۱۔۔ اے لوگو، ڈرو تم اپنے اس رب سے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو ایک ہی جان سے ، اور پھر اس نے اسی (جان) سے پیدا فرمایا اس کا جوڑا (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) اور اس نے پھیلا دیا ان دونوں (میاں بیوی) سے بے شمار مردوں اور عورتوں کو، اور ڈرو تم اللہ سے جس کے نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، (اپنے حقوق و مطالبات میں ) اور ڈرو تم رشتوں (کے بگاڑ) سے بے شک اللہ نگاہ رکھے ہوئے ہے تم سب پر،
۲۔۔ اور دے دیا کرو تم یتیموں کو ان کا مال، اور تم مت بدلو ناپاک کو پاک سے ، اور تم مت کھاؤ ان (یتیموں کے مال، اپنے مالوں سے ملا کر، بلاشبہ یہ بہت بڑا گناہ ہے
۳۔۔ اور اگر تمہیں اندیشہ ہو اس بات کا کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے یتیموں کے بارے میں ، تو تم نکاح کر لیا کرو ان دوسری عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں ، دو دو، تین تین، اور چار چار، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے (ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان) تو پھر تم ایک پر ہی اکتفا کر لیا کرو، یا ان باندیوں پر جن کے مالک ہوں تمہارے داہنے ہاتھ، یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو،
۴۔۔ اور دے دیا کرو تم اپنی عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ، ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تمہیں چھوڑ دیں ، تو تم اسے کھاؤ خوشگوار اور مزے دار، (مال کے طور پر)
۵۔۔ اور تم مت دیا کرو کم عقلوں (اور نادانوں ) کو اپنے وہ مال جن کو اللہ نے تمہارے لئے گزران کا ذریعہ بنایا ہے ، البتہ انہیں تم ان میں سے کھانے اور پہننے کو (حسب ضرورت) دے دیا کرو، اور (اس صورت میں ان کی دلجوئی کے لئے ) تم ان سے بھلی بات کہہ دیا کرو
۶۔۔ اور آزماتے رہا کرو تم یتیموں کو، یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جائیں نکاح (کی عمر) کو، پھر اگر تم ان میں کچھ سمجھداری دیکھو، تو ان کے حوالے کر دیا کرو ان کے مال، اور مت کھاؤ تم انکے مال حد ضرورت سے زیادہ، اور حاجت سے پہلے ، اس خیال سے کہ یہ بڑے ہو جائیں گے ، اور جسے ضرورت نہ ہو وہ بچتا ہی رہے ، اور جو ضرورت مند ہو تو کھائے دستور کے مطابق، پھر جب تم ان کے حوالے کرنے لگو ان کے مال تو (بہتر ہے کہ) تم ان پر گواہ رکھ لو، اور کافی ہے اللہ حساب لینے والا،
۷۔۔ مردوں کے لئے حصہ ہے اس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہے اس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں ، ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ، مقرر کردہ حصے کے طور پر
۸۔۔ اور جب تقسیم کے وقت آ جایا کریں رشتہ دار، اور یتیم، اور مسکین (و محتاج) تو تم انہیں بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو (انکی دلجوئی کیلئے ) ان سے بھلی بات بھی کہہ دیا کرو
۹۔۔ اور ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جائیں ، تو کیا کچھ اندیشہ ان کے بارے میں رکھیں گے ، پس انہیں چاہیے کہ وہ (دوسروں کے یتیموں کے بارے میں بھی) ڈریں اللہ سے ، اور بات کریں راستی کی
۱۰۔۔ بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں ظلم (اور زیادتی) کے ساتھ، اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں ، اور عنقریب ہی انہیں داخل ہونا ہو گا ایک بڑی ہی ہولناک دہکتی آگ میں
۱۱۔۔ اللہ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں ، کہ ایک مرد کا حصہ برابر ہے دو عورتوں کے حصے کے ، پھر اگر (اولاد میں ) صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زیادہ، تو ان کو میت کے کل ترکے کا دو تہائی ملے گا، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کو اس کا آدھا ملے گا، اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو اس کے کل ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی بھی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ، تو اس کی ماں کو ایک تہائی ملے گا، پھر اگر اس کے (بہن) بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (یہ سب حصے تقسیم ہوں گے ) اس وصیت کے بعد جو میت نے کی ہو، یا قرض کے بعد، (جو اس نے دینا ہو، اور وراثت کی یہ تقسیم تمہاری مرضی پر نہیں رکھی کہ) تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون فائدے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے ، (پس) اللہ کی طرف سے حصہ مقرر کر دیا گیا، بلاشبہ اللہ سب کچھ جانتا، بڑا ہی حکمتوں والا ہے
۱۲۔۔ اور تمہیں اس مال کا آدھا ملے گا جو تمہاری بیویاں چھوڑ مریں ، اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو پھر تمہیں اس مال کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا، جو انہوں نے چھوڑا ہو، اس وصیت کے بعد جو انہوں نے کی ہو، یا قرض کے بعد (جو انہوں نے دینا ہو) اور ان کو ایک چوتھائی حصہ ملے گا اس ترکے میں سے جو تم چھوڑ جاؤ جب کہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، لیکن اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو پھر انکو تمہارے کل ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا، اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ، یا قرض کے بعد (جو تم نے دینا ہو) اور اگر میراث کسی ایسے مرد یا عورت کی ہو جس کا نہ باپ موجود ہو، نہ کوئی اولاد، مگر اس کا کوئی (اخیافی) بھائی یا بہن موجود ہو، تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پھر اگر وہ بھائی بہن اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب (میراث کے ) تیسرے حصے میں شریک ہوں گے ، اس وصیت کے بعد جو کی گئی ہو، یا ایسے قرضے کے بعد جو اداء کرنا ہو، بغیر کسی کو نقصان پہنچانے کے ، اور اللہ بڑا ہی علم والا، نہایت ہی حلیم ہے
۱۳۔۔ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں اور جو کوئی (صدق دل سے ) فرمانبرداری کرے گا اللہ کی، اور اس کے رسول کی، تو اللہ اس کو داخل فرمائے گا (اپنے کرم سے ) ایسی عظیم الشان جنتوں میں ، جن کے نیچے سے بہہ رہی ہونگی طرح طرح کی عظیم الشان نہریں ، اور یہی ہے (حقیقی اور) بڑی کامیابی
۱۴۔۔ اور (اس کے برعکس) جو کوئی نافرمانی کرے گا اللہ کی، اور اس کے رسول کی، اور وہ تجاوز کرے گا اس کی (مقرر فرمودہ) حدوں سے ، تو اللہ اس کو داخل فرمائے گا ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں ، جس میں اس کو ہمیشہ رہنا ہو گا، اور اس کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے
۱۵۔۔ اور تمہاری عورتوں میں سے جو ارتکاب کر بیٹھیں بے حیائی کا، تو تم ان پر مقرر کر لو چار گواہ، اپنوں ہی میں سے ، پھر اگر وہ چاروں گواہی دے دیں تو تم روک رکھو ان عورتوں کو اپنے گھروں میں ، یہاں تک کہ انہیں آ جائے موت، یا مقرر فرما دے ان کے لئے اللہ کوئی راستہ،
۱۶۔۔ اور تم میں سے جو بھی کوئی دو شخص ارتکاب کریں اس (بے حیائی) کا تو تم ان کو ایذاء دو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں (اپنے بگاڑ کی) تو تم ان سے صرف نظر کر لو، بلاشبہ اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے
۱۷۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ اللہ (کے وعدہ کرم) کے ذمے انہی لوگوں کہ توبہ کی (قبولیت) ہے ، جو برائی کا ارتکاب کر بیٹھیں نادانی کی بناء پر، پھر وہ جلد ہی توبہ کر لیں (اپنے گناہ سے ) تو ایسوں پر اللہ توجہ فرماتا ہے (اپنی رحمت و عنایت سے ) اور اللہ سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے ،
۱۸۔۔ اور ان لوگوں کے لئے توبہ (کی قبولیت) نہیں ، جو برائیاں کرتے چلے جائیں ، یہاں تک جب ان میں سے کسی کو آ پہنچے موت، تو اس وقت وہ کہنے لگے کہ میں نے اب توبہ کر لی، اور نہ ہی ان لوگوں کیلئے (کوئی توبہ ہے ) جو مر جائیں کفر ہی کی حالت میں ، ایسوں کیلئے تو ہم نے تیار کر رکھا ہے ایک بڑا ہی دردناک عذاب
۱۹۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم وارث بن جاؤ عورتوں کے زبردستی، اور نہ یہ کہ تم ان کو تنگ کرو کہ تاکہ اس طرح تم ہتھیا لو کچھ حصہ اس (مال) کا جو تم نے ان کو دیا ہو، مگر اس صورت میں کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بے حیائی کا، اور تم ان سے اچھائی ہی کا برتاؤ کرو، سو اگر وہ تمہیں یونہی بری لگیں تو (اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ) ہو سکتا کہ ایک چیز تمہیں تو بری لگتی ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو
۲۰۔۔ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو، اور تم اسے ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو، تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو، کیا تم اسے واپس لو گے بہتان اور (بڑے اور) کھلے گناہ کا ارتکاب کر کے ؟
۲۱۔۔ اور آخر تم اسے کیونکر واپس لو گے جبکہ تم ایک دوسرے کے آگے بے حجاب ہو چکے ہو، اور جبکہ وہ تم سے ایک پختہ عہد بھی لے چکی ہیں ،
۲۲۔۔ اور مت نکاح کرو تم ان عورتوں سے جن سے نکاح کر چکے ہوں تمہارے باپ (دادا) مگر جو ہو چکا (سو وہ ہو چکا) بے شک یہ بڑی بے حیائی اور نفرت کی بات ہے ، اور بڑا ہی برا راستہ
۲۳۔۔ حرام کر دی گئیں تم پر تمہاری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں ، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ، اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، اور تمہاری بیویوں کی وہ لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں ، تمہاری ان بیویوں سے جن سے تم صحبت کر چکے ہو، پس اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو (ان کے بارے میں ) تم پر کوئی گناہ نہیں ، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشت سے ہوں ، اور یہ کہ تم جمع کرو (نکاح میں ) دو بہنوں کو، مگر جو ہو چکا (کہ وہ بہرحال ہو چکا) بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے ۔
۲۴۔۔ اور (حرام کر دی گئیں تم پر) نکاح والی عورتیں ، مگر تمہاری وہ باندیاں جن کے مالک ہوں تمہارے داہنے ہاتھ لکھ دیا یہ اللہ نے یہ تمہارے ذمے ، اور حلال کر دی گئیں تمہارے لئے ان کے سوا سب (بشرطیکہ) تم انہیں طلب کرو اپنے مالوں کے بدلے میں ، قید نکاح میں لانے کو، نہ کہ صرف مستی نکالنے کے لئے (ف١) پھر جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو، تو ان کو دے دیا کرو ان کے وہ مہر جو مقرر کئے گئے ہوں اور تم پر کوئی گناہ نہیں اس (مقدارِ مہر) کے بارے میں جو تم لوگ باہمی رضامندی سے طے کر لو، مقرر کئے گئے کے بعد، بے شک اللہ بڑا ہی علم والا، اور نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۲۵۔۔ اور تم میں سے جس شخص کو اس کی طاقت (وگنجائش) نہ ہو کہ وہ نکاح کریں آزاد مسلمان عورتوں سے ، تو اس کو چاہیے کہ وہ تمہاری آپس کی ان مسلمان باندیوں سے نکاح کر لے جو کہ تمہاری ملکیت میں ہوں ، (ف٢) اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے ایمان (کیفیت اور درجے ) کو تم سب آپس میں ایک ہی ہو سو تم ان باندیوں سے نکاح کر لو، ان کے مالکوں کی اجازت سے اور ان کو ان کے مہر دے دو دستور کے مطابق، اس حال میں کہ وہ قید نکاح میں آنے والی ہو، نہ کہ مستی نکالتی اور خفیہ آشنا بناتی پھرتی ہوں پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں ، تو اگر (اس کے بعد) وہ ارتکاب کریں کسی بے حیائی کا، تو ان پر سزا کی بنسبت آدھی سزا ہو گی، جو کہ آزاد عورتوں پر ہوتی ہے ، یہ (اجازت) تم میں سے ان لوگوں کے لئے ہیں جس کو اندیشہ ہو گناہ میں پڑنے کا، اور اگر تم صبر (وضبط سے ) کام لو، تو یہ بہتر ہے خود تمہارے لئے ، اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، اور نہایت ہی مہربان ہے ،
۲۶۔۔ ١للہ چاہتا ہے کہ کھول کر بیان فرمائے تمہارے لئے (اپنے احکام) اور ڈال دے تم لوگوں کو ان (حضرات) کے طریقے پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ، اور وہ چاہتا ہے کہ توجہ فرمائے تم پر (اپنی رحمت و عنایت سے ) اور اللہ بڑا ہی علم والا، نہایت ہی حکمت والا ہے
۲۷۔۔ اور (ہاں ) اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ توجہ فرمائے تم لوگوں پر (اپنی رحمت و عنایت سے ) مگر جو لوگ پیچھے لگے ہوئے ہیں اپنی (بطن وفرج کی) خواہشات کے ، وہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ سیدھی راہ سے ہٹ کر بہت دور جاپڑو،
۲۸۔۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہلکا کر دے تم لوگوں سے (سختیوں اور پابندیوں کے بوجھ) اور انسان بڑا کمزور پیدا کیا گیا ہے
۲۹۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، مت کھاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (اور ناجائز) طریقوں سے ، مگر یہ کہ کوئی لین دین ہو کوئی باہمی رضامندی سے ، اور مت قتل کرو تم لوگ اپنے آپ کو، بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے ،
۳۰۔۔ اور جو کوئی ایسا کرے گا زیادتی اور ظلم کے ساتھ، تو ہم اس کو جھونک دیں گے ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں ، اور ایسا کرنا اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں ،
۳۱۔۔ (اور اس کے برعکس اگر تم لوگ بچتے رہے ان بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ، تو ہم مٹا دیں گے تم سے تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو اور تم کو داخل کر دیں گے ایک بڑی ہی عزت کی جگہ میں ،
۳۲۔۔ اور تم ہوس مت رکھا کرو ان (وہبی) چیزوں کی، جن کے ذریعے اللہ نے فضیلت (وبزرگی) بخشی ہو تم میں سے بعض کو بعض پر، (کہ مدارِ نجات ان چیزوں پر نہیں ، اپنے کسب وعمل پر ہے ، سو) مردوں کے لیے حصہ ہے ان کی اپنی کمائی کا، اور عورتوں کے لئے حصہ ہے ان کی کمائی کا اور تم لوگ مانگا کرو اللہ سے ، اس کے فضل سے ، بے شک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے
۳۳۔۔ اور ہم نے ہر شخص کے وارث مقرر کردئے ے ہیں ، اس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں اس کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، اور جن لوگوں سے تم نے عہد و پیمان کر رکھے ہوں ، تو تم ان کو ان کا حصہ دو (اور باقی سب وارثوں کا ہے ) بلاشبہ اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے ،
۳۴۔۔ مرد حاکم (وسرپرست) ہیں عورتوں پر، (ایک تو) اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر (فطری اور جبلی) فضیلت بخشی ہے اور (دوسرے ) اس لئے کہ مرد خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں میں سے سو نیک بخت عورتیں ، فرمانبردار (اور) حفاظت (ونگرانی) کرنے والی ہوتی ہیں ، (اپنی عزت وناموس اور اپنے شوہروں کے مال ومتاع کی ان کی) غیر حاضری میں ، اللہ کی حفاظت کی بناء پر اور جن عورتوں کی سرکشی (اور نافرمانی) کا تمہیں اندیشہ ہو، تم انہیں (اول تو زبانی کلامی طور پر) سمجھاؤ (اگر وہ پھر بھی نہ مانیں ) تو پھر تم ان کو تنہا چھوڑ دو ان کی خواب گاہوں میں ، اور (اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو) تم ان کی پٹائی کرو، پھر اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو تم خواہ مخواہ ان کے خلاف کوئی بہانہ مت ڈھونڈو، بے شک اللہ سب سے اوپر بہت بڑا ہے
۳۵۔۔ اور اگر تمہیں اندیشہ ہو (اے ذمہ دارو) میاں بیوی کے درمیان ناچاقی (اور بگاڑ) کا تو تم مقرر کرو ایک منصف مرد کے خاندان سے ، اور ایک عورت کے خاندان سے ، اور اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ پیدا فرما دے گا ان دونوں کے درمیان موافقت کی کوئی صورت بے شک اللہ سب کچھ جانتا بڑا ہی باخبر ہے ،
۳۶۔۔ اور بندگی کرو تم صرف اللہ (وحدہٗ لاشریک) کی، اور مت شریک ٹھہراؤ تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو، اور اچھا سلوک کرو تم اپنے ماں باپ کے ساتھ، اور رشتہ داروں اور یتیموں ، اور مسکینوں کے ساتھ، اور رشتہ دار پڑوسی اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ اور پہلو کے ساتھ، اور مسافر سے بھی، اور ان سب سے جن کے مالک ہوں تمہارے اپنے داہنے ہاتھ، بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا کسی بھی ایسے شخص کو جو اِترانے والا شیخی باز ہو،
۳۷۔۔ جو کہ خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کو تعلیم دیتے ہیں اور وہ چھپاتے ہیں اس کو جس سے اللہ نے ان کو نوازا ہوتا ہے اپنے فضل سے ، اور تیار کر رکھا ہے ہم نے کافروں کے لئے ایک بڑا ہی رسواکن عذاب،
۳۸۔۔ اور (وہ ان کو بھی پسند نہیں فرماتا) جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال لوگوں کو دکھانے کو، اور وہ ایمان نہیں رکھتے اللہ پر، اور قیامت کے دن پر (ان کا ساتھی شیطان ہے ) اور جس کا ساتھی شیطان ہو، تو (وہ مارا گیا کہ) وہ بڑا ہی برا ساتھی ہے
۳۹۔۔ اور کیا ہو جاتا ان (لوگوں ) کو؟ اگر یہ (سچے دل سے ) ایمان لے آتے اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، اور خرچ کرتے (اللہ کی راہ میں ) اس میں سے جو کہ اللہ ہی نے بخشا ہے ان کو (اپنے کرم سے ) اور اللہ خوب جاننے والا ہے ان سب کو،
۴۰۔۔ بے شک اللہ ذرہ برابر (کسی پر) ظلم نہیں کرتا، اور (ظلم تو کجا اس کے شان کرم تو یہ ہے کہ) اگر (کسی کی) کوئی ایک نیکی بھی ہو گی، تو وہ اس کو کئی گناہ بڑھا دے گا، اور وہ (اس کے علاوہ بھی) اس کو اپنے یہاں سے ایک عظیم اجر عطا فرمائے گا،
۴۱۔۔ پھر کیا حال ہو گا (ان کا اس وقت) جب کہ ہم لائیں گے ہر امت سے ایک گواہ، اور آپ کو (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ سلم !) ہم ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے
۴۲۔۔ اس روز وہ لوگ جو اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (و باطل) پر، اور انہوں نے نافرمانی کی ہو گی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ تمنا کریں بے کہ بربرا کر دیا جائے ان کے ساتھ زمین کو، اور وہ چھپا نہ سکیں گے اللہ سے کوئی بات،
۴۳۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم نماز کے قریب مت جاؤ اس حالت میں جب کہ تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھنے لگے جو کچھ تم کہتے ہو، اور نہ ہی ناپاکی کی حالت میں ، مگر راستہ گزرتے ہوئے ، یہاں تک کہ تم غسل کر لو، اور اگر تم بیمار ہو یا کسی سفر پر، یا تم میں سے کوئی شخص جائے ضرورت سے ہو کر آیا ہو، یا تم نے ہمبستری کی ہو اپنی بیویوں سے ، پھر تمہیں (ان میں سے کسی بھی صورت میں ) پانی نہ مل سکے ، تو تم پاک مٹی سے کام چلالو، سو تم (اس پر دونوں ہاتھ مار کر) مسح کر لو، اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا، بے شک اللہ بڑا ہی معاف کرنے والا، نہایت ہی بخشنے والا ہے ،
۴۴۔۔ کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جن کو دیا گیا ایک حصہ کتاب کا، وہ اپناتے ہیں گمراہی کو بدلے میں ہدایت کے ، اور وہ (اپنی گمراہی کا ساتھ بھی) چاہتے ہیں کہ تم لوگ بھی بھٹک جاؤ سیدھی راہ سے ،
۴۵۔۔ اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے دشمنوں کو، اور (ان کی فکر سے زیادہ تم اللہ سے اپنا معاملہ درست رکھنے کی فکر کرو کہ) اللہ کافی ہے حمایت کرنے کو، اور اللہ کافی ہے مدد کرنے کو،
۴۶۔۔ ان لوگوں میں سے جو کہ یہودی بن گئے وہ بدلتے ہیں اللہ کے کلام کو اس کے مواقع سے ، اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا، اور (کہتے ہیں کہ) سنو نہ سنائے جاؤ، اور کہتے ہیں راعنا اپنی زبان کو مروڑ کر ، اور دین میں طعنہ دینے کو، اور اگر وہ (اس کی بجائے یوں ) کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا، اور (صرف) اسمع کہتے اور (راعنا کی بجائے ) انظرنا کہتے ، تو یہ بہتر ہوتا خود ان ہی لوگوں کے لیے ، اور زیادہ درست بھی، (حقیقت اور واقع کے اعتبار سے ) لیکن ان پر لعنت (و پھٹکار) پڑ گئی، اللہ کی ان پہ (اپنے اختیار کردہ) کفر کی بنا پر، پس لوگ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑا،
۴۷۔۔ اے وہ لوگوں ! جنہیں کتاب دی گئی، ایمان لے آؤ تم اس کتاب پر جس کو ہم نے (اب) اتارا ہے ، اس حالت میں کہ وہ تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو کہ تمہارے پاس ہے قبل اس سے کہ ہم مٹا ڈالیں کچھ چہروں کو، پھر ان کو ہم الٹ دیں ان کی پیٹھوں پر، یا ان پر ایسی لعنت کر دیں جیسی لعنت ہم نے ہفتہ والوں پر کی تھی (جس سے وہ ذلیل بندر بن گئے تھے ) اور اللہ کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہے ،
۴۸۔۔ بے شک اللہ نہیں بخشتا اس (جرم) کو اس کے ساتھ شرک کیا جائے (کہ شرک بغاوت ہے ) اور وہ بخش دے گا اس کے سوا دوسرے گناہوں کو جس کے لیے چاہے گا، اور جس نے شرک کیا اللہ کے ساتھ تو یقیناً اس نے ارتکاب کیا بہت بڑے گناہ کا،
۴۹۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دم بھرتے ہیں اپنی پاکیزگی کا (سو مدار ان کے دعووں پر نہیں ) بلکہ اللہ ہی پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ان پر ذرہ برابر کوئی ظلم نہیں ہو گا ،
۵۰۔۔ دیکھو تو سہی، کیسے جھوٹ گھڑتے ہیں یہ لوگ اللہ پر؟ اور کافی ہے (ان کی تباہی کے لیے ) یہ کھلم کھلا گناہ ہے ، ف٣
۵۱۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو دیا گیا ایک حصہ (علم) کتاب کا، (مگر اس کے باوجود) وہ ایمان رکھتے ہیں بتوں اور شیطانوں پر، اور وہ کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح راستے پر ہیں ،
۵۲۔۔ یہ ہیں وہ لوگ جن پر لعنت (وپھٹکار) پڑ گئی اللہ کی، اور جس پر اللہ کی لعنت (وپھٹکار) پڑجائے تو تم نہیں پا سکو گے اس کے لئے کوئی (یارو) مددگار
۵۳۔۔ کیا ان کے لئے کوئی حصہ ہے (اللہ کی) بادشاہی میں سے ؟ کہ ایسی صورت میں یہ لوگوں کو (اس میں سے ) تل بھر میں کچھ نہ دیں گے ؟
۵۴۔۔ کیا یہ لوگ حسد کرتے ہیں دوسرے لوگوں پر، ان نعمتوں کی بناء پر جن سے اللہ نے ان کو نوازا ہے اپنے فضل (و کرم) سے ، سو (اگر ایسے ہیں تو یہ جلتے رہیں کہ) بے شک ہم سرفراز کر چکے ہیں ابراہیم کی آل (اولاد) کو بھی کتاب وحکمت (کی نعمت) سے ، اور ہم ان کو نواز چکے ہیں بہت بڑی بادشاہی سے
۵۵۔۔ پھر ان میں کچھ تو اس پر ایمان لے آئے اور کچھ ہٹے ہی رہیں ، اور کافی ہے (ایسوں کے لئے ) دہکتی جہنم، ف٢
۵۶۔۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ہماری آیتوں سے ، عنقریب ہی ہم ان کو جھونک دیں گے ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں ، (جہاں ان کا حال یہ ہو گا کہ) جب بھی جل جائیں گی ان کھا لیں تو ہم ان کی بدل دیں گے اور کھا لیں ، تاکہ یہ مزہ چکتے رہیں عذاب کا، بے شک اللہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۵۷۔۔ اور (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے ، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ، تو انہیں ہم ضرور داخل کریں گے (اپنے کرم سے ) ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں ، جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا نصیب ہو گا، ان کے لیے وہاں ایسی عظیم الشان بیویاں ہوں گی جن کو پاک کر دیا ہو گا (ہر نقص وعیب سے ) اور ان کو ہم داخل کریں گے گھنے سائے میں ،
۵۸۔۔ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے (اے ایمان والوں ) کہ تم حوالے کرو امانتوں کو ان کے حقداروں کے ، اور (یہ کہ) جب تمہیں فیصلہ کرنا ہو ان لوگوں کے درمیان تو تم فیصلہ کرو عدل (وانصاف) کے ساتھ، بے شک بڑی ہی عمدہ ہے وہ بات جس کی نصیحت فرماتا ہے اللہ تم کو، بے شک اللہ بڑا ہی سننے والا دیکھنے والا ہے ،
۵۹۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، حکم مانو تم اللہ کا اور حکم مانو اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اور ان لوگوں کا جو صاحب امر ہوں تم میں سے ، پھر اگر تمہارا اگر کسی بات پر آپس میں اختلاف ہو جائے تو تم اس کو لٹا دیا کرو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بہتر ہے (تمہارے لئے فی الحال) اور (حقیقت اور) انجام کے اعتبار سے بھی،
۶۰۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف، اور اس پر بھی جو اتاری گئی آپ سے پہلے ، (مگر اس کے باوجود) وہ چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ لے جائیں طاغوت کے پاس، حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ یہ اس کے ساتھ کفر کریں ، اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بھٹکا کر ڈال دے بہت دور کی گمراہی میں ،
۶۱۔۔ اور (ان کا حال یہ ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تم اس کتاب کی طرف جس کو اتارا ہے اللہ نے ، اور آؤ تم اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف، تو تم دیکھو گے منافقوں کو کہ وہ آپ سے رکتے (اور روکتے ) ہیں کنی کترا کر
۶۲۔۔ پھر کیا حل ہوتا ہے ان کو (اس وقت) جب کہ آ پہنچی ان پر کوئی مصیبت ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی بناء پر پھر یہ آتے ہیں آپ کے پاس قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی، کہ ہم نے تو محض بھلائی اور آپس میں میل کرانے ہی کا ارادہ کیا تھا
۶۳۔۔ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، پس آپ ان سے درگزر ہی کریں اور انہیں نصیحت کرتے رہیں ، اور ان سے ان کے بارے میں کہہ دیا کریں رسابات،
۶۴۔۔ اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اس لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت (فرمانبرداری) کی جائے اللہ کی اذن سے ، اور اگر یہ لوگ (جنہوں نے یہ حماقت کی تھی) جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر، تو سیدھے آ جاتے آپ کے پاس، اور اللہ سے معافی مانگتے (اپنے جرم کی) اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کیلئے (اپنے رب کے حضور) معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً یہ لوگ اللہ کو پاتے بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان
۶۵۔۔ پس نہیں ، قسم ہے آپ کے رب کی (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم !) یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے ، جب تک کہ یہ آپس کے جھگڑوں میں آپ کو (برضا ورغبت) اپنا منصف نہ مان لیں ، پھر آپ کا جو بھی فیصلہ ہو اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں ، اور اسے دل وجان سے تسلیم کر لیں ،
۶۶۔۔ اور اگر (کہیں بنی اسرائیل کی طرح) ہم ان پر بھی لکھ دیتے کہ قتل کرو تم لوگ اپنی جانوں کو (تب معافی ملے گی) یا نکل جاؤ اپنے گھروں سے ، تو اس کو پورا نہ کر سکتے مگر ان میں کے تھوڑے سے لوگ، حالانکہ اگر وہ عمل کرتے اس نصیحت پر جو ان کو کی جاتی ہے ، تو یہ بہتر ہوتا خود انہی کے حق میں ، اور (یہ ان کے لئے ) زیادہ ثابت قدمی کا باعث بنتا،
۶۷۔۔ اور اس صورت میں ہم ان کو ضرور دیتے اپنی طرف سے بہت بڑا اجر بھی،
۶۸۔۔ اور ہم ان کو ضرور ڈال دیتے سیدھی راہ پر بھی،
۶۹۔۔ اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی، تو ایسے لوگ ان (خاصان خدا) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین، اور کیا ہی خوب ہو گی رفاقت (وسنگت) ان حضرات کی،
۷۰۔۔ یہ مہربانی (اور عنایت) ہو گی اللہ کی طرف سے ، اور کافی ہے اللہ جاننے والا،
۷۱۔۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم لے لیا کرو اپنے ہتھیار، پھر (جیسا موقع ہو اس کے مطابق) تم چلو مختلف دستوں کی شکل میں ، یا سب اکٹھے ہو کر
۷۲۔۔ اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو جی چراتا ہے (جہاد وقتال سے ) پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے (شکست وغیرہ کی) تو وہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا، کہ میں ان لوگوں کے ساتھ موجود نہ تھا
۷۳۔۔ اور اگر تمہیں نصیب ہو جائے اللہ کی طرف سے کوئی فضل (اور مہربانی) تو وہ زور دے دے کر یوں کہنے لگتا ہے ، گویا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی تعلق ہی نہیں تھا، کہ اے کاش! کہ میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو پالیتا بڑی کامیابی،
۷۴۔۔ پس چاہیے کہ لڑیں اللہ کی راہ میں وہ لوگ جنہوں نے بیچ دیا دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں ، اور (اس میں نفع ہی نفع ہے کہ) جو کوئی لڑے گا اللہ کی راہ میں ، پھر وہ مارا جائے یاغالب آ جائے تو (بہر صورت) ہم اسے نوازیں گے بہت بڑے اجر سے ،
۷۵۔۔ اور کیا ہو گا تمہیں (اے مسلمانو!) کہ تم لڑتے نہیں اللہ کی راہ میں ؟ اور ان کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر؟ جو (رہ رہ کر) کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار نکال دے ہمیں اس بستی سے ظالم ہیں جس کے (باسی و) باشندے ، اور پیدا فرما دیں ہمارے لئے اپنے یہاں سے کوئی حمایتی، اور مقرر فرما دیں ہمارے لئے اپنے یہاں سے کوئی مددگار،
۷۶۔۔ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، وہ تو (صدق دل سے ) لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں ، اور جو کافر ہیں وہ لڑتے ہیں شیطان کی راہ میں ، پس تم لوگ لڑو (اے مسلمانو!) شیطان کے دوستوں سے بے شک شیطان کی چال بہت کمزور ہے ،
۷۷۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جن سے (ان کے مطالبہ جہاد کے جواب میں ) کہا گیا تھا کہ (ابھی) تم روکے رکھو اپنے ہاتھوں کو، قائم رکھو نماز، اور ادا کرتے رہو زکوٰۃ، مگر جب ان پر جہاد فرض کر دیا گیا تو (ان کا حال یہ ہے کہ) ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ایسا ڈر نے لگا جیسا کہ خدا سے ڈرنا چاہیے ، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ، اور یوں کہنے لگے کہ خدایا، تو نے کیوں فرض کر دیا ہم پر جہاد، اور ہمیں اور تھوڑی مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہو کہ دنیا کا سامان تو ہے ہی تھوڑا اور آخرت ہی بہتر ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو ڈرتا ہو، (اپنے رب سے ) اور تم پر ذرہ برابر بھی کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا،
۷۸۔۔ (اور موت سے مت ڈرو کیوں کہ) تم جہاں بھی ہو گے بہر حال موت تم کو آ کر رہے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں ہی میں (بند) کیوں نہ ہو اور (ان منافقوں کا حال بھی عجیب ہے کہ) اگر ان کو کوئی بھلائی پہنچی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کی طرف سے (یعنی اتفاقی طور پر مل گئی) ہے ، اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری وجہ سے ہے ، کہو (نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ) یہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ، پس کیا ہو گیا ان لوگوں کو کہ یہ کسی بات کے (صحیح طور پر) سمجھنے کے قریب ہی نہیں لگتے
۷۹۔۔ جو بھی کوئی بھلائی پہنچتی ہے تجھے (اے انسان !) تو وہ اللہ ہی کی طرف سے (اور اسی کے فضل سے ) ہوتی ہے اور جو بھی کوئی بدحالی پیش آتی ہے تجھے تو وہ تیری اپنی ہی وجہ سے ہوتی ہے اور ہم نے (بہر حال اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم !) آپ کو بھیجا ہے سب لوگوں کے لیے رسول بنا کر، اور کافی ہے اللہ گواہی دینے کو،
۸۰۔۔ جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور پھر گیا (راہ حق سے ) تو ہم نے آپ کو (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم!) ان لوگوں پر کوئی پاسبان بنا کر نہیں بھیجا،
۸۱۔۔ اور کہتے ہیں (یہ منافق لوگ جب یہ آپ کے پاس ہوتے ہیں ) کہ ہم نے حکم مانا مگر جب یہ آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو انہی میں سے ایک گروہ اپنے کہے کے خلاف منصوبے گانٹھنے لگ جاتا ہے ، (حق اور اہل حق کے خلاف) اور اللہ لکھ رہا ہے ان کے وہ سب منصوبے جو یہ لوگ اس طرح گانٹھتے (بناتے ) ہیں ، پس آپ ان سے در گزر ہی کیا کریں ، اور اللہ پر بھروسہ کریں اور کافی ہے اللہ کارسازی کے لئے ،
۸۲۔۔ تو کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے اس قرآن (عظیم) میں ، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ ضرور اس میں بہت کچھ اختلاف (اور تضاد بیانی) پاتے
۸۳۔۔ ، اور جب پہنچتی ہے ان کے پاس کوئی خبر، امن کی یا خوف کی، تو یہ اسے فورا پھیلا دیتے ہیں ، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے لوٹا دیتے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف، اور اپنے میں سے با اختیار لوگوں کی طرف، تو ضرور اس کی حقیقت کو پا لیتے ان میں سے وہ لوگ جو بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، اور اگر نہ ہوتی اللہ کی مہربانی تم پر، اور اس کی رحمت (و عنایت) تو تم لوگ ضرور پیچھے لگ جاتے شیطان کے ، بجز تھوڑے سے لوگوں کے ،
۸۴۔۔ پس آپ لڑیں اللہ کی راہ میں (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم!) آپ اپنی ذات کے سواء کسی کے ذمہ دار نہیں ، اور ترغیب دیتے رہیں آپ ایمان والوں کو (جہاد فی سبیل اللہ کی) بعید نہیں کہ اللہ وہ بڑا ہی سخت ہے سزا دینے کے لحاظ سے بھی،
۸۵۔۔ جس نے کوئی سفارش کی اچھی سفارش تو اس کے لیے حصہ ہو گا، اس (کے اجر) میں سے اور جس نے کوئی سفارش کی تو اس کیلئے بوجھ ہو گا اس (کے گناہ) میں سے اور اللہ ہر چز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،
۸۶۔۔ اور جب تمہیں کوئی سلام کرے کسی بھی لفظ سے تو تم اس کو اس سے بہتر لفظوں میں جواب دیا کرو، یا (کم از کم) وہی لفظ کہہ دیا کرو کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پورا پورا حساب رکھنے والا ہے ،
۸۷۔۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ، وہ ضرور جمع کر لائے گا تم سب لوگوں کو قیامت کے اس دن میں ، جس میں کوئی شک نہیں ، اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے ؟
۸۸۔۔ پھر تمہیں کیا ہو گیا (اے مسلمانوں !) کہ تم ان منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو؟حالانکہ اللہ نے ان کو اوندھا کر دیا ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تم ان کو ہدایت دو جن کو اللہ نے گمراہی میں ڈال دیا ہے ؟ اور (امر واقعہ یہ ہے کہ) جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہ پا سکو گے ،
۸۹۔۔ اور (ان کا راہ پر آنا درکنار وہ تو الٹا) یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی انہی کی طرح کافر ہو جاؤ تاکہ پھر تم سب ایک برابر ہو جاؤ پس تم ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہیں بنانا، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اللہ کی راہ میں ، پھر اگر وہ (راہ حق سے ) منہ موڑے ہی رہیں تو تم انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی تم انہیں پاؤ، اور ان میں سے کسی کو بھی تم دوست نہ بناؤ نہ مددگار ٹھہراؤ
۹۰۔۔ بجز ان لوگوں کے کہ جن کا تعلق کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے ، یا (جب کہ) وہ تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ ان کے دل سکڑے جا رہے ہوں اس سے ، کہ وہ (کسی سے بھی) لڑیں ، تم سے یا اپنی قوم سے ، (پس ان دونوں صورتوں میں ان کو پکڑنا یا قتل کرنا درست نہیں ) اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا تو وہ ضرور تم سے لڑتے ، پس اگر وہ تم سے کنارہ کش رہتے ہیں ، اور تم سے لڑتے نہیں ، اور تمہاری طرف صلح کا پیغام ڈالتے ہیں ، تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر (دست درازی کے لیے ) کوئی راہ نہیں رکھی
۹۱۔۔ تم کچھ اور ایسے لوگ بھی پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ (دھوکہ دہی کے ذریعے ) وہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں لیکن جب کبھی وہ فتنہ انگیزی کی شہ پاتے ہیں ، تو اس میں اوندھے جا گرتے ہیں ، (اور فتنہ انگیزی میں کود پڑتے ہیں ) پس ایسے لوگ اگر تم سے باز نہ رہیں ، اور تمہارے آگے صلح (کی گردن) نہ ڈالیں ، اور (تم سے ) اپنے ہاتھ نہ روکیں ، تو تم انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی انہیں پاؤ، کہ ایسے لوگوں کے خلاف (کاروائی کے لیے ) ہم نے تمہیں کھلی سند دے دی ہے ،
۹۲۔۔ اور کسی مومن کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ قتل کرے کسی مومن کو، مگر یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے ، اور جس نے قتل کر دیا کسی مومن کو غلطی سے تو اس کے ذمے ہے آزاد کرنا ایک ایمان دار گردن کا، اور خون بہا بھی، جو کہ حوالے کرنا ہو گا اس (مقتول) کے وارثوں کو، الا یہ کہ وہ اس کو معاف کر دیں اپنی خوشی سے لیکن اگر وہ (مسلمان مقتول) کسی ایسی قوم سے ہو جو کہ تمہاری دشمن (اور تم سے برسر پیکار) ہو، اور وہ شخص خود مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان گردن (غلام یا لونڈی) کو آزاد کرنا ہو گا ، اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس سے تمہارا معاہدہ ہے ، تو پھر خون بہا بھی ہو گا جو کہ حوالے کرنا ہو گا اس کے وارثوں کو، اور ایک ایماندار گردن (غلام یا لونڈی کا) آزاد کرنا بھی، پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو اس کے ذمے روزے ہیں دو ماہ کے لگاتار، اللہ کے یہاں توبہ کے لیے ، اور اللہ (تعالیٰ) بڑا علم والا نہایت ہی حکمت والا ہے
۹۳۔۔ اور جو کوئی قتل کرے گا کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی اصل سزا جہنم ہے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہو گا اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت (و پھٹکار) بھی، اور اللہ نے اس کے لئے تیار کر رکھا ہے ایک بڑا ہی ہولناک عذاب
۹۴۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں کسی سفر پر نکلو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، اور مت کہو کسی ایسے شخص سے جو تم کو سلام کرے کہ وہ مسلمان نہیں ، تم دنیاوی زندگی کا سامان چاہتے ہو، سو اللہ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں ، اور یاد رکھو کہ تم خود بھی پہلے اسی طرح تھے ، پھر اللہ نے احسان فرمایا تم لوگوں پر، (اور نواز دیا تم کو عزت و کثرت سے ) پس تم تحقیق کر لیا کرو، بے شک اللہ پوری طرح باخبر ہیں تمہارے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،
۹۵۔۔ برابر نہیں ہو سکتے وہ مسلمان جو بغیر کسی عذر کے جہاد سے بیٹھ رہیں ، اور وہ جو جہاد کرتے ہیں اللہ کی راہ میں ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، اللہ نے فضیلت (اور بزرگی) بخشی ہے (اللہ کی راہ میں ) جہاد کرنے والوں کو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ، بیٹھ رہنے والوں پر ایک عظیم الشان درجے کے اعتبار سے ، اور یوں ان میں سے ہر ایک سے اللہ نے وعدہ فرما رکھا ہے اچھائی کا اور اللہ نے فضیلت (و بزرگی) بخشی ہے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک اجر عظیم سے ،
۹۶۔۔ یعنی عظیم الشان درجوں کے ذریعے اپنے یہاں سے اور بڑی بخشش اور رحمت کے اعتبار سے اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۹۷۔۔ بے شک وہ لوگ جن کی فرشتے جان قبض کرتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں ، تو فرشتے ان سے پوچھتے ہیں کا ہے میں تھے تم لوگ؟ تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم تو بالکل بے بس تھے (اپنی بود و باش کی) اس سرزمین میں ، تو فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ اچھا اللہ کی زمین اتنی کشادہ نہ تھی کہ تم لوگ اس میں ہجرت کر لیتے ؟سو ایسوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اور وہ بڑی ہی بری جگہ ہے لوٹنے کی
۹۸۔۔ بچوں کے ، جو نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے ہیں ، اور نہ کوئی راہ پا سکتے ہیں (کہ وہ اس سے مستثنیٰ ہیں )
۹۹۔۔ سو ایسوں کے بارے میں تو امید ہے کہ اللہ انہیں معاف کر دے ، اور اللہ بڑا ہی معاف کرنے والا، انتہائی درگزر فرمانے والا ہے ،
۱۰۰۔۔ اور جو کوئی ہجرت کرے گا اللہ کی راہ میں تو وہ زمین میں اپنے دشمنوں کے علی الرغم بڑے ٹھکانے بھی پائے گا ، اور وسعت رزق بھی اور جو کوئی نکلے گا اپنے گھر سے ہجرت کرنے کو اللہ اور اس کی رسول کی طرف۔ پھر (راستے میں ) آ پکڑے اس کو موت، تو یقیناً اس کو اجر اللہ کے (وعدہ کرم کے ) ذمے لازم ہو گیا، اور اللہ بڑا بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۱۰۱۔۔ اور جب تم کسی سفر پر نکلو (اے مسلمانو! تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنی نمازوں میں (سے بعض رباعی نمازوں میں ) کمی کر دو، اگر تمہیں ڈر (اور خطرہ) ہو اس بات کا کہ کافر لوگ تمہیں ستائیں گے بے شک کافر لوگ تمہارے (پکے اور) کھلے دشمن ہیں ،
۱۰۲۔۔ اور جب آپ ان کے اندر موجود ہوں ، (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم!) اور انہیں نماز پڑھانے لگیں ، تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ کھڑا ہو جائے آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کو)، اور وہ لئے رہیں اپنے ہتھیار پھر جب وہ سجدہ کر چکیں ، تو تمہارے پیچھے چلے جائیں اور (ان کی جگہ) دوسرا گروہ آ کر آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی، اور وہ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار ساتھ لیے رہیں کافر تو اس بات کی تاک میں رہتے کہ کسی طرح تم غافل ہو جاؤ اپنے ہتھیاروں سے ، اور اپنے سامانوں سے تو وہ ٹوٹ پڑیں تم پر یکبارگی، اور تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں کوئی تکلیف ہو، بارش وغیرہ کی وجہ سے یا تم بیمار ہو اس بات میں کہ تم لوگ (ضرورت سے زائد) اپنا اسلحہ اتار کر رکھ دو مگر (ضروری) بچاؤ کا سامان پھر بھی لئے رہا کرو بے شک اللہ نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لئے ایک بڑا رسوا کن عذاب،
۱۰۳۔۔ پھر جب تم ادا کر چکو اپنی نماز تو یاد کرو اللہ کو کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں ) اور جب تمہیں اطمینان نصیب ہو جائے تو تم نماز قائم کرو (عام دستور کے مطابق) بے شک نماز فرض ہے ایمان والوں پر مقررہ وقتوں میں ،
۱۰۴۔۔ اور تم ہمت مت ہارو (اے مسلمانو!) اس (دشمن) قوم کا پیچھا کرنے میں اگر تمہیں کوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو (کیا ہوا؟ آخر) وہ بھی تو تکلیف اٹھاتے ہیں جیسے تم لوگ اٹھاتے ہو اور (مزید یہ کہ) تم امید رکھتے ہو اللہ سے ان چیزوں کی جن کی امید وہ نہیں رکھتے ، اور اللہ سب کچھ جانتا، بڑا ہی حکمت والا ہے
۱۰۵۔۔ بے شک ہم نے اتاری آپ کی طرف یہ (عظیم الشان) کتاب (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم!) حق کے ساتھ، تاکہ آپ فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان، اس کے مطابق جو اللہ آپ کو دکھائے ، اور نہیں بننا خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والا،
۱۰۶۔۔ اور بخشش مانگو تم اللہ سے ، بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے
۱۰۷۔۔ اور مت لڑو تم ان لوگوں کی طرف جو خیانت کرتے ہیں اپنی ہی جانوں سے ، بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا کسی بھی ایسے شخص کو جو دھوکہ باز گناہ گار ہو،
۱۰۸۔۔ جو چھپتے ہیں (اور شرماتے ) ہیں لوگوں سے ، مگر وہ نہیں چھپتے (اور شرماتے ) اللہ سے ، حالانکہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ وہ چھپ (چھپ) کر مشورے کر رہے ہوتے ہیں ، ان باتوں کے جو اللہ کو پسند نہیں ، اور اللہ پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے ان تمام کاموں کا جو یہ لوگ کر رہے ہوتے ہیں ۔
۱۰۹۔۔ ہاں تم لوگوں نے ان (مجرموں ) کی طرف سے دنیاوی زندگی میں تو لڑ جھگڑ لیا، مگر کون ہے جو لڑ سکے ان سے قیامت کے روز؟ یا وہ (کسی اور طرح سے ) وہ ان کا کام بنا سکے ؟
۱۱۰۔۔ اور جو کوئی ارتکاب کر لے کسی برائی کا، یا ظلم کر بیٹھے اپنی جان پر، پھر وہ معافی مانگے اللہ سے تو وہ (یقیناً) پائے گا اللہ کو بڑا ہی بخشنے والا، نہایت مہربان،
۱۱۱۔۔ اور جس نے کمایا گناہ تو سوائے اس کے نہیں کہ اس کی اس کمائی کا وبال خود اس کی اپنی ہی جان پر ہو گا، اور اللہ بڑا ہی علم والا، نہایت ہی حکمت والا ہے
۱۱۲۔۔ اور جس نے کمائی کی کسی خطایا گناہ کی، پھر اس کو اس نے تھوپ دیا کسی بے گناہ کے سر، تو یقیناً اس نے لاد لیا اپنے اوپر ایک بڑا بہتان، اور کھلم کھلا گناہ،
۱۱۳۔۔ اور اگر نہ ہوتی اللہ کی مہربانی، اور اس کی رحمت، آپ پر (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم!) تو یقیناً ٹھان لی تھی ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے کہ وہ بھٹکا دیں آپ کو (راہ حق و صواب سے ) حالانکہ وہ بھٹکاتے نہیں مگر خود اپنے ہی آپ کو، اور آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، اور اتاری اللہ نے آپ پر کتاب اور (عطا فرمائی اس نے آپ کو) حکمت، اور سکھایا اس نے آپ کو وہ کچھ جو آپ نہیں جانتے تھے ، اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے ،
۱۱۴۔۔ کوئی خبر نہیں لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں ، بجز اس کے کہ کوئی تلقین کرے صدقہ کرنے کی، یا نیک کام کی، یا لوگوں کے درمیان صلح (صفائی) کرانے کی، اور جو کوئی ایسا کرے گا اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ، تو (وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے ، کہ) عنقریب ہی ہم اس کو نوازیں گے بہت بڑے اجر سے ،
۱۱۵۔۔ اور (اس کے برعکس) جس نے مخالفت کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی، اس کے بعد کہ کھل گئی اس کے لئے (حق و ہدایت کی) سیدھی راہ، اور اس نے پیروی کی اہل ایمان کے راستے کے سوا کسی اور (راستے ) کے ، تو ہم اس کو ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ خود چلا، اور (آخر کار) ہم اس کو داخل کر دیں گے جہنم میں ، اور وہ بڑی ہی بری جگہ ہے لوٹنے کی،
۱۱۶۔۔ بے شک اللہ نہیں بخشے گا اس بات کو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور وہ بخش دے گا اس کے سوا جو بھی گناہ ہو گا، جس کے لئے چاہے گا، اور جس نے شرک کیا، تو وہ یقیناً (راہ حق سے ) بھٹک کر جا پڑا دور کی گمراہی میں ،
۱۱۷۔۔ یہ (مشرک) لوگ اللہ کے سوا نہیں پکارتے مگر کچھ عورتوں (کے ناموں ) کو، اور یہ نہیں پکارتے مگر اس بڑے سرکش شیطان کو،
۱۱۸۔۔ جس پر لعنت فرما دی اللہ نے ، اور جس نے (اللہ سے اعلانیہ) کہہ دیا تھا کہ میں ضرور بالضرور لے کر رہوں گا تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ،
۱۱۹۔۔ اور میں ضرو بالضرور گمراہ کر کے چھوڑوں گا ان کو (راہ حق سے ) اور میں ضرور بالضرور مبتلا کر کے رہوں گا ان کو طرح طرح کی امیدوں میں ، اور میں ضرور بالضرور پٹی پڑھاؤں گا ان کو، تاکہ یہ (غیر اللہ کے نام پر) کان کاٹیں اپنے جانوروں کے ، اور میں ضرو بالضرور ان کو سکھاؤں گا (اور پڑھاؤں گا) تاکہ یہ بدل دیں اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو، اور جس نے اپنا دوست بنا لیا شیطان کو اللہ کے سوا، تو وہ یقیناً پڑ گیا ایک بڑے ہی کھلے خسارے میں
۱۲۰۔۔ وہ ان سے (جھوٹے ) وعدے کرتا، اور ان کو طرح طرح کی امیدیں دلاتا ہے اور شیطان ان سے وعدے نہیں کرتا مگر محض دھوکے (اور فریب) کے ،
۱۲۱۔۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ پا سکیں گے اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت
۱۲۲۔۔ اور (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے (صدق دل سے ) اور انہوں نے عمل بھی نیک کئے ، تو ان کو ہم عنقریب ہی داخل کریں گے ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان نہریں ، جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلے رہنا نصیب ہو گا، وعدہ ہے اللہ کا سچا، اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے ۔
۱۲۳۔۔ مدار نہ تمہاری (آرزووں اور) امیدوں پر ہے ، (اے مسلمانو!) اور نہ ہی اہل کتاب کی امیدوں پر، (بلکہ ضابطہ یہ ہے کہ) جو بھی کوئی برائی کرے گا، وہ اس کا بدلہ پائے گا اور ایسے لوگ نہیں پا سکیں گے اپنے لئے اللہ کے سوا، کوئی یار، اور نہ مدد گار،
۱۲۴۔۔ اور جو کوئی بھی نیک کام کرے گا خواہ وہ کوئی مرد ہو، یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ داخل ہوں گے جنت میں (اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ) اور ان پر ذرہ برابر کوئی ظلم نہیں ہو گا
۱۲۵۔۔ اور اس سے بڑھ کو اچھا دین اور کس کا ہو سکتا ہے جس نے حوالے کر دیا اپنے آپ کو اللہ کے ، درآں حالیکہ وہ (مخلص اور) نیکوکار بھی ہے ، اور اس نے پیروی کی ابراہیم کے دین کی، جو کہ ایک ہی طرف کا تھا، اور بنا لیا اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست،
۱۲۶۔۔ اور (بندگی اللہ ہی کی کرو کہ) اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے ، اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہمیں ہے ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کر پوری طرح گھیرے میں لئے ہوئے ہے ،
۱۲۷۔۔ اور حکم پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں (اے پیغمبر! تو ان سے ) کہو کہ اللہ تم کو حکم (اور اجازت) دیتا ہے ان کے بارے میں ، اور وہ جو کہ تم پر پڑھا جاتا ہے اس کتاب میں ، وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہیں ، جو کہ تم ان کو مقرر کردہ حق نہیں دیتے ، اور ان سے نکاح کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہو، نیز (وہ حکم) ان بچوں کے بارے میں ہے جو بے سہارا ہیں ، اور (وہ تم کو حکم دیتا ہے ) کہ تم انصاف کا معاملہ کرو یتیموں کے ساتھ، اور جو بھی کوئی نیکی تم لوگ کرو گے (وہ ضائع نہیں جائے گی کہ) بے شک اللہ اس کو پوری طرح جانتا ہے
۱۲۸۔۔ اور اگر کسی عورت کو (خدشہ و) اندیشہ ہو، اپنے خاوند سے کسی بدسلوکی، یا بے رخی کا تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں ، کہ وہ آپس میں کوئی صلح کر لیں ، اور صلح بہر حال بہتر ہے اور حرص و آز کو تو عام طبیعتوں کی سرشت میں رکھ دیا گیا ہے ، اور اگر تم لوگ اچھا برتاؤ کرو اور پرہیزگار رہو تو (اس کا بدلہ ضرور پاؤ گے کہ) یقیناً اللہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،
۱۲۹۔۔ اور تم اپنی بیویوں کے درمیان (دل کے تعلق اور محبت کے اعتبار سے ) کبھی برابری نہیں کر سکو گے ، اگرچہ تم اس کی حرص بھی رکھو، پس (اتنا کافی ہے کہ) تم ایک طرف اس قدر پورے نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ایسا کر دو کہ گویا وہ (بیچ میں ) لٹکی ہوئی ہو، اور اگر تم (بقدر امکان) اصلاح کرتے ، اور بچتے (اور ڈرتے ) رہو، تو (کمی بیشی معاف فرما دی جائے گی کہ) بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے
۱۳۰۔۔ اگر وہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں ، تو اللہ ان میں سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا (دوسرے سے ) اپنی وسعت سے اور اللہ بڑا ہی وسعت والا، نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۱۳۱۔۔ اور اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہے ، اور بلاشبہ ہم نے تاکید کر دی تھی ان لوگوں کو جن کو کتاب دی گئی تھی تم سے پہلے اور (یہی تاکید ہے ) تم کو بھی کہ تم لوگ ڈرتے رہا کرو اللہ سے (ہرحال میں ) اور اگر (اس کے باوجود) تم لوگوں نے کفر ہی کیا تو (یقیناً اس سے تم اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑو گے کہ) بے شک اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہے اور اللہ بڑا ہی بے نیاز اور تعریف کا حقدار ہے
۱۳۲۔۔ اور اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہے اور کافی ہے اللہ کارسازی کے لئے
۱۳۳۔۔ وہ اگر چاہے تولے جائے تم سب کو اے لوگو، اور (تمہاری جگہ) لے آئے دوسروں کو، اور اللہ ہی پوری قدرت رکھتا ہے
۱۳۴۔۔ جو کوئی دنیا ہی کا بدلہ چاہے گا تو (یہ اس کی اپنی ہی محرومی اور کم ظرفی ہو گی ورنہ) اللہ کے پاس تو دنیا بھی ہے اور آخرت کا بھی، اور اللہ سب کچھ سنتا دیکھتا ہے
۱۳۵۔۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، ہو جاؤ تم قائم کرنے والے انصاف کو (حق کے ) گواہ بن کر اللہ (کی رضا) کے لئے ، اگرچہ وہ تمہاری اپنی ذات ہی کے خلاف کیوں نہ ہو، یا اس کی زد تمہارے اپنے ماں باپ یا رشتہ داروں ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو، اگر وہ شخص مالدار ہے یا غریب تو (تم اس کی پرواہ نہ کرو کہ) اللہ بہر حال ان دونوں کا زیادہ خیرخواہ ہے پس تم انصاف کرنے میں خواہش کی پیروی میں نہ پڑ جانا، اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا پہلو تہی کی، تو (اس کا بھگتان تمہیں بہرحال بھگتنا ہو گا کہ) بے شک اللہ پوری خبر رکھتا ہے ان سب کاموں کی جو تم لوگ کرتے ہو
۱۳۶۔۔ اے ایمان (کا دعویٰ کرنے ) والو، تم لوگ (سچے دل سے ) ایمان لاؤ اللہ پر اس کے رسول پر، اور اس کی کتاب پر جو اس نے اب اتاری ہے اپنے رسول پر، اور اس کی ان تمام کتابوں پر جو اس نے اتاری ہیں اس سے پہلے اور (یاد رکھو کہ) جس نے کفر کیا اللہ سے اس کے فرشتوں اور کتابوں سے اور اس کے رسولوں (کی رسالت) اور قیامت کے دن کا، تو یقیناً وہ (حق ہدایت کی سیدھی راہ سے ) بھٹک کر جا پڑا دور کی گمراہی میں
۱۳۷۔۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے پھر وہ کافر ہو گئے ، پھر ایمان لائے ، پھر کافر ہو گئے ، پھر وہ بڑھتے چلے گئے اپنے کفر میں ، تو ایسوں کی نہ تو اللہ بخشش فرمائے گا، اور نہ ہی وہ نصیب فرمائے گا (حق و ہدایت کی) کوئی راہ،
۱۳۸۔۔ خوشخبری سنا دو ان منافقین لوگوں کو اس بات کی کہ ان کیلئے ایک دردناک عذاب (تیار) ہے
۱۳۹۔۔ جنہوں نے (ایمان کے دعووں کے باوجود) کافروں کو اپنا دوست بنا رکھا ہے ، ایمان والوں کو چھوڑ کر کیا یہ لوگ ان کے یہاں عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو (یہ یقین جان لیں کہ) بے شک عزت سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے ،
۱۴۰۔۔ اور اس نے نازل فرمایا ہے اپنی کتاب میں (یہ حکم ارشاد) کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ، تو تم مت بیٹھو ایسے (بد بخت) لوگوں کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ لگ جائیں کسی اور بات میں نہیں تو ایسی صورت میں تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے ، بلاشبہ اللہ نے اکٹھا کر کے لانا ہے (چھپے کافروں یعنی) منافقوں ، اور کھلے کافروں کو جہنم میں یک جا کر کے ،
۱۴۱۔۔ جو (اپنے بغض وعناد کی بناء پر) تمہاری تاک میں لگے رہتے ہیں ، پس اگر تم کو کوئی فتح (وکامیابی) نصیب ہو جائے اللہ کی طرف سے تو یہ تم سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے ؟ اور اگر (اس کے برعکس کبھی) کافروں کو کوئی حصہ مل جائے ، تو یہ (ان سے ) کہتے ہیں کیا ہم تم لوگوں پر غالب نہ آنے لگے تھے ، اور کیا ہم نے تمہیں نہیں بچایا مسلمانوں سے ؟ پس اللہ ہی (حقیقی اور عملی) فیصلہ فرمائے گا تمہارے درمیان قیامت کے دن اور اللہ (سبحانہ وتعالی) ہرگز کرے گا کافروں کے لئے اہل ایمان کے مقابلے میں کوئی راہ
۱۴۲۔۔ بے شک منافق لوگ دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو حالانکہ دھوکہ اس کی طرف سے خود ان کو لگ رہا ہے اور (ان کی اس منافقت کی بناء پر ان کا حال یہ ہے کہ) جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوے کھڑے ہوتے ہیں محض لوگوں کو دکھلانے کے لئے اور یہ لوگ اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا
۱۴۳۔۔ (محض دکھلاوے کے لئے ) ڈانوا ڈول ہیں یہ لوگ (کفرو اسلام کے ) اس بیچ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے (اس کی اپنی بدنیتی کی بناء پر) تو تم اس کے لیے ہرگز کوئی راہ نہ پا سکو گے
۱۴۴۔۔ اے ایمان والوں (خبردار!) کہیں تم بھی (منافقوں کی طرح) کافروں کو اپنا دوست نہ بنا لینا ایمان والوں کو چھوڑ کر، کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ (اس طرح کر کے ) تم لوگ اپنے اوپر اللہ کے لئے کھلی حجت قائم کر لو؟
۱۴۵۔۔ بے شک منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تم ہرگز نہ پا سکو گے ان کے لیے کوئی یارو (مددگار)
۱۴۶۔۔ بجز ان کے جنہوں نے توبہ قبول کر لی (اپنے کفر و نفاق سے ) اور انہوں نے اصلاح کر لی (اپنے عمل و کردار کی) اور مضبوطی سے پکڑ لیا اللہ (کے دین) کو اور انہوں نے خالص کر لیا اپنے دین (و حکم برداری) کو اللہ کے لیے تو ایسے لوگ ساتھ ہوں گے ایمانداروں کے (نعیم جنت میں ) اور عنقریب ہی اللہ نوازے دے گا ایمان والوں کو اجر عظیم سے
۱۴۷۔۔ اللہ کیا کرے گا تم کو عذاب دے کر (اے لوگو!) اگر تم شکر گزاری سے کام لو، اور (صدق دل سے ) ایمان لے آؤ اور اللہ بڑا ہی قدردان، سب کچھ جاننے والا ہے ،
۱۴۸۔۔ اللہ پسند نہیں کرتا بری بات کو ظاہر کرنا، مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو (کہ اس کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے ) اور اللہ (ہر کسی کی) سنتا سب کچھ جانتا ہے ،
۱۴۹۔۔ اگر تم لوگ ظاہر کر کے کرو کوئی نیکی، یا چھپاؤ تم اس کو، یا درگزر سے کام لو تم کسی برائی سے ، تو (یہ سب درست اور قابل قدر ہے کہ) بے شک اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا، پوری قدرت والا ہے ،
۱۵۰۔۔ بے شک جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ، اور اس کے رسولوں کے ساتھ، اور وہ چاہتے ہیں کہ (ایمان کے بارے میں ) تفریق کریں ، اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان، اور وہ کہتے ہیں ہم کسی کو مانیں گے ، اور کسی کو نہیں مانیں گے ، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ (کفر و اسلام کے ) بیچ ایک راستہ اپنا لیں ،
۱۵۱۔۔ ایسے لوگ (اپنے ایمان کے سب دعووں کے باوجود) پکے کافر ہیں ، اور ہم نے تیار کر رکھا ہے ایسے کافروں کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب،
۱۵۲۔۔ اور (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لائے اللہ پر، اور اس کے سب رسولوں پر اور انہوں ں ے (ایمان کے سلسلہ میں ) ان میں سے کسی کی بھی کوئی تفریق نہیں کی تو ایسوں کو عنقریب ہی اللہ عطا فرمائے گا ان کے اجر، اور اللہ بڑی ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۱۵۳۔۔ مطالبہ کرتے ہیں آپ سے اہل کتاب (اے پیغمبر!) کہ آپ اتار دیں ان پر ایک کتاب آسمان سے (ان کے سامنے ) سو (یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں کہ) یہ لوگ تو اس سے پہلے موسیٰ سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کر چکے ہیں ، کہ انہوں نے ان سے کہا کہ ہمیں خود اللہ کو دکھلا دو کھلم کھلا، تو اس پر آ پکڑا ان کو بجلی کی کڑک نے ، ان کے ظلم (اور اس بے جا بات) کی بناء پر، پھر (اس سے بڑھ کر یہ کہ) انہوں نے اس (مصنوعی) بچھڑے کو بھی اپنا معبود بنا لیا، اس کے بعد کہ آ چکی تھیں ان کے پاس کھلی (اور روشن) نشانیاں ، پھر اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر ہی کیا، اور ہم نے عطا کیا موسیٰ کو (باطل کے مقابلے میں ) کھلا غلبہ،
۱۵۴۔۔ اور ہم نے اٹھایا ان لوگوں پر کوہ طور کو، ان کے پختہ عہد کی بنا پر (احکام تورات پر عمل کرنے کے لیے ) اور ہم نے ان سے کہا کہ تم داخل ہونا (شہر پناہ کے ) دروازے میں (عاجزانہ اور) سر جھکائے ہوئے ، اور ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ تم لوگ زیادتی نہ کرنا ہفتے کے (احکام کے ) بارے میں ، اور ہم نے ان سے بڑا مضبوط (اور پختہ) عہد لیا
۱۵۵۔۔ پھر بوجہ توڑ دینے کی ان لوگوں کے اپنے اس پختہ عہد کو، اور بوجہ کفر کرنے کے ان کے اللہ کی آیتوں کے ساتھ، اور بوجہ قتل کرنے کے ان کے اپنے نبیوں کو بغیر کسی حق کے ، اور بوجہ ان کی اس (بے ہدہ) بات کے ، کہ ہمارے دل پردوں میں ہیں ، (نہیں یہ بات نہیں ) بلکہ ان پر پھٹکار کر دی اللہ نے ان کے کفر کے باعث، پس یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت تھوڑا،
۱۵۶۔۔ نیز (ان پر یہ سزائے لعنت اور عذاب مسلط ہوا) بوجہ ان کے کفر کے ، اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے مریم (صدیقہ) پر بہت بڑا بہتان باندھا،
۱۵۷۔۔ اور بوجہ ان کے اس کہنے کے کہ ہم نے قتل کیا مسیح کو یعنی عیسیٰ بیٹے مریم کو، جو کہ اللہ کا رسول ہے ، حالانکہ حقیقت میں یہ نہ تو اسے قتل کر سکے ، اور نہ ہی سولی دے سکے ، بلکہ خود ان کو اشتباہ میں ڈال دیا گیا، اور بلاشبہ جن لوگوں نے انکے بارے میں اختلاف کیا وہ قطعی طور پر شک میں ہیں ، ان کے پاس اس سے متعلق کوئی علم نہیں ، سوائے ظن (و گمان) کی پیروی کے ، اور انہوں نے یقیناً قتل نہیں کیا ان کو،
۱۵۸۔۔ بلکہ ان کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف (زندہ و سلامت) اور اللہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۱۵۹۔۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو ایمان نہ لائے اس پر اس کی موت سے پہلے ، اور قیامت کے دن وہ (حضرت عیسیٰ) ان لوگوں کے خلاف گواہ ہوں گے (ان کی کفریات پر)
۱۶۰۔۔ پس بوجہ ان لوگوں کے سنگین ظلم کے جو یہودی بن گئے حرام کر دیں ہم نے ان پر (بہت سی) وہ پاکیزہ چیزیں جو (اس سے قبل) ان کیلئے حلال تھیں ، اور بوجہ ان کے بہت روکنے کے اللہ کی راہ سے ،
۱۶۱۔۔ اور بوجہ ان کے سود لینے کے ، حالانکہ انکو سختی کے ساتھ اس سے منع کیا گیا تھا، اور بوجہ ان کے لوگوں کے مال ہڑپ کرنے کے باطل (اور ناجائز طریقوں ) سے ، اور ہم نے تیار کر رکھا ہے ان میں سے کافروں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب،
۱۶۲۔۔ مگر ان میں کے جو لوگ پختہ ہیں اپنے علم میں ، اور جو ایمان والے ہیں ، وہ (صدق دل سے ) ایمان رکھتے ہیں اس وحی پر جو اتاری گئی آپ کی طرف (اے پیغمبر!) اور اس پر بھی جو کہ اتاری گئی آپ سے پہلے ، اور خاص کر جو پابندی کرنے والے ہیں نماز کی، اور جو زکوٰۃ دینے والے ہیں ، اور جو (سچا) ایمان رکھتے ہیں اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، تو ایسے لوگوں کو ہم عنقریب ہی نوازیں گے ایک بہت بڑے اجر سے ،
۱۶۳۔۔ بے شک ہم نے وحی بھیجی آپ کی طرف (اے پیغمبر!) جس طرح کہ ہم (اس سے پہلے ) وحی بھیج چکے ہیں نوح، اور ان کے بعد (آنے والے دوسرے ) نبیوں کی طرف، اور (اسی طرح) ہم نے وحی بھیجی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد (نبیوں ) کی طرف، اور عیسیٰ ایوب، یونس، ہارون، اور سلیمٰن کی طرف بھی (ہم نے وحی بھیجی) اور ہم ہی نے داؤد کو زبور عطا کی،
۱۶۴۔۔ اور ان رسولوں کو بھی (ہم نے وحی سے نوازا) جن کا ذکر ہم آپ سے اس سے پہلے کر چکے ہیں ، اور ان رسولوں کو بھی جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا، اور موسیٰ کو نوازا اللہ نے اپنے بلا واسطہ کلام سے ،
۱۶۵۔۔ ان سب رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے بنا کر بھیجا، تاکہ نہ رہے لوگوں کے لئے کوئی (عذر) حجت اللہ کے حضور ان رسولوں کے (آنے کے ) بعد، اور اللہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۱۶۶۔۔ لیکن (اگر یہ لوگ پھر بھی نہیں مانتے تو نہ مانیں ) اللہ بہر حال گواہی دیتا ہے ، اس کے ذریعے کہ اس نے جو کچھ اتارا آپ کی طرف اس کو اتارا ہے اپنے علم کے ساتھ، اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں ، اور کافی ہے اللہ گواہی دینے کو،
۱۶۷۔۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، اور (مزید یہ کہ) انہوں نے روکا اللہ کی راہ سے ، وہ یقیناً (راہ حق و صواب سے ) بھٹک کر جا پڑے دور کی گمراہی میں ،
۱۶۸۔۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، اور انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا، اللہ نہ ان کی بخشش فرمائے گا، اور نہ ہی ان کو نوازے گا (حق و ہدایت کی) سیدھی راہ سے ،
۱۶۹۔۔ بجز اس دوزخ کی راہ کے جس میں ان کو رہنا ہو گا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ، اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ،
۱۷۰۔۔ اے لوگو! بے شک تشریف لا چکے تمہارے پاس ہمارے (عظیم الشان) رسول (دین) حق کے ساتھ، تمہارے رب کی جانب سے ، پس تم لوگ ایمان لے آؤ خود اپنے بھلے (اور بہتری) کیلئے ، اور اگر تم اڑے ہی رہے اپنے کفر (باطل) پر، تو بلاشبہ (اس میں اللہ کا کوئی نقصان نہیں کہ) اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور اللہ بڑا ہی علم والا، نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۱۷۱۔۔ اے کتاب والو، تم غلو مت کرو اپنے دین میں ، اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ مت کہو، سوائے اس کے نہیں کہ مسیح عیسیٰ بیٹے مریم اللہ کے رسول اور اس کا ایک فرمان ہیں جسے پہنچایا اس نے مریم تک اور اس کی طرف سے (آنے والی) ایک روح، پس تم لوگ (سچے دل سے ) ایمان لے آؤ اللہ پر، اور اس کے سب رسولوں پر، اور مت کہو کہ (خدا) تین ہیں ، باز آ جاؤ تم لوگ (اس قول باطل سے ) خود اپنے ہی بھلے کے لیے سوائے اس کے نہیں کہ اللہ ہی معبود ہے ایک ہی معبود، وہ پاک ہے اس سے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے ، اور کافی ہے اللہ کارسازی کرنے کو،
۱۷۲۔۔ ہرگز عار نہیں ہو سکتی مسیح کو اس بات سے کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ ہی مقرب فرشتوں کو، اور (ایسا ان سے کسی طرح ممکن ہو سکتا ہے جب کہ قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ) جس نے بھی عار کی اللہ کی عبادت (و بندگی) سے ، اور وہ مبتلا ہوا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ، تو اللہ ضرور ان سب کو اپنے پاس لائے گا اکٹھا کر کے ،
۱۷۳۔۔ پھر جنہوں نے (صدق دل سے ) ایمان لایا ہو گا، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے ، تو وہ ان کو نوازے گا ان کے بھرپور اجر سے ، اور ان کو اور بھی دے گا اپنے فضل (مہربانی) سے ، اور جنہوں نے عار کی ہو گی (اس کی عبادت و بندگی سے ) اور وہ مبتلا رہے ہوں گے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ، تو انکو وہ مبتلا کرے گا ایک بڑے ہی (ہولناک اور) دردناک عذاب میں ، اور وہ نہیں پا سکیں گے اپنے لئے اللہ کے سوا کوئی یار اور نہ کوئی مددگار،
۱۷۴۔۔ اے لوگو، بے شک پہنچ چکی تمہارے پاس ایک عظیم الشان حجت تمہارے رب کی جانب سے ، اور اتار دی ہم نے تمہاری طرف کھول کر بیان کر دینے والی ایک عظیم الشان روشنی،
۱۷۵۔۔ پس (اس کے بعد) جو لوگ ایمان لے آئے اللہ پر، اور انہوں نے مضبوط پکڑ لیا اس (کی رسی) کو، تو وہ عنقریب ہی انہیں داخل فرمائے گا اپنی عظیم الشان رحمت، اور فضل میں ، اور وہ انہیں ڈال دے گا اپنے تک پہنچنے والی سیدھی راہ پر۔
۱۷۶۔۔ فتویٰ پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر!) کلالہ کے بارے میں ، تو آپ (انہیں ) بتا دیں کہ کلالہ کے بارے میں اللہ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو، اور اس کی کوئی بہن ہو تو اسے کل ترکے کا آدھا ملے گا اور وہ بھائی اپنی اس بہن کے کل ترکے کا وارث ہو گا، اگر اس بہن کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر وہ بہنیں دو ہو (یا اس سے زیادہ) تو وہ اس کے ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی، اور اگر وہ (وارث) کئی بہن بھائی ہوں ، مرد بھی اور عورتیں بھی، تو پھر مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا، اللہ کھول کر بیان فرماتا ہے تمہارے لئے (اپنے احکام، تاکہ) کہیں تم لوگ بھٹک نہ جاؤ، اور اللہ کو ہر چیز کا پورا پورا علم ہے ،
۱۔۔ سو اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اس اور صرف اسی سے ڈرو۔ اور ہمیشہ اس بات کی فکر و کوشش میں رہا کرو کہ اس کی نافرمانی نہ ہونے پائے۔ اور وہ تم سے ناراض نہ ہو جائے کہ اس کے تقوی اور اس کی رضا ہی میں تم لوگوں کا بھلا ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی، کہ جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔
۲۔ سو ساری دنیا کے لوگ دراصل ایک ہی برادری اور ایک ہی کنبہ و خاندان ہیں، سب کا باپ بھی ایک اور ماں بھی ایک اس لئے سب کے اندر ایک دوسرے کے لئے محبت اور ہمدردی و خیر خواہی کے جذبات ہی موجود و موجزن ہونے چاہئیں۔ رب بھی تم سب لوگوں کا ایک ہی ہے۔ اور اَبْ یعنی باپ بھی سب کا ایک ہی ہے، پس تم سب ایک ہی بن کر رہو، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔ اپنے رب کے آگے جھک جاؤ اور آپس میں ایک دوسرے کا بھلا کرو۔ سبحان اللہ! کیسی عظیم الشان پاکیزہ اور جامع تعلیم ہے، جو اس دین حنیف نے دنیا کو دی ہے، جس میں سب ہی، کا بھلا اور فائدہ ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، والحمد للہ
۳۔ چنانچہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہو کہ اللہ کے لئے میرا فلاں کام کر دو۔ یا اللہ کے نام پر مجھے فلاں چیز دے دو۔ یا یہ کہ اللہ کے لئے تم میرا حق نہیں مارو۔ اور مجھ سے زیادتی نہیں کرو۔ وغیرہ وغیرہ، تو اس خالق و مالک کے نام پاک کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں تم لوگوں کے اس طرح کے باہمی کام ہو جاتے ہیں، پس اس کا تقاضا ہے کہ تم سب اسی سے ڈرو۔ اور اس کی نافرمانی سے ہمیشہ بچتے رہا کرو۔ کہ یہ اس کا تم لوگوں پر حق بھی ہے اور اسی میں تمہارا بھلا بھی ہے۔ دنیا و آخرت دونوں میں۔ پس تم یاد رکھو کہ اللہ تم لوگوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس کی فکر کرو کہ اس کے ساتھ تمہارا معاملہ صحیح ہے، کہ اسی کے حضور حاضر ہو کر تم نے اپنے کئے کرائے کی جوابدہی کرنی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید
۲۔۔ سو معاشرتی حقوق و احکام کے ذکر و بیان کے سلسلے میں سب سے پہلے ضعیفوں اور کمزوروں کے حقوق کو بیان فرمایا گیا اور ضعیفوں اور کمزوروں کے حقوق کے بیان کے ضمن میں بھی سب سے پہلے یتیموں کے حقوق کو بیان فرمایا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ یتیموں کو ان کے مال دے دیا کرو۔ اور مت بدلو ناپاک کو پاک کے ساتھ، اور مت کھاؤ تم ان کے مالوں کو اپنے مالوں سے ملا کر بلاشبہ یہ بڑا گناہ ہے۔ پس اس سے تم لوگوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں بچنے کی فکر و کوشش کرنی چاہئے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید،
۳۔۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عربوں کے یہاں یہ رواج تھا کہ جس کسی کی کفالت میں کوئی یتیم لڑکی ہوتی تو وہ اس کے ساتھ یہ ظلم روا رکھتا کہ اگر وہ حسن و جمال والی ہوتی تو وہ اس سے خود نکاح کر کے اس کے مال و دولت پر بھی قبضہ کر لیتا۔ اور اس کو اس کا حق مہر بھی نہ دیتا۔ اور اگر وہ اس کو پسند نہ ہوتی تو وہ اس سے خود بھی نکاح نہ کرتا اور کسی دوسرے سے بھی اس کو نکاح کرنے کی اجازت نہ دیتا، تاکہ اس کا مال اور جائیداد اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے، جس کے نتیجے میں وہ یتیم لڑکی مسلسل عذاب میں پڑی رہتی، تو اس ارشاد ربانی سے ان لوگوں کو اس ظلم و زیادتی سے روکا اور منع کیا گیا (بخاری کتاب التفسیر، سورۃ النساء کتاب النکاح، اور ابوداؤد کتاب النکاح وغیرہ) سو اس ارشاد ربانی سے ان لوگوں کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ عدل و انصاف نہیں کر سکو گے۔ تو تم ان کے بجائے اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے نکاح کر لو۔ دو دو تین تین اور چار چار تاکہ اس طرح یہ یتیم لڑکیاں بھی ظلم و زیادتی سے بچ سکیں۔ اور خود تم لوگ بھی ظلم و زیادتی اور حق تلفی کے ارتکاب سے محفوظ رہ سکو۔ اور جب تم لوگوں کے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کی آزادی اور چھوٹ موجود ہے تو پھر تم کو اس کی کیا ضرورت ہے کہ تم خواہ مخواہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ اس ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرو، اور انکو عذاب میں ڈالو،
۴۔۔ سو اس ارشاد ربانی سے ایک تو یہ اہم اور بنیادی ہدایت فرمائی گئی کہ اگر تم لوگ دیکھو کہ تم ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام نہیں لے سکو گے، تو پھر تم ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو۔ یا اپنی ان باندیوں پر جو تمہاری ملک یمین میں ہوں۔ کہ یہ بے انصافی سے بچنے کے لئے زیادہ بہتر طریقہ ہے اور دوسری اہم ہدایت اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ تم لوگ ان عورتوں کے مہر ان کو خوش دلی سے دے دیا کرو کہ یہ ان کا حق ہے اور حق والے کو اس کا حق دینا تقاضائے عدل و انصاف ہے، اور تیسری ہدایت اس بارے میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اگر وہ اپنے مہر میں سے کچھ یا سب چھوڑ دیں تو وہ تمہارے لئے جائز اور حلال و پاکیزہ ہے۔ پس تم اس کو خوشی بخوشی کھاؤ برتو یعنی لوگوں پر اس میں کوئی حرج نہیں، کہ ان کو اپنا حق کلی یا جزئی طور پر چھوڑنے کا بہرحال حق ہے۔
۵۔۔ سو اس سے مال کے بارے میں اسلام کا وہ عادلانہ اور حکیمانہ نقطہ نظر سامنے آتا ہے جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم دونوں ہی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، کہ نہ تو اس کو ایسا مقصود بناؤ کہ اس کی پوجا پاٹ تک میں لگ جاؤ، اور اس کے حصول کے لئے جائز و ناجائز کی حدود تک کو مٹا ڈالو۔ جس طرح کہ مادہ پرست دنیا کرتی ہے۔ اور نہ ہی تم اس کو ایسے احمقوں کے ہاتھ میں دے دو جو اس کو یونہی ضائع کر دیں۔ کہ یہ بہرحال تمہاری ضرورتوں کی تکمیل اور تمہاری گزران و بقاء کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اسی لئے صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین چیزوں سے منع فرمایا ہے یعنی قیل و قال، کثرت سوال، اور اضاعت مال، یعنی مال کے ضائع کرنے سے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اسی لئے یہاں اپنے مالوں کو کم عقلوں کے حوالے کرنے سے صاف اور صریح طور پر منع فرمایا گیا ہے کہ اس طرح اور ان کے ہاتھوں میں لگ کر وہ مال ضائع ہو جائیں گے جو تمہارے حفظ وبقاء کا ذریعہ ہیں۔
۷۔۔ سو اس آیت کریمہ میں ایک تو یہ اہم اور بنیادی تعلیم دی گئی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کا بھی میراث میں حق ہے اور یہ تعلیم و ہدایت اس وقت فرمائی گئی جبکہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا کہنا اور ماننا یہ تھا کہ عورتوں اور بچوں کا میراث میں کوئی حصہ اور حق نہیں۔ کیونکہ میراث میں حصہ اسی کو مل سکتا ہے، جو دشمن کے مقابلہ میں تلوار چلائے۔ خاندان کی حفاظت کرے۔ اور غنیمت کما کر لائے۔ سو تاریکی کے اس مہیب دور میں دین حنیف نے اس سب کے علی الرغم ارشاد فرمایا کہ میراث میں بچوں کا بھی حق اور حصہ ہے اور صنف نازک یعنی عورت کا بھی اور میراث میں استحقاق کی بنیاد رشتہ داری اور قرابت قریبہ کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ ان جاہلی امور میں سے کسی کو جو کہ ان لوگوں کے یہاں طے اور مقرر تھے نیز یہ کہ میراث میت کے سب ترکے میں جاری ہو گی خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ نیز یہ کہ یہ یونہی کوئی صوابدیدی امر نہیں، بلکہ جو لوگوں کی رائے اور صوابدید پر مبنی و موقوف ہو، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر حصہ ہے، جس کو دینا اور ادا کرنا ضروری اور لازمی ہے۔
۸۔۔ سو یہ بھی دین حنیف کی رحمتوں بھری تعلیمات کی رحمت و عنایت کا ایک نمونہ و مظہر ہے کہ جب تقسیم میراث کے موقع پر ایسے رشتہ دار اور یتیم و مسکین حاضر ہو جائیں جن کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہ ہو تو ان کی بھی آس نہیں توڑا کرو، بلکہ حصہ مقرر نہ ہونے کے باوجود ان کو بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔ اور مزید یہ کہ ان کی دلجوئی کے لئے ان سے بات بھی بھلائی اور اچھائی ہی کی کیا کرو۔
۹۔۔ سو یہ بے سہارا یتیموں کے حق میں جذبات ہمدردی و شفقت کو ابھارنے کے لئے ایک نہایت ہی مفید و موثر انداز و اسلوب ہے کہ جن لوگوں کی تولیت و کفالت میں یتیم اور بے سہارا بچے ہوں وہ ذرہ اس بارے بھی سوچیں اور غور کریں کہ اگر خدانخواستہ ان لوگوں کے خود اپنے بچے بھی اسی طرح یتیم اور کمزور و بے سہارا رہ جائیں تو ان کو ان کے بارے میں کیا کچھ فکر و پریشانی ہو سکتی ہے، سو اسی سے ان کو دوسروں کے ان کمزور اور بے سہارا بچوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ اور ان کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔
۱۰۔۔ سو جو لوگ آج یتیموں کا مال بڑے مزے لے لے کر کھا رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا انجام بڑا ہی ہولناک ہو گا اور آج جس سامان عیش و لذت پر یہ لوگ خوش اور مست ہو رہے ہیں یہ ان کے لئے سامان لذت نہیں، بلکہ دراصل یہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس کو یہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے پیٹوں میں بھر رہے ہیں۔ دنیا کے اس دارالامتحان میں آج چونکہ حقائق پر پردہ پڑا ہوا ہے اس لئے آج یہ چیز ان کو نظر نہیں آ رہی۔ لیکن کل قیامت کے اس عالم غیب میں جو کہ دراصل کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہاں ہو گا، وہاں پر یہ سب کچھ اپنی اصل اور حقیقی شکل میں ان کے سامنے آ جائے گا۔ اور یہ سب کچھ یہ لوگ وہاں پر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تب ان کو پتہ چلے گا، صحیح حدیث میں وارد ہے کہ قیامت کے روز کچھ لوگ اس حال میں آئیں گے کہ ان کے مونہوں، ان کی آنکھوں، ان کے کانوں، اور ان کے جسم کے ہر سوراخ سے آگ اور دھواں نکل رہا ہو گا سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ وہی لوگ ہونگے جو دنیا میں یتیموں کا مال کھا لیا کرتے تھے، پھر اس کی تصدیق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ والعیاذُ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال
۱۱۔۔ سو اس صورت میں اس کی ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا۔ اور باقی دو تہائی ترکہ باپ کے لئے ہو گا۔ یعنی لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنَ کے عام ضابطہ اور اصول کے مطابق۔ سو ایسی صورت میں ماں بیٹی کی طرح قرار پائی گی۔ (محاسن التاویل، وغیرہ)
۲۔ یہاں پر وصیت کو ذکر و بیان کے اعتبار سے قرض پر مقدم رکھا گیا ہے تاکہ لوگ اس کے بارے میں لاپرواہی نہ برتیں۔ کیونکہ اس کے لئے کوئی مطالبہ کرنے والا نہیں ہوتا، اس لئے اس کا ذکر پہلے فرمایا گیا ہے ورنہ تنقید و عمل کے اعتبار سے قرض کی ادائیگی اور اس کا اہتمام وصیت پر مقدم ہے۔ اور علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سلف و خلف کا اجماع نقل کیا ہے، کہ قرض کی ادائیگی تنفیذ وصیت پر مقدم ہے اور امام احمد و ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت علی بن ابو طالب سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فیصلہ فرمایا کہ قرض کی ادائیگی تنفیذ وصیت سے پہلے اور اس پر مقدم ہے (ترمذی کتاب الفرائض اور ابن ماجہ کتاب الصدقات، باب اداء الدین عن المیت)
۳۔ اس لئے وہ جو بھی کرتا ہے اور جو بھی حکم و ارشاد فرماتا ہے، وہ سب کامل علم اور حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اس میں سراسر اس کے بندوں ہی کا نفع اور بھلا ہوتا ہے اور وہ چونکہ اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان بھی ہے اس لئے وہ ان کو علم و حکمت پر مبنی نہایت ہی رحمتوں اور خیر و برکت بھرے احکام و ارشادات سے نوازتا ہے جن میں ان کے لئے دنیا و آخرت کا بھلا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس نے تمہارے آباء و ابناء یعنی اصول و فروع کے میراث میں حصے تمہاری صوابدید پر نہیں چھوڑے بلکہ خود ہی مقرر فرما دئیے۔ کیونکہ اگر اس معاملہ کو تم لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا تو تم اپنی اہوا و میول کے مطابق کسی کو آگے کر دیتے اور کسی کو پیچھے حالانکہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہارے لئے نفع رسانی کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے اس نے سب کے حصے خود ہی مقرر فرما دیئے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ پس تم لوگوں کو انہی کی پابندی کرنی چاہیے اور ہر ایک کو اس مقرر کردہ حصہ رضا و خوشی دے دینا چاہیے، کہ اسی میں سب کا بھلا اور فائدہ ہے وباللہ التوفیق
۱۲۔۔ سو رشتہ زوجیت کے اعتبار سے ملنے والی میراث کی کل چار صورتیں ہو گئیں اول یہ کہ مرنے والی بیوی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں خاوند کو اس کے کل ترکے کا آدھا حصہ ملے گا۔ اور اگر اس کی کوئی اولاد بھی ہو تو اس صورت میں اس کے خاوند کو اس کی میراث کا چوتھا حصہ ملے گا۔ اور اس کے برعکس جب کسی عورت کا خاوند مر جائے، اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کی بیوی کو اس کے ترکے کا چوتھا حصہ ملے گا۔ اور اگر اس کی کوئی اولاد بھی ہو تو اس صورت میں اس کی بیوی کو اس کے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور یہ سب بھی ادائیگیِ قرض اور تنفیذ وصیت کے بعد ہو گا۔
۲۔۔ کلالہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی وراثت کے لئے نہ اس کے اصول میں سے کوئی موجود ہو اور نہ ہی اس کے فروع میں سے۔ اس لئے اس کی تعریف میں کہا جاتا ہے مَنْ لَا وَلَدَ لَہ، وَلُاَ وَالِدَ۔ اور اس کا ذکر اس سورۂ کریمہ میں دو جگہ فرمایا گیا ہے کہ یہاں پر اس کے بہن اور بھائی سے مراد اس کے اخیافی بہن بھائی ہیں اسی لئے ایک شاذ قرأت میں اس موقع پر مِنْ اُمٍّ کی تصریح بھی آئی ہے اور قرأت شاذہ کے بارے میں حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ خبر واحد کے حکم میں ہوتی ہے جبکہ دوسری آیت کریمہ میں جو کہ اس سورۂ کریمہ کے آخر میں آتی ہے وہاں پر اس کے بھائیوں سے مراد اس کے عَیْنِیْ عَلاَّتِیْ بہن بھائی ہیں (قرطبی، محاسن وغیرہ) اسطرح اس کی تینوں صورتوں کا بیان ہو گیا سو وہ تمہارے سب اعمال و اقوال اور تمہاری جملہ نیتوں اور ارادوں کو جانتا اور ایک برابر اور پوری طرح جانتا ہے، پس تم لوگوں کو ہمیشہ اسی کی فکر و کوشش ہونی چاہیے کہ اس کے ساتھ تمہارے ظاہر و باطن اور تمہاری نیتوں اور ارادوں کا معاملہ صحیح رہے۔ اور وہ اگر فوراً پکڑتا نہیں تو اس سے کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا۔ کہ وہ حلیم بھی ہے۔ اور وہ اپنے حلم و کرم بے پایاں کی بناء پر بندے کو فوراً نہیں پکڑتا، بلکہ اس کو آخری حد تک مہلت دیتا ہے تاکہ جس نے سنبھلنا ہو سنبھل جائے ورنہ وہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہے اور اس طور پر کہ اس کے بعد کسی کے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ والعیاذ باللہ بکل حاٍل من الاحوال،
۱۳۔۔ سو یہ ایسی عظیم الشان اور بے مثل حدیں ہیں جن کو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ نے اپنے کمال علم و حکمت کے ساتھ مقرر فرمایا ہے جن سے ہر صاحب حق کے حق کو پوری طرح محدود و منضبط فرما دیا گیا ہے، پس اللہ پاک کی مقرر کردہ ان حدود کی رعایت و پابندی میں ہر صاحب حق کی رعایت اور اس کے حقوق کی حفاظت ہے۔ اور اسی میں سب کا بھلا ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کی اس حقیقی اور اَبَدی زندگی میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والی ہے، جبکہ ان حدود کو توڑنے، اور ان کو پھلانگنے اور ان کی خلاف ورزی کرنے میں سب کے حقوق کا ضیاع ہے و العیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال۔
۲۔جو کہ ابدی اور دائمی کامیابی ہے کہ انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت کی ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز فرما دیا جائے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ الایۃ (اٰل عمران۔ ۱٨۵) اور جنت کی ان عظیم الشان نعمتوں سے سرفرازی کا طریقہ بنیادی طور پر یہی ہے کہ اللہ پاک کی مقرر فرمودہ ان حدود کی صدق دل سے پابندی وپاسداری کی جائے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمائی ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔ بکل حال من الاحوال، وفی کل موطنٍ من الموطن فی الحیاۃ، وہو الہادی الی سواء الصراط۔
۱۴۔۔ جو کہ طبعی تقاضا اور منطقی نتیجہ ہو گا اس عجب و استکبار کا جس کی بناء پر انہوں نے بغاوت و سرکشی کا راستہ اپنایا تھا اور اس کے رسول کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حدود سے تجاوز کیا تھا۔ سو اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کو دوزخ کی اس ہولناک آگ میں جلنا، اور اس میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا۔ والعیاذ باللہ۔
۱۵۔۔ سو یہ ایک عارضی اور وقتی حکم تھا جو اصل حکم کے نازل ہونے تک تھا۔ جیسا کہ یہاں ارشاد فرمایا گیا کہ ایسی عورتوں کو گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ ان کو موت آ جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ مقرر فرما دے۔ چنانچہ وہ راستہ بعد میں یہ مقرر فرمایا گیا کہ ثیّب کو رجم یعنی سنگسار کیا جائے اور بکر کو سو کوڑے لگائے جائیں۔ جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں حضرت عبادۃ بن الصامت سے مروی ہے اور اس بارے میں آنحصرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا خُذُوْا عَنِّیْ خَذُوْا عَنِّیْ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلَا۔ یعنی تم لوگ مجھ سے اس حکم کو لے لو۔ اس کو لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں کے لئے راستہ مقرر فرما دیا ہے یعنی وہی حکم و ارشاد فرما دیا ہے۔ جس کا ذکر و بیان ابھی اوپر کیا گیا ہے۔ والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال
۱۷۔۔ یعنی جہالت کا لفظ یہاں پر عدمِ علم کے معنی میں نہیں کیونکہ جو علم نہیں رکھتا وہ توبہ کا محتاج ہی نہیں (محاسن التاویل وغیرہ) بلکہ جہالت کا لفظ یہاں پر دراصل سفاہت اور جہالت وغیرہ کے معنی میں ہے، کہ جو شخص برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ دراصل احمق اور سفہیہ ہوتا ہے، جو خواہشات نفس سے مغلوب ہو کر ایسے کام کا ارتکاب کرتا ہے جو عاقل کے لائق نہیں ہوتا، اور خواہشات نفسانی اور اِغواء شیطانی کی بناء پر وہ برائی کے انجام اور اس کے عواقب و خیمہ سے غافل اور لا پرواہ ہو جاتا ہے، ورنہ وہ ایسے کبھی نہ کرتا، والعیاذُ باللہ العظیم۔
۲۔اس لئے وہ جو بھی کچھ حکم و ارشاد فرماتا ہے وہ غایت درجہ علم اور حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے، اور اس کے اسی علم و حکمت میں سے اس کی یہ ہدایت بھی ہے کہ برائی اور گناہ کے ارتکاب کے بعد۔ والعیاذُ باللہ۔ توبہ جلد اور بلا تراخی ہی کی جائے تاکہ گناہ کے سموم اور اس کے زہریلے اثرات انسان کے اندر اثر اور سرایت نہ کر جائیں۔ والعیاذ باللہ جل وعلا اور اس کی رحمت بے پایاں کی بناء پر اس کے بندوں کے لئے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ عالم نزع کے طاری ہونے کے قبل تک قبولیت کی بشارت دی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمُ یُغْرَغِرْ(رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک کہ اس پر غرغرۃ یعنی نزع کا عالم طاری نہ ہو جائے، اور صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کر لی۔ اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔ (مسلم۔ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار) اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہیں (ابن ماجہ، کتاب الزہد) سو توبہ ایک عظیم الشان رحمت و عنایت خداوندی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حالٍ من الاحوال
۱۸۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان دو قسم کے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ایک وہ جو برائیاں کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ کہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ وقت توبہ کے قبول ہونے کا وقت نہیں، اور دوسری قسم کے لوگ جن کی توبہ قبول نہیں ہوتی وہ ہیں جن کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے۔ سو ان دونوں قسم کے لوگوں کی توبہ کے بارے میں اس آیت کریمہ میں تصریح فرما دی گئی اور واضح فرما دیا گیا کہ ان کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔ اور یہ کہ ان کے لئے بڑا ہی دردناک عذاب تیار کر لیا گیا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔
۱۹۔۔ سو اس مختصر سے جملے میں حسن معاشرت سے متعلق بڑی عمدہ، عظیم الشان اور جامع تعلیم دی گئی ہے کہ تم لوگ عورتوں کے ساتھ اچھائی کا برتاؤ کرو، سو ان کے ساتھ بات بھی اچھی کرو۔ ان کے ساتھ معاملہ بھی اچھا رکھو، اور اپنی حالت اور ہیئت بھی اپنی وسعت اور حیثیت کے مطابق اچھی رکھو۔ جس طرح تم لوگ ان سے اسی طرح کے امور کی توقع رکھتے ہو۔ تم بھی انکے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرو۔ کما قال ابن کثیر اور یہی تقاضا ہے وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کے ارشاد ربانی کا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔
۲۱۔۔ کلمہ کیف کا استعمال یہاں پر تعجب اور استنکار کے لئے ہے۔ یعنی تم لوگ ان سے اپنا دیا ہوا مہر کس طرح واپس لیتے ہو جبکہ تم آپس میں اس طرح کے عظیم الشان رشتے میں منسلک ہو چکے ہو۔ اور ایسے عظیم الشان بندھن میں باہم بندھ چکے ہو۔ اور تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے بے حجابانہ طور پر مل چکے ہو۔ ایک دوسرے سے تمتع اور فائدہ حاصل کر چکے ہو۔ اور وہ عورتیں تم لوگوں سے ایک بڑا مضبوط اور پختہ عہد لے چکی ہیں یعنی اللہ کے نام کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ چکی ہیں، اور تمہارے باہمی تعلق سے یہ رشتہ ازدواج اور بھی مضبوط و مستحکم ہو چکا ہے، سو ایسے میں تمہارا اس مہر میں سے کچھ واپس لینا اور بھی بعید اور تمہاری مروت و فتوت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
۲۲۔۔ ایسا بُرا کہ عقل سلیم اور طبع مستقیم دونوں کے نزدیک یہ سخت برا اور بڑا مبغوض عمل ہے اور اس میں ماں باپ کی حرمت کی توہین و تذلیل ہے، والعیاذ باللہ۔ اسی لئے زمانہ جاہلیت میں ایسے نکاح کو نکاح مَقْت کہا جاتا تھا۔ اور ایسے شخص کو مقتی یعنی گنہگار، حضرت ابن ابی حاتم سے مروی ہے کہ جب ابو قیس ابن الاسلت فوت ہو گئے جو کہ انصار کے بڑے صالح لوگوں میں سے تھے تو ان کے بیٹے نے ان کی بیوہ سے نکاح کا مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں ان کی بیوہ نے اس سے کہا کہ میں تو تجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہوں۔ اور تجھ کو اپنی قوم کے بڑے نیک اور صالح لوگوں میں سے دیکھتی ہوں یعنی ایسے میں اس فعل ممقوت کے لئے کس طرح آمادہ ہو سکتی ہوں؟ میں اللہ کے رسول سے اس بارے میں پوچھتی ہوں۔ اس کے بعد اس کی روشنی میں اس بارے فیصلہ کرتی ہوں چنانچہ اس کے بعد وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور سارا قصہ حضور کو سنایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں رائے پوچھی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا اِرْجِعِیْ اِلیٰ بَیْتِکَ (تم اپنے گھر واپس چلی جاؤ) تو اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (محاسن التاویل وغیرہ)
۲۳۔۔ کیونکہ رضاع دودھ پلانے والی کا حصہ ہے اور وہ رضیع یعنی دودھ پینے والے بچے کے جسم کا حصہ بن گیا۔ جس کے نتیجے میں وہ دودھ پلانے والی کے جسم کا ایک طرح سے حصہ بن گیا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اس کے حقیقی بیٹے کی طرح ہو گیا (محاسن وغیرہ) اسی لئے اصول یہ طے پایا کہ جو رشتے نسب کی بناء پر حرام ہوتے ہیں وہی رضاعت کی بناء پر حرام ہوتے ہیں (یُحْرُمْ مِنَ الرِّضَاعَۃِ مَا یُحْرَمُ مِنْ النَّسَبِ) اور حرمت رضاعت سے دیگر تمام تفصیلات کتب فقہ و حدیث میں مذکور و مندرج ہیں،
۲۔یعنی جو حقیقی اور پشتی بیٹے ہوں کہ ان کی بیویاں ان کے باپوں کے لئے حرام ہیں، بخلاف متبنی یعنی لے پالک اور منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے کہ ان کی بیویاں ان کے باپوں کے لئے حرام نہیں ہیں۔ کہ وہ اصل اور حقیقت کے اعتبار سے ان کے بیٹے ہیں ہی نہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی۔ وَمَا جَعَلَ
۳۔ اَدْعِیَاءَ کُمْ اَبْنَاءَ کُمْ۔ یعنی اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بنایا۔ اور حلائل جمع ہے حلیلہ کی اور ان کو اس لفظ سے اس لئے تعبیر فرمایا گیا کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے حلال ہیں۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تمہارے صلبی اور پشتی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ ان سے تمہارا نکاح جائز نہیں۔ اور صلبی بیٹوں کے علاوہ دوسروں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم دونوں کا اور یہی اساس ہے صلاح و فلاح کی، والحمد للہ
۲۴۔۔ .یعنی جن محرمات کا ذکر اوپر فرمایا گیا ہے ان کے سوا باقی تمام عورتیں تم لوگوں کے لئے حلال ہیں سو محرمات چونکہ گنتی کی کچھ عورتیں تھیں، اور حلال اور مباح بے شمار، اسلئیے ان محرمات کے ذکر کے بعد اجمالی طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے سوا باقی سب عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں۔ بشرطیکہ تم ان کو طلب کرو۔ یعنی باقاعدہ ایجاب و قبول پایا جائے، اور ان کے لئے مہر بھی مقرر ہو۔ جیسا کہ بِاَمْوَالِکُمْ کے کلمہ سے ظاہر ہو رہا ہے اور ان کو قید نکاح میں لانا۔ یعنی باقاعدہ بیوی بنا کر رکھنا مقصود ہو۔ نہ کہ محض مستی نکالنا اور شہوت رانی، جیسا کہ متعہ میں ہوتا ہے، کہ اسطرح کی سب صورتیں ہیں چنانچہ صحیحین وغیرہ میں امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت سے خیبر کے دن منع فرما دیا (بخاری کتاب الذبائح والعید، باب لحوم الحمر الانسبۃ، مسلم کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ)
۲۵۔۔ یعنی تم میں سے جو لوگ آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی صلاحیت اور سکت نہ رکھتے ہوں۔ یعنی ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ آزاد عورتوں کے اخراجات برداشت کر سکیں تو وہ باندیوں ہی سے نکاح کرلیں۔ لیکن مِنْ فَتَیَاتِکُمُ الْمُوْمِنَاتِ کی تصریح سے واضح فرما دیا گیا کہ وہ باندیاں تم ہی لوگوں میں کی یعنی ایماندار باندیاں ہوں۔ پس اہل کتاب کی باندیوں سے نکاح کی اجازت نہیں۔ بلکہ یہ اجازت صرف ایماندار باندیوں کے لئے ہے، اور یہ اس بناء پر ہے کہ باندیوں کے مہر وغیرہ اخراجات آزاد عورتوں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ایسے غریب اور نادار لوگوں کی استطاعت اور ان کے بس میں ہوتے ہیں جو آزاد عورتوں سے نکاح کے اخراجات اور ان کے مہر اداء کرنے کی سکت و ہمت نہیں رکھتے۔
۲۔ سو باندیوں سے نکاح کے سلسلہ میں ایک ہدایت تو یہ دی گئی کہ ان کو ان کے مقرر کردہ مہر ادا کر دیئے جائیں کہ یہ ان کا حق ہے، اور ہر صاحب حق کو اس کے حقوق ادا کر دینا عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے، اور دین حنیف کا ایک اہم مطلب ہے، اور یہ سب کچھ دستور کے مطابق اور مناسب طور پر ہو۔ تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہونے پائے کیونکہ ہر صاحب حق کے حق کا پاس و لحاظ اور اس کی ادائیگی عقلاً و نقلاً ضروری ہے، اور دوسری ہدایت یہ فرمائی گئی کہ وہ باندیاں قید نکاح میں آنے والی اور پاکدامنی کی زندگی بسر کرنے والی ہوں۔ نہ کہ محض مستی نکالنے والی اور خفیہ آشنا بنانے والی سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں عفت و پاکدامنی کی اہمیت کس قدر ہے کہ عفت و پاکدامنی ہی اہل ایمان کی اصل اور حقیقی متاع ہے، جس کی حفاظت ہر جگہ اور بہر طور مطلوب ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے معاشرے میں اس کو طرح طرح سے مٹایا اور پامال کیا جا رہا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اور ہر حال و مقام میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین، صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النَّبُوَّۃِ الْاُوْلیٰ اِذَالَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعَ مَاشِئَتَ، یعنی سابقہ نبوتوں سے جو کلام لوگوں کو متوارث ملا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب تم سے حیاء رخصت ہو جائے تو پھر تم جو مرضی کرو، سو شرم و حیاء اہل ایمان کی ایک عظیم الشان متاع ہے، اللہ محفوظ رکھے، آمین ثم آمین
۳۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ باندی سے نکاح کی اجازت اگرچہ تمہاری مجبوری اور تمہارے گناہ میں پڑنے کے اندیشے کی بناء پر تم لوگوں کو دی گئی ہے، لیکن اگر تم صبر و برداشت سے کام لو تو یہ تمہارے لئے بہرحال بہتر ہے۔ کیونکہ باندی سے نکاح کی صورت میں ایک تو تمہاری اولاد کو رِق کی عار لاحق ہو گی۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اَیُّمَا حُرٍّ تَزَوَّجَ بِامَۃٍ فَقَدْ اَرَقُ نِصْفَۃ، (محاسن التاویل، وغیرہ) یعنی جس کسی آزاد شخص نے کسی باندی سے نکاح کیا اس نے اپنے آدھے حصے کو غلام بنا دیا، اور دوسرے اس لئے کہ باندی اپنے مالک کی خدمت کی بناء پر پوری طرح اس شخص کے لئے فارغ بھی نہیں ہو سکے گی، اور پھر مالک سفر و حضر میں اپنی ضرورت کے لئے جب چاہے گا اپنی باندی کو اپنی خدمت کے لئے بلا لے گا تو اس طرح کی صورت حال سے خاوند کے لئے اپنی بیوی سے اس کے باندی ہونے کے باعث کئی طرح کی مشکلیں پیدا ہو سکتی ہیں لہٰذا صبر و برداشت سے کام لینا اور باندی کے نکاح سے بچ کر رہنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور اپنی تقصیرات اور کوتاہیوں کی بناء پر تم لوگ (اے ایمان والو!) ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے بخشش اور اس کی رحمت کی دعاء و درخواست کرتے رہا کرو۔ اور اس کی بخشش اور رحمت ہی کی امید رکھا کرو۔ کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔ اور اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم و حکمت، اور رحمت و عنایت ہی پر مبنی ہوتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ
۲۶۔۔ اس لئے وہ جو بھی کوئی حکم و ارشاد فرماتا ہے، وہ کمال علم و حکمت، اور اس کی رحمت و عنایت ہی پر مبنی ہوتا ہے، اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کے لئے ممکن ہی نہیں، پس تم اس کے ہر حکم و ارشاد کو دل و جان سے اپناؤ کہ اس میں خود تمہارا اور صرف تمہارا ہی بھلا ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی، جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور وہ تمہارے لئے یہ احکام نازل اور بیان فرماتا ہے تاکہ تم لوگ حلال و حرام اور ان کی حدود و قیود سے آگہی حاصل کر سکو، اور اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کر سکو۔ اور تم ان لوگوں کی راہوں پر چل سکو۔ جو حق و ہدایت کی راہوں پر تم سے پہلے چل چکے ہیں جیسے حضرات انبیاء و رسل اور پہلی امتوں کے صالحین اور اس طرح اہل حق و صدق کی راہوں پر چلنے کے صلے اور اس کے نتیجے میں تم لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات کے مستحق ہو سکو، جس کے نتیجے میں تم لوگ اس دنیا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی سے سرفراز ہو سکو، اور اس کے بعد آخرت میں جنت کی نعیم مقیم اور وہاں کی سدا بہار نعمتوں سے بہرہ مند و سرفراز ہو سکو، وباللہ التوفیق۔ لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید،
۲۹۔۔ باطل کا لفظ ان سب ہی ناجائز اور ممنوع و حرام صورتوں کو عام اور شامل ہے، جن کو شریعت مقدسہ نے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے جیسے جوا، سود، غصب، چوری، خیانت، ڈکیتی، اور دھوکہ دہی وغیرہ، پس تم لوگ ان سب ہی صورتوں سے ہمیشہ اور ہر حال میں بچ کر رہا کرو۔ کہ یہ سب ہی صورتیں ہلاکت و تباہی کا باعث اور تمہارے اپنے رب کی ناراضگی کا سبب ہیں۔ اور ان سے بچ کر رہنا ہی تمہارے ایمان و عقیدہ کا تقاضا ہے پس دوسرے کا مال لینے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی جائز صورت یہی ہے کہ وہ تم کو اپنی رضا و خوشی سے دے اور بس۔ پس جس لین دین اور کاروبار میں طرفین کی حقیقی رضامندی، نہ پائی جاتی ہو، بلکہ کسی قسم کا دھوکہ، فراڈ، یا ظلم و زیادتی پائی جائیگی، وہ سب باطل میں داخل ہو گا، والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال
۳۱۔۔ یعنی جنت میں، جس سے بڑھ کر عزت کی اور کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ سو یہ ہے گناہوں سے بچنے اور ان کی تکفیر کے لئے صحیح طریقہ جو کہ تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، کہ انسان کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے خود ہی معاف فرما دے گا، اور صحیح حدیث میں حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ دن بھر کی پانچ نمازیں ایک جمعہ دوسرے جمعے تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک مکفرات ہیں ان تمام گناہوں کے لئے جو ان کے درمیان انسان سے ہو جاتے ہیں جبکہ انسان کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے، اور صغیرہ گناہوں کی تکفیر اور معافی نیک اعمال و عبادات کے ذریعے خود بخود ہوتی رہتی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے اصولی تعلیم کے طور پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ الایٰۃ (ہود۔ ۱۱۵) یعنی نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ مگر اپنے دین کی تعلیمات مقدسہ سے غافل و بے بہرہ اور جاہل مسلمان کا حال اس اصولی تعلیم اور بنیادی ضابطہ کے برعکس یہ ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں کے بارے میں تو سوال و اعتراض کرے گا لیکن بڑے گناہوں اور بد عملیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہے گا سو کتنے لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص نفل نہیں پڑھتا۔ اس لئے وہ ایسا اور ویسا شخص ہے جبکہ جو سرے سے فرض نماز ہی کا تارک ہو اس کے بارے میں ایسے لوگ کچھ نہیں کہیں گے حالانکہ فرض نمازوں کے ترک کو مختلف روایتوں اور صاف و صریح حدیثوں میں کفر قرار دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ سو ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی مشہور تمثیل میں ارشاد فرمایا تھا کہ تم لوگ مچھر چھانتے ہو مگر اونٹ نگل جاتے ہو۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا
۳۲۔۔ سو ہر شخص کو آخرت میں اپنی اسی کمائی کا حصہ ملے گا جو اس نے اس دنیا میں اپنی آخرت کے لئے کی ہو گی خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اور خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت، جیسا کہ مشہور حدیث قدسی میں اس بارے ارشاد فرمایا گیا اِنَّمَا ہِیَّ اَعْمَالُکُمْ اُحْصِیْہَالَکُمْ فَمَنْ وَجَدْ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَالِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلاَّ لَنَفْسَہ، یعنی لوگو! یہ سب تمہارے اپنے عمل ہیں جن کو میں تمہارے لئے محفوظ رکھتا ہوں۔ پس جو کوئی اپنے صحیفہ اعمال میں کوئی اچھائی پائے تو وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور جو کوئی اس کے سوا کچھ اور پائے تو وہ اپنے سوا کسی کو برا نہ کہے والعیاذُ باللہ، پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ انسان دوسروں کے پیچھے پڑنے کے بجائے اپنی آخرت اور اس کے لئے کمائی کی فکر و کوشش کرے، کہ اس کا حساب اس کے کئے کے بارے ہی میں ہو گا، اور کمائی کا موقع اسی دنیاوی زندگی اور اس کی حیات مختصر میں ہے اور بس، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی یحب و یرید۔
۳۴۔۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ مرد عورتوں پر حاکم اور ان کے سرپرست ہیں اور اس کے لئے یہاں پر دو سبب بیان فرمائے گئے ہیں، ایک طبعی اور غیر اختیاری کہ قدرت نے مرد کو پیدا ہی اس طور پر فرمایا ہے کہ وہ فطری اور جبلی طور پر عورت کے مقابلے میں قوی ہوتا ہے اور دوسرا سبب کسبی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنے مالوں سے خرچ کرتا ہے، کیونکہ انفاق اور خرچ کرنے کی ذمہ داری اصل میں مرد ہی پر عائد ہوتی ہے سو جو لوگ اس فطری تقسیم کے خلاف عمل کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل فطرت کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم، بہر کیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ مرد عورتوں پر ان کے نگران کار اور سرپرست ہیں، اور یہی تقاضا ہے فطرت کا،
۳۵۔۔ سو وہ وحدہٗ لاشریک جانتا ہے، اور پوری طرح جانتا ہے لوگوں کی نیتوں اور ان کے ارادوں کو، اور وہ پوری طرح باخبر ہے ان کے جملہ احوال و کوائف سے سو اسی کے مطابق وہ ان کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے اور فرمائے گا، پس فکر و کوشش ہمیشہ اسی کی ہونی چاہیے کہ اس رب علیم و خبیر کے ساتھ ہمارا معاملہ درست رہے۔ ظاہر اور شکل کے اعتبار سے بھی اور باطن اور اصل کے لحاظ سے بھی پس اگر ان دونوں منصفوں کی نیتیں درست ہوئیں۔ اور وہ فریقین کے درمیان صدق و اخلاص کے ساتھ صلح صفائی کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق سے نوازے گا اور ان کے درمیان موافقت کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئیگی، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دلوں کی نیت اور صدق و اخلاص سے اصلاح احوال کے بارے میں کیسے عمدہ اور مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔
۳۶۔۔ سو سب سے پہلا، سب سے بڑا اور سب سے مقدم حق جو انسان پر عائد اور واجب ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے جو کہ اس کا خالق و مالک اور اس کا رازق و کار ساز ہے، اور اس کا حق ہے اس کی عبادت و بندگی، اور اس کی اطاعت مطلقہ سبحانہ و تعالیٰ، پس بندے کے ذمے اس کا یہ حق عائد ہوتا ہے کہ وہ صدق و اخلاص کے ساتھ اس کا حق عبادت و بندگی ادا کرے اور اس میں کسی بھی چیز کو اس کا شریک و سہیم نہ ٹھہرائے۔ کیونکہ جو عبادت و بندگی شرک کی آمیزش کے ساتھ ہو گی۔ والعیاذ باللہ۔ وہ اس کے یہاں کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس کا صاف و صریح طور پر ارشاد ہے اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ فَمَنْ اَشْرَکَ مَعِیْ غَیْرِیْ فَہُوَ لِشَرِیْکِیْ۔ یعنی میں تمام شرکاء سے بری اور ہر طرح سے غنی اور بے نیاز ہوں۔ پس جس نے میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا وہ اسی کو پہنچے۔ پس شرک والا عمل اس کے یہاں قابل قبول اور لائق اغناء نہیں ہو سکتا۔ اور اللہ کے بعد اس کے بندوں میں سب سے بڑا اور مقدم حق انسان پر اس کے اپنے والدین کا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں دوسرے کئی مقامات کی طرح یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ کے حق کے متصل بعد ماں باپ کے حق کو بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اسی طرح صحیح احادیث میں کبیرہ گناہوں میں شرک کے بعد عقوق الوالدین کو ذکر فرمایا گیا ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا، اور ان کا حق ہے احسان یعنی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ جس میں ان کا اکرام ان کی تعظیم اور ان کی مالی اور بدنی خدمت وغیرہ سب داخل ہے۔ پس ان کے ساتھ ان سب ہی امور میں احسان و اچھائی اور صدق و اخلاص کا معاملہ ہی کرنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید،
۲۔ مختال کہتے ہیں اس شخص کو جو اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہے۔ اور فَخُوْر اس کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کے مقابلے میں اپنی بڑائی بیان کرتا۔ اور اپنی شیخی بگھارتا ہو گا کیونکہ ایسا شخص خواہ مخواہ تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور دوسروں کی تحقیر کرنے لگتا ہے اور وہ حق بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا جس سے وہ محرومی اور بدبختی میں بڑھتا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اس لئے بندے کے لائق، اور اس کی شان عبدیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنی عبدیت اور بندگی میں کمال پیدا کرے، اور ایسا ہی شخص حق کے آگے جھکتا، اور حق و ہدایت کے مطابق ترقی کرتا جاتا ہے، وباللہ التوفیق، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ ہی میں رکھے۔ آمین ثم آمین
۳۸۔۔ ایسا بُرا اور اس قدر نقصان دہ کہ وہ انسان کا راستہ ہی غلط کر دیتا ہے اور اس کو دائمی ہلاکت و تباہی کے اس ہولناک گڑھے میں پہنچا کر چھوڑتا ہے جہاں سے اس کے لئے نکلنا پھر ممکن نہیں رہتا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا، سو اس ارشاد ربانی سے دراصل قدرت کی ایک خاص سنت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان جب خدائے رحمان کی رحمت سے غافل اور اندھا بن جاتا ہے تو خداوند قدوس کی طرف سے اس پر ایک شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جو اس کا پکا ساتھی بن جاتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہ، شَیْطَانًا فَہُوَ لَہ، قَرِیْنٌ(الزخرف۔۳۶) والعیاذُ باللہ العظیم اور جب شیطان ہی کسی پر مسلط ہو جائے، اور وہ اس کا ساتھی اور دوست بن جائے، تو وہ اس کو ہمیشہ ہلاکت اور تباہی ہی کی طرف دھکیلتا رہتا ہے اور وہ اس میں کسی طرح کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ (الاعراف۔ ۲٠۲) والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد دلشاد ہی انسان کے لئے حفاظت و پناہ، اور شیطان اور اس کے کے مکر و فریب سے بچاؤ کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اللہ ہمیشہ اور ہرحال میں اپنی یادِ دلشاد سے سرشار و سرفراز رکھے۔ آمین ثم آمین
۳۹۔۔ اور وہ ان کو ایسا اور اس طور پر جانتا ہے کہ ان کا ظاہر اور باطن دونوں اس کے یہاں یکساں اور ایک برابر ہیں اس لیے وہاں پر صرف ظاہرداری نہیں چل سکے گی بلکہ ظاہر کے ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے باطن کا معاملہ صحیح ہونا چاہیے سو اگر یہ لوگ منافقت کے بجائے صدق و اخلاص سے ایمان لے آتے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور اللہ کے دیے بخشے میں سے اس کی راہ میں اور اس کی رضا کے لیے خرچ کرتے تو اس سے خود انہی کا بھلا ہوتا دنیا میں بھی اور ان کے آخرت میں بھی مگر انہوں نے حق و ہدایت کو چھوڑ کر کفر ونفاق کی راہ کو اپنایا جس سے انہوں نے اپنے کو ہلاکت و تباہی کے ہولناگ گڑھے میں ڈال دیا مگر ان کو اس کا شعور و احساس ہی نہیں اور یہی ہے خساروں کا خسارہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
۴۱۔۔ سو وہ دن بڑا ہی عظیم الشان اور انتہائی ہولناک دن ہو گا۔ پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ اس یوم عظیم کو اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں پیش نظر رکھا جائے۔ صحیحین وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ۔ تو میں نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کو پڑھ کر سناؤں۔ حالانکہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی پر نازل ہوا (اِقْرأْ علیک۔ وعلیک اُنزل) تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں میں چاہتا ہوں کہ دوسرے سے سنوں۔ ابن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سورہ نساء پڑھنا شروع کی۔ یہاں تک کہ جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ہٰؤُلَاءِ شَہِیْدًا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حَسبُکَ الْاٰن، یعنی بس اب کافی ہو گیا۔ ابن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں (فَاِذَا عَیْنَاہُ تَدْرُفَانِ) (بخاری کتاب التفسیر باب فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا) سو اس سے قیامت کے اس یوم عظیم کی ہولناکی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
۴۳۔۔ اتنا بڑا معاف کرنے والا، اور اس قدر بخشش فرمانے والا، کہ اس کے عفو و درگزر، اور اس کی مغفرت و بخشش کا کوئی کنارہ نہیں۔ سو اس کے بندے جب اس کے حکم و ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے، اور صدق و اخلاص کے ساتھ اس کے آگے جھکتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ عفو و درگزر اور مغفرت و بخشش کا معاملہ فرماتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔
۴۴۔۔ یعنی ان لوگوں کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے کہ ان کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا تھا اس کے بعد اب اللہ کی کتاب اپنی کامل اور آخری شکل میں ان کے پاس آ گئی تو اس کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ یہ لوگ سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر اس کتاب ہدایت کو اپناتے۔ اور اس کی دعوت و پیغام کو دوسروں تک پہنچا کر یہ دوہرے اجر و ثواب سے سرفراز ہوتے۔ لیکن انہوں نے اس کے برعکس یہ کیا کہ اپنے لئے ہدایت کے بجائے گمراہی کو پسند کیا۔ اور راہ حق و ہدایت کو خود اپنانے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کے بجائے الٹا یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگ بھی راہ حق سے بہک اور بھٹک جاؤ۔ اور اس طرح یہ لوگ سعادت پر سعادت سے سرفراز ہونے کے بجائے، جرم بالائے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں والعیاذُ باللہ، سو اس ارشاد ربانی سے واضح ہو جاتا ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں اور قرآن حکیم کے درمیان جزء اور کل کی نسبت ہے قرآن حکیم ہی اصل حقیقی اور جامع کتاب ہدایت ہے۔ باقی سب آسمانی کتابیں اس کے مختلف اجزاء کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی لئے قرآن حکیم کے نزول کے بعد ان کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، اور اسی لئے قرآن حکیم کو پہلی آسمانی کتابوں کے لئے مہیمن قرار دیا گیا، یعنی ان تمام آسمانی کتابوں کے اصولی اور بنیادی مضامین کی محافظ و نگہبان کتاب، والحمد للہ جل وعلا
۴۵۔۔ پس تمہارا اصل بھروسہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی پر ہونا چاہیے اور اصل فکر و کوشش ہمیشہ اسی بات کی ہونی چاہیے کہ اپنے اس خالق و مالک کے ساتھ ہمارا تعلق درست اور صحیح رہے، کہ اس کی رضا و خوشنودی اگر حاصل ہو جائے تو پھر سب کام بن گیا۔ اور ایسا کہ پھر کسی کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ ورنہ کچھ بھی نہیں والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ
۴۶۔۔ یعنی ان میں سے تھوڑے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں اکثریت بے ایمانوں اور نا فرمانوں اور فاسقوں ہی کی ہوتی ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَلٰکِنَّ اَکْثَرُ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ (الرعد۔۱) یعنی اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ ایسے لوگ خواہشات کے پجاری اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں، اور خواہشات کے پجاریوں اور ہٹ دھرموں کو حق و ہدایت کی دولت نصیب نہیں ہو سکتی۔ خواہ اس کے لئے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۔ یعنی اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں، اگرچہ تم ان کے لئے کتنی ہی حرص کرو۔ سو ہٹ دھرمی باعث محرومی ہے والعیاذ باللہ العظیم، سو یہاں سے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ، اور اس کی صحت و فساد کا اصل اور بنیادی تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے، جیسی کسی کی نیت ہو گی ویسی ہی اس کو مراد ملے گی، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل مواطن فی الحیاۃ، وہو الہادی الی سبیل الرشاد
۴۷۔۔ کہ اس کے لئے نہ کوئی مشکل ہو سکتی ہے اور نہ کسی طرح کی رکاوٹ۔ سو ایسے لوگوں کو اس کی گرفت اور پکڑ سے ہمیشہ بچتے اور ڈرتے رہنا چاہیے کہ اس کا یہ عذاب ان پر کبھی بھی اور کسی بھی شکل میں آ سکتا ہے۔ اور چہرہ چونکہ انسان کا سب سے اشرف اور اعلیٰ حصہ ہوتا ہے، اور اسی میں حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، نے اپنی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ، اور عنایت شاملہ سے سمع و بصر وغیرہ کے وہ عظیم الشان قوائے علم و ادراک رکھے ہیں جو نور علم و حکمت کے اکتساب اور ان سے فیضیابی کے عظیم الشان ذرائع و وسائل ہیں جن سے صحیح طریقے سے کام لے کر انسان اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کر سکتا ہے اور یہی ان کا اصل اور حقیقی مصرف ہے کہ ان کو معرفت حق و ہدایت کے لئے استعمال کیا جائے، اور اسی کے لئے قدرت نے اس کو یہ عظیم الشان قوائے علم و ادراک عطاء فرمائے ہیں، اس لئے انسان اگر ان سے ان کا یہ اصل کام نہیں لیتا، بلکہ وہ الٹا ان کو ان کے مقصد وجود کے خلاف استعمال کرتا ہے تو وہ اس قابل نہیں رہتا کہ ان کو اس کے پاس باقی رکھا جائے بلکہ وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ ان کو اس سے سلب کر دیا جائے۔ اور اس کے چہرے کو الٹ کر اور بدل کر سپاٹ کر دیا جائے۔ والعیاذ باللہ العظیم
۴۸۔۔ سو اس سے شرک کی سنگینی واضح ہو جاتی ہے۔ اسی لئے دوسرے مقام پر اس بارے تصریح فرمائی گئی کہ شرک ظلم عظیم ہے، ارشاد ہوتا ہے اور تاکید در تاکید کے اسلوب و انداز میں ارشاد ہوتا ہے، اِنَّ الشِّرْکَ لَظَلْمٌ عَظِیْم (لقمان۔۱۳) اسی لئے دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرما دی گئی کہ مشرک کے لئے جنت حرام ہے۔ اس کا دائمی ٹھکانا دوزخ ہے اور یہ کہ ایسے ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔ ارشاد ہوتا ہے اور صاف اور صریح طور پر اور حرفِ تاکید کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے اِنَّہ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأَوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارِ (المائدۃ۔۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہرحال میں عقیدہ توحید سے سرفراز و سرشار رکھے، اور ہرحال میں راہِ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، اور شرک کے ہر شائبہ سے ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین
۵۰۔۔ سو اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ پر افتراء باندھنا، اور ایسی بات اس کے ذمے لگانا جو اس نے نہیں فرمائی، ایک ایسا کھلم کھلا گناہ ہے جس میں کسی طرح کے خفاء و غموض کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور اپنی پاکیزگی کا دعویٰ کرنے والے ان لوگوں سے مراد یہود ہیں جن کا کہنا تھا کہ دوزخ کی آگ ہمیں چھوئے گی بھی نہیں، سوائے گنتی کے کچھ دنوں کے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کا یہ قول اس طرح نقل فرمایا گیا ہے۔ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلاَّ اَیَّامًا مَّعَدُوْدَۃً الایٰۃ(البقرہ۔٨٠) نیز ان کا کہنا تھا کہ جنت میں یہود یا نصاری کے سوا اور کوئی داخل ہو ہی نہیں سکے گا، جیسا کہ سورہ بقرہ ہی کے ایک دوسرے مقام پر ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصَارَیٰ الایٰۃ (البقرہ۔۱۱۱) نیز ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم لوگ اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے اس کفر یہ قول کو اس طرح ذکر فرمایا گیا ہے وَقَالَتِ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّاءُہ، الایٰۃ (المائدہ۔ ۱٨) سو یہ تھے کچھ نمونے ان لوگوں کے دعووں، اور ان کے ان افترأت کے جو انہوں نے اللہ پر باندھے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۵۴۔۔ سو ان لوگوں کے حسد، اور ان کے اعتراض، سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کی عطاء و بخشش اس کے اپنے ہی قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہ جس کو چاہے۔ جس قدر چاہے، اور جس سے چاہے نوازے۔ سب اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، اور وہی جانتا ہے کہ کون کس لائق ہے اور کس کو کس عنایت و نوازش سے سرفراز کیا جائے سو اس کی تقسیم و عطاء پر حسد کرنا ایسے لوگوں کی اپنی حماقت اور محرومی کی دلیل ہے۔ والعیاذ باللہ۔
۵۵۔۔ سو جہنم کی وہ دہکتی بھڑکتی آگ ایسے ضدی اور ہٹ دھرم منکروں کے لئے کافی اور ایسی کافی ہو گی کہ ان کے کفر و انکار کی ان کو وہاں پر پوری اور بھرپور سزا مل جائے گی اور ایسی اور اس طور پر کافی ہو گی کہ کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ سو ایسے کافر اور منکر لوگ اگر اس دنیا میں ہمیشہ عیش و عشرت ہی میں رہیں تو بھی اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کہ ان کا انجام بہرحال یہ ہونے والا ہے اور اپنے کفر و انکار کے نتیجہ میں انہوں نے آخرت کے اس ابدی جہان میں ہمیشہ ایسے ہولناک عذاب میں رہنا ہے۔ جس کا تصور کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں، کہ کفر و انکار کا نتیجہ وانجام بہرحال یہی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔
۵۶۔۔ سو اس قادر مطلق کے لئے کچھ بھی کرنا مشکل نہیں وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ لیکن وہ چونکہ عزیز ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے اس لئے وہ جو بھی کچھ کرتا ہے اپنی حکمت مطلقہ کے تقاضوں کے مطابق ہی کرتا ہے سو جس کافر کا آخری انجام یہ ہونے والا ہے اور اس کو ہمیشہ کے لئے ایسے ہولناک عذاب میں رہنا ہے اس کو اگر دنیا کی ساری دولت بھی مل جائے تو بھی اس کو کیا ملا؟ اور اس سے بڑھ کر محروم و بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ اور اس کے برعکس جس مومن صادق کو اس ہولناک انجام سے بچا کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے اس سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اس کو دنیا میں نان جویں بھی میسر نہ رہیں ہو۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے۔ جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد اور عظیم الشان دولت ہے اس کے بعد اگر دنیا ملے تو بھی خیر ہے، اور نہ ملے تو بھی خیر، جبکہ ایمان سے محرومی، والعیاذ باللہ کی صورت میں دنیا ملے تو بھی عذاب، اور نہ ملے تو بھی عذاب، سو اصل دولت ایمان کی دولت ہے، جس سے سرفرازی ہر خبر سے سرفرازی ہے۔ اور اس سے محرومی ہر خبر سے محرومی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ شَرَّفْنَا بِہٖ اَللّٰہُمَّ فَثَبِّتْنَا عَلَیْہِ وَزِدْنَا مِنْہُ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
۵۷۔۔ ایسے عظیم الشان اور گھنے سایوں میں کہ اس دنیا میں ان کا پوری طرح تصور کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں اور ایسی عظیم الشان اور بے مثال نعمتوں میں ان خوش نصیبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا۔ سو یہی ہے اصل اور حقیقی کامیابی اور اسی کو اپنا اصل اور حقیقی نصب العین بنانا تقاضائے عقل و نقل ہے لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ اور اس کے لئے عمل اور کوشش کا موقع اسی دنیاوی زندگی کی فرصت محدود و مختصر میں ہے اور بس، اس کے بعد اس کے لئے نہ کوئی موقع ہو گا، نہ امکان، پس عقل و نقل سب کا تقاضا ہے کہ اصل محنت و مشقت آخرت کی اس حقیقی زندگی اور اسی کی کامیابی کے حصول کے لئے کی جائے۔ اللہ توفیق بخشے اور ہمیشہ اور ہر حال میں ہر قدم اپنی رضا کی راہوں پر ہی اٹھانا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
۵۹۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری اصل، مطلق، اور غیر مشروط ہے، جبکہ ان دونوں اطاعتوں کے سوا دوسری ہر اطاعت انہی دو اطاعتوں کے تابع اور انہی کے ساتھ مشروط ہے پس ان دو کے سوا دوسری ہر اطاعت اسی وقت اور اسی صورت میں جائز اور قابل قبول ہو گی، جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر اس کے خلاف ہو گی تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہو گی۔ اسی لئے اس سلسلہ میں یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔ یعنی کسی بھی مخلوق کی ایسی کوئی طاعت و فرمانبرداری جائز نہیں، جو حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کی معصیت میں ہو۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی کچھ کہتے اور فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم و ارشاد کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی لئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ الایٰۃ(النساء۔۸۰) یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ ہی کی اطاعت کی۔ کیونکہ رسول کا حکم و ارشاد اپنی خواہش کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہی کی بناء پر ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحیٰ (النجم۔ ۳۔۴) اسی لئے کہا جاتا ہے۔ گفتہ اُو گفتہ اللہ بود، اگرچہ از حلقوم عبد اللہ بود، یعنی ان کا فرمان اللہ ہی کا فرمان ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اللہ کے بندے کی زبان سے نکلتا ہے۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
۲۔ یعنی وہ لوگ جن کا حکم چلتا ہے اور جن کی بات مانی جاتی ہے حضرات اہل علم میں سے بعض نے کہا کہ اس سے مراد امراء ہیں۔ اور بعض نے کہا علماء، لیکن اصل اور حق یہی ہے کہ لفظ کو اپنے عموم ہی پر رکھا جائے جو ان دونوں ہی اہم طبقوں کو شامل ہے۔ اور جب آیت کریمہ میں صرف علماء یا امراء کا لفظ نہیں ذکر فرمایا گیا۔ بلکہ اولوالامرجیسا عام کلمہ ارشاد فرمایا گیا ہے، جو ان دونوں ہی طبقوں کو عام اور شامل ہے تو پھر اس کو کسی ایک ہی مفہوم کے ساتھ مختص کر دینا کیونکر درست اور جائز ہو سکتا ہے؟ اور اگر بنظر غور دیکھا جائے تو اس کا اصل اور اولین مصداق علمائے کرام ہی قرار پاتے ہیں، ایک تو اس لئے کہ جن لوگوں نے اس کا مصداق امراء اور حکام کو قرار دیا ہے انہوں نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس سے مراد وہ امراء و حکام ہیں جو کہ امراء حق ہوں نہ کہ امراء ظلم و جور اور حدیث میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری راہنمائی کرتے ہوں (یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ) اور کتاب اللہ کا علم ظاہر ہے کہ علماء کرام ہی کے پاس ہوتا ہے اس لئے مآل کار کے اعتبار سے معاملہ علماء ہی کی طرف لوٹتا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس آیت کریمہ کے اولین مخاطب حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی ہیں، اور ظاہر ہے کہ وہاں پر اور اس دور میں امراء و حکام کا یہ تصور سرے سے موجود ہی نہیں تھا جو آج پایا جاتا ہے اس لئے آیت کریمہ کا مصداق صرف امراء یا صرف حکام کو قرار دینا درست نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اصل اور دل لگتی بات یہی ہے کہ لفظ کو اپنے عموم ہی پر رکھا جائے جیسا کہ تبادر و اطلاق کا تقاضا ہے پس رائے اور فیصلہ علمائے حق ہی کا معتبر ہو گا۔ اور اس کی تنفیذ امراء و حکام کریں گے جو قوت تنفیذ کے مالک ہوتے ہیں اسی لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اہل فقہ و دین ہیں (محاسن وغیرہ) پس علماء و حکام کرام میں سے جو بھی کتاب وسنت کے مطابق حکم و ارشاد فرمائیں ان کی اطاعت فرمانبرداری کی جائے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید
۶۲۔۔ سو اس سے منافقوں کے منافقانہ ایمان اور ان کے زبانی کلامی دعووں کی اصل اور حقیقت کو ظاہر فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو جب اپنے منافقانہ عمل و کردار کے نتیجے میں کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو یہ اللہ کے نام کی قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنی صفائی پیش کرنے لگتے ہیں، اور یہی طریقہ ہوتا ہے منافقوں کا، کہ وہ ایمان و یقین کی قوت سے محرومی کے نتیجے میں قسمیں کھا کھا کر دوسروں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں، روایات میں وارد ہے کہ ایک منافق اور یہودی کا آپس میں کسی بات کے بارے میں تنازع اور جھگڑا پیدا ہو گیا تو اس پر یہودی نے کہا کہ چلو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس چلتے ہیں اور ان سے اس بارے میں فیصلہ کراتے ہیں کیونکہ اس کو یہودی اور کافر ہونے کے باوجود یہ یقین تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم حق ہی کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔ اور اس معاملے میں چونکہ حق پر میں ہی ہوں اس لئے وہاں پر فیصلہ یقیناً میرے ہی حق میں ہو گا جبکہ اس کے برعکس منافق کا اصرار تھا کہ تنازع یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے جائیں اس لئے کہ اس کو اندر سے یہ یقین تھا کہ اس معاملے میں چونکہ میں حق پر نہیں ہوں لہٰذا اس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے یہاں فیصلہ یقیناً میرے خلاف ہو گا۔ جبکہ یہودی سردار کے پاس دوسرے مختلف ذرائع سے فیصلہ اپنے حق میں کرایا جا سکتا ہے۔ آخرکار وہ دونوں ہی اپنا معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گئے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے معاملہ سننے کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا کہ حق اسی کا بنتا تھا۔ اس کے بعد اس منافق نے یہودی سے کہا کہ اب چلتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ کے پاس، تاکہ یہ معاملہ نظر ثانی کے لئے ان کی خدمت میں پیش کر سکیں۔ اس کا خیال شاید یہ رہا ہو گا کہ حضرت عمر رضی اللہ کی غیرت ایمانی چونکہ ضرب المثل ہے اور میں ظاہری طور پر مسلمان تو ہوں ہی جبکہ میرا مد مقابل یہودی ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ اپنی ضرب المثل ایمانی غیرت اور دینی حمیت کی بناء پر میرے حق میں فیصلہ کر دیں گے۔ سو یہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ کے پاس پہنچے اور اپنا کیس ان کے سامنے پیش کیا اس موقع پر یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ سے عرض کیا کہ حضرت اس سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس کیس کے بارے میں اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میرے حق میں فیصلہ صادر فرما چکے ہیں تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ نے تعجب کے انداز میں اس منافق سے پوچھا کہ کیا واقعی بات ایسے ہی ہے؟ تو اس نے کہا ہاں۔ تب حضرت عمر رضی اللہ نے ان دونوں سے فرمایا عَلیٰ رِسْلِکُمَا (یعنی تم دونوں یہیں ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں) سو آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ میں ایک تلوار لے کر واپس آئے۔ اور آتے ہی اس منافق کی گردن اتار دی اور ارشاد فرمایا کہ یہی فیصلہ ہے عمر کا اس شخص کے حق میں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس سے حضرت عمر رضی اللہ کے فیصلے کی تصویب و تائید فرما دی گئی۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے پر راضی نہ ہونا کفر ہے اور اسی اہم اور بنیادی حقیقت کی تصریح اگلی آیات کریمات میں فرما دی گئی، کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے پر راضی اور مطمئن ہونا مومن ایمان کا تقاضا ہے، ورنہ محض زبانی کلامی دعووں اور جمع خرچ کا کچھ فائدہ نہیں، والعیاذ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ ہرحال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
۶۹۔۔ سو یہ رفاقت و سنگت ایسی عظیم الشان رفاقت و سنگت ہے کہ اس جیسی دوسری کوئی رفاقت و سنگت ہو ہی نہیں سکتی، اور یہ ایسی رفاقت و سنگت ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے نوازتی اور سرفراز کرتی ہے سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری جس کی دعوت ان لوگوں کو دی جاتی ہے یہ کوئی خسارے کی چیز نہیں، بلکہ یہ انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہے اور اس میں سراسر اور بہرحال بندوں کا خود اپنا ہی بھلا ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی کہ جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے اور اطاعت گزار لوگوں کے حضرات انبیاء ورسل وغیرہ کے ساتھ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کہ وہ درجہ و مرتبہ میں ان کے ساتھ اور ان کے برابر ہو جائیں گے، کیونکہ ان حضرات کے درجات و مراتب تو بہرحال بہت بلند و بالا ہونگے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مراتب و درجات کے فرق و تفاوت کے باوجود ان لوگوں کو ان کی معیت اور رفاقت نصیب ہو گی سو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ فلاں فلاں لوگ بادشاہ کے ساتھ تھے یا ساتھ ہوتے ہیں ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نہ یہ ہے نہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب بادشاہ کے درجہ و مرتبہ میں اس کے برابر ہو گئے۔ بہرکیف اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اطاعت گزاروں کا درجہ و مرتبہ بہت بڑا ہے وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید
۷۱۔۔ سو اس سے جہاد و قتال کی دونوں صورتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے یعنی باقاعدہ اور منظم جنگ کی صورت کی بھی جبکہ دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے ہوں۔ اور مختلف ٹکڑیوں اور گروپوں کی شکل میں بھی جیسا کہ گوریلہ جنگ میں ہوتا ہے۔ سو حسب موقع و محل ان دونوں میں سے جس کا بھی موقع ہو اسی سے کام لیا جائے۔ اور مقصود بہرحال اعلاءِ کلمۃ اللہ اور دفاع حق ہو۔ اور ایک مقصد کے حاصل کرنے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ اور حسب موقع جو مفید و مطلب ہوں وہ سب ہی مامور و مطلوب ہوتے ہیں۔
۷۲۔۔ سو ایسے خود غرض اور موقع پرست لوگ چونکہ ایمان و یقین کی اصل اور حقیقی دولت سے محروم، اور امید اجر و ثواب سے عاری اور بے بہرہ ہوتے ہیں، اس لئے ان کا سارا معاملہ دنیاوی مفاد اور مادی فوائد و منافع ہی کے تابع اور انہی کے پیش نظر ہوتا ہے۔ اور وہ جہاد و قتال کو بھی اسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ مومن صادق کی جنگ اور اس کا جہاد اللہ تعالیٰ ہی کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتا ہے۔ اس لئے ان کے سامنے اسی طرح کوئی مادی مفاد اور دنیاوی مقصد نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ اپنے رب کی رضا کی خاطر اور کلمہ حق کی سربلندی کے لئے پورے صدق و اخلاص اور بہادری و بے جگری سے لڑتا ہے۔ یہاں تک کہ راہ حق میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتا ہے۔ اور اسطرح وہ حقیقی کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوتا ہے۔
۷۴۔۔ اتنے بڑے اجر سے جس کی عظمت شان کا احاطہ و ادراک بھی اللہ وحدہٗ لاشریک کے سواء اور کسی کے لئے ممکن نہیں، سو اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے لڑنے والوں کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہے ناکامی وہاں ہے ہی نہیں کہ ان کا پہلا قدم بھی ان کی آخری منزل کے برابر ہوتا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ مِّنَ الاحوال،
۷۵۔۔ یعنی ایسا حمایتی اور مددگار جو ایسے ظالموں کے مقابلے میں ہماری حمایت اور نصرت و مدد کر سکے، سو اس ارشاد ربانی سے جہاد کے دواعی اور محرکات میں سے دو اہم داعیوں کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے، ایک یہ کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کے لئے سب سے اہم ذریعہ و وسیلہ ہے، اور دوسرا اہم داعیہ اس ضمن میں یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ تم لوگوں کو کیا ہو گیا کہ تم لوگ ان کمزور مردوں، عورتوں، اور بچوں کے لئے نہیں لڑتے جو دشمنوں کی طرف سے طرح طرح کے ظلم سہہ رہے ہیں اور وہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں نکال دے اس بستی سے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حمایتی اور مددگار مقرر فرما دے، حضرات مفسرین کرام کا عام طور پر کہنا ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمان ہیں۔ مگر اس تقیید اور تخصیص کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ جبکہ اصل اور بہتر یہی ہے کہ ان الفاظ کو اپنے عموم پر ہی رکھا جائے تاکہ یہ ارشاد اپنے عموم شمول کے اعتبار سے ہر دور کے اور ہر موقع و مقام کے مظلوم مسلمانوں کو شامل رہے۔ کہ جہاد تو بہرحال قیامت تک کے لئے باقی رہنے والا ہے۔ واللہ اعلم بمراد کلامہ جَلَّ وَعَلا
۷۶۔۔ سو اس ارشاد سے مسلمانوں کے جہاد اور کافروں کی جنگ کے درمیان فرق واضح فرما دیا گیا کہ مسلمانوں کا جہاد اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے ہوتا ہے۔ تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، اور دشمنان اسلام راہ حق و ہدایت میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ اور عبادت و بندگی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی کہ معبود برحق بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے سبحانہ و تعالیٰ ہے جبکہ اس کے برعکس کافروں کی جنگ شیطان کی راہ میں اور اس کے مقاصد خبیثہ کی تکمیل کے لئے ہوتی ہے والعیاذ باللہ العظیم
۷۷۔۔ سو اس سے منافقوں کے تعجب انگیز حال کو بیان فرمایا گیا ہے کہ جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا تو یہ لوگ بڑے زور و شور سے جہاد کا مطالبہ کرتے تھے اور اس طور پر کہ گویا یہ اس کے لئے بڑے بے تاب ہیں۔ اور ان سے کہا جاتا تھا کہ ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا۔ اس لئے فی الوقت تم لوگ صبر و ضبط سے کام لو وہی نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، لیکن جب ان پر جہاد فرض کر دیا گیا تو ان کا معاملہ ان کے اس سابقہ رویے سے یکسر مختلف تھا۔ اور یہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ اور کہنے لگے کہ اے ہمارے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ہمیں کچھ اور مہلت کیوں نہ دے دی سو یہی حال ہوتا ہے ان لوگوں کا جن کے دل ایمان و یقین کی دولت سے عاری اور محروم ہوتے ہیں، اور ایسے لوگ محض زبانی و کلامی دعوے کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں بن سکتا۔ بلکہ اصل چیز تو وہ قوت ایمان و یقین ہے جو مومن صادق کے دل میں ہوتی ہے۔ اور جس سے وہ ہر سختی کو برداشت کرتا، اور ثابت قدم رہتا ہے۔ سو ایمان صادق کی دولت ہی اصل اور حقیقی دولت ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد دولت ہے جو انسان کو اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے ہر قسم کی قربانی پر آمادہ اور تیار کرتی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،
۲۔ پس نہ تمہاری کوئی نیکی ضائع ہو گی، اور نہ ہی کوئی ناکردہ گناہ تمہارے کھاتے میں ڈالا جائے گا، بلکہ تمہارا اپنا کیا کرایا ہی تمہارے لئے محفوظ رکھا جا رہا ہے۔ اور اسی کا بدلہ تم لوگوں کو دیا جائے گا۔ اور بھرپور طریقے سے جائے گا۔ اور ایسا اور اس طور پر کہ تمہاری برائی کا بدلہ تو تمہیں برابر سرابر ہی دیا جائے گا، لیکن نیکی کا بدلہ تم کو کم سے کم دس گنا اور اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھا کر دیا جائے گا۔ سو جو لوگ کفر و نفاق کی راہ پر چل رہے ہیں وہ خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اور ایسا نقصان جو کہ بڑا ہی ہولناک اور ناقابل تلافی نقصان ہے اور جو تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر چل رہے ہیں وہ اپنی ہی بہتری اور بھلائی کا سامان کر رہے ہیں، اور ایسی عظیم الشان بھلائی کا، کہ اس کے نتیجے میں ان کو جنت کی ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہو گی وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال۔
۷۸۔۔ سو یہ کفر و نفاق کی نحوست اور اس کی مت ماری کا ایک نتیجہ اور برا پھل ہے، اور اسی بناء پر جب ان کو دنیا کی کوئی اچھائی نصیب ہوتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یعنی یہ ہمیں اتفاقی طور پر یونہی مل گئی ہے اور اگر ان کو کوئی تکلیف اور برائی پیش آتی ہے تو اس کو یہ لوگ اپنی نحوست اور بدبختی کی بناء پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی نحوست قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہاری وجہ سے پیش آئی ہے، سو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ فرعون کی بدبخت قوم کا کہنا اور ماننا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی کہ جب ان کو کوئی اچھی حالت نصیب ہوتی۔ تو وہ کہتے کہ یہ تو ہمارے ہی لئے ہے اور ہم ہی اس کے اہل اور حقدار ہیں اور جب کوئی بری حالت پیش آتی تو اس کو وہ لوگ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ قرار دیتے۔ حالانکہ ان کی نحوست خود ان کے اپنے ہی ساتھ تھی، لیکن ان کے اکثر جانتے نہیں تھے۔ (الاعراف۔ ۱۳۱) سو اس طرح کفر و شرک اور نفاق و بے دینی سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے، والعیاذ باللہ العظیم
۷۹۔۔ اور ایسی کافی کہ اس کی گواہی کے بعد کسی اور کی گواہی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی اور جب اس کی گواہی آپ کے حق میں ہے تو پھر ایسے بدبختوں کی اس طرح کی دلآزار باتوں کی آپ کو کیا پرواہ ہو سکتی ہے؟ سو اصل حقیقت یہی ہے کہ اس دنیا میں اچھی یا بری جو بھی کوئی حالت پیش آتی ہے وہ سب اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی طرف سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پوری کائنات میں مشیّت اسی وحدہٗ لاشریک کی چلتی ہے کسی اور کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہے نہ ہو سکتا ہے کہ اس کی پیدا کردہ کائنات میں اس کے ارادے کے ساتھ کسی اور کے ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا ہے۔ اور اس کا کام اور اس کی شان ہی کرم کرنا اور احسان فرمانا ہے، اور اس نے اپنی اس کائنات کو بنایا ہی اس لئے ہے کہ وہ اپنی مخلوق پر اپنا کرم و احسان فرمائے۔ جبکہ بری حالت انسان کے عمل و کردار کے نتیجے میں آتی ہے جیسا کہ یہاں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے اور دوسری مختلف نصوص میں اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے اور یہ اس لئے کہ خیر کا ظہور خداوند قدوس کی رحمت کے اقتضاء سے ہوتا ہے لیکن شر ہر انسان کے اپنے عمل پر مترتب ہوتا ہے اس اعتبار سے شر کا تعلق انسان کے اپنے ہی نفس سے ہوتا ہے والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ
۸۲۔۔ سو یہ استفہام ترغیب و تحریض کے لئے ہے، یعنی ان لوگوں کو قرآن حکیم میں غور و فکر اور اس میں تدبر و تفکر سے کام لینا چاہئے، تاکہ اس کی صداقت و حقانیت اور اس کی عظمت شان ان کے لئے واضح ہو سکے۔ کیونکہ اس میں ماضی و مستقبل، دنیا و آخرت احکام و عبر، طبیعات و ما بعد الطبیعات، وغیرہ سب ہی کے بارے میں تعلیمات و ہدایات دی گئی ہیں اور انسان کی پیدائش سے لیکر اس کی موت تک اور موت کے بعد عالم برزخ اور عالم آخرت تک سے متعلق جملہ امور کے بارے میں راہنمائی فرمائی گئی ہے، اور عقائد و عبادات، اخلاق و معاملات، اور زندگی کے تمام دائرہ اور جملہ پہلووں سے متعلق واضح تعلیمات دی گئی ہیں اور اس کے نزول کا زمانہ تیئس سال کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں یہ کلام حکیم مختلف اوقات و احوال میں نازل ہوتا رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود اس میں اول سے لے کر آخر تک ایک ہی شان قائم ہے۔ نہ اس کے زبان و بیان میں کوئی فرق آیا، نہ اس کے معانی و مطالب میں حالانکہ اتنے طویل عرصے میں انسان کی طبیعت اس کی فکر و سوچ وغیرہ میں کتنے کتنے اور کیسے کیسے انقلابات اور تغیرات واقع ہو جاتے ہیں، لیکن یہاں پر اس سب کے باوجود نہ اس کے احکام و ارشادات میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ اس کے معانی و مطالب میں کوئی فرق آیا، سو یہ سب کچھ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا کلام حق و صدق ترجمان ہے سبحانہ و تعالیٰ۔
۸۳۔۔ سو اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اہل فکر و استنباط کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں، عام لوگ اس کی اہلیت و صلاحیت سے عاری اور محروم ہوتے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ امن یا خوف سے متعلق جو بھی کوئی اہم خبر ملے اس کے بارے میں صحیح طریقہ اور اصولی بات یہ ہے کہ اس کو عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے اہل حل و عقد، اور ارباب اختیار تک پہنچانا چاہئے، تاکہ وہ اس سے صحیح نتیجہ نکالیں درست رائے قائم کریں۔ اور ضروری ہدایات دیں۔ تاکہ معاشرے میں امن و امان قائم رہے اور انارکی نہ پھیلے، اور افواہوں کے پھیلنے کا موقع و امکان نہ رہے۔
۸۵۔۔ پس وہ جو کرنا چاہے اور جیسا کرنا چاہے کر سکتا ہے اس کے لئے نہ کوئی مشکل ہے نہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ۔ پس ہر کوئی اس کے یہاں اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پائے گا اور بھرپور طریقے سے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق پائے گا۔ جنہوں نے اچھوں کا ساتھ دیا اور ان کے سفارشی بنے وہ اس کا اجر و ثواب پائیں گے اور جنہوں نے بڑوں کا ساتھ دیا۔ اور ان کے سفارشی بنے وہ اس کا صلہ و بدلہ پائیں گے پس اب ہر کوئی اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لے، کہ وہ اپنے لئے کیا کمائی کر رہا ہے۔ کیونکہ شفاعت حسنہ جو کہ کسی نیک مقصد کی تائید و تقویت کے لئے ہو وہ باعث اجر و ثواب ہے۔ جبکہ اس کے برعکس شفاعت سیئہ جو کہ کسی بُرے مقصد کی تائید و تقویت کے لئے ہو وہ باعث عذاب و نکال ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بکل حال من الاحوال، پس بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رہے، اور دوسروں کو بھی اس پر مستقیم و ثابت قدم رکھنے کی کوشش کرے، اور اس مقصد کے لئے دوسروں کی مدد کرے اسی لئے دوسرے مقام پر ایمان والوں کو خطاب کر کے ان سے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اللہ سے ڈرو اور سچوں کا ساتھ دو (التوبۃ۔۱۱٩)
۸۷۔۔ استفہام یہاں پر ظاہر ہے کہ انکاری ہے یعنی اللہ سے بڑھ کر سچا کوئی ہو سکتا ہی نہیں کہ وہ سب سے بڑا سچا، اور تمام سچوں کا خالق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ پس اس کی ہر بات ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے سچی ہے اور جب اس نے بتا دیا اور صاف و صریح طور پر بتا دیا کہ قیامت تک کے سب لوگوں نے قیامت کے اس یوم حساب میں بہرحال اور ضرور بالضرور اٹھنا ہے، جس میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ تو پھر عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے، کہ انسان صدق دل سے اس پر ایمان لائے اور اس کے لئے تیاری کرے، کہ اس کے لئے تیاری کا موقع اور اس کی فرصت دنیاوی زندگی کی یہ فرصت محدود ہی ہے جو لمحہ بہ لمحہ کم ہوتی، اور انسان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید وہو الہادی الی سواء السبیل۔
۸۸۔۔ سو ایسے منافق لوگ اپنے خبث باطن کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی سنت کی زد میں آئے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں یہ لوگ ضلالت و گمراہی کے گہرے کھڈے میں گر چکے ہیں اور ایسے میں ان کو راہ حق و ہدایت سے سرفرازی کسی طرح ممکن نہیں رہتی۔ تو پھر تم لوگ اے مسلمانو! ان کے بارے میں دو گروہوں میں کیوں بٹے ہوئے ہو۔ کہ تم میں سے کچھ تو ان کے بارے میں اور ان کے حق میں نرم گوشہ رکھتے، اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ اور کچھ ان کی مخالفت کرتے اور ان سے دشمنی رکھتے ہیں، سو تم سب کو ان کی دشمنی اور ان کی عداوت و مخالفت پر یک زبان ہونا چاہیئے۔ یہی تقاضا ہے تمہارے ایمان اور تمہارے صدق و اخلاص کا، (محاسن التاویل وغیرہ)
۸۹۔۔ سو جو تمہارے دین و ایمان کے دشمن ہیں اور وہ راہ حق و ہدایت پر آنے اور اس کو اپنانے کے بجائے الٹا وہ تم لوگوں کو بھی راہ حق سے ہٹانے اور پھیرنے کے درپے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم لوگ بھی دولت ایمان و یقین سے محروم ہو کر انہی کی طرح ہو جاؤ۔ تو ایسے لوگوں سے تمہارا کوئی تعلق اور لگاؤ آخر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر یہ لوگ کفر و نفاق کی روش کو ترک کر کے صدق و اخلاص سے ایمان لے آئیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں تو پھر اور بات ہے لیکن اس کے برعکس اگر یہ لوگ راہ حق و ہدایت سے پھرے اور ہٹے ہی رہیں تو پھر تم ان کو پکڑو جہاں بھی ان کو پاؤ۔ اور ان کو قتل کرو، کہ یہی تقاضا ہے ان کے کفر و نفاق کا۔ سو ایسے منافقوں کے لئے ہجرت کو کسوٹی بنایا گیا ہے۔ پس اگر یہ ہجرت کرتے ہیں تو ٹھیک اور ایسے میں تم ان کو اپنا سمجھو، ورنہ تم ان کو اپنا دشمن اور دشمنوں کا ساتھی ہی سمجھو۔ اور ان کو جہاں پاؤ پکڑو اور قتل کرو۔
۹۰۔۔ یعنی اگر وہ لوگ صلح و صفائی کے بجائے جنگ کی راہ کو اپناتے، اور اللہ اگر چاہتا تو وہ یقیناً ان کو تم لوگوں پر مسلط کر دیتا۔ سو اس ارشاد ربانی میں ان لوگوں کی قوت کی طرف اشارہ ہے کہ جنگ کی صورت میں ایسے لوگ یقیناً تمہارے مقابلے میں سخت مشکلات کھڑی کر دیتے (محاسن التاویل وغیرہ) پس اگر یہ لوگ جنگ کے بجائے صلح کی پیشکش کریں اور تمہارے مقابلے سے کنارہ کش ہو جائیں تو تم لوگ اس کو غنیمت سمجھو۔ اور ان کی صلح کی ایسی پیشکش کو قبول کر لو، اور ان سے لڑنے کے راستے کو مت اپناؤ، کہ صلح صفائی کی راہ بہرحال بہتر ہے تو ایسوں کے ساتھ جنگ اسی صورت میں روا ہو سکتی ہے جبکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے، اور جنگ کرنا ناگریز ہو جائے،
۲۔ کیونکہ ایسے لوگ جب تم لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔ تمہارے خلاف جنگ کرنے سے باز رہیں۔ اور تمہاری طرف صلح صفائی کا ہاتھ بڑھائیں۔ تو ان کے خلاف دست درازی اور ان سے جنگ کرنے کے لئے تمہارے لئے کوئی راستہ اور جواز نہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں سے اور ایسی صورت میں تم لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر ان سے جنگ کیوں؟
۹۱۔۔ یعنی ایسے لوگوں کے خلاف ہاتھ اٹھانے اور کاروائی کرنے کے لئے قدرت کی طرف سے تم لوگوں کو کھلی سند دے دی گئی ہے۔ کیونکہ جب یہ لوگ تمہارے خلاف کاروائی سے دست بردار اور کنارہ کش بھی نہیں ہوتے، صلح صفائی کی پیشکش بھی نہیں کرتے، اور تم لوگوں سے اپنے ہاتھوں کو بھی روکتے نہیں تو ظاہر ہے یہ تمہارے لئے خطرے اور نقصان کا باعث ہیں۔ لہٰذا ایسوں کو تم لوگ پکڑو اور قتل کرو، ان کو جہاں بھی پاؤ۔ کہ یہی تقاضا ہے ان کی شر انگیزی، فتنہ پروری اور ان کی دست درازی کو روکنے اور ان کو دبانے اور کچلنے کا اور خود تمہارے حفظ و امان کا۔
۹۲۔۔ سو مومن کے قتل خطاء کے ارتکاب میں قاتل پر ایک ایماندار گردن کا بھی آزاد کرنا ہے، خواہ وہ غلام ہو یا باندی، اور اس کا خون بہا بھی دینا ہے، غلام یا باندی کو آزاد کرنا تو اصل میں اللہ کے حق کے طور پر ہے۔ تاکہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے آزادی بخشے اور خون بہا اس کے وارثوں کا حق ہے کہ قاتل نے ان کے قرابت دار کو قتل کیا، اس لئے وہ اس کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا سو عتق رقبہ حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کے حق کی ادائیگی کے لئے ہے۔ تاکہ اس سے اس شخص کو دوزخ کی آگ سے آزادی ملے۔ اور دیت کی ادائیگی مقتول کے وارثوں کے لئے اور ان کے بھلے کے لئے ہے۔ جو ان کے حوالے کی جائے گی۔ جس کو ان کے درمیان میراث اصول کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ اور یہ چونکہ وارثوں کا حق ہے اس لئے ان کو اس کے معاف کر دینے کا بھی حق ہے۔ اس لئے اس کی تصریح فرما دی گئی۔
۲۔ سو اس سے قتل خطاء کی دوسری صورت کا حکم بیان فرمایا گیا ہے کہ مقتول تو مومن ہو، لیکن اس کا تعلق کسی کافر قوم سے ہو۔ اور وہ انہی کے اندر رہتا بستا ہو۔ تو ایسی صورت میں قاتل پر صرف رقبہ مومنہ کا آزاد کرنا ہے، کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے جو اس پر عائد رہیگا۔ لیکن اس صورت میں دیت یعنی خون بہا نہیں اداء کیا جائے گا کہ مومن اور کافر کے درمیان میراث نہیں چلتی۔ اور دوسرے اس لئے کہ اس صورت میں یہ مال کافروں کی تقویت کا باعث بنے گا اور یہ جائز نہیں جیسا کہ حضرت زید بن علی بن حسین رضی اللہ جیسے حضرات سے مروی ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ)
۳۔ سو اس سے قتل خطاء کی تیسری صورت کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس صورت میں مومن غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہو گا اور دیت دینا بھی اور یہاں پر دیت کی ادائیگی کا حکم مقدم کر کے ذکر فرمایا گیا ہے، حالانکہ پچھلی صورت میں اس کا ذکر بعد میں فرمایا گیا تھا تاکہ کہیں نقض عہد و میثاق کا توہم اور خطرہ نہ رہے۔ (محاسن وغیرہ) سو اس سے عہد و پیمان کی حفاظت اور اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ میں اس کا کس قدر پاس و لحاظ رکھا گیا ہے، حتی کہ کافر قوموں کے عہد کا بھی اس قدر پاس و لحاظ رکھا گیا ہے، والحمد للہ، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید
۴۔ اس لئے اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم و حکمت پر مبنی ہے، اور یہ حیثیت اور یہ درجہ و مرتبہ اس وحدہٗ لا شریک کے سوا اور کسی کا نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس کے کسی بھی حکم ارشاد کا کوئی بدل ممکن نہیں۔ اور اس کے اوامر و ارشادات ہی ہیں جو دارین کی سعادت و سرخروئی کے کفیل و ضامن ہیں، ورنہ محرومی ہی محرومی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر موقع و مقام پر اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین
۹۳۔۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک مومن کا جان بوجھ کر قتل کرنا کتنا بڑا اور کس قدر سنگین جرم ہے اور اس کا انجام کس قدر ہولناک ہے، کہ ایسے شخص کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑیگا۔ اللہ کا اس پر غضب ہے اور اس کی لعنت و پھٹکار، اور اس کے لئے اللہ نے بڑا ہی ہولناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اسی لئے صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ۔ یعنی ایک مسلمان کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا ساری کے زوال اور اس کی ہلاکت و تباہی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے (ترمذی کتاب الدّیات) اور سنن ترمذی ہی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر آسمان اور زمین والے سب ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل دوزخ میں گرائے گا، (ترمذی، کتاب الدّیات، باب الحکم فی الدماء) اور ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ اگر کسی نے ایک آدھے کلمے سے بھی کسی مسلمان کے قتل میں مدد کی ہو گی تو وہ قیامت کے روز اس طرح آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے مایوس ہے (سنن ابن ماجہ، کتاب الدّیات باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً) سو قاتل عمد کی اصل سزا یہی ہے اور اس کے جرم کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے۔ آگے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی سچی توبہ پر اپنے فضل و کرم سے، اور اپنی شان کریمی کی بناء پر معاف فرما دے تو یہ اور بات ہے کہ اس کی رحمت و عنایت بہرحال بہت بڑی اور لامحدود ہے اور اس کی شان کرم و احسان بہت ہی بڑی ہے۔ اور اس کا صاف و صریح اعلان بھی یہی ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا الایٰۃ (الزمر۔۵۳) لیکن قتل مومن کے جرم کی اصل بہرحال سزا یہی ہے۔ سو ایک طرف مومن کی عظمت شان سے متعلق ان نصوص کریمہ کو بھی دیکھا جائے اور دوسری طرف خون مسلم کی اس ارزانی کو بھی جو آج دنیا ساری میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے جاری ہے اور جس کے چرچے تمام ذرائع ابلاغ پر دن رات جاری رہتے ہیں۔ فالی اللّٰہ المشتکیٰ وہو المستعان فی کُلِّ حَیْنٍ وَّاٰن،
۹۴۔۔ سو جب اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے سب احوال اور تمہارے جملہ کاموں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تو تمہیں ہمیشہ اور ہر حال میں اس کی فکر و کوشش کرنی چاہیے کہ اس مالک مطلق سے ہمارا معاملہ صحیح رہے کہ اس کی رضا اگر نصیب ہو گئی تو سب کچھ مل گیا، ورنہ دنیا ساری بھی مل جائے تو بھی کچھ بھی نہیں ملا۔ والعیاذ باللہ العظیم بکل حال من الاحوال، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہرحال میں اپنا ہی بنائے رکھے اور ہر قدم اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر اٹھانے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین ثم آمین
۹۶۔۔ سو یہ اس کی عظیم الشان مغفرت اور رحمت ہی کا مظہر ہے کہ وہ مجاہدین کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کر کے ان کو ایسے عظیم الشان درجات اور عظیم الشان بخشش اور رحمت سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے، یہاں پر درجات کا لفظ درجۃً سے بدل واقع ہوا ہے اور تنوین تعظیم کی ہے جس سے ان مجاہدین کے درجہ و مرتبہ کی عظمت شان کو واضح فرما دیا گیا ہے جو اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے ہیں۔ ہم نے ترجمہ کے اندر اسی کا لحاظ کیا ہے اور وہ درجات کتنے عظیم الشان ہونگے، اس کا اندازہ صحیحین کی اس حدیث سے کیا جا سکتا ہے جو کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سو ایسے عظیم الشان درجے ہونگے جن کو اللہ تعالیٰ نے مجاھدین کے لئے تیار فرمایا ہو گا جن میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو گا جتنا کہ زمین اور آسمان کے درمیان ہے، (بخاری کتاب الجہاد، باب درجۃ المجاھدین فی سبیل اللہ)
۹۷۔۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر ہجرت کرنا، اور اپنے گھربار کو چھوڑنا کس قدر اہم اور کتنا ضروری ہے، کیونکہ دین و ایمان کی حفاظت سب سے مقدم اور سب پر فائق ہے پس جن لوگوں نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ملک و وطن اور قوم قبیلے کے مفادات اور ان کے تقاضوں کو مقدم رکھا اور انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت نہیں کی۔ سو ان کا انجام بہت برا ہے۔ ایسوں کو یہاں پر اس آیت کریمہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والا قرار دیا گیا ہے، اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے یہاں پر مراد و مقصود استطاعت کے باوجود ہجرت نہ کرنا، اور دار الکفر میں پڑے رہنا ہے کہ اس طرح ایسے لوگوں نے اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالا ہے، سو اس آیت کریمہ میں ایسے ظالموں کی جان کنی کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے۔ اور ان کے بارے میں تصریح فرمائی گئی ہے کہ ان کا ٹھکانا دوزخ ہو گا۔ اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین
۹۹۔۔ سو وہ اپنے بندوں سے عفو و درگزر ہی سے کام لیتا ہے۔ پس جو لوگ اپنے بس کی حد تک کوتاہی نہیں کریں گے اور عذر اور مجبوری کی بناء پر ہجرت نہیں کریں گے ان کو وہ معاف فرما دیگا۔
۱۰۰۔۔ سو اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے میں کسی بھی طرح کا کوئی خسارہ نہیں بلکہ اس میں کمائی ہی کمائی نفع ہی نفع ہے آخرت کے اجر و ثواب کے علاوہ اس دنیا میں بھی ان کے لئے اس پر بڑے عمدہ ٹھکانوں کا وعدہ اور بشارت ہے۔ بشرطیکہ ہجرت فی سبیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے ہو اور اس راہ میں پیش آنے والی آزمائشوں پر صبر و برداشت سے کام لیا جائے۔ سو ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اپنی ہجرت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین میں بہت سے ٹھکانے بھی پائیں گے۔ اور بڑی رحمتیں بھی، اور بڑی وسعت بھی، اور ظاہر کہ جب اللہ تعالیٰ نوازنے والا ہے تو پھر اس کی رحمتوں اور عنایتوں کے کہنے ہی کیا کہ اس کی رحمت و وسعت تو ناپیدا کنار ہے، سبحانہ و تعالی، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، وہو الہادی الی سواء السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، فی کل اٰنٍ وحین
۱۰۱۔۔ واضح رہے کہ کافروں کے خوف کی یہ قید احترازی نہیں واقعی ہے یعنی یہ بیان واقع کے لئے ہے کہ اس زمانے کے سفر عام طور پر ایسے ہی ہوا کرتے تھے ورنہ قصر صلوٰۃ یعنی نماز کی کمی کی یہ اجازت و رعایت خوف کے ساتھ خاص اور اس شرط سے مشروط نہیں۔ بلکہ یہ عام اور ہر سفر کے لئے مشروع ہے۔ خواہ سفر میں خوف ہو یا نہ ہو، جیسا کہ مختلف احادیث و روایات میں اس کی تصریح وارد ہے، چنانچہ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت یعلی بن امیہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت آیت کریمہ میں تو قصر صلوٰۃ کی اجازت کے سلسلہ میں کافروں کے فتنہ کی شرط کا ذکر موجود ہے جبکہ اب لوگ امن و امان میں ہیں تو اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ نے ارشاد فرمایا کہ یہی اشکال مجھے بھی پیش آیا تھا تو میں نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم لوگوں کے لئے ایک صدقہ اور خاص عنایت ہے پس تم لوگ اللہ تعالیٰ کے اس صدقہ اور انعام کو قبول کرو۔ (مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین) اور اسی مضمون کی اور بھی مختلف روایات وارد ہوئی ہیں۔ سو قصر صلوٰۃ کی اجازت ہر سفر کے لئے عام ہے۔ خواہ اس میں کوئی خوف و خطر ہو یا نہ ہو، اور اِنْ خِفْتُمْ کی قید احتراز کے لئے نہیں۔ بلکہ بیان واقعہ کے لئے ہے۔ سفر میں نماز کے قصر کا حکم و ارشاد ہر سفر اور ہر مسافر کے لئے عام ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قول و عمل سے یہی ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر خود بھی عمل فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے بھی اسی پر عمل فرمایا۔ بہرکیف اس ارشاد سے حالت سفر میں قصر صلوٰۃ کی اجازت دی گی ہے، یعنی یہ کہ رباعی نمازوں میں چار کے بجائے دو رکعتوں پر اکتفاء کیا جائے، جبکہ دو اور تین رکعتوں والی نمازیں ویسے ہی رہیگی، قصر سے متعلق مزید احکام کی تفصیل کتب فقہ میں مزکور ہے، والحمد للہ
۱۰۲۔۔ سو ان لوگوں کے لئے یہ عذابِ مُھِیْن، یعنی رسوا کن عذاب ان کے اس استکبار کی بناء پر ہو گا جس کے باعث انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا تھا، اور یہ برابر اپنے کفر و انکاری پر اڑے رہے، والجزاء مِنْ جِنْسِ العمل کے اصول کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کو جزاء اس کے اپنے عمل کی جنس میں سے، اور اس کے تقاضوں کے مطابق ہی ملتی ہے سو اعراض و استکبار محرومیوں کی محرومی اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں حق کو سننے اور ماننے کے لئے اس کے آگے جھکنا اور سر تسلیم خم کر دینا سعادتوں کی سعادت اور دارین کی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔
۱۰۳۔۔ یعنی ان مقررہ وقتوں میں جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اپنی ان عبادات کے لئے مقرر فرمائے ہیں۔ ان خاص اثرات کی بناء پر جو ان خاص اور مقرر اوقات میں پائے جاتے ہیں، اور جن کا علم و احاطہ اس وحدہٗ لا شریک کے سواء اور کسی کے لئے ممکن نہیں، اس لئے خالق کل اور مالک مطلق حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اپنی عبادات کے لئے ان خاص اوقات کو مقرر فرمایا ہے۔ کہ ان کے وہ خاص اثرات و برکات جو ان سے مطلوب و مقصود ہیں وہ انہی سے وابستہ ہیں۔ پس ان عبادات کو ان سے ہٹانا اور ان اوقات کو بدلنا جائز نہیں۔ اور ان کو ان خاص اوقات میں ادا کرنے ہی سے وہ خاص انوار اور فوائد و برکات حاصل ہو سکتے ہیں جو ان عبادات اصل سے مطلوب و مقصود ہیں۔ اور جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و مالا مال کرنے والے ہیں۔ پس قدرت کی طرف سے مقرر کردہ ان اوقات کی پابندی اور ان کا التزام لازم ہے۔
۱۰۴۔۔ کہ تم لوگوں کو اپنے ایمان و یقین کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں عنایتوں اور برکتوں کی امید ہے، تم لوگوں کو شہادت کی اس موت کی امید ہے جو حیات جاوداں سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے اور تم کو جنت کی ان عظیم الشان و بے مثال اور سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی کی امید ہے جو اصل حقیقی اور سدا بہارا کامیابی ہے۔ نیز تم کو جہاد فی سبیل اللہ کے اس مبارک و مسعود عمل کے دوران ہر ہر قدم، اور ہر ہر حالت و کیفیت پر اجر و ثواب کی امید ہے۔ سو جہاد فی سبیل اللہ کی اس عظیم الشان راہ میں تمہارے لئے خیر ہی خیر، اور سعادت ہی سعادت کی خوشخبری ہے۔ جبکہ تمہارے دشمنوں کے سامنے اس طرح کا کوئی بھی پاکیزہ مقصد اور نصب العین نہیں ہے۔ اور ان کے لئے محرومی ہی محرومی ہے۔ تو پھر تم لوگوں کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کے اس مبارک و مسعود اور خیرات و برکات بھرے عمل جلیل کے سلسلہ میں کسی طرح کی کمزوری اور سستی دکھانا کس طرح روا ہو سکتا ہے؟ پس تم لوگ اے مسلمانو! اس راہ میں، اور اپنے دشمن کے تعاقب کے سلسلہ میں نہ کوئی کمزوری دکھاؤ اور نہ کسی طرح کی کوئی سستی روا رکھو۔ کہ اس راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم خیر و برکت ہی کا ذریعہ و وسیلہ ہو گا، اور صدق نیت اور اخلاص عمل کے پائے جانے کی صورت میں تمہارے لئے نہ کسی طرح کی کوئی محرومی ہو سکتی ہے اور نہ کوئی خسارہ و نقصان، پس تمہیں آگے بڑھ کر، اور پورے جوش و خروش اور عزم و ہمت کے ساتھ اس میں حصہ لینا چاہیے کہ اس میں خیر ہی خیر ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال
۱۰۷۔۔ بلکہ ایسی بری صفات و خصال کے لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں مبغوض و ممقوت ہیں، کہ اس کے یہاں تو اصل قدر و قیمت ایمان راسخ، عمل صالح، اور عمدہ صفات و خصال ہی کی ہے، پس جتنا کوئی اپنے ایمان و عقیدہ اور صدق و اخلاص کے اعتبار سے سچا اور مخلص ہو گا، اور اپنی خصال و صفات کے لحاظ سے اچھا اور بہتر ہو گا، اتنا ہی وہ اس کے یہاں درجہ و مرتبہ کا مالک و مستحق ہو گا، ورنہ اس کے یہاں ایسے لوگوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ تو پھر اس قماش کے لوگوں کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی اور ان سے محبت و تعلق کی کوئی گنجائش آخر کیسے اور کس طرح ہو سکتی ہے؟ سو جو لوگ ایسے لوگوں سے دوستی اور تعلق بھی رکھتے ہیں اور وہ زبانی کلامی طور پر ایمان کے دعوے بھی کرتے ہیں وہ مومن نہیں منافق ہیں۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
۱۰۸۔۔ پس نہ ان کا کوئی عمل اس کے علم سے باہر ہو سکتا ہے، اور نہ ہی یہ کسی طرح اس کی گرفت و پکڑ اور اس کے عقاب و عذاب سے باہر ہو سکتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے۔ اس سے یہ کبھی بچ نہیں سکیں گے۔ پس صحت و سلامتی کی راہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے غلط رویے سے باز آ جائیں، اور راہ حق و ہدایت کو صدق و اخلاص سے اپنا لیں، ورنہ ان کا انجام بڑا بُرا ہو گا، ان کے اپنے کفر و انکار اور سوئے اختیار کی بناء پر، اور ان کو جو ڈھیل مل رہی ہے وہ بہرحال ایک ڈھیل ہی ہے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے اس کے کرم سے ان کو مل رہی ہے تاکہ یہ اپنی اصلاح کرلیں۔ ورنہ اپنا پیمانہ لبریز کرلیں وَلَا تَحْسَبُوْہَ خَیرًا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّلَّکُمْ۔ یعنی اس کو تم لوگ اپنے لئے خیر اور بہتری مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لئے بہت ہی بُرا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۱۰۔۔ سو یہ ہے صحت و سلامتی کا راستہ اور حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی گرفت و پکڑ سے بچنے کا صحیح طریقہ کہ انسان اگر کسی برائی کا ارتکاب کر لے یا اپنی جان پر کوئی ظلم کر بیٹھے تو سچے دل سے اپنے رب غفور و رحیم کی طرف رجوع کرے۔ اپنے جرم و قصور کا اقرار و اعتراف کرے، اور اس پر اس سے مغفرت و بخشش کی دعا و درخواست کرے، تو اس پر وہ اس کو اپنی بخشش و رحمت سے سے نوازے گا کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے، اور کہ اس کی مغفرت و بخشش اور اس کی رحمت و عنایت لامحدود اور نا پیدا کنار ہے اور اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے۔ اور ہمیشہ نوازنا اور کرم فرمانا۔ سبحانہ و تعالیٰ فَاَغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃٌ مِّنْ عِنْدِکَ یَا رَبِّیْ و یَا اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْنِ فَانِّیْ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ بِکُلِّ حَالٍ مِّنْ الْاَحْوَالِ۔
۱۱۱۔۔ اس لئے اس کے علم کامل سے کوئی باہر نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ چونکہ حکیم بھی ہے۔ اس لئے ہر معاملہ کمال حکمت سے فرماتا ہے، پس مجرموں کی اگر فوراً گرفت نہیں ہوتی تو اس سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اور زیادہ محتاط اور فکر مند ہو جائے کہ اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ سو جو لوگ اس صحیح طریقے کو چھوڑ کر اپنے جرم و قصور کو دوسروں پر ڈالتے ہیں وہ اپنی برأت کے بجائے الٹا اپنے اوپر جھوٹ اور بہتان کا بوجھ بھی لادتے ہیں۔ اور اپنے جرم و قصور کی سنگینی میں اور اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی کاروائی سے ایسے لوگ دنیا کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہرحال میں راہ حق و ہدایت پر قائم رہنے کی توفیق بخشے اور فکر و فہم کی ہر کجی اور انحراف سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
۱۱۳۔۔ کہ آپ تو بہرحال حق و ہدایت کی اس راہ پر مستقیم اور ثابت قدم ہیں، جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی اور فوز و فلاح سے سرفراز و فیضیاب کرنے والی واحد راہ ہے، البتہ یہ لوگ اپنے اعراض و استکبار کی بناء پر حق و ہدایت کی اس شاہراہ سے منہ موڑ کر اپنی شقاوت و بدبختی میں اضافہ اور اپنی محرومی و سیاہ بختی کے داغ کو مزید پکا کرتے ہیں، اور اس طرح یہ اپنے اس ہولناک انجام کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں جو ان کے اعراض و استکبار اور کفر و انکار کا طبعی تقاضا اور منطقی نتیجہ ہے اور جس سے نکلنے اور بچنے کی پھر کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہیں رہے گی۔ اور یہی ہے خساروں کا خسارہ اور ہلاکتوں کی ہلاکت، مگر ان کو اس کا احسان و شعور ہی نہیں، جو کہ اور بھی بڑا خسارہ ہے، والعیاذُ باللّٰہ العظیم بِکُلِّ حَالٍ مِّنْ الْاَحْوَالِ۔
۲۔ کہ اس نے آپ پر یہ کتابِ عظیم نازل فرمائی۔ آپ کو حکمت و دانشمندی کے ان گوہر ہائے نایاب سے مالا مال فرمایا۔ اور آپ کو دین و شریعت کے ان علوم و معارف سے سرفراز فرمایا، جن کے سامنے ہفت اقلیم کی دولت بھی ہیچ اور صفر ہے، سو اس سے دولت علم و حکمت کی عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اس موقع پر اسی کا امتحان ذکر فرمایا ہے اسی لئے حضرت امام رازی فرماتے ہیں ہَذَا مِنْ اعَظم الدلائل علی اَنَّ العلم اشرف الفضائل والمناقب، یعنی یہ سب سے بڑی دلیل ہے اس بات پر کہ علم ہی سب سے بڑی فضیلت اور منقبت ہے۔
۱۱۵۔۔ سو راہ حق کے ترک و اختیار کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی جبر و اکراہ نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ پس جو کوئی اپنے ارادہ و اختیار سے راہ حق و ہدایت کو اپناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اسی کی توفیق دیتا ہے اور جو کوئی اس کے برعکس ضلالت و گمراہی کے راستے کو اپناتا ہے اس کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَلَمَّا انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ۔ یعنی جب یہ لوگ پھر گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا، یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، ان کو ادھر ہی چلتا کر دیا جاتا ہے جدھر کو انہوں نے اپنا رخ خود کیا ہوتا ہے، اور جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے فَلَمَّا زَاغُوْا اَزْاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ۔ یعنی جب یہ لوگ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔ یہاں پر المومنین سے مراد جیسا کہ ظاہر ہے اور حضرات مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ اس سے مراد ہیں صحابہ کرام، سو اس طرح اس ارشاد ربانی سے راہ حق اور راہ باطل دونوں واضح ہو جاتی ہیں پس رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کی راہ حق کی راہ ہے۔ اور ان کے خلاف والی راہ باطل کی راہ ہے۔ اور رسول کی راہ سے مراد ہے سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس لئے حق والوں کو اہل السنت کہا جاتا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو ماننے والے نیز اہل حق چونکہ تمام صحابہ کرام کو حق مانتے ہیں اس لئے وہ اہل جماعت بھی کہلاتے ہیں۔ یعنی حضرات صحابہ کرام کی پوری جماعت کو بلا کسی تفریق و استثناء کے ماننے والے اس لئے حق والوں کا نام و عنوان ہے اہل السنت و الجماعت یعنی جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے سب صحابہ کرام کو بھی مانتے اور انکو معیار حق جانتے ہیں۔ پس جو لوگ سنت کو نہیں مانتے وہ اہل حق کے خلاف، اور اہل باطل میں سے ہیں جیسے پرویزی جکڑالوی وغیرہ منکرین حدیث، اور اسی طرح جو لوگ سب صحابہ کرام کو نہیں مانتے بلکہ وہ ان کے درمیان تفریق سے کام لیتے ہیں یعنی کچھ کو مانتے ہیں، اور باقیوں کو نہیں مانتے وہ بھی اہل حق میں سے نہیں، بلکہ اہل باطل میں سے ہیں جیسے وہ رافضی جو حضرات صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے بغض و عناد رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم، ان لوگوں کا شعار تبراء ہے ان کی کتابیں ایسی کفریہ مغلظات سے بھری پڑی ہیں، اور جو صرف پنجتن کے پاک ہونے کا نظریہ رکھتے اور دعویٰ کرتے ہیں پس اہل حق وہی ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو بھی مانتے اور اس کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سب صحابہ کرام کو بھی بلا تفریق و استثناء حق جانتے اور مانتے ہیں۔ اسی لئے ان اہل حق کو اہل السنۃ و الجماعت کہا جاتا ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور اس کے صحابہ کی سب جماعت کو مانتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں پیغمبر نے ارشاد فرمایا مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی یعنی اہل حق اور نجات و فلاح پانے والے لوگ وہی ہیں جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہیں۔ پس اس سے حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز۔ اور پرکھ و معرفت کے لئے ایک ایسا معیار رکھ دیا گیا جو نہایت واضح اور آسان بھی ہے۔ اور قیامت تک صاف راہنمائی کرنے والا بھی۔ والحمد للہ جل علا
۱۱۹۔۔ اور ابلیس نے فی الواقع یہ کام کر کے دکھائے، سو کتنے ہی لوگ ایسے رہے ہیں جو اس کے پیچھے چلے اور اب تک چل رہے ہیں بجز ان سچے ایمانداروں کے جو راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہے کہ وہ اس کے چنگل میں آنے سے بچ گئے چنانچہ قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر اس اہم حقیقت کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہ، فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(سبا۔۲٠) یعنی ابلیس نے ان کے بارے میں اپنے ظن اور گمان کو سچا کر کے دکھایا، سو یہ اسی لعین کے پیچھے چل پڑے سوائے اہل ایمان کے ایک گروہ کے، جو اپنے ایمان و یقین اور اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے اس کے مکر و فریب سے محفوظ، اور راہ حق پر مستقیم ثابت قدم رہے، اور اللہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اس لعین کے مکر و فریب سے محفوظ، اور راہ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
۱۲۲۔۔ اور جب اس وحدہٗ لا شریک سے بڑھ کر سچا نہ کوئی ہے اور نہ ہو سکتا ہے تو پھر اس کے قول و ارشاد سے بڑھ کر کسی اور کی بات کے سچا ہونے کا کوئی سوال و امکان ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ پس اس نے اپنے ایماندار بندوں کو جن عظیم الشان جنتوں سے سرفراز فرمانے کا وعدہ فرما رکھا ہے وہ بہرحال پورا ہو کر رہے گا کہ اس کا وہ وعدہ بہرحال سچا ہے پس بندوں کے ذمے ہے کہ وہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اور ہمیشہ اس کی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی فکر میں رہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید وہو الہادی الی سواء السبیل، سبحانہ و تعالیٰ
۱۲۴۔۔ سو مدار نجات، اور فوز و فلاح محض زبانی کلامی دعووں یا خود ساختہ امیدوں اور آرزووں پر نہیں۔ بلکہ انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ، اور عمل و کردار پر ہے، خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت، اور اس کا تعلق کسی بھی قوم قبیلے، یا رنگ ونسل سے ہو، پس جو بھی کوئی صحیح طور پر ایمان لایا ہو گا۔ اور اس نے ایمان کی روشنی میں اور اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے لئے نیک عمل بھی کئے ہونگے، ان کو جنت کی سدا بہار نعمتوں اور حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی نصیب ہو گیا اور ایسے لوگوں پر ذرہ برابر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا، بلکہ پورا عدل و انصاف کیا جائیگا،
۱۲۵۔۔ استفہام یہاں پر انکاری ہے یعنی اس سے بڑھ کر اچھا دین اور کسی کا نہیں ہو سکتا، کہ دین حق یہی اور صرف یہی ہے، یعنی اسلام جو کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار اور اپنی رضا و خوشی سے اپنی ذات کو اللہ وحدہٗ لاشریک کے حوالے کر دے، اور اس حال میں کہ وہ محسن یعنی نیکوکار بھی ہو کہ اس کی نیت و ارادہ بھی درست ہو، اور عمل و کردار بھی صحیح ہو جس کا کامل درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبادت و بندگی اس طرح کرے جس طرح کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ درجہ اس کو حاصل نہ ہو سکے تو کم از کم درجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کا رب اس کو دیکھ رہا ہے، سو اس طرح اپنی گردن اپنے خالق و مالک کے حضور ڈال دینا، اپنی رضا و خوشنودی اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے حصول ہی کو اپنا اصل اور حقیقی مقصد و نصب العین بنا دینا ہی حقیقت ہے اسلام کی جو کہ دین حق ہے اور یہی دین فطرت ہے جو اس پوری کائنات کا دین اور دارین کی سعادت و سرخروئی کا ضامن و کفیل ہے، چنانچہ اس بارے میں اسطرح تصریح فرمائی گئی وَمِمَّن اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (اٰل عمران۔٨۳) یعنی اسی کے آگے سرنگوں ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں، خواہ خوشی سے ہو، یا مجبوری سے اور اسی کی طرف لوٹایا جائے گا ان سب کو، اس کے سوا کوئی بھی دین نہ انسان کے لئے سعادت دارین کا ضامن و کفیل ہو سکتا ہے، اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی طرح قبول ہو سکتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَمنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(ال عمران۔ ٨۵) یعنی جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین کو اپنایا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں بہرحال سخت خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اسلام کے سوا کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
۱۲۶۔۔ سو زمین و آسمان کی یہ ساری کائنات اور اس کے اندر جو بھی کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے کہ اس سب کا خالق و مالک بھی بلا شرکت غیرے وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی ہے۔ اور اس کا ذرہ ذرہ اور پتہ پتہ اس کے علم محیط میں ہے، کوئی بھی چیز اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہو سکتی۔ پس معبود برحق بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور عبادت و بندگی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے سبحانہ و تعالیٰ، اس کے سوا اور کسی کے لئے بھی عبادت و بندگی کی کوئی بھی شکل بجا لانا شرک ہو گا۔ جو کہ نص قرآن کے بموجب ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے، سبحانہ و تعالیٰ
۱۲۸۔۔ سو صلح فریقین میں سے ہر ایک کے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ یہ رشتہ باقی اور قائم رہے۔ پس حتی المقدور کوشش اسی کی ہونی چاہیے کہ زوجین کے درمیان رشتہ باقی اور برقرار ہے، اور اس کے لئے جو قربانی دینا پڑے وہ دینی چاہئے۔ پس عورت کو اگر اپنے شوہر کی طرف سے طلاق دے دینے، یا لاپرواہی برتنے کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے حق مہر، عدل، اور نان نفقے کے سلسلے میں اس کو ایسی رعایتیں دے کہ رشتہ نکاح باقی رہے، اور قطع تعلق کا اندیشہ رفع ہو جائے، کہ صلح صفائی، بہرحال بہتر ہے۔
۲۔ سو حرص و آز ایک فطری اور جبلی چیز ہے، اور کاروبار حیات چلانے کے لئے اس کی ایک حد تک ضرورت بھی ہے اسی لئے حضرت فاطر فطرت جَلَّ جَلَالُہ، نے اس کو انسان کی فطرت میں رکھا ہے لیکن جب یہ چیز حد ضرورت سے بڑھ جائے تو یہ ایک مہلک بیماری بن جاتی ہے، لیکن اس کا علاج بھی اسی میں ہے۔ پس اسی کی بناء پر زوجین کے درمیان رشتہ ازدواج کو باقی اور برقرار رکھنے کی غرض سے جو قربانی مفید ہو سکے دی جائے۔
۱۲۹۔۔ سو اپنی بیویوں کے درمیان قلبی لگاؤ اور میلان کے اعتبار سے برابری تو انسان کے بس میں نہیں لیکن اختیاری امور میں انسان ان کے درمیان عدل و انصاف ہی سے کام لے۔ اور اس سلسلہ میں کسی ایک بیوی کی طرف اس طرح مت جھک جائے کہ دوسری کو معلّق بنا کر رکھ دے، اور حتی المقدور اصلاح احوال کی کوشش کرے۔ اور تقوی و پرہیزگاری کی راہ پر قائم رہے۔ اس کے بعد جو کوئی کوتاہی اور کمزوری اس سے بشری تقاضوں کی بناء پر سرزد ہو جائے گی اس سے اللہ تعالیٰ عفو و درگزر سے کام لے گا کہ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے اور اس کی شان ہی مغفرت و بخشش فرمانا۔ اور اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازنا ہے سبحانہ و تعالیٰ۔
۱۳۰۔۔ سو میاں بیوی دونوں سے رشتہ ازدواج کو باقی رکھنے کے لئے ایثار و قربانی مطلوب تو ہے۔ لیکن یہ اسی حد تک مطلوب ہے جب تک کہ انسان کی غیرت اور خود داری پر آنچ نہ آئے اور وہ متأثر نہ ہو۔ سو جس طرح میاں اور بیوی میں سے کسی کے لئے دوسرے کے خلاف اکڑنا جائز نہیں۔ اسی طرح ان کے لئے ایک خاص حد سے زیادہ دینا اور ذلت اٹھانا بھی جائز نہیں۔ پس اگر حالات علیحدگی پر مجبور کر دیں تو علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے اور بھروسہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی پر رکھنا چاہئے۔ کہ رازق اور کارساز تو سب مخلوق کا اور ان دونوں کا بہرحال وہی ہے، پس وہ اپنے فضل و کرم سے ہر ایک کو دوسرے سے مستغنی کر دیگا۔ کہ وہ بڑا ہی وسعت والا اور حکمت والا ہے، اور وہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کو وہاں سے دیتا ہے جہاں سے ان کو گمان بھی نہیں ہوتا، سبحانہ و تعالیٰ
۱۳۲۔۔ یہاں پر اس اہم اور بنیادی حقیقت کا ذکر و بیان دو مرتبہ فرمایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا ہے کہ اس سب کا خالق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی۔ اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے، وہی ہے جو سب سے غنی و بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، اور وہی سب کا کار ساز ہے، پس تم لوگ اگر اس کے احکام و ارشادات کے آگے سر تسلیم خم ہو جاؤ گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ورنہ خود اپنا ہی نقصان کرو گے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔
۱۳۳۔۔ پس اس قادرِ مطلق کے لئے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لابسائے، کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور وہ اسباب و وسائل کا بھی محتاج نہیں۔ بلکہ اس کی شان تو کُنْ فَیَکون کی شان ہے اور اس کے یہاں محض ارادہ و اشارہ کی دیر ہے سبحانہ و تعالیٰ سو وہ اگر تم لوگوں کو اپنے دین کی تعلیمات مقدسہ کی پاسداری و پابندی کا حکم و ارشاد فرماتا ہے تو وہ خود تمہارے ہی بھلے اور فائدے کے لئے فرماتا ہے، تاکہ اس طرح تمہاری دنیا بھی بنے، اور آخرت بھی ورنہ وہ اگر چاہے تو تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لابسائے جیسا کہ خود تم لوگ دوسروں کی جگہ موجود ہو جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا۔ اور بعینہ اسی مضمون کو ذکر فرمایا گیا۔ اور زیادہ صراحت و وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعَدِکُمْ مَّا یَشَآءُ کَمَآاَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ (الانعام۔۱۳۴) سو اگر تم لوگوں کو اس کے دین کی خدمت کا موقع ملتا ہے تو تم اپنے لئے اس کو غنیمت سمجھو، ورنہ نہ وہ تمہارا محتاج ہے اور نہ اس کا دین تمہارا محتاج ہے سبحانہ و تعالیٰ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید، وہو الہادی الی سواء السبیل
۱۳۵۔۔ کہ دولت حق و ہدایت کے امین و پاسدار تم ہی لوگ ہو، لہٰذا تمہارا ہر قول و فعل حق کا امین و پاسدار ہونا چاہیے پس تم لوگ نہ صرف یہ کہ خود حق پر قائم رہو۔ بلکہ دوسروں کو بھی اس پر قائم کرنے اور قائم رکھنے والے بنو۔ اور تم لوگ حق کے گواہ بنو۔ کہ تمہارا منصب و مرتبہ اور تمہاری شان ہی یہ ہے کہ تم حق کے گواہ اور اس کے داعی بنو وباللہ التوفیق۔
۲۔ پس اس سے تمہاری کوئی بھی حالت و کیفیت کسی بھی طور پر اور کسی بھی پہلو سے مخفی و مستور نہیں رہ سکتی اور اس کے حضور حاضر ہو کر تم سب نے اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا جواب دینا، اور اس کا صلہ و بدلہ پانا ہے۔ پس تم لوگ ہمیشہ اس بنیادی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھا کرو کہ اپنے اس خالق و مالک کے ساتھ ہمارا معاملہ صحیح اور درست رہے کیونکہ یہ مقصد اگر حاصل ہو گیا تو سب کچھ مل گیا، ورنہ اگر ساری دنیا بھی مل جائے تو بھی محرومی ہی ہے والعیاذ باللہ، سو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری، اور اس کے یہاں جواب دہی کا احساس و یقین اصلاح احوال کی اہم اساس و بنیاد ہے۔
۱۳۶۔۔ سو اس آیت کریمہ میں خطاب اگرچہ عام لفظوں سے ہے لیکن اس سے اصل میں مراد وہ منافق لوگ ہیں جو ایمان کے زبانی کلامی دعوے تو کرتے تھے مگر ان کے قلوب و بواطن ایمان و یقین کی دولت سے خالی اور محروم تھے سو ان سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ سچے دل سے ایمان لاؤ اللہ پر، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر، اور اس کتاب پر جس کو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا ہے اور اس کتاب پر بھی جن کو اس نے اس سے پہلے اتارا ہے یعنی تورات پر، کیونکہ قرآن حکیم کے نزول سے پہلے الکتاب کی حیثیت اسی کو حاصل تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی کی پیروی پر مامور تھے۔ انجیل کی بھی اصل حیثیت تورات کی تکمیل ہی کی تھی سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ایمان و یقین کے محض زبانی دعووں سے کام نہیں چل سکتا، بلکہ اس کے لئے صدق و اخلاص سے کام لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ معاملہ اس رب العلمین سے ہے جو علیمٌ بذاتِ الصُّدُور یعنی سینوں کے بھیدوں کو بھی پوری طرح جاننے والا ہے، سبحانہ و تعالیٰ
۱۳۷۔۔ سو ان کے اس سنگین جرم کی بناء پر نہ تو اللہ تعالیٰ ان کی بخشش فرمائے گا اور نہ ہی ان کو حق و ہدایت کی کوئی راہ دکھائے گا کیونکہ ان پر حجت تمام ہو چکی ہے انہوں نے نعمت حق کی سخت ناقدری کی ہے۔ اس لئے اب ان کے لئے دوزخ کی راہ کے سوا اور کوئی راہ باقی نہیں رہ گئی۔ پس ایسے منافقوں کو یہ خوشخبری سنا دو کہ ان کے لئے ان کے کفر و نقصان کے نتیجے میں ایک بڑا ہی دردناک عذاب تیار ہے والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۳۹۔۔ پس جو اللہ سے سچا تعلق جوڑ لیتے ہیں اور وہ اللہ والے بن جاتے ہیں وہی اصل اور حقیقی عزت سے سرفراز ہوتے ہیں اور اس کے برعکس جو لوگ سچے ایمانداروں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی لگاتے ہیں وہ اس حقیقی اور سچی عزت سے یکسر محروم اور بڑے بدبخت ہیں، وہ شیطان کے چکر میں پھنسے ہوئے اور سخت دھوکے کا شکار ہیں مگر ان کو اس کا شعور و احساس نہیں والعیاذُ باللہ العظیم۔
۱۴۰۔۔ کیونکہ ایسی صورت میں ان کے ساتھ بیٹھنا ان کے عمل سے راضی ہونے کی نشانی اور اس کا ثبوت ہے، اور رضا بالکفر کا کفر ہونا ایک مسلمہ امر ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ سو مومن صادق کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں اللہ کی آیتوں کے خلاف کفر بکا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ اِلاَّ یہ کہ کسی کو وہاں پر کلمہ حق کہنے کا موقع ملے اور وہ اصلاح احوال کی کوشش کر سکے، اور اس دینی فائدے کی توقع پائی جاتی ہو۔
۲۔ کیونکہ یہ دونوں گروہ یعنی کفار اور منافقین کفر میں باہم شریک اور یکجا ہیں، اس لئے اپنے اس اشتراک کفر کی بناء پر دونوں جہنم میں یکجا ہونگے، منافق اگرچہ اوپر سے اسلام کا نام لیتا اور اس کا دم بھرتا ہے، لیکن اس کے اندر بھی کفر ہی ہے اس لئے دھوکہ دہی کے لئے کلمہ پڑھنا اس کو کچھ کام نہیں آ سکے گا، بلکہ منافق لوگ کھلے کافروں سے زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ یہ مسلمانوں کے اندر چھپے ہوئے، اور مار آستین کی حیثیت رکھنے والے خطرناک دشمن ہیں، اس لئے ان کی سزا بھی کھلے کافروں سے بڑھ کر ہے کہ ان کو دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں رہنا ہو گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ الْمُنَافِقُوْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلَ مِنَ النَّارِ (النساء۔ ۱۴۵) والعیاذ باللہ۔
۱۴۱۔۔ اس لئے کہ مومن دولت ایمان ویقین سے سرفراز و مالا مال ہوتے ہیں جبکہ کافر اس سے محروم اور بے بہرہ تو پھر کافروں کے لئے ایمان والوں کے مقابلے میں کوئی راہ پانے کا کیا سوال؟ البتہ دنیا کے اس دار الامتحان میں چونکہ اصل حقائق پر پردہ پڑا ہوا ہے اس لئے کافروں کے کفر کی اصل حقیقت سامنے نہیں آتی، جس سے لوگوں کو دھوکہ لگ جاتا ہے۔ لیکن کل قیامت کے اس عالم مشاہدہ میں جب تمام حقائق اپنی اصل شکل میں سامنے آ جائیں گے تو اس وقت کافروں کی کوئی بھی حجت بازی نہیں چل سکے گی، اور اس وقت کافروں کے ایمان والوں کے مقابلے میں کسی راستے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا سو تمام امور کا آخری اور عملی فیصلہ قیامت کے اس یوم الفصل ہی میں ہو سکے گا۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ آج تو یہ منافق لوگ اس طرح کی سخن سازیوں سے کام لیکر دھوکہ دہی کا کام کر رہے ہیں۔ لیکن کل قیامت کے اس یوم الفصل میں جب تمام حقائق پوری طرح آشکارا ہو جائیں گے وہاں پر ان کی اس طرح کی کوئی سخن سازی نہیں چل سکے گی۔ والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال
۱۴۲۔۔ سو خَادِعُہُمْ کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ ان کو دھوکہ دیتا ہے جس طرح عام طور پر اس کے لفظی ترجمہ سے سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ دھوکہ دہی وغیرہ جسے رزائل کے ہر شائبہ سے پاک اور ایسی ہر نسبت سے اعلیٰ و بالا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ بلکہ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ ان بدبختوں کو اس کی سنت امہال سے دھوکہ لگتا ہے، کیونکہ وہ اپنے حلم بے پایاں اور کرم بے نہایت کی بناء پر ایسے لوگوں کو ان کے کفر و نفاق پر فوراً پکڑتا نہیں بلکہ ان کو ڈھیل ہی دیئے جا رہا ہے جس سے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں، سب ٹھیک کر رہے ہیں۔ سو اس طرح یہ لوگ اپنے کفر و نفاق میں اور پکے ہوتے جاتے ہیں اور اپنے ہولناک انجام کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں اور اس طرح ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھوکہ خود لگ رہا ہے ہم نے اپنے ترجمے کے اندر اس مفہوم کو کھول دیا ہے والحمد للہ جَلَّ وَعَلا
۱۴۳۔۔ اور اللہ کے کسی گمراہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کے اپنے سُوء اختیار و بدنیتی اور خبث باطن کی بناء پر راہ حق و ہدایت کو اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق نہیں ملتی، کہ اس وحدہٗ لاشریک کا قانون و دستور اور اس کی سنت یہ ہے کہ دولت حق و ہدایت سے سرفرازی انہی لوگوں کو مل سکتی ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس سے نور حق و ہدایت سے سرفرازی کی طلب و استدعاء کرتے ہیں اس کے برعکس جو اس سے منہ موڑ لیتے ہیں والعیاذ باللہ ان کو وہ ادھر ہی چلتا کر دیتا ہے جدھر کا رخ وہ خود کرتے ہیں، اور آخرکار وہ اپنے اعراض و استکبار اور کفر و انکار کے نتیجے میں جہنم میں پہنچ کر رہتے ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّیٰ وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا (النساء۔ ۱۱۵) سو دین حق کو اپنانے اور راہ نجات کو اختیار کرنے کے سلسلہ میں کوئی جبر و اکراہ نہیں۔ بلکہ معاملہ انسان کے اپنے ارادہ و اختیار اور اس کی طلب و رغبت پر ہے۔ وہ جدھر کا ارادہ کرے گا اور رغبت رکھے گا۔ اس کو اسی کی توفیق ملے گی وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔
۱۴۴۔۔ یعنی ایسی کھلی حجت کہ اس کے بعد تمہارے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہیگی، اور تمام لوگوں کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا۔ یہاں پر کافروں سے دوستی کی ممانعت کے سلسلہ میں مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ کی قید لگائی گئی ہے۔ یعنی یہ ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ کافروں سے اس تعلق کی یہ ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ یہ مومنوں کو چھوڑ کر ہو، پس جب یہ مومنوں کو چھوڑ کر نہ ہو اور اس سے ان کے مفادات کو کوئی زک نہ پہنچتی ہو اور ان پر کوئی آنچ نہ آتی ہو تو اس صورت میں تو اس میں کوئی حرج اور قباحت نہیں، پس سو اہل ایمان کے مفادات کی حفاظت اہل مطلوب ہے۔
۱۴۵۔۔ یعنی کوئی ایسا یار و مددگار جو ان کو اس ہولناک انجام سے چھڑا اور بچا سکے، یا ان کے لئے کسی حمایت و ہمدردی کا اظہار و مظاہرہ کر سکے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ منافقوں کا ایمان جس کا وہ دعوی کرتے اور دم بھرتے ہیں، وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکے گا۔ کہ اس منافقانہ ایمان کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں اور یہ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ یہ کھلے کفر سے بھی زیادہ برا ہے، کہ ایسے لوگوں کا انجام کھلے کافروں سے بھی برا ہو گا کہ ان کو دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں رہنا ہو گا، جیسا کہ ابھی اوپر والے حاشیہ میں بیان کیا گیا، والعیاذ باللہ جل وعلا
۱۴۸۔۔ سو مظلوم کو اس کا حق اور اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف اپنے ظلم کے بارے میں آواز اٹھائے، تاکہ اس طرح وہ ظلم سے رہائی پا سکے۔ کیونکہ ایسی صورت میں ظالم بھی متعین ہوتا ہے، اور مظلوم بھی، اور ظلم بھی، اور غرض بھی صحیح ہوتی ہے اور ایسی صورت میں کسی فتنہ و فساد کا کوئی خوف و اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ اس صورت کے بغیر بُری بات کو ظاہر کرنے میں فتنے و فساد کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ اور اس سے آگے معاشرے میں طرح طرح کے مفاسد بھی جنم لیتے ہیں۔ اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں والعیاذُ باللہ۔ اس لئے اس کی اجازت نہیں کہ برائی کے یونہی چرچے کئے جاتے رہیں، سو یہ ممنوع ہے۔
۱۴۹۔۔ سو اوپر کی آیت کریمہ میں جس بُری روش کا ذکر فرمایا گیا تھا۔ اس کے بالمقابل اس آیت کریمہ میں اس اچھی روش کا ذکر فرمایا گیا ہے جو محمود اور مطلوب ہے۔ کہ نیکی اور بھلائی کی جائے خواہ وہ ظاہر کر کے کی جائے۔ یا پوشیدہ طور پر، یا یہ کہ کسی برائی کے بارے میں عفو و درگزر سے کام لیا جائے، سو یہ سب عمدہ خصال ہیں جو کہ محمود و مطلوب ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ جب اپنے کمال قدرت کے باوجود عفو و درگزر سے کام لیتا ہے تو پھر بندوں کو تو بدرجہ اولیٰ اس روش کو اپنانا اور اختیار کرنا چاہیئے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، وہو الہادی الی سواء السبیل، بکل حال من الاحوال
۱۵۱۔۔ کیونکہ کافروں نے اپنے کفر و استکبار کی بناء پر راہ حق و ہدایت سے منہ موڑا تو اس کے نتیجے میں ان کو عذاب بھی ایسا رسوا کن دیا جائے گا۔ کہ الجزاء مِنْ جنس العمل، کے عمومی ضابطہ و اصول کا تقاضا یہی ہے، سو ان دونوں آیتوں سے واضح فرما دیا گیا کہ اہل کتاب، اہل کتاب ہونے کے باوجود پکے اور کھلے کافر ہیں۔ پس اس سے ان لوگوں کی غلط فہمی کا قلع قمع فرما دیا گیا جن کا کہنا ہے اہل کتاب بھی تو ایمان رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کو بھی ان کے اس ایمان کا فائدہ پہنچے گا، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان کے اس ایمان کا کوئی اعتبار اور کوئی وزن و قیمت نہیں۔ بلکہ وہ پکے کافر ہیں۔ کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں میں سے کچھ کو مانا۔ اور کچھ کا انکار کیا۔ اور اللہ کے کسی ایک رسول کا انکار بھی کفر ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا گیا۔ اور صاف و صریح طور پر، اور حصر و تاکید کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگ پکے کافر ہیں۔ پس ان کے اس ایمان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ تاوقتیکہ یہ حضرت خاتم الانبیاء پر ایمان نہیں لاتے، کیونکہ آپ کی بعثت و تشریف آوری کے بعد کسی کا بھی ایمان اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ وہ آپ پر ایمان نہ لائے۔
۱۵۲۔۔ سو اس سے مراد امت محمدیہ ہے (محاسن التاویل وغیرہ) کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں پر بلا تفریق ایمان رکھتے ہیں اور کسی بھی رسول کا انکار نہیں کرتے، اس لئے ان کو اللہ تعالیٰ ان کے ان اجور سے نوازے گا جن کے یہ لوگ اپنے ایمان و عقیدے کی بناء پر مستحق ہونگے۔ اور اس سچے پکے ایمان کے بعد بشری تقاضوں کی بناء پر ان سے جو کوتاہیاں سرزد ہو جائینگی، وہ ان کی بخشش فرما دیگا۔ اور ان کو اپنی خاص رحمتوں سے نوازیگا۔ ان کے صدق ایمان و یقین کی بناء پر کہ اس کی شان ہی نوازنا اور رحم و کرم فرمانا ہے، کہ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ، سو حضرت امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت و تشریف آوری کے بعد کسی کا بھی ایمان اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ وہ صدق دل سے آپ پر ایمان نہ لائے۔
۱۵۳۔۔ اس کھلے غلبہ یعنی سلطان مبین سے مراد وہ حجت قاطعہ ہے جو حضرت موسیٰ کو کھلے اور عظیم الشان معجزات کی شکل میں عطا فرمائی گئی تھی۔ سو ان معجزات کی شکل میں حضرت موسیٰ کو ملنے والی وہ حجت ایسی واضح اور اسقدر کھلی تھی کہ اس کے بعد کسی انصاف پسند شخص کے لئے کسی طرح کے انکار یا کسی قسم کے تردد کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن ہٹ دھرموں نے پھر بھی کفر و انکار ہی سے کام لیا۔ سو ہٹ دھرمی کوئی علاج نہیں والعیاذُ باللہ العظیم۔
۱۵۵۔۔ یعنی تھوڑا سا ایمان جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کے دلوں پر کفر و طغیان کا زنگ سخت ہو چکا ہے۔ یا تھوڑے ایمان سے مراد یہ ہے کہ ان میں سے تھوڑے سے لوگ ہی ایمان لائیں گے۔ جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام وغیرہ، رضی اللہ عنہم۔ ورنہ ان کی اکثریت کفر و عناد ہی پر اڑی ہوئی ہے۔ سو ایمان قلیل سے یہاں پر یہ دونوں ہی صورتیں مراد ہو سکتی ہیں۔ اور حضرات اہل علم نے ان دونوں کا ذکر فرمایا ہے (محاسن التاویل وغیرہ) اور ان کے اس کفر و انکار اور عناد و ہٹ دھرمی کا نتیجہ اور مظہر تھا کہ یہ لوگ کہتے تھے قُلُوْبُنَا غُلْفُ، یعنی ہمارے دل پردوں میں ہیں اس لئے ان میں انبیاء ورسل کی بات اثر نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ ان کے اس کفریہ قول کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا ہے وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِلَیْہِ الایٰۃ (حٰم السجدۃ۔ ۵) سو یہ ان لوگوں کی بدبختی کی انتہاء ہے۔ کہ حضرات انبیاء و رسل کرام کی دعوت کے جواب میں اس طرح کہتے تھے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔
۱۵۷۔۔ سو یہ ان لوگوں کی خباثت اور بدبختی کا ایک اور نمونہ اور مظہر ہے کہ یہ لوگ اس سنگین جرم کے ارتکاب کا دعوی کرتے ہیں اور اس پر نادم ہونے کے بجائے الٹا اس پر فخر جتلاتے ہیں۔ اور فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نے مسیح یعنی عیسیٰ بن مریم کو قتل کیا۔ جو کہ اللہ کا رسول ہے۔ سو جرم و قصور کے ارتکاب پر فخر کرنا بدبختی اور محرومی کی انتہاء اور اس کا ایک کھلا ثبوت ہے والعیاذُ باللہ، اور ان کا حضرت عیسیٰ کو اللہ کا رسول کہنا بطور تہکم اور استہزاء تھا، جیسا کہ دوسرے مقام پر کافروں کا قول اس طرح نقل فرمایا گیا ہے وَقَالُوْا یَااَیُّہَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ (الحجر۔۶) جبکہ بعض حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ رسول اللہ یہود کے قول کا حصہ نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا حصہ ہے، جس کو ان لوگوں کے جرم کی سنگینی کو واضح تر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ کو مسیح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آنجناب کو ہر قسم رزائل اور ان کے شوائب سے مسح کر کے پاک و صاف کر دیا گیا تھا۔ جیسے جہالت، حرص، اور شہوت وغیرہ جبکہ اس کے برعکس دجال کو مسیح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو خیر و برکت وغیرہ تمام عمدہ خصال و صفات سے خالی اور محروم کر دیا گیا (محاسن التاویل وغیرہ) سو لفظ ایک ہی ہے لیکن اس کے موصوف و متعلق کے بدل جانے سے اس کا معنی و مطلب بھی بدل گیا۔ ایک ہستی کے بارے میں یہ تمام عمدہ صفات و خصال کا عنوان بن گیا۔ اور دوسرے کے لئے ہر خیر سے محرومی کا نشان۔ والعیاذُ باللہ العظیم، یہاں سے یہ اہم حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء ورسل کی تربیت و تعلیم کا انتظام براہ راست حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے کیا جاتا ہے، علی نبینا وعلیٰ سائرہم الصلوٰۃ والسلام
۱۵۸۔۔ سو وہ عزیز و غالب اور انتہائی زبردست ہے سبحانہ و تعالیٰ، پس وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ اس کے لئے نہ کچھ مشکل ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ، لیکن وہ چونکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ حکیم بھی ہے۔ اس لئے وہ جو بھی کچھ کرتا ہے اپنی حکمت کاملہ کے تقاضوں کے مطابق ہی کرتا ہے۔ اس لئے اس کا کوئی بھی کام حکمت کے تقاضوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ یہاں پر قَتَلُوْہُ اور رَفَعَہ، کی ضمائر منصوبہ کا مرجع حضرت عیسیٰ ہیں۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام جو کہ عبارت ہے روح مع الجسد سے سو اس سے اس بات کی تصریح فرما دی گئی کہ رفع عیسیٰ سے مراد آنجناب کا رفع جسمانی ہے نہ کہ محض روحانی پس اس سے محض درجات و مراتب کی ترقی مراد لینا صحیح نہیں، جیسا کہ بعض زائغین نے کہا۔ والعیاذ باللہ العظیم
۱۵۹۔۔ یعنی اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو حضرت عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے ایمان نہ لائے۔ اور یہ آخری زمانے میں ہو گا جبکہ حضرت عیسیٰ دوبارہ تشریف لائیں گے، اور دین اسلام کے حامل وداعی، اور اس کے پیروکار کے طور پر کام کرینگے، دین اسلام ہی کی دعوت دیں گے اور تمام ملتوں والے حلقہ بگوش اسلام ہو کر دین حق یعنی اسلام میں داخل ہو جائیں گے (محاسن، وغیرہ) اور اسی قول و احتمال کی تائید و تصدیق صحیحین وغیرہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ حضرت عیسیٰ تم لوگوں کے اندر ایک عادل حکمران کے طور پر تشریف لائیں گے۔ تب وہ صلیب کو توڑ دینگے، خنزیر کو قتل کر دیں گے۔ جزیہ ختم کر دیں گے۔ اور مال اتنا عام ہو جائے گا کہ کوئی اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ پوری روئے زمین اور اس کی سب دولت سے بھی بڑھ کر ہو گا۔ پھر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے قرآن حکیم کی اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تو اس کو پڑھ لو۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام، مسلم کتاب الایمان) اور اس میں اور بھی اقوال ہیں، لیکن زیادہ واضح اور راحج قول یہی ہے جو اس ضمن میں ابھی عرض کیا گیا، والحمد للہ جل وعلا،
۱۶۱۔۔ سو یہود کے جرائم کی اس فہرست کے ذکر سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے ان جرائم کی بناء پر یہ لوگ محروم و ملعون ہو گئے، اور ان کو حضرت امام الانبیاء علیہ و علیہم الصلوٰۃ و السلام اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اتاری گئی کتابِ حکیم پر ایمان لانے کی توفیق وسعادت نصیب نہ ہو سکی۔ سو یہ لوگ اپنی سرکشی کی بناء پر اور راہ حق سے روکنے کے باعث اور سود کھانے کے نتیجہ میں، حالانکہ تورات میں ان کو اس سے صاف اور صریح طور پر منع کیا گیا تھا، اور لوگوں کے مال باطل اور ناجائز طریقوں سے کھانے کے باعث یہ لوگ حق سے محروم ہو گئے پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حرام کر دیا گیا۔ اور یہ دردناک عذاب کے مستحق ہو گئے۔ سو معاصی و ذنوب کا نتیجہ و انجام بُرا، اور بڑا ہی مہیب ہوتا ہے۔ ان کی بناء پر انسان محرومی میں بڑھتا بڑھتا کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں ہر قدم اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی ڈالنے اور بڑھانے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین
۱۶۳۔۔ سو یہ سب ہی انبیاء ورسل اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور اس کے چنے ہوئے لوگ تھے۔ پس نہ آپ (اے پیغمبر!) کوئی انوکھے رسول ہیں اور نہ ہی آپ پر بھیجی جانے والی وحی کوئی انوکھی اور نئی چیز ہے۔ بلکہ آپ سے پہلے بہت سے اور مختلف انبیاء ورسل بھی مختلف وقتوں میں آ چکے ہیں، اور ان سب کی طرف وحی خداوندی بھی آ چکی ہے۔ پس ایسے میں ان منکروں کا آپ کی نبوت و رسالت پر اعتراض کرنا، اور مختلف قسم کی قیل و قال سے کام لینا محض ان لوگوں کا عناد اور انکی ہٹ دھرمی ہے۔ پس اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان ہے۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ الایٰۃ یعنی ان لوگوں سے کہو کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں (الاحقاف۔٩)
۱۶۴۔۔ حضرت موسیٰ سے خداوند قدوس کا کلام فرمانا بھی اگرچہ رو در رو نہیں تھا بلکہ مِنْ وَّرَاءِ حِجَاب یعنی پردے کے پیچھے ہی سے تھا، جیسا کہ قرآن پاک اور تورات دونوں سے ثابت ہوتا ہے لیکن وہ چونکہ ایک ایسی خاص امتیازی شان کا حامل تھا جو دوسرے حضرات کے کلام سے مختلف تھی۔ اس لئے اس کی امتیازی شان کی بناء پر اس کو اس طرح ذکر فرمایا گیا ہے۔ نیز اس آیت کریمہ میں جو ارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے رسولوں کا ذکر ہم نے آپ سے (اے پیغمبر!) نہیں فرمایا۔ تو اس سے اہل بدعت کے علم غیب کلی کے خود ساختہ اور شرکیہ عقیدے کی نفی بھی ہو گئی، والحمد للّٰہ جَلّ وَعَلَا،
۱۶۵۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرات انبیاء و رسل کی شان اور ان کا اصل کام انذار و تبشیر ہی ہوتا ہے، اور بس، یعنی لوگوں کو ان کے انجام سے آگہی بخشنا اور خبردار کر دینا، اور ماننے والوں کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی خوشخبری سنا دینا، اور بس، تاکہ اس کے بعد لوگوں کے لئے کسی عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے، کیونکہ اگر رسول نہ بھیجے گئے ہوتے تو یہ لوگ حجت بازی کرتے، اور کہتے کہ ہمارے پاس کوئی خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا آیا ہی نہیں، تو ہم راہ راست پر کیسے آتے؟ یعنی ہم معذور اور بے قصور ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا أنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَاءَکُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذَیْرٌ الایٰۃ (المائدۃ۔۱۹) یعنی اگر تمہارے پاس رسول نہ آئے ہوتے تو تم لوگ کہتے کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر آیا ہی نہیں۔ سو آب تو تمہارے پاس یقیناً بشیر و نذیر آگیا ہے، اور وہ بھی ایسا عظیم الشان بشیر و نذیر، جس نے راہ حق و ہدایت کو پوری طرح واضح فرما دیا، اور اس طور پر کہ اب اس بارے کوئی خفاء و غموض باقی نہیں رہ جاتا لہٰذا اب تم لوگوں کے لئے اس طرح کے کسی عذر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم ان لوگوں پر اس سے پہلے عذاب نازل کر دیتے تو اس وقت یہ لوگ چیخ چیخ کر کہتے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف کوئی ایسا رسول کیوں نہ بھیجا جس کی ہم پیروی کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل اور رسوا ہوتے۔ جیسا کہ سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر۱۳۴ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ سو اب ایسے لوگ اس طرح کا کوئی عذر پیش نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے بشیر اور نذیر بھیج دیے جنہوں نے ان کے لئے حق کو پوری طرح واضح کر دیا اب ان کے لئے کسی عذر و حجت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے یہاں ارشاد فرمایا گیا کہ رسولوں کے بعد اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے، اور سب سے آخر میں وہ عظیم الشان بشیر و نذیر بھی آ گئے جو کہ رسولوں کے امام رسول ہیں، علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام،
۱۷۰۔۔ سو اس سے پہلے کے لوگوں اور خاص کر یہود و نصاریٰ نے اپنی طرف سے طرح طرح کی آمیزشوں اور ملاوٹوں کے ذریعے اللہ کی اتاری ہوئی کتاب، اور اس کے نازل کردہ دین، کو ایسا مسخ کر کے اور بگاڑ کر رکھ دیا تھا، کہ حق کو پہچاننا ناممکن ہو گیا تھا، سو اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے ان آمیزشوں، اور ملاوٹوں کو دور کر کے حق کو اپنی اصل اور حقیقی شکل میں تمہارے لئے بھیج دیا ہے۔ اور اللہ کے رسول اس حق کو لیکر تمہارے پاس پہنچ چکے ہیں، تو اب تم لوگ صدق دل سے اس پر ایمان لے آؤ، تاکہ خود تمہارا بھلا ہو، دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہان میں بھی، جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے۔ اور اگر تم لوگ اس کے برعکس کفر و ناشکری سے کام لو گے تو خود اپنا ہی نقصان کرو گے۔ اور اس کے دین کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا۔ کہ آسمان و زمین کی یہ ساری کائنات اسی وحدہٗ لاشریک کی ہے۔ کہ اس سب کا خالق و مالک بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی، اور صرف وہی ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور بڑا ہی حکمت والا ہے۔ پس نہ اس کے کسی حکم و ارشاد کا کوئی بدل ممکن ہو سکتا ہے۔ اور نہ اس کی گرفت و پکڑ سے کوئی بچ سکتا ہے، اور وہ جو بھی کچھ کرتا ہے اپنی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے مطابق ہی کرتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔
۱۷۱۔۔ سو اس سے دین میں فساد و بگاڑ کے سب سے بڑے سبب اور اس کے باعث کی نشاندہی بھی فرما دی گئی۔ اور اس کے سدِّباب اور علاج سے بھی آگہی بھی بخش دی گئی۔ چنانچہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دین میں فساد و بگاڑ کا سب سے بڑا سبب اور باعث جو کہ بیماریوں کی بیماری ہے، وہ ہے دین میں غلو۔ یعنی حد سے بڑھنا، سو جس کسی نے بھی اس چیز کو اپنایا اور اختیار کیا اس نے اپنے دین کا بیڑا غرق کر دیا، یوں تو یہ مرض ہمیشہ ہی موجود رہا۔ اور ہر قوم میں موجود رہا۔ لیکن نصاریٰ نے تو حد کر دی، اور انہوں نے اس میں پیشوائی کا مقام اپنایا حضرت عیسیٰ کو جو کہ اللہ کے بندے اور رسول تھے ان کو انہوں نے خدا کا بیٹا اور خدا بنا دیا، اور حضرت مریم جو کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ اور پاکیزہ عفیفہ، اور راست باز خاتون تھیں ان کو انہوں نے خدا کی ماں بنا کر خدائی میں شریک قرار دے دیا۔ اور حضرت جبرائیل امین جو کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے پابند، اس کے بندے اور اس کے فرشتے ہیں، ان کو ان لوگوں نے ایک اقنوم کی حیثیت دے کر خدائی کی تثلیث میں شریک کر دیا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارے ہوئے دین توحید کو ان لوگوں نے دین شرک اور تثلیث کا ایک ناقابل فہم ملغوبہ بنا دیا۔ حضرت عیسیٰ نے جو اتباع شہوات اور زخارف دنیا سے بچنے کی تعلیم دی تھی۔ اس پر انہوں نے رہبانیت کا ایک ایسا نظام کھڑا کر دیا جو کہ عقل و نقل دونوں کے خلاف اور فطرت سے جنگ کے مترادف تھا۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے لئے دنیا و آخرت کی ہلاکت و تباہی کا سامان کیا۔ اور غلو کی اس بیماری کا علاج یہ بتایا گیا کہ تم لوگ اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ سو جب اپنے آپ کو حدود حق کا پابند کر دیا جائے تو غلو اور بے راہ روی کے سب راستے خود بخود بند ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو غلو اور تجاوز عن الحدود سے طرح طرح سے روکا اور منع فرمایا ہے اور قرآن حکیم نے جا بجا اور صاف اور صریح طور پر دین کے احکام کو حدود کے لفظ اور عنوان سے تعبیر فرمایا۔ اور صاف و صریح طور پر حکم و ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ان حدود کو پھلانگنا نہیں۔ اور ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنا۔ والعیاذ باللہ۔
۱۷۳۔۔ سو اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اس کی نوازشوں سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ، اور بندوں کے لئے صحیح طریقہ، یہ ہے کہ وہ ایمان صادق اور عمل صالح کی دولت کو اپنائیں، اس پر اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اجور سے نوازے اور سرفراز فرمائے گا، جس کے وہ اپنے صدق و اخلاص، اور اپنے ایمان و عمل کی بناء پر مستحق ہوں گے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ وہ ان کو اپنے فضل و کرم سے بھی نوازے گا۔ کہ اس کے یہاں کا معاملہ صرف عدل اور برابری پر مبنی نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کے یہاں معاملہ فضل و کرم، عفو و درگزر اور انعام و احسان ہی کا ہوتا ہے، اور اسی کا ہو گا۔ جو کہ تقاضا ہے اس کی بے پایا ں شان کرم و عطاء کا سبحانہ و تعالیٰ۔ اَللّٰہُمَّ فَعَامِلْنَا بِفَضْلِکَ وَاِحْسَانکَ وَلَا تُعَامِلْنَا بَعَدْنِکَ وَحِسَابِکَ۔
۲۔ یعنی کوئی ایسا یارو مددگار جو ان کو اس انجامِ بد سے بچا سکے، اور ان کے کچھ کام آ سکے، یا زبانی کلام طور پر ہی ان کے لئے کسی حمایت و ہمدردی کا اظہار کر سکے، اور جن کو ان لوگوں نے اپنے طور پر اپنے حمایتی اور حاجت روا و مشکل کشا فرض کر رکھا تھا، وہ سب کے سب اس روز ان سے اس طرح کھو چکے ہونگے کہ ان کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہو گا، اور یہ اس لئے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اور ان کی کوئی اصل اور حقیقت سرے سے تھی ہی نہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ یعنی اس روز کھو چکا ہو گا ان سے وہ سب کچھ جو یہ لوگ دنیا میں گھڑا کرتے تھے، والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۷۴۔۔ یعنی قرآن حکیم جو ایسی عظیم الشان اور بے مثال روشنی ہے جس جیسی دوسری کوئی روشنی نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ قیامت تک کبھی ممکن ہے۔ اور ایسی عظیم الشان روشنی ہے، جو حق اور ہدایت کی راہ کو پوری طرح واضح کر دیتی ہے سو اس آیت کریمہ میں وارد و مذکور برہان اور نور کی یہ دونوں صفتیں قرآن حکیم ہی کی ہیں، کہ یہ کتاب حکیم عظیم ایک عظیم الشان برہان بھی ہے، اور ایک عظیم الشان اور بے مثال نور اور روشنی بھی، اور اس کی یہ دونوں صفتیں دو اعتبار سے ہیں، پس برہان کی صفت سے اس کتاب حکیم کے عقلی اور استدلالی پہلو کو واضح فرمایا گیا ہے کہ یہ ایک عظیم الشان اور ایسی قاطع حجت ہے کہ اس کے اندر ہر شبہ و اعتراض اور ہر سوال و جدال کا ایسا مسکت اور تشفی بخش جواب موجود ہے کہ کسی کے لئے کسی حیل و حجت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بشرطیکہ انسان کھلے دل سے غور کرے۔ اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لے۔ اور نور مبین کی صفت سے اس کے عملی پہلو کو اجاگر فرمایا گیا ہے۔ یعنی اس کتاب حکیم نے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں راہ حق و صواب کو ایسا واضح فرما دیا ہے کہ کسی کے خفاء و غموض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، پس جو لوگ جو اس کی تعلیمات صدق و صفا کو صحیح طور پر اپناتے ہیں یہ ان کو طرح طرح کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتی ہے۔ سو قرآن مجید ایک عظیم الشان اور بے مثال نور اور روشنی ہے۔ اور اسی اہم اور بنیادی حقیقت کو سورۃ مائدہ کی آیت نمبر۱۵ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنُ۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ سورۃ مائدہ کی اس آیت کریمہ میں نور سے قرآن مجید ہی ہے۔ اور یہ عطف عطف تفسیری ہے۔ یعنی وہ نور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے۔ وہ یہی کتاب مبین یعنی قرآن حکیم ہے۔ بس جو لوگ اس کتاب عظیم پر ایمان اور اس کی تعلیمات مقدسہ سے محروم ہیں، وہ نور حق و ہدایت سے محروم، اور تہ در تہ اندھیروں میں مبتلا ہیں، والعیاذ باللہ العظیم
۱۷۶۔۔ اس لئے اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم پر مبنی ہے اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس کے کسی بھی حکم و ارشاد کا کوئی بدل ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور اسی کے احکام اور ارشادات کی پابندی و پاسداری انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کر سکتی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید، وبہٰذا نکتفی فی التفسیر المختصرلسورۃ النساء والحمد للہ جل وعلا۔