اپنے عناد و ہٹ دھرمی اور ناقدری و ناشکری کی بناء پر اس پر ایمان نہیں لاتے سو یہ ایسے لوگوں کی اپنی محرومی اور بدبختی ہے اور بڑی ہی ہولناک محرومی۔ اور بدبختی۔ والعیاذ باللہ العظیم، آپ کا یا آپ کی عورت کا، یا اس کتاب حق و حکمت کا بہرحال اس میں کوئی قصور نہیں پس آپ ان لوگوں کی بے قدری اور ناشکری سے آزردہ خاطر نہ ہوں، فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَراتٍ

۲۔۔۔     ۱: یعنی جذب و کشش کے ایسے عظیم الشان ستونوں پر جن کو دیکھنے سے تمہاری نگاہیں قاصر ہیں۔ سو ذرہ تم لوگ سوچو تو سہی اور غور و فکر سے کام تو لو کہ آسمانوں کے اس عظیم الشان نظام اور ایسی عظیم الشان چھت کو ظاہر میں نظر نہ آنے والے ایسے عظیم الشان ستونوں پر کھڑا کر دینا آخر کس کی قدرت ہے؟ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک، جس کی عظیم الشان قدرت اور بے پایاں حکمت کا یہ عظیم الشان مظہر ہے، جو تمہارے اوپر تنا ہوا موجود ہے اور تم لوگوں کو اپنی زبان حال سے پکار پکار کر دعوت غور و فکر دے رہا ہے، پس وہی خالق کل اور مالک مطلق معبود برحق ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی کا حقدار وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۲: سو سورج اور چاند کے یہ دونوں عظیم الشان کرے جو جو لگاتار تمہاری خدمت میں مصروف ہیں اپنے طلوع و غروب اور اپنی آمدورفت سے یہ تم لوگوں کو طرح طرح کے عظیم الشان فائدے پہنچا رہے ہیں۔ اور تمہارے دوسرے قسما قسم کے عظیم الشان فوائد و منافع ان سے وابستہ ہیں سو اس سے تم لوگ اپنے اس خالق و مالک کی عظیم الشان قدرت و حکمت اور اس کی بے پایاں رحمت و عنایت، کا کسی قدر اندازہ کر سکتے ہو۔ ایسے میں اسی رب رحمان کے ساتھ کفر، اور اس رحیم کی رحمت و عنایت سے غفلت و لاپرواہی برتنا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر کھلی بے انصافی اور ناشکری ہے؟ اور پھر کتنے اندھے اور اُوندھے ہیں وہ لوگ جو اپنے اس خالق و مالک کی رحمتوں اور عنایتوں سے منہ موڑ کر سورج و چاند کی پوجا کرتے ہیں، حالانکہ یہ اس کے معبود نہیں بلکہ ان کے خادم اور قدرت کی طرف سے انکے لئے مسخر ہیں۔ سو عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت و بندگی اسی خالق و مالک کی جائے جس نے ان سب کو پیدا فرمایا ان کو وجود بخشا، اور ان کو تمہارے کام میں لگا دیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ (حم السجدہ۔ ۳۷) یعنی تم لوگ اسی اللہ کے لئے سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم واقعی اس کی بندگی کرتے ہو۔

۴۔۔۔     سو اس سے آسمان کی چھت کے بعد زمین کے فرش میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ پس جس طرح آسمان کی نشانیوں سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت و حکمت اور اس کی عظیم الشان رحمت، و عنایت کی شانیں ظاہر ہو رہی ہیں۔ اسی طرح زمین کے گوشے گوشے اور اس کے چپے چپے سے بھی اس خالق کل اور مالک مطلق کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کی عظیم الشان شانیں ظاہر ہو رہی ہیں بشرطیکہ انسان صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے۔ نیز انسانوں کے اوپر تنی ہوئی آسمانوں کی اس عظیم الشان چھت اور ان کے پاؤں کے نیچے بچھی ہوئی زمین کے اس عظیم الشان بچھونے، کی یہ عظیم الشان ہم آہنگی اور یکسانیت اس بات کی واضح اور کھلی دلیل ہے کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف ایک ہی ذات ہے، یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک، ورنہ ان دونوں کے درمیان ایسی عظیم الشان اور اس قدر پُر حکمت ہم آہنگی اور یکسانیت نہ کبھی پائی جا سکتی تھی۔ اور نہ ہی برقرار رہ سکتی تھی، پس زمین و آسمان دونوں کا خالق و مالک اور ان میں حاکم و متصرف اور معبود ایک ہی ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا وَہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الْاَرْضِ الایۃ (الانعام۔۳) نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَہُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَاءِ اِلٰـہٌ وَّفِی الْاَرْضِ الٰہٌ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم (الزخرف۔٨۴) یعنی وہی ہے جو معبود ہے آسمان میں، اور وہی ہے جو معبود ہے زمین میں، اور وہی ہے حکمت والا، علم والا پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لا شریک کا حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۔۔۔     سو ان لوگوں نے اپنے گلوں کے اندر اور اپنی گردنوں میں کِبر و غرور، عناد و ہٹ دھرمی، اور عجب و خودپسندی کے جو طوق اپنے ارادہ و اختیار سے ڈال رکھے ہیں انہوں نے ان کو ایسا جکڑ رکھا ہے کہ نہ یہ لوگ اپنے سر اوپر اٹھا کر آسمان کی نشانیوں میں غور کر سکتے ہیں اور نہ سرجھکا کر زمین کی نشانیوں کو دیکھ سکتے ہیں، جس سے یہ اندھے کے اندھے اور اُوندھے کے اوندھے ہی رہتے ہیں، اور اپنے اسی اندھے اور اوندھے پن کے نتیجے میں آخرکار یہ لوگ دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ میں جا پڑیں گے، جہاں ان کو ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا۔ اور وہاں پر ان کی گردنوں میں بڑے کفر وباطل کے یہی طوق اپنی اصل اور ہولناک شکل میں سب کے سامنے آ جائیں گے اور انہی کے ذریعے ان کو وہاں دوزخ کی آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم اسی حقیقت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے اِنَّا جَعَلْنَا فِیْ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلَالًا فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُقْمَحُوْنَ (یٰس۔٨) والعیاذ باللہ جل وعلا، بکل حالٍ من الاحوال

۶۔۔۔     مَثُلٰث جمع ہے مَثْلَۃٌ کی۔ جس کے معنی عقوبت اور عبرت ناک سزا کے ہوتے ہیں۔ سو اس سے منکرین و معاندین کی بدبختی کے ایک اور نمونے کا ذکر فرمایا گیا ہے، کہ یہ لوگ توبہ و استغفار، اور اپنی اصلاح کے ذریعے عذاب الٰہی سے بچنے کی فکر و کوشش کے بجائے الٹا اپنے لئے کسی آفت اور عذاب کے لانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اپنے لئے اچھائی سے پہلے برائی مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جا رہا ہے، وہ ہمیں لا کر دکھایا جائے تو تب ہم مانیں گے، حالانکہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ دوسروں کے انجام کو دیکھ کر اس سے درس عبرت لیا جائے۔ سو ان کو کتنی ہی ایسی منکر قوموں کی سرگزشتیں سنائی گئی ہیں جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تکذیب کی جس کے نتیجے میں آخرکار وہ طرح طرح کے ہولناک عذابوں کا شکار ہو کر اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر رہیں۔ مگر یہ لوگ ہیں کہ ان کے انجام سے کوئی سبق نہیں لیتے۔ بلکہ الٹا اپنے لئے اسی طرح کے عذابوں کا مطالبہ کرتے ہیں سو واقعی تمہارا رب بڑا ہی بخشنے والا ہے لوگوں کو ان کے ظلم پر کہ اس نے ان لوگوں کے کفر و شرک اور عناد اور ہٹ دھرمی کے باوجود انکی توبہ و اصلاح کے لئے اتنی طویل مہلت دی لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی۔ مگر یاد رہے کہ اس کی اس مہلت کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے گزر جانے کے بعد آخرکار وہ پکڑتا ہے۔ اور جب وہ پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ بھی بڑی ہی سخت اور انتہائی ہولناک ہوتی ہے والعیاذُ بِاللّٰہ العظیم بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاَحوال۔

۷۔۔۔     سو اس ارشاد میں کفار کے مطالبہ عذاب کے جواب میں دو اصولی اور بنیادی باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ایک یہ کہ پیغمبر کا کام عذاب لانا نہیں ہوتا، بلکہ ان کا اصل کام انذار ہوتا ہے۔ یعنی اس عذاب سے خبردار کرنا جو کفر و انکار کی پاداش میں منکروں پر آتا ہے پھر جو لوگ ان کے انذار سے متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کر لیتے ہیں، وہ اس عذاب سے بچ جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کے مستحق بن جاتے ہیں۔ ورنہ ان کو عذاب میں دھر لیا جاتا ہے، پس جو اس کی پرواہ نہیں کرتے وہ بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر رہتے ہیں، سو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام تو خبردار کرنا ہے اور بس، عذاب لانا آپ کا نہیں ہمارا کام ہے۔ کیونکہ ہم ہی جانتے ہیں کہ کس پر عذاب لایا جائے اور کب اور کس شکل میں لایا جائے، اس عذاب کا لانا ہمارے ذمے، اور ہمارے ہی اختیار میں ہے۔ والعیاذُ باللہ اور دوسری اصولی اور بنیادی بات اس سلسلے میں یہاں پر یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے ایک ہادی بھیجا ہے، جس کے ذریعے اتمامِ حجت کرنے کے بعد نہ ماننے والوں پر آخرکار عذاب آکر رہا، سو یہ اللہ تعالیٰ کی قدیمی سنت رہی جو اٹل ہے۔ پس منکروں کو عذاب کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس سے بچنے کی فکر و کوشش کرنی چاہیئے۔

۱۱۔۔۔   اس آیت کریمہ سے دراصل قوموں کے عذاب کے بارے میں ایک اور سنت الٰہی اور دستور خداوندی کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا۔ جب تک وہ قوم اپنی روش خود ہی نہ تبدیل کر لے۔ سو جب کوئی قوم اپنی روش خود تبدیل کر لیتی ہے، اور تنبیہ و انذار کے باوجود وہ متنبہ نہیں ہوتی، والعیاذ باللہ، تو اللہ تعالیٰ اس پر وہ عذاب بھیج دیتا ہے جس کو ٹالنا اور دفع کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ پس اس سے عذاب کی نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کو تنبیہ کر دی گئی ہے، کہ اس سنت الٰہی اور دستور خداوندی کی روشنی میں تم لوگ اپنے حالات کا جائزہ لے کر خود دیکھ لو کہ تم کہاں کھڑے ہو، اور یہ کہ تم کس سلوک کے مستحق ہو؟ اگر تم لوگوں نے شکر نعمت کے بجائے کفران نعمت کی روش ہی کو اپنا لیا والعیاذُ باللہ۔ تو پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ کا جو معاملہ اب تک تمہارے ساتھ رہا ہے اس کے بدلنے میں بھی اب کوئی دیر نہیں، والعیاذُ باللہ، اور یہ حقیقت تمہارے سامنے واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اس کو ٹالنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہو سکتا۔ ایسے موقع پر نہ ان لوگوں کے خود ساختہ اور من گھڑت حاجت روا و مشکل کشا انکے کچھ کام آ سکتے ہیں، اور نہ ہی ان کے مضبوط قلعے اور دمدمے اس کے آگے ٹھہر سکتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔

۱۳۔۔۔   سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ایک طرف تو منکرین و مکذبین کی جسارت کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس رعد و برق اور فرشتوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہر وقت خوف الٰہی سے اس کی تسبیح اور حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں، کہ معلوم نہیں کہ کس وقت کیا حکم صادر ہو۔ پھر خدا جن پر چاہتا ہے اپنا صاعقہ عذاب بھیج دیتا ہے، جبکہ ایسے لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں، اور اللہ بڑی ہی طاقت والا ہے۔ وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی میں طاقت نہیں کہ وہ اس کے وار کو کسی بھی طرح اور کسی بھی درجے میں روک سکے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۴۔۔۔   سو اس ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ اللہ ہی کو پکارنا برحق ہے۔ یعنی اسی کو پکارنا مفید نتیجہ خیز اور موجب خیر و برکت ہو سکتا ہے کہ تمام اختیار و اقتدار کا مالک وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اس کے سوا جو لوگ دوسرے خود ساختہ اور من گھڑت حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کو پکارتے ہیں، ان کا پکارنا بالکل بےسود ولا حاصل اور صدا الصحرا ہے، کہ ان کا سرے سے کوئی وجود اور حقیقت ہی نہیں۔ بلکہ وہ سب کچھ ان کے اوہام و خرافات کا پلندہ ہے، اور اگر وجود ہے بھی تو وہ انکی مدد کے معاملے میں بالکل بے بس ہیں، پھر ان کی محرومی اور نامرادی کو ایک مثال سے واضح فرمایا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کی مثال اس پیاسے کی سی ہے جو اپنی پیاس کی بے قراری سے اپنے دونوں ہاتھ اس پانی کی طرف بڑھائے جو اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ سو جس طرح وہ پیاسا پیاس سے تڑپتا اور پانی سے محروم ہی رہتا ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی اپنی محرومی پر سر پیٹیں گے، جبکہ آخرت میں کشف حقائق، اور ظہور نتائج کے موقع پر ہر چیز اپنی اصل شکل میں سب کے سامنے آ جائے گی۔ مگر اس وقت کے اس افسوس اور رونے پیٹنے کا ایسے بدبختوں کا کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا جنہوں نے اپنی دنیاوی زندگی کی فرصت و مہلت کفر و انکار، اور عناد و ہٹ دھرمی کی ظلمات ہی میں گزاری ہو گی۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۱۶۔۔۔   ۱: یعنی یہ عجیب بات ہے کہ مقدمات تو تم لوگ سب مانتے اور تسلیم کرتے ہو، لیکن ان کا نتیجہ تم اس کے برعکس اور غلط نکالتے ہو آخری تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا؟ سو جب تم لوگ اس بات کو مانتے اور تسلیم کرتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر تم نے اس کے سوا ایسوں کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا اور ولی و کارساز کیوں تسلیم کر رکھا ہے جو خود اپنے لئے بھی نہ کسی نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا؟ قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ مشرکین آسمانوں اور زمین کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے اور انہوں نے اس کے لئے جو شرکاء اور شفعاء ٹھہرا رکھے تھے ان کے بارے میں ان کا کہنا ماننا یہ تھا کہ یہ اللہ کے پیارے اور اس کے چہیتے ہیں، ان کی عبادت ہم اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کر دیں گے مَا نَعْبُدُہُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ الایۃ (الزمر۔۳) نیز یہ کہ انہی عنایت و مہربانی سے ہمارے دنیاوی کام بنتے اور ہماری حاجتیں پوری ہوتی ہیں، لہٰذا ہماری ان کے آگے اور انکی اس کے آگے، وہ ہماری سنتا نہیں، اور ان کی رد نہیں کرتا۔ اور اگر آخرت ہوئی بھی تو وہاں بھی ہمارا کام یہی بنوالیں گے، وغیرہ وغیرہ، اور بعینہٖ یہی مشرکانہ فلسفہ آج کا جاہل مسلمان اور کلمہ گو مشرک پیش بھی کرتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲: سو جب اندھا اور آنکھوں والا باہم برابر نہیں ہو سکتے تو پھر مومن و کافر اور موحد و مشرک باہم کس طرح اور کیونکر برابر ہو سکتے ہیں؟ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ مومن اور موحد آنکھوں والا ہے کہ اس کے قلب و باطن کی وہ آنکھیں کھلی ہوئی، اور بیدار ہوتی ہیں جن کے ذریعے انسان حق و حقیقت کے فہم و ادراک کامل بنتا ہے۔ اور باطن کی انہی آنکھوں سے انسان کی ظاہری آنکھوں میں بھی نور آتا ہے۔ ورنہ انسان سب کچھ دیکھنے کے باوجود اندھا اور اوندھا ہو کر رہ جاتا ہے۔ والعیاذُ باللہ۔ اسی لئے کافر اور مشرک اندھا اور اوندھا ہوتا ہے کہ اس کے باطن کا نور بچھا ہوا ہوتا ہے، اور وہ نور حق سے محروم ہوتا ہے، اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے وہ کتنا ہی کچھ کیوں نہ دیکھتا ہو۔ نیز جب اندھیرے اور روشنی باہم برابر نہیں ہو سکتے، تو پھر کفر و شرک اور ایمان و توحید باہم برابر کس طرح ہو سکتے ہیں؟ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ایمان و توحید نور اور روشنی ہے اور کفر و شرک اندھیرے اور ظلمتیں، یعنی عقلی اور معنوی اندھیرے، جو کہ ظاہری اور حسی اندھیروں سے کہیں پڑھ کر مہلک اور خطرناک ہیں کہ یہ ابدی ہلاکت اور ہولناک تباہی کا باعث ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۷۔۔۔   تاکہ ان سے حق اور باطل کے درمیان فرق پوری طرح واضح ہو جائے سو یہاں پر بیان فرمودہ ان دونوں مثالوں سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق فرمودہ اس کائنات کا مزاج واضح ہو جاتا ہے، کہ یہ نفع بخش چیز کو باقی رکھتی ہے۔ اور بیکار چیز کو چھانٹ کر الگ کر دیتی ہے، جس سے وہ مٹ کر رہتی ہے۔ سو اسی طرح اللہ تعالیٰ حق اور باطل کو باہم ٹکراتا ہے، اور اس ٹکراؤ سے حق کے اوپر باطل کا جو جھاگ ابھرتا ہے وہ یونہی خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتا ہے۔ البتہ حق جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے، وہ باقی رہ جاتا ہے پس قرآن حکیم کی صورت میں رحمت کی جو بارش قدرت کی عنایت اور اس کی فیاضی سے نازل ہوئی ہے، اس سے بھی باطل کا کچھ جھاگ ابھر کر اوپر آگیا، لیکن مختلف قسم کے یہ سب جھاگ فنا ہو جائیں گے اور قرآن اور اس کے حاملین باقی بنیں گے۔ والحمد للہ رب العالمین

۱۹۔۔۔   سو اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے، کہ یہ لوگ جو ایمان لانے کو تیار نہیں تو اس میں نہ آپ کا کوئی قصور ہے، اور نہ ہی اس دعوت حق کا جو آپ ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں بلکہ نقص و قصور سب کا سب خود ان ہی منکر لوگوں کا ہے کہ انہوں نے اپنی عقل و دل کی آنکھوں کو خود پھوڑ کر رکھا ہے جس سے یہ عقل و دل کے اندھے بن گئے۔ تو اندھے اگر راہ حق کو نہیں دیکھ سکتے تو اس میں داعی حق یا دعوت حق کا آخر کیا قصور ہو سکتا ہے؟ پس آپ ان لوگوں کے اعراض اور ان کے کفر و انکار کی وجہ سے خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں۔ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ اور دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے تہدید و وعید کا یہ پہلو بھی ہے کہ جب دل کے اندھے اور آنکھوں والے باہم برابر نہیں ہو سکتے۔ تو اس کا طبعی تقاضا اور لازمی نتیجہ ہے کہ ان دونوں کے انجام بھی الگ الگ ہوں۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اور یہ سب قیامت کے اس یوم حساب و جزاء میں ہو گا۔ جو اس دنیا کے خاتمے کے بعد واقعہ ہو گا۔ جہاں ایمان والے اپنے ایمان و عمل کا صلہ و ثمرہ جنت کی سدا بہار نعمتوں کی صورت میں پائیں گے اور کفر و انکار والوں کو اپنے کفر و انکار کا بھگتان دوزخ کے ہولناک اور اَبَدی عذاب کی صورت میں بھگتنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ سو قیامت کے روز جزاء کا قیام وقوع عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔

۲۰۔۔۔   اللہ کے عہد کا اصل اور اولین مصداق وہ عہد فطرت ہے جس کو قدرت نے ہر انسان کی فطرت میں پیوست کر رکھا ہے، اور جس کو عہد اَلَسْت بھی کہا جاتا ہے۔ کہ اس کا ذکر دوسرے مقام پر اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے استفہام کے ساتھ فرمایا گیا ہے چنانچہ سورہ اعراف کی آیت نمبر۱۷۲ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے انکی اولادوں کو نکال کر ان کو ان کے اوپر گواہ بنایا۔ اور ان سے فرمایا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے کہا بَلیٰ، یعنی ہاں کیوں نہیں۔ پس جن لوگوں کی فطرت میں وہ عہد اَلَسْت باقی و برقرار ہے، اور انہوں نے اس کو توڑا نہیں وہی لوگ اس کتاب حکیم قرآن مجید سے سبق حاصل کریں گے، رہ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی فطرت کو مسخ کر دیا۔ اور اس عہد کو توڑ دیا۔ تو ان کے لئے اس میں کوئی درس نہیں۔ اور ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی اور اس میثاق فطرت کے علاوہ عہد اللہ یعنی اللہ کے عہد کے عموم میں ہر وہ عہد بھی داخل و شامل ہے، جو اللہ کے نام پر باندھا گیا ہو۔ سو اُولُوالالباب یعنی عقل خالص رکھنے والے ایسے سب ہی عہدوں کو پورا کرتے ہیں۔ اور وہ ان کو توڑتے نہیں۔

۲۴۔۔۔   سو اس سے ان لوگوں یعنی اولو الالباب کے اس صلے اور بدلے کا ذکر فرمایا گیا ہے جس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی طرف سے ان خوش نصیبوں کو آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہان میں نوازا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں کی یہ اور یہ صفات ہونگی انہی کے لئے ہے آخرت کا وہ عظیم الشان گھر جس کی نعمتیں ابدی اور دائمی ہونگی۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آخرت کی اس حقیقی اور ابدی کامیابی سے سرفرازی کا دارومدار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہو گا نہ کہ جھوٹے دعووں اور خود ساختہ مزاعم پر، جس طرح کہ بہت سے گمراہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے سو ایسے تمام لوگ سخت مغالطے میں پڑے ہوئے۔ اور بڑے دھوکے کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے ہر دھوکے سے محفوظ، اور اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین

۲۶۔۔۔   سو اس سے اولوالالباب کے بالمقابل ان بدبختوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جنہوں نے عہد الست کو توڑ کر، اور اپنی فطرت کو مسخ کر کے اولوالالباب کے بالکل برعکس راستہ اختیار کیا۔ اور انہوں نے اپنے آپ کو ان تمام صفات و خصال سے محروم کر دیا، جو سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہیں، سو اس طرح ان لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر کے اس کی لعنت و پھٹکار کا مورد و مستحق بنا دیا، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے، پس ایسوں کے لئے آخرت میں بڑا ہی برا گھر ہے جہاں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا، اور یہ لازمی نتیجہ اور طبعی تقاضا ہو گا ان لوگوں کے کفر و انکار کا والعیاذُ باللہ

۲۷۔۔۔   سو روزی کی کشائش یا اس کی تنگی اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کے محبوب یا مبغوض ہونے دلیل نہیں بلکہ اس کا تعلق ان دوسری حکمتوں سے ہے جن کا علم و احاطہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے، البتہ اس کی ایک اہم اور واضح حکمت یہ ہے کہ بسط و کشاد اور تنگی و محرومی کی ان دونوں ہی صورتوں سے اصل مقصود انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ بسط و کشاد کی صورت میں انسان کی صفت شکر کا امتحان ہوتا ہے، کہ آیا وہ دنیا پا کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا اس کا ناشکرا بنتا ہے اور تنگی و محرومی کی صورت میں اس کی صفت صبر کا امتحان ہوتا ہے کہ آیا وہ صبر و برداشت سے کام لیتا ہے یا بے صبری اور جزع و فزع کرتا ہے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید۔

۲۸۔۔۔   ۱: سو اس سے منکرین و مکذبین کی ٹیڑھی منطق کا جواب بھی دے دیا گیا، اور ہدایت وضلالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے دستور کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ سو ان لوگوں کی ٹیڑھی منطق یہ تھی کہ وہ حکمتوں بھری اس کائنات میں غور کرنے۔ اور ہر چہار سو پھیلے بکھرے قدرت کے عجائب اور اس کی نشانیوں کو دیکھنے کے بجائے، معجزات کا مطالبہ کرتے تھے کہ اگر ہماری فرمائش کے مطابق معجزے دکھا دیئے جائیں تو ہم ایمان لے آئیں گے سو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کے دستور سے آگہی بخشی گئی کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی دولت سے ان کو نہیں نوازتا ہے جو اس کے لئے صحیح طریقے سے غور و فکر کے بجائے معجزوں اور کرشموں کے مطالبے کرتے ہیں اور یہ کہ ایسا جبری ایمان نہ مفید ہے نہ مطلوب ورنہ ایسا کرنا اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں تھا۔ بلکہ وہ ہدایت کی دولت سے ان ہی لوگوں کو نوازتا ہے، جو آفاق و انفس کی نشانیوں میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں، اور وہ صدق دل سے ہدایت کے طالب بن کر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، اس کے برعکس جو لوگ عجائب اور کرشموں کے درپے ہوتے ہیں ان کو وہ انکی اختیار کردہ گمراہی ہی کے حوالے کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اسی میں پڑے ڈبکیاں کھاتے رہتے ہیں، کیونکہ جو لوگ آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے بن جاتے ہیں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یہی ہوتا ہے والعیاذ باللہ جل وعلا

۲: سو اس ارشاد سے مَنْ اَنَابَ کی توضیح و تفصیل فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف راہنمائی ان ہی کو فرماتا ہے جو اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دلوں میں اطمینان پاتے ہیں، اس کے برعکس جو لوگ معجزات ہی کی طلب و تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ ایمان و ہدایت کی دولت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ اور پھر اَلَا کے حرفِ تنبیہ کے ساتھ اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ کان کھول کر سن لو کہ ایمان و اطمینان اور شرح صدر کی دولت اللہ تعالیٰ کی یادِ دلشاد اور اس کی صفات جمال و کمال کے تذکر و تفکر ہی سے حاصل ہوتی ہے، اور اس سے سرفرازی کا صحیح طریقہ وہی ہے جس کی ہدایت و راہنمائی دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ سے ملتی ہے۔ اس سے ہٹ کر اور اس کے خلاف جو بھی طریقہ اپنایا جائے گا۔ وہ حسرت اور محرومی ہی میں اضافے کا باعث بنے گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۳۱۔۔۔   ۱: سو اس سے وَلَوْ اَنَّ الخ کی شرط کے جواب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی ایسا کوئی قرآن اگر ہوتا جس سے پہاڑوں کو چلا دیا جاتا۔ یا زمین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا، یا جس سے مردے بولنے لگتے۔ جیسا کہ منکرین و مکذبین کے مطالبات ہیں، تو وہ یہی قرآن ہوتا۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر مؤثر، اور حقیقت افروز دوسرا کوئی کلام نہ ہے، نہ ہو سکتا ہے، یا اس کا جواب شرط یوں بھی مقدر مانا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا کوئی قرآن بھی نازل کر دیا جاتا تو بھی ان لوگوں نے نہیں ماننا تھا، کہ عناد اور ہٹ دھرمی کا بہرحال کوئی علاج نہیں۔ اور اس طرح کے معجزوں کے ذریعے ایمان لانا، نہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مطلوب ہے، اور نہ یہ ہی مفید ہے کیونکہ مطلوب و مفید وہ ایمان ہے جو انسان کائنات کے دلائل میں غور و فکر کے نتیجے میں، اور پیغمبر کی دعوت پر لائے، کہ دارین کی سعادت و سرخروئی ایسے ہی اختیاری ایمان سے وابستہ اور اسی پر موقوف و منحصر ہے، نہ کہ جَبْری اور غیر اختیاری ایمان پر۔

۲: وہی جانتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے اور کون کس کا مستحق ہے۔ اور کس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے۔ ہدایت و ضلالت کے سلسلہ میں اس نے جس دستور اور سنت کو مقرر فرما رکھا ہے وہ اسی کے مطابق سب کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے جو اس کے اس قانون کے مطابق نور حق و ہدایت کے مستحق ٹھہریں گے، وہ انہی کو اس نعمت سے نوازے گا۔ اور جو اس کے مستحق اور سزاوار نہیں ہونگے۔ ان کو وہ اسی گمراہی کے حوالے کر دے گا۔ جس کی راہ کو انہوں نے خود اختیار کیا۔ پس اس معاملے کو اسی کے سپرد اور حوالے کر دیا جائے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۳: سو اس سے ان نیک دل مسلمانوں کی تسکین و تسلیے کا سامان فرمایا گیا ہے جو اپنی نیک نیتی کی بناء پر جانتے تھے کہ اگر ان لوگوں کو ان کی طلب و فرمائش کے مطابق کوئی معجزہ دکھا دیا جائے، تاکہ یہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہو کر جہنم کے عذاب سے بچ جائیں۔ سو ایسے نیک نیت مسلمانوں کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ایسے لوگوں کے لئے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اگر یہ منظور ہوتا کہ وہ لوگوں کو جبراً ہدایت پر لے آئے تو وہ آن کی آن میں سب لوگوں کو مسلمان بنا دیتا۔ لیکن ایسا کرنا اس کی حکمت اور مشیت کے تقاضوں کے خلاف ہے، کہ ایسا جبری اور غیر اختیاری ایمان نہ مفید ہے نہ مطلوب، مفید اور مطلوب تو وہی ایمان ہے، جو اپنے ارادہ و اختیار سے آفاق و انفس کے دلائل میں غور و فکر کے نتیجے میں اور اللہ اور اس کے رسول کی دعوت و تبلیغ کے مطابق ہو، اور ایسا ایمان ظاہر ہے کہ لوگوں کے صدق و اخلاص اور انکی طلب و تمنا ہی پر مبنی و موقوف ہوتا ہے جس سے یہ لوگ عاری اور محروم ہیں تو پھر ان کو ایمان و ہدایت کی دولت نصیب ہو تو کیسے؟ سو ایسے لوگ محروم ہیں اور اپنی اس محرومی کے ذمہ دار یہ خود ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم

۴:  اس ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ایسا بھی نہیں کہ نشانیاں بالکل ظاہر ہی نہ ہو رہی ہوں۔ بلکہ ان لوگوں کے کرتُوتوں کی پاداش میں خود ان پر یا ان کے قرب وجوار کے لوگوں پر تنبیہی عذاب کا کوئی نہ کوئی کوڑا برستا ہی رہتا ہے۔ تاکہ یہ جاگ جائیں، اور آنکھیں کھولیں، اور پیغمبر کی دعوت پر کان دھریں۔ لیکن اگر یہ باز نہیں آتے اور اسی حقیقت کے منتظر ہیں، کہ عذاب الٰہی کا آخری کوڑا ان پر برس کے ہی رہے۔ تو ان کو یاد رکھنا چاہیے تو اللہ کے وعدے کے مطابق وہ بھی ان پر آ کر اور برس کر ہی رہے گا، کہ یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا۔ سبحانہ و تعالیٰ

۳۴۔۔۔   نہ ان کے وہ جتھے اور پارٹیاں ان کو اس عذاب سے بچا سکیں گی جن کا ان کو بڑا زعم اور گھمنڈ ہے اور نہ ہی ان کے وہ خود ساختہ حاجت روا و مشکل کشا جن کو انہوں نے مختلف ناموں سے گھڑ رکھا ہے سو ایمان و یقین کی دولت سے محرومی دنیا و آخرت کی ہر خیر سے محرومی ہے العیاذ باللہ۔

۳۵۔۔۔   سو اس سے اہل ایمان اور اہل کفر دونوں کے مآل و انجام کو واضح فرما دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو اس عظیم الشان جنت سے سرفراز فرمایا جائے گا جس کا وعدہ اہل تقویٰ سے فرمایا گیا ہے اس کی شان یہ ہو گی کہ اس کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی یعنی ایسے عظیم الشان پانی کی نہریں جو کبھی خراب نہ ہو اور ایسے عظیم الشان اور بے مثال دودھ کی نہریں جس کا ذائقہ کبھی بدلنے نہ پائے۔ اور ایسی عظیم الشان شراب کی نہریں جو سراسر لذت ہو گی پینے والوں کے لئے اور ایسے عظیم الشان شہد کی نہریں جو ہر قسم کی کدورت سے پاک اور صاف ہو گا۔ جیسا کہ سورہ محمد کی آیت نمبر۱۵ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ سو اس جنت کے نیچے سے ایسی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی۔ اور وہ جنت ایسی سدا بہار ہو گی کہ اس کے پھل بھی دائمی ہونگے۔ اور اس کے سائے بھی لازوال اس کے مقابلے میں کافروں کا انجام دوزخ کی وہ دہکتی بھڑکتی ہولناک آگ ہو گی۔ جس کا تصور کرنا بھی اس دنیا میں کسی کے بس میں نہیں والعیاذ باللہ۔

۳۶۔۔۔   سو اس آیت کریمہ میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان ہے کہ اگر یہ منکرین و مکذبین آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے تو کیا ہوا اہل کتاب اچھے لوگ تو اس کتاب حکیم پر خوش ہو رہے ہیں جس کو آپ کی طرف نازل فرمایا گیا ہے اور دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے تہدید اور دھمکی بھی ہے کہ جس کتاب حکیم کے نزول سے اہل کتاب کے منصف مزاج اور علم دوست حضرات لوگ خوش ہو رہے ہیں حیف ہے تم لوگوں پر اگر تم اس کا انکار کرتے ہو۔ نیز اس سے اس حقیقت کو بھی واضح فرمایا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین وغیرہ کے مختلف گروہ اس کتاب حکیم کے کچھ حصول کا انکار کرتے ہیں یعنی اس کے انہی حصول کا جو ان کی اہواء و اغراض کے خلاف پڑتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے دین و ایمان کی اساس و بنیاد اتباع ہواء ہی ہے۔ یعنی اپنی خواہشات کی اتباع اور پیروی اور بس اس لئے ان کے سامنے اعلان حق کے طور پر پیغمبر کو اس بات کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ ان سے کہیں کہ مجھے تو بہرحال اسی بات کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ میں صرف اللہ ہی کی عبادت و بندگی کروں۔ اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی شرک نہ کروں میں اسی کی طرف بلاتا ہوں۔ اور مجھے اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔

۳۷۔۔۔   سو اس آیت کریمہ میں ایک تو اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ دین حنیف اسلام مجید کے سوا باقی جو بھی دین لوگوں نے مختلف ناموں سے اپنا رکھے ہیں وہ دین نہیں بلکہ خواہشات کے پلندے ہیں۔ جو ایسے لوگوں نے اپنی خواہش پرستی کی غرض سے اپنا رکھے ہیں۔ اسی لئے یہاں پر ان کو اَہواء (خواہشات) کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ علم اصل میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور وحی کے ذریعے آتا ہے اور بس اس کے سوا باقی علوم اصل میں علم نہیں بلکہ محض دنیاوی کاروبار کا ذریعہ ہیں اور تیسری حقیقت یہ کہ علم الٰہی کی روشنی کے آ جانے کے بعد لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنا ظلم ہے اور ایسے ظالموں کے لئے اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی حمایتی ہو سکتی ہے نہ بچانے والا۔ یہاں پر خطاب اگرچہ پیغمبر سے ہے کہ وحی کے اولین مخاطب تو بہرحال آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں لیکن اس میں جو شدت ہے اس کا رخ منکرین و مکذبین کی طرف ہے اور اس میں بلاغت کا یہ اسلوب ہے کہ اگر پیغمبر کے لئے بھی باینہمہ عظمت یہ تہدید ہے تو بھر دوسروں کا کیا حال ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۳۹۔۔۔   یعنی نوشتہ تقدیر پر تمام تر اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وہ جو چاہیے اس سے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے۔ اس میں ہر قسم کا اندراج و اخراج اسی وحدہٗ لاشریک کے اختیار میں ہے، وہ اپنی حکمت بالغہ اور مشیت تامہ کے مطابق اس میں جو چاہے تصرف فرمائے۔ کسی اور کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں اور اصل کتاب اسی وحدہٗ لاشریک کے پاس ہے کسی اور کی اس تک رسائی ممکن نہیں، سبحانہ و تعالیٰ

۴۰۔۔۔   یعنی منکرین و مکذبین کو ان کی تکذیب اور انکار پر جس عذاب سے ہم خبردار کر رہے ہیں اس نے ان کے انکار و تکذیب کی پاداش میں ان پر بہرحال آ کر رہنا ہے، خواہ وہ آپ کی زندگی میں آئے، یا آپ کی وفات کے بعد، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اس نے ان لوگوں پر آنا تو بہرحال ہے، اور یقیناً اور قطعاً آنا ہے، اور اس کے واقع کرنے کا تمام تر مدار و انحصار ہماری حکمت اور مشیت ہی کے تابع ہے، اس سلسلے میں نہ آپ کو کوئی دخل ہے اور نہ آپ کو اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ کے ذمے تو صرف پیغام حق و ہدایت کو پہنچا دینا ہے اور بس اس کے بعد حساب لینا ہمارے ذمے اور ہمارا ہی کام ہے، پس اس کو آپ ہم ہی پر چھوڑ دیں۔ ہم اپنے علم و حکمت اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بالکل صحیح وقت پر ان سے نبٹ لیں گے،

۴۱۔۔۔   یہاں پر الارض سے مراد سرزمین مکہ ہے سو مطلب آیت کریمہ کا یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو اسلام کے غلبہ اور خود اپنی ہزیمت کی کوئی نشانی ہی مطلوب ہے تو کیا یہ لوگ اس امر واقعی کو نہیں دیکھتے کہ اسلام کی دعوت بتدریج اطراف مکہ کو فتح کرتی ہوئی سرزمین مکہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ یہ اس سرزمین کو اپنے زیر نگین کرے گی، اور اللہ ہی ہے جس کے فیصلہ کا کوئی پیچھا کرنے والا نہیں۔ اور وہ بڑا جلد اور بالکل صحیح حساب لینے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ