تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الحَجّ

(سورۃ الحج ۔ سورہ نمبر ۲۲ ۔ تعداد آیات ۷۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اے لوگوں بچو تم اپنے رب کے عذاب اور اس کی خوف و پکڑ سے بے شک قیامت کی اس گھڑی کا زلزلہ ایک بری ہی ہولناک چیز ہے

۲۔۔۔     جس روز تم لوگ اس کو دیکھو گے تو حال یہ ہو گا کہ مارے دہشت و خوف کے بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو اور گرا دے گی ہر حمل والی اپنے حمل کو اور لوگ تمہیں نشے کی حالت میں نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے مگر اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا

۳۔۔۔     اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ پاک کی ذات و صفات کے بارے میں اور وہ پیچھے ہو لیتے ہیں ہر ایسے سرکش شیطان کے (جو پکارے ان کو اپنے باطل کی طرف اور)

۴۔۔۔     جس کے بارے میں یہ لکھ اور طے کر دیا گیا ہے کہ جس نے اس کو دوست بنایا تو وہ تباہ ہو گیا کہ یقیناً وہ اس کو گمراہ کر کے چھوڑے گا اور وہ اس کو ڈال دے گا دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے عذاب کی راہ پر

۵۔۔۔     اے لوگوں اگر تمہیں کسی طرح کا کوئی شک ہو اپنے دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں تو تم خود اپنی پیدائش و پرورش سے متعلق ہی ہماری قدرت کاملہ کے مظاہر میں غور کر لو کہ ہم نے تمہیں کس عجیب و غریب اور پر حکمت طریقے سے پیدا کیا مٹی کے اس بے حس اور بے جان ما دے سے پھر نطفے سے پھر ایک جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی اور ہم نے تمہاری پیدائش سے متعلق یہ اہم تغیرات تمہیں بتا بھی دئیے تاکہ ہم کھول کر بیان کر دیں تمہارے لئے تمہاری حقیقت اور اس سے متعلق اپنی قدرت کے مظاہر کو اور ہم جس کو چاہتے ہیں ٹھہرا دیتے ہیں رحموں کے اندر ایک خاص مدت تک پھر ہم نکال لاتے ہیں تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے ایک بچے کی شکل میں پھر نہایت مناسب و عمدہ طریقے سے ہم تمہاری پرورش کرتے ہیں تاکہ تم پہنچ جاؤ اپنی جوانی کی بھرپور قوتوں کو اور تم میں سے کسی کو پہلے ہی واپس اٹھا لیا جاتا ہے اور کسی کو لوٹا دیا جاتا ہے اس کی گھٹیا اور بدترین عمر کی طرف جس کا اثر و نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جان رہا ہوتا اور تم اپنے پیش یا افتادہ اس زمین ہی میں غور کر لو کہ ایک وقت تم اس کو بالکل ویران اور خشک پڑی ہوئی دیکھتے ہو پھر جب ہم اس پر مینہ برسا دیتے ہیں تو یکایک اس میں زندگی کی حرکت پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک خاص انداز سے ابھرتی ہے اور یہ اگانا شروع کر دیتی ہے ہر قسم کی خوش منظر نباتات

۶۔۔۔     یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی زندہ کرتا ہے مردوں کو اور بے شک وہی ہے جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔

۷۔۔۔     اور بے شک قیامت کی اس ہولناک گھڑی نے بہر حال آ کر رہنا ہے اس میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو ضرور دوبارہ اٹھائے گا جو قبروں میں جا چکے ہیں

۸۔۔۔     اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں بغیر کسی علم کے اور بدون کسی دلیل اور روشن کتاب کے

۹۔۔۔     تکبر سے گردن اکڑائے ہوئے تاکہ اس طرح یہ دوسروں کو بھی بہکا سکیں اللہ کی راہ سے ایسے لوگوں کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن ہم ان کو مزہ چکھائیں گے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے عذاب کا

۱۰۔۔۔     اور ان کی مزید تذلیل کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ یہ نتیجہ و بدلہ ہے تمہارے ان کاموں کا جو تم لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں آگے بھیجے تھے اپنی آخرت کے لئے ورنہ اللہ کبھی ظلم نہیں کرتا اپنے بندوں پر

۱۱۔۔۔     اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی بندگی کرتے ہیں ایک کنارے پر رہ کر پھر اگر ان کو کوئی دنیاوی فائدہ مل گیا تو مطمئن ہو گئے اور اگر کوئی آزمائش آ گئی تو یہ منہ اٹھا کر چل دئیے اس طرح وہ اپنی دنیا بھی کھو بیٹھتے ہیں اور آخرت بھی اور دنیا و آخرت دونوں کا یہ خسارہ ہی کھلا ہوا خسارہ ہے

۱۲۔۔۔     ایسا شخص اللہ کے سوا ایسی فرضی وہمی اور بے حقیقت چیزوں کو پکارتا ہے جو اس کو نہ کوئی نقصان دے سکیں اور نہ نفع پہنچا سکیں یہی ہے انتہا درجے کی گمراہی

۱۳۔۔۔     یہ پکارتا ہے ان خود ساختہ و فرضی ہستیوں اور بناوٹی و وہمی سرکاروں کو جن کا نقصان یقینی طور پر ان کے نفع سے زیادہ قریب ہے یقیناً بڑا ہی برا ہے ایسا کار ساز بھی اور برا ہی برا ہے ایسا ساتھی بھی

۱۴۔۔۔     اس کے برعکس جو لوگ صدق دل سے ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ان کو اللہ تعالیٰ یقینی طور پر اپنے کرم سے داخل فرمائے گا ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان وبے مثل نہریں بے شک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے

۱۵۔۔۔     جو کوئی یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کی کوئی مدد نہیں فرمائے گا دنیا و آخرت میں تو اس کو چاہیے کہ وہ ایک رسی تان لے آسمان کی طرف پھر وہ کاٹ ڈالے سلسلہ وحی کو پھر دیکھ لے کہ کیا اس کی تدبیر رد کر سکتی ہے اس چیز کو جو اس کو غصہ دلاتی ہے ؟

۱۶۔۔۔     اور اسی طرح اتارا ہے ہم نے اس قرآن کو کھلے اور روشن دلائل کی صورت میں اور بے شک اللہ ہی نوازتا ہے ہدایت کی دولت سے جس کو چاہتا ہے

۱۷۔۔۔     بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی بن گئے اور ستارہ پرست اور نصرانی اور مجوسی اور وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا بے شک اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان فیصلہ فرما دے گا قیامت کے دن عملاً اور آخری طور پر بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح مطلع ہے کیا

۱۸۔۔۔     تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ ہی کے حضور سجدہ ریز ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں میں ہیں اور وہ سب بھی جو کہ زمین میں ہیں اور سورج و چاند اور ستارے و پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی اور بہت سے ایسے ہیں جن پر پکا ہو چکا ہے اللہ کا عذاب اور حقیقت یہ ہے کہ جسے اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا  بلا شبہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔

۱۹۔۔۔     ایمان و کفر والے یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان جھگڑا ہے ان کے رب کے بارے میں سو ان میں جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر ان کے لئے کپڑے کاٹے جا چکے ہیں آگ کے ان کے مجرمانہ قد کاٹھ کے مطابق اور مزید برآں ان کی خبر گیری کے لئے ان کے سروں کے اوپر سے ان پر ڈالا جائے گا ایسا کھولتا ہوا پانی

۲۰۔۔۔     جس سے پگھل پگھل جائے گا وہ سب کچھ جو ان کے پیٹوں کے اندر ہو گا

۲۱۔۔۔     اور ان کی کھا لیں بھی اور مزید خبر لینے کو ان کے لئے گرز ہوں گے لوہے کے

۲۲۔۔۔     شدت غم کی بنا پر جب وہ وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو انہیں واپس اسی میں دھکیل دیا جائے گا اور مزید تذلیل و توبیخ کے طور پر ان سے کہا جائے گا کہ اب مزہ چکھتے رہو تم لوگ اس بھڑکتی آگ کے عذاب کا

۲۳۔۔۔     بے شک اللہ تعالیٰ داخل فرما دے گا اپنے کرم سے ان لوگوں کو جو صدق دل سے ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے ایسے عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان اور بے مثل نہریں وہاں ان کو آراستہ کیا جائے گا سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے اور ان کے لباس وہاں پر ریشم کے ہوں گے

۲۴۔۔۔     اور ان کو یہ سب کچھ اس لئے ملے گا کہ دنیا میں انہیں ہدایت و توفیق مل گئی تھی پاکیزہ قول کو قبول کرنے کی اور انہیں ہدایت و توفیق مل گئی تھی خدائے ستودہ صفات کے راستے کو اپنانے کی

۲۵۔۔۔      اس کے برعکس جو لوگ اڑے رہے تھے اپنے کفر و باطل پر، اور جو روکتے ہیں اللہ کے راستے سے اور اس مسجد حرام سے جس کو ہم نے اس شان کا بنایا کہ اس میں ایک برابر ہیں وہاں کا رہنے والا اور باہر سے آنے والا دونوں تو ایسے لوگ یقیناً اپنے کئے کا بدلہ پا کر رہیں گے اور مسجد حرام تو ایسی بے مثال عظمت کی جگہ ہے کہ جو کوئی اس میں کسی بے دینی کے کام کا ارادہ بھی کرے گا ظلم و زیادتی کے ساتھ تو ہم اس کو مزہ چکھائیں گے دردناک عذاب کا۔

۲۶۔۔۔     اور وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس گھر یعنی خانہ کعبہ کی نشاندہی کر دی تھی اس کے حکم کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہرانا اور پاک رکھنا میرے گھر کو اس کے گرد طواف کرنے والوں قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کی عبادات بجا لانے والوں کے لئے

۲۷۔۔۔      اور اعلان کر دو لوگوں کے درمیان حج کا، کہ اس کے نتیجے میں وہ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیدل بھی اور طرح طرح کی ان پتلی دبلی اونٹنیوں اور دوسری قسما قسم کی سواریوں پر بھی جو چلی آئیں گی ہر دور دراز مقام سے

۲۸۔۔۔     اور یہ لوگ وہاں اس لئے آئیں گے تاکہ یہ آ موجود ہوں طرح طرح کے اپنے ان فائدوں کے لئے جو ان کے لئے وہاں رکھے گئے ہیں اور تاکہ یہ اللہ کا نام لیں چند مقررہ دنوں ان چوپایوں پر جو کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ان کو عطاء فرمائے ہیں پس کھاؤ تم لوگ ان کے گوشت میں سے خود بھی اور کھلاؤ ان میں سے تنگ حال محتاجوں کو بھی

۲۹۔۔۔      پھر قربانی کے بعد لوگوں کو چاہیے کہ وہ دور کریں اپنا میل کچیل، اور طواف کریں رحمتوں اور برکتوں بھرے اس قدیم گھر کا یہ بات جو کہ حج کے بعض احکام سے متعلق ہو چکی

۳۰۔۔۔     اور اب مزید سنو کہ جو کوئی تعظیم و تکریم کرے گا اللہ کی قائم کردہ حدوں کی تو وہ خود اسی کے لئے بہتر ہو گا اس کے رب کے یہاں اور حلال قرار دے دئیے گئے تمہارے لئے سب چوپائے جو اس نے اپنے کرم سے تمہیں بخشے ہیں سوائے ان چند ایک کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں پس تم لوگ بچو اور دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے

۳۱۔۔۔     اس طور پر کہ تم خاص اللہ کے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کہ شرک بغاوت اور ناقابل معافی جرم ہے اور جس نے شرک کیا اللہ کے ساتھ تو وہ گویا گر گیا آسمان کی بلندیوں سے اور اس کو بوٹی بوٹی کر کے اچک لیا پرندوں نے یا اس کو پھینک دیا ہوا نے کسی ایسی دور دراز جگہ میں جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں

۳۲۔۔۔     یہ بات بھی بطور ایک قاعدہ کلیہ کے ہو چکی اور مزید سنو کہ جس نے تعظیم و تکریم کی اللہ کے مقررہ کردہ شعائر اور اس کی قائم فرمودہ یادگاروں کی تو یقیناً یہ بات دلوں کے تقویٰ میں سے ہے ۔

۳۳۔۔۔     تمہارے لئے قربانی کے ان جانوروں میں طرح طرح کے فائدے ہیں ایک مقرر وقت تک پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اس قدیم گھر کے پاس ہے

۳۴۔۔۔     اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ وہ لوگ چوپایوں کی قسم کے ان مخصوص جانوروں کی قربانی کے موقع پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشنے ہیں پس معبود تم سب کا اے لوگوں ایک ہی معبود ہے یعنی اللہ تعالیٰ پس تم سب دل و جان سے جھک جاؤ اسی وحدہٗ لا شریک کے حضور اور خوشخبری سنا دو اے پیغمبر! ان عاجزی کرنے والوں کو

۳۵۔۔۔     جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو کانپ اٹھیں ان کے دل اور جو صبر و تسلیم سے کام لیتے ہیں ہر اس مصیبت پر جو ان پر پہنچتی ہے اور جو قائم رکھنے والے ہیں نماز کو اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہوتا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں

۳۶۔۔۔     اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا ہے تمہارے لئے ان میں بہت بڑی بھلائی ہے پس تم انہیں ذبح یعنی نحر کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لو ان کو کھڑا کر کے پھر ذبح یعنی نحر کے بعد جب وہ گر جائیں اور ٹھنڈے ہو جائیں تو تم ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کو بھی جو سوال کے ذریعے اپنی حاجت پیش کرتے ہیں اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے قابو میں کر دیا تاکہ تم شکر ادا کرو اپنے خالق و مالک کا

۳۷۔۔۔     اور یاد رکھو کہ اللہ کو نہ تو ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ہی ان کے خون بلکہ اس کے یہاں تو صرف تمہاری پرہیزگاری اور اخلاص نیت کی پونجی ہی پہنچتی ہے اسی طرح اس نے اپنے فضل و کرم سے ان کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ تم لوگ اللہ کی بڑائی کرو اپنے قول و فعل سے کہ اس نے نوازا ہے تم کو حق و ہدایت کی عظیم الشان دولت سے اور خوشخبری سنا دو اے پیغمبر! نیکوکاروں کو

۳۸۔۔۔     بے شک اللہ تعالیٰ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے بے شک اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کسی بھی دغا باز ناشکرے کو

۳۹۔۔۔     جہاد کی اجازت دے دی گئی ان ستم رسیدہ لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد پر بہر حال پوری قدرت رکھتا ہے

۴۰۔۔۔      جن کو نکال باہر کیا گیا ان کے گھروں سے بغیر کسی حق کے ان کا کوئی جرم و قصور نہیں سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و عنایت سے لوگوں کو ایک دوسرے سے ہٹاتا اور اس طرح ان کا زور توڑتا نہ رہتا تو مسمار کر دی جاتیں تمام خانقاہیں گرجے ، کنیسے ، اور وہ مسجدیں جن میں بکثرت نام لیا جاتا ہے اللہ وحدہٗ لا شریک کا اور یقیناً اللہ مدد فرماتا ہے اس کی جو مدد کرتا ہے اس کے دین کی بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی قوت والا نہایت ہی زبردست ہے

۴۱۔۔۔     یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں تو یہ قائم کریں گے نماز کو اور ادا کریں گے زکوٰۃ کو اور حکم دیں گے نیکی کا اور روکیں گے برائی سے اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے سب کاموں کا انجام

۴۲۔۔۔     اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں اے پیغمبر! تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یقیناً ان سے پہلے قوم نوح اور عاد و ثمود بھی جھٹلا چکے ہیں اپنے اپنے پیغمبروں کو

۴۳۔۔۔     اور قوم ابراہیم اور قوم لوط بھی

۴۴۔۔۔     اور دین والے بھی اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا جا چکا ہے جس پر میں نے پہلے تو ان کافروں کو مہلت دی مگر آخر جب ان کو پکڑا تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب؟

۴۵۔۔۔      سو کتنی ہی بستیاں ایسی تھی جن کو ہم نے تباہ کر ڈالا جب کہ وہ اڑی رہیں اپنے ظل پر، سو دیکھو کہ اب وہ گری پڑی ہیں اپنی چھتوں پر اور کتنے ہی کنوئیں ہیں بے کار پڑے ہوئے اور کتنے ہی بلند و بالا اور مضبوط محل ہیں جو کھنڈر بنے ہوئے ہیں

۴۶۔۔۔     تو کیا غفلت میں ڈوبے یہ لوگ چلتے پھرتے نہیں عبرتوں بھری اس زمین میں ؟ کہ ان کے ایسے عبرت پذیر دل ہوتے جن سے یہ سوچتے سمجھتے حق اور حقیقت کو یا ان کے ایسے کان ہوتے جن سے یہ سنتے پیغام حق و صداقت کو بات یہ ہے کہ سر کی یہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں

۴۷۔۔۔     اور نصیحت قبول کرنے کے بجائے یہ لوگ تو آپ سے عذاب ہی کی جلدی مچائے جا رہے ہیں حالانکہ اللہ کبھی خلاف ورزی نہیں فرماتا اپنے وعدے کی اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے رب کے یہاں کا ایک دن اے لوگو! تمہارے شمار کے ایک ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے ۔

۴۸۔۔۔     اور پھر سن لو کہ کتنی ہی بستیاں ایسی ہوئی ہیں جو کہ کمر بستہ تھیں اپنے ظلم پر ہمارا معاملہ ان سے یہ رہا کہ پہلے تو میں نے ان کو ڈھیل دے رکھی مگر آخرکار ان کو پکڑا اور سب کو بہر حال میرے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے

۴۹۔۔۔     ان سے صاف کہہ دو کہ اے لوگوں سوائے اس کے نہیں کہ میں تو صرف خبردار کر دینے والا ہوں تم سب کے لئے کھول کر حق اور حقیقت کو

۵۰۔۔۔     سو جو لوگ ایمان لے آئیں گے اور وہ کام بھی نیک کریں گے تو ان کے لئے تو بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی

۵۱۔۔۔     اور جو ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے وہ ساتھی اور یار ہیں دوزخ کے

۵۲۔۔۔      اور ہم نے آپ سے پہلے اے پیغمبر! جو بھی کوئی رسول یا نبی بھیجا، اس کا حال یہی رہا کہ جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے خلل اندازی کی اس کی تمنا و آرزو میں پھر اللہ مٹا دیتا ہے اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا ہے اور پکا اور پختہ کر دیتا ہے وہ اپنی آیتوں کو اور اللہ تو سب کچھ جاننے والا بڑا ہی حکمت والا ہے

۵۳۔۔۔     اور اللہ ایسا اس لئے ہونے دیتا ہے تاکہ وہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو فتنے اور آزمائش کا سامان بنا دے ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے شک اور نفاق کا نیز ان لوگوں کے لئے جن کے دل سخت ہو گئے ہوتے ہیں کفر و باطل کی سیاہی سے اور بے شک ظالم لوگ پڑے ہیں بہت دور کی مخالفت اور ہت دھرمی میں

۵۴۔۔۔     نیز یہ اس لئے کہ تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم کا نور بخشا گیا ہے کہ یہی بات قطعی طور پر حق ہے تمہارے رب کی جانب سے پھر وہ اس پر مزید پختگی سے ایمان لے آئیں اور اس کے نتیجے میں جھک جائیں ان کے دل اس حق و صدق کے آگے اور بے شک اللہ ہدایت سے سرفراز فرمانے والا ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہوں سیدھی راہ کی طرف

۵۵۔۔۔     رہ گئے وہ لوگ جو اڑے رہے اپنے کفر و باطل پر تو وہ اس حق کی طرف سے ہمیشہ شک کی دلدل ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ اچانک آ پہنچے ان پر قیامت کی وہ گھڑی یا آ پہنچے ان پر عذاب ایک بڑے ہی منحوس دن کا

۵۶۔۔۔     اس روز بادشاہی اللہ ہی کی ہو گی وہی فیصلہ فرمائے گا ان کے درمیان پورے عدل انصاف کے ساتھ سو جو لوگ صدق دل سے ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے وہ تو نعمتوں بھری جنتوں میں ہوں گے

۵۷۔۔۔     مگر جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور جھٹلایا ہو گا ہماری آیتوں کو تو ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہو گا

۵۸۔۔۔     اور جن لوگوں نے ہجرت کی اللہ کی راہ میں پھر وہ قتل کر دئے گئے یا خود مرگئے تو اللہ ان کو ضرور نوازے گا ایک بڑے ہی عمدہ رزق سے اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب سے بہتر روزی رساں ہے

۵۹۔۔۔     وہ ان کو اپنے کرم سے ضرور داخل فرمائے گا ایک ایسی عظیم الشان جگہ میں جس کو یہ لوگ دل و جان سے پسند کریں گے بے شک اللہ تعالیٰ پوری طرح جاننے والا بڑا ہی بردبار ہے

۶۰۔۔۔     یہ مضمون تو ہو چکا اور اب مزید سنو کہ جو کوئی اتنا ہی بدلہ لے جتنی کہ اسے تکلیف پہنچائی گئی پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور اس کی مدد فرمائے گا بے شک اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا نہایت ہی معاف کرنے والا ہے ۔

۶۱۔۔۔     یہ اس لئے کہ اللہ ہی ہے جو رات کو داخل کرتا ہے دن میں اور دن کو داخل کرتا ہے رات میں اور بے شک اللہ ہی ہے ہر کسی کی سنتا سب کچھ دیکھتا

۶۲۔۔۔     یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور جن کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں اس کے سوا وہ سب باطل ہیں اور یقینی طور پر اللہ ہی بلند مرتبہ بڑی ہی شان والا

۶۳۔۔۔     کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور رحمت شاملہ کی بناء پر کیسے حکمت بھرے نظام کے مطابق آسمان سے پانی اتارا ہے پھر اس سے ہری بھری اور سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے خشک اور مردہ پڑی ہوئی یہ زمین بلاشبہ اللہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی باخبر ہے

۶۴۔۔۔     اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے بلاشبہ اللہ ہی ہے جو ہر طرح سے بے نیاز اور ہر تعریف کے لائق ہے

۶۵۔۔۔     پھر کیا تم نے کبھی اپنے گردو پیش پھیلی ہوئی اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے کس قدر حکمتوں بھرے نظام کے تحت تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ان سب چیزوں کو جو کہ زمین میں ہیں اور ان دیو ہیکل جہازوں اور طرح طرح کی کشتیوں کو بھی جو کہ رواں دواں ہیں سمندر میں اس کے حکم سے اور اسی نے روک رکھا ہے آسمان کو اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے اس سے کہ وہ گر پڑے زمین پر مگر اسی کے اذن سے بلاشبہ اللہ پاک لوگوں پر بڑا ہی مہربان نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے

۶۶۔۔۔     اور وہ اللہ وہی ہے جس نے تم سب کو زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور دے گا پھر وہی تمہیں قیامت میں زندہ کرے گا پھر بھی یہ انسان اس کا ناشکرا اور نافرمان ہے ؟ واقعی یہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے

۶۷۔۔۔     ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا اک طریقہ مقرر کیا ہے جس پر ان کو چلنا ہوتا ہے پس ان لوگوں کو آپ کے ساتھ اس معاملے میں کسی بھی طرح جھگڑے کا حق نہیں اور آپ بلاتے رہیں اپنے رب کی عبادت و بندگی کی طرف بلاشبہ آپ قطعی طور پر سیدھے راستے پر ہیں

۶۸۔۔۔     اور اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں تو ان سے کہہ دو کہ اللہ کو خوب معلوم ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ کر رہے ہو

۶۹۔۔۔     اللہ فیصلہ فرما دے گا تم سب کے درمیان عملی اور آخری طور پر ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں تم لوگ اختلاف کرتے رہے ہو

۷۰۔۔۔     کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ قطعی طور پر جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمان و زمین اس کائنات میں ہے بے شک یہ سب کچھ ثبت و مندرج ہے ایک عظیم الشان کتاب میں بلاشبہ یہ سب کچھ اللہ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں

۷۱۔۔۔     مگر اس سب کے باوجود یہ لوگ ہیں کہ پوجے اور پکارے جا رہے ہیں ایسی بے حقیقت چیزوں کو جن کے بارہ میں نہ اللہ نے کوئی سند اتاری اور نہ ہی ان لوگوں کے پاس ان کے بارہ میں کسی طرح کا کوئی علم ہے اور ایسے ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں

۷۲۔۔۔     اور حق و اہل سے ان کے بغض و عناد کا عالم یہ ہے کہ جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری کھلی اور واضح آیتیں اور تم ان لوگوں کے چہروں میں ناگواری و ناپسندیدگی کے آثار ابھرتے دیکھو گے جو اڑے ہوئے اپنے کفر پر ایسا لگتا ہے کہ یہ ابھی ٹوٹ پڑیں گے ان علمبرداران حق پر جو ان کو پڑھ کو سناتے ہیں ہماری آیتیں ان سے کہو کہ کیا میں تم کو اس سے بھی بڑھ کر ایک ناگوار چیز نہ بتا دوں ؟ وہ جہنم کی وہ آگ ہے جس کا اللہ نے وعدہ فرما رکھا ہے ان بدبختوں سے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

۷۳۔۔۔     وہ اے لوگوں ایک مثال بیان کی جاتی ہے پس تم اسے کان لگا کر سنو بے شک جن ہستیوں کو تم لوگ پوجتے پکارتے ہو اللہ کے سوا وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کی کوشش کے لئے وہ سب اکٹھے بھی ہو جائیں اور مکھی بنانا تو دور کی بات ہے ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر وہ مکھی ان سے کچھ چھین لے تو یہ اس کو بھی اس سے چھڑا نہیں سکتے کتنا کمزور ہے چاہنے والا اور کتنا کمزور ہے وہ جس سے مدد چاہی جاتی ہے

۷۴۔۔۔     ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا بے شک اللہ تعالیٰ بڑا ہی قوت والا نہایت ہی زبردست ہے

۷۵۔۔۔     وہ اپنی پیغام رسانی کے لئے اپنی مرضی و اختیار سے چنتا ہے پیغمبر فرشتوں سے بھی اور انسانوں سے بھی بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی سنتا سب کچھ دیکھتا ہے وہ پوری طرح جانتا ہے

۷۶۔۔۔     وہ سب کچھ جو کہ ان لوگوں کے سامنے ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ ان کے پیچھے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں سب کام

۷۷۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم رکوع اور سجدہ کرو اپنے رب کی رضا کیلئے اور اپنے رب ہی کی بندگی کرو اور نیک کام کرتے رہا کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو سکے

۷۸۔۔۔     اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اسی وحدہٗ لاشریک نے تم کو چنا ہے اپنی بندگی اور اپنے دین کی خدمت کے لئے اور دین کے بارے میں اس نے تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی قائم ہو جاؤ تم لوگ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا پہلے والی آسمانی کتابوں میں بھی اور اس قرآن میں بھی تاکہ تمہارے پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو پس تم لوگ نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور وابستہ ہو جاؤ اللہ کے دین سے وہی کار ساز ہے تم سب کا سو کیا ہی اچھا کارساز ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے ۔

تفسیر

 

۱.      سو وہ یوم عظیم اتنا عظیم اور اس قدر ہولناک ہو گا کہ اس کی ہولناکی کا اندازہ کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں اس لئے عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ انسان اس یوم عظیم سے ڈرے۔ اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے، اور زندگی کے ہر لمحے کو اسی سے سرفرازی کے حصول کے لئے صرف کرے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید،

۲.      اس ارشاد سے اس یوم عظیم کی تصویر پیش فرما دی گئی۔ چنانچہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اس یوم عظیم کی ہولناکی کا عالم یہ ہو گا کہ اس ہولناکی سے دودھ پلاتی عورت اپنے دودھ پیتے ہوئے اس بچے کو بھی بھول جائے گی جو اس کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتا تھا اور مارے خوف کے حاملہ عورت اس روز اپنا حمل گرا دیگی۔ اور لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ مدہوش نظر آئیں گے اور یہ بے ہوشی اور مدہوشی کسی شراب وغیرہ کے نشے کی بناء پر نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ اس یوم عظیم کی ہولناکی ہو گی جو ان کے ہوش اڑا کر رکھ دے گی، سو اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں سے غفلت و لاپرواہی برتنا سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے۔ پس عقل و نقل کا تقاضا ہے کہ انسان اس یوم عظیم کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے اور اپنے رب سے ڈرتا رہے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید،

۳.      سو اللہ کے بارے میں جھگڑنے اور بحث کرنے والے ایسے لوگ راہِ حق و ہدایت سے محروم ہو کر ہر شیطان سرکش کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور شیطان کا لفظ شیاطین انس وجن دونوں کو شامل ہے، اور انسان کو راہ حق و ہدایت سے ہٹانے اور محروم کرنے کے سلسلہ میں ان دونوں کا باہم گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ شیاطین جن ظاہر میں نظر نہیں آتے، اس لئے وہ اپنی اغراض خبیثہ کی تکمیل کے لئے شیاطین انس ہی کو اپنا آلہ کار اور اپنی فتنہ انگیزیوں کا ذریعہ بناتے ہیں وہ ان کی طرف اپنی فتنہ سامانیوں کا القاء کرتے ہیں، اور یہ مختلف ناموں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے ان کو آگے چلاتے اور پھیلاتے ہیں، قرآن حکیم نے ایسے ائمہ ضلالت کے لئے شیطان ہی کا لفظ استعمال کیا ہے، شیاطین انس اپنے ان شیطانی پروگراموں کو پھیلانے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ہمیشہ خیر خواہ مصلح اور ناصح بن کر سامنے آتے ہیں، اور وہ اپنے شیطانی جال طرح طرح کے خوشنما ناموں سے بچھاتے پھیلاتے ہیں، اور اس طرح وہ سادہ لوح عوام کو خدا کی راہ سے ہٹا کر اپنے ڈگر پر اور گمراہی میں ڈال دیتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۵.      ۱: سو رحم مادر کے اندر کے یہ تمام انقلابات جو تم لوگوں پر گزرتے ہیں، سب ہماری ہی قدرت اور رحمت و عنایت کے تابع ہوتے ہیں، ہم جس کو چاہیں اور جس شکل میں چاہیں رکھتے ہیں یہ سب کچھ کلیۃً ہماری ہی مشیئت پر موقوف و منحصر اور ہماری ہی قدرت و عنایت کے تابع ہوتا ہے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، خوبصورت ہو یا بدصورت، کامل ہو یا ناقص، کسی دوسرے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں اور پھر رحم مادر میں ان کے استقرار کی مدت کا معاملہ بھی ہماری ہی مشیت پر منحصر ہے اس میں بھی کسی کا کوئی عمل دخل نہیں، ہم جس کو چاہیں اور جتنا چاہیں رحم مادر میں رکھیں۔ سو اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ کے عظیم الشان نمونے اور مظاہر سامنے آتے ہیں، اور ایسے عظیم الشان کہ انسان اگر ان میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لے تو دل و جان سے اس کے آگے جھک جائے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اس کے آگے جھکا ہی رہے، یہی تقاضائے عقل و نقل ہے اور یہی مقتضیٰ ہے شکر نعمت کا، اور یہی لائق ہے بندے کی شان عبدیت و بندگی کے، اور یہی ذریعہ و وسیلہ ہے دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا، اور جب ان میں سے کسی بھی مرحلے میں کوئی اس وحدہٗ لاشریک کا کسی بھی درجے میں شریک وسہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۲: یعنی تم میں سے کوئی تو بچپن اور جوانی وغیرہ کے مختلف مراحل ہی میں فوت ہو جاتا ہے اور کوئی بڑھاپے کی آخری منزل اور رذیل ترین عمر تک پہنچ جاتا ہے، کتنے ہی اس طرح اپنی آخرت کو سدھارتے ہیں، اور کتنے ہی اس طرح یہ سب کچھ تمہارے سامنے ہوتا ہے، اور ہمیشہ اور روزانہ ہوتا ہے۔ اور لگاتار ہوتا رہتا ہے تم لوگ اس کو ہمیشہ دیکھتے اور اس کا مشاہدہ کرتے ہو مگر سبق نہیں لیتے۔ سو تمہاری زندگی کے ان مختلف مراحل اور تمہارے ان تغیرات و انقلابات میں بھی تمہارا کوئی عمل دخل یا کسی طرح کا کوئی اختیار نہیں، تو آخر یہ سب کچھ کس کی قدرت و حکمت کا نتیجہ و ثمرہ ہے سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک جو تمہارا خالق و مالک حقیقی ہے تمہارا وجود اول سے لے کر آخر تک اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور تمہاری تخلیق و تکوین کے ان مختلف ادوار و مراحل میں عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ تم لوگ ان کے بارے میں سوچتے اور غور و فکر کرتے ہی نہیں ہو، الا ماشاء اللہ،

۶.      سو تمہارے جسموں کے اندر کے یہ تغیرات اور تمہارے پیش پا افتادہ یہ زمین اور اس کے اندر رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں، جب تمہارے سامنے موجود ہیں اور ہمیشہ اور ہر وقت موجود ہیں، اور ہر چہار سُو پھیلی بکھری موجود ہیں، اور ان میں تم لوگ زندگی بعد الموت کے طرح طرح کے نمونے اور مظاہر دیکھتے ہو، اور ہمیشہ اور ہمہ وقت دیکھتے ہو، تو پھر تم لوگ اپنے دوبارہ جی اٹھنے کو بعید از وقوع کیوں سمجھتے ہو؟ اپنے پیش پا افتادہ اس زمین کو تم لوگ ہمیشہ جیتے اور مرتے دیکھتے ہو۔ ہر موسم اور ہر فصل میں حیات و موت کا یہ سلسلہ تم لوگ خود دیکھتے ہو۔ اور زندگی و موت کی یہ ریہرسل تمہارے سامنے ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، اور اسی لئے ہوتی ہے کہ تم اس سے سبق لو، عبرت پکڑو، اور قیامت کا مشاہدہ اس کے وقوع سے پہلے کر لو۔ اور اس کے نتیجے میں راہ حق کو اپنا کر تم لوگ اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کر لو، مگر تم ہو کہ اس سب کے باوجود اپنی آنکھیں کھولنے۔ اور ہوش میں آنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے، آخر کیوں؟ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ؟

۹.      سو ایسے لوگوں کے لئے یہاں پر دو عذابوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک دنیا میں اور دوسرا آخرت میں، دنیا میں یہ کہ ان کے لئے رسوائی ہو گی، کیونکہ انہوں نے حق کے مقابلے میں استکبار یعنی اپنی بڑائی کے گھمنڈ کا مظاہرہ کیا، اور اسی بناء پر انہوں نے حق سے منہ موڑا۔ اس لئے وہ ذلت و رسوائی کے مستحق ہوئے، نیز جب انہوں نے حق سے منہ موڑا اور حق اور اہل حق کے خلاف اپنے اندر نفرت و عداوت، اور بغض و حسد کی آگ جلائی، اور یہ اس میں خود بھی جلتے رہے، اور دوسروں کو بھی جلاتے رہے، تو اس کے نتیجے میں یہ آخرت کے اس جہان جزا وسزا میں دوزخ کی آگ میں جلیں گے، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حق کا انکار، اور اہل حق کے ساتھ بغض و عناد رکھنے کا جرم کتنا ہولناک اور کس قدر سنگین جرم ہے، اور اس کا نتیجہ و انجام کتنا بھیانک اور کس قدر ہولناک ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم،

۱۱.    سو اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ دنیاوی زندگی کی یہ فرصت محدود دراصل آخرت کی کمائی کی مہلت اور اس کے لئے کھیتی ہے انسان اس میں جو اور جیسی فصل بیجے گا وہی کل آخرت میں کاٹے گا۔ سو ایسے منکر اور مکذب لوگوں نے چونکہ اس دنیا میں ایمان و عمل کی کمائی کے بجائے استکبار اور نفرت وحسد ہی کی فصل بیجی تھی اس لئے اس کے نتیجے میں یہ وہاں پر ذلت و رسوائی اور آتش دوزخ ہی کا پھل پائیں گے سو اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ سب کچھ تمہاری اپنی اس کمائی کا نتیجہ و بدلہ، اور اسی کا ثمرہ اور پھل ہے، جو تم لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں آگے بھیجی تھی۔ پس اب تم اس کا مزہ چکھو، اور چکھتے ہی رہو، ورنہ اللہ تعالیٰ تو کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، پس اب تم لوگ اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتو۔ سو اس سے ان کی آتش یاس و حسرت میں اور اضافہ ہو گا، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۲.    سو اس قماش کے لوگوں کے نزدیک اصل چیز دنیاوی مفادات اور مادی فوائد و منافع ہی ہوتے ہیں، ان کا مطمح نظر انہی کا حصول ہوتا ہے، وہ جیسے اور جہاں سے بھی ملیں، جبکہ مومن صادق کے نزدیک اصل چیز ایمان و یقین کی دولت ہوتی ہے جس کے لئے وہ دنیائے دُوں کی ہر نعمت کو قربان کر دینے کو تیار ہوتا ہے۔ لیکن لذت ایمان و یقین سے محروم لوگوں کے نزدیک چونکہ دنیاء دُوں کا متاع فانی اور حُطام زائل ہی سب کچھ ہوتا ہے اس لئے ان کے یہاں اصل چیز یہی ہوتی ہے دنیا مل گئی تو مطمئن ہو گئے۔ نہیں تو الٹے پاؤں پھر گئے، جس سے ایسے لوگ متاعِ ایمان سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اور اہل دنیا کی نظروں میں بھی گر جاتے ہیں، اور یہی ہے خسران مبین۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۳.    سو جس چیز کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہو اس کو پکارنا حماقت در حماقت ہے اور یہ مشرکوں کی مت ماری اور محرومی کا کھلا ثبوت ہے پس مولیٰ اور عشیر دونوں ہی ناہنجار ہیں مولیٰ سے یہاں پر مراد وہ شرکاء و شفعاء ہیں جن کو خدا کے سوا کارساز بنایا گیا ہو، والعیاذُباللہ، اور عشیر سے مراد وہ مشرکین ہیں جنہوں نے ان کو مرجع وکارساز بنایا۔ سو مطلب یہ ہوا کہ پیر و مرید ہو، امام و مقتدی، اور لیڈر و پیرو دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے، اور ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے سکے ہیں اور بُرے اور محروم و بدبخت ہونے میں یہ دونوں ہی مجرم و بدبخت اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر محروم ہیں۔ سو یہ ارشاد ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ضَعُفَ الطَّالِبُ والْمَطْلُوْب۔ پس کفر و شرک محرومیوں کی محرومی، اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۶.    یعنی اس قرآن کو تو ہم نے اسی طرح واضح اور روشن دلائل کی صورت میں اتارا ہے جس سے حق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود جو لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے وہ ان کی اپنی کور باطنی اور خبث نیت کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اس کے طالب ہوتے ہیں اور وہ ایسا چاہتے ہیں، اور اس کے لئے وہ اپنی عقل و بصیرت سے کام لیتے ہیں، اور اس کے برعکس جو ہٹ دھرم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اندھے بہرے بن جاتے ہیں قانون قدرت، اور دستور خداوندی کے مطابق ان کے دلوں پر مہر کر دی جاتی ہے اور ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی جاتی ہے، جس سے وہ نور حق و ہدایت سے محروم کے محروم ہی رہتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۷.    سو وہ جب ہر چیز پر مطلع اور اس سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس سے کوئی بھی چیز مخفی نہیں تو وہ اپنے مخلص ایماندار بندوں کی سرفروشیوں اور جانبازیوں سے بھی آگاہ ہے، اور مخالفین و منکرین کی شرارتوں اور شر انگیزیوں سے بھی، اس لئے وہ ہر ایک کے ساتھ ٹھیک ٹھیک وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ اپنے عمل کی بناء پر مستحق ہو گا، پس اس ارشاد میں اہل ایمان کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے اور اہل کفر و باطل کے لئے تنبیہ و تہدید، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۷.    ۱: سو کائنات کی ہر چیز اپنی فطرت و طبیعت اور اپنی تکوین و تخلیق کے اعتبار سے ابراہیمی مزاج رکھتی ہے اس لئے وہ اپنے خالق و مالک حقیقی ہی کے آگے جھکتی، اور اپنی زبان حال سے اسی کے آگے جھکنے کا درس دیتی ہے، پس سورج و چاند کے یہ عظیم الشان کُرے، چمکتے دمکتے یہ ستارے یہ فلک بوس پہاڑ اور یہ عظیم الشان درخت اور قسما قسم کے جانور اور چوپائے سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کے حکم و ارشاد کے پابند اور اس کے آگے مستخر ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی سرمو اس کے مقرر کردہ قوانین اور اس کے طے کردہ اصول و ضوابط سے انحراف نہیں کر سکتا۔ سورج جس کو نادانوں نے پُوجا اور پُوجتے ہیں، وہ اپنے طلوع و غروب وغیرہ کے مختلف احوال و تغیرات کے ذریعے اپنی بزبان حال گواہی دے رہا ہے کہ وہ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں ہر وقت اور ہر حال میں اپنے رب ہی کے آگے قیام رکوع اور سجدے کی حالت میں رہتا ہے، اور اسی حقیقت کا اظہار چاند اپنی مختلف گھٹتی بڑھتی حالتوں کے ذریعے کرتا ہے، سو کس قدر احمق اور کتنے ظالم ہیں وہ لوگ جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی عبادت و بندگی کے بجائے ان ہی مختلف قسم کی مخلوقات کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں؟ اور اس طرح ایسے لوگ اپنی ذلت و رسوائی اور ہلاکت و تباہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،

۲:  یعنی ایسے لوگ جن کی فطرت سلیم ہے اور انکا ابراہیمی مزاج، اور تکوینی خصلت بحال ہے، وہ راہ حق و ہدایت پر قائم ہیں، سو ایسے خوش نصیب لوگ کائنات کی دوسری تمام بے ارادہ اشیاء کی طرح اللہ تعالیٰ ہی کے حکم و ارشاد کے تابع اور اسی کے حضور سربسجود ہیں پس ایسے لوگ اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق و مالک کے حضور ہی سربسجود ہوتے ہیں اور ان کی یہ سجدہ ریزی چونکہ انکے اپنے ارادہ و اختیار سے اور اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے حصول ہی کے لئے ہوتی ہے اس لئے اس کے عوض ان کو اس کی طرف سے خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازا اور سرفراز کیا جائے گا اور آخرکار ایسے لوگ جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرشار ہونگے۔ سو یہی راستہ ہے دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مندی اور سرفرازی کا، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید۔

۳: سو اس سے سعادت مندوں کے برعکس ان اشقیاء کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنی فطرت سلیمہ کو مسخ کر دیا ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے ارادہ و اختیار کو غلط استعمال کر کے اپنے خالق و مالک کے حضور سجدہ ریزی کے اس سب سے بڑے شرف سے محروم ہو جاتے ہیں جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا واحد ذریعہ و وسیلہ ہے، اور جس کے حصول و اختیار کے موقع سے قدرت نے ان کو اپنے فضل و کرم سے نوازا ہوتا ہے مگر ایسے لوگ اپنے سُوئے اختیار، اور اپنی بدبختی کی بناء پر اس سے منہ موڑ کر اپنے سے فروتر مخلوق کے آگے جھکنے اور سجدہ کرنے کی ذلت کو اختیار کرتے ہیں۔ اور اس طرح ایسے لوگ سب نیچوں سے نیچ بن کر رہ جاتے ہیں، کائنات کی تمام چیزیں جن کو حضرت حق جل مجدہ، نے انسان ہی کی خدمت اور بہتری کے لئے پیدا فرمایا ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو انسان کے آگے جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کے لئے تیار ہو۔ اور غیر اللہ کے آگے جھکنے کی ذلت کو گوارا کرے۔ لیکن یہ انسان ہے جو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود غیر اللہ کو معبود مان کر اس کے آگے جھکنے کی ذلت کو نہ صرف گوارا کرتا ہے بلکہ اس کے لئے برضاء و رغبت تیار ہوتا۔ اور اس کو اپناتا ہے اور اس کے لئے یہ طرح طرح کی ذلتیں اٹھاتا اور ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں گرتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو اشرف المخلوقات اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہوتے ہوئے بھی اپنے سے فروتر مخلوق کے آگے جھکے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہو۔ اس سے بڑھ کر محروم، ظالم، اور بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کا عذاب پکا ہو گیا۔ کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو ہولناک ذلت کے اس ہاوئے میں ڈالا۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ جو اپنے ارادہ و اختیار اور چاہت و رغبت سے ذلت و تباہی کے ایسے گڑھے میں گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی راہ پر چلتا کر دیتا ہے جس کو اس نے خود اپنے ارادہ و شوق سے اختیار کیا ہوتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّیٰ وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا۔ سو اس ارشاد ربانی سے ایک بات تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کا اصل اور حقیقی شرف اس کی عقیدہ توحید سے وابستگی ہی میں مضمر ہے وہ جب اپنے آپ کو اس شرف سے محروم کر دیتا ہے تو پھر وہ کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی گھٹیا اور اسفل السافلین ہو کر رہ جاتا ہے والعیاذ باللہ، اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات سے انسان کی ہم آہنگی اسی وقت تک باقی اور برقرار رہ سکتی ہے جب تک اس کی پیشانی غیر اللہ کے آگے سجدے سے آلودہ نہیں ہوتی ورنہ وہ اس پوری کائنات سے بے جوڑ ہو کر رہ جاتا ہے والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین

۲۵.    یعنی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ کی خبر محذوف ہے جو اسی طرح کے کسی جملے سے محذوف و مقدر مانی جا سکتی ہے سَوَاءَنِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ، یعنی اس میں وہاں کا رہنے والا اور باہر سے آنے والا ایک برابر ہیں، سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ مسجد حرام میں عرب و عجم اور شرق و غرب کے تمام مسلمانوں کے حقوق یکساں اور ایک برابر ہیں اہل مکہ اور وہاں کے ذمہ داروں کی حیثیت مالکوں اور اجارہ داروں کی نہیں، بلکہ اس کے خادموں اور خدمت گزاروں کی ہے۔ اسی لئے یہاں پر مکہ کے باشندوں کے لئے مقیم وغیرہ کے کسی لفظ کے بجائے عاکف کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ جس سے ان کی اسی اصل حیثیت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ ان کی حیثیت حرم الٰہی کے ٹھیکیداروں اجارہ داروں اور حکمرانوں کی نہیں، بلکہ ان کی حیثیت اس کے معتکفین اور خدمت گزاروں کی ہے، کہ وہ اس کو اسی طرح حج اور عبادت کا مرکز بنائیں جس طرح کہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے بنایا تھا، اور تمام دنیا کو اس کی دعوت دیں تاکہ لوگ اس مرکز خیرات و برکات سے مستفید و فیضیاب ہونے کے لئے یہاں پر حاضری دیں۔ مگر بیت اللہ کی اس عظیم الشان اور منفرد حیثیت کے باوجود قریش نے اس کے بارے میں اس ظلم کا ارتکاب کیا کہ اس خانہ خدا کو انہوں نے ان تمام نجاستوں سے تو بھر دیا۔ جن سے پاک کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی تھی لیکن اللہ کے بندوں کو انہوں نے اس تک رسائی اور اس میں صحیح طریقے سے عبادت کرنے سے روک دیا۔ اور دعویدار بن بیٹھے اس کی تولیت کے یعنی انہوں نے ظلم بالائے ظلم کا ارتکاب کیا، اور دوہری آفت ڈھائی، باقی رہ گئی یہ بات کہ ارض حرم کی خرید و فروخت اور اس کے حقوق ملکیت کسی کو حاصل ہوتے ہیں یا نہیں تو اس کے بارے میں بحث تفسیر کی بڑی کتابوں میں موجود ہے اور ہم نے بھی اپنی بڑی تفسیر میں اس کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ یہاں اس کے ذکر و بیان کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔

۲۷.    سو ان الفاظ و کلمات سے بیت اللہ کی حاضری و زیارت کے لئے جس شوق و جوش، عشق و محبت، اور کشش و وارفتگی، کا اظہار ہو رہا ہے وہ ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود آج تک نہ صرف یہ کہ باقی و برقرار ہے بلکہ روز افزوں ہی ہے، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سڑکیں اور گلیاں، منی و عرفات کے راستے اور میدان، بزبان حال اس کا ثبوت دیتے، اور اس کا اعلان کرتے ہیں۔ اور ہر دیکھنے والا بچشم خود اس کا مشاہدہ اور ملاحظہ کر سکتا ہے۔ بلکہ اب تو ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ کے جدید آلات و وسائل کے ذریعے حج و عمرہ اور طواف و زیارت کے یہ ایمان افروز، روح پرور اور دلکش نظارے اور مناظر دنیا بھر کے لوگوں کی نظروں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ اور اس شوق دید و زیارت میں اضافے کا یہ عالم ہے کہ ارض حرمین کی وسعتیں بھی ان زائرین کی بڑھتی تعداد کو سماہنے سے عاجز آ رہی ہیں، یہاں تک کہ عالم اسلام کی مختلف حکومتیں اس کے لئے بندش اور پابندی عائد کر رہی ہیں اور بذریعہ قانون لوگوں کو پابند کر رہی ہیں کہ جو لوگ ایک مرتبہ حج کر لیں وہ پانچ برس تک دوبارہ نہیں جا سکتے، مگر لوگوں کے شوق و ذوق اور انکی وارفتگی میں اضافے اور ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ طرح طرح کے حیلوں حوالوں کے ذریعے ایسی پابندیوں کو توڑ کر بھی ارض حرمین میں حاضری کی کوشش کرتے ہیں، سبحان اللہ! کیا کہنے اس عظمت شان اور محبوبیت و وارفتگی کے۔ جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں، فالحمدللہ جل وعلا،

۳۰.    سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کی تصریح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی قائم فرمودہ حرمتوں کی تعظیم و تکریم خود بندے کے اپنے لئے بہتر ہے اور یہ اس لئے کہ یہ خود اس کے لئے اس کے رب کی رضا و خوشنودی سے سرفرازی کا ذریعہ ہو گا، پس اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم و تکریم کا فائدہ خود لوگوں کو ملے گا اور حرمات اللہ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کے احترام کا حکم و ارشاد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جیسے حرم، مسجد حرام، اشہر حرم، ہدی اور قلائد، وغیرہ کہ ان تمام چیزوں کی تعظیم و تکریم اللہ تعالیٰ کے یہاں مقصود و مطلوب ہے، اور ان کی تعظیم و تکریم کی روایت حضرت ابراہیم کے زمانے سے چلی آئی ہے، مگر مشرکین نے حضرت ابراہیم سے اپنے انتساب کے دعوے کے باوجود محض اپنے دنیاوی اغراض و مقاصد کی بناء پر اور مختلف اوہام و خرافات کے نتیجے میں آنجناب کی قائم کردہ تمام مقدس روایات کو بدل ڈالا تھا، اور اس طرح انہوں نے اپنی محرومی کا سامان خود کر لیا تھا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

 یعنی اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فضل و کرم سے تمہارے لئے تمام چوپایوں کو حلال قرار دیا تاکہ تم ان سے طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہو سکو۔ سوائے گنتی کے کچھ جانوروں کے، جن کو خود تمہاری بھلائی اور بہتری کی خاطر تم پر حرام قرار دیا گیا۔ مگر تم لوگ ہو کہ خود اپنی اہواء، و اغراض کے مطابق، اور طرح طرح کے اوہام و خرافات کی بناء پر ان میں سے کچھ کو خود اپنے طور پر حرام قرار دیتے ہو، مگر اس کی ترویج کے لئے اور اس پر مذہبی تقدس کا پردہ ڈالنے کی غرض سے تم لوگ اپنے اس عمل کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہو کہ ان باتوں کا حکم تم کو خدا نے دیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے، پس تم اس سے بچو اور احتراز کرو ورنہ اس کا بھگتان تم لوگوں کو بھگتنا پڑے گا، اسی چیز کو سورہ انعام میں افتراء علی اللہ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ وہاں ارشاد ہوتا ہے وَحَرَّمُوْا مَارَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَائً عَلَی اللّٰہ الایٰۃ (الانعام۔ ۱۴۱) یعنی ان لوگوں نے اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو از خود حرام قرار دیا اللہ پر افتراء باندھتے ہوئے، والعیاذُ باللہ جل وعلا،

۳۳.    مشرکین جب کسی جانور کو ہدی اور نیاز کے لئے نامزد کر دیتے تو اس سے کسی طرح کے انتفاع کو جائز نہیں سمجھتے تھے قرآن حکیم نے اس غلط تصور کی اصلاح کر دی۔ کہ ان شعائر کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ان سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ یعنی ان سے حسب ضرورت فائدہ اٹھانا منع نہیں، پس تم لوگ قربانی کے جانوروں کو پالو اور ان سے اس وقت تک فائدہ اٹھاؤ، جب تک کہ ان کی قربانی کا وقت نہ آ جائے، سو اس وقت تک ان سے فائدہ اٹھانے سے انکی حرمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں جب ان کی قربانی کا وقت آ جائے تو تم ان کو اللہ تعالیٰ کے اس قدیم گھر کے پاس لے جا کر، اللہ تعالیٰ کے نام پر اور اس کی رضا و خوشنودی کی خاطر ان کو ذبح کر دو۔ کہ یہ جانور جب اسی کے لئے بخشے ہیں تو اسی کے نام پر ذبح و قربان ہونے چاہئیں۔ پس اگر ان کو اس کے گھر کے سوا اور کسی تھان یا استھان پر اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام پر اور اس کی خوشنودی کے لئے ان کو ذبح کیا تو اس سے ان کی حرمت برباد ہو جائے گی اور ایسا کرنا شرک ہو گا جو کہ ظلم عظیم ہے والعیاذُ باللہ، سو قربانی کے جانوروں سے ان کے ذبح و نحر سے پہلے کسی بھی طرح کا نفع اٹھانا منع نہیں بلکہ جائز ہے۔ اور یہی تقاضا ہے دین فطرت کی تعلیمات مقدسہ کا، والحمدللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال،

۳۵.    ۱: سو اس سے مخبتین کی صفت اور ان کی کیفیت و شان کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ ان مستکبرین کی طرح نہیں ہوتے کہ جن کے سامنے جب اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ناک بھوں چڑھاتے، اور کبر و غرور سے کام لیتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ان کی صفت و شان یہ ہوتی ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل خوف و خشیت خداوندی سے کانپ اٹھتے ہیں نیز وہ ان مذبذب لوگوں کی طرح نہیں ہوتے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی دنیاوی مفادات کے نقطہ نظر سے (عَلیٰ حَرْفٍ) کرتے ہیں کہ دنیاوی مفاد حاصل ہو گیا تو مطمئن ہو گئے نہیں تو الٹے پاؤں پھر گئے، بلکہ اس کے برعکس ان مخبتین کا حال یہ ہوتا ہے کہ یہ ہر مصیبت پر صبر واستقامت سے کام لیتے ہیں۔ نماز کا ہمیشہ اور ہر حال میں اہتمام کرتے ہیں اور اللہ کے دئے بخشے میں سے برضاء و رغبت اس کی راہ میں اور اس کی خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہیں، سو ایسے ہی خوش نصیبوں کے لئے خوشخبری سنانے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید

۲: یعنی خوشخبری سنا دو ان نیکوکاروں کو جو صدق و اخلاص کے ساتھ اور اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے لئے کام کرتے ہیں سو اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ بالصفات و خصال اپنے اندر پیدا کریں گے وہ محسن اور نیکوکار ہونگے، پس اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص اور احسان ہی کی ہے لہٰذا جب صدق نیت کے ساتھ کسی جانور کو اللہ تعالیٰ کے نام پر اور اس کی رضا کے لئے قربان کیا گیا، تو اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے یہاں ثابت اور محفوظ ہو گیا۔ ورنہ جانوروں کے گوشتوں اور ان کی کھالوں وغیرہ میں سے کوئی بھی چیز اس کے یہاں نہیں پہنچتی، یہ سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے۔ اس کے یہاں تو صرف تمہارے دلوں کی نیت اور ان کا ارادہ پہنچتا ہے اور بس، اس آیت کریمہ میں خداوند قدوس کے شکر کا طریقہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ وہ اس کی تکبیر وتہلیل کی صورت ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے، کہ جب دیا بخشا سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک ہی کا ہے، تو اس پر نام بھی اسی کا لیا جانا چاہیے چنانچہ اسی حکم و ارشاد کی تعمیل میں ذبح وقربانی کے وقت جانوروں کو قبلہ رُو لٹا کر ان پر تکبیر پڑھی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے اللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، یعنی اے اللہ! یہ سب کچھ تیرا ہی دیا بخشا ہے، اور تیری ہی رضا کے لئے اس کو قربان کیا جاتا ہے، اسطرح بندہ مومن اپنے قول و فعل دونوں سے اس حقیقت کا اعلان و اظہار اور اس کا اقرار کرتا ہے کہ یہ سب کچھ تیرے ہی لئے۔ اور تیری ہی رضا و خوشنودی کے لئے قربان کیا جاتا ہے۔ اور یہی چیز حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے یہاں مطلوب ہے، وباللہ التوفیق، مزید برآں اس ارشاد ربانی میں اللہ تعالیٰ کے شکر کے اصل محرک کو بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ جب اس نے تم لوگوں کو ہدایت سے سرفراز کیا اور اس کے نور سے نوازا ہے، جس سے تمہیں تہ در تہ اندھیروں سے نکل کر حق و ہدایت کے اجالوں میں آنا نصیب ہوا، اور تمہیں اسلام و اخبات کی دولت نصیب ہوئی ہے تو اس کا حق اور تقاضا یہی ہے کہ تم اسی کی بڑائی بیان کرو، اور اسی کا اظہار حضرت ابراہیم نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی سے کیا۔ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، اور اسی بناء پر تم لوگوں کے لئے قربانی کی یہ سنت مقرر کی گئی ہے، چنانچہ روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا گیا مَاہٰذِہٖ اَلْاَضَاحِیْ یَا رسول اللہ؟ یعنی اللہ کے رسول، یہ بتلایئے کہ یہ قربانیاں کیا چیز ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، سُنُّۃَ اَبِیْکُمُ اِبْرَاہِیْمَ یعنی یہ تمہارے باب ابراہیم کی سنت ہیں عرض کیا گیا فَمَالَنَا فِیْہَا یَارَسُوْلَ اللّٰہ؟ یعنی اللہ کے رسول انمیں ہمیں کیا ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا بِکُلِّ شَعْرٰۃٍ حَسَنَۃٌیعنی تمہیں ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی، الی آخر الحدیث

۳۷.    یعنی خوشخبری سنا دو ان نیکوکاروں کو جو صدق و اخلاص کے ساتھ اور اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے لئے کام کرتے ہیں سو اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ بالا صفات و خصال اپنے اندر پیدا کریں گے وہ محسن اور نیکوکار ہونگے، پس اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص اور احسان ہی کی ہے لہٰذا جب صدق نیت کے ساتھ کسی جانور کو اللہ تعالیٰ کے نام پر اور اس کی رضا کے لئے قربان کیا گیا، تو اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے یہاں ثابت اور محفوظ ہو گیا۔ ورنہ جانوروں کے گوشتوں اور ان کی کھالوں وغیرہ میں سے کوئی بھی چیز اس کے یہاں نہیں پہنچتی، یہ سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے۔ اس کے یہاں تو صرف تمہارے دلوں کی نیت اور ان کا ارادہ پہنچتا ہے اور بس، اس آیت کریمہ میں خداوند قدوس کے شکر کا طریقہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ وہ اس کی تکبیر و تہلیل کی صورت ہی میں ادا کیا جا سکتا ہے، کہ جب دیا بخشا سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک ہی کا ہے، تو اس پر نام بھی اسی کا لیا جانا چاہیے چنانچہ اسی حکم و ارشاد کی تعمیل میں ذبح و قربانی کے وقت جانوروں کو قبلہ رُو لٹا کر ان پر تکبیر پڑھی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے اللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، یعنی اے اللہ! یہ سب کچھ تیرا ہی دیا بخشا ہے، اور تیری ہی رضا کے لئے اس کو قربان کیا جاتا ہے، اسطرح بندہ مومن اپنے قول و فعل دونوں سے اس حقیقت کا اعلان و اظہار اور اس کا اقرار کرتا ہے کہ یہ سب کچھ تیرے ہی لئے۔ اور تیری ہی رضا و خوشنودی کے لئے قربان کیا جاتا ہے۔ اور یہی چیز حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے یہاں مطلوب ہے، وباللہ التوفیق، مزید برآں اس ارشاد ربانی میں اللہ تعالیٰ کے شکر کے اصل محرک کو بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ جب اس نے تم لوگوں کو ہدایت سے سرفراز کیا اور اس کے نور سے نوازا ہے، جس سے تمہیں تہ در تہ اندھیروں سے نکل کر حق و ہدایت کے اجالوں میں آنا نصیب ہوا، اور تمہیں اسلام و اخبات کی دولت نصیب ہوئی ہے تو اس کا حق اور تقاضا یہی ہے کہ تم اسی کی بڑائی بیان کرو، اور اسی کا اظہار حضرت ابراہیم نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی سے کیا۔ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، اور اسی بناء پر تم لوگوں کے لئے قربانی کی یہ سنت مقرر کی گئی ہے، چنانچہ روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا گیا مَاہٰذِہٖ اَلْاَضَاحِیْ یَا رسول اللہ؟ یعنی اللہ کے رسول، یہ بتلایئے کہ یہ قربانیاں کیا چیز ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا، سُناَبِیْکُمُ اِبْرَاہِیْمَ یعنی یہ تمہارے باب ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں عرض کیا گیا فَمَالَنَا فِیْہَا یَارَسُوْلَ اللّٰہ؟ یعنی اللہ کے رسول ان میں ہمیں کیا ملے گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا بِکُلِّ شَعْرٰۃٍ حَسَنَۃٌیعنی تمہیں ہر بال کے عوض ایک نیکی ملیگی، الی آخر الحدیث

۴۰.    ۱: یعنی ان مظلوموں کا اس کے سوا کوئی جرم و قصور نہیں تھا کہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی جرم و قصور نہیں بلکہ صداقتوں کی صداقت اور حقیقتوں کی حقیقت، اور تمام خوبیوں اور محامد کی اصل اور اساس ہے مگر ظالموں کے نزدیک حق کے پاسداروں کی یہی سب سے بڑی نیکی اور خوبی جرم و قصور اور گناہ بن گئی، اور اتنا بڑا جرم و قصور کہ جرم بے گناہی کے اسی قصور کی بناء پر ان پر ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، یہاں تک کہ ان مظلوموں کو اسی بناء پر دیس نکالا دیا گیا اور ان کو ان کے اپنے گھروں سے نکال باہر کیا گیا، سو ایسے مظلوموں کو اس طرح کے ظلم سافر سے نبرد آزمائی، مقابلہ اور گلو خلاصی کے لئے جہاد کی اجازت دی گئی۔ سو جہاد فی سبیل اللہ، ظلم و عدوان کی زنجیروں کو توڑنے کا سب سے بڑا، اہم اور موثر و کارگر ذریعہ و وسیلہ ہے۔

۲: سو اس سے مشروعیت جہاد کی حکمت کو واضح فرما دیا گیا کہ اس سے اصل مقصود اصلاح احوال اور درءِ فساد ہوتا ہے، پس اللہ اگر اپنے صالح بندوں کے ذریعے اشرار و طغاۃ اور شیاطین و فجار کی سرکوبی نہ کرتا، اور ان کو دفع نہ کرتا رہتا تو نصاریٰ کی خانقاہیں یہود کی عبادت گاہیں اور یہود و نصاریٰ کے معابد اور مسلمانوں کی وہ مسجدیں جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے ان سب کو تہس نہس اور اجاڑ و ویران کر دیا جاتا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں رسولوں اور مصلح و نیکوکار بندوں کو جہاد کی ہدایت فرمائی اور انہوں نے جہاد کے ذریعے تمام دینی اقدار اور شعائر کی حفاظت کی، اسی طرح اب مسلمانوں کو بھی جہاد کی اجازت دی گئی اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ تاکہ وہ اللہ کے حرم اور اس کے شعائر کی حفاظت کے لئے اٹھیں۔ اور موجودہ دور کے ظالموں اور غاصبوں سے ٹکرائیں۔ اور اسطرح ظلم و عدوان کے اندھیرے چھٹیں، اور حق و صداقت اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو، والحمد للہ.

۳:  سو اس ارشاد سے نصرت خداوندی کے وعدے کی وضاحت بھی فرمائی گئی ہے اور اس کی تاکید بھی اور اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ یقیناً اور ضرور مدد فرمائے گا ان کی جو اس کی مدد کرتے ہیں سو اس سے ایک تو یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین اور اس کے شعائر کی حفاظت کے لئے اٹھتے ہیں وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کے لئے اٹھتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے ایسے خاص بندوں کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کے لئے اٹھتے ہیں نیز اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کی خدمت اور اس کے شعائر کی حفاظت کے لئے محنت اور جدوجہد کرتے ہیں وہ کتنے عظیم الشان لوگ ہیں کہ انکی اس جدوجہد کو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد قرار دیا گیا ہے۔ اور دوسری اہم حقیقت اس کے ضمن میں واضح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ظہور ان ہی لوگوں کے حق میں ہوتا ہے، جو حق کی راہ میں اور حق کی خاطر اپنا فرض ادا کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اپنے بس کی حد تک اس ضمن میں سعی و کوشش کرتے ہیں اس کے برعکس جو لوگ بنی اسرائیل کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، اور چاہیں کہ خدا یونہی از خود میدان جیت کر تخت حکومت ان کے لئے بچھا دے، تاکہ وہ آسانی سے اس پر براجمان ہو جائیں، تو اللہ تعالیٰ ایسوں کی مدد نہیں کرتا، کہ یہ اس کے قانون و دستور کے خلاف ہے، آیت کریمہ کے آخر میں اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی قوی نہایت ہی زبردست ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس جن کو اس قوی و عزیز ذات اقدس واعلیٰ کی نصرت و حمایت حاصل ہو جائے۔ ان کو کوئی کبھی زیر نہیں کر سکتا، بس اہل ایمان کو ہمیشہ اسی کی نصرت و امداد کے حصول کو اپنا اصل نصب العین بنانا چاہیئے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۴۵.    سو اس ارشاد سے اس حقیقت کی تائید کے لئے آثار قدیمہ کا حو آلہ دیا جس کا ذکر اوپر فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کتنی ہی بستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو ان کے ظلم یعنی کفران نعمت کی پاداش میں آخرکار ہلاکت و تباہی کے گھاٹ اتارا گیا، اب ان کا حال یہ ہے کہ انکی بلند و بالا دیواریں ان کی چھتوں پر گری پڑی ہیں، اور کتنے ہی کنوئیں ہیں جو کبھی آبادی کا مرکز اور لوگوں کے گڑھ ہوا کرتے تھے، اب وہ اجاڑ اور ویران پڑے ہیں عربوں کے یہاں پانی کی قلت کی بناء پر کنوؤں اور چشموں کی خاص اہمیت ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ اس دور میں ان کے یہاں آبادی کا مدار و انحصار انہی پر ہوا کرتا تھا، اس لئے کنوؤں کی ویرانی کا مطلب ہے بستیوں کی ویرانی، اور انکی ہلاکت و تباہی اسی طرح کتنے ہی ایسے بلند و بالا اور پر شکوہ ایوان اور محلات بھی ایسے تھے جن کی ڈیوڑھیوں میں بڑے بڑے سرداروں اور کج کلاؤں کے سرجھکا کرتے تھے۔ اور سجدہ ریزی ہوا کرتی تھی، اب وہ اجاڑ اور ویران پڑے ہیں، اور ان کی برجیوں اور کنگروں میں زاغ و زغن کے آشیانے ہیں وَہِیَ ظالِمَۃ کے جملہ حالیہ سے ان کی اس ہلاکت و تباہی کے سبب کی تصریح فرما دی گئی کہ اس ہولناک انجام کا سبب اس کا اور باعث ان لوگوں کا اپنا عمل و کردار تھا، اور وہ تھا ان کا ظلم و عدوان، اور کفران نعمت والعیاذُ باللہ جل وعلا

۴۷.    یعنی منکر لوگ عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے وہ آتا کیوں نہیں؟ مَتیٰ ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ یعنی تمہاری یہ دھمکی آخر کب پوری ہو گی، اگر تم لوگ سچے ہو اپنے اس قول و قرار میں؟سو ایسوں کے لئے اس ارشاد سے تنبیہ فرمائی گئی کہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے وقت پر بہر حال آ کر رہے گا کیونکہ اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ موجود ہے اور اللہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں فرماتا۔ مگر یہ منکر لوگ اپنی تنگ ظرفی اور کوتاہی بینی کے باعث اپنے محدود پیمانے کے مطابق سوچتے اور دیکھتے ہیں، جس سے ان کو تاخیر عذاب سے متعلق یہ مہلت بہت بڑی چیز لگتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے پیمانے کے اعتبار سے اس مہلت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہو سکتی، کہ اس کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے اے لوگو! ایک ہزار برس کے برابر ہے سو ایسے میں عذاب کی تاخیر کی مدت کو لمبا سمجھنا محض ایسے لوگوں کی حماقت ہے پس عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ عذاب کے لئے جلدی مچانے کے بجائے اس سے بچنے کی فکر و کوشش کی جائے کہ پھر عمل کا کوئی موقع بہر حال نہیں ہو گا۔

۵۱.    سو اس سے نجات پانے والے اور ہلاک ہونے والے دونوں گروہوں کے حال و مآل دونوں کو واضح فرما دیا گیا، پس جو لوگ ایمان صادق اور عمل صالح کی دولت سے سرفراز ہونگے وہی کامیاب و فائزالمرام ہونگے، ان کو عظیم الشان بخشش بھی نصیب ہو گی، اور عزت کی روزی بھی۔ یعنی وہ جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہونگے اور جنہوں نے اس کے برعکس کفر و انکار کی راہ کو اپنا کر اللہ کی آیتوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہو گی۔ ان کے لئے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ ہو گی جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم، سو ایمان صادق عمل صالح، اور اطاعت خدا و رسول دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس سے محرومی اور اعراض و روگردانی باعث ہلاکت و تباہی، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت و محبوبیت اور فوز وفلاح کا مدار و انحصار کسی قوم قبیلہ اور حسب و نسب جیسی کسی چیز پر نہیں ہے بلکہ اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید،

۵۲.    اوپر کی آیت کریمہ میں منکرین و معاندین کی طرف سے جس سعی فی المعاجزۃ یعنی مقابلے میں عاجز کر دینے کی کوشش کا ذکر ہوا ہے، اسی کی طرف اشارہ کے طور پر اس ارشاد ربانی سے پیغمبر کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ان منکرین و معاندین کی طرف سے آپ کو جس صورت حال سے سابقہ پیش آ رہا ہے یہ کوئی نئی چیزی نہیں، بلکہ آپ سے پہلے بھی ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے، آپ سے پہلے ہم نے جس نبی اور رسول کو بھی بھیجا ہے اس کے ساتھ یہی کچھ ہوا، پیغمبر نے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے جب بھی کوئی قدم اٹھایا اور کوئی کوشش کی، تو اشرار و مفسدین نے اس کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں، روڑے اٹکائے اور مشکلات پیدا کیں اور پیغمبر کی آواز کو دبانے اور انکی دعوت کو روکنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے مگر حق وباطل کے اس تصادم اور ٹکراؤ کے نتیجے میں آخرکار ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے اٹھائے ہوئے فتنوں کو جھاگ کی طرح بٹھا دیا، اور اپنی اور اپنے رسول کی باتوں کو استحکام بخشا، اور اللہ تعالیٰ جو اپنے نبیوں اور رسولوں کے مقابلے میں شیاطین کو اس طرح کی شر انگیزیوں کا موقع دیتا ہے تو یہ سب کچھ اس کے علم و حکمت کے تقاضوں میں سے ہے، کہ وہ بڑا ہی علیم بھی ہے اور انتہائی حکیم بھی، اس لئے پیغمبر کو اللہ تعالیٰ کے کمال علم و حکمت کی بناء پر مطمئن رہنا چاہیے کہ جو بھی کچھ پیش آئے گا وہ اس کے علم و حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہی ہو گا اور اس کا نتیجہ ان کی دعوت کے حق میں بہتری ہی ہو گا سو یہ وہی مضمون ہے جو قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات میں ذکر و بیان فرمایا گیا جیسا کہ سورہ انعام آیت نمبر ۱۱۳۔ اور ۱۱۴۔ اور سورہ فرقان آیت نمبر۳۱ تا آیت نمبر۳۳ وغیرہ جن میں بتایا گیا ہے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انبیاء ورسل کے دشمن رہے ہیں شیاطین انس میں سے بھی، اور شیاطین جن میں سے بھی، سو یہ اس مقام کا ایک سیدھا سادا اور واضح مطلب ہے۔ مگر اس بارہ میں ایک موضوع ومن گھڑت روایت کی بناء پر ایک بڑا الجھاؤ اور گھپلا پیدا کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں کتب تفسیر میں یہاں پر ایک بڑی لمبی چوڑی بحث چھیڑ دی گئی ہے حالانکہ اس روایت کا نہ سند و ثبوت کے اعتبار سے کوئی وزن ہے، اور نہ روایت و مفہوم کے لحاظ سے، بلکہ وہ محض زنا دقہ وملحدین کا ایک القائے شیطانی ہے۔ جس کو انہوں نے حضرات انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کی عصمت کو مجروح اور داغدار کرنے کے لئے گھڑا۔ اور کچھ مفسرین کرام کی سادہ لوحی کی بناء پر اس روایت نے کتب تفسیر و روایت میں جگہ پالی۔ حالانکہ وہ دین حنیف کے اصول و مبادی سے مقصادم ہے، والعیاذُ باللہ،

۵۴.    یعنی شیاطین کو جو اس طرح کھیل کھیلنے کا موقع دیا جاتا ہے، تو اس سے مقصود ابتلاء و آزمائش کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کے نتیجے میں اہل باطل اپنا من بھاتا کھاجا پا کر اہل باطل کے علمبرداروں کے ساتھ ہو جائیں، اور اہل حق اہل باطل کی تمام تر غوغا آرائیوں کے علی الرغم راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رہیں، اور جن لوگوں کو علم کی روشنی ملی ہوتی ہے ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ جو علم کتاب آپ کے ذریعے ان کو ملا ہے وہ بالکل حق اور منجانب اللہ ہے۔ پھر ان کے علم کی یہ پختگی ان کے ایمان کو پورا رسوخ اور استحکام بخشتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے دل پوری یکسوئی اور کامل رضا کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھک پڑتے ہیں، اور وہ اس اسلام اور اخبات سے سرفراز ہوتے ہیں، جو ایمان کی اصل روح اور سرفرازی دارین کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید

۵۷.    اس آیت کریمہ سے اس حقیقت کی تصریح فرما دی گئی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار، اور ان کی تکذیب کرتے ہیں، ان کے لئے بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے۔ اور یہ اس لئے کہ انہوں نے استکبار اور اپنی بڑائی کے زعم و گھمنڈ میں حق سے منہ موڑا، اور اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا، اور ان کو جھٹلایا۔ اس لئے ان کو اس کے نتیجے میں، رسوا کن عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ کہ الجزاء مِنْ جِنْسِ العمل کے اصول اور ضابطے کا تقاضا یہی ہے سو ایمان صادق اور عمل صالح نجات اور فوز وفلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ ایسے خوش نصیبوں کو نعمتوں بھری جنتوں سے سرفرازی نصیب ہو گی، اس کے برعکس کفر و تکذیب کے مرتکبوں کے لئے دوزخ کا رسوا کن عذاب مقرر ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اور ایسے بدبختوں نے اپنے جن سفارشیوں حمایتوں اور جمعیتوں اور جماعتوں پر اعتماد اور بھروسہ کر رکھا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکے گا، کہ وہ سب خواب و سراب تھا قیامت کے اس یوم فصل و تمیز میں سارا اختیار و اقتدار اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے لئے ہو گا وہی اپنے کامل عدل و انصاف کے ساتھ بلا کسی اور رعایت کے ان سب کے درمیان آخری اور عملی فیصلہ فرمائے گا سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۹.    سو ان دونوں آیات کریمات میں ایک تو یہ بات واضح فرما دی گئی کہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے نکلنا ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا پہلا قدم ہی کامیابی کا ضامن ہے پس جو لوگ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے اپنے گھر در کو چھوڑ کر نکلتے ہیں تو اس کے بعد ان کو قتل کر دیا جائے یا وہ اپنی طبعی موت مر جائیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ان کو رزق حسن یعنی عمدہ روزی سے نوازے گا اور یہ لفظ خداوند قدوس کے بے پایاں انعامات کے لئے ایک جامع تعبیر ہے، سو راہ خدا میں ہجرت کے لئے اٹھایا جانے والا پہلا قدم ہی منزل اور کامیابی ہے، اور اس راہ میں قتل ہی شہادت نہیں، بلکہ طبعی موت بھی شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اللہ جب خیر الرازقین یعنی سب سے بہتر روزی رساں ہے، تو پھر اس کی عنایات کا اندازہ کرنا ہی کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ مزید برآں اس ضمن میں اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ وہ واہب مطلق جَلَّ وَعَلَا شانہ، ان کو ایک ایسی عظیم الشان جگہ میں داخل فرمائے گا جس کو یہ لوگ پسند کریں گے اور اس پر یہ راضی ہو جائیں گے۔ نیز یہ کہ اللہ بڑے ہی علم اور حلم والا ہے۔ اس لئے نہ کسی کی کوئی قربانی اور جانفشانی اس سے مخفی رہ سکتی ہے۔ اور نہ اس کی طرف سے ملنے والی ڈھیل کی بناء پر کسی کے لئے مست و مغرور ہو جانے کا کوئی موقع ہو سکتا ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۶۲.    سو کائنات کے اس نہایت مستحکم نظام اور روز و شب کے اس پُر حکمت اور منظم ادل بدل سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت پوری طرح واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ ہی حق اور اپنی اس پُر حکمت کائنات میں حاکم اور متصرف وکار فرما ہے۔ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور مشرک لوگ جو اس کے سوا دوسری مختلف چیزوں کو کار ساز و کار فرما سمجھ کر ان کو پُوجتے پکارتے ہیں، وہ سب بے حقیقت اور ادہام و خرافات کی ایجاد و پیداوار ہے۔ اور ایسے لوگ یکسر دھوکے اور فریب کا شکار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ جو کہ معبود برحق ہے وہ بڑا ہی بلند و برتر اور عظیم الشان ہستی ہے۔ اور وہ انسانی عقل و خرد اور اس کے وہم و گمان سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ و بالا ہے اس کو جاننے اور ماننے، اور اس کی معرفت سے سرفرازی کا ایک اور صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کو ویسے ہی مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کے بارے میں اس کا رسول بتائے۔ اور بس، پس بڑے ہی احمق اور بدبخت ہیں وہ لوگ جو اپنی خود ساختہ اور من گھڑت چیزوں کو خدا مان کر ان کی پوجا پاٹ کی ذلت اٹھاتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۶۳.    سو اس سے اصحاب فکر و بصیرت کو دعوت غور و فکر دی گئی ہے، کہ تمہارے پاؤں تلے بچھی ہوئی زمین کے اس عظیم الشان فرش میں بھی تمہارے لئے عظیم الشان درس ہائے عبرت و بصیرت ہیں اور ایسے عظیم الشان کہ ان میں صحیح طور سے غور و فکر سے انسانی عقل و فکر کی دنیا روشن اور منور ہو جاتی ہے مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ تم لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہی نہیں ہو۔ سو اس میں تمہارے لئے ایک روح پرور اور حیات آفریں درس یہ بھی ہے کہ تم لوگ موجودہ ظاہری حالات کی ناسازگاری کو دیکھ کر خداوند قدوس کی نصرت و مدد امداد کو بعید از امکان نہ سمجھو، بلکہ یہ یقین رکھو کہ وہ کبھی بھی اور کسی بھی طرح سے نمودار ہو سکتی ہے سو زمین کو تم لوگ دیکھتے ہو کہ یہ بالکل خشک اور چٹیل پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں سبزے اور روئیدگی کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ افق پر ابر کا کوئی نشان موجود نہیں ہوتا، لیکن جب خدا چاہتا ہے تو اس کی بھیجی ہوئی ہوائیں بادلوں کے قافلوں کے قافلوں کو ہانک لاتی ہیں، اور ان کو فضا میں پھیلا دیتی ہیں۔ پھر چھم چھم مینہ برسنا شروع ہو جاتا ہے، اور چشم زدن میں ساری زمین جل تھل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں ہر طرف سبزے اور ہریالی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ جب چاہے گا اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمت و عنایت کی برسات برسا دے گا۔ اگرچہ ظاہری حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں۔ نیز زمین کی یہ روئیدگی اور ہریالی بعث بعدالموت کا نمونہ اور نقشہ بھی پیش کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی لطیف یعنی باریک بین اور دقیقہ رس ہے، وہ اپنی تدبیروں کو اس طرح بروئے کار لاتا ہے کہ کسی کو ان کا سان و گمان بھی نہیں ہوتا۔ نیز وہ خبیر یعنی بڑا ہی باخبر بھی ہے اس لئے وہ ہر چیز کے بارے میں پوری طرح آگاہ و باخبر ہے لوگ تو صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں اور بس لیکن وہ ظواہر و مظاہر کے پس پردہ کار فرما اصل حقائق سے بھی واقف و آگاہ ہے۔ اور پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ اور وہ ماضی و مستقبل کو ایک برابر جانتا ہے اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ پس ہمیشہ اپنا معاملہ اس کے ساتھ صحیح رکھنے کی ضرورت ہے، وباللہ التوفیق،

۶۷.    یعنی اس سیدھی راہ پر جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے اور جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ اور جس کی اساس و بنیاد توحید خداوندی پر ہے، کہ معبود برحق بہر حال وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ پس آپ اے پیغمبر! لوگوں کو اپنے رب کی طرف اور اس کی عبادت و بندگی کے لئے بلاتے رہیں، جو آپ کی دعوت حق و ہدایت کی اس راہ صدق و صواب کو اپنائیں گے ان کا اپنا بھلا، اور جو اس سے منہ موڑیں گے وہ اپنا ہی نقصان کریں گے والعیاذُ باللہ۔ ہم نے ہر امت کے لئے ایک طریقہ عبادت اور ضابطہ عمل مقرر کیا ہے تاکہ لوگ اسی کے مطابق اپنے خالق و مالک کی عبادت کریں، اور جب خداوند قدوس خود ہی کسی امت کے لئے اس طریقے کو تبدیل کر دے، تو لوگ اس کو دل و جان سے قبول کریں کہ یہی تقاضا ہے اتباعِ حق اور اطاعت خدا و رسول کا۔ اور یہی چیز معیار اور کسوٹی ہے مخلصین اور حامدین کے درمیان فرق و تمیز کے لئے پس جو لوگ اپنی خواہشات اور بدعات ہی پر اڑے رہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، ان سے الجھنے اور جھگڑنے کا کوئی فائدہ ہیں، ایسے لوگ اپنی محرومی کے ذمہ دار خود ہیں۔ اور ان کو اپنے اس جحود و انکار کا بھگتان بہر حال بہر حال بھگتنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۷۰.    سو اس سے اللہ تعالیٰ کے کمال علم کو واضح فرما دیا گیا کہ زمین و آسمان کی اس پوری کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب پوری طرح اس کے علم میں ہے۔ کوئی بھی چیز اس سے مخفی و مستور نہیں۔ پس نہ مخلصین و صادقین کی جانفشانیاں اس سے مخفی و مستور رہ سکتی ہیں، اور نہ ہی منکرین و معاندین کی شرانگیزیاں اس لئے ہر کسی نے اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ بہر حال پا کر رہنا ہے، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق پانا ہے پس ہر کوئی خود دیکھ لے اور اپنا محاسبہ خود کر لے کہ وہ کس قسم کے صلے اور بدلے کا مستحق ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ظاہر اور واضح فرما دیا گیا کہ ہر شخص کا ریکارڈ پورے اہتمام کے ساتھ ایک دفتر میں محفوظ ہے۔ پس کوئی اس طرح کے کسی خیال خام میں مبتلا نہ ہو جائے کہ یہ محض ہوائی باتیں ہیں، اور ہر شخص کا پورا ریکارڈ تیار کرنا لوگوں کے نزدیک اور ان کے لئے اگرچہ ایک مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے جو کہ قادر مطلق ہے، یہ کچھ بھی مشکل نہیں کہ اس کی شان عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر کی شان ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۷۲.    یعنی ان لوگوں کے یہ خود ساختہ اور من گھڑت معبود اور بناوٹی خدا ہیں تو ایسے بے حقیقت اور بے بنیاد کہ ان کے حق میں عقل و نقل کی کوئی دلیل نہ ہے نہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے پجاریوں اور مشرکوں کی ان کے لئے حمیت و حمایت کا عالم یہ ہے کہ جب ان کو توحید سے متعلق نہایت واضح اور مدلل آیات سنائی جاتی ہیں، تو ان کی رگیں پھول جاتی ہیں اور ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں، اور ان کی بھویں تن جاتی ہیں اور ایسا لگنے لگتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی آیتیں سنانے والے اہل حق پر پل پڑیں گے، سو ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسی چیز کی خبر نہ دوں۔ جو ان سب باتوں سے کہیں بڑھ کر ناگوار اور تمہارے چہروں کو بگاڑنے والی ہو گی؟ اور جس سے تمہیں لازمی طور پر سابقہ پیش آنا ہے؟ وہ ہے دوزخ کی آگ اور بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے وہ سو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اہل حق اور اہل توحید سے چڑنے اور ان پر غصہ کرنے کے بجائے دوزخ کی اس ہولناک آگ سے بچنے کی فکر کرو۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور اس کے نتیجے میں تم لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے اس سب سے بڑے، اور انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہونا پڑے، اس جیسا دوسرا کوئی خسارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اور وہ بھی اس طور پر کہ اس سے رہائی، اور گلو خلاصی کی پھر کوئی صورت تمہارے لئے ممکن نہیں ہو گی، سو یہی ہے سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ، والعیاذ ُباللہ العظیم

۷۳.    سو جن کی بے بسی اور بے حقیقی کا عالم یہ ہو کہ وہ ایک مکھی بھی پیدا نہ کر سکیں۔ اگرچہ وہ سب مل کر بھی اس کے لئے زور لگائیں اور مکھی بنانا اور پیدا کرنا تو دور کی بات ہے، ان کے عجز و بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اگر مکھی ان کی کوئی چیز ان سے چھین لے جائے تو ان میں اتنی بھی ہمت اور سکت نہیں کہ یہ اس سے اپنی اس چھینی ہوئی چیز کو واپس لے سکیں۔ تو ایسے عاجز اور ناتوانوں کو اپنا معبود بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنا کس قدر حماقت اور کتنے بڑے خسارے کا سودا ہے؟ لیکن مت کے ماروں کو اتنی بڑی اور اس قدر واضح بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جو ان سے بھی بڑھ کر عاجز ہوں، وہ ان کے معبود آخر کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور جن کے معبودوں کی عاجزی اور بے بسی کا عالم یہ ہو، وہ خود کیا ہونگے؟ والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۷۴.    اور اللہ جل جلالہ، کی قدر نہ کرنے ہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ ایسے بے جان بے حقیقت اور خود ساختہ و من گھڑت خداؤں کے آگے جھک کر۔ اور ان کی پوجا پاٹ کی ذلت اٹھا کر، ہولناک خسارے میں مبتلا ہو گئے۔ اور وہ بھی اس طور پر کہ ان کو اپنی اس ذلت و رسوائی اور محرومی و ہلاکت کا احساس بھی نہیں۔ بلکہ یہ اپنے طور پر اس خبط میں مبتلا ہیں کہ یہ ٹھیک کر رہے ہیں وَہُمْ یَحَسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ سو اللہ جل جلالہ کی قدر نہ پہچاننا محرومئی دارین کا باعث ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا، حالانکہ اللہ ایسا قوی ہے کہ اس کی قوت کا کوئی کنارہ نہیں۔ اور وہ ایسا عزیز اور زبردست ہے کہ کوئی اس کے ارادہ و پروگرام میں مزاحم ہونے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور عالی و متعالیٰ ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۷۶.    بس جو کچھ ہوتا ہے اسی کے اذن اور منظوری سے ہوتا ہے، اور جو کچھ ہو گا وہ بھی اسی کے اذن اور منظوری سے ہو گا، کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور آخرکار اور قیامت کے یوم فصل و تمیز میں ہر کام کا آخری فیصلہ اسی کے حکم و ارشاد سے ہو گا، پس بندے کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں بھروسہ و اعتماد اسی وحدہٗ لاشریک پر رکھے۔ اور اس کے سوا لوگوں نے جو اور طرح طرح کے سہارے فرض کر رکھے ہیں وہ سب کے سب بے حقیقت و بے بنیاد اور ادہام و خرافات کا پلندہ ہیں والعیاذُ باللہ جل وعلا

۷۷.    سو اس ارشاد سے فلاح یعنی حقیقی کامیابی سے سرفرازی کے لئے مطلوب دستور العمل اور اس کے خلاصے کی تصریح فرما دی گئی، جس میں سب سے پہلی چیز رکوع و سجود ہے جو کہ دراصل نماز کی تعبیر ہے۔ پس اس سلسلہ میں سب سے اہم اور اولین چیز نماز کا اہتمام اور اس کی پابندی ہے۔ اور یہی وہ عبادت مقدسہ ہے جس کے ذریعے بندے کا تعلق اس کے خالق و مالک سے صحیح طور پر استوار ہوتا ہے، اور اس کے لئے فوز و فلاح سے سرفرازی کی صحیح راہ متعین ہوتی ہے، اس کے بعد اس سے عمومی چیز کے بارے میں حکم و ارشاد فرمایا گیا یعنی یہ کہ تم اپنے رب کی عبادت و بندگی کرو جس میں سب عبادات اور ہر قسم کی اطاعت و فرمانبرداری آ گئی، اس کے بعد تیسری چیز وَافْعَلُوا الْخَیْرَ سے ارشاد فرمائی گئی۔ یعنی ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کرو۔ اس میں وہ سب ہی نیکیاں آ گئیں جن کا درجہ اگرچہ فرائض و اوامر کا نہیں لیکن وہ مکارم میں بہر حال داخل ہیں۔ اور زندگی سنوارنے میں ان کو بڑا دخل ہے سو فلاح یعنی اصل اور حقیقی کامیابی سے سرفرازی کے لئے ان تمام اہم امور کا اہتمام ضروری ہے وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید۔

۷۷.    سو اس ارشاد سے آخر میں شہادت علی الناس کی اہلیت کے لئے بطور خلاصہ امر ہدایت فرمائی گئی کہ ایک تو تم لوگ اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا اہتمام کرو کہ شہادت علی الناس کی یہ ذمہ داری جو اس امت پر ڈالی گئی ہے یہ جہاں ایک عظیم الشان شرف ہے وہیں یہ ایک عظیم الشان ذمہ داری بھی ہے۔ اور اس ذمہ داری کی ادائیگی انہی دو بنیادوں پر قائم ہے یعنی اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ۔ ان دونوں کے اہتمام پر دین کی بقاء ہے اور ان کا انہدام دین کا انہدام ہے، والعیاذُ باللہ، پھر شہادت حق کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے مداوے کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اپنے رب کو خوب یاد کرو۔ اور اس کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور اس کی نصرت و امداد پر پورا بھروسہ رکھو کہ وہی ہے سب سے بہتر مرجع و کار ساز اور وہی ہے سب سے بہتر معین و مددگار۔ سبحانہ و تعالیٰ فَبِہِ نستعین لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحول، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِنَ المواطن فی الحیاۃ وبہٰذا قَدْ تم التفسیر المختصر لسورۃ الحج والحمد للہ جل وعلا