تفسیر مدنی

سورة حٰمٓ السجدة / فُصّلَت

(سورۃ فصلت ۔ سورہ نمبر ۴۱ ۔ تعداد آیات ۵۴)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     حٰمٓ

۲۔۔۔     (یہ کتاب) اتاری گئی ہے اس ذات کی طرف سے جو بڑی ہی مہربان نہایت ہی رحم والی ہے

۳۔۔۔     یہ ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے جس کی آیتوں کو خوب کھول کر بیان کر دیا گیا ایک عظیم الشان عربی زبان کے قرآن کی صورت میں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں

۴۔۔۔     خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا پھر بھی اکثر لوگوں نے اس سے ایسا منہ موڑا کہ وہ سن کر ہی نہیں دیتے

۵۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ ہمارے دل پردوں میں ہیں اس چیز سے جس کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایک حجاب ہے پس آپ اپنا کام کئے جائیں ہم اپنا کام کرتے رہیں گے

۶۔۔۔     (ان سے) کہو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں تو ایک بشر ہوں تم ہی جیسا (البتہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ معبود تم سب کا بہر حال ایک ہی معبود ہے پس تم لوگ سیدھے اسی کا رخ اختیار کر لو اور اس سے معافی مانگو اور بڑی خرابی ہے ان مشرکوں کے لئے

۷۔۔۔     جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے انکار پر ہی کمربستہ ہیں

۸۔۔۔     (اس کے برعکس) جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے تو ان کے لئے ایک ایسا عظیم الشان اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں

۹۔۔۔     (ان سے) کہو کہ کیا تم لوگ اسی (ذات اقدس و اعلیٰ) کے ساتھ کفر کرتے ہو اور اس کے لئے (من گھڑت) شریک ٹھہراتے ہو؟ جس نے پیدا فرمایا زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو دو دونوں میں ؟ یہ ہے پروردگار سارے جہانوں کا

۱۰۔۔۔     اور اسی نے رکھ دئیے اس زمین میں اس کے اوپر سے (پہاڑوں کے) عظیم الشان لنگر اور اس میں رکھ دیں (برکتوں پر) برکتیں اور اس نے مقدر فرما دیں اس میں (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے زمینی مخلوق کے لئے) طرح طرح کی خوراکیں (اور مہیا فرما دئیے ان کے لئے قسما قسم کے اسباب) ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق (اور یہ سب کچھ صرف) چار دن میں

۱۱۔۔۔     پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی جب کہ وہ ایک دھوئیں کی شکل میں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں (وجود میں) آ جاؤ خوشی سے یا زبردستی سے تو ان دونوں نے عرض کیا کہ ہم دونوں خوشی سے آ(موجود ہو) گئے ہیں

۱۲۔۔۔     سو اس نے بنا دئیے سات آسمان دو دونوں میں اور ہر آسمان میں اس کے مناسب حکم بھیج دیا اور ہم نے آراستہ کیا قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے اور اسے اچھی طرح سے محفوظ بھی کر دیا یہ سب کچھ تجویز (اور منصوبہ بندی) ہے اس ذات کی طرف سے جو سب پر غالب نہایت ہی علم والی ہے

۱۳۔۔۔     پھر بھی اگر یہ لوگ (نہ مانیں اور) منہ موڑے ہی رہیں تو (ان سے) کہو کہ میں نے تو تم کو خبردار کر دیا عاد اور ثمود پر اچانک ٹوٹ پڑنے والے جیسے ہولناک عذاب سے

۱۴۔۔۔     جب کہ ان کے پاس ان کے رسول آئے ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی (اور سب نے یہی کہا کہ لوگوں !) تم لوگ بندگی نہ کرو مگر صرف ایک اللہ کی تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو بھیج دیتا کچھ فرشتوں کو (رسول بنا کر) لہٰذا ہم اس چیز کے قطعی طور پر منکر ہیں جس کے ساتھ تم کو بھیجا گیا ہے

۱۵۔۔۔     پھر جو عاد کے لوگ تھے وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوئے (اللہ کی) اس زمین میں ناحق طور پر اور انہوں نے (مست ہو کر) کہا کہ کون ہے جو ہم سے بڑھ کر زور آور ہو؟ کیا انہوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا وہ بہر حال ان سے کہیں بڑھ کر (زور و) قوت والا ہے بہر حال وہ لوگ ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے چلے گئے

۱۶۔۔۔     تو آخرکار ہم نے بھیج دی ان پر ایک سخت زور کی (ہولناک) ہوا چند منحوس دنوں میں تاکہ ہم ان کو مزہ چکھا دیں (ذلت و) رسوائی کے عذاب کا اسی دنیاوی زندگی میں اور آخرت کا عذاب تو یقینی طور پر اس سے بھی کہیں بڑھ کر رسوا کن ہے اور وہاں ان کی (کہیں سے) کوئی مدد بھی نہ کی جائے گی

۱۷۔۔۔     رہے ثمود تو ان کو بھی ہم نے راستہ دکھایا مگر انہوں نے بھی راہ راست کے مقابلہ میں اندھے پن ہی کو پسند کیا آخرکار ان کو بھی آ پکڑا ذلت (و رسوائی) والے عذاب کے ایک کڑکے نے ان کے اپنے ان اعمال کے سبب جو وہ خود کرتے چلے آ رہے تھے

۱۸۔۔۔     اور ہم نے بچا لیا ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور وہ ڈرتے (اور بچتے) رہے تھے (ہماری ناراضگی سے)

۱۹۔۔۔     اور (یاد کرو اس ہولناک دن کو) جس دن کہ گھیر لایا جائے گا اللہ کے دشمنوں کو دوزخ کی طرف پھر ان کو روک دیا جائے گا ان کے پچھلوں کے آنے تک

۲۰۔۔۔     یہاں تک کہ جب وہ سب دوزخ کے نزدیک پہنچ جائیں گے تو (حساب شروع ہونے پر) ان کے خلاف گواہی دینے لگیں گے ان کے کان ان کی آنکھیں اور ان کے جسموں کی کھا لیں ان تمام کاموں کی جو وہ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے

۲۱۔۔۔     اور یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ (اعضاء وغیرہ) جواب دیں گے کہ ہمیں اسی اللہ نے گویائی بخشی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کیا ہے اور اسی نے پیدا فرمایا تم سب کو پہلی مرتبہ اور اسی کی طرف اب تم کو لوٹایا جا رہا ہے (دوبارہ زندہ کر کے)

۲۲۔۔۔     اور (اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) تم لوگ اس سے بہر حال چھپ (اور بچ) نہیں سکتے تھے کہ تمہارے اپنے ہی کان آنکھیں اور کھا لیں تمہارے خلاف گواہی دیں مگر تم لوگوں نے (اپنی بدنصیبی سے) یہ سمجھ رکھا تھا کہ اللہ نہیں جانتا تمہارے بہت سے ان کاموں کو جو تم لوگ (چھپ چھپا کر) کرتے ہو

۲۳۔۔۔     پس تمہارے اسی گمان نے جو کہ تم نے اپنے رب کے بارے میں قائم رکھا تھا تم کو تباہ کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے تم ہو گئے (ابدی) خسارے والوں میں سے

۲۴۔۔۔     پھر اگر وہ لوگ (اس حالت پر) صبر کریں تو بھی آگ ہی ان کا ٹھکانا ہے اور اگر وہ معافی چاہیں گے تو بھی ان کو کوئی معافی نہیں دی جائے گی

۲۵۔۔۔     اور ہم نے مقرر کر دئیے تھے ان لوگوں پر (ان کے اپنے سوءِ اختیار اور خبثِ باطن کی بنا پر) ایسے ساتھی جنہوں نے مزین (و خوشنما) بنا دیا تھا ان کے لئے وہ سب کچھ جو کہ ان کے آگے تھا اور جو ان کے پیچھے تھا اور پکی ہو گئی ان پر (وعدہ عذاب سے متعلق) ہماری وہ بات جو کہ پکی ہو گئی تھی جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں کے بارے میں جو کہ گزر چکے ہیں ان سے پہلے بے شک یہ سب لوگ قطعی طور پر خسارے والے تھے

۲۶۔۔۔     اور کافر لوگ (آپس میں) کہتے ہیں کہ مت سنو تم اس قرآن کو اور تم شور مچاؤ اس میں (جب کہ یہ سنایا جائے) شاید کہ اس طرح تم غالب آ جاؤ

۲۷۔۔۔     سو ہم ضرور مزہ چکھا کر رہیں گے کافروں کو ایک بڑے سخت عذاب کا اور ہم ضرور بدلہ دے کر رہیں گے اِن کو اِن کے ان برے کاموں کا جو یہ کرتے رہے تھے

۲۸۔۔۔     یہ بدلہ ہے اللہ کے دشمنوں کا یعنی وہ دوزخ جس میں ان کے لئے ہمیشہ رہنے کا گھر ہو گا اس جرم کے بدلے میں کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تھے

۲۹۔۔۔     اور (وہاں پہنچ کر) کافر لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں ذرا دکھا دے ان جنوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا کہ ہم ان کو ڈال دیں اپنے قدموں کے نیچے (روندنے کو) تاکہ وہ سب سے نیچے (اور خوب ذلیل و خوار) ہو جائیں

۳۰۔۔۔     (اس کے برعکس) جن لوگوں نے (صدق دل سے) کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر اترتے ہیں (رحمت و بشارت کے) فرشتے (اس خوشخبری کے ساتھ) کہ نہ تم ڈرو نہ غم کھاؤ اور خوش ہو جاؤ تم اس جنت (کے ملنے) سے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے

۳۱۔۔۔     ہم تمہارے ساتھی (اور دوست) ہیں دنیا کی اس (عارضی) زندگی میں بھی اور آخرت کی اس (حقیقی اور ابدی) زندگی میں بھی اور تمہارے لئے وہاں وہ سب کچھ ہو گا جو تمہارے جی چاہیں گے اور وہاں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی تم (طلب و) تمنا کرو گے

۳۲۔۔۔     (ضیافت و) مہمانی کے طور پر بڑے بخشنے والے انتہائی مہربان (رب) کی طرف سے

۳۳۔۔۔     اور اس سے بڑھ کر اچھی بات اور کس کی ہو سکتی ہے جو (لوگوں کو) بلائے اللہ کی طرف اور وہ خود نیک عمل بھی کرے اور (اظہار اطاعت و بندگی کے لئے) وہ کہے کہ بے شک میں فرمانبرداروں میں سے ہوں

۳۴۔۔۔     اور (یاد رکھو کہ) نیکی اور بدی آپس میں کبھی برابر نہیں ہو سکتیں پس تم برائی کو دفع کیا کرو اس نیکی کے ساتھ جو سب سے اچھی ہو پھر (تم دیکھو گے کہ) وہ شخص کہ تمہارے اور اس کے درمیان سخت دشمنی تھی ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کوئی جگری دوست ہو

۳۵۔۔۔     اور یہ دولت نصیب نہیں ہوتی مگر انہی لوگوں کو جو صبر (و ضبط) سے کام لیتے ہیں اور یہ مقام نہیں ملتا مگر اسی کو جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے

۳۶۔۔۔     اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ پہنچ جایا کرے تو (فوراً) اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو بلاشبہ وہی ہے (ہر کسی) کی سنتا (سب کچھ) جانتا

۳۷۔۔۔     اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ رات و دن اور سورج و چاند بھی ہیں پس تم نہ تو سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ تم سجدہ اس اللہ (وحدہٗ لاشریک) ہی کے لئے کرو جس نے ان سب کو پیدا فرمایا ہے اگر تم لوگ واقعی اسی کی بندگی کرتے ہو

۳۸۔۔۔     پھر اگر یہ لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ہی رہیں تو (رہتے رہیں) وہ فرشتے جو تمہارے رب کے پاس ہیں وہ بہر حال رات اور دن اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ کبھی تھکتے نہیں

۳۹۔۔۔     اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس زمین کو سونی پڑی ہوئی دیکھتے ہو پھر جونہی ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ ابھر اٹھتی ہے اور پھول پڑتی ہے بلاشبہ جو اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ قطعی طور پر مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے بلاشبہ اس کو ہر چیز پر پوری پوری قدرت ہے

۴۰۔۔۔     بلاشبہ جو لوگ ہماری آیتوں میں کجروی اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں تو کیا جس کو پھینک دیا جائے گا (دوزخ کی دہکتی بھڑکتی) اس ہولناک آگ میں وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے روز آئے گا امن (و امان) کے ساتھ؟ (اب تمہاری مرضی) جو چاہو عمل کرو (پر یہ یاد رہے کہ) وہ یقیناً دیکھ رہا ہے تمہارے ان تمام عملوں کو جو تم لوگ کر رہے ہو

۴۱۔۔۔     بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا (ہمارے نازل کردہ) اس ذکر کے ساتھ جب کہ وہ ان کے پاس پہنچ گیا (یقیناً وہ اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگت کر رہیں گے) اور بلاشبہ یہ ایک ایسی عظیم الشان عزت (اور غلبے) والی کتاب ہے

۴۲۔۔۔     جس پر باطل نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے یہ سراسر اتارا ہوا کلام ہے اس (ذات اقدس و اعلیٰ) کی طرف سے جو نہایت ہی حکمت والی اور ہر خوبی کی سزاوار ہے

۴۳۔۔۔     آپ کو (اے پیغمبر !) نہیں کہا جا رہا مگر وہی کچھ جو کہ آپ سے پہلے دوسرے رسولوں کو کہا گیا ہے بلاشبہ آپ کا رب بڑا ہی درگزر کرنے والا بھی ہے اور وہ بڑا ہی دردناک عذاب دینے والا بھی ہے

۴۴۔۔۔     اور اگر ہم اس کو کوئی عجمی قرآن بنا دیتے تو اس وقت یہ لوگ یوں کہتے کیوں نہ کھول کر بیان کر دی گئیں اس کی آیتیں بھلا یہ کوئی بات ہوئی کہ کتاب تو عجمی ہو اور رسول عربی؟ (ان سے) کہو کہ یہ قرآن ان لوگوں کے لئے تو سراسر ہدایت اور عین شفاء ہے جو ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ ایمان (کی دولت) نہیں رکھتے ان کے کانوں میں یہ ایک ڈاٹ ہے اور (ان کی آنکھوں) پر ایک اندھاپا اور ہولناک سیاہ پٹی) اور ان لوگوں کا حال (ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے) یہ ہے کہ گویا کہ ان کو پکارا جا رہا ہے کسی دور دراز مقام سے

۴۵۔۔۔     اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو یقیناً ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کبھی کا کر دیا گیا ہوتا اور یہ لوگ یقینی طور پر اس (قرآن) کی بناء پر ایک سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں

۴۶۔۔۔     (بہرحال) جس نے بھی کوئی نیک عمل کیا تو وہ اپنے ہی لئے کرے گا اور جس نے کوئی برائی کی تو اس کا وبال بھی خود اسی پر ہو گا اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ کوئی ظلم کرے اپنے بندوں پر

۴۷۔۔۔     اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے قیامت کا علم اور نہیں نکلتا کوئی پھل اپنے شگوفے سے اور نہ حاملہ ہوتی ہے کوئی مادہ اور نہ ہی وہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اس کے علم سے ہوتا ہے اور جس دن وہ ان کو پکار کر کہے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک (جو تم لوگوں نے از خود ٹھہرا رکھے تھے)؟ تو یہ (اس کے جواب میں سراپا خجل و ندامت بن کر) کہیں گے کہ ہم تو آپ کی بارگاہ میں عرض کر چکے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقراری نہیں

۴۸۔۔۔     اور کھو چکے ہوں گے ان سے وہ سب (معبودان باطلہ) جن کو یہ لوگ اس سے پہلے (پوجا) پکارا کرتے تھے اور ان کو یقین ہو چکا ہو گا کہ اب ان کے لئے کسی بھی طرح کا کوئی چھٹکارا نہیں

۴۹۔۔۔     انسان بھلائی مانگتے نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ بالکل مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے

۵۰۔۔۔     اور اگر ہم اسے اپنی طرف سے کسی رحمت (و مہربانی) کا کوئی مزہ چکھا دیں اس تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچ چکی ہوتی ہے تو یہ (بپھر کر) کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے ہی لئے ہے میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر کہیں واقعۃً مجھے اپنے رب کی طرف لوٹنا بھی پڑ گیا تو یقیناً وہاں بھی میرے لئے بھلائی ہی ہو گی اور ہم ضرور بتا دیں گے کافروں کو ان کے وہ سب کام جو انہوں نے (زندگی بھر) کئے ہوں گے اور ہم ان کو ضرور مزہ چکھا کر رہیں گے ایک بڑے ہی سخت عذاب کا

۵۱۔۔۔     اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور اکڑ جاتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے

۵۲۔۔۔     (ان سے) کہو کہ تم اتنا تو سوچو کہ اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو تو پھر بھی اگر تم لوگ اس کا انکار ہی کرتے رہے تو اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اس کی مخالفت میں دور نکل گیا ہو؟

۵۳۔۔۔     ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھاتے جائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کی اپنی جانوں میں بھی یہاں تک کہ ان کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح کھل جائے کہ یہ (قرآن) قطعی طور پر حق ہے کیا یہ بات کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر چیز پر گواہ ہے ؟

۵۴۔۔۔     آگاہ رہو کہ یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات (اور اس کے حضور پیشی) کے بارے میں شک میں پڑے ہیں آگاہ رہو کہ وہ ہر چیز کا پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے

تفسیر

 

۵۔۔  سو اس سے منکرین و مکذبین کی محرومی و بدبختی اور ان کی مت ماری کا نمونہ سامنے آتا ہے کہ یہ لوگ نور حق و ہدایت کی دولت بے مثال سے محرومی پر افسوس کرنے کے بجائے الٹا اس پر فخر کرتے، اپنے اس کفر و انکار پر اصرار کرتے، اور فخریہ انداز میں پیغمبر سے کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس چیز سے پردوں میں ہیں جس کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، ہمارے کانوں میں ڈاٹ پڑے ہیں جس سے وہ سماع حق سے بند اور محروم ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان عقائد و نظریات اور مسلک  و مذہب کے اعتبار سے ایک ایسا سخت پردہ حائل ہے جس کے بعد ہمارے اور تمہارے ملنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ پس اب تم جو کچھ کر سکتے ہو کر دیکھو۔ اور ہم بھی جو کچھ کرنے والے ہیں وہ اب بغیر کسی پس و پیش کے کر کے رہیں گے۔ یعنی تم جس عذاب کی دھمکی ہمیں دے رہے ہو، وہ ہم پر واقع کر دو۔ سو اس سے انہوں نے واضح کر دیا کہ اب ان کے اندر خیر اور بھلائی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی، اس لئے ان کے وجود کا کوئی حق نہیں، اور یہی ہے محرومیوں کی محرومی، والعیاذُ باللہ العظیم،

۷۔۔  سو اس سے پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی کہ ان سے کہو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں تم ہی لوگوں جیسا ایک بشر ہوں۔ البتہ تم سے یہ فرق و امتیاز رکھتا ہوں کہ میری طرف اس اہم اور بنیادی حقیقت کی وحی کی جاتی ہے کہ معبود حقیقی تم سب لوگوں کا بہر حال ایک ہی معبود ہے۔ اس کا کوئی شریک وسہیم نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، پس تم سب لوگ یکسو ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ اپنا رُخ اس کی طرف کر لو۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کے ہو کر رہو۔ اور شرک کی جس نجاست سے تم لوگ اب تک ملوث و آلودہ رہے ہو۔ اس سے توبہ کرو۔ اور اس سے اس کی معافی مانگو۔ کہ یہی تقاضائے عقل و نقل ہے، اور اسی میں تم لوگوں کا بھلا ہے۔ اور اس حقیقت کو بھی بہر حال یاد رکھو کہ بڑی خرابی، اور ہلاکت و بربادی ہے ان مشرکوں کے لئے جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یعنی وہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے مزعوم و من گھڑت معبودوں اور سفارشیوں کے بل بوتے، اور ان کے جھوٹے سہارے پر، نچنت اور بے فکر بیٹھے ہیں، سو زکوٰۃ سے یہاں پر مراد انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اسلام کے مکی دور میں یہ لفظ اسی معنی و مفہوم میں استعمال ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ مدنی دور میں اس کی ایک با ضابطہ شکل متعین کر دی گئی۔ اور اس کے بعد اس کا اطلاق اسی مشہور معروف معنی و مفہوم پر ہونے لگا۔ اور اسی پر اب تک معروف ہے۔ سو مدعا و مقصود اس جواب سے یہ بتانا ہے کہ اللہ کا رسول ہونے کے اعتبار سے میرا یہ منصب اور ذمہ داری ہے کہ میں تم لوگوں کو حق اور حقیقت سے آگاہ کر دوں۔ اور تم کو اس عذاب اور انجام سے خبردار کر دوں جو کفر و شرک کے نتیجے میں اور تمہاری غفلت و لاپرواہی کی بناء پر تم لوگوں پر آنے والا ہے، رہ گئی یہ بات کہ وہ عذاب تم پر کب اور کس شکل میں آئے گا۔ تو اس کا علم و اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اور یہ سب اسی کی حکمت اور مشیت پر موقوف ہے میں نے خدائی اختیارات کا کوئی دعویٰ نہ کبھی کیا ہے، نہ کر سکتا ہوں، تو پھر تم لوگ مجھ سے اس کا مطالبہ کیوں کرتے ہو۔ پس پیغمبر کا منصب اور ان کا کام عذاب لانا نہیں ہوتا، بلکہ عذاب سے خبردار کرنا ہوتا ہے، تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں، پیغمبروں کو منذر اور مبشر بنا کر بھیجا گیا ہوتا ہے کہ نہ ماننے والوں کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے، اور ماننے والوں کو خوشخبری سنائی جائے، اور بس،

۱۱۔۔  سو اللہ تعالیٰ نے جب آسمان اور زمین کو فرمایا کہ تم دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے، خواہ مجبوری سے، تو انہوں نے عرض کیا، کہ ہم خوشی اور رضامندی سے حاضر ہیں سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات کی جو چیزیں فطری اور جبلی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہیں، ان کی یہ اطاعت مجبورانہ نہیں ہوتی، بلکہ ان کی خوشی اور رضامندی سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت و جبلت کو اسلام ہی کے سانچے پر ڈھالا ہے سو کائنات کی ہر چیز اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مسلم اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، فرشتے بھی جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ خدا کی فرمانبرداری پر مجبور ہیں، بلکہ وہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنی خوشی و رضامندی سے کرتے ہیں کہ قدرت نے ان کی فطرت ہی اسلام پر بنائی ہے۔ اس لئے ان سے کبھی اس کی خلاف ورزی صادر نہیں ہو سکتی۔ سو کائنات پوری اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزار و فرمانبردار ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَلَہ اَسْلَمْ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (الٰ عمران۔ ٨۳) یعنی اسی کے لئے فرمانبردار ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے یا مجبوری سے۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ان سب نے۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کُلُّ لَّہ قَانِتُوْنَ (البقرہ۔۱۱۶) یعنی سب کے سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔ زیر بحث آیت کریمہ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کائنات کی جن چیزوں کو ہم لوگ بالکل جمادِ لایعقل سمجھتے ہیں، ان کے اندر بھی ایک خاص قسم کا شعور و ادراک پایا جاتا ہے، جس سے وہ اپنے رب کے حکم کو سمجھتی۔ اور ان کو بجا لاتی ہیں۔ سو اپنے رب کے حکموں کو سمجھنے، اس کی باتوں کا جواب دینے، اس کے ارشادات کی تعمیل کرنے، اور اس کی تحمید و تسبیح کے سلسلہ میں یہ سب پوری طرح عاقل ہیں۔ چنانچہ آسمان اور زمین کی زبان سے یہاں پر جو قول نقل فرمایا گیا ہے، وہ طائعین کے لفظ سے آیا ہے جو کہ ذوی العقول ہی کے لئے موزوں ہے۔ پس آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتی ہے۔ اگرچہ ہم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۔ سو ہم اگر ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے، اور ان سے خطاب نہیں کر سکتے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بالکل جماد لایعقل ہیں، اور ہمیں اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان کو بالکل لایعقل قرار دے دیں۔ بلکہ یہ ہمارے اپنے علم کی کوتاہی اور نارسائی ہے اللہ تعالیٰ کائنات کے ایک ایک ذرے کی تسبیح و تحمید کو سمجھتا ہے، اور ہر ذرہ اس کے حکموں کو سمجھ کر اس کی تعمیل کرتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، نیز یہاں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ کتنے بدبخت اور کس قدر محروم ہیں جو اس کائنات اور اس کی ہر چیز کے برعکس عقل و فہم رکھنے کے باوجود اپنے خالق و مالک کی نافرمانی اور حکم عدولی کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، اَللّٰہُمَّ فَہٰذہ نُواصِیْنَا بَیْنَ یَدَیْکَ فَخُذْنَا بِہَا اِلیٰ مَافِیْہِ حُبُّکَ وَرِضَاکَ بُکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، فَنَحْنُ لَک، وَبِکَ، وَمِنْکَ، وَاِلَیْکَ، یاذَا الْجَلَالِ والاکرام،

۱۶۔۔  سو اس ارشاد سے ایک تو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انکار و تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی طرف سے ان کو جو ڈھیل ملتی ہے وہ بہر حال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے جس کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جس کے بعد ایسے لوگ اپنے مصیر محتوم کو پہنچ کر رہتے ہیں، اور اس موقع پر ایسی معذب قوموں کو ان کی مادی ترقی، یا جسمانی قوت، وغیرہ میں سے کوئی بھی چیز نہ اس عذاب کو روک سکتی ہے، اور نہ ان کے کچھ کام آ سکتی ہے سو قوم عاد کا انجام اس کی ایک نہایت واضح مثال ہے، جن کو اپنی جسمانی قوت اور اپنے ڈیل ڈول پر اتنا ناز تھا کہ وہ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً (ہم سے بڑھ کر طاقت اور کس کی ہو سکتی ہے؟) کے نعرے لگایا کرتے تھے، وہ سب کے سب آخرکار اس طرح ذلت آمیز انجام سے دو چار ہوئے۔ اور ہمیشہ کے لئے نمونہ عبرت بن گئے۔ اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی منکر قوموں کے لئے اسی دنیاوی عذاب پر بس نہیں، بلکہ اس دنیاوی عذاب کے بعد ان کے لئے آخرت کا دائمی عذاب ہے جو اس دنیاوی عذاب سے کہیں بڑھ کر رسوا کن ہو گا اور وہ دائمی اور ابدی بھی ہو گا۔ اور تمام خلائق کے سامنے بھی اور ان کی کہیں سے کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی نہ ان کی وہ قوت و جمعیت ان کے کچھ کام آ سکے گی، جس پر ان کو بڑا ناز اور گھمنڈ تھا۔ اور نہ ان کے وہ خود ساختہ معبود اور من گھڑت دیویاں اور دیوتے ان کے کچھ کام آ سکیں گے جن پر ان کا تکیہ اور بھروسہ تھا۔ اور جن کی بناء پر لوگ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ سو کفر و انکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام ہمیشہ کا خسارہ اور ابدی محرومی ہے والعیاذ باللہ العظیم

۱۸۔۔  یعنی قوم عاد اور ثمود میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات و ہدایات کے مطابق تقوی و پرہیزگاری کی زندگی اختیار کی، ان کو ہم نے اس عذاب سے بچا لیا۔ اور قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اسی کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے، کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ساتھ محفوظ رکھا۔ سو عذاب الٰہی سے حفاظت و پناہ کا ذریعہ ایمان و تقویٰ ہی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، نیز اس سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا تھا کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، حضرات انبیاء و رسل تک اسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج ہیں، چنانچہ یہاں بھی ارشاد فرمایا گیا کہ ہم ہی نے نجات دی ان لوگوں کو جو ایمان لائے، اور انہوں نے تقوی و پرہیزگاری کا راستہ اختیار کیا، اور جب حضرات انبیاء و رسل بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں ہو سکتے تو پھر اور کون ہے جو حاجت روا و مشکل کشا ہو سکے؟ اور مافوق الاسباب کسی کے کام آ سکے؟

۲۱۔۔  سو جس طرح تمہارا وجود اور تمہاری پہلی مرتبہ کی پیدائش اس بات کی شاہد اور گواہ ہے کہ تمہارا خالق اور موجد اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، اس میں کسی اور کا کسی بھی طرح کا اور کسی بھی درجے میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی شک وشبہ سے بالا ہے کہ تمہارا رجوع اور لوٹنا بھی اسی کی طرف ہے۔ نہ کہ کسی اور کی طرف، پس جن لوگوں نے اپنے خود ساختہ اور من گھڑت خداؤں۔ اور فرضی و وہمی دیویوں اور دیوتاؤں پر تکیہ کر رکھا ہے۔ یا جو تناسخ اور آواگون کے قائل ہیں وغیرہ وغیرہ، وہ سب اوہام و خرافات میں مبتلا ہیں، اصل اور حقیقت یہی ہے کہ سب کا رجوع اللہ ہی طرف ہو گا۔ سبحانہ و تعالیٰ،

۲۳۔۔  سو اپنے رب کے بارے میں یہ گمان رکھنا کہ وہ میرے بہت سے کاموں کو نہیں جانتا کہ میں ایسے کام چھپ چھپا کر کر لیتا ہوں محرومیوں کی جڑ بنیاد ہے، کہ اس سے ایک طرف تو انسان بے فکر لا اُبالی اور نچنت ہو کر حیوان محض، بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر گھٹیا اور بری مخلوق بن کر رہ جاتا ہے، دوسری طرف وہ اپنے رب کی اس خاص رحمت و عنایت سے محروم ہو جاتا ہے، جو اس سے خاص تعلق اور اس کے ذکر اور اس کی یاد دلشاد کے نتیجے میں نصیب ہوتی ہے اور تیسری طرف وہ اپنی آخرت اور وہاں کی اصل حقیقی اور اَبَدی زندگی کے تقاضوں اور اس کی تیاری کے اصل مقصد سے غافل اور لا پرواہ ہو کر اس سب سے بڑے اور انتہائی ہولناک خسارے میں گر جاتا ہے جس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت اس کے لئے ممکن نہیں رہتی۔ والعیاذُ باللہ، جبکہ اس کے برعکس اپنے رب کی یاد، اور اس کے علم و آگہی کا استحضار ایک طرف تو انسان کو راہ حق و صواب پر ثابت و مستقیم رکھتا ہے۔ دوسری طرف وہ اپنے اسی ذکر و استحضار کی بناء پر، اور اس کے نتیجے میں ہمیشہ اپنے رب کی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے مستفید و فیض یاب ہوتا رہتا ہے اور تیسری طرف وہ اپنی آخرت کی اصل حقیقی اور اَبَدی زندگی کے لئے بھی برابر سامان کرتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے لوگ آخرکار جنت کی سدا بہار نعمتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سرفراز ہوں گے۔ اور یہی ہے اصل اور حقیقی کامیابی سو ذکر خداوندی سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور اس سے محرومی۔ والعیاذُ باللہ، ہر خیر سے محرومی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حال من الاحوال۔

۲۵۔۔  سو اس سے اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی اس سنت کو بیان فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منہ موڑ لیتی ہے تو اس پر شیاطین کو مسلط کر دیا جاتا ہے، جو اس وقت تک اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ وہ اس کو عذاب الٰہی میں گرفتار نہ کرا لیں، اور شیاطین جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں، اور انسانوں میں سے بھی۔ سو یہ شیاطین ان لوگوں کے سامنے ان کے اعمال و کردار اور ان کے آگے پیچھے کو ایسا مزین کر کے پیش کرتے ہیں، کہ ان کو اس میں کوئی خلا نظر ہی نہیں آتا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ سب ٹھیک ہے، جس کے نتیجے میں وہ کسی ناصح مخلص اور داعیِ حق کی بات کو سننے ماننے اور دعوت حق و ہدایت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ایسے لوگوں پر عذاب الٰہی کا وہ وعدہ پکا اور ثابت ہو جاتا ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں کے لئے فرما رکھا ہوتا ہے اور اس طرح ایسے منکرین کو ہمیشہ کے عذاب میں دھر لیا جاتا ہے، اور یہی وہ سنت خداوندی ہے جس کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا ہے وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقِیِّضْ لَہٗ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْن (الزخرف۔ ۳۶) یعنی جو خدائے رحمان کی یاد سے اندھا بن جاتا ہے اس پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔ پھر وہی اس کا ساتھی بن جاتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو خداوند قدوس کی یاد دلشاد دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس سے محرومی، والعیاذُ باللہ، ہر خیر سے محرومی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے، آمین ثم آمین،

۳۰۔۔  اہل کفر و باطل اور محروم و بدبخت لوگوں کے حال و مآل کو بیان کرنے کے بعد اس سے سعادت مند اور نیک بخت لوگوں کا حال ومآل بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ دونوں نمونے سامنے رہیں، اور اس طرح انسان اپنے ارادہ و اختیار سے ان دونوں میں سے جونسا نمونہ چاہے اختیار کرے کہ یہی مدار ابتلاء و آزمائش ہے اور اسی پر اس کے مآل و انجام کا انحصار ہے، سو ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے دعوت حق کو قبول کیا، اور انہوں نے اس حقیقت کے اقرار و اعتراف کے طور پر کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ تمام تر مخالفتوں اور مشکلات کے باوجود پوری دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ اس راہ پر جم گئے، تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، جو ان سے کہتے ہیں کہ آپ لوگ نہ کسی قسم کا خوف کھاؤ اور نہ غم اٹھاؤ۔ اور آپ کو خوشخبری ہو اس جنت کی جس کا آپ لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے، اس ارشاد میں فرشتوں کے اس نزول اور ان کی طرف سے دی جانے والی اس تسلی اور دلداری کے بارے میں یہاں پر کسی وقت یا حالت کی کوئی تخصیص و تقیید نہیں فرمائی گئی، یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ فرشتے کب اترتے ہیں۔ جس سے عموم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے سو یہ فرشتے ایسے بندگان صدق و صفاء پر اس دنیا میں بھی مختلف حالات اور مواقع پر اترتے ہیں اور اہل ایمان کا ساتھ دیتے اور مشکلات میں ان کی ہمت بندھاتے ہیں، اور انسان ان کی معیت و نصرت اور ان کی تائید و تقویت سے اسی وقت محروم ہوتا ہے، جبکہ وہ فرشتوں کی نصرت و امداد اور ان کی ہدایت و راہنمائی کی ناقدری کر کے اپنی باگ شیطان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا۔ نیز یہ فرشتے ایسے ایمان والوں پر اس وقت بھی نازل ہوتے ہیں جبکہ انسان جانکنی کے سب سے مشکل مرحلے سے گزر رہا ہوتا ہے، اس وقت بندہ مومن فرشتوں کی اس دلداری اور ان کی طرف سے ملنے والے اس تسلیہ تسکین کے نتیجے میں شاداں و فرحاں اس دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرتا ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی تفصیل کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے مگر فرشتوں کے اس تسلیہ و تسکین کا سب سے بڑا اور کامل مظہر آخرت میں سامنے آئے گا جبکہ فرشتے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے ان سے کہیں گے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ یعنی سلام ہو تم پر، تم کامیاب اور فائز المرام رہے پس ابتلاء و آزمائش کا دور اب ختم ہوا۔ اب آپ لوگوں کے لئے نہ کسی طرح کا کوئی خوف ہو گا نہ غم۔ بلکہ تمہارے لئے ہمیشہ کا آرام و راحت ہے تمہارے لئے اس جنت کی بشارت ہے جس کا وعدہ آپ لوگوں سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل کے ذریعے کیا جاتا رہا، ہم دنیا میں بھی آپ لوگوں کے ساتھی تھے، اور اب آخرت میں بھی آپ کے ساتھی رہیں گے، اب اس جنت میں آپ لوگوں کے لئے وہ سب کچھ ہے جس کے لئے آپ کا جی چاہے گا۔ اور یہاں آپ کو وہ سب کچھ ملے گا جو آپ لوگ طلب کریں گے، اور ہر خواہش کا پورا ہونا وہ عظیم الشان اور بے مثال نعمت ہے جس کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور جو اس دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ مگر وہاں پر یہ عظیم الشان اور بے مثال نعمت ہر جنتی کو حاصل ہو گی۔ سو جنت میں ہر شخص کو بادشاہی اور حقیقی بادشاہی سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ اللہ ہم گنہگاروں کو بھی نصیب فرمائے۔ اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ سو ایمان و استقامت، سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۳۷۔۔  سو اس آیت کریمہ سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ رات اور دن اور سورج و چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ یعنی یہ نشانیاں ہیں اس کی قدرت مطلقہ، حکمت بالغہ، اور رحمت شاملہ، کی اور یہ سب اپنی گردش، اپنی آمدورفت اور اپنے ایاب و ذہاب، اپنے عروج و زوال، اور اپنے طلوع و غروب، سے اپنی تسخیر اور اپنی محکومیت کی گواہی دے رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی زبان حال سے پکار پکار کہہ رہا ہے کہ نہ وہ خدا ہے نہ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی بھی درجے میں خداوند قدوس کی خدائی میں شریک ہو سکتا ہے۔ بلکہ خالق کائنات نے اس کو ایک پُرزے کی طرح اپنی اس وسیع و عریض اور حکمتوں بھری کائنات میں جہاں جوڑ دیا، اور جس کام میں لگا دیا، وہ اسی میں، اور اس طرح لگا ہوا ہے، اور جو خدمت اس کے حوالے کر دی گئی وہ بلا چون و چرا اس کو انجام دیئے جا رہا ہے، سو ان میں سے ہر ایک کی اس شہادت کے بعد اس کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھنا اور اس کے لئے مراسم عبودیت بجا لانا محض حماقت و جہالت اور نرا ظلم ہے، پس جب ان میں سے کوئی بھی چیز خداوند قدوس کی خدائی میں شریک نہیں۔ بلکہ اس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور ان کو حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہٗ نے پیدا فرما کر انسان کی خدمت اور اس کے کام میں لگا دیا۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ عبادت و بندگی کے حقدار یہ نہیں بلکہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے جس نے ان کو پیدا فرما کر انسان کی خدمت اور اس کے کام میں لگا دیا۔ اس لئے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت و بندگی صرف اس اللہ ہی کی کی جائے جو کہ ان سب کا خالق و مالک ہے، اور دوسری اہم اور بنیادی حقیقت اس آیت کریمہ میں اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ سے یہ واضح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے لئے وہی عبادت و بندگی مطلوب ہے جو خالص اسی کے لئے ہو، کسی اور کے لئے کسی بھی طرح کی عبادت و بندگی نہ بجا لائی جائے، کہ ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، کہ معبود برحق بہر حال وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور سجدہ چونکہ عبادت کا سب سے بڑا مظہر ہے اس لئے اس کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حق اور اسی کا احتمال ہے،

۳۸۔۔  سو اس آیت کریمہ سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی کو ظاہر اور واضح فرما دیا گیا ہے، اور دوسری طرف اس میں منکرین و  مستکبرین کے لئے ان کو جھنجھوڑنے والی تنبیہ و تذکیر بھی ہے، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں اس معبود برحق کی عبادت و بندگی سے منہ موڑتے ہیں تو اس سے کوئی اس کی بزم اجڑ نہیں جائے گی، بلکہ یہ خود اس سعادت کبری سے محروم ہوں گے، ورنہ اس وحدہٗ لاشریک کی عبادت و بندگی کے لئے تو فرشتوں کی وہ پاکیزہ اور نوری مخلوق موجود ہے، جو دن رات اس کی تسبیح و تحمید میں مشغول و منہمک رہتی ہے، اور اس میں وہ اس طرح سرگرم رہتے ہیں کہ کبھی تھکتے نہیں، اور ان کی اس سرگرمی میں پل بھر کا کوئی فرق نہیں واقع ہوتا۔ تو ایسے میں اگر منکرین و مکذبین اس معبود برحق کی عبادت و بندگی سے منہ موڑیں گے، والعیاذُ اللہ، تو اس سے اس وحدہٗ لاشریک کا تو کچھ بھی نہیں بگڑے گا، مگر ایسے لوگ اس سب سے بڑی سعادت سے محروم ہو جائیں گے، والعیاذُ اللہ العظیم،

۴۲۔۔  سو اس سے اس کتاب حکیم کی عظمت شان کے کئی اہم پہلوؤں کو واضح فرما دیا گیا۔ چنانچہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ کتاب حکیم ایسی عظمت شان کی حامل ہے کہ شیاطین جن و انس اس میں گڑ بڑ پیدا کرنے کے لئے جتنا بھی زور لگائیں، وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ ان کی دسترس سے بہت اعلیٰ و بالا ہے۔ باطل نہ اس کے آگے سے اس میں گھس سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و حکمت سے اس کو شیاطین کی دست درازی سے ہمیشہ کے لئے اور ہر طرح سے محفوظ بنا دیا ہے۔ یہ آگے اور پیچھے سے بالکل محفوظ ہے اس کو اتارنے والا اللہ ہے، جو کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک۔ اور بلا شرکت غیرے اس میں حاکم و متصرف اور ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اور اس کو لانے والے جبرائیل امین ہیں جو کہ ذی قوۃ، قوی، امین فرشتوں کے سردار و سربراہ، اور عند ذی العرش مکین، جیسی عظیم الشان اور بے مثال صفات کے حامل ہیں، وہ تمام فرشتوں کے سردار اور ایسی عظیم الشان قوتوں کے مالک ہیں کہ ارواح خبیثہ میں سے کسی کے ان پر اثر انداز ہونے کا کوئی سوال و امکان ہی نہیں۔ اور اس کے حامل محمد رسول اللہ ہیں، جو کہ افضل الخلائق اور حضرات انبیاء و رسل کے امام و پیشوا ہیں۔ اور ان سے آگے اس کو قبول اور نقل کرنے والے مخلوق کے پاکیزہ ترین اخیار و صالحین ہیں، سو یہ کتاب حکیم اول سے آخر تک این خانہ ہمہ آفتاب است کی مصداق ہے اس میں شیاطین کی در اندازی کے لئے کہیں بھی کوئی منقذ اور راستہ نہیں۔ نہ اس کے آغاز و ابتداء کی طرف سے، اور نہ اس کے خاتمے اور انتہاء کی طرف سے۔ نیز یہ آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں سے وہ واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے اور صاف و صریح طور پر اس کا اعلان و اظہار فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلَنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ یعنی اس ذکر حکیم کو ہم ہی نے اتارا ہے، اور ہم خود ہی اس کے محافظ ہیں، اس کے برعکس تورات و انجیل وغیرہ کی حفاظت کی ذمہ داری خود ان کے حاملین پر ڈالی گئی تھی، اور وہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری کا حق نہ ادا کر سکے۔ جس کے نتیجے میں ان کو محرف کر کے کچھ کا کچھ بنا دیا گیا۔ اور ان کو اس حد تک بدل اور بگاڑ کر رکھ دیا گیا کہ ان کے اندر حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز کرنا بھی ناممکن ہو گیا۔ لیکن قرآن حکیم کی حفاظت کی ذمہ داری چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے، اس لئے یہ ہر قسم کی تحریف و آمیزش سے آج تک پوری طرح محفوظ ہے، اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ اسی طرح یہ کتاب حکیم اپنی فصاحت الفاظ اور بلاغت معانی کے لحاظ سے بھی ایسا عظیم الشان اور بے مثال معجزہ ہے کہ اس میں کسی اور کلام کا پیوند سرے سے لگ ہی نہیں سکتا، و الحمدللہ جل وعلا، سو یہ کتاب عزیز عزت و عظمت اور غلبہ و سطوت کا منبع و مصدر ہے، پس جو صدق دل سے اس کتاب عزیز کے ساتھ لگ گئے، اور انہوں نے اس کی تعلیماتِ مقدسہ اور ہدایات عالیہ کو اپنا لیا وہ سچی عزت و عظمت سے ہمکنار و سرفراز ہو گئے، اور جنہوں نے اس سے منہ موڑا وہ محروم ہو گئے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے یہ اہم حقیقت بھی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اب وحیِ خداوندی کا نور اس کتاب حکیم کے سوا اور کہیں سے ملنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ دنیا میں نور وحی کا منبع و مصدر صرف یہی کتاب حکیم ہے اور بس، پس جو اس پر ایمان سے محروم ہیں، وہ نور وحی سے یقیناً اور قطعاً محروم ہیں، والعیاذُ اللہ العظیم،

۴۷۔۔    یعنی اس کا آنا تو یقینی اور ایک قطعی حقیقت ہے کہ وہ اس کائنات کے وجود اور اس کے خالق کی صفات کا ایک بدیہی تقاضا ہے۔ آفاق و انفس اور عقل و فطرت سب اس کے گواہ ہیں، اس لئے اس نے آنا تو بہر حال ہے اور وہ ایک ہوئی شدنی عظیم الشان حقیقت (الحاقَۃُّ) ہے، لیکن وہ کب آئے گی؟ تو اس کا علم اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کو ہے، وہی جانتا ہے کہ وہ کب وقوع پذیر ہو گی۔ پس اس سے منکرین و مکذبین کے ان تمام سوالات کا جواب دے دیا گیا، جو وہ بطور مذاق و استہزاء قیامت کے بارے میں کرتے تھے کبھی وہ کہتے مَتیٰ ہُوَ؟ وہ کب نمودار ہو گی؟ کبھی کہتے مَتیٰ ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ؟ کب پوری ہوئی تمہاری یہ دھمکی اگر تم لوگ سچے ہو؟ اور کبھی کہتے اَیَّانَ مُرْسَاہَا؟ کب لنگر انداز ہو گا اس کا جہاز؟ یعنی یہ جہاز جو کبھی کا چلا ہوا ہے کہاں رک یا؟ آخر یہ لنگر انداز کیوں نہیں ہوتا؟ وغیرہ وغیرہ، سو اس ارشاد سے منکرین کے اس طرح کے تمام سوالات اور اعتراضات کا جواب دے دیا گیا، اور اس بارے میں اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اس کے وقوع کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اس کے سوا کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جان سکتا۔ وہی اس کو اس کے اپنے صحیح وقت پر واقع فرمائے گا۔ سبحانہ و تعالیٰ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا، اور حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا، لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا اِلاَّ ہُوَ الایٰۃ (الاعراف۔۱٨۷)  یعنی آج تو یہ لوگ اپنے جن خود ساختہ حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں اور من گھڑت دیویوں اور دیوتاؤں کے سہارے پر اس قدر نچنت اور بے فکر و لا پرواہ ہوئے بیٹھے ہیں، کہ حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اس روز پہلی ہی پکار پر ان کا یہ سب نشہ ہرن ہو جائے گا، اور یہ چیخ اور پکار کر کہیں گے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا اقرار و اعتراف کرنے والا نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے۔ اور یہی مضمون اس سے پہلے سورہ المؤمن میں بھی گزر چکا ہے، اور وہاں پر اس بات کی بھی تصریح موجود ہے کہ اس موقع پر یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تمام مزعومہ اور من گھڑت شرکاء ان سے کھو گئے، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم کسی چیز کو پوجتے پکارتے ہی نہیں تھے۔ چنانچہ وہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ من گھڑت شفعاء و شرکاء جن کو تم لوگ اللہ کے مقابلے میں شریک گردانا کرتے تھے؟ (ثُمَّ قِیْلَ لَہُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ؟) تو اس کے جواب میں یہ فوراً کہیں گے کہ وہ سب کھو گئے ہم سے۔ بلکہ اس سے پہلے ہم کسی چیز کو پوجتے پکارتے ہی نہیں تھے اسی طرح اللہ حواس باختہ کر دیتا ہے کافروں کو۔ یعنی ان کے اپنے اختیار کردہ کفر و انکار کی بناء پر۔قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا کَذَالِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکٰفِرِیْنَ(المؤمن۔۷۳۔۷۴) سو قرآن حکیم نے اپنے کرم و احسان سے مشرکوں کو اس حقیقت سے پیشگی اور اسی دنیا میں آگاہ کر دیا کہ ان کے یہ خود ساختہ اور من گھڑت معبود ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکیں گے۔ اور ان کے سہارے اور اعتماد پر اپنی آخرت اور انجام سے نچنت اور بے فکر ہو جانا بڑی حماقت و بلادت اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر ثابت قدم رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۵۲۔۔  سو اس سے منکرین و مکذبین کے قلوب و ضمائر پر دستک دی گئی ہے کہ تم لوگ اس کتاب حکیم کے بارے میں اس پہلو سے بھی ذرہ سوچو اور غور کرو کہ اس بات کا امکان تو بہر حال موجود ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو۔ کیونکہ اس امکان کا تو کوئی ہٹ دھرم سے ہٹ دھرم انسان بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تو اس اعتبار سے بھی دانشمندی کا تقاضا اور انجام بینی کا مطالبہ یہی ہے کہ تم لوگ اسی کی تعلیمات کو اپنا لو۔ کہ اس میں تمہارا نقصان کچھ بھی نہیں، اور فائدہ بہر حال ہے، اور بہت بڑا فائدہ ہے اور اگر اس کے برعکس تم لوگوں نے محض عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اس کا انکار ہی کیا تو یہ چیز تم کو راہ حق و ہدایت سے اتنا دور لے جا کر پھینک دے جہاں سے تمہاری واپسی کا پھر کوئی امکان ہی باقی نہ رہے، اور اس کے نتیجے میں تم ہمیشہ کے ہولناک خسارے میں مبتلا ہو جاؤ، پس تم لوگ اپنے نفع و نقصان کے بارے میں اس پہلو سے خود سوچ لو۔

۵۴۔۔  سو اس سے منکرین و معاندین کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کے اصل سبب اور علت فساد سے پردہ اٹھا دیا کہ ان لوگوں کی اصل بیماری یہ ہے کہ یہ اپنے رب کے حضور پیشی کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس چیز نے ان کے زاویہ نگاہ ہی کو بدل دیا۔ اور ان کو بے راہ کر دیا۔ اور اسی کے نتیجے میں یہ لوگ حق کے انکار اور اس کی مخالفت میں دلیر اور نڈر ہو گئے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پوری طرح سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔ نہ کوئی چیز اس کے احاطہ علم و آگہی سے باہر ہو سکتی ہے۔ اور نہ اس کے دائرہ گرفت و پکڑ سے خارج ہو سکتی ہے اس لئے ہر کسی نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب وبرید، بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وبہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ حم السجدۃ بحمد اللہ تعالیٰ وعونہ سبحانہ و تعالیٰ