تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ لقمَان

(سورۃ لقمان ۔ سورہ نمبر ۳۱ ۔ تعداد آیات ۳۴)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     الٓ مٓ

۲۔۔۔     یہ آیتیں ہیں اس حکمتوں بھری کتاب کی

۳۔۔۔     جسے سراسر ہدایت اور عین رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ان نیکوکاروں کے لئے

۴۔۔۔     جو قائم کرتے ہیں نماز کو اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں

۵۔۔۔     یہی لوگ (راہ حق و) ہدایت پر ہیں اپنے رب کی طرف سے اور یہی لوگ ہیں (اصل اور حقیقی) کامیابی پانے والے

۶۔۔۔     اور (اس کے برعکس) کچھ لوگ ایسے ہیں جو غفلت میں ڈالنے کا سامان خریدتے ہیں تاکہ اس طرح وہ بہکا سکیں اللہ کی راہ سے بغیر کسی علم کے اور وہ مذاق اڑاتے ہیں اس (راہ حق) کا ایسوں کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے

۷۔۔۔     اور (ایسے شخص کا حال یہ ہوتا ہے کہ) جب اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیتیں تو یہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اس طرح پیٹھ پھیر لیتا ہے کہ گویا کہ اس نے ان کو سنا ہی نہیں جیسے اس کے کانوں میں ڈاٹ (پڑے ) ہیں سو خوشخبری سنا دو اس کو ایک بڑے ہی دردناک عذاب کی

۸۔۔۔     بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے تو ان کے لئے نعمتوں بھری ایسی (عظیم الشان) جنتیں ہیں

۹۔۔۔     جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہی ہے (سب پر) غالب بڑا ہی حکمت والا

۱۰۔۔۔     اسی نے پیدا فرمایا آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے جن کو تم لوگ دیکھ سکو اور اسی نے ڈال دیئے زمین میں (پہاڑوں کے ) عظیم الشان لنگر تاکہ وہ تم کو لے کر ڈولنے نہ لگے اور اس نے پھیلا دیئے اس میں ہر قسم کے جانور اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے ہم نے اس (زمین) میں اگائیں ہر قسم کی عمدہ چیزیں

۱۱۔۔۔     یہ ہے اللہ کی تخلیق سو تم لوگ مجھے ذرا دکھا (اور بتا) دو کہ کیا پیدا کیا ان دوسروں نے (جن کو تم لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے ؟) اللہ کے سوا (کچھ بھی نہیں ) بلکہ ظالم لوگ پڑے ہیں کھلی گمراہی میں

۱۲۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے بخشی تھی لقمان کو حکمت (و دانائی کی دولت) کہ تم شکر بجا لاؤ اللہ کے لئے اور (حقیقت یہ ہے کہ) جو شکر کرتا ہے تو سوائے اس کے نہیں کہ وہ اپنے ہی (بھلے کے ) لئے شکر کرتا ہے اور جس نے کفر کیا تو (اس سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا کہ) بے شک اللہ غنی (و بے نیاز) اور خود ہی تعریفوں والا ہے

۱۳۔۔۔     اور (ان کو وہ بھی یاد کراؤ کہ) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے پیارے بیٹے شرک نہیں کرنا اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے ساتھ بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے

۱۴۔۔۔     اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دے دیا اس کے والدین کے بارہ میں (فرمانبرداری اور حسن سلوک کا) اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری برداشت کر کے اور اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں (سو اس سب کا تقاضا یہ ہے ) کہ تو (اے انسان !) شکر بجا لا میرا اور اپنے ماں باپ کا آخرکار لوٹنا بہر حال (سب کو) میری ہی طرف ہے

۱۵۔۔۔     اور اگر وہ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے کسی ایسی چیز کو جس کے بارے میں تیرے پاس کوئی علم (اور سند) نہیں تو ان کا کہنا نہ ماننا ہاں دنیا (کے معاملات) میں ان کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرتے رہنا مگر (دین کے بارے میں ) پیروی اسی شخص کے راستے کی کرنا جو میری طرف رجوع کئے رہے پھر تم سب لوگوں کو بہر حال لوٹنا میری ہی طرف ہے تب میں بتا دوں گا تم سب کو وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے رہے تھے

۱۶۔۔۔     (اور لقمان نے مزید کہا) اے میرے پیارے بیٹے اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو پھر وہ کسی چٹان کے اندر ہو یا کہیں آسمانوں (کی بلندیوں ) میں یا زمین (کی تہوں ) میں کہیں پوشیدہ ہو پھر بھی اللہ اس کو نکال لائے گا کہ بلاشبہ وہ بڑا باریک بیں انتہائی باخبر ہے

۱۷۔۔۔     بیٹے نماز کی پابندی کرنا نیکی کی تلقین کرنا برائی سے روکتے رہنا اور جو کوئی مصیبت بھی تم پر کبھی آ جائے اس پر تم صبر (و برداشت) ہی سے کام لینا بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے

۱۸۔۔۔     اور لوگوں سے (تکبر کے طور پر) منہ پھیر کے بات نہ کرنا اور نہ ہی اکڑ کر چلنا (اللہ کی) اس زمین میں بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا کسی بھی خود پسند شیخی باز کو

۱۹۔۔۔     اور میانہ روی ہی کو اپنائے رکھنا اپنائے رکھنا اپنی چال (ڈھال) میں اور کسی قدر پست رکھنا اپنی آواز کو کہ بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے

۲۰۔۔۔     کیا تم لوگ دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے (کس پر حکمت طریقے سے ) تمہارے لئے کام میں لگا رکھا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے اور اس نے (اپنے کرم بے پایاں سے ) پوری کر دیں تم پر اپنی نعمتیں ظاہری بھی اور باطنی بھی (اس کے باوجود) کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ اللہ ہی کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا کوئی ہدایت (و روشنی) یا روشنی دکھانے والی کوئی کتاب

۲۱۔۔۔     اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو تم لوگ اس چیز کی جس کو اللہ نے اتارا ہے تو یہ کہتے ہیں ہم تو بس اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا (یہ انہی کی پیروی کریں گے ) اگرچہ شیطان ان کو بلا رہا ہو دہکتی (بھڑکتی ہولناک) آگ کے عذاب کی طرف

۲۲۔۔۔     اور جو کوئی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ ہو بھی نیکوکار تو اس نے یقیناً تھام لیا بڑے ہی مضبوط کڑے کو اور اللہ ہی کی طرف ہے انجام تمام کاموں کا

۲۳۔۔۔     اور جس نے کفر کیا تو اس کا کفر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے (اے پیغمبر !) غم کا باعث نہیں ہونا چاہیے ان سب کو بالآخر ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے پھر ہم خود ہی ان کو وہ سب کچھ بتا دیں گے جو یہ کرتے رہے تھے (دنیا میں ) بے شک اللہ دلوں کی باتوں کو بھی پوری طرح جانتا ہے

۲۴۔۔۔     ہم انہیں تھوڑی سی مدت مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں پھر ان کو بے بس کر کے کھینچ لائیں گے ایک بڑے ہی سخت عذاب کی طرف

۲۵۔۔۔     اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ (بتاؤ) کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو؟ تو یہ سب کہیں گے اللہ ہی نے کہو الحمد اللہ مگر ان کی اکثریت جانتی نہیں

۲۶۔۔۔     اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے بے شک اللہ ہی ہے غنی (و بے نیاز ہر کسی سے اور ہر اعتبار سے اور) ہر خوبی (و کمال) والا

۲۷۔۔۔     اور اگر وہ سب درخت جو زمین میں پائے جاتے ہیں قلمیں بن جائیں اور یہ سمندر اس کی سیاہی درآنحالیکہ اس میں سات سمندر اور شامل کر دیئے جائیں تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہونے پائیں گی بے شک اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۲۸۔۔۔     تم سب لوگوں کا پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا (اس کے لئے ) ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص (کو پیدا کرنا اور اسے دوبارہ زندہ کر دینا) بلاشبہ اللہ (ہر کسی کی) سنتا (سب کچھ) دیکھتا ہے

۲۹۔۔۔     کیا تم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ (کس پر حکمت طریقے سے ) داخل فرماتا ہے رات کو دن میں اور داخل فرماتا ہے دن کو رات میں اور اسی نے کام میں لگا رکھا ہے سورج اور چاند (کے ان عظیم الشان کروں ) کو ان میں سے ہر ایک چلے جا رہا ہے (پوری باقاعدگی کے ساتھ) ایک مقرر وقت تک اور بے شک اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کر رہے ہو

۳۰۔۔۔     یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ سب چیزیں باطل (اور بے اصل) ہیں جن کو یہ لوگ (پوجتے ) پکارتے ہیں اس (وحدہٗ لاشریک) کے سوا اور بے شک کہ اللہ ہی ہے عالی شان سب سے بڑا

۳۱۔۔۔     کیا تم نے کبھی غور نہیں کیا کہ یہ کشتیاں (اور دیو ہیکل جہاز کس طرح) رواں دواں ہیں سمندر میں اللہ کے فضل (و کرم) سے تاکہ وہ تمہیں دکھائے اپنی کچھ نشانیاں بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو بڑا صبر کرنے والا شکر گزار ہے

۳۲۔۔۔     اور جب (سمندری سفر کے دوران) ان پر چھا جاتی ہے کوئی موج سائبانوں کی طرح تو یہ (اپنے تمام بناوٹی سہاروں کو بھول کر) اللہ ہی کو پکارتے ہیں خالص کر کے اس کے لئے اپنے دین کو مگر جب وہ انہیں بچا کر خشکی کی طرف نکال لاتا ہے تو ان لوگوں میں سے کچھ ہی راہ راست پر رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر ایسا شخص جو بڑا بد عہد (و بے وفا) اور ناشکرا ہو

۳۳۔۔۔     اے لوگو! بچو تم اپنے رب (کی ناراضگی و نافرمانی سے ) اور ڈرو ایک ایسے ہولناک دن سے جس میں نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آ سکے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آ سکے گا بلاشبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے پس تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے دنیاوی زندگی (کی یہ چہل پہل) اور نہ ہی تم دھوکے میں ڈالنے پائے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز

۳۴۔۔۔     بلاشبہ اللہ ہی کے پاس ہے علم (قیامت کی) اس گھڑی کا اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ (ماؤں کے ) رحموں میں کیا ہے اور کسی شخص کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ ہی کسی کو یہ پتہ ہے کہ اس کی موت کس دھرتی میں آئے گی بلاشبہ اللہ ہی ہے (سب کچھ) جانتا (ہر چیز سے ) پوری طرح باخبر

تفسیر

 

۳۔۔۔    یعنی آپ جب راہِ حق پر ہیں اور قطعی اور یقینی طور پر راہِ حق پر ہیں تو ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اسی راہ پر پکے اور ثابت قدم رہیں، ایسا نہ ہو کہ منکرین و مخالفین اپنے طوفان مخالفت و عداوت، اور اپنے طعن و تشنیع اور تخویف و تحریض کے کسی بھی حربے اور ہتھکنڈے سے آپ کے پائے استقلال و استقامت میں کسی طرح کی کوئی لغزش و جنبش پیدا کر دیں۔ کہ راہ حق بہر حال وہی اور صرف وہی ہے جس پر آپ گامزن ہیں۔ پس یہ لوگ کبھی بھی اور کسی بھی طرح سے آپکو ہلکا اور بے وزن نہ پائیں، کہ آپ کسی بھی طرح اور کسی بھی درجے میں اس سے ہٹ جائیں۔ سو تاریخ گواہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منکرین و مخالفین کے ہر طرح کی کوششوں کے علی الرغم راہ حق پر وہ استقامت اور ثابت قدمی دکھائی جس کی کوئی نظیر چشم فلک نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھی ہو گی، اور نہ آئندہ قیامت تک کبھی دیکھ سکے گی۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ اٰلہ وصحبہ و سلم وَرَزَقْنَا مَزِیْدًا مِّنْ حُبِّہٖ والاتّباع۔

۴۔۔۔    سو اس کتاب حکیم کی ہدایت اور رحمت سب کے لئے عام ہے۔ مگر اس سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہو سکیں گے جو محسن یعنی نیکوکار ہوں، جن کی نیتیں اور ارادے بھی درست ہوں۔ اور ان کے اخلاق و کردار بھی صحیح ہوں، جس کے ضمن میں تین باتوں کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے، کہ وہ نماز قائم کرتے ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہوں، کہ یہ تینوں صفات تمام مکارم کی اصل الاصول ہیں۔ یہاں پر اس کتاب حکیم کے ہُدًی اور رحمۃً کی جو دو صفتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ان میں سے پہلی یعنی ہُدًی کی صفت اس کتاب حکیم کے آغاز اور اس کی ابتداء کے اعتبار سے ہے، کہ یہ انسان کی ہر اعتبار سے اور زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی کرتی ہے، اور دوسری صفت یعنی رحمۃً اس کے انجام کے اعتبار سے ہے، یعنی جو لوگ صدق دل سے اس پر ایمان لائیں گے، اور اس کی ہدایت کو دل و جان سے اپنائیں گے ان کو یہ کتاب حکیم عظیم الشان رحمتوں سے نوازتی ہے، اور نوازے گی، جس کا سب سے بڑا اور کامل مظہر جنت ہو گی، جس سے اس پر ایمان لانے والے سرفراز ہونگے، والحمد للہ لل جل وعلا، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید،

۶۔۔۔    کیونکہ ان لوگوں نے استکبار یعنی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر حق کا انکار کیا تھا اس لئے ان کو اس کے عوض رسوا کن عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ کہ الجزءُ مِنْ جِنْس العمل کے اصول اور قاعدے کا تقاضا یہی ہے، اور عذاب خواہ کوئی بھی ہو وہ بہر حال عذاب ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر قسم کے عذاب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین۔ لیکن عذاب اور عذاب کے درمیان بھی فرق ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ سخت اور برا عذاب وہ ہوتا ہے جو رسوا کر دینے والا ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے، آمین

۷۔۔۔    سو اس ارشاد سے اس استکبار اور کبر و غرور کی تصویر پیش فرما دی گئی جس کے باعث ایسے لوگ عذاب مہین یعنی رسوا کن عذاب کے مستحق قرار پائے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں کو جب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں، تو یہ کبر و غرور اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونے کے نتیجے میں اس طرح پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں کہ گویا کہ انہوں نے ان کو سرے سے سنا ہی نہیں گویا کہ ایسے شخص کے دونوں کان بہرے ہیں اور ان میں ڈاٹ پڑے ہوئے ہیں۔ سو جن لوگوں کے کبر و غرور، عناد و ہٹ دھرمی، اور رعونت و استکبار کا حال یہ ہو جائے، ان کو حق و ہدایت کی دولت سے سرفرازی آخر کس طرح اور کیونکر نصیب ہو سکتی ہے؟ ایسے بدبخت تو اسی لائق ہیں کہ ان کو دوزخ کا ایندھن بنایا جائے اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ایسوں کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو، جو انہوں نے بہر حال بھگتنا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۰۔۔۔    اس ارشاد ربانی سے کائنات کے بعض ان اہم دلائل و شواہد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جو حضرت خالق جَلّْ مَجْدُہ، کی قدرت بے بایاں، اس کی حکمت بے نہایت، اور اس کی رحمت بے غایت کے کھلے اور واضح نشان ہیں۔ سو یہ اسی کی قدرت و حکمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے آسمان کی اس عظیم الشان اور بے مثال چھت کو بغیر ایسے ستونوں کے کھڑا کیا ہے جو تم لوگوں کو نظر آ سکیں۔ اور اسی نے اپنی عظیم الشان قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت سے زمین کے اس گول کُرے میں پہاڑوں کے ایسے عظیم الشان لنگر ڈال دئے، تاکہ یہ تم لوگوں کو لے کر ڈولنے نہ لگے، اور اسی نے اپنی رحمت و عنایت سے زمین کے اندر ہر قسم کے جاندار پھیلا دیئے، جن کے ساتھ تمہارے طرح طرح کے اور عظیم الشان فوائد و منافع وابستہ ہیں۔ اور اسی نے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے قسما قسم کی عمدہ اور نفع بخش چیزیں اُگائیں، جن میں تمہارے لئے بیحد وحساب فوائد و منافع ہیں، سو وہی اللہ معبود برحق ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور جب اس کی ان شؤون و صفات میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے؟ نیز جب اس نے انسان کی مادی اور جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایسا پُر حکمت انتظام فرمایا، تو کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے کوئی انتظام نہ فرمائے؟ جبکہ روحانی ضرورتوں کی اہمیت جسمانی ضرورتوں سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر ہے؟ سو اسی لئے اس نے اپنے رسول مبعوث فرمائے، اور قرآن حکیم جیسی عظیم الشان اور بے مثال کتاب نازل فرمائی، جو قیامت تک تمام انسانوں کی راہنمائی کرتی رہے گی، فالحمد للہ جل وعلا، پس اس پر ایمان لانا اور اس کی تعلیمات مقدسہ کو صدقِ دل سے اپنانا دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے اور اس اعراض و رُوگردانی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا

۱۳۔۔۔    اس موعظت لقمانی سے ایک بات تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ اولاد کے بارے میں سب سے زیادہ اور سب سے پہلے ان کے دین و ایمان ہی کی فکر کی جائے، کہ یہی وہ اصل اور اولیں بنیاد ہے جس پر دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی موقوف ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ دینی تعلیم کی بھی اصل اور حقیقی بنیاد توحید ہے، اس لئے شرک سے اجتناب کی تعلیم و تلقین اولین تقاضا ہے، کہ مشرک انسان نہ اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرفراز ہو سکتا ہے اور نہ اس کی عبادت و بندگی سے کہ شرک سے انسان راہ حق و صواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ اور اس کی مت بھی ماردی جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ سو یہ ظلم ہے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے بارے میں بھی، کہ اس سے انسان اس کی معرفت اور اس کی عبادت و بندگی کے شرف سے محروم ہو جاتا ہے اور یہ خود انسان کی اپنی ذات کے بارے میں بھی ظلم ہے کہ اس سے انسان نور حق و توحید سے محروم ہو کر شرک کے اندھیروں میں کھو جاتا ہے، اور وہ جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی کے راستے سے ہٹ کر دوزخ اور اس کے ہولناک عذاب کی راہوں پر چل پڑتا ہے سو شرک یقیناً محرومیوں کی محرومی اور بہت بڑا ظلم ہے، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۴۔۔۔    اور میرے حضور حاضر ہو کر ہرکسی نے اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، پس یوم حساب کی اس حاضری اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ کہ زندگی کی اصلاح اور اس کی بہتری اسی پر موقوف ہے، اس ارشادِ خداوندی سے حقوق والدین کی عظمت و اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حق شکر کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے۔ اور اس کے متصل بعد والدین کے حق شکر کی۔ سو سب سے پہلے انسان پر اللہ کا حق شکر واجب ہوتا ہے، کہ وہی اس کا خالق و مالک اور اس کا رب ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اور اس کے بعد انسان پر اس کے والدین کا حق ہے، اسی لئے قرآن حکیم میں دوسرے کئی مواقع کی طرح یہاں بھی والدین کے حق کو اللہ تعالیٰ کے حق کے متصل بعد ذکر فرمایا گیا ہے، اور یہ اس لئے کہ وہی اس کے وجود اور اس کے ظہور و بروز کا ذریعہ و وسیلہ ہیں اور انہوں نے ہی اس کی بچپن میں اس وقت پرورش کی جبکہ اس کو کسی چیز کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ اور یہ محض گوشت کے ایک لوتھڑے کی طرح تھا سو اس وقت انہوں نے نہایت محبت و شفقت اور ہمدردی و پیار کے ساتھ اس کی پرورش کی۔ اس کو پالا پوسا اور اس کی ہر ضرورت کا پورا پورا خیال رکھا۔

۱۵۔۔۔    سو اس سے اللہ تعالیٰ کے حق شکر اور والدین کے حق شکر کی حدود کو واضح فرما دیا گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کا حق شکر اس کی عبادت و بندگی، اور اس کی اطاعت مطلقہ ہے، سبحانہ و تعالیٰ، جبکہ والدین کا حق انکی خدمت اور مشروط اطاعت ہے، یعنی وہ اطاعت جو دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی حدود کے دائرے میں ہو۔ اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی رُو سے خالق کی معصیت و نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت و فرمانبرداری جائز نہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ کہ اس کی صاف و صریح تعلیم یہ ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق۔ یعنی خالق کو ناراض کر کے مخلوق میں سے کسی کی بھی اطاعت و فرمانبرداری جائز نہیں ہے، پس والدین کا حق ان کی خدمت ہے، لیکن ناجائز بات میں ان کی اطاعت کبھی نہیں کرنی، البتہ ان سے حسن سلوک بہر حال کرنا ہے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید

۱۸۔۔۔    سو اس ارشاد سے غرور وتکبر اور اس کے مظاہر سے منع فرما دیا گیا۔ اور غرور و تکبر کا اظہار آدمی کے چہرے اور اس کی گردن سے بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اور اس کی چال ڈھال سے بھی۔ اس لئے لقمٰن نے اپنے بیٹے کو ان دونوں سے روکا اور منع فرمایا۔ کہ تکبر اور غرور بندے کی شان عبدیت اور اس کے تقاضوں کے منافی ہے۔ تَصْعِیْر خَدّ کے معنی ہوتے ہیں لوگوں سے تکبر و غرور کی بناء پر اعراض اور بے رُخی برتنا۔ سو اس سے بھی منع فرما دیا گیا۔ اور زمین پر اکڑ کر چلنے سے بھی کہ یہ طریقہ شان عبدیت کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ناپسندیدہ طریقہ ہے، اس لئے آیت کریمہ کے آخر میں سخت تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کسی اترانے اور اکڑنے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا، سبحانہ و تعالیٰ

۱۹۔۔۔    عاجزی اور فروتنی کی تعلیم و تلقین کے سلسلہ میں اوپر کی باتیں نہی کے اسلوب و انداز میں ارشاد فرمائی گئی تھیں، اب اسی کی تعلیم مثبت انداز میں اور حکم وارشاد کی صورت میں دی جا رہی ہے سو اس میں ارشاد فرمایا گیا کہ اپنی چال ڈھال کے سلسلہ میں بھی میانہ روی اختیار کرو۔ اور اپنی آواز کو بھی قدرے پست رکھو۔ کہ جب خالق نے انسان کو ایک ہی درجے کی اور ایک ہی قسم کی آواز پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ اس کے اندر یہ اہلیت اور صلاحیت رکھی ہے کہ یہ اپنی آواز کو بلند بھی کر سکتا ہے، اور پست بھی۔ تو اس کو چاہیے کہ قدرت کی بخشی ہوئی اس صلاحیت کو موقع و محل کے مطابق مناسب طور پر اور میانہ روی کیساتھ استعمال کرے۔ گدھے کی طرح اپنا گلا اور لوگوں کے کان پھاڑنے کی کوشش نہ کرے، کہ گدھے کی آواز تو سب سے زیادہ کرخت اور بری آواز ہے۔ انسان کو جب خالق نے اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا ہے، اور اس کو حسن بیان اور حسن کلام کی صلاحیت سے سرفراز فرمایا ہے تو یہ اپنے اس شرف و مقام کو چھوڑ کر گدھوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش آخر کیوں کرے؟

۲۲۔۔۔    سو اس سے فوز و فلاح اور تعلق مع اللہ کے صحیح راستے کو واضح فرما دیا گیا۔ اور وہ یہ کہ آدمی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے، اور وَہُوَ مُحْسِنٌ کی قید کے ساتھ اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دینے کا یہ عمل کمال درجہ کی خوبی اور صدق و اخلاص کے ساتھ ہو۔ یعنی وہ اس کی طرف کامل یکسوئی اور پوری وفاداری و جان نثاری کے ساتھ متوجہ ہو۔ مشرکین و منافقین کی طرح نہیں، جو کہ نام تو اللہ کا لیتے ہیں لیکن اس کی خدائی اور اس کے حقوق میں دوسروں کو بھی شریک مانتے، اور نفاق سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے نزدیک اصل اہمیت خداوند قدوس اور اس کے کام و ارشادات کی نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شریکوں اور ان کی اپنی رسوم و رواج اور اوہام و خرافات ہی کی ہوتی ہے۔ اور ایسے اسلام کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہو سکتی۔ اس کے یہاں تو وہی اسلام قابل قبول ہو سکتا ہے جو خالص اور ہر قسم کے شوائب سے پاک اور محفوظ ہو۔ سو جن لوگوں نے پورے صدق و اخلاص۔ اور حسن عمل کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا، تو انہوں نے یقیناً اپنے رب کے ساتھ وابستہ کرنے والی ایک مضبوط رسی کو تھام لیا۔ جو ان کے لئے خدا کے ساتھ تعلق و توصل کا ایک محکم ذریعہ ہو گی۔ اور تعلق مع اللہ کی یہ رسی چھوٹ تو سکتی ہے۔ والعیاذُ باللہ۔ لیکن ٹوٹ نہیں سکتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا لَا انْفِصَامَ لَہَا۔ سو اپنے رب کے ساتھ صحیح تعلق کی صورت یہی اور صرف یہی ہے، پس جن لوگوں نے اس کے سوا دوسری مختلف رسیوں کو اپنا رکھا ہے اور اپنے جن خود ساختہ اور جھوٹے سہاروں پر آسرا کر رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی رسی اور کوئی بھی سہارا ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکے گا۔ بالآخر تمام امور کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہو گا۔ اس کے سوا دوسرا کوئی مولیٰ و مرجع نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ کہ خالق و مالک اور حاکم و متصرف اس ساری کائنات میں اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، سبحانہ و تعالی۔

۲۳۔۔۔    سو اس میں پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے، کہ یہ منکرین و معاندین اپنے جس کفر و انکار پر اڑے ہوئے ہیں اس سے آپ کو کوئی غم اور صدمہ نہیں ہونا چاہیے ان سب نے آخرکار اور ہر حال ہماری ہی طرف آنا ہے، اور سب کی ہمارے یہاں ہی پیشی ہونی ہے، تب ہم ان کو وہ سب کچھ پوری طرح بتا دیں گے جو یہ زندگی بھر کرتے رہے تھے، یعنی ان کو اس سب کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا، تب ساری کسر نکل جائیگی، اللہ سے ان کا کوئی بھی عمل مخفی نہیں رہ سکتا کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو بھی بہر حال، اور پوری طرح جاننے والا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۲۸۔۔۔    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بعث بعد الموت، اور ساری مخلوق کو از سر نو دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ کہ اس کے لئے سب لوگوں کو پیدا کرنا۔ اور ان کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے ایک نفس کو پیدا کرنا، اور اس کودوبارہ زندہ کر کے اٹھانا۔ کہ اس کے یہاں کا معاملہ تو محض کُنْ فیکون کا معاملہ ہے، یعنی یہ کہ فرمایا کہ ہو جا تو وہ ہو گیا۔ اس کے حکم و ارشاد کے مطابق ایک ہی نفخ صور سے ساری دنیا اور تمام مخلوق از سرنو زندہ ہو کرکھڑی ہو جائیگی، اور وہ چونکہ سمیع و بصیر بھی ہے۔ یعنی سب کچھ سنتا، اور دیکھتا ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطہ علم و مشاہدہ سے باہر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے قیامت کے اس یوم حساب میں سب لوگوں سے حساب لینے اور ان کو ان کے زندگی بھر کے کئے کرائے کی جزا و سزا دینے میں اس کو کوئی مشکل اور زحمت پیش نہیں آ سکتی وہ علیٰ کل شیئ قدیر کی شان والا ہے۔ سو وقوع قیامت اور بعث بعد الموت عقل و نقل عدل و انصاف اور اس خالق و مالک کی صفات سب کا تقاضا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۲۹۔۔۔    سو اس سے کائنات کے بعض عظیم الشان مظاہر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے جن میں بڑے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، جن میں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت و حکمت، اس کی رحمت و عنایت، اور اس کی وحدانیت و یکتائی کے عظیم الشان دلائل ہیں، لیکن انسان کی غفلت و لاپرواہی ہے کہ وہ ان میں غور و فکر سے کام نہیں لیتا، اس لئے محروم کا محروم ہی رہتا ہے، سو اس کو غور و فکر کی دعوت اور اس کی تحریک و ترغیب کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر پُر حکمت طریقے سے رات کو داخل فرماتا ہے دن میں، اور دن کو داخل فرماتا ہے رات میں، جس سے کبھی دن بڑا، اور رات چھوٹی، اور کبھی اس کے برعکس اور یہ عمل پوری پابندی کے ساتھ لگاتار ہو رہا ہے، تو آخر یہ کون کرتا ہے، سو وہی ہے اللہ قادر مطلق، سبحانہ و تعالیٰ اور اسی نے سورج اور چاند کے ان دو عظیم الشان کروں کو اپنے بندوں کے لئے کام میں لگا رکھا ہے۔ جو منٹوں اور سیکنڈوں کی پابندی کے ساتھ آ رہے ہیں، اور جا رہے ہیں، سو وہی اللہ وحدہٗ لاشریک معبود ہے تم سب کا، سبحانہ و تعالیٰ، پس انسان اگر صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے، تو اس کے لئے کائنات کی اس عظیم الشان اور کھلی کتاب میں عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، حضرت خالق کل اور مالک مطلق کے وجود باجود، اس کی وحدانیت و یکتائی، اس کی قدرت بے نہایت، اور رحمت و عنایت بے غایت پر دلالت کرتے ہیں، اور اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ وہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی اسی ساری کائنات کا خالق اور اس میں حاکم و متصرف ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۳۰۔۔۔    سوکائنات کا یہ پُر حکمت نظام اور اس کی یہ باقاعدگی اور پابندی اور ربوبیت و عنایت خداوندی کی یہ عظیم الشان شانیں اس بات کا کھلا ثبوت اور واضح نشانیاں ہیں کہ اللہ ہی حق ہے۔ معبودِ برحق بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور اپنی اس کائنات میں حاکم و متصرف بھی وہی اور صرف وہی ہے، اس کے ارادہ و حکم میں کوئی بھی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ اس کائنات کی باگ ڈور تنہا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس کے سوا دوسرے کسی بھی الٰہ و معبود کا اس کے خلق و تدبیر میں کسی بھی طرح کا کوئی عمل دخل ہوتا تو یہ سارا نظام کبھی کا درہم برہم ہو گیا ہوتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَوْ کَانَ فِہِیْا اٰلِہَۃٌ اِلاَّ اللّٰہُ لَفَسَدَتَا۔ پس وہ تمام معبود جن کو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے پکارتے ہیں، وہ سب بے حقیقت اور سراسر باطل ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے۔ اور اسی کی ذات ہے جو سب سے بلند بالا و برتر، اور عظیم ذات ہے کائنات کا یہ پُر حکمت نظام اس کی عظمت شان، اور اس کی وحدانیت و یکتائی پر شاہد عدل ہے سبحانہ و تعالیٰ، سو نظام کائنات کے اندر پائی جانے والی یہ عظیم الشان اور بے مثال باقاعدگی و پابندی، اور یہ عظیم الشان افادیت و ربوبیت جس کے نمونے اور مظاہر اس میں ہر طرف پھیلے بکھرے ہیں یہ سب اسی وجہ سے پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے، سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اور اس وحدہٗ لاشریک کے سوا لوگ جن کو بھی پوجتے پکارتے ہیں، وہ سب بے حقیقت اور سراسر باطل ہیں، فَاِیَّاہُ نَعْبُدُ وَلَہ، نَسْجُدُ وَاِلَیْہِ نَسْعیٰ وَنَحْفِدُ، جَلَّ جَلَاَلُہ، وَعَمَّ نوالُہ،

۳۱۔۔۔    سو صبر و شکر کی یہ دونوں صفتیں بڑی عظیم الشان صفتیں ہیں جن سے انسان آزمائش و نعمت کی ہر حالت میں راہ حق و صواب مستقیم اور ثابت قدم رہتا ہے۔ تکلیف اور آزمائش کے موقع پر وہ صبر و برداشت سے کام لیتا ہے، جس سے وہ اس کے لئے خیر و برکت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور نعمت ملنے پر وہ حضرت واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کا شکر ادا کرتا ہے، جس سے وہ بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جبکہ بے صبرے اور ناشکرے انسان کا حال اس سے مختلف اور بالکل برعکس ہوتا ہے وہ تکلیف اور مصیبت پیش آنے پر گھبرا اٹھتا ہے۔ جزع و فزع کرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود کشی تک کا ارتکاب کر لیتا ہے والعباذُ باللہ، اور نعمت و آسودگی ملنے پر وہ کبر و غرور میں مبتلا ہو کر بڑا مست اور مگن ہو جاتا ہے اور ایسا کہ گویا اس کے پاؤں ہی زمین پر نہیں پڑ رہے۔ جس سے اس کی نعمت اور آسودگی بھی اس کے لئے باعث وبال و عذاب بن جاتی ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا۔ سو کشتی کی اس مثال سے لوگوں کے لئے واضح فرمایا دیا گیا کہ دنیا کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں، پس تم لوگوں کو چاہیے کہ ذرا میں مست و مغرور، اور ذرا میں مایوس و نا امید نہ ہوا کرو۔ بلکہ صبر و شکر ہی کی روش کو اپنانے والے بنو۔ ابتلاء و آزمائش میں صبر و برداشت سے کام لو۔ اور نعمت میں شکر گزار بنو یہی راستہ ہے سلامتی و نجات کا اور اسی پر چل کر تم لوگ فلاح پاس کو گے۔ اور اس صورت میں تمہارے لئے خسارے اور نقصان کی کوئی وجہ نہیں، بلکہ ہر حالت خیر ہی خیر ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، و باللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، وبکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۳۴۔۔۔    اس آیت کریمہ میں ان غیوب خمسہ یعنی پانچ غیبوں کو ذکر فرمایا گیا ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جن کو مفاتح الغیب یعنی غیب کے خزانے کہا جاتا ہے، جن کے بارے میں جمہور اہل علم اور تمام ثقہ مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نہ کوئی ملک مقرّب، اور نہ کوئی نبی مرسل اور جو کوئی ان میں سے کسی کے بھی علم کا دعوی کرے گا، وہ قرآن کا منکر قرار پائے گا۔ کیونکہ اس نے قرآن کی مخالفت کی۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے ان کے بارہ میں مروی ومنقول ہے کہ آپ نے ان سے متعلق ارشاد فرمایا لا یعلمہا الاَّ اللّٰہ تعالیٰ لا یعلمہا ملک مقرب ولا نبی مرسل فمن ادعی انہ یعلم شیأا من ہذہ فقد کفر بالقرآن لانہ خالفہ (قرطبی ج ۱۴ ص٨۲، خازن ج ۵ ص۱٨۳ وغیرہ) یعنی ان پانچوں باتوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نہ کوئی مَلَکِ مقرب اور نہ کوئی نبی مرسل، پس جو کوئی دعوی کرے کہ وہ ان میں سے کچھ بھی جانتا ہے، تو وہ یقیناً کافر ہو گا، کہ اس نے قرآن کا انکار کیا، اور اس کی خلاف ورزی کی۔ اور یہی بات امام تفسیر حضرت مجاہد اور قتادہ نے فرمائی ہے، (ابن کثیر ج۳ص۴۵۵ اور روح ج ۲۱ ص۱۱۱وغیرہ) اور حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا مَتَی السَّاعَۃ یعنی قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا فی خَمْسٍ لا یَعْلَہُنَّ اِلاَّ اللّٰہُ ثُمَّ تلاہذہ الایۃ۔ (صحیح بخاری ص ۱۲ صحیح مسلم ج ۱ ص ۲٩) یعنی قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تائید میں یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ سو اسی بناء پر جمہور اہل علم اور تمام ثقہ مفسرین کرام کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ بطور نمونہ اس بارہ چند حوالے ملاحظہ ہوں (ابن جریر ج ٩ص٨٨) نیز ج ۱۶ ص ٩٩ ابن کثیر ج ۴ ص ۳٩٩ البیضاوی، المدارک ج۲ ص ۲۷۲، المعالم ص ۶۶۵، الجامع ص ۳٩۶، الخازن ج ۲ ص ۲۶۵ و ج ۵ ص ۲۲٨، روح المعانی، محاسن التاویل المراغی اور الصفوۃ روغیرہ وغیرہ) سو ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اس کے سوا ان کو کوئی بھی نہیں جانتا۔ اور نہ ہی کوئی جان سکتا ہے۔ پس قیامت کا علم بھی اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اس کے سوا اس کو کوئی نہیں جان سکتا۔ ان اشیائے خمسہ میں سے بعض اشیاء کی جزئیات کا جو علم کچھ لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، جیسے محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیاں وغیرہ، تو وہ محض ظن اور تخمین کے درجے میں ہوتا ہے جو کبھی سچی ثابت ہوتی ہیں کبھی نہیں کبھی معاملہ ان کے مطابق ہوتا ہے کبھی ان کے خلاف پس اس کا قطعی اور یقینی علم کسی کو بہر حال حاصل نہیں ہو سکتا۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہماری بڑی تفسیر یعنی عمدۃ البیان فی تفسیر القرآن المعروف تفسیر المدنی الکبیر، اس میں ہم نے اس سے متعلق اس موقع پر حسب ضرورت کافی تفصیل سے کام لیا ہے، والحمدللہ جل وعلا، آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا اِنَّ اللّٰہَ عَلَیْمٌ خَبِیْرٌ، کہ بیشک اللہ ہی ہے جو سب کچھ جانتا پوری طرح باخبر ہے، پس سب کچھ اسی کے علم میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ