اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس کے لئے وہ سب کچھ ہے جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے اور اسی کے لئے ہے ہر تعریف آخرت (کے اس حقیقی اور ابدی جہاں ) میں بھی اور وہی ہے حکمت والا پورا باخبر
۲۔۔۔ وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ داخل ہوتا ہے زمین میں اور وہ سب کچھ بھی جو کہ نکلتا ہے اس سے اور جو اترتا ہے آسمان سے اور جو چڑھتا ہے اس میں اور وہی ہے بڑا مہربان انتہائی بخشنے والا
۳۔۔۔ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی کہو کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی جو کہ عالم غیب ہے وہ تم پر ضرور بالضرور آ کر رہے گی اس سے ذرہ برابر کوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں (کی بلندیوں ) میں اور نہ زمین (کی پستیوں ) میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز اور نہ بڑی مگر (یہ سب کچھ) ایک کھلی کتاب میں (ثبت و مندرج) ہے
۴۔۔۔ تاکہ اللہ (تعالیٰ پورا) بدلہ دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ایسے لوگوں کے لئے ایک بڑی ہی عظیم الشان بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی
۵۔۔۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگاتے رہے ان کے لئے ایک بڑی ہی سختی کا دردناک عذاب ہے
۶۔۔۔ اور وہ لوگ جن کو علم (کی دولت) سے نوازا گیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ اتارا گیا آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وہی حق ہے جو راہنمائی کرتا ہے اس زبردست اور سب خوبیوں کے مالک کے راستے کی طرف
۷۔۔۔ اور کافر لوگ (تعجب اور استہزاء کے طور پر ایک دوسرے سے ) کہتے ہیں کہ کیا ہم تم کو ایک ایسے شخص کا پتہ نہ دیں جو تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم (مر کر) بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو تم پھر نئے سرے سے پیدا کر دئے جاؤ گے
۸۔۔۔ (نہ معلوم یہ شخص) جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اس کو کوئی جنون لاحق ہو گیا ہے (نہیں ) بلکہ (اصل حقیقت یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان نہیں رکھتے آخرت پر وہ عذاب اور دور کی گمراہی میں (پڑے ہوئے ) ہیں
۹۔۔۔ کیا انہوں نے کبھی آسمان اور زمین (کی اس حیرت انگیز کائنات) میں غور نہیں کیا جو ان کے آگے اور پیچھے (ہر طرف پھیلی ہوئی) ہے اگر ہم چاہیں تو ان لوگوں کو دھنسا دیں زمین میں یا ان پر گرا دیں ٹکڑے آسمان سے بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ہر اس شخص کیلئے جو رجوع کرتا ہے (حق اور حقیقت کی طرف)
۱۰۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے داؤد کو بھی اپنی طرف سے بڑی فضیلت بخشی تھی (اور پہاڑوں سے بھی کہہ دیا تھا کہ) اے پہاڑو! تم بھی تسبیح کیا کرو ان کے ساتھ اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا تھا) اور ہم نے ان کے لئے لوہے کو بھی نرم کر دیا تھا
۱۱۔۔۔ کہ تم زرہیں بناؤ پوری پوری اور ٹھیک اندازہ رکھو ان کی کڑیاں جوڑنے میں اور تم سب لوگ نیک کام کرو بے شک میں پوری طرح دیکھ رہا وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے ہو
۱۲۔۔۔ اور سلیمان کیلئے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا اس کی صبح کی منزل مہینے بھر کی راہ کی تھی اور شام کی بھی مہینے بھر کی راہ کی تھی اور بہا دیا تھا ہم نے ان کیلئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اور جنوں میں سے کچھ ایسے جن بھی ہم نے ان کے تابع کر دئیے تھے جو اپنے رب کے حکم سے ان کے آگے اس طرح کام کرتے تھے کہ ان میں سے جو بھی کوئی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اسے ہم مزہ چکھاتے ) دہکتی) بھڑکتی آگ کے عذاب کا
۱۳۔۔۔ وہ ان کے لئے بناتے جو کچھ کہ وہ چاہتے بڑی بڑی عمارتیں تصویریں حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور (ایک ہی جگہ) جمی رہنے والی (بڑی بڑی) دیگیں داؤد کے خاندان والو تم نیک کام کرو شکر کے طور پر (ان عظیم الشان نعمتوں کے بدلے میں ) اور کم ہی لوگ ہیں میرے بندوں میں سے جو شکر ادا کرتے ہیں
۱۴۔۔۔ پھر جب ہم نے نافذ کر دیا سلیمان پر موت کا اپنا فیصلہ تو جنوں کو ان کی موت کا کسی نے پتہ نہ دیا سوائے گھن کے اس کیڑے کے جو کھاتا رہا ان کے عصا کو سو (اس کے نتیجے میں ) جب گر پڑے سلیمان تو جنوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو (اس طرح اور اتنا عرصہ) مبتلا نہ رہتے (ذلت و) خواری کے اس عذاب میں
۱۵۔۔۔ بلاشبہ قوم سبا کے لئے ان کے اپنے وطن میں ہی ایک بڑی نشانی تھی دو رویہ باغ دائیں اور بائیں (اور ساتھ ہی یہ اذن عام بھی کہ) کھاؤ تم لوگ اپنے رب کے دئیے ہوئے میں سے اور شکر بجا لاؤ اس (واہب مطلق) کا ملک پاکیزہ اور رب بخشش فرمانے والا
۱۶۔۔۔ پھر بھی انہوں نے سرتابی سے ہی کام لیا جس کے نتیجے میں (آخرکار) ہم نے چھوڑ دیا ان پر سیلاب اس بند کا اور ہم نے ان کو ان دو رویہ باغوں کے بدلے ایسے اور دو رویہ باغ دے دئیے جن میں بدمزہ پھل جھاؤ کے درخت اور کچھ تھوڑی سی بیریاں تھی
۱۷۔۔۔ یہ بدلہ دیا تھا ہم نے ان کو ان کے کفر کا اور ایسا بدلہ ہم نہیں دیتے مگر ایسے ہی بڑے ناشکرے انسان کو
۱۸۔۔۔ اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن کو ہم نے برکت عطا کر رکھی تھی ایسی بستیاں بسا دی تھیں جو (اس طویل شاہراہ پر) کھلی نظر آتی تھیں اور ان کے درمیان کی مسافتیں بھی ہم نے ایک مناسب اندازے پر رکھی تھیں چلو تم لوگ ان میں راتوں اور دنوں میں پورے امن (و سکون) کے ساتھ
۱۹۔۔۔ مگر وہ کہنے لگے کہ اے ہمارے رب دوری ڈال دے ہمارے سفروں کے درمیان اور (اس طرح) انہوں نے ظلم ڈھایا خود اپنی جانوں پر آخرکار ہم نے ان کو (قصے ) کہانیاں بنا کر رکھ دیا اور ان کو بالکل پارہ پارہ کر دیا بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو بڑا صبر کرنے والا بڑا شکر گزار ہو
۲۰۔۔۔ اور واقعی ابلیس نے سچ کر دکھایا ان لوگوں کے بارے میں اپنا گمان سو یہ سب اس کے پیچھے چل پڑے بجز ایمان والوں کے ایک گروہ کے
۲۱۔۔۔ اور اس کا ان پر کوئی زور نہیں تھا مگر (اغواء اور وسوسہ اندازی کا اور وہ بھی اس لئے کہ) تاکہ ہم دیکھیں کہ کون ایمان رکھتا ہے آخرت پر اور کون اس کے بارے میں شک میں پڑا ہے اور تیرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے
۲۲۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ پکار دیکھو تم لوگ ان کو جن کا تم گھمنڈ رکھتے ہو اللہ کے سوا وہ ذرہ برابر کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ہی ان کا ان دونوں میں کسی طرح کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کا (معاون و) مددگار ہے
۲۳۔۔۔ اور اللہ کے یہاں کوئی سفارش کسی کو کام نہیں دے سکے گی بجز اس شخص کے جس کو اللہ خود اجازت دے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جائے گی تو وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا فرمایا آپ کے رب نے ؟ تو وہ کہیں گے کہ حق ہی فرمایا ہے اور وہی ہے بلند شان والا سب سے بڑا
۲۴۔۔۔ (ان سے ) پوچھو کہ بھلا کون تم کو روزی دیتا ہے آسمانوں اور زمین سے ؟ (جواب چونکہ متعین ہے اس لئے ) آپ خود ہی کہہ دو کہ اللہ اور (یہ کہ) بلاشبہ ہم یا تم یا قطعی طور پر ہدایت پر ہیں یا پڑے ہیں کھلی گمراہی میں
۲۵۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ نہ تم سے کوئی باز پرس ہو گی ان جرائم کے بارہ میں (جو بقول تمہارے ) ہم کر رہے ہیں اور نہ ہم سے کوئی باز پرس ہو گی تمہارے ان کاموں کے بارے میں جو تم لوگ کر رہے ہو
۲۶۔۔۔ (نیز ان سے یہ بھی) کہہ دو کہ ہمارا رب جمع فرمائے گا ہم سب کو پھر وہ (آخری اور عملی) فیصلہ فرما دے گا ہمارے درمیان حق کے ساتھ اور وہی ہے سب سے بڑا فیصلہ فرمانے والا سب کچھ جاننے والا
۲۷۔۔۔ (نیز ان سے یہ بھی) کہو کہ ذرہ مجھے دکھا تو دو ان ہستیوں کو جن کو تم لوگوں نے ملا رکھا ہے اس (وحدہٗ لاشریک) کے ساتھ شریک بنا کر ہرگز (اس کا کوئی بھی شریک) نہیں بلکہ وہی اللہ ہے سب پر غالب نہایت حکمت والا
۲۸۔۔۔ اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو (اے پیغمبر !) مگر سب لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں (حق اور حقیقت کو)
۲۹۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ کب پورا ہو گا تمہارا یہ وعدہ اگر تم سچے ہو؟ (اپنے اس وعدہ و عہد میں ؟)
۳۰۔۔۔ سو (ان سے ) کہو کہ تمہارے لئے ایک ایسے دن کا وعدہ بہر حال مقرر ہے جس سے تم پل بھر کے لئے نہ پیچھے ہو سکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو
۳۱۔۔۔ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن پہ ایمان لائیں گے اور نہ ہی اس پر جو اس سے آگے ہے اور اگر کسی طرح تم دیکھ سکتے (اس منظر کو) کہ جب (نور حق و ہدایت سے محروم) ان ظالموں کو کھڑا کر دیا گیا ہو گا ان کے رب کے حضور اور یہ آپ میں ایک دوسرے پر بات ڈالتے (اور الزام دھرتے ) ہوں گے (تو تم کو ایک بڑا ہی ہولناک منظر نظر آئے جب کہ) وہ لوگ جن کو (دنیا میں ) دبا کر رکھا گیا وہ (مارے حسرت و یاس کے چلا چلا کر) ان لوگوں سے کہہ رہے ہوں گے جو کہ دنیا میں بڑے بنے ہوئے تھے کہ اگر تم لوگ نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے
۳۲۔۔۔ اس کے جواب میں وہ لوگ جو بڑے بنے ہوئے تھے دبا کر رکھے گئے ان لوگوں سے کہیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ہدایت (کی روشنی) سے جب کہ وہ تمہارے پاس پہنچ چکی تھی؟ نہیں بلکہ تم لوگ خود مجرم تھے
۳۳۔۔۔ اور اس پر دبا کر رکھے جانے والے لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا رہنے والے اپنے ان پیشواؤں (اور گروؤں ) سے کہیں گے کہ نہیں بلکہ یہ رات اور دن کی تمہاری مکاری تھی جب کہ تم لوگ ہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم کفر کریں اللہ کے ساتھ اور اس کیلئے دوسرے طرح طرح کے شریک (اور ہمسر) ٹھہرائیں اور وہ چھپا رہے ہوں گے اپنی ندامت کو (ایک دوسرے سے ) جب کہ وہ دیکھیں گے اس عذاب کو (جو ان کے لئے مقدر ہو چکا ہو گا) اور ہم نے ڈال دئے ہیں طوق ان لوگوں کے گلوں میں جو کہ (اکڑے اور) اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر ان کو بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر ان کے انہی کاموں کا جو وہ خود کرتے رہے تھے (اپنی دنیاوی زندگی میں )
۳۴۔۔۔ اور ہم نے کسی بھی بستی میں کوئی خبردار کرنے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے عیش پرست لوگوں نے یہی کہا کہ ہم تو قطعی طور پر منکر ہیں اس چیز کے جس کے ساتھ تم لوگوں کو بھیجا گیا ہے
۳۵۔۔۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہم تو مال و دولت میں بھی تم سے زیادہ ہیں اور اولاد (اور جتھے ) کے اعتبار سے بھی تم سے کہیں بڑھ کر ہیں اور ہمیں کوئی عذاب (وغیرہ) نہیں ہونے کا
۳۶۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ (مال و دولت پر اترانے والو یاد رکھو کہ) بے شک میرا رب کشادہ کرتا ہے روزی جس کے لئے چاہتا ہے اور وہی تنگ کرتا ہے (جس کے لئے چاہتا ہے ) لیکن اکثر لوگ جانتے (اور مانتے ) نہیں
۳۷۔۔۔ اور یہ (بھی سن لو کہ) تمہارے یہ مال اور تمہاری یہ اولا دیں (جن پر تم لوگوں کو اتنا ناز ہے ) کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں جو تمہیں ہمارے قریب کر سکیں ہاں مگر جو (سچے دل سے ) ایمان لائے اور وہ کام بھی نیک کرے سو ایسے لوگوں کے لئے کئی گنا بدلہ ہے ان کے ان کاموں کا جو یہ کرتے رہے ہیں اور یہ (جنت کی) ان عالی شان عمارتوں میں امن و سکون کے ساتھ رہیں گے
۳۸۔۔۔ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہ عذاب میں پکڑے ہوئے حاضر کئے جائیں گے
۳۹۔۔۔ کہو بے شک میرا رب روزی کشادہ کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے اور جو بھی کچھ تم لوگ خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ تم کو اور دیتا جاتا ہے اور وہی ہے سب سے بہتر روزی دینے والا
۴۰۔۔۔ اور (وہ دن بھی یاد کرو کہ) جس دن اللہ ان سب کو اکٹھا کر کے لائے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟
۴۱۔۔۔ وہ جواب میں عرض کریں گے پاک ہے آپ کی ذات ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں سے بلکہ یہ لوگ تو (درحقیقت) شیطانوں کی عبادت کرتے تھے (اور) ان میں سے اکثر تو انہی پر اعتقاد رکھتے تھے
۴۲۔۔۔ سو (اس موقع پر ان سے کہا جائے گا کہ) اب نہ تم میں سے کوئی کسی کے نفع کا اختیار رکھتا ہے نہ نقصان کا اور (اس روز) ہم کہیں گے ان لوگوں سے جو (دنیا میں ) اڑے رہے ہوں گے اپنے ظلم پر کہ اب چکھو تم مزہ اس آگ کے عذاب کا جس کو تم لوگ (دنیا میں ) جھٹلایا کرتے تھے
۴۳۔۔۔ اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیتیں کھلی کھلی تو یہ لوگ (پوری ہٹ دھرمی سے ) کہتے ہیں کہ اس شخص کا مقصد تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ (کسی طرح) تم کو روک دے ان (بتوں کی پوجا) سے جن کی پوجا تمہارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں اور (قرآن کے بارے میں ) کہتے ہیں کہ یہ تو محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا اور کافر لوگ حق کے بارے میں کہتے ہیں جب کہ وہ ان کے پاس آ گیا کہ یہ کچھ نہیں مگر ایک جادو ہے کھلم کھلا
۴۴۔۔۔ اور ہم نے ان لوگوں کو (اس سے پہلے ) نہ کوئی ایسی کتاب دی تھی جس کو یہ پڑھتے ہوں اور نہ ہی ہم نے آپ سے پہلے ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تھا
۴۵۔۔۔ اور ان لوگوں نے بھی جھٹلایا (حق و صداقت کو) جو کہ گزر چکے ہیں ان سے پہلے حالانکہ ان لوگوں کو جو کچھ ہم نے دیا تھا یہ اس کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتے مگر انہوں نے جھٹلایا میرے رسولوں کو پھر (دیکھو !) کیسا ہوا میرا عذاب؟
۴۶۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم لوگ اٹھ کھڑے ہوؤ اللہ کے لئے ایک ایک اور دو دو ہو کر اور پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں آخر جنوں کی کون سی بات ہے وہ تو محض ایک خبردار کرنے والا ہے تمہارے لیے ایک بڑے ہی سخت (اور ہولناک) عذاب سے پہلے
۴۷۔۔۔ (نیز ان سے ) کہو کہ اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہو تو وہ تم ہی کو پہنچا میرا اجر تو بس اللہ کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے
۴۸۔۔۔ (نیز ان سے ) کہو کہ میرا رب (بندوں کے دلوں میں ) حق ڈالتا ہے وہی ہے جاننے والا سب غیبوں کو
۴۹۔۔۔ کہو کہ (لوگو !) حق آگیا اور باطل نہ کرنے کا رہا نہ دھرنے کا
۵۰۔۔۔ کہو کہ اگر (بالفرض) میں گمراہی پر ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ ہی پر ہو گا اور اگر میں سیدھی راہ پر ہوں تو یہ اس وحی کی بناء پر ہے جو میرا رب میری طرف بھیجتا ہے بلاشبہ وہ سنتا ہے (ہر کسی کی اور) نہایت ہی قریب ہے
۵۱۔۔۔ اور اگر تم (کسی طرح وہ منظر) دیکھ سکو جب کہ یہ لوگ نہایت ہی گھبراہٹ کے عالم میں ہوں گے پھر بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہ ہو گی اور ان کو قریب کی جگہ سے (اور فورا ہی) پکڑ لیا جائے گا
۵۲۔۔۔ اور (اس وقت) یہ رہ رہ کر کہیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اس (حق) پر مگر کہاں ممکن ہو گا ان کے لئے اس کو پانا اتنی دور سے ؟
۵۳۔۔۔ جب کہ اس سے قبل یہ لوگ (زندگی بھر) اس کا انکار کرتے رہے تھے اور یہ بن دیکھے (اٹکل کے ) تیر پھینکتے رہے دور کی جگہ سے
۵۴۔۔۔ اور آڑ کر دی گئی ہو گی ان کے درمیان اور اس چیز کے درمیان جس کی یہ خواہش کریں گے جیسا کہ ان کے ہم مشربوں کے ساتھ کیا گیا ان سے پہلے بے شک یہ سب پڑے تھے الجھن انگیز شک میں
۱۔۔۔ کہ آسمانوں اور زمین کی اس ساری کائنات کا خالق و مالک بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور اس میں حاکم ومتصرف بھی وہی اور صرف وہی ہے، سو نعمتوں اور حکمتوں بھری اس کائنات میں انسان جدھر بھی نگاہ ڈالے اور نظر دوڑائے اس کو ہر طرف اس قادر مطلق کی قدرت وحکمت اور اس کی رحمت وعنایت کے عظیم الشان اور ان گنت ولا تعداد مظاہر نظر آئیں گے۔ اور ایسے اور اس قدر کہ وہ بے ساختہ اور دل و جان سے پکار اٹھے گا۔ سبحان اللہ والحمد للہ، کہ وہ خالق کل اور مالک مطلق ہر شائبہ نقص وعیب اور ہر قسم کے شرک سے پاک، اور ہر خوبی و کمال کا مالک ہے۔ جس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت وعنایت کا کوئی ٹھکانا نہیں اور جب اس کی ان صفات اور خوبیوں میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کیاطاعت مطلقہ، اور اس کی عبادت وبندگی، میں کسی کے اس کے ساتھ شریک وسہیم ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ پس وہی معبود برحق ہے، اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ نیز یہیں سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اس کی قدرت و حکمت اور اس کی اس رحمت و عنایت کا تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا یوم حساب بپا کرے جس میں وہ اپنے شکر گزار اور اطاعت شعار بندوں کو اپنے خاص انعام و اکرام سے نوازے۔ اور ناشکروں اور نافرمانوں کو ان کے کئے کرائے کا بدلہ دے، تاکہ اسطرح عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہ تمام وکمال پورے ہوں، اور اس طرح اس حکمتوں اور عبرتوں بھری کائنات کی تخلیق کا مقصد پورا ہو سکے۔ ورنہ یہ سب کچھ ایک بازیجہ اطفال بلکہ اندھیر ںگر بن کر رہ جائے گا۔ جو کہ اس خالق حکیم کی قدرت و حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو وہی روز یوم قیامت ہے۔ جس نے بہر حال بپا ہو کر رہنا ہے۔
اور آخرت کے اس جہان غیب میں جہاں سب پردے ہٹ اور اٹھ چکے ہوں گے۔ اور جملہ حقائق اپنی اصل اور حقیقی شکل میں سامنے آچکے ہونگے، وہاں اسی وحدہٗ لاشریک کی حمد وثنا کا دور دورہ ہو گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ (الزمر۔۷۵) یعنی اس روز ان سب کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور ایک ہی صدا بلند ہو گی کہ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو کہ پروردگار ہے سب جہانوں کا۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہاں پر اہل جنت کی ہر بات کا خاتمہ الحمدللہ رب العالمین ہی پر ہو گاچنانچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ اَنِ الْحْمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (یونس۔۱٠) سو حمد و ثنا کا اصل اور حقیقی حقدار و سزا وار وہی وحدہٗ لاشریک ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور اس کی حمد وثنا سے سرفرازی بندے کے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اللہ توفیق بخشے۔ اور ایسی توفیق جس سے وہ راضی ہو جائے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، ہمیشہ حق کو حق ہی دکھائے، اور باطل کو باطل اور ہر قدم اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی اٹھانے اور بڑھانے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین، وانہ سبحانہ و تعالیٰ لسمیع قریب مجیب، وعلیٰ مایشاء قدیر،
۶۔۔۔ اس سے ان سعادت مند لوگوں کی نشاندہی فرما دی گئی جو قرآن حکیم کے منبع فیض سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں۔ اور ان کی اس سعادت مندی اور سرفرازی کے سبب اور باعث کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ سو ان کی تعیین و تشخیص اور ان کی نشاندہی کے سلسلے میں واضح فرما دیا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی علم و معرفت کی دولت سے سرفراز ہیں۔ خواہ ان کا تعلق ان سلیم الفطرت لوگوں سے ہو جن کے دلوں کی صحت وسلامتی محفوظ تھی اور اسی کی بناء پر وہ قرآن حکیم کے نور مبین سے مستنیر و فیضیاب ہوئے۔ اور اہل عرب میں جو لوگ حنیفیت کے پیرو تھے ان کا شمار بھی اسی زمرے میں ہوتا ہے۔ اور خواہ ان کا تعلق ان اہل کتاب سے ہو جنہوں نے اپنے نبیوں اور صحیفوں سے ملنے والے علم الٰہی کو محفوظ رکھا تھا، سو یہ دونوں ہی قسم کے اہل علم اس چیز کو سراسر حق اور سچ سمجھتے ہیں، جو آپ کی طرف (اے پیغمبر!) آپ کے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے، یہ لوگ اس عقیدہ توحید کو بھی حق اور صدق سمجھتے ہیں جس کی دعوت آپ دے رہے ہیں اور اس قیامت کو بھی برحق جانتے اور مانتے ہیں، جس سے آپ لوگوں کو خبردار کر رہے ہیں کیونکہ یہ چیز ان کی فطرت کی پکار، اور ان کے اس علم وحی کی تصدیق و تائید ہے، جو گزشتہ انبیاء ورسل اور ان کے پیش کردہ صحف وکتب کے ذریعے ان کو ملا ہے، سو اس ارشاد میں ایک طرف تو حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے تسکین و تسلبہ کا سامان ہے۔ کہ آپ کی دعوت حق کو اگر کچھ معاند اور بدبخت نہیں مانتے تو کیا ہوا، اس کو تو وہ تمام لوگ مانتے ہیں جو معرفت خداوندی اور حق کا صحیح علم رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اس میں منکرین و معاندین کے لئے مذمت و ملامت اور ان کے لئے تنبیہ و تحذیر بھی ہے، کہ یہ لوگ اس حق و صدق کو ماننے اور تسلیم کرنے کی سعادت سے محروم ہیں جس کو حق اور حقیقت کا صحیح علم رکھنے والے سب اہل علم اور سلیم الفطرت لوگ مانتے ہیں، سو یہ لوگ بڑے ہی محروم اور بدبخت لوگ ہیں، کہ یہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی اس واحد راہ اور صراط مستقیم سے محروم ہیں، جس سے ان کا زاویہ نگاہ اور ان کا طریق حیات سب کچھ غلط ہو گیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَا کِبُوْنَ(المومنون۔۷۴) یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ یقیناً سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں، نیز اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن حکیم کی اصطلاح میں اور اس کے نزدیک علم صرف خداوند قدوس کی معرفت اور آخرت ہی کا علم ہے، ورنہ انسان ان پڑھ کا ان پڑھ ہی ہے خواہ اس نے دنیاوی علوم کے اعتبار سے کتنی ہی ڈگریاں کیوں نہ اٹھا رکھی ہوں۔ اور معرفت خداوندی اور عقیدہ آخرت کی محرومی کی صورت میں مادہ و معدہ اور مادیات و سفلیات سے متعلق حاصل کیا جانے والا سارا علم خوداس کے لئے ایک ثقل اور بار ہے۔ اور دوسروں کے لئے خطرہ اور عذاب۔ جیسا کہ اس کے مختلف مظاہر تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے، اور آج بھی جابجا موجود ہیں، اور ہم اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے ہیں، اسی لئے قرآن حکیم میں علماء انہی خوش نصیبوں کو فرمایا گیا ہے جو خوف وخشیت خداوندی کے علم سے سرفراز وسرشار ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اور اَدواتِ حَصْر وقَصْر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ سوائے اس کے نہیں کہ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں (حق اور حقیقت اور معرفت خداوندی کا) بیشک اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی بخشنے والا ہے (فاطر۔ ۲٨) سبحانہ و تعالیٰ، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،
۱۳۔۔۔ سو اس سے حضرت سلیمان کی تسخیر جنات کی حقیقت اور ان سے لئے جانے والے تعمیری تمدنی اور اصلاحی کاموں کی حیثیت اور حقیقت کو واضح فرمادیا گیا۔ یہود بے بہبود اپنے دور زوال میں جب سفلی علوم کے کاروبار میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے ان خرافات کو رواج دینے کے لئے ان کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کر دیا اور اسی کے اثرات آج ہمارے یہاں کے مسلم معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں، چنانچہ سلیمانی جادو سلیمانی ٹوپی، سلیمانی انگوٹھی، اور نقش سلیمانی، وغیرہ جیسے الفاظ آج بھی ہمارے معاشرے میں مشہور ہیں حالانکہ حضرت سلیمان خود ایک عظیم الشان پیغمبر اور ایک عظیم الشان پیغمبر کے بیٹے تھے۔ ان کا اس طرح کے سفلی علوم سے نہ کوئی تعلق تھا، نہ ہو سکتا تھا اولا تو آپ کو تسخیر جنات کی جس امتیازی شان سے نوازا گیا تھا، وہ سب کی سب قرآن پاک کی تصریح کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ آپ کی طرف سے کس طرح کی چلہ کشی یا جنی عملیات وغیرہ سے اس کا سرے سے کوئی تعلق تھا ہی نہیں بلکہ وہ محض ایک عطاء ربانی اور فیض خداوندی تھا، جس سے آنجناب کو نوازا گیا تھا پھر آپ نے جنوں کو کسی طرح کے جادو ٹونے وغیرہ جیسے کسی سفلی کام میں نہیں لگایا تھا۔ بلکہ ان سے آپ نے بڑے بڑے اصلاحی اور تعمیری کام کرائے تھے۔ جن میں سے کچھ اہم کاموں کا ذکر وبیان یہاں فرمایا گیا ہے، چنانچہ ان میں سب سے پہلے محاریب کا ذکر فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہیں بڑی بڑی عمارتیں، قلعے، اور محل وغیرہ جو اس وقت کے تعمیری آرٹ کا ایک عظیم الشان نمونہ و مظہر تھا۔ حضرت سلیمان کی تعمیر کرائی ہوئی ان بڑی بڑی عمارتوں میں سے ہیکل اور ان کے محل کا ذکر تفصیل کے ساتھ کتاب سلاطین میں موجود ہے، سو ان محاریب کے تعمیری آرٹ پر کمال فن کا بڑی عمدگی سے مظاہر کیا گیا تھا۔ اور ان پر نہایت خوبصورت پھولوں اور عمدہ نقش ونگار کو ابھارا گیا تھا۔ دوسری چیز جو اس ضمن ہیں یہاں ذکر فرمائی گئی، وہ ہے تماثیل جو کہ جمع ہے تمثال کی، اور تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی قدرتی چیز کے مشابہ بنائی جائے، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی ذی روح چیز کی ہو، جیسے کوئی انسان اور حیوان وغیرہ، یا کسی غیر ذی روح چیز کی، جیسے کوئی پہاڑ یا درخت، یا دریا وغیرہ، خواہ وہ کسی چیز کی کوئی مصور یاکندہ کی ہوئی صورت اور اس کی شبیہ ہو۔ یا اسی طرح کا کوئی پیکر اور مجسمہ۔ سو حضرت سلیمان کے لئے جو تماثیل بنائی جاتی تھیں، ضروری نہیں کہ وہ ذی روح چیزوں ہی کی ہوں، جیسے انسانوں اور حیوانوں کی تصویریں۔ بلکہ یہ غیر ذی روح چیزوں کی تصویریں، اور انہی کے نقش ونگار بھی ہو سکتے ہیں، جن سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں وغیرہ کو آراستہ کیا ہو۔ اور یہی بات قرین قیاس اور لائق اعتبار ہے۔ اور یہی آنجناب کی پیغمبرانہ شان کے لائق ہے، کیونکہ حضرت سلیمان شریعت موسوی کے متبع اور پیروکار تھے۔ اور شریعت موسوی میں انسانی اور حیوانی مجسمے اور تصاویر وغیرہ اسی طرح حرام تھے جس طرح کہ شریعت محمدیہ میں حرام ہیں۔ پس جن لوگوں نے یہ کہا کہ یہ چیزیں گزشتہ شریعتوں میں حرام نہیں بلکہ جائز تھیں ان کا یہ قول بالکل غلط اور بے خبری پر مبنی و محمول ہے اور اس طرح کی جن چیزوں کا ذکر حضرت سلیٰمن کی طرف منسوب کر کے کیا گیا، وہ سراسر جھوٹ اور افتراء ہے جو ایسے لوگوں نے ان کے بارے میں گھڑا ہے اور یہ ان لوگوں کی طرف سے گھڑا گیا ہے جن کو حضرت سلیمان سے عداوت و دشمنی اور خدا واسطے کا بیر تھا، والعیاذ باللہ، اور تورات میں حیوانوں اور انسانوں کے مجسمے بنانے کی حرمت کا ذکر کئی جگہ موجود ہے اور پوری صراحت کے ساتھ موجود و مذکور ہے جیسے استثناء باب ۴۔ آیت نمبر۱۶۔۱٨۔ نیز باب ۲۷ آیت نمبر۱۵، احبار باب ۲۶ آیت نمبر۱ اور خروج باب ۲٠۔ آیت، ۴وغیرہ، سوان تصریحات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کہنا لا علمی اور بے خبری پر مبنی ہے کہ گزشتہ شریعتوں میں تصویر اور مجسمہ سازی جائز تھی، اور یہ بھی غلط ہے کہ حضرت سلیمان نے یہ تصویریں جانداروں کی بنوائی تھیں، اس کے بعد وَجِفَانٍ کالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّاسِیٰتٍ کے الفاظ سے حضرت سلیٰمن کی شان جود و سخا کو واضح فرمایا گیا ہے، جفان جمع ہے جفنہ کی جس کے معنی تھال، لگن، اور پیالے، وغیرہ کے آتے ہیں اور جو اب جمع ہے جابیہ کی جس کے معنی حوض کے آتے ہیں۔ اور قدور جمع ہے قدر کی، جس کے معنی ہانڈی اور دیگ وغیرہ کے آتے ہیں اور راسیات کے معنی ہوتے ہیں گڑھی ہوئی اور ٹھکی ہوئی۔ یہ لفظ اصل میں پہاڑوں کی صفت کے لئے آتا ہے، یہاں پر یہ ان بھاری بھرکم دیگوں کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے جو حضرت سلیمان نے مہمانوں کے لئے کھانے پکانے کے لئے تیاری کروائی تھیں سو وہ اتنی بھاری بھرکم تھیں کہ ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا، وہ خاص خاص چولہوں پر ایک ہی جگہ نصیب رہتی تھیں۔ جن میں بیک وقت منوں کے حساب سے کھانا پکتا تھا۔ سو پہلے ٹکڑے میں تمدن سلیمانی کے آرٹ کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، اور اس دوسرے ٹکڑے میں ان کی شان جود وکرم کو واضح فرمایا گیا۔ سو جنات حضرت سلیمان کے لئے حوضوں جیسے بڑے بڑے لگن بناتے، اور ایسی بڑی بڑی دیگیں، جو ایک ہی جگہ ٹھکی رہتی تھیں۔ جس سے آنجناب کی مہمان نوازی، خدمت خلق، شان کرم وعطا، اور جذبہ خود وسخا، کا اظہار ہوتا ہے، علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔
۲۰۔۔۔ سو اس سے ابلیس کے اس ظن وگمان کا حوالہ دیا گیا، جس کا اظہار و اعلان اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس وقت کیا تھا، جبکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے باوجود آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، سو اس وقت اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے بارے میں چیلنج کے طور پر کہا تھا کہ میں ضرور بالضرور ان سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا، سوائے تیرے چنے ہوئے خاص بندوں کے۔ اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (الحجر۔۴٠) کہ ان پر میرا زور نہیں چلے گا۔ ورنہ باقی سب کو میں اپنے پھندے میں پھانس کر رہونگا۔ اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہیں پائے گا۔ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ (الاعراف۔۱۷) سو اس ملعون نے اولاد آدم کے بارے میں اپنے اس ظن و گمان کو سچ کر دکھایا، ان کی اکثریت اس کے پیچھے لگ گئی، سو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وہی اعلان سچ ثابت ہو گا، جو اس موقع پر اس نے ابلیس کے اس چیلنج کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تجھ سے اور تیرے ایسے سب پیروکاروں سے جہنم کو بھر کر رہو نگا، اور یہ ارشاد قرآن حکیم میں کئی جگہ فرمایا گیا، اور ادوات تاکید کے ساتھ فرمایا گیا مثلا سورہ اعراف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملعون کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ (الاعراف،۱٨) یعنی ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے چلے گا میں ضرور بالضرور تم سب سے جہنم کو بھر دونگا، اور اسی حقیقت کا اظہار و بیان سورہ ص میں اس طرح فرمایا گیا ہے لَاَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ
۲۶۔۔۔ سو اس سے منکرین و معاندین کو آخری جواب دینے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ ہم تم لوگوں کو جس کفر و شرک اور بت پرستی سے روکتے ہیں تو وہ اس لئے کہ تاکہ خود تمہارا بھلا ہو، اور تم دوزخ کے عذاب اور برے انجام سے بچ سکو۔ اگر تم اس کو ماننے اور اس پر کان دھرنے کے بجائے الٹا تم لوگ ہماری اس خیر خواہی کو جرم سمجھتے ہو تو یہ جرم ہمارے ذمے ہے، تم سے اس کے بارہ میں کوئی پرسش و پوچھ نہیں ہو گی۔ ہمارے ذمے تبلیغ حق کی جو ذمہ داری تھی وہ ہم نے ادا کر دی۔ اب اگر تم نہیں مانو گے تو اس کی ذمہ داری اور دجوابدی خود تم ہی پر ہو گی۔ ہمارا رب فصل و تمییز کے اس یوم حساب میں تم اور ہم سب کو یکجا کرے گا۔ پھر وہ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے گا۔ کہ وہی ہے سب سے بڑا اور حق کے عین مطابق فیصلہ فرمانے والا۔ اور سب کچھ جاننے والا، جس سے کسی کی کوئی بھی حالت اور کیفیت مخفی و مستور نہیں رہ سکتی۔ تب تم لوگوں کو سب کچھ صحیح اور پورے طور پر خود معلوم ہو جائے گا۔ پس تم لوگ اپنے طور طریقے پر کام کئے جاؤ، ہم اپنے طور طریقے پر کام کر رہے ہیں، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیْ دِیْنِ سو اس میں ان منکرین و معاندین سے اظہار بیزاری اور ان سے قطع بحث مباحثہ کا درس ہے۔ جو حق بات سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہوتے ہوں۔ کہ ایسوں سے الجھنے اور بحث مباحثہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، سوائے تضییع وقت، اور بے فائدہ کوفت کے، کہ پتھر پر جونک لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، اور اس مضمون کو قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر مختلف اسالیب سے بیان فرمایا گیا ہے، جس سے دراصل ایسے ہٹ دھرموں سے خیر کی کوئی توقع نہ رکھنے کا درس دینا مطلوب ہوتا ہے پس اس طرح کی آیات کریمات کو جن لوگوں نے اظہار روا داری کے مفہوم میں لیا، انہوں نے بہت غلط سمجھا۔ اور ان آیات کریمات کا غلط مطلب لیا۔ کیونکہ ان سے مقصود اظہار روا داری نہیں ہوتا کہ یہ سب ٹھیک ہیں، جس کی مرضی جس راستے پر چاہے چلے، سو ایسا نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ راہ حق تو بہر حال ایک ہی راہ ہے جس کی دعوت دین حق اسلام دیتا ہے اور بس، پس اس طرح کی آیات کریمات کا اصل مقصود اظہار روا داری نہیں۔ بلکہ اظہار بیزاری ہوتا ہے یعنی تم لوگ اگر آواز حق کو سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہو تو تمہارا راستہ الگ۔ ہمارا الگ، تم اپنے کئے کرائے کے جوابدہ اور ذمہ دار ہو، اور ہم اپنے کئے کرائے کے جوابدہ اور ذمہ دار، سیاق وسباق کو دیکھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا مفہوم و مطلب یہی ہے۔ پس دین حق ایک اور صرف ایک ہے، یعنی اسلام یہی دین فطرت، اور اس پوری کائنات کا تکوینی دین ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامُ دِیْنًا، یہی دین انسان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل اور ضامن ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف یہی دین معتبر اور قابل قبول ہے، ارشاد ہوتا ہے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامِ، یعنی دین تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور بس، اس کے سوا لوگوں نے جو مختلف ناموں کے ساتھ طرح طرح کے دین اپنائے ہیں، وہ سب دراصل ان کی اپنی خواہشات و اعراض کے پلندے ہیں، اسی لئے قرآن حکیم نے بعض مقامات پر ان کو اہوا، (یعنی خواہشات) ہی کے نام سے ذکر فرمایا ہے، سو وہ سب دھوکے کے سامان ہیں، والعیاذ باللہ العظیم،
۳۳۔۔۔ سو اس روز وہ پیرو اور چیلے اپنے ان بڑوں سے کہیں گے کہ یہ تم ہی لوگوں کی مکاری، وعیاری اور پروپیگنڈا مہم تھی جس نے ہمیں نور حق و ہدایت سے محروم رکھا تم لوگ ہمیں یہی سکھاتے سمجھاتے رہے کہ ہم برابر کفر وشکرک پر اڑے اور جمے رہیں جس کے نتیجے میں ہم لوگوں نے دعوت حق و ہدایت پر کان نہ دھرا۔ اور ہم اس کو سننے ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ سو اس سے یہ بات نکلی کہ ان کو اس بات کا اعتراف ہو گا کہ حق ان پر واضح تھا۔ مگر وہ اپنے ان بڑوں اور لیڈروں کی دن رات کی پروپیگنڈا مہم کے باعث اس سے محروم رہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
یعنی ان کے اس اعتراف و اقرار اور اظہار پر ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ کہ وہ توبہ واستعتاب کا موقع نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ عذاب ان کے سامنے موجود ہو گا جو ان کے کفر وشرک کے نتیجے میں ان کے لئے مقدر ہو چکا ہو گا۔ جس سے بچنے کی کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہ ہو گی، والعیاذ باللہ جل وعلا یعنی ان کا وہ عذاب ان کے اپنے کئے کرائے کا طبعی ثمرہ اور منطقی نتیجہ ہو گا۔ ان پر کسی بھی طرح کی کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ سو انہوں نے اپنے ان بڑوں اور لیڈروں کے کہنے بہکانے میں آکر اپنی عقلوں اور اپنی ضمیروں کو جو ماؤف و معطل کر دیا تھا۔ حق وہدایت کے سماع وقبول کے لئے اپنے منافد فہم وادراک کو بند کر کے انہوں نے اپنی باگ دوڑ دوسروں کے ہاتھ میں دے دی تھی وہ جیسا چاہیں اور جدھر چاہیں ان کو کھینچ کر لے جائیں۔ تو وہی طوق کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس یوم عظیم میں ان کے گلوں کے اندر پڑے ہونگے۔ انہوں نے اپنے رب اور اپنے خالق ومالک کی اطاعت و بندگی سے منہ موڑ کر اپنی گردنوں میں دوسروں کی غلامی کے جن قلادوں کو خود اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے گلوں میں ڈال دیا تھا وہی اس روز دوزخ کے اغلال اور وہاں کے طوقوں کی صورت میں ان کے گلوں میں پڑے ہونگے، جن کے ذریعے اس روز فرشتے ان کو پکڑ کر اور گھسیٹ گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائینگے، جہاں انہوں نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھگتان بھگتنا ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم،
۳۴۔۔۔ سو اس ارشاد سے منکرین و مکذبین کی اس روش کو بیان فرمایا گیا ہے جو ان کے اندر قدر مشترک کے طور پر ہمیشہ موجود رہی، اور اس سے ان کے اس کفر و انکار کے سبب اور باعث کی طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا، جو کہ عبارت ہے ان لوگوں کے دیناوی مال و دولت، اور سامان عیش و عشرت سے، جس کی بناء پر کبر وغرور میں مبتلا ہو کر وہ لوگ قبول حق و ہدایت سے محروم ہی رہے، اور جو بھی نذیر ان کے پاس آیا، اور اس نے ان کو ان کے انجام سے خبردار کیا، اور ان کو حق و ہدایت کو قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ان سے صاف کہہ دیا کہ جس پیغام حق و ہدایت کے ساتھ تم کو بھیجا گیا ہے ہم اس کے قطعی اور صاف طور پر منکر ہیں، سو اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے سامان تسلیہ ہے کہ جس کفر و انکار سے آج آپ کو سابقہ پیش آرہا ہے یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ کہ دنیاوی مال و دولت کے نشے میں مست و مغرور لوگوں نے پیغام حق و ہدایت کے آگے جھکنے اور اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، یہانتک کہ وہ نور حق و ہدایت سے محروم ہو کر ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہوئے اور دائمی عذاب میں جاپڑے، سو دنیاوی مال و دولت کا یہ پہلو خاص طور پر بہت خطرناک ہے کہ اس کی ناء پر انسان کبر و غرور میں مبتلا ہو کر قبول حق و ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ دائمی خسارے میں جا پڑتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،
۳۷۔۔۔ سو مال و اولاد ان چیزوں میں سے نہیں ہیں جو انسان کو خداوند قدوس کے یہاں ذرہ بھی قرب دلا سکیں۔ یہ تو محض ابتلاء و آزمائش کا ذریعہ و باعث ہیں۔ کہ کون ان کے زعم اور گھمنڈ میں مست و مگن ہو کر ناشکرا بنتا ہے، اور کفر و ناشکری کی راہ پر چلتا ہے۔ والعیاذ باللہ، اور کون ان کو پا کر اپنے خالق ومالک کے حضور اس کے شکر وسپاس میں سر تسلیم خم کرتا ہے۔ اور ایمان و اطاعت کی راہ اور عمل صالح کی دولت کو اپنا کر اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کرتا ہے۔ سو اصل چیز ونیازی مال و دولت اور اہل و اولاد نہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ یہ اگر نصیب ہے تو مال و اولاد بھی سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، سو ایسے خوش نصیبوں کو ان کے اعمال کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا۔ یعنی ضعف کا لفظ، یہاں پر صرف دو گنا کے معنی میں نہیں، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، بلکہ ضعف کے معنی کے بارے میں ثقہ اہل لغت کا کہنا اور ماننا ہے کہ اہل لغت اس طرح کرتے ہیں و جائز فی کلام العرب ان یکون الضعف المثل الواحد ومازاد علیہ من الامثال (اقرب الموارد) یعنی ضعف کے لفظ کا اطلاق ایک گنا پر بھی ہوتا ہے اور کئی گنا پر بھی۔ ہم نے ترجمے کے اندر اسی کو اختیار کیا ہے والحمدللہ، پھر اس ضعف کی آگے تفصیل مختلف نصوص میں ذکر و بیان فرمائی گئی ہے۔ جس کے مطابق کم سے کم دس گنا، سو گنا، سات سو گنا، اور اس سے بھی زیادہ کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ سو ایسے خوش نصیبوں کے انعام و اکرام اور ان کے انجام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ جنت کی عالیشان عمارتوں میں امن و سکون سے رہیں گے۔ پس دنیا میں تو مال و دولت اور ال و اولاد ہر وقت خطرے میں رہتے ہیں۔ کوئی بھی اپنے آپ کو ان خطرات سے محفوظ نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن جو لوگ اپنے مال و اولاد کو، اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے حصول اور آخرت کی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ بناتے ہیں ان کو ان کا وہ لازوال صلہ وبدلہ ملے گا جو ہر طرح کے مخاوف وخطرات سے امن و سلامتی میں رہے گا۔
۴۲۔۔۔ سو فرشتوں کے اس جواب اور اعلان براءت سے جب واضح ہو جائے گا کہ قصور سب کا سب ان مشرکوں کا خود اپنا تھا۔ جنہوں نے از خود فرشتوں اور دوسری مختلف مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا تھا، تو اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ تمہارا سارا بھروسہ واعتماد جن فرشتوں پر تھا انہوں نے تو سب کے سامنے اور اعلانیہ طور پر واضح کر دیا کہ اصل حقیقت کیا تھی، سو اب تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے کچھ کام نہیں آ سکے گا، نہ وہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ تم ان کو، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس وقت ہم ظالموں سے کہیں گے کہ اب مزہ چکھو اور چکھتے رہو تم لوگ عذاب دوزخ کی اس آگ کا جس کو تم جھٹلاتے رہے تھے۔ اور اس طرح تم نے دعوت حق کا انکار کر کے ظلم کا ارتکاب کیا تھا، پس اب تم بھگتو بھگتان اپنے اس ظلم و عذاب اور کفر و انکار کا، سو اس طرح ان کو تذلیل پر تذلیل سے سابقہ پڑتا جائے گا، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر یہ کس قدر عظیم الشان اور بے مثال احسان ہے کہ اس نے عالم غیب کے ان عظیم الشان حقائق سے اس طرح پیشگی آگاہ کر دیا جن کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں، تاکہ جس سے بچنا ہو بچ جائے، فالحمدللّٰہِ جَلَّ وَعَلَا بِکُلِّ حَالٍ مِّن الاحوال،
۴۳۔۔۔ سو ان لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ اس قرآن کے بارے میں جو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا اتارا ہوا کلام ہے، تو یہ بالکل جھوٹ ہے جو محض لوگوں کو مرعوب کرنے کے لئے بولا جا رہا ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک من گھڑت جھوٹ ہے جس کو اللہ کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے۔ سواس طرح ان کافروں نے حق کا انکار کر دیا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ گیا، جس سے ان کا جرم ڈبل ہو گیا۔ کیونکہ سورج اگر افق سے غائب ہو، اور کوئی ہٹ دھرم اس کے بارے میں سوال اٹھائے۔ اور اندھیرے کے باعث کسی کھڈے میں گرے، تو اس کے لئے پھر بھی کسی عذر اور معذوری کی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر سورج کے طلوع ہو جانے کے بعد کوئی ہٹ دھرم اس کا انکار کرے، یا اپنی آنکھیں بند کر کے کسی کھڈے میں گرے تو اس سے بڑھ کر بد بخت اور محروم اور کون ہو سکتا ہے؟ اور ایسے ہٹ دھرم، بد بخت اور ناقدرے لوگوں کو ہدایت کی دولت آخر کیسے مل سکتی ہے؟ والعیاذ باللہ جل وعلا،
۴۴۔۔۔ سو اس میں منکرین و معاندین کے عناد و ہٹ دھرمی، اور ان کی ناقدری و محرومی، پر اظہار افسوس ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے امی، ان پڑھ، اور بے خبر تھے، نہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب ہدایت ملی تھی جس سے ان کو کچھ علم وہدایت کی کوئی روشنی ملتی۔ اور نہ ہی ان کے پاس آپ سے پہلے اے پیغمبر! کوئی ایسا نذیر اور خبردار کرنے والا آیا تھا جو ان کو غفلت کی نیند سے بیدار کرتا۔ اور ان کو آگے کے خطرات سے آگاہی بخشتا، تو اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ لوگ اس نعمت عظیم کی دل وجان سے قدر کرتے۔ اور اس کی تعلیمات وہدایات کو صدق دل سے اپنا کر اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرتے۔ مگر یہ ہیں کہ اس سب کے باوجود، اور اس صورت حال کے بالکل برعکس اس پیغام حق کی تکذیب کر کے اس کو افک مفتریٰ قرار دے رہے ہیں، اور اس طرح یہ لوگ خداوند قدوس کی رحمت و عنایت سے منہ موڑ کر اس کے قہر اور غضب، اور اس کے اس ہولناک عذاب کو دعوت دے رہے ہیں جو سنت الٰہی کے مطابق ایسے منکرین پر آکر رہتا ہے والعیاذ باللہ جل وعلا۔
۴۵۔۔۔ سو اس سے ان منکرین ومعاندین کو تاریخ کے حوالے سے تنبیہ و تذکیر فرمائی گئی ہے۔ کہ اللہ کے رسول اور اس کی طرف سے آنے والے نذیر کی تکذیب اور ان کے انکار کا لازمی نتیجہ اور طبعی انجام ہلاکت وتباہی ہے۔ گزشتہ تمام اقوام کی تاریخ اس اہم اور بنیادی حقیقت اور سنت الٰہی کی شاہد عدل ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس سے پہلے کی ان منکر اور ہٹ قوموں کو جس سامان عیش و عشرت، دنیاوی مال و دولت، اور شان وشوکت، سے نوازا گیا تھا قریش کے ان منکرین و متمردین کو اس کا عشر عشیر بھی نصیب نہیں ہوا۔ لیکن جب وہ اپنے کبر وغرور کی بناء پر اور اپنی تکذیب وانکار حق کے نتیجے میں آخرکار اپنے انجام کو پہنچیں تو ان کا وہ مال و دولت اور شان و شوکت ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکے۔ سو اس میں دور حاضر کے منکرین کے لئے بڑا سامان عبرت وبصیرت ہے۔ کہ ان کے انجام سے سبق لیں۔ اور اپنی اصلاح کریں، ورنہ ان کا انجام بھی وہی ہو گا جو ماضی کی ان منکر قوموں کا ان کے کفر و انکار کی بناء پر ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے، اور عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ دوسروں کے انجام سے سبق لیا جائے، وباللہ التوفیق،
۵۲۔۔۔ یعنی آج تو یہ منکرین و مکذبین اپنے کبر و غرور اور رعونت و استکبار میں اس قدر مست ومگن ہیں کہ پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے۔ اور حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ لیکن کل جب وہ ہولناک نتیجہ وانجام سامنے آ جائے گا تو اس وقت یہ چیخ چیخ کر کہیں گے کہ ہم ایمان لائے، اس قرآن اور اس رسول پر۔ مگر وقت گزر جانے اور انجام کے سامنے آ جانے پر، ان کو ایمان کی دولت کہاں اور کیسے نصیب ہو سکے گی؟ اس کا موقع تو اس دنیاوی زندگی ہی میں تھاجس کو انہوں نے انکار و تکذیب اور تمرد و سرکشی میں گزار دیا۔ اور وہ ان سے اس طرح گزشت ہو گئی کہ اب اس کے دوبارہ ملنے کا کوئی سوال و امکان ہی نہیں، تو پھر اب اتنی دور سے ان کے لئے اس کو پانا آخر کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور معائنہ و مشاہدہ کے بعد کا ایمان نہ تو مفید ہے نہ مطلوب، ایسا ایمان تو فرعون جیسا متکبر اور سرکش انسان بھی لایا تھا۔ اور اس نے بھی غرق ہوتے وقت چیخ اور چلا کر کہا تھا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لایا۔ مگر اس وقت اس کو یہ جواب ملا تھا کہ تو اب ایمان لاتا ہے جبکہ اس سے پہلے تو نافرمانی ہی کرتا رہا (اٰلئٰنَ وَقدْ عَصَیْتَ مِنْ قَبْلُ) یعنی اس وقت کے تیرے اس ایمان کا نہ کوئی فائدہ ہے، اور نہ کوئی وزن واعتبار۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت جو آج ہمیں میسر ہے قدرت کی کتنی بڑی رحمت و عنایت ہے، کہ اس میں ہم اپنی آخرت کی اصل اور حقیقی زندگی کے لئے ایمان اور عمل صالح سمیت ہر طرح کی کمائی کر سکتے ہیں، اور بسہولت و آسانی کر سکتے ہیں، لیکن کل آخرت کے اس جہان میں لوگ چیخ چیخ کر اپنے ایمان کا اعلان کریں گے مگر اس کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی زندگی کے ہر ہر لمحے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین
۵۴۔۔۔ یعنی جب فیصلہ کن عذاب نمودار ہو جائے گا تو ان کے اور ان کی تمام خواہشوں کے درمیان دیوار حائل ہو جائے گی یہ چیخ چیخ کر ایمان لائیں گے مگر ان کا وہ ایمان بےسود و لاحاصل وہ قبول نہیں ہو گا۔ یہ مہلت کی درخواست کریں گے لیکن اس کی کوئی شنوائی نہیں ہو گی، یہ اپنے خود ساختہ اور من گھڑت شریکوں اور سفارشیوں کو پکاریں گے کہ وہ اس مشکل وقت میں ان کی کوئی مدد کر سکیں۔ مگر ان کی طرف سے بھی ان کی کوئی فریاد رسی ممکن نہ ہو گی۔ سو آس و امید کے تمام دروازے ان پر بند ہو جائیں گے۔ اور یہ ابدی مایوسی کے حوالے ہو جائیں گے، اور ان کو اسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا جس سے ان کے پیشرو ہم مشربوں کو ہونا پڑا تھا، جیسے عاد و ثمود اور قوم لوط و قوم فرعون وغیرہ۔ ان سب کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے رسولوں اور ان کی دعوت کو جھٹلایا۔ اور ان کے انذار کی پرواہ نہ کی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ وہ بھی انہی کی طرح الجھن انگیز شک میں پڑے رہے تھے، یہاں تک کہ وہ فیصلہ کن گھڑی آپہنچی، اور وہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلاء رہے۔ سو انہوں نے اگر ان کے انجام سے سبق نہ لیا۔ اور اپنی اصلاح نہ کی تو انہوں نے بھی آخرکار اس ہولناک انجام سے دو چار ہو کر رہنا ہے۔ جس سے کل کے وہ منکر دوچار ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے۔ شک مریب یعنی الجھن انگیز شک کے الفاظ سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تکذیب و انکار حق کے نتیجے میں انسان سکون و اطمینان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو سکون و اطمینان ایمان و یقین کی دولت ہی سے نصیب ہو سکتا ہے وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید،