اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔
۱۔۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، پورا کرو تم اپنے عہدوں کو، حلال کئے گئے تمہارے لئے چوپائے قوم کے سب جانور بجز ان کے جو تمہیں (آگے ) سنائے جائیں گے ، مگر شکار کو حلال نہ سمجھنا احرام کی حالت میں ، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے ،
۲۔۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم حلال نہ سمجھ لینا اللہ کی نشانیوں (کی بے حرمتی) کو، اور نہ ہی حرمت والے مہینے کو، اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو، اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں (قربانی کی نشانی کے طور پر) پٹے ڈالے ہوں ، اور نہ ان لوگوں کو (چھیڑنا) جو اپنے رب کے فضل اور اس کی رضامندی کی تلاش میں اس حرمت والے گھر (بیت اللہ) کی طرف جا رہے ہوں ، اور جب تم احرام سے نکل جاؤ تو تم شکار کر سکتے ہو، اور دیکھو کسی قوم کی دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا تم کو اس بات پر ابھارنے نہ پائے کہ تم زیادتی کرنے لگو، اور آپس میں نیکی اور پرہیز گاری (کی بنیاد) پر ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی (کی بنیاد) پر ایک دوسرے کی مدد مت کرنا، اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ بے شک اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے ،
۳۔۔۔ حرام کر دیا گیا تم پر مردار، خون، سور کا گوشت، اور ہر اس چیز کو جس کو غیر اللہ (کی تعظیم و خوشنودی) کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو اور جو جانور مر جائے گلا گھٹنے سے ، یا چوٹ لگنے سے ، یا مر جائے گر پڑنے سے ، یا سینگ لگنے سے ، اور جس کو پھاڑ ڈالے کوئی درندہ، مگر (ان میں اسے ) جس کو تم ذبح کر لو، نیز جسے ذبح کیا گیا ہو آستانوں پر، اور یہ کہ تم باہم حصے معلوم کرو جوئے کے تیروں سے ، کہ یہ سب گناہ ہیں ، آج کے دن مایوس ہو گئے کافر لوگ تمہارے دین (کے مٹنے اور مغلوب ہونے ) سے پس تم لوگ ان سے نہیں ڈرنا بلکہ خاص مجھ ہی سے ڈرتے رہنا، آج میں نے مکمل کر دیا تمہارے لئے تمہارے دین کو، اور پورا کر دیا تم پر اپنے انعام کو، اور پسند کر لیا تمہارے لئے اسلام کو (ہمیشہ کے ) دین کے طور پر، پھر جو کوئی مجبور ہو گیا (اور اس نے ان ممنوعہ چیزوں میں سے کچھ کھا لیا) بشرطیکہ اس کا کسی گناہ کی طرف میلان نہ ہو، تو (اس پر کوئی گناہ نہیں کہ) بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۴۔۔۔ پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر!) کہ کیا حلال ہے ان کے لئے ؟ تو آپ (انہیں ) بتا دیں کہ حلال کر دی گئیں تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں ، اور ان شکاری جانوروں کے شکار بھی جن کو تم نے سکھایا (سدھایا) ہو، ان طریقوں سے جو تم کو سکھائے ہیں اللہ نے ، بشرطیکہ ان کو تم نے خود چھوڑا ہو، پس کھاؤ تم اس (شکار) میں سے ، جو انہوں نے پکڑا ہو تمہارے لئے ، اور اس پر نام لیا کرو اللہ کا، اور (ہر حال میں ) ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے ، بے شک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے ۔
۵۔۔۔ اب حلال کر دی گئیں تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں ، اور کھانا ان لوگوں کا جن کو کتاب دی گئی تم سے پہلے حلال ہے تمہارے لئے ، اور تمہارا کھانا حلال ہے ان کے لئے اور پاک دامن مسلمان عورتیں بھی، اور پاک دامن عورتیں ان لوگوں میں سے بھی جن کو دی گئی کتاب تم سے پہلے ، جب کہ تم ادا کر دو ان کو ان کے مہر، اس حال میں کہ انکو نکاح میں لانا (اور بیوی بنا کر رکھنا) مقصود ہو، نہ کہ محض مستی نکالنا، اور خفیہ آشنائیاں کرنا، اور جس نے کفر کیا ایمان (لانے کی چیزوں کے ) ساتھ، تو اکارت چلے گئے اس کے سب عمل، اور وہ آخرت میں سخت خسارے والوں میں سے ہو گیا،
۶۔۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، جب تم اٹھو نماز کیلئے تو دھو لیا کرو اپنے چہروں کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک، اور مسح کر لیا کرو تم، اپنے سروں کا، اور (دھو لیا کرو تم) اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک، اور اگر تم جنبی ہوا کرو تو اچھی طرح پاک ہو لیا کرو (غسل کر کے ) اور اگر تم بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہوا کرو، یا تم میں سے کوئی (فارغ ہو کر) آیا ہو جائے ضرورت سے ، یا تم نے صحبت کی ہو اپنی عورتوں سے ، پھر تمہیں پانی نہ مل سکے ، تو (ان تمام صورتوں میں ) تم تیمم کر لیا کرو پاک مٹی سے ، سو تم اس (پر ہاتھ مار کر اس) سے مسح کر لیا کرو اپنے چہروں ، اور اپنے ہاتھوں کا، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے ، لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کر دے (ہر ناپاکی سے ) اور تم پر پورا کر دے اپنی نعمت کو، تاکہ تم لوگ شکر ادا کرو،
۷۔۔۔ اور یاد کرو تم اللہ کے اس احسان کو جو اس نے فرمایا تم لوگوں پر، اور اس کے اس پختہ عہد (و پیمان) کو جو اس نے تم سے لیا، جب کہ تم نے (اس کو قبول کرتے ہوئے ) کہا تھا کہ ہم نے سنا، اور مانا، اور ہمیشہ ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے ، بے شک اللہ خوب جانتا سینوں میں چھپے بھیدوں کو،
۸۔۔۔ اے ایمان والو، ہو جاؤ تم قائم کرنے والے انصاف کو، اللہ (کی رضا) کے لئے گواہ بن کر (حق و انصاف کے ) اور (خبردار ابھارنے اور اکسانے ) نہ پائے تم لوگوں کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم لوگ انصاف چھوڑ دو، تم انصاف کرتے رہو کہ وہ بہر حال زیادہ قریب ہے تقویٰ ( پرہیزگاری) کے ، اور ہمیشہ ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے ، بے شک اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،
۹۔۔۔ وعدہ فرما دیا اللہ نے ان لوگوں سے جو (صدق دل سے ) ایمان لائے ، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ، کہ ان کے لئے عظیم الشان بخشش بھی ہے ، اور بہت بڑا اجر بھی،
۱۰۔۔۔ اور (اس کے برعکس) جن لوگوں نے کفر کیا اور انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، وہ ساتھی ہیں دوزخ کے ،
۱۱۔۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو تم اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ پکا ارادہ کر لیا تھا، ایک قوم نے تم پر دست درازی کا، تو اس نے روک دیا ان کے ہاتھوں کو تم لوگوں سے (اپنی حکمت و عنایت سے ) اور تم ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے ، اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو،
۱۲۔۔۔ اور بلا شبہ اللہ نے پختہ عہد لیا ہے بنی اسرائیل سے (جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ) اور ہم نے مقرر کئے (ان کی نگرانی و دیکھ بھال کے لئے ) انہی میں سے بارہ سردار، اور (مزید یہ کہ) اللہ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، (اور اس عہد کا خلاصہ یہ تھا کہ) اگر تم نے قائم رکھا نماز کو، اور تم ادا کرتے رہے زکوٰۃ، اور تم (صدق دل سے ) ایمان لائے میرے رسولوں پر، اور تم نے مدد کی ان کی (راہ حق میں ) اور تم نے قرض دیا اللہ کو، تو میں ضرور مٹا دوں گا تم سے تمہاری برائیاں ، اور تمہیں داخل کر دوں گا ایسی عظیم الشان جنتوں میں ، جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں ، پھر جس نے کفر کیا اس کے بعد تو یقیناً وہ بھٹک گیا سیدھی راہ سے ،
۱۳۔۔۔ پس بوجہ توڑ دینے کے ان لوگوں کے اپنے عہد (و پیمان) کو، ہم نے لعنت کر دی ان پر، اور سخت کر دیا ان کے دلوں کو، (اب ان کا حال یہ ہے کہ) وہ بدل دیتے ہیں کلام الٰہی کو اس کے اصل موقع سے ، اور انہوں نے بلا دیا ایک بڑا حصہ اس نصیحت کا جو ان کو کی گئی تھی، اور تم ہمیشہ مطلع ہوتے رہو گے ان کی کسی نہ کی خیانت (و بددیانتی) پر، بجز ان میں کے معدودے چند لوگوں کے ، پس معاف کر دو تم ان کو اور درگزر رہی سے کام لو ان کے بارے میں ، بے شک اللہ محبت رکھتا ہے احسان کرنے والوں سے
۱۴۔۔۔ اور ہم نے ان لوگوں سے بھی عہد لیا جو (کہ نصرت دین کے دعوت سے ) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں مگر انہوں نے بھی بھلا دیا ایک بڑا حصہ اس نصیحت کا جو ان کو کی گئی تھی، پھر ڈال دی ہم نے ان کے درمیان دشمنی (کی آگ) اور بیر (کی نحوست) قیامت کے دن تک، اور آخرکار اللہ ان کو بتا دے گا وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے۔
۱۵۔۔۔ اے کتاب والو! بے شک تشریف لا چکے تمہارے پاس ہمارے (یہ آخری) رسول، جو کھول کر بیان کرتے ہیں (خود تمہاری) کتاب کی بہت سی ان باتوں کو جن کو کہ تم لوگ چھپاتے تھے ، اور وہ درگزر سے کام لیتے ہیں بہت سی باتوں کے بارے میں ، بے شک آ گئی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک عظیم الشان روشنی، یعنی کھول کر بیان کرنے والی ایک عظیم الشان کتاب،
۱۶۔۔۔ جس کے ذریعے اللہ سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے ہر اس شخص کو جو پیروی کرتا ہو، اس کی رضا (خوشنودی کی باتوں ) کی، اور ایسوں کو وہ نکال باہر لاتا ہے ، اندھیروں سے روشنی کی طرف، اپنے اذن (و حکم) سے ، اور وہ ان کی راہنمائی فرماتا ہے سیدھی راہ کی طرف،
۱۷۔۔۔ یقیناً کافر ہو گئے وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ حقیقت میں اللہ ہی مسیح ہے بیٹا مریم کا، (ذرا ان سے یہ تو) پوچھو کہ اچھا اگر ایسا ہے تو پھر کون ہے جس کا اللہ کے آگے کچھ بھی بس چل سکے ، اگر اللہ ہلاک کرنا چاہے مسیح بیٹے مریم کو بھی، اور اس کی ماں کو بھی، اور ان سب کو جو روئے زمین پر موجود ہیں ، اور اللہ ہی کی فرمانروائی ہے آسمانوں اور زمین میں بھی، اور اس ساری کائنات پر بھی، جو کہ آسمان و زمین کے درمیان میں ہے ، وہ پیدا فرماتا ہے ، جو چاہتا ہے ، اور اللہ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے ،
۱۸۔۔۔ اور یہود و نصاریٰ نے کہا کہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ، کہو کہ پھر وہ تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے تمہارے گناہوں پر؟ (سو نہیں ایسا نہیں ) بلکہ تم بھی عام انسان ہو اس کی مخلوق میں سے وہ بخشش فرماتا ہے جس کی چاہتا ہے ، اور عذاب دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ، اور اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اس ساری کائنات کی جو کہ ان دونوں کے درمیان میں ہے ، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، (سب کو)
۱۹۔۔۔ اے کتاب والو، بلاشبہ تشریف لا چکے ہیں تمہارے پاس ہمارے (یہ آخری) رسول، جو کھول کر بیان کرتے ہیں تمہارے لئے (احکام شریعت کو) ایسے وقت میں جب کہ بند تھا رسولوں کا آنا، تاکہ تم لوگ یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہیں آیا کوئی خوشخبری سنانے والا، اور خبردار کرنے والا، سو آ چکا تمہارے پاس ایک خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،
۲۰۔۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے ، کہ اے میری قوم، یاد کرو تم لوگ اللہ کے اس انعام (و احسان) کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ اس نے پیدا فرمائے تمہارے اندر کی، اور بادشاہ بنایا تم لوگوں کو، اور تمہیں وہ کچھ عنایت فرمایا جو اس نے دنیا جہاں میں کسی کو نہیں دیا،
۲۱۔۔۔ اے میری قوم، داخل ہو جاؤ تم شام و فلسطین کی) اس مقدس سرزمین میں ، جس کو اللہ نے لکھ رکھا ہے تمہارے لئے ، اور مت لوٹو تم الٹے پاؤں ، کہ اس کے نتیجے میں تم ہو جاؤ خسارے والے ،
۲۲۔۔۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو بڑے سخت (اور زبردست قسم کے لوگ رہتے ہیں ، اور ہم ہرگز وہاں قدم نہیں رکھیں گے ، جب تک کہ وہ وہاں سے نکل جائیں ، ہاں اگر وہ نکل جائیں تو پھر ہم داخل ہونے کو تیار ہیں،
۲۳۔۔۔ اس پر کہا دو شخصوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ ان پر چڑھائی کر کے ان کے دروازے تک تو پہنچو، پس جونہی تم اس طرح ان کے دروازے پر پہنچو گے ، تو یقیناً غلبہ تمہارا ہی ہو گا، اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم واقعی ایماندار ہو،
۲۴۔۔۔ مگر انہوں نے پھر بھی یہی کہا کہ اے موسیٰ ہم تو کسی قیمت پر بھی وہاں داخل نہیں ہوں گے ، جب تک کہ وہ وہاں موجود ہیں ، پس جاؤ تم اور تمہارا رب، اور تم دونوں جا کر (ان سے ) لڑو، ہم تو بہر حال یہیں بیٹھے ہیں ،
۲۵۔۔۔ اس پر موسیٰ نے (اپنے رب کے حضور) عرض کیا کہ اے میرے رب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا مگر اپنی جان کا اور اپنے بھائی کا، پس تو جدائی ڈال دے ہمارے اور ان بدکار لوگوں کے درمیان،
۲۶۔۔۔ ارشاد ہوا کہ اچھا تو پھر قطعی طور پر حرام کر دی گئی ان پر وہ سرزمین چالیس سال تک کے لئے ، بھٹکتے رہیں گے یہ (اس دوران) اسی علاقے میں ، پس آپ کوئی غم (اور افسوس) نہیں کرنا ان نافرمان لوگوں پر،
۲۷۔۔۔ اور پڑھ سناؤ ان کو قصہ آدم کے دو بیٹوں کو حق کے ساتھ، جب کہ ان دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی، تو ان میں سے ایک کی قربانی تو قبول کر لی جائے ، مگر دوسرے کی قبول نہ کی گئی اس پر اس نے (جل کر پہلے سے ) کہا کہ میں تجھے قتل کر ڈالوں گا، تو اس نے جواب دیا کہ (اس میں کسی کا کیا قصور؟) اللہ تو پرہیزگاروں ہی سے قبول فرماتا ہے ،
۲۸۔۔۔ اگر تو نے مجھے قتل کرنے کو ہاتھ اٹھایا تو بھی میں تجھے قتل کرنے کو ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، کہ بے شک میں ڈرتا ہوں اللہ رب العالمین سے ،
۲۹۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تو (اپنی بند اطواری کی وجہ سے ) سمیٹ لے میرے گناہ کو بھی، اور اپنے گناہ کو بھی، پھر تو (اپنے کیے کے نتیجے میں ) ہو جائے دوزخیوں میں سے ، اور یہی ہے بدلہ ظالموں کا،
۳۰۔۔۔ پھر بھی آمادہ کر لیا اس کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر، سو اس نے اس کو قتل کر ڈالا جس کے نتیجے میں وہ ہو گیا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ،
۳۱۔۔۔ پھر بھیجا اللہ نے ایک کوے کو جو زمین کریدنے لگا، تاکہ وہ اس کو دکھلائے (سکھلائے ) کہ وہ کس طرح ٹھکانے لگائے اپنے بھائی کی لاش کو، اس پر اس نے کہا ہائے افسوس میں تو اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو خود چھپا لیتا، پس وہ ہو گیا ندامت اٹھانے والوں میں سے
۳۲۔۔۔ اسی وجہ سے ہم نے لکھ دیا بنی اسرائیل پر (اپنا یہ حکم و فرمان) کہ جس نے قتل کیا کسی انسان کو بغیر کسی انسان کے بدلے کے ، یا بغیر کسی فساد پھیلانے کے زمین میں ، تو اس نے گویا قتل کر دیا سب لوگوں کو، اور (اس کے بالمقابل) جس نے جان بچائی کسی ایک انسان کی تو اس نے گویا زندگی بخش دی سب انسانوں کو، اور بلاشبہ آئے ان کے پاس ہمارے رسول کھلی نشانیاں لے کر، مگر پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ حد سے بڑھنے والے ہی رہے ،
۳۳۔۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ سزا ان لوگوں کی جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے ، اور وہ فساد مچاتے پھر ہیں (اللہ کی) اس زمین میں ، یہی ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے چن چن کر، یا ان کو لٹکا دیا جائے پھانسی پر، یا کاٹ ڈالے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے یا جلا وطن کر دیا جائے ان کو، یہ تو ان کی رسوائی ہے دنیا میں ، اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے ،
۳۴۔۔۔ بجز ان کے جو (سچے دل سے ) توبہ کر لیں قبل اس سے کہ تم ان پر قابو پالو، تو (ان سے حد ساقط ہوئی۔ سو) تم یقین جان لو کہ بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۳۵۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، تم ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے ، اور قرب ڈھونڈتے رہا کرو اس کے حضور رسائی کے لئے اور جہاد کرو تم لوگ اس کی راہ میں تاکہ تم فلاح پا سکو
۳۶۔۔۔ بے شک جو لوگ اڑے رہے اپنے کفر (و باطل) پر، (یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر گئے ) تو ان کے پاس اگر (بالفرض) دنیا بھر کی سب دولت بھی موجود ہو، اور اتنی ہی اس کے ساتھ اور بھی، تاکہ وہ اس کو اپنے بدلے میں دے سکیں قیامت کے دن کے عذاب سے بچنے کے لئے ، تو وہ بھی ان سے (کسی قیمت پر) قبول نہیں کی جائے گی، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے ۔
۳۷۔۔۔ وہ چاہیں گے کہ (کسی طرح) نکل بھاگیں (دوزخ کی) اس آگ سے مگر وہ کبھی بھی اس سے نکلنے نہیں پائیں گے ، اور ان کے لئے دائمی عذاب ہو گا،
۳۸۔۔۔ اور چور خواہ مرد ہو یا عورت، کاٹ دو ان دونوں کے ہاتھ (ان کی کہنیوں سے ) ان کے اپنے کئے کے بدلے میں ، عبرتناک سزا کے طور پر، اللہ کی طرف سے ، اور اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے ،
۳۹۔۔۔ پھر جس نے توبہ کر لی اپنے ظلم کے بعد اور اس نے اصلاح کر لی (اپنے بگاڑ کی) تو بے شک اللہ توجہ فرمائے گا اس پر (اپنی نظر رحمت و عنایت سے کہ) بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۴۰۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بے شک اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی (اس ساری کائنات کی) وہ عذاب دے جس کو چاہے ، اور معاف فرمائے جس کو چاہے ، (کہ وہ مختار کل اور حاکم مطلق ہے ) اور اللہ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے ،
۴۱۔۔۔ اے رسول آپ کو غم میں نہ ڈالنے پائیں وہ لوگ، جو دوڑ کر گرتے ہیں کفر (کی دلدل) میں خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنے مونہوں سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ، مگر ان کے دلوں میں ایمان نہیں ، یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ، (ان کا حال یہ ہے ) یہ لوگ جھوٹ کے پکے رسیا، ٹوہ لگا لگا کر سننے والے ہیں ، ان دوسروں کے لئے جو آپ کے پاس نہیں آئے ، یہ بدل دیتے ہیں (اللہ کے ) کلام کو اس کے ٹھکانا پکڑنے کے بعد، (اور یہ دوسروں سے ) کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم ملے تو مان لینا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو اس سے بچ کر رہنا، اور (حقیقت یہ ہے کہ) جس کو اللہ گمراہ کرنا چاہے (اس کی بدنیتی اور سوء اختیار کی بناء پر) تو آپ اس کی ہدایت کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنا اللہ کو منظور ہی نہیں ، ان کے لئے بڑی رسوائی ہے (اس) دنیا میں بھی، اور آخرت میں تو ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ،
۴۲۔۔۔ (یہ) جھوٹ کے رسیا، پکے حرام خور ہیں ، پھر بھی اگر یہ لوگ (اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں (تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار ہے کہ اگر آپ چاہیں ) تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیں ، یا ان سے منہ پھیر لیں ، اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے ، اور اگر آپ فیصلہ کریں ، تو ان کے درمیان عدل (و انصاف) ہی کے ساتھ فیصلہ کریں ، بے شک اللہ پسند فرماتا ہے انصاف کرنے والوں کو،
۴۳۔۔۔ اور یہ آپ کو کیسے اپنا (منصف اور) حکم مان سکتے ہیں ، جب کہ ان کے پاس تورات موجود ہے ، جس میں اللہ کا حکم (موجود و مسطور) ہے ، پھر یہ اس کے بعد بھی پھر جاتے ہیں ، اور (حقیقت یہ ہے کہ) یہ لوگ ایماندار ہیں ہی نہیں ،
۴۴۔۔۔ بے شک ہم ہی نے اتارا تورات کو، جس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی، اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے (اللہ کے ) وہ پیغمبر، جو (اپنے رب کے حضور) گردن جھکائے ہوئے تھے ، ان یہود کے لئے ، اور (اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے ) ان کے درویش اور علماء بھی، کیونکہ ان کو محافظ (و نگہبان) ٹھہرایا گیا تھا اللہ کی کتاب کا، اور وہ اس پر گواہ تھے ، پس تم مت ڈرو لوگوں سے (اے گروہ یہود!) بلکہ خاص مجھ ہی سے ڈرو، اور مت لو تم میری آیتوں کے بدلے میں (دنیاء دوں کا یہ) گھٹیا مول، اور جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے اس (حکم و قانون) کے مطابق جس کو اللہ نے اتارا ہے ، وہ کافر ہیں ،
۴۵۔۔۔ اور ہم نے ان پر اس (تورات) میں بھی یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان (لی جائے ) بدلے میں جان کے ، آنکھ بدلے آنکھ کے ناک بدلے ناک کے ، کان بدلے کان کے ، دانت بدلے دانت کے ، اور زخموں میں بھی قصاص ہے ، پھر جو کوئی صدقہ کر دے اس (حق قصاص) کا، تو وہ کفارہ ہو جائے گا اس کے لیے ، اور جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے اس (حکم و قانون) کے مطابق، جس کو اللہ نے اتارا ہے وہ ظالم ہیں ،
۴۶۔۔۔ اور ان کے (ایک زمانہ) بعد ہم نے ان ہی کے نقش قدم پر بھیجا عیسیٰ بیٹے مریم کو تصدیق کرنے والا بنا کر، اس تورات کے لئے جو ان سے پہلے آ چکی تھی، اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی، اور (اس کو بھی) تصدیق کرنے والی بنا کر بھیجا، اس تورات کے لئے جو اس سے پہلے آ چکی تھی، اور سراسر ہدایت اور عظیم الشان نصیحت کے طور پر پرہیزگاروں کے لیے ،
۴۷۔۔۔ اور چاہیے کہ فیصلہ کریں انجیل والے اس کے مطابق جو کہ اللہ نے اتارا ہے اس میں ، اور جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے اس (حکم و قانون) کے مطابق جو اللہ نے اتارا ہے وہ فاسق ہیں ،
۴۸۔۔۔ اور اب ہم نے اتارا آپ کی طرف (اے پیغمبر!) اس کتاب (عظیم) کو حق کے ساتھ، تصدیق کرنے والی بنا کر، ان تمام کتابوں کے لئے جو کہ اس سے پہلے آ چکی ہیں ، اور محافظ (و نگہبان) بنا کر ان پر، پس آپ فیصلہ کریں ان کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے اتارا ہے ، اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اس حق سے (ہٹ کر) جو کہ آ چکا آپ کے پاس، ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لئے مقرر کی ایک شریعت اور راہ عمل، اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن (اس نے ایسے نہیں کیا) تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے ان احکام میں جو اس نے تم کو دیے ہیں ، پس تم لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو نیکیوں میں ، اور تم سب کو بہر حال لوٹ کر جانا ہے اللہ کی طرف، پھر وہ خبر کر دے گا تم کو ان سب کاموں کی جن میں تم لوگ اختلاف کرتے رہے تھے (اپنی فرصت حیات میں )
۴۹۔۔۔ اور (مکرر حکم ہے کہ) فیصلہ کرو تم ان کے درمیان اس (حکم و قانون) کے مطابق جسے اتارا ہے اللہ نے ، اور پیروی نہیں کرنا ان کی خواہشات کی، اور ہوشیار رہنا ان سے کہ یہ کہیں پھسل نہ دیں آپ کو اس (حق و ہدایت) کی کسی بات سے جس کو اللہ نے اتارا ہے آپ کی طرف، پھر اگر یہ پھرے ہی رہیں (حق و ہدایت) تو یقین جان لو کہ اللہ ان کو مبتلائے مصیبت کرنا چاہتا ہے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ، بے شک لوگوں کی اکثریت پکی بدکار ہے ،
۵۰۔۔۔ تو کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم (اور فیصلہ) چاہتے ہیں ؟ اور اللہ سے بڑھ کر اچھا حکم (اور فیصلہ) اور کس کا ہو سکتا ہے ؟ ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں ؟
۵۱۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، تم یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنانا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، اور جس نے دوست بنایا ان کو تم میں سے ، تو وہ یقیناً ان ہی میں سے ہو گیا، بے شک اللہ ہدایت سے نہیں نوازتا ایسے ظالم لوگوں کو،
۵۲۔۔۔ پس تم دیکھو گے کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے ، وہ دوڑ دوڑ کر جا گھستے ہیں انہی (کافروں ) میں ، کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم پر چکر نہ پڑ جائے کسی (حادثہ و) مصیبت کا، سو بعید نہیں کہ اللہ لے آئے فتح (وکامرانی مسلمانوں کے لئے ) یا ظاہر فرما دے کوئی اور بات اپنے یہاں (پردہ غیب) سے ، جس کے نتیجے میں ان کو ندامت (و شرمندگی) اٹھانا پڑے ان باتوں پر، جو انہوں نے چھپا رکھی ہیں اپنے دلوں میں ،
۵۳۔۔۔ اور (اس وقت) اہل ایمان کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام کی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ یہ تمہارے ساتھ ہیں ، اکارت چلے گئے ان کے سب عمل، جس سے یہ ہو گئے سراسر خسارہ اٹھانے والے ،
۵۴۔۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، (یاد رکھو کہ) تم میں سے جو کوئی پھر گیا اپنے دین سے تو (اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں ہو گا کہ) اللہ (ان کی جگہ) لے آئے گا ایسے لوگوں کو جن سے اللہ محبت فرماتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے ، جو ایمان والوں پر بڑے نرم (اور مہربان) ہوں گے ، اور کافروں پر بڑے سخت، جو جہاد کرتے ہوں گے اللہ کی راہ میں ، اور وہ (راہ حق میں ) نہیں ڈریں گے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ، یہ اللہ کا فضل (اور اس کی مہربانی) ہے ، وہ عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بڑا ہی کشائش والا، سب کچھ جانتا ہے ،
۵۵۔۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ تمہارا دوست (اے ایمان والو!) اللہ ہے ، اور اس کا رسول، اور وہ ایماندار لوگ، جو قائم کرتے ہیں نماز کو، اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ کو، اور وہ ( دل و جان سے ) جھکے رہتے ہیں (اپنے رب کے حضور)
۵۶۔۔۔ اور جو کوئی دوستی رکھے گا اللہ سے ، اور اس کے رسول سے ، ان لوگوں سے جو ایمان (کی دولت) رکھتے ہیں ، تو (یقیناً وہ کامیاب ہو گیا کہ وہ اللہ کی جماعت میں سے ہے اور) بے شک اللہ کی جماعت ہی سدا غالب رہنے والی ہے
۵۷۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، تم مت ٹھراؤ اپنا دوست ان لوگوں کو جنہوں نے ہنسی اور کھیل ٹھرا رکھا ہے تمہارے دین کو، ان لوگوں میں سے جن کو دی گئی (آسمانی) کتاب تم سے پہلے ، اور (دوسرے کھلے ) کفار کو، اور ہمیشہ) ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے ، اگر واقعی تم ایماندار ہو
۵۸۔۔۔ (ان کی حماقت اور دین و دشمنی کا عالم یہ ہے کہ) جب تم (بلاتے ) پکارتے ہو نماز (جیسی عظیم الشان عبادت) کی طرف، تو یہ لوگ اس کو بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں ، یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کام نہیں لیتے اپنی عقلوں سے
۵۹۔۔۔ کہو کہ، اے کتاب والو، کیا تم لوگ ہم سے اسی بات کا انتقام (اور بدلہ) لیتے ہو کہ ہم (صدق دل سے ) ایمان لائے اللہ پر؟ اور اس (کتاب) پر، جو اتاری گئی ہماری طرف، اور ان سب کتابوں پر بھی جو اتاری گئیں اس سے پہلے اور اس بناء پر کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ،
۶۰۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ کیا میں تمہیں ان لوگوں کی خبر نہ دوں جن کا انجام اللہ کے یہاں اس سے کہیں زیادہ برا ہے ؟ وہ جن پر اللہ کی لعنت (اور پھٹکار) ہوئی، اور ان پر غضب ٹوٹا اس کا، اور ان میں سے کچھ کو اس نے بندر بنا دیا اور کچھ کو خنزیر، اور جنہوں نے پوجا کی شیطان کی، یہ ہیں وہ لوگ جن کا ٹھکانا بھی سب سے برا ہے ، اور جو راہ راست سے بھی سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ،
۶۱۔۔۔ اور جب یہ (منافق) لوگ تمہارے پاس آتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ، حالانکہ وہ داخل ہوئے تو بھی کفر کے ساتھ، اور نکلے تو بھی کفر کے ساتھ، اور اللہ کو خوب معلوم ہے وہ سب کچھ جو کہ یہ لوگ چھپاتے ہیں (اپنے دلوں میں )
۶۲۔۔۔ اور تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ دوڑ دوڑ کر جا گرتے ہیں ، گناہ، زیادتی، اور حرام خوری (کے کاموں ) میں ۔ یقیناً بڑے ہی برے ہیں وہ کام، جو یہ لوگ کرتے ہیں ،
۶۳۔۔۔ کیوں نہیں روکتے ان کو ان کے مشائخ اور ان کے علماء گناہ کی بات کہنے سے ، اور ان کے حرام کھانے سے (طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے ) یقیناً بڑے ہی برے ہیں ان کے وہ کرتوت جو یہ لوگ کر رہے ہیں
۶۴۔۔۔ اور یہود (بے بہبود) نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا (حالانکہ) بند تو دراصل ان کے اپنے ہاتھ ہو گئے اور ان پر پھٹکار پڑ گئی ان کی اپنی بیہودہ گوئی کی بناء پر، (سو ایسا نہیں ) بلکہ اس (واہب مطلق) کے دونوں ہاتھ (ہر وقت) کھلے ہیں ، وہ خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے ، اور ضرور بالضرور ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور کفر (و انکار) ہی میں اضافہ کا باعث بنے گا، وہ (کلام حق ترجمان) جو کہ اتارا گیا آپ کی طرف (اے پیغمبر!) آپ کے رب کی جانب سے ، اور ہم نے ڈال دی ان کے درمیان دشمنی اور بغض (و عداوت کی میل) قیامت کے دن تک، جب بھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں (پیغمبر حق کے خلاف) تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ فساد مچاتے ہیں (اللہ کی) اس زمین میں اور اللہ پسند نہیں فرماتا فساد مچانے والوں کو،
۶۵۔۔۔ اور اگر اہل کتاب (سرکشی اور شر انگیزی کی بجائے ) ایمان لے آتے (سچے دل سے ) اور تقویٰ اختیار کرتے ، تو ہم ضرور مٹا دیتے ان سے ان کی (گذشتہ) برائیاں ، اور ضرور داخل کر دیتے ان کو نعمتوں بھری جنتیوں میں ،
۶۶۔۔۔ اور اگر یہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو، اور اس کتاب کو جو اب اتاری گئی ہے ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے ، (یعنی قرآن حکیم کو) تو یہ ضرور کھاتے اپنے اوپر سے (برسنے والی برکات میں سے ) اور اپنے پاؤں کے نیچے (سے ابلنے والے رزق میں ) سے ، ان میں سے کچھ لوگ تو سیدھی راہ پر، لیکن ان میں سے اکثر بہت برے کام کرتے ہیں ،
۶۷۔۔۔ اے پیغمبر! (پورے کا پورا) پہنچا دو اس پیغام کو جو کہ اتارا گیا آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے ، اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کی رسالت (و پیغمبری) کا حق ادا نہیں کیا، اور (لوگوں سے نہ ڈرنا کہ) کہ اللہ آپ کی حفاظت فرمائے گا لوگوں (کے شر) سے بے شک اللہ ہدایت (کی دولت) سے سرفراز نہیں فرماتا کافر لوگوں کو،
۶۸۔۔۔ (ان سے صاف) کہہ دو کہ اے کتاب والو، تم کسی بھی چیز پر نہیں ہو، جب تک کہ تم پابندی نہ کرو تورات، انجیل اور اس کتاب کی، جو اب تمہاری طرف نازل کی گئی ہے تمہارے رب کی طرف سے ، (یعنی قرآن حکیم) اور ضرور بالضرور ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر (و انکار) ہی میں زیادتی (اور اضافے ) کا باعث بنے گا، وہ کلام (حق ترجمان) جو کہ اتارا گیا آپ کی طرف (اے پیغمبر!) آپ کے رب کی جانب سے ، پس آپ کوئی غم (اور افسوس) نہ کریں ، ایسے کافر لوگوں (کی محرومی) پر
۶۹۔۔۔ بے شک (عام قانون و ضابطہ یہی ہے کہ) مسلمانوں ، یہودیوں ، مشرکوں ، اور نصرانیوں ، میں سے جو بھی کوئی ایمان لائے گا سچے دل سے ، اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، اور (اس کے مطابق) وہ کام بھی نیک کرے گا، تو ایسوں پر نہ کوئی خوف ہو گا، اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ،
۷۰۔۔۔ بے شک ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی یاد دہانی کے لئے ) ان کی طرف بہت سے رسول بھی بھیجے ، مگر جب بھی کبھی ان کے پاس کوئی رسول آیا وہ کچھ لے کر جو نہیں بھایا ان کے نفسوں کو، تو انہوں نے کچھ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کر ڈالا،
۷۱۔۔۔ اور انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ کوئی سزا نہ ہو گی، پس (اس سے ) وہ اندھے اور بہرے بن گئے ، پھر اللہ نے معاف فرما دیا ان کو (اپنی رحمت و عنایت سے ) مگر پھر بھی ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہی رہے ، اور اللہ پوری طرح دیکھتا (جانتا) ہے ان سب کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں ،
۷۲۔۔۔ بلاشبہ کافر ہو گئے وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح بن مریم ہے ، حالانکہ خود مسیح نے یہ کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل، تم اللہ ہی کی بندگی کرو جو کہ رب ہے میرا بھی اور تمہارا بھی، (اور تم شرک نہ کرو کہ) بلاشبہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو یقیناً اللہ نے حرام فرما دیا اس پر جنت کو، اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے ، اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔
۷۳۔۔۔ بلاشبہ پکے کافر ہیں وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ، حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں ، سوائے ایک معبود (برحق) کے ، اور اگر یہ لوگ باز نہ آئے اپنی ان باتوں سے جو یہ کہتے (بناتے ) ہیں تو ضرور بالضرور پہنچ کر رہے گا ان میں سے کافروں کو ایک بڑا ہی دردناک عذاب،
۷۴۔۔۔ تو کیا (توحید الٰہی اور وعید خداوندی کے یہ مضامین سن کر بھی) یہ لوگ توبہ نہیں کرتے اللہ کے حضور، اور معافی نہیں مانگتے اس سے (اپنے گناہوں کی؟) اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،
۷۵۔۔۔ مسیح بن مریم تو صرف ایک رسول تھے اور بس، ان سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، اور ان کی ماں ایک بڑی ہی (پاکیزہ اور) راست باز خاتون تھیں وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ، دیکھو ہم کس طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان کے لئے اپنی آیتیں ، پھر دیکھو یہ لوگ کدھر الٹے پھیرے جاتے ہیں ،
۷۶۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ کیا تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر اس کی بندگی کرتے ہو جو تمہارے لئے نہ کسی نقصان کا مالک ہے نہ نفع کا، اور اللہ ہی ہے ہر کسی کی سنتا، سب کچھ جانتا،
۷۷۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ اے کتاب والو، تم لوگ غلو (اور حد سے تجاوز) مت کرو، اپنے دین کے بارے میں ، اور مت پیروی کرو تم ان لوگوں کی خواہشات کی جو بھٹک گئے اس سے پہلے اور انہوں نے گمراہ کر دیا بہتوں کو (راہ حق و صواب سے ) اور وہ بھٹک گئے سیدھی راہ سے ،
۷۸۔۔۔ لعنت کر دی گئی بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد، اور عیسیٰ بن مریم، کی زبان سے ، (اور) یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی، اور یہ لوگ تجاوز کرتے تھے (اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں سے )
۷۹۔۔۔ یہ آپس میں ایک دوسرے کو روکتے (اور خود کرتے ) نہیں تھے ، اس برائی سے جس کا ارتکاب یہ لوگ کرتے تھے ، بڑے ہی برے تھے وہ کام جو یہ لوگ کر رہے تھے ،
۸۰۔۔۔ (آج بھی) تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ وہ (اہل ایمان کے مقابلہ میں ) ان لوگوں سے دوستی کا دم بھرتے ہیں ، جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر، بڑا ہی برا ہے وہ سامان جو ان کے لئے آگے بھیجا ہے ان کے نفسوں نے ، کہ اللہ ناراض ہو ان پر، اور (اس کے نتیجے میں ) ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا عذاب میں ،
۸۱۔۔۔ اور اگر یہ لوگ ایمان رکھتے ہوتے اللہ پر، اس کے پیغمبر پر، اور اس کتاب پر جو کہ اتاری گئی ان کی طرف، تو یہ کبھی ان (کفار) کو اپنا دوست نہ ٹھہراتے ، مگر ان میں سے بیشتر لوگ فاسق (اور بدکار) ہیں ،
۸۲۔۔۔ تم مسلمانوں کی دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود، اور ان لوگوں کو پاؤ گے جو مشرک ہیں ، اور (اس کے برعکس) تم ان سے محبت میں سب سے زیادہ نزدیک ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں ، یہ اس لئے کہ ان میں بہت سے عبادت گزار، اور تارک الدنیا درویش، پائے جاتے ہیں ، نیز اس لئے کہ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوتے ۔
۸۳۔۔۔ اور (اسی بنا پر ان کا حال یہ ہے کہ) جب وہ سنتے ہیں اس کلام (حق ترجمان) کو، جو کہ اتارا گیا اس رسول (بر حق) کی طرف، تو تم دیکھو گے ابل پڑتی ہیں ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ، اس حق کی بنا پر جس کو انہوں نے پہچان لیا، (اور یہ عاجزانہ) عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم (صدق دل سے ) ایمان لے آئے پس تم ہمیں لکھ دے (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ،
۸۴۔۔۔ اور ہمارے لئے کیا عذر ہو سکتا ہے کہ ہم ایمان نہ لائیں اللہ پر، اور اس حق پر، جو کہ پہنچ چکا ہمارے پاس، جب کہ ہم اس کی بھی طمع رکھتے ہیں کہ داخل فرما دے ہمیں ہمارا رب نیک بخت لوگوں کے ساتھ (اپنی رحمت میں )
۸۵۔۔۔ سو اللہ نے نواز دیا ان لوگوں کو ان کے اس قول و اقرار کے بدلے میں ایسی عظیم الشان جنتوں سے جن کے نیچے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا اور یہ بدلہ ہے نیکوکاروں کا۔
۸۶۔۔۔ اور (اس کے برعکس) جو لوگ اڑے رہے اپنے کفر (و باطل) پر، اور انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، تو وہ یار ہوں گے دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ کے ،
۸۷۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو کہیں تم (نصاریٰ کی رہبانیت وغیرہ سے متاثر ہو کر) حرام نہ کر دینا ان پاکیزہ چیزوں کو جو حلال فرمائی ہیں اللہ نے تمہارے لئے ، اور حدوں سے نہیں بڑھنا، بے شک اللہ پسند نہیں کرتا حدوں سے بڑھنے والوں کو
۸۸۔۔۔ اور کھاؤ تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو عطا فرمائی ہیں تم کو اللہ نے (اپنے فضل و کرم سے ) حلال اور پاکیزہ، اور ہمیشہ ڈرتے (اور بچتے ) رہا کرو تم لوگ اس اللہ (کی نافرمانی) سے ، جس پر تم ایمان رکھتے ہو
۸۹۔۔۔ اللہ تمہاری گرفت نہیں فرمائے گا تمہاری لغو (اور بے مقصد) قسموں پر مگر وہ تمہاری ان قسموں پر تمہاری گرفت ضرور فرمائے گا جو تم نے اپنے قصد (و ارادہ) سے کھائی ہوں ، پس ایسی قسم (کے توڑنے ) کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے ، وہ درمیانہ درجے کا کھانا جو تم لوگ خود اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہنا دو، یا ایک گردن (غلام یا لونڈی) آزاد کر دو، اور جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے ، یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا، جب کہ تم قسم کھا (کر اسے توڑ) لو، اور حفاظت کیا کرو تم لوگ اپنی قسموں کی، اسی طرح اللہ کھول کر بیان فرماتا ہے ، تمہارے لئے اپنی آیتیں (اور احکام) تاکہ تم لوگ شکر ادا کرو،
۹۰۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، سوائے اس کے نہیں کہ شراب، جوا اور آستانے ، اور پانسے ، پلید، (اور) شیطانی کام ہیں ، پس تم لوگ ہمیشہ ان سے (دور و نفور اور) بچ کر رہا کرو، تاکہ تم فلاح پا سکو،
۹۱۔۔۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ وہ ڈال دے تمہارے درمیان عداوت اور بغض شراب (خانہ خراب) اور جوئے کے ذریعے اور وہ تمہیں روک دے اللہ کے ذکر (اور اس کی یاد دلشاد) اور نماز سے ، سو (اب بتلاؤ کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد) کیا تم باز آتے ہو (کہ نہیں ؟)
۹۲۔۔۔ اور (دل کی خوشی سے ) حکم مانو تم لوگ اللہ کا اور اس کے رسول کا، اور تم بچتے رہو، پھر اگر تم لوگ پھر گئے تو یقین جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے کھول کر
۹۳۔۔۔ کوئی گناہ (اور پکڑ) نہیں ان لوگوں پر جو (صدق دل سے ) ایمان لائے ، اور انہوں نے (اس کے مطابق) کام بھی نیک کئے ، اس میں جو کہ انہوں نے کھا (پی) لیا (حکم حرمت سے پہلے ) جب کہ وہ بچتے رہے (اس وقت کی محرمات سے ) اور وہ ثابت قدم رہے اپنے ایمان پر، اور کام بھی نیک کرتے رہے ، پھر وہ بچتے رہے (نئی حرام کردہ چیزوں سے ) اور ثابت قدم رہے پھر بچتے رہے اور وہ نیکوکار رہے اور اللہ محبت فرماتا ہے نیکوکاروں سے ،
۹۴۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اللہ ضرور تمہاری آزمائش کرے گا کچھ ایسے شکاروں کے ذریعے ، جو تمہارے ہاتھوں کی پہنچ، اور تمہارے نیزوں کی زد میں ہوں گے ، تاکہ اللہ یہ دیکھے کہ کون ڈرتا ہے اس سے بن دیکھے ، پس جس نے اس (تنبیہ) کے بعد بھی حد سے تجاوز کیا، تو اس کے لئے ایک بڑا اور دردناک عذاب ہے ،
۹۵۔۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، تم شکار مت کرو ایسی حالت میں کہ تم احرام میں ہوا کرو اور جس نے تم میں سے جان بوجھ کر ایسے کر لیا تو اس کے ذمے بدلہ ہے مارے ہوئے جانور کے برابر (وہم پلہ) مویشیوں میں سے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں ، کعبہ تک پہنچنے والی قربانی کے طور پر، یا (پھر اس کی قیمت کے برابر) کفارہ میں کھانا کھلانا ہو گا کچھ مسکینوں کو، یا اس کے برابر روزے رکھنے ہوں گے ، تاکہ وہ چکھے مزہ اپنے کئے کا اللہ نے معاف فرما دیا اس کو جو کہ اس سے پہلے ہو چکا، اور جس نے پھر یہ حرکت کی تو اللہ اس سے بدلہ لے گا، اور اللہ بڑا ہی زبردست (اور ٹھیک ٹھیک) بدلہ لینے والا ہے ،
۹۶۔۔۔ حلال کر دیا گیا تمہارے لئے سمندر کا شکار پکڑنا، اور اس کا کھانا، فائدہ پہنچانے کے لئے تمہیں ، اور دوسرے مسافروں کو، اور حرام کر دیا گیا تم پر خشکی کا شکار، جب تک کہ تم احرام کی حالت میں ہوؤ اور ڈرتے رہا کرو تم لوگ اس اللہ سے جس کے حضور تم سب کو اکٹھا کر کے پیش کیا جائے گا،
۹۷۔۔۔ اللہ نے عزت والے گھر کعبہ کو، لوگوں (کی اجتماعی زندگی) کے لئے قیام کا ذریعہ بنا دیا اور (اسی طرح) عزت والے مہینے ، حرم میں قربانی ہونے والے جانور اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں (قربانی کی نشانی کے طور پر) پٹے ڈالے ہوں ، یہ (قرارداد) اس لئے کہ تاکہ تم یقین جان لو کہ اللہ کے علم میں ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے ، اور یہ کہ اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے ،
۹۸۔۔۔ یقین جانو کہ اللہ عذاب دینے میں بھی بڑا سخت ہے ، اور یہ کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان بھی ہے ،
۹۹۔۔۔ رسول کے ذمے تو (پیغام حق کو) پہنچا دینا ہے اور بس اور اللہ جانتا ہے وہ سب کچھ جسے تم لوگ ظاہر کرتے ہو اور وہ سب کچھ بھی جسے تم چھپاتے ہو،
۱۰۰۔۔۔ کہو (اے پیغمبر! کہ باہم) برابر نہیں ہو سکتے پاک اور ناپاک، اگرچہ ناپاک کی بہتات تمہیں اچھی ہی کیوں نہ لگتی ہو، پس ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے ، اے عقل خالص رکھنے والو! تاکہ تم فلاح پا سکو،
۱۰۱۔۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم مت پوچھا کرو ایسی باتوں کے بارے میں کہ جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں ، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت میں پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے ، تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی، اللہ نے معاف فرما دیا ان سوالات سے متعلق (جو اس سے پہلے تم لوگ کر چکے ہو) اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی بردبار ہے ،
۱۰۲۔۔۔ تم سے پہلے ایک گروہ ایسی باتیں پوچھ چکا ہے ، پھر (جواب ملنے پر) وہی ان کے منکر ہو گئے ،
۱۰۳۔۔۔ اللہ نے تو نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے ، نہ سائبہ، نہ کوئی وصیلہ، اور نہ حام، مگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ (اپنی ہی طرف سے ) جھوٹ (اور بہتان) باندھتے ہیں اللہ پر، اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنی عقلوں سے کام نہیں لیتے
۱۰۴۔۔۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تم لوگ ان تعلیمات (مقدسہ) کی طرف جن کو نازل فرمایا ہے اللہ نے ، اور (آؤ تم) اس کے رسول کی طرف، تو یہ جواب دیتے ہیں کہ ہمیں کافی ہے (وہی کچھ) جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو، تو کیا (یہ لوگ اپنے باپ دادا کے طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے ) اگرچہ وہ نہ کچھ علم رکھتے ہوں اور نہ ہی انہیں سیدھی راہ کی کوئی خبر ہو؟
۱۰۵۔۔۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، (اصل میں اور سب سے پہلے تو) تم اپنی فکر کرو دوسرے کسی کی گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب کہ تم خود ہدایت پر ہو (اور یاد رکھو کہ) بالآخر اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو، پھر وہ بتا دے گا تم کو وہ سب کچھ جو تم کرتے رہے تھے (زندگی بھر)
۱۰۶۔۔۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے درمیان گواہی (کا نصاب) جب کہ آ پہنچے تم میں سے کسی کو موت، وصیت کے وقت (یہ ہے کہ) دو معتبر آدمی ہوں تم میں سے ، یا دوسروں سے (یعنی غیر مسلم ہوں ) اگر تم کہیں سفر پر ہوؤ، اور (اس دوران) آ پہنچے تم کو موت کی مصیبت اور تم کو مسلمان گواہ میسر نہ آ سکیں ) تم ان کو روکے رکھو (اے وارثو!) نماز کے بعد، اگر تمہیں ان کے بارے میں شک پڑ جائے ، پھر وہ دونوں اللہ (کے نام) کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس قسم کے بدلے میں کوئی مال نہیں چاہتے ، اگرچہ وہ شخص ہمارا قریبی ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہی ہم چھپاتے ہیں اللہ کی (فرض کردہ) گواہی کو، ورنہ ہم یقینی طور پر گناہ گاروں میں شمار ہوں گے ،
۱۰۷۔۔۔ پھر اگر (کسی طرح) پتہ چل جائے کہ وہ دونوں کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ، تو ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہو جائیں ، ان لوگوں میں سے جن کی حق تلفی ہوئی ہو، جو سب سے زیادہ قریبی ہوں میت کے ، پھر وہ دونوں اللہ (کے نام) کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے ، اور ہم نے زیادتی نہیں کی، ورنہ ہم یقینی طور پر ظالموں میں شمار ہوں گے ،
۱۰۸۔۔۔ یہ طریقہ زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ وہ گواہی دیں ، اس کے (صحیح) طریقے پر، یا (کم از کم) اس بات سے ہی ڈریں کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ کر دی جائے ، اور ہمیشہ ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے (اے لوگو!) اور سنا کرو، اور (یہ حقیقت پیش نظر رکھو کہ) اللہ ہدایت سے نہیں نوازتا فاسق (و بدکار) لوگوں کو،
۱۰۹۔۔۔ (او یاد کرو اس دن کو کہ) جس دن اللہ جمع فرمائے گا سب رسولوں کو، پھر ان سے پوچھے گا کہ کیا جواب دیا گیا تم کہ (اپنی امتوں کی طرف سے )؟ تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ خبر نہیں ، (آپ ہی بہتر جانتے ہیں کہ) بلاشبہ آپ ہی ہیں (اے ہمارے مالک!) جاننے والے سب غیبوں کے ،
۱۱۰۔۔۔ جب کہ اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ بیٹے مریم کے ، یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے کہا تم پر اور تمہاری والدہ پر، جب کہ میں نے تمہاری مدد کی اس پاکیزہ روح ( جبرائیل امین) کے ذریعے ، تم لوگوں سے بات کرتے تھے (ماں کی) گود میں بھی اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، اور جب کہ میں نے سکھائی تم کو کتاب اور حکمت، اور تورات و انجیل، اور جب کہ تم مٹی کا پتلا بناتے تھے پرندے کی شکل پر میرے اذن (اور حکم) سے ، پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ (سچ مچ کا) پرندہ بن جاتا تھا میرے اذن (او حکم) سے ، اور (جب کہ) تم اچھا کر دیتے تھے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے اذن (اور حکم) سے ، اور جب کہ تم نکالتے تھے مردوں کو زندہ کر کے انکی قبروں سے میرے (حکم و) اذن سے اور جب کہ میں نے روک دیا بنی اسرائیل کو تم (تک رسائی پانے ) سے ، جب کہ تم ان کے پاس آئے کھلی نشانیوں کے ساتھ، تو ان میں کے ان لوگوں نے جوڑے ہوئے تھے اپنے کفر (و باطل) پر، کہا کہ یہ تو ایک کھلے جادو کے سوا اور کچھ نہیں ،
۱۱۱۔۔۔ اور جب کہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالی یہ بات کہ تم ایمان لاؤ مجھ پر، اور میرے رسول پر، تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم (صدق دل سے ) ایمان لے آئے ، اور آپ گواہ رہیئے کہ ہم پورے فرمانبردار ہیں
۱۱۲۔۔۔ (اور وہ وقت بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بیٹے مریم کے ، کیا آپ کا رب یہ کر سکتا ہے کہ اتار دے ہم پر (نعمتوں بھرا) ایک خوان آسمان سے ؟ (یعنی یہ بات کہیں خلاف حکمت تو نہیں ) (تو اس کے جواب میں عیسیٰ نے ان سے ) کہا کہ تم لوگ ڈرو اللہ سے ، اگر تم واقعی ایماندار ہو،
۱۱۳۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہم کھائیں اس میں سے اور مطمئن ہو جائیں ، ہمارے دل اور ہم (مزید یقین و وثوق سے ) جان لیں کہ آپ نے سچ کہا ہے ہم سے ، اور ہم ہو جائیں اس پر گواہی دینے والوں میں سے
۱۱۴۔۔۔ اس پر عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ، ہمارے رب، اتار دے ہم پر آسمان سے ایک ایسا خوان جو کہ عید قرار پائے ، ہمارے اگلوں کے لئے بھی اور پچھلوں کے لئے بھی، اور ایک (عظیم الشان) نشانی تیری طرف سے ، اور ہمیں روزی عطا فرما اور تو ہی ہے (اے ہمارے رب!) سب سے بہتر روزی رساں ،
۱۱۵۔۔۔ اللہ نے فرمایا بے شک میں اس کو اتارنے والا ہوں تم لوگوں پر، مگر (یاد رکھو کہ) جس نے کفر کیا اس کے بعد تم میں سے ، تو یقیناً میں اس کو ایسی (سخت) سزا دوں گا جو میں نے دنیا جہاں میں کسی کو نہ دی ہو گی،
۱۱۶۔۔۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ بیٹے مریم کے ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو، اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے سوا؟ تو اس پر عیسیٰ (دست بستہ) عرض کریں گے ، کہ پاک ہے تو (اے میرے مالک!) میرا یہ کام نہیں ہو سکتا تھا کہ میں کوئی ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ، اگر (بالفرض) میں نے ایسی کوئی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور اس کا علم ہوتا، کہ آپ کو وہ سب کچھ معلوم ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے ، بے شک تو ہی ہے (اے میرے مالک!) جاننے والا سب غیبوں کا
۱۱۷۔۔۔ میں نے تو ان سے بس وہی کچھ کہا جس کا آپ نے مجھے حکم فرما رکھا تھا، کہ تم سب اللہ ہی کی بندگی کرو (اے لوگو!) جو کہ رب ہے میرا بھی، اور تمہارا بھی، اور میں ان کی پوری طرح نگرانی کرتا رہا جب تک کہ میں ان کے درمیان موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے (اے میرے مالک) اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگران (و نگہبان) تھا، اور تو ہر چیز سے پوری طرح آگاہ ہے
۱۱۸۔۔۔ اب اگر تو ان کو سزا دے تو (بجا طور پر دے سکتا ہے کہ) یہ تیرے بندے ہیں ، اور اگر ان کو معاف فرما دے تو (یہ بھی کر سکتا ہے کہ) بے شک تو ہی ہے سب پر غالب، نہایت ہی حکمت والا
۱۱۹۔۔۔ تب اللہ فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو کام دے گا ان کا سچ، (جس کا کامل مظہر یہ ہو گا کہ) ان کے لئے ایسی عظیم الشان جنتیں ہوں گی، جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان نہریں ، جن میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہنا نصیب ہو گا، اللہ ان سے راضی ہو گا، اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے یہی ہے بڑی کامیابی،
۱۲۰۔۔۔ اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، اور اور ان سب چیزوں کی جو کہ ان میں پائی جاتی ہیں ، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،
۱. ۱: عقود جمع ہے عقد کی، جس کے معنی گرہ کے آتے ہیں۔ اور اس سے مراد ہے ہر وہ پختہ عہد جو دو فریقوں کے درمیان قائم ہو۔ سو جس طرح رسی وغیرہ کے ذریعے گرہ لگا کر دو چیزوں کو آپس میں باندھ دیا جاتا ہے، اسی طرح عہد و پیمان کے ذریعے دو شخصوں، یا دو گروہوں، کو باہم مرتبط کر دیا جاتا ہے، اور یہ لفظ تمام عہود و مواثیق کو شامل ہے، ان کو بھی جو اللہ نے اپنے بندوں سے فرمائے ہیں۔ اور ان کو اس نے ان پر لازم قرار دیا ہے اور ان کو بھی جو بندوں کے درمیان آپس میں پائے جاتے ہیں سو ان سب ہی کا ایفاء مطلوب و مامور بہ ہے (محاسن التاویل وغیرہ) اسی لئے یہاں پر اس کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔
۲: حُرُم جمع ہے مُحرم کی یعنی جس نے احرام باندھ رکھا ہو، انعام کا لفظ عربی زبان میں گھریلو قسم کے چوپایہ جانوروں کے لئے معروف ہے۔ جیسے بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے بیل وغیرہ۔ جیسا کہ سورہ انعام کی آیت نمبر۱۴۳ اور نمبر۱۴۴ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے اور بہیمہ کا لفظ اس سے عام ہے۔ اس کا اطلاق انعام کی نوع کے دوسرے جانوروں پر بھی ہوتا ہے، سو انعام کی طرف اس لفظ کی اضافت سے یہ مفہوم پیدا ہو گیا کہ اونٹ گائے اور بھیڑ، بکری اور اس طرح کے سارے ہی جانور تمہارے لئے حلال ہیں خواہ وہ گھریلو اور پالتو ہوں یا وحشی اور جنگلی۔ جیسے نیل گائے اور ہرن وغیرہ، اس لئے ایسے تمام جانوروں سے کھانا برتنا اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
۲. سو اس ارشاد ربانی سے ایک بڑا اہم اور پاکیزہ معاشرتی ضابطہ و اصول تعلیم و تلقین فرمایا گیا ہے، اور یہ اس لئے کہ انسان ایک ایسی مدنی الطبع مخلوق ہے جو اپنے کاروبار زندگی کے چلانے میں بہرحال ایک دوسرے کا محتاج ہے، کوئی بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر اعتبار سے دوسروں سے مستعفی و بے نیاز ہو۔ اس لئے باہمی تعاون و تناصر ایک لازمی امر ہے۔ پس اس ارشاد ربانی سے یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر نیکی اور تقویٰ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ نہ کہ گناہ اور زیادتی کی بنیاد پر۔ پس جو کوئی نیکی اور پرہیزگاری کا کام کرتا ہو۔ اس کا ساتھ دیا جائے اور تعاون کیا جائے۔ اور گناہ اور زیادتی کے کاموں پر ایک دوسرے کا تعاون نہ کیا جائے۔ اس طرح باہمی تعاون و تناصر کی عظمت و اہمیت کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ اور اس کی حدود و قیود کو بھی متعین اور واضح فرما دیا گیا فالحمدللہ جل وعلا، پس دوسروں کا تعاون اور انکی مدد ایک مامور و مطلوب امر ہے، اور پھر یہ تعاون وتناصر بھی نیکی اور خیر کے کاموں میں ہو نہ کہ گناہ اور برائی کے کاموں میں، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید۱ عقاب کا لفظ دراصل عقب کے مادے سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیچھے اور بعد کے ہوتے ہیں، سو عقاب دراصل اس سزا اور عذاب کو کہا جاتا ہے جو کسی عمل کے طبعی تقاضا اور منطقی نتیجہ کے طور پر آتا ہے۔ پس اس ارشاد میں اہل ایمان کو سخت تنبیہ و تذکیر ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہا کریں۔ اور اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کا عقاب اور پاداش عمل کی سزا بھی بڑی سخت ہوتی ہے والعیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین
۳. ۱: اُھلْ اِھلال سے ماخوذ ہے جس کے معنی رَفْعُ الصوت کے آتے ہیں، یعنی آواز بلند کرنا (محاسن وغیرہ) سو اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے۔ یعنی اس کو غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لئے نامزد کر دیا جائے جیسا کہ مشرکین عرب کرتے تھے کہ وہ اپنے جانوروں کو بتوں کیلئے، اور ان کے نام پر نامزد کر دیا کرتے تھے۔ اور آج بھی مشرکین ایسے ہی کرتے ہیں۔ اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے کرتے ہیں، کہ اپنے جانوروں وغیرہ کو مختلف ناموں سے نامزد کر دیتے ہیں۔ پھر ان کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ان کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے سو ایسا کرنا شرک اور حرام ہے، اور اس طرح کا جانور بھی حرام ہے خواہ اس کے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے۔ اور اس کو یہاں پر اور اس لحم الخنزیر یعنی خنزیر کے گوشت بر عطف کر کے ساتھ ملا کر ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ اس کی حرمت لحم خنزیر کی حرمت کی طرح ہے۔ والعیاذ باللہ۔ مزید تفصیل کے لئے ہماری بڑی تفسیر ملاحظہ ہو۔ اس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس پر کافی طویل اور باحوالہ بحث کی ہے۔ والحمدللہ جل وعلا
۲: یعنی جن کو غیر اللہ کی خوشنودی کے لئے نذر و نیاز کی غرض سے مقرر کیا گیا ہوتا ہے۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں۔ کہ ایسے آستانوں کے پاس ذبح کرنے سے جانور حرام ہو جاتا ہے اگرچہ اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو۔ کیونکہ یہ شرک کے نشان ہوتے ہیں اور ان کے پاس ذبح کرنا شرک ہے جو کہ حرام ہے، والعیاذ باللہ العظیم، پس ایسی چیزیں حرام ہیں، اور ان سے کھانا اور فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔
۳: یعنی یہ مذکورہ بالا تمام کام فسق اور گناہ ہیں اور فسق کا لفظ یہاں پر فقہی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ یہ قرآنی مفہوم میں ہے۔ اور قرآن حکیم میں اس لفظ کا اطلاق کھلی ہوئی نافرمانی، سرکشی، اور کفر و شرک سب پر ہوا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر ابلیس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ الایۃ (الکہف۔۵٠) سو یہ مذکورہ بالا سب کام بہت بُرے اور ممنوع ہیں، ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ کہ یہ انسان کے لئے دنیا و آخرت دونوں کی تباہی اور بربادی کا باعث ہیں۔ ان سے طرح طرح کے معاشرتی مفاسد جنم لیتے ہیں۔ اور یہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے سخط و غضب کا باعث بنتے ہیں والعیاذُ باللہ، پس ایسے تمام کاموں سے بچنا اور دور رہنا ضروری اور اہل ایمان کے ایمان و یقین کا تقاضا ہے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل
۵. اسی لئے اس نے تم لوگوں کو ایسی سہولتوں اور رخصتوں سے نوازا کہ تمہارے لئے کوئی مشکل اور تنگی نہ رہے، بلکہ تمہارے لئے سہولت اور آسانی ہی ہو۔ چنانچہ دین حنیف نے تم لوگوں کو اجازت دی کہ اگر تم وضو نہ کر سکو تو تیمم کر لو۔ تاکہ تم لوگوں پر کوئی مشقت بھی نہ ہو۔ اور تم پاکیزہ اور مقدس انسان بھی بن جاؤ۔ کیونکہ اپنے خالق و مالک کے احکام کو ماننے اور صدق دل سے ان کو بجا لانے ہی میں بندہ مومن کا بھلا ہے دنیا و آخرت دونوں میں، اور اسی میں اس کے لئے تطہیر و تزکیہ کا سامان ہے وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید۔۲؎ یعنی تم لوگ شکر ادا کرو اپنے اس واہب مطلق رب ذوالجلال کا جس نے تمہیں ان طرح طرح کی عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ شکر نعمت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد تمہارے باطن کی بالیدگی اور نفس کی پاکیزگی اور طہارت میں اور اضافہ ہو۔ اور تم لوگ ایسے پاکیزہ اور ایسی عظمت شان انسان بن سکو جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہونے کے اہل ہوں۔
۶. ۱: اسی لئے اس نے تم لوگوں کو ایسی سہولتوں اور رخصتوں سے نوازا کہ تمہارے لئے کوئی مشکل اور تنگی نہ رہے، بلکہ تمہارے لئے سہولت اور آسانی ہی ہو۔ چنانچہ دین حنیف نے تم لوگوں کو اجازت دی کہ اگر تم وضو نہ کر سکو تو تیمم کر لو۔ تاکہ تم لوگوں پر کوئی مشقت بھی نہ ہو۔ اور تم پاکیزہ اور مقدس انسان بھی بن جاؤ۔ کیونکہ اپنے خالق و مالک کے احکام کو ماننے اور صدق دل سے ان کو بجا لانے ہی میں بندہ مومن کا بھلا ہے دنیا و آخرت دونوں میں، اور اسی میں اس کے لئے تطہیر و تزکیہ کا سامان ہے وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید۔
۲: یعنی تم لوگ شکر ادا کرو اپنے اس واہب مطلق رب ذوالجلال کا جس نے تمہیں ان طرح طرح کی عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ شکر نعمت کے شرف سے مشرف ہونے کے بعد تمہارے باطن کی بالیدگی اور نفس کی پاکیزگی اور طہارت میں اور اضافہ ہو۔ اور تم لوگ ایسے پاکیزہ اور ایسی عظمت شان انسان بن سکو جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہونے کے اہل ہوں۔
۷. اس لئے اس کے یہاں صرف ظاہر داری سے کام نہیں چلے گا، بلکہ وہاں پر ظاہر کے ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے قلب و باطن کی صفائی بھی درکار ہے، اور اس کے ساتھ اپنی نیتوں اور ارادوں کا معاملہ بھی صحیح اور درست رکھنے کی ضرورت ہے۔ خداوند قدوس نے اپنے رسول اکرم کے ذریعے جو تم لوگوں سے پختہ عہد لیا۔ اور تم لوگوں نے سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کہہ کر جو اس کو نباہنے اور پورا کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس کو پورا کرنا تمہارے ذمے لازم ہے۔ اس کی طرف سے تمہارے لئے جو دنیا و آخرت کی کامرانیوں کے جو وعدے ہیں وہ اسی سے وابستہ اور اسی پر منحصر ہیں۔
۸. اس لئے ہمیشہ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھا جائے کہ ہمارا معاملہ اس اللہ وحدہٗ لاشریک سے درست رہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیشہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ یہی طریقہ تقوی و پرہیزگاری کے لائق اور اس کے زیادہ قریب ہے۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری ہی تمام دین و شریعت کی روح اور اہل ایمان کے ہر قول وفعل کے لئے اصل کسوٹی ہے۔
۱۰. سو اس سے مشذکورہ بالا میثاق الٰہی پر عمل کرنے اور عمل نہ کرنے کا نتیجہ و انجام ذکر فرما دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ سچے ایمان اور نیک عمل کو اپنا کر میثاق الٰہی کے تقاضوں کو پورا کریں گے، ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان مغفرت و بخشش اور بہت بڑے اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ اور اس کے برعکس جو لوگ کفر و انکار کی راہ کو اپنائیں گے۔ اور ہماری آیتوں کی تکذیب کریں گے ان کے لئے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ ہے، جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، یہاں پر رب کریم کے کرم بے پایاں کا یہ نمونہ و مظہر بھی ملاحظہ ہو کہ اس آیت کریمہ میں وفاء عہد کی ترغیب کے طور پر اہل ایمان سے اپنے اس عہد اور وعدے کا ذکر فرمایا کہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی راہ کو اپنائیں گے ان کے لئے اس کی طرف سے عظیم الشان بخشش بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی، سو یہ رب کریم سبحانہ و تعالیٰ کی کتنی بڑی بندہ نوازی اور کرم فرمائی ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی۔ اور اپنی ہی پروردہ مخلوق کے ساتھ ایک معاہدے میں شریک ہو۔ سبحانہ و تعالیٰ، اللہ ہمیشہ اور ہر حال اپنا ہی بنائے رکھے، اور ہر قدم اپنی رضا کی راہوں ہی پر اٹھانے کی توفیق بخشے، آمین
۱۱. جار مجرور کی تقدیم سے اس میں حصر کا مفہوم پیدا ہو گیا۔ یعنی اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو، یعنی ان کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں، لیکن افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان جو اپنے دین کی تعلیمات مقدسہ سے غافل و بے خبر ہے اس کا بھروسہ اللہ کے بجائے دوسری مختلف چیزوں پر ہے۔ کہیں کسی عاجز مخلوق پر کہ وہ فلاں عہدے اور منصب پر فائز ہے پس وہ میرے سب کام کر دے گا، اور کرا دے گا۔ اگرچہ دنیا کے اس دارالاسباب میں یہ چیز منع نہیں، کہ دنیا ہے ہی دارالاسباب، لیکن اسباب پر ایسا تکیہ اور بھروسہ کر لینا کہ انسان مسبِّب الاسباب کو بھول ہی جائے تو یہ خسارے کا سودا ہے والعیاذُباللہ، اور کہیں اس کا بھروسہ کسی مردہ انسان اور وفات یافتہ ہستی پر، اور کہیں کسی بنی ٹھنی قبر اور جبے قبے پر، اور کہیں کسی فرضی وہمی اور من گھڑت سرکار پر، جس کی نہ کوئی حقیقت ہے نہ بنیاد سوائے اوہام و خرافات کے خود ساختہ پلندوں کے اور اس طرح جہالت کا مارا ایسا انسان در در کی ٹھوکریں کھاتا، اور طرح طرح کی شرکیات میں الجھ اور پھنس کر خود اپنی تذلیل و تحقیر اور ہلاکت و تباہی کا سامان کرتا ہے۔ اور اس کو اس کا احساس و شعور تک نہیں ہوتا، کہ اس طرح وہ اپنے لئے کس قدر خوفناک اور ناقابل تلافی نقصان کا سامان کر رہا ہے والعیاذُ باللّٰہ العظیم مِنْ کُلِّ زَیْغٍ وَّضَلال۔
۱۲. ۱: نقیب کا لفظ نقب سے ماخوذ و مشتق ہے جس کے معنی سوراخ کرنے، کھود کرید کرنے، کھوج لگانے، ٹوہ لگانے، اور جستجو کرنے، وغیرہ کے آتے ہیں۔ اسی بناء پر یہ لفظ کسی قوم یا قبیلہ کے سردار و سربراہ اور نگران و ذمہ دار اور آفیسر و مانیٹر وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا اصل کام اور ان کی ذمہ داری بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی نگرانی کریں۔ اور ان کے مفادات کی حفاظت و پاسداری کریں اس لئے ان کو نقیب کہا جاتا ہے سو اسی بناء پر حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کے لئے ایک ایک نقیب و نگہبان مقرر کیا تھا تاکہ وہ ان کی حفاظت و نگرانی کرے، تاکہ وہ شریعت کی حدود و قیود کی پابندی کریں، وہ کسی انحراف میں مبتلا نہ ہوں، اور ان کے اندر کوئی ایسی چیز گھسنے نہ پائے جو ان کو اللہ کے عہد سے روگردان کر دے۔
۲: کہ اللہ کے عہد سے پھرنے اور انحراف برتنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ راہ حق و ہدایت سے بہک اور بھٹک جاتے ہیں، پھر وہ کہیں کے بھی نہیں رہتے اور دنیا و آخرت کے خسارے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اسی لئے یہاں پر اس کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، پس اللہ کے عہد کی پابندی اور راہ حق پر استقامت ہی وسیلہ نجات و فلاح ہے۔
۱۳. ۱: سو اس سے یہود کی عہد شکنی کے ہولناک نتائج کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی عہد شکنی کی بناء پر ہم نے ان پر لعنت کر دی۔ یعنی ان کو اپنی رحمت سے دُور اور محروم کر دیا۔ اور یہ لوگ ملعون ہو گئے۔ اور ان کے دلوں کو ہم نے سخت کر دیا جس سے یہ قبول حق کی سعادت سے محروم ہو گئے۔ یعنی ہمارا قانون و دستور اور ہماری سنت یہی ہے کہ ایسے لوگ لعنت و پھٹکار کے مستحق اور مورد بن جاتے ہیں۔ اور قبول حق کی توفیق و سعادت سے محروم ہو جاتے ہیں والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین
۲: یعنی خائنہ کا لفظ یہاں پر مصدر کے معنی میں ہے جیسے کاذبہ اور لاغیہ وغیرہ (محاسن التاویل) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے ظاہری مفہوم پر ہو اور اس کا موصوف طائفہ ہو۔ بہر کہف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ خیانت اور بددیانتی ان کی سرشت میں پیوست ہے۔ اس لئے یہ لعنت و پھٹکار اور طرد عن الباب کے مستحق قرار پائے۔ والعیاذ باللہ العظیم
۱۴. ۱؛ یہود کے نقض عہد کے ذکر کے بعد اب اس سے نصاریٰ کے نقض عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے، اور ان دونوں کے نقض عہد اور ان کے نتائج کے ذکر سے مسلمانوں کے لئے یہ تنبیہ و تذکیر ہے کہ وہ اس سے درس لیں، اور سبق سیکھیں، اور نقض عہد کے اس جرم سے بچ کر رہیں ورنہ یہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوں گے جس سے ان کے پہلے کے یہ دونوں گروہ دوچار ہو چکے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کا قانون و ضابطہ سب کے لئے عام و یکساں اور بے لاگ ہے، سبحانہ و تعالیٰ
۲: ملت کی شیرازہ بندی چونکہ کتاب الٰہی اور میثاقِ خداوندی ہی سے ہوتی ہے اور ہو سکتی ہے۔ اور اس کو ان لوگوں نے ضائع کر دیا تو پھر ایسی صورت میں ان کو باہمی عداوت و دشمنی اور خون خرابے سے اور کیا چیز بچا سکتی ہے۔ ان لوگوں کے لئے نجات کی واحد راہ قرآن حکیم کی اتباع اور پیروی تھی کہ اب آخری کتاب اور پیغام سماوی یہی اور صرف یہی ہے جو کہ سابقہ تمام کتابوں کے لئے مہیمن، اور جو ان کی اصل حقیقی اور اصولی تعلیمات کی امین و پاسدار کتاب ہے۔ اور اب قیامت تک کے لئے پیغام حق و ہدایت اسی سے وابستگی میں منحصر ہے اس سے ان لوگوں نے اپنے تعصب اور عناد و ہٹ دھرمی اور ناشکری و بے قدری کی بناء پر منہ موڑ لیا ہے۔ جس کے بعد ان کے لئے اندھیروں میں بھٹکنے کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ سو اب قیامت تک ان کے لئے جنگ و جدال سے نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہیں رہی، والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۵. یعنی وَکِتَابٌ مُّبِیْن کا عطف عطفِ تفسیری ہے، اور نور سے مراد یہی کتاب مبین یعنی قرآن حکیم ہے، نہ کہ رسول جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ایک تو اس لئے کہ رسول کا ذکر آیت کریمہ کے شروع میں خود آگیا ہے۔ اور رسول ہی کے لفظ سے آگیا ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ قرآن حکیم کو دوسری مختلف آیات کریمات میں بھی نور کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے: جیسے وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا، اور وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہ، وغیرہ، کہ ان آیات کریمات میں وارد لفظ نور سے مراد قرآن حکیم کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے القرآن یُفَسِّرُ بَعْضُہ، بَعْضًا کے ضابطہ عام کے مطابق زیر بحث اس آیت کریمہ میں بھی لفظ نور سے مراد قرآن مجید ہی ہونا چاہیے اور تیسرے اس لئے کہ اس کے بعد یَہْدِیْ بِہٖ میں اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر کو ضمیر مفرد کی شکل میں لایا گیا ہے، جس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں پر نور اور کتاب مبین سے ایک ہی چیز مراد ہے۔ ورنہ اس کے لئے ضمیر مفرد کی نہیں تثنیہ کی لائی جاتی، سو ان تینوں قرینوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں پر نور کے لفظ سے مراد قرآن حکیم ہی ہے۔ پس اب حق و ہدایت کی روشنی قرآن حکیم سے وابستگی ہی سے میسر آ سکتی ہے، ورنہ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اور قرآنِ حکیم چونکہ حکمت اور شریعت دونوں کا مجموعہ ہے اس لئے یہ انسان کو ذہنی تاریکیوں سے بھی نکالتا ہے اور اس کی زندگی کے لئے عمل کی صحیح شاہراہ بھی متعین کرتا ہے اس لئے یہ نور بھی ہے اور کتاب مبین بھی، اہل کتاب چونکہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی روشنی کو ضائع کر کے تاریکیوں میں گھر گئے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو اتار کر ان کو اور باقی سب دنیا کو اس نور حق سے نوازا، والحمدللہ لیکن ان لوگوں کی بے قدری اور ناشکری کا عالم یہ ہے کہ یہ لوگ اس کے باوجود اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم
۱۷. پس وہ قادر مطلق جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، نہ اس کے لئے کچھ مشکل ہے۔ اور نہ کسی کو اس سے کچھ پوچھنے کا کوئی حق ہو سکتا ہے، سو حضرت عیسیٰ کا بغیر باپ کے توسط کے پیدا کرنا اس کی اس قدرت مطلقہ ہی کا ایک نمونہ و مظہر ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، پس اس بناء پر جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے کفر کا ارتکاب کیا وہ ان کی اپنی حماقت بدبختی اور کوڑ مغزی کا نتیجہ ہے والعیاذ باللہ، سو وہ قادرِ مطلق منکروں کو جو سزا چاہے دے۔ اور سچے ایمان والوں کو جس اجر و ثواب اور انعام و احسان سے چاہے نوازے۔ اس کے لئے نہ کچھ مشکل ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ، سبحانہ و تعالیٰ۔
۱۸. ۱: سو یہ عجب و استکبار کے اس مرض کی انتہاء ہے جو انسان کو ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں ڈالنے والا مرض ہے یعنی یہ کہ انسان انسانیت کی حدود سے نکل کر خدائی حدود میں داخل ہونے کا دعویدار بن جائے کہ اس کے بعد نہ وہ اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے احکام و اوامر کا پابند سمجھتا ہے۔ اور نہ ان کو بجا لانے کی کوئی فکر کوشش کرتا ہے اور وہ باغی و طاغی اور شیطان مرید بن کر رہ جاتا ہے اور وہ ہلاکت و تباہی کی اس راہ پر چل پڑتا ہے جو انسان کو دنیا و آخرت کے خسارے اور ہولناک تباہی تک پہنچا کر چھوڑتی ہے، والعیاذ باللہ العظیم
۲: اور بہرحال جانا ہے کوئی چاہے یا نہ چاہے اور مانے یا نہ مانے اس نے بہرحال اس کے یہاں حاضر ہو کر اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں سو وہاں پر ایسے تمام مفروضوں کی قلعی پوری طرح کھل جائے گی اور اصل حقیقت نکھر کر سامنے آ جائے گی، اور تم لوگوں کا یہ دعوی باطل و بے بنیاد اور خود ساختہ و من گھڑت ہے، تم نہ اس کے بیٹے ہو، اور نہ ہی اس کے محبوب و پیارے، ورنہ وہ تم لوگوں کو تمہارے گناہوں پر عذاب اور سزا کیوں دیتا؟ حالانکہ تم لوگوں پر جو جو عذاب آئے وہ بحیثیت مجموعی پوری تاریخ میں کسی قوم پر نہیں آئے تم کو صدیوں تک فرعون کی نہایت ذلت آمیز غلامی میں رہنا پڑا، تم کو بحیثیت مجموعی چالیس برس تک صحرا نوردی کرنی پڑی۔ تم کو گوسالہ پرستی کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں قتل ہونا پڑا۔ اور اس کے لئے اپنی ہی قوم کے ہزاروں لوگوں کو تم نے خود تہ تیغ کیا۔ اور تم کو قانون سنت کو توڑنے اور اس کی بے حرمتی کے نتیجے میں بندر اور خنزیر بننا پڑا، وغیرہ وغیرہ، تو پھر تم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے آخر کیسے اور کیونکر ہو سکتے ہو؟سو ایسی کوئی بات نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ وہ اس طرح کے تمام شوائب اور جملہ تصورات سے پاک، اور اعلیٰ و بالا ہے۔ پس تم اس کے بیٹے اور محبوب نہیں ہو۔ بلکہ عام مخلوق کی طرح ایک مخلوق ہو۔ وہ اپنے علم و حکمت کے مطابق جس کو چاہے معاف فرما دے۔ اور جس کو چاہے عذاب دے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔
۱۹. سو وہ قادر مطلق اپنی قدرت مطلقہ اور حکمت بالغہ سے جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، پس اس کی قدرت مطلقہ اور حکمت بالغہ کے مطابق تم لوگوں کے پاس حضرت خاتم الانبیاء والرسل کی صورت میں عظیم الشان بشیر و نذیر آگیا ہے جس کے بعد تمہارے لئے اس طرح کے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ تمہارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا جو تمہیں راہ حق و ہدایت سے آگاہ کرتا۔ پس اب اگر تم لوگوں نے اس پر ایمان لا کر راہ حق کو نہ اپنایا تو یقیناً تم مجرم اور قصور وار قرار پاؤ گے۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۲۱. روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسیٰ جب تمام منازل سفر طے کرتے ہوئے دشت فاران میں پہنچے، اور فلسطین کا علاقہ قریب آگیا تو چونکہ یہی ان کا اصل مقصود تھا، تو آپ نے بارہ سرداروں پر مشتمل ایک پارٹی کو حالات معلوم کرنے کے لئے وہاں بھیجا۔ یہ پارٹی جب وہاں کے حالات دریافت کرنے کے بعد واپس پہنچی۔ اور اپنی مہم کی رپورٹ سنائی۔ تو اس علاقے کی زرخیزی، خوبصورتی، اور شادابی سے متعلق تو انہوں نے نہایت شوق انگیز رپورٹ پیش کی۔ جس سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے رال ٹپک گئے ہوں گے۔ اور ان کے اندر اس سرزمین کے حصول، اور اس میں اترنے کا شوق پیدا ہو گیا ہو گا۔ لیکن جب انہوں نے اس ملک پر قابض باشندوں کے قد و قامت۔ اور ان کی زور آوی سے متعلق بتایا، تو اس سے یہ لوگ ڈر گئے، اور ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اور ان کا سارا شوق و ذوق ٹھنڈا پڑ گیا، اور انہوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا، اور واویلا شروع کر دیا۔ اور جس ملک پر قبضہ کرنے کی امنگیں لئے ہوئے یہ یہاں پہنچے تھے۔ اس پر قبضہ کرنے کی کوشش اور شوق تو درکنار انہوں نے واپس مصر پلٹ جانے کی باتیں شروع کر دیں، کہ اس سے تو وہی بہتر تھا۔ تو اس موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کے سامنے یہ تقریر فرمائی۔ اور اللہ تعالیٰ کے افضال و انعامات یاد کرا کے ان کے حوصلے بحال کرنے کی کوشش کی اور ان سے فرمایا کہ تم لوگ الٹے پاؤں نہ پھرو ورنہ سخت خسارے میں پڑ جاؤ گے۔
۲۳. کہ ایمان داری کا تقاضا یہی ہے کہ بھروسہ اللہ ہی پر کیا جائے کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سو اس پر بھروسہ کر کے جب تم لوگ ان کے دروازے تک پہنچو گے تو اللہ کی مدد تم لوگوں پر سایہ فگن ہو جائے گی۔ اور تم لوگوں کو غلبہ نصیب ہو جائے گا۔ ان دو شخصوں کے نام جن کا ذکر یہاں پر اس ضمن میں فرمایا گیا تورات میں یوشع اور کالب بتائے گئے ہیں۔ سو ان دونوں نے اپنی قوت ایمانی کی بناء پر ان لوگوں کی ہمت بندھانے کی کوشش کی۔ اور اللہ کے وعدوں اور عزم و ہمت کے ثمرات اور ان کی برکات کے بہتیرے حوالے ان لوگوں کو دیئے۔ مگر انہوں نے ان کی باتوں پر کان دھرنے اور ان کی نصیحتوں کو اپنانے کے بجائے الٹا انہوں نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ والعیاذُ باللہ، اور انہوں نے حضرت موسیٰ سے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم ہرگز اور کسی قیمت پر بھی وہاں نہیں جائیں گے، جب تک کہ وہ جبار اور سخت قسم کے لوگ وہاں موجود ہیں۔ اس لئے موسیٰ آپ خود جاؤ اور آپ کے ساتھ آپ کا رب بھی جائے۔ آپ دونوں جا کر ان لوگوں سے لڑو ہم تو بہرحال یہیں بیٹھیں گے۔ سو اس سے ان لوگوں کی حالت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے بلند بانگ دعووں کا بھی سو ان بدبختوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے حکم و ارشاد کے جواب میں اس طرح کا بیہودہ اور گستاخانہ جواب دے رہے ہیں۔ اور دعوی یہ ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے اور لاڈلے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم بکل حال من الاحوال، اس کے مقابلے میں امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب غزوہ بدر کے موقع پر اپنے ساتھیوں سے اس کے بارے میں جب مشورہ کیا اور انکی رائے لی تو انہوں نے جن ایمان افروز کلمات اس کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے،
۲۷. سو ہابیل نے قابیل سے کہا کہ اگر تیری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اس میں میرا کیا قصور؟ اللہ تعالیٰ تو پرہیزگار لوگوں ہی کی قربانی کو قبول فرماتا ہے۔ اور اس کے یہاں صدق و اخلاص ہی کی قدر و قیمت ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَنْ یَّنَالَ اللّٰہُ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآءُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہ التَّقْویٰ مِنْکُمْ۔ یعنی تجھے مجھ کو دھمکی دینے کے بجائے خود اپنے معاملے میں غور کرنا چاہیے کہ تجھ سے ایسی کیا کوتاہی ہوئی کہ تیری قربانی اللہ تعالیٰ کے شرف قبولیت سے مشرف نہیں ہو سکی۔ مگر انسان پر جب حسد کا دورہ پڑتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ تو وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آنکھیں بند کر کے اپنی ناکامیوں کے اسباب دوسروں میں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اور اس غصے میں وہ ان کے درپے انتقام و آزار ہو جاتا ہے، افراد میں اس بد بختانہ کردار کی سب سے پہلی مثال قابیل نے پیش کی۔ اور اقوام کے اندر یہود نے اسی لئے یہ سرگزشت یہود کو سنائی گئی کہ اس آئینے میں وہ اپنے منہ دیکھ لیں۔ کہ آج بھی حسد کا وہی کھیل یہ لوگ کھیل رہے ہیں جو قابیل نے اس موقع پر ہابیل کے ساتھ کھیلا تھا۔ اور اس کی روایت بھی دنیا کو انہی کے واسطے سے پہنچی ہے۔ اور یہی درس عبرت و بصیرت ہے ان کے بعد کے تمام حاسدین کے لئے اللہ تعالیٰ حاسدین کے حسد سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم آمین۔
۲۸. یعنی تم جو مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہو۔ اور میرے قتل کے لئے اقدام کرنا چاہتے ہو تو اس کی بناء پر میں یہ فرض کر کے تم میرے قتل کے لئے اقدام کرنا چاہتے ہو، میں تمہارے قتل کے لئے پہل قتل کرنے والا نہیں۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں، جس نے مجھے اور تجھے پیدا فرمایا ہے۔ اور ایک دوسرے کے جان و مال کے احترام کی ہدایت فرمائی ہے، سو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنا دفاع نہیں کروں گا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے قتل کے لئے پہل نہیں کروں گا۔ کیونکہ جرم کے لئے پہل کرنا ایک مستقل جرم ہے۔ خاص کر قتل جیسے کبیرہ گناہ میں پہل کرنا، جو کہ کبیرہ ہی نہیں، بلکہ ان سات بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ جن کو موبقات یعنی ہلاکت و تباہی میں ڈالنے والے انتہائی ہولناک گناہوں میں سے قرار دیا گیا۔ اور لسان نبوت سے ان سے بچنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ تو پھر حضرت ہابیل اس کے لئے پہلے کیسے کر سکتے تھے، والعیاذ باللہ جل وعلا
۳۱. سو قتل کے بعد قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو اسی طرح پڑا چھوڑ دیا۔ اس کو چھپانے اور دفن کرنے کی بھی کوئی صورت اس کو نہ سوجھی، تو اتنے میں قدرت کی طرف سے ایک کوا نمودار ہوا۔ اور کوے کی یہ عادت ہے کہ وہ جب کھانے کی کوئی چیز اچک لیتا ہے اور بروقت وہ اس کو کھانا نہیں چاہتا، تو وہ اس کو زمین کرید کر یا کسی اور چیز کے نیچے رکھ کر اس کو چھپا لیتا ہے سو اس کوے نے قابیل کے سامنے یہی نمائش کی جس کو دیکھ کر قابیل نے سر پیٹ لیا کہ میں اس کوے کے برابر بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو ٹھکانے لگا لیتا۔ تو اپنی اس حماقت پر اس کو بڑی ندامت ہوئی۔ سو قرآن حکیم نے اس ٹکڑے سے اس حقیقت کو نمایاں فرما دیا کہ جو خدا سے نہیں ڈرتے وہ مخلوق سے ڈرتے ہیں۔ اور جو خداوند قدوس کے حکم و ارشاد، اور اپنے ضمیر کی آواز کی پرواہ نہیں کرتے وہ کوے جیسے معمولی جانوروں سے الہام حاصل کرتے ہیں، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہدایت خداوی سے محرومی کے نتیجے انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم
۳۲. ۱: کیونکہ ایک جان کو قتل کرنے سے قتل کا راستہ کھلتا ہے، جس کے بعد کسی کی بھی جان محفوظ نہیں رہ سکتی، جبکہ اس کے برعکس ایک جان کی حفاظت سے ہر جان کی حفاظت کا سبق ملتا ہے۔ لیکن بنی اسرائیل کی جرأت و بیباکی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عہد و میثاق کو توڑا، اس کی خلاف ورزی کی۔ اور وہ اپنی بدبختی کی بناء پر اللہ کی زمین پر قتل و خونریزی کا ارتکاب کرتے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے نبیوں کے قتل تک کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ اور قتل و خونریزی کی یہی روش انکی پہلے رہی اور یہی آج ہے۔ جیسا کہ آج دنیا اس کا مظاہرہ ارض فلسطین میں اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے، اور دن رات دیکھتی ہے۔ اور مِنْ اَجْل ذالِک کا اشارہ اس خاص واقعے کی طرف نہیں بلکہ اس کا اشارہ دراصل شر و فساد اور قتل و خونریزی کی اس ذہنیت کی طرف ہے جس کا اظہار قابیل نے قتل نفس کے اپنے اس خبیث فعل سے کیا والعیاذ باللہ۔
۲: سو لوگوں کی اکثریت ہمیشہ ایسی ہی رہی جو اللہ کی مقرر کردہ حدوں کی پابندی و پاسداری کے بجائے ان کو پھلانگتی ہی رہی۔ کل بھی یہی تھا، اور آج بھی یہی ہے، پس عوام کی اکثریت کی حمایت یا مخالفت کو کسی کام کی صحت یا اس کے فساد کا معیار نہیں قرار دیا جا سکتا ، جیسا کہ مغربی جمہوریت کے پرستاروں کا کہنا ماننا ہے۔ اور جیسا کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے کہ فلاں فلاں بدعات چونکہ عوام کے اندر رائج ہیں اور عوام کالانعام کی اکثریت ان کو گلے لگائے ہوئے ہے لہٰذا یہ درست ہیں۔ وغیرہ وغیرہ کیونکہ عوام کالانعام کی اکثریت ہمیشہ غلط کاروں اور بہکے بھٹکے لوگوں ہی کی رہی ہے، کل بھی یہی تھا، اور آج بھی یہی ہے۔ اِلاّ ماشاء اللہ۔
۳۵. اس کی اطاعت و بندگی کے ذریعے، جیسا کہ حضرت قتادہ اس کی توضیح و تشریح میں فرماتے ہیں اَیْ تَقَرَّبُوْا اِلَیْہِ بِطَاعَتِہٖ وَالَعَمَلِ بِمَا یُرْضِیْہِ یعنی اس کا قرب حاصل کرو اس کی اطاعت وفرمانبرداری اور اس کی رضا و خوشنودی والے اعمال کے ذریعے، اور اس کا یہی مطلب حضرت ابن عباس، مجاہد، ابو وائل، حضرت حسن بصری، زید، عطاء اور ثوری وغیرہ اکابر امت اور اساطین علم و فضل نے بیان کیا ہے اور وسیلہ کے معنی لغت کے اعتبار سے قرب، مرتبہ، منزلت اور درجہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا سب سے بڑا نمونہ و مظہر اس کے حضور اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے سجدہ ریزی ہے۔ اس لئے اس کو اس کے حضور قرب و مرتبہ کے حصول کے لئے خاص اثر اور درجہ حاصل ہے۔ اسی لئے اس بارے اس کا حکم و ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے فَاسْجُدُ وَاقْتَرِبْ۔ یعنی اس کے حضور سجدے کرتے جاؤ اور اس کے قرب سے مشرّف و فیضیاب ہوتے جاؤ۔ سو یہ ہے مفہوم و مطلب وسیلہ کا جو کہ عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور جمہور علماء و مفسرین کا قول و اختیار ہے چنانچہ ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر، ابن کثیر، قرطبی، مراغی، اور محاسن التاویل، وغیرہ پس اہل بدعت کے جن لوگوں نے اس لفظ کو اس کے خلاف معنی پہنائے ہیں، اور اس پر آگے طرح طرح کی بدعات اور شرکیات کے ردے لگائے ہیں، وہ سب ان لوگوں کی ذہنی اُیچ اور ان کی اپنی اختراعات و ایجادات ہیں جن کو انہوں نے اپنی طرح طرح کی اہواء و اغراض کی بناء پر گھڑا ہے، اور جن کی نہ کوئی اصل ہے نہ اساس سوائے ان لوگوں کے بدعی سہاروں اور شرکیہ مفروضوں کے۔ والعیاذ باللہ العظیم
۳۶. اوپر والی آیت کریمہ میں فلاح پانے کے لئے جس خاص لائحہ عمل کا ذکر فرمایا گیا تھا اس آیت کریمہ سے اس کے برعکس ان لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جنہوں نے فلاح کے اس لائحہ عمل کے خلاف رویہ اپنایا، سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے خدا سے ڈرنے، اس کا قرب ڈھونڈنے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے لئے سرگرم رہنے کے بجائے دنیائے فانی کی لذتوں اور عیش کوشیوں ہی کو اپنا اصل مقصد اور نصب العین قرار دے دیا اور آخرت کے تقاضوں کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا۔ اور انہوں نے راہ حق و حقیقت کو اپنانے کے بجائے اپنی زندگی بے بنیاد سہاروں اور خیالی سفارشوں کے اعتماد پر گزار دی۔ اور انہوں نے ایسی توقعات قائم کر لیں کہ اگر آخرت ہوئی بھی تو وہاں کی تمام تر کامرانیاں انہی کے حصے میں آئینگی وَلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلیٰ رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا۔ یہاں تک کہ ان کی عمر اسی طرح تمام ہو گئی، اور ایسے لوگ کفر و انکار ہی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سو ایسے لوگ اگر بالفرض وہاں روئے زمین کے خزانوں کے بھی مالک ہو جائیں۔ اور ان کو انہی کے برابر اور بھی خزانے مل جائیں، اور یہ اس سب کو اپنے عذاب کے بدلے میں دے دیں تو بھی وہ ان سے کبھی قبول نہیں ہو گا، اور ایسے لوگ دوزخ کے اس ہولناک عذاب سے کبھی اور کسی بھی طرح نہیں نکل سکیں گے۔ اور ان کے لئے وہاں پر اَبَدی اور دائمی عذاب ہو گا والعیاذ باللہ العظیم
۳۷. سو ایسے لوگ دوزخ کے اس دائمی عذاب سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ اور ان کے لئے وہاں پر دائمی عذاب ہو گا۔ سو ایسے کافروں کو جن کا اخروی انجام یہ ہونے والا ہے، ان کو اگر دنیاوی زندگی کی اس محدود فرصت میں روئے زمین کی تمام دولت بھی مل جائے تو بھی ان کو کیا ملا؟ اور ان سے بڑھ کر بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ کہ ان کا انجام تو یہ ہونے والا ہے، والعیاذ باللہ العظیم اور اس کے برعکس جن اہل ایمان کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت کی اَبَدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے گا ان سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ اگرچہ دنیا میں ان کو نان جویں بھی میسر نہ رہی ہو؟ کہ وہ وہاں پر دائمی اور ابدی نعمتوں میں رہیں گے۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دنیاوی زندگی کی یہ مختصر و محدود فرصت کس قدر عظمت و اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اہل ایمان کی طرف سے کیا جانے والا معمولی سے معمولی صدقہ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں شرف قبولیت پائے گا اور وہ ان کو کئی گنا بڑھ کر واپس ملے گا جبکہ وہ صدق و اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہو۔ مگر وہاں پر روئے زمین کی دولت اور اسی کے ساتھ اتنی ہی دولت اور بھی مل جائے تو وہ بھی کسی سے قبول نہیں ہو گی، اور اس کی بھی وہاں پر کوئی قدر و قیمت نہیں ہو گی۔ پس بڑے ہی سخت خسارے میں ہیں وہ لوگ جو حیات دنیا کی اس فرصت محدود و مختصر کی اس عظمت شان سے غافل و بے خبر ہیں اور وہ اس کو کفر و انکار کے ساتھ یونہی لہو و لعب اور لایعنی و بے مقصد امور میں ضائع کرتے ہیں، اللہ اپنی پناہ میں رکھے اور زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں میں صرف کرنے کی توفیق بخشے، کفر و انکار کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
۴۱. ۱: سو اس ارشاد سے ایک طرف تو یہود اور منافقین کے گٹھ جوڑ کے بارے میں پیغمبر کو تسلی دی گئی ہے، کہ ان کے اس باہمی گٹھ جوڑ سے آپ کو پریشان اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں، کہ آپ کا کام صرف تبلیغ اور دعوت حق ہے اور بس اس سے آگے بڑھ کر لوگوں سے منوا لینا، اور ان کو راہ حق پر ڈال دینا نہ آپ کے ذمے ہے اور نہ ہی یہ آپ کے بس میں ہے، تبلیغ حق کے بعد آپ کا ذمہ فارغ، اس کے بعد یہ لوگ اپنے ذمہ دار خود ہیں، پس آپ تبلیغ حق کے بعد ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور دوسری طرف اس میں یہ درس عظیم بھی ہے کہ پیغمبر کو پکارنے اور خطاب کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ آپ کو صریح نام مبارک کے بجائے آپ کے کسی خاص و صف ہی سے پکارا جائے کہ صریح نام سے پکارنا تقاضاء ادب کے خلاف ہے۔ اسی لئے پورے قرآن کریم میں کسی ایک مقام پر بھی آپ کو صریح نام سے، یعنی یا محمد کہہ کر نہیں پکارا گیا۔ بلکہ کسی نہ کسی خاص وصف ہی کے ساتھ پکارا گیا ہے۔ جیسے یاایُّہَا الرَّسُوْلُ یٰا اَیُّہَا النَّبِیُّ، اور یا اَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ، یَا اَیُّہَا الْمُدَّثَّرْ وغیرہ، مگر ہمارے یہاں کے جہالت کے مارے ہوئے اہل بدعت کا کہنا ہے کہ اسیں یامحمد کہندے رہنا اے۔ یعنی ہم نے بہرحال یا محمد کہتے رہنا ہے فالی اللہ المشتکیٰ وہو المستعان فی کل حین وان۔۲ سو اس ارشاد سے منافقین کی اس خاص صفت کو بیان فرمایا گیا ہے جس کی بناء پر یہ لوگ دوڑ دوڑ کر کفر میں جا گرتے ہیں، سو اس سے واضح فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کا من بھاتا کھاجا چونکہ جھوٹ ہے۔ یہ لوگ جھوٹ کے رسیا، جھوٹ کے گاہک، اور جھوٹی گواہیوں کے عادی ہیں اس بناء پر یہ جھوٹی عدالت اور جھوٹا فیصلہ ہی چاہتے ہیں، اور یہ سب کچھ چونکہ ان کو یہود کے یہاں ہی ملتا ہے اور وافر مقدار میں ملتا ہے، اس لئے یہ لوگ پیغمبر کی عدالت کے بجائے یہود کی طرف ہی بھاگتے ہیں۔ کہ یہ جس جنس کے خریدار ہیں وہ ان کو یہود کے اسی بازار سے ملتی ہے، اور یہ انہی کے کہنے پر چلتے اور انہی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۲: اس ارشاد سے دراصل ہدایت و ضلالت کے بارے میں اس سنت الٰہی کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو سورہ بقرہ کے شروع میں اور قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے بیان فرمائی گئی ہے۔ اور وہ سنت الٰہی اور دستور خداوندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو حق و باطل، اور خیر و شر کے بارے میں فرق و امتیاز کی صلاحیت اور اس کا اختیار دے کر دونوں طرح کے حالات سے آزماتا ہے۔ اس کے سامنے نفس و شیطان کی طرف سے شر اور باطل بھی آتا ہے اور اس کی طرف سے ان کو اس کی رغبت و تحریص بھی ملتی ہے اور فطرت و جبلت اور خدائے رحمان کی طرف سے خیر اور حق بھی اور اس طرح اس کے ارادہ و اختیار اور عقل و فکر کا امتحان ہوتا ہے، کہ یہ خیر اور حق کو، اختیار کرتا ہے یا شر اور باطل کو اور سنت الٰہی یہی ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اور دیکھتے سنتے شر کو خیر پر اور باطل گو حق پر ترجیح دیتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ آخرکار اپنے اختیار کردہ فتنے ہی میں اوندھے پڑے رہ جاتے ہیں، ایسے لوگوں پر نہ اہل حق کی نصیحتوں کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ خداوند قدوس کی طرف سے تنبیہات سے کوئی سبق لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں آخرکار ان کے قلوب و ضمائر، اور ان کے مدارک علم و ادراک ایسے کند، اور اس قدر بے حس ہو کر رہ جاتے ہیں، کہ قبول حق اور اس کے فہم و ادراک کی صلاحیتوں سے ہی محروم ہو کر رہ جائے ہیں والعیاذُ باللہ العظیم
۴۳. اسی لئے یہ لوگ اللہ کے حکم اور پیغمبر کے فیصلے سے کنی کتراتے، اور روگردانی برتتے ہیں، ورنہ یہ اس طرح کا رویہ کبھی اختیار نہ کرتے سو دولت ایمان و یقین سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذُ باللہ۔ یہاں پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ احکام اور خاص کر حدود و تعزیرات سے متعلق احکام بنیادی طور پر تورات اور قرآن دونوں میں یکساں ہی ہیں۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہ تھا کہ جن امور سے متعلق قرآن حکیم کی کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہوتی تو ان میں آپ تورات کے احکام کے مطابق ہی فیصلہ فرماتے تھے اور یہود کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ تورات کے قانون ہی کے مطابق ہے تو پھر ایسی صورت میں ان لوگوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے سے کنی کتراتا، اور اعراض و رُو گردانی برتنا، کیسی بے حیائی اور کس قدر ڈھٹائی کی بات تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے معاملات کا حکم بھی مانا جائے، اور یہ بھی پتہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ اسی قانون کے مطابق ہے جس کو ماننے کے یہ لوگ دعویدار ہیں۔ سو یہ اس بات کا صاف اور صریح ثبوت ہے کہ ان لوگوں کا کسی بھی چیز پر ایمان نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اپنی اس کتاب پر بھی جس پر ایمان کے یہ دعویدار تھے۔ ورنہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے سے کبھی نہ مکرتے۔ پس یہ اپنی کتاب پر ایمان کے دعوے میں بھی جھوٹے تھے۔
۴۴. سو اس سے تورات کے سچے اور مخلص حاملین کے رویے کو واضح فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والے انبیاء کرام اور ان کے مخلص علماء فقہاء اپنے معاملات و مقدمات کے فیصلے تورات کے احکام و قوانین کے مطابق ہی کیا کرتے تھے۔ اور ان کو اپنی اس ذمہ داری کا پوری طرح احساس بھی تھا کہ ان کو خداوند قدوس کی طرف سے تورات کا امین و محافظ اور اس کا گواہ بنایا گیا ہے، اس بناء پر ان کے لئے نہ اس میں کسی طرح کی کوئی خیانت جائز ہے، اور نہ اس کے اظہار و اعلان کے سلسلہ میں کسی طرح کی کوئی تقصیر و کوتاہی۔ بلکہ یہ اللہ کا عہد و میثاق ہے جسے بہرحال پورا کرنا ہے۔ سو اس سے وقت کے یہودیوں کے سامنے آئینہ رکھ کر ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ تورات سے متعلق ان پر کیا ذمہ داریاں عائد تھیں۔ ان کے صالح اسلاف نے ان ذمہ داریوں کو کس طرح نبھایا۔ مگر ان کے خلاف کا نمونہ اور رویہ کیا ہے ان کو کیا اور کیسا ہونا چاہیے تھا۔ اور یہ کیا اور کیسے ہیں۔ اور یہ آج کہاں کھڑے ہیں؟ نیز یَحْکُمُ کے لفظ سے یہاں پر اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ کتاب الٰہی کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے معاملات و نزاعات کے بارے میں امر و حکم اور فیصلہ و قضاء کا ذریعہ بنے، اور تمام انفرادی و اجتماعی اور سیاسی اور قانونی معاملات اسی کی ہدایت کے مطابق اور اسی کی روشنی میں انجام پائیں۔ اس کی یہ حیثیت اگر باقی نہ رہے۔ اور اس کو محض تبرک کی چیز بنا کر رکھ دیا جائے۔ زندگی کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے، تو یہ اللہ کی کتاب سے مذاق اور اس کے ساتھ کفر ہے۔ والعیاذُ باللہ، افسوس کہ آج امت مسلمہ کے بھی کتنے ہی طبقے اور گروہ ایسے ہیں۔ جن کا رویہ قرآن حکیم کے ساتھ ایسا ہی ہے کہ انہوں نے بھی قرآن حکیم کو اپنی زندگی اور اپنے معاملات میں حکم اور راہبر بنانے کے بجائے ایک تبرک اور چومنے چاٹنے کی چیز بنا کر رکھ دیا ہے، عملی زندگی میں اس کی ہدایت و راہنمائی سے ان کو کوئی سروکار نہیں، اِلاَّ ماشاء اللہ والعیاذُ باللہ العظیم۔
۴۶. یعنی حضرت عیسیٰ کی بعثت و تشریف آوری انہی انبیاء کرام کے نقش قدم پر ہوئی جن کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے۔ سو اس ارشاد ربانی میں علیٰ اٰثارہم کی تصریح سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت و تشریف آوری اپنے مقصد و مزاج، اپنی غرض و غایت، اپنے عمل و کردار، اور اپنے طریق کار کی یکسانیت کی بناء پر ایک ہی جیسی ہوتی ہے، اور ان حضرات کی باہمی مشابہت و یکسانیت منجملہ علامات نبوت کے ہوتی ہے سو جس طرح ایک شجرہ طیبہ کے برگ و بار میں باہمی مشابہت پائی جاتی ہے اسی طرح شجرہ نبوت کے اس مقدس گروہ کے افراد کے اندر بھی باہمی مشابہت پائی جاتی ہے اور ایسی اور اس درجہ کی، کہ جو ان میں سے ایک کو پہچان گیا وہ سب کو پہچان گیا۔ اور ان قدسی صفت حضرات کے بارے میں التباس انہی لوگوں کو پیش آتا ہے جو اپنے قلب و باطن کے اعتبار سے اندھے اور اوندھے ہوتے ہیں۔ یا وہ اپنی اہواء و اغراض کی بناء پر اندھے اور اوندھے بن جاتے ہیں اور ان کی عقل و بصیرت کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں لیکن جن کی عقلیں کھلی ہوتی ہیں وہ اس بارے کبھی دھوکہ نہیں کھاتے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وہو الہادی الی سبیل ارشاد
۴۷. اس سے اس حقیقت کا پھر اعادہ فرما دیا گیا کہ کتاب الٰہی کے اتارنے کا اصل مقصد و مدعا یہی ہوتا ہے کہ اس کو زندگی کے تمام معاملات اور نزاعات میں حَکمَ اور منصف مانا جائے۔ اور فیصلے ہمیشہ اسی کی ہدایات عالیہ کے مطابق اور اسی کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں کئے جائیں ورنہ اگر اس کو جزدانوں میں لپیٹ کر رکھ دیا جائے۔ اور معاملات و قضایا کو طاغوت کے پاس لے جایا جائے۔ اور ان کے فیصلوں کو انہی کے حوالے کر دیا جائے، تو پھر کتاب الٰہی کو ماننا اور نہ ماننا ایک برابر ہو کر رہ جاتا ہے، والعیاذ باللہ، فاسق کا لفظ یہاں پر فقہی مفہوم میں نہیں، بلکہ قرآنی مفہوم میں ہے اور قرآنی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ جیسا کہ ہم نے بعض دوسرے مقامات پر بھی ذکر کیا ہے، غداری، عہد شکنی، اور سرکشی، وغیرہ کے مفہوم میں آیا ہے۔ اسی لئے اس کا استعمال ابلیس کے لئے بھی ہوا ہے، ارشاد ہوتا ہے کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ پس جو لوگ جانتے بوجھتے اور اپنا اختیار و آزادی رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے خلاف فیصلے کرتے یا کراتے ہیں۔ وہ کافر بھی ہیں، اور ظالم اور فاسق بھی، والعیاذ باللہ جل وعلا سو یہ تنبیہ ہمیشہ عہد الٰہی کے جزو لاینفک کے طور پر رہی ہے، جو اور یہ اہم عہد ہے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے ان کو کتاب حوالے کرتے وقت باندھا ہے تاکہ وہ اس کی پابندی کریں چنانچہ اوپر تورات کے ذکر سے متعلق آیت نمبر۴۴ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے وہ کافر ہیں۔ پھر اس کے متصل بعد آیت نمبر۴۵ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے وہ ظالم ہیں۔ اور اب یہاں پر آیت نمبر۴۷ میں انجیل کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ انجیل والوں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔ سو اس سب سے واضح ہو جاتا ہے کہ کتاب الٰہی کا اصل مقتضیٰ یہی ہوتا ہے کہ اس کو اپنے تمام قضایا میں حَکمَ بنایا جائے، وباللہ التوفیق
۴۹. سو اس سے اس عہد و میثاق کو بھی واضح فرما دیا گیا جو قرآن حکیم سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے توسط سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت سے لیا گیا جس طرح کہ تورات و انجیل سے متعلق ان کے حاملین سے لیا گیا تھا، جیسا کہ ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اب یہ کتاب حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز اور کسوٹی کے طور پر اور احکام الٰہی کے آخری اور کامل مجموعے کی شکل میں تمہارے پاس آ گئی ہے۔ پس اب تم اپنے معاملات و نزاعات کے فیصلے اسی حق کے مطابق کرنا جو تمہارے پاس اس کتاب حکیم کی شکل میں آگیا ہے، پس اس سے منہ موڑ کر ان منافقین و منحرفین کی خواہشات کی کبھی پیروی نہ کرنا جو اپنی خواہشات اور اہواء و اغراض کے مطابق فیصلے کرانے کے لئے تمہارے پاس آتے ہیں یا آئندہ آئیں گے، بلکہ فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہی کرنا،۲جو اپنے فسق و بدکاری۔ اور اپنی اہواء و اغراض کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں، اور وہ ان ہی کے پیش نظر راہ حق و ہدایت سے اعراض و رُوگردانی برتتے ہیں، کیونکہ حق و ہدایت سے روگردانی کر کے اہواء و اغراض کی پیروی کرنا کفر، ظلم، اور فسق ہے۔ جس طرح کہ تورات اور انجیل سے متعلق اوپر ذکر ہو چکا ہے نیز یہاں سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ عوام کی اکثریت ہمیشہ فاسقوں اور بدکاروں ہی کی رہی ہے بس عوام کی اکثریت کی رائے کو حجت نہیں قرار دیا جا سکتا ۔
۵۱. کہ ایسے ظالم لوگ دولت ہدایت سے سرفرازی چاہتے ہی نہیں، ورنہ یہ اہل ایمان کو چھوڑ کر اسلام کے دشمنوں کو اپنا دوست اور معتمد نہ بناتے۔ سو یہ لوگ جب ہدایت کے طلب گار ہی نہیں ہیں تو پھر ان کو دولت ہدایت سے سرفرازی آخر کس طرح اور کیونکہ نصیب ہو سکتی ہے؟ جبکہ اس کے لئے اولین شرط طلب صادق ہی ہے؟ سو اس ارشاد سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کو چھوڑ کر یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست اور معتمد بنانا ایمان و اسلام کے تقاضوں کے خلاف، اور ظلم ہے۔ اور دوسری طرف اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ظالموں کو ہدایت کی دولت سے سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی۔ کہ یہ لوگ نہ اس کے طالب و خواہشمند ہوتے ہیں، اور نہ ہی اس کے اہل اور مستحق، پس حق و ہدایت کی دولت انہی کو نصیب ہو سکتی ہے جو اس کے اہل اور طالب ہوں۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال،
۵۲. مرض یعنی بیماری سے یہاں پر مراد نفاق کی بیماری ہے، جو ایسی ہولناک بیماری ہے کہ اس سے آگے کئی طرح کے مہلک امراض جنم لیتے ہیں سو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا یہ مہلک مرض موجود ہوتا ہے وہی کفر و انکار کے ایسے سرغنوں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لئے سرگرم اور بے قرار رہتے ہیں۔ جو کہ نور ایمان و یقین سے محرومی کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو منافق لوگ چونکہ نور ایمان و یقین سے محروم ہیں اس لئے یہ خوف میں مبتلا رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں اور ان کے مخالفین کے درمیان جو کشمکش برپا ہے پتہ نہیں اس کا نتیجہ کیا اور کس کے حق میں نکلتا ہے، اس لئے ہم لوگوں کو دونوں ہی طرف سے بنائے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وقت آنے پر ہم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔ سو ان کو غرض حق و ہدایت، اور صدق و صواب سے نہیں ہوتی، بلکہ اپنی اہواء و اغراض، اور اپنے دنیاوی فوائد و منافع اور وقتی اور مادی مفادات سے ہوتی ہے، انہی کی حفاظت ان کا اصل مقصد ہوتا ہے، اور بس، والعیاذ باللہ العظیم
۵۳. ۱: سو اس سے مسلمانوں کے اس تعجب کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کا اظہار وہ اس وقت کریں گے جس وقت کہ ان نام نہاد مسلمانوں یعنی منافقوں کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور ان کا کفر و نفاق کھل کر سب کے سامنے آ جائے گا سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس وقت اہلِ ایمان ان کے بارے میں کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو بڑے زور و شور سے قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں سو اس ارشاد سے دراصل مقصود منافقین کو جھنجھوڑنا اور تنبیہ کرتا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ چھپنے اور چھپانے کی ان کی یہ منافقانہ روش ہمیشہ مخفی اور پوشیدہ نہیں رہے گی، بلکہ بالآخر ایک دن یہ آشکارا ہو جائے گی۔ اور اس وقت ان کی سب کے سامنے اور برسر عام رسوائی ہو گی، اور ایسی کہ ان کے لئے منہ چھپانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی، والعیاذ باللہ جل وعلا
۲: یعنی ان لوگوں کے وہ عمل جن کو یہ نیکی سمجھ کر کر رہے ہیں۔ مگر وہ ایمان و اخلاص کی بنیاد سے عاری اور محروم ہیں۔ اس لئے ان کے ایسے تمام عمل اکارت چلے جائیں گے، اور وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اعمال کی قبولیت اور ان کے مثمر و مفید ہونے کا انحصار اور دار و مدار ایمان و اخلاص پر ہے، اور اس سے یہ لوگ محروم اور عاری ہیں، اور نفاق کے ساتھ کی جانے والی دینداری کی نمائش کی نہ کوئی حقیقت ہو سکتی ہے نہ حیثیت، یہ سب کچھ اس روز ہَبَائً مَّنْثُوْرًا ہو جائے گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔
۳: سو ان صفات کے ذکر و بیان سے ایک طرف تو اس حقیقت کو واضح فرمایا دیا گیا کہ اللہ کے دین کے حامل اور علمبردار لوگوں کی صفات کیا اور کیسی ہونی چاہیں، اور دوسری طرف اس سے اس امر کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ ان صفات و خصال سے عاری اور محروم ہونے کے باوجود ایمان و اسلام کا دعویٰ کرتے، اور دم بھرتے ہیں، وہ اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں اور اس طرح کے زبانی کلامی دعووں کا نہ کوئی حاصل ہے نہ فائدہ، پس اگر یہ سچ مچ کے اور مخلص مسلمان بننا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اندر یہ اور یہ صفات پیدا کریں، تاکہ خود ان کا بھلا ہو، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کی اس حقیقی اور اَبَدی زندگی میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والی ہے، اور جہاں ایمان صادق اور عمل صالح کی پونجی ہی کام آ سکے گی اور بس، ورنہ ان کے ان زبانی کلامی دعووں کا نہ کوئی فائدہ اور نہ حاصل و نتیجہ، سوائے دھوکے کے، والعیاذ باللہ العظیم
۵۵. سو رکوع سے یہاں پر مراد اس کا اصطلاحی مفہوم نہیں بلکہ لغوی مفہوم ہے۔ یعنی عاجزی، فروتنی، نیاز مندی، اور عجز و انکساری، سو ان کی نماز اور ان کی زکوٰۃ اسی شان کی ہوتی ہے کہ وہ دل و جان سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہتے ہیں، کہ مخلص ایمانداروں کی عبادات اسی شان کی ہوتی ہیں کہ وہ دل و جان سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہتے ہیں، جبکہ منافقوں کی نمائشی عبادتیں محض دکھلاوے اور ظاہر داری کی ہوتی ہیں، اور وہ حقیقت و روح سے خالی اور محروم ہوتی ہیں، سو ایسے ہی مخلص اور سچے مسلمان اہل ایمان کے دوست اور ساتھی ہو سکتے ہیں۔ بہر کیف یہاں پر وَہُمْ رَاکِعُوْنَ (کہ وہ دل و جان سے اپنے رب کے حضور جھکے رہتے ہیں) کی قید کے ذکر سے ان لوگوں کی عاجزی و فروتنی۔ اور انقاء و نیاز مندگی کی کیفیت کو ظاہر فرمایا گیا ہے، اور نماز کے اندر رکوع درحقیقت انسان کی اسی حالت و کیفیت کی عملی شکل ہے جو کہ اصل مقصود ہے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،
۵۷. کہ تمہارے ایمان و عقیدے کا تقاضا یہی ہے کہ تم لوگ ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل ٹھرا رکھا ہے، خواہ وہ اہل کتاب میں کے کافر ہوں یا دوسرے کھلے اور عام کافر، سو اس ارشاد سے اہل ایمان کے جذبہ غیرت و حمیت کو ابھارا گیا ہے، کہ جب وہ لوگ ایسے ہیں کہ تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں تو پھر ان کو اپنا دوست بنانا تمہاری دینی حمیت و غیرت آخر کس طرح گوارا کر سکتی ہے؟ اور پھر تمہارے لئے ایسا کرنے کی آخر کیا گنجائش ہو سکتی ہے؟
۵۸. کیونکہ اگر یہ لوگ صحیح طور پر عقل سے کام لیتے، تو اذان جیسے عظیم الشان شعار کا مذاق کبھی نہ اڑاتے، جو کہ حق و ہدایت اور فوز و فلاح سے سرفرازی کے لئے ایک عظیم الشان دعوت و پکار ہے۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو کوئی نیکی اور بھلائی کی قدر کرنے کے بجائے اس کا مذاق اڑاتا ہے، وہ صرف دینداری ہی سے نہیں، بلکہ عقل سے بھی محروم ہے، والعیاذُباللہ العظیم۔
۵۹. سو اس سے اہل کتاب کے دلوں پر ایک دستک دی گئی ہے کہ تم لوگ آخر ہم سے کس بات کا انتقام لیتے، اور ہمارے اندر کیا برائی پاتے ہو؟ ہمارا کوئی جرم و قصور نہیں سوائے اس کے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس کتاب پر جو ہماری طرف اتاری گئی ہے۔ اور ان تمام کتابوں پر بھی جو کہ اس سے پہلے اتاری گئی ہیں، جبکہ تم لوگوں کی اکثریت فاسق اور بدکاروں کی ہے نہ تم لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہو جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے اور نہ ہی تم اس آخری، اور سب کی جامع کتاب پر ایمان لانے کے لئے تیار ہو جو اب ہماری طرف اتاری گئی ہے، سو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہماری نیکی ہی تمہارے نزدیک برائی بن گئی۔ سو یہ کیسی حماقت اور کس قدر ظلم و زیادتی ہے کہ کسی کی اچھائی کو بھی برائی اور اس کی نیکی کو بھی بدی بنا دیا جائے؟ والعیاذ باللہ العظیم۔
۶۰. سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ آج اس دنیا میں تو تمہارے نزدیک ہم سب سے برے ہیں اسی لئے تم لوگ ہمارے درپے آزار ہو، اور ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ لیکن کیا تمہیں اس بات کی بھی کچھ خبر ہے کہ کل قیامت کے اس یوم عظیم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک انجام کے لحاظ سے سب سے برا کون ہو گا؟ اگر نہیں پتہ تو آؤ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ وہ لوگ وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت و پھٹکار کر دی۔ ان کے اندر سے اس نے کچھ کو بندر اور خنزیر بنا دیا، اور انہوں نے طاغوت کی بندگی کے ہولناک جرم کا ارتکاب کیا، سو ان لوگوں کا انجام سب سے برا اور انتہائی ہولناک ہو گا، کہ انہوں نے صراط مستقیم کی اس سیدھی راہ سے انحراف کیا اور یہ اس سے بھٹک گئے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کھولا ہے اور جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے سو ہم پر دانت پیسنے کے بجائے تم لوگوں کو اپنی فکر کرنی چاہیے۔ کہ تمہارا جرم بہت سنگین ہے کہ تم نے اہل کتاب ہونے کے باوجود ایسے ہولناک اور اس قدر سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔ اور طاغوت تک کی پرستش کی۔ کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا اور انجام بہت برا ہے اور یہ راہ حق و ہدایت سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے۔ جس سے ان کا سارا سلسلہ حیات ہی غلط ہو گیا۔ سو ایسوں کو دوسروں کے پیچھے پڑنے کے بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے، کہ عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ انسان دونوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنی فکر کرے، کہ اس سے دوسروں کے بارے میں نہیں، بلکہ خود اس کے اپنے بارے میں پوچھ ہو گی، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا عَلَیْکُمْ اَنْفُسِکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ کہ تم لوگ خود اپنی فکر کرو، کہ اگر تم خود ہدایت پر ہوئے تو دوسروں کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔
۶۲. سو اس سے ان لوگوں کے دعویِ ایمان کی قلعی کھول دی گئی کہ یہ لوگ دعوی تو ایمان کا کرتے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ ان کی دن رات کی دوڑ بھاگ حق تلفی، ظلم و زیادتی، اور حرام خوری کے کاموں ہی کے لئے ہوتی ہے یُسَارِعُوْنَ کے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایمان کے ساتھ کسی ظلم و زیادتی کا صادر ہو جانا، یا کسی حرام سے آلودہ ہو جانا، تو بعید نہیں، لیکن حرام خوری ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا۔ اور ظلم و زیادتی اور حق تلفی ہی کی تگ و دو میں لگے رہنا ایمان کے تقاضوں کے خلاف، اور بہت ہی بُرا عمل ہے والعیاذ باللہ العظیم۔
۶۳. پس ارشاد میں ان کے علماء و مشائخ پر سرزنش ہے کہ آخر وہ ان کو ان کی ان برائیوں اور حرام خوریوں سے روکتے کیوں نہیں۔ سو اس سے علماء و مشائخ کے فرض منصبی کی بھی وضاحت فرما دی گئی، کہ ان کا کام اور ان کا فریضہ منصبی یہ ہے کہ یہ لوگوں کو برائی سے روکیں، اور ان کو نیکی اور خیر کی تعلیم دیں، کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دین حق میں خاص اور بہت بڑی اہمیت ہے، اور نصوص قرآن وسنت میں اس کی اہمیت و ضرورت اور اس کی عظمت شان کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ انسانی معاشرے کی صلاح و اصلاح اور انسانیت کی فوز و فلاح کا دارو مدار بڑی حد تک اور بنیادی طور اسی سے وابستہ ہے، نیز یہاں پر اس ارشاد سے یہود کے زوال کی اس آخری حد کی بھی نشاندہی فرما دی گئی جس کو وہ لوگ پہنچ گئے تھے۔ سو جب مریض مرض کی آخری حد کو پہنچ جائے اور طبیب اس کی موت ہی کو اس کے لئے شفاء سمجھنے لگے تو ایسے مریض کی ہلاکت میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے؟ والعیاذُ باللہ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ سے مراد گناہ کی وہ باتیں بھی ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اور کچھ کا آگے آرہا ہے اور اس سے مراد وہ جھوٹی شہادت بھی ہے جس نے یہودی معاشرے کے اندر ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ حالانکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و عدل کا گواہ اور اس کا امین و پاسدار بنایا گیا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ جب کوتوال اور چوکیدار خود چور اور ڈاکو بن جائے تو پھر حفاظت کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟ سو اس میں اہل ایمان کے لئے بڑا درس عبرت و بصیرت ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، اِلاَّ ماشاء اللہ، والعیاذ باللہ العظیم
۶۴. یہ یہود بے بہبود کی ایک اور گستاخی اور قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ یعنی ان کی گناہ کی باتوں کا ایک اور نمونہ ہے جس کو یہاں پیش فرما دیا گیا ہے، یعنی ان بدبختوں کا یہ کہنا کہ خداوند قدوس کے ہاتھ بند ہو گئے، اور یہ ان بدبختوں کی وہی بات ہے جس کا ذکر اس سے پہلے اٰل عمران کی آیت نمبر۱٨۱ میں ہو چکا ہے اور وہاں پر ان کی اس بیہودہ بات کی سنگینی اور ان کے نتیجہ و انجام کو بھی ذکر فرما دیا گیا، چنانچہ وہاں پر ان کے اس قول کو ذکر و بیان کرنے کے بعد، اس سے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ یقیناً اللہ نے سن لی ان لوگوں کی بات جنہوں نے کہا کہ اللہ غریب ہے اور ہم امیر یعنی اب اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم و ارشاد فرمایا۔ اور اس کے لئے ترغیب دی، تو اس موقع پر اور اس بارے میں ان بدبختوں نے اسلام اور قرآن کا مذاق اڑانے اور مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے کے لئے اس طرح کی بیہودہ بات کہی، اور کہا کہ مسلمانوں کے اللہ میاں آجکل بہت غریب ہو گئے ہیں، سو وہاں پر ان کے اس قول کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم لکھ دیتے ہیں ان کے اس قول کو، اور ان کے نبیوں کے ناحق طور پر قتل کرنے کے جرم کو، یعنی یہ دونوں جرم اپنی سنگینی میں ایک برابر ہیں جن کا بھگتان ان کو دوزخ کی ہولناک آگ کی صورت میں بھگتنا ہو گا، اور بہرحال بھگتنا ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم
۶۵. سو اہلِ کتاب اگر حسد اور عناد کے بجائے ایمان و تقویٰ کی روش کو اپناتے، اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، اور حضرت امام الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام پر سچے دل سے ایمان لے آتے، اور تقوی و پرہیزگاری کی رَوَش کو اپناتے تو اس سے خود انہی کا بھلا ہوتا۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، کہ اس سے ان کے گناہوں اور برائیوں کی میل کو صاف کر دیا جاتا، اور ان کو نعمتوں بھری جنتوں سے سرفراز و سرشار کر دیا جاتا۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے عناد و ہٹ دھری کی بناء پر ایمان و انقیاد کی اس راہ حق و ہدایت کے بجائے اعراض و استکبار سے کام لیا۔ اور اس کے نتیجے میں یہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے محروم ہو گئے، جو کہ محرومیوں کی محرومی اور خساروں کا خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔
۶۶. سو کتاب الٰہی کی تعلیمات مقدسہ کو صدق دل سے اپنانے کے نتیجے میں آخرت سے انکو پہلے اس دنیا میں بھی طرح طرح کی خیرات و برکات نصیب ہوتی ہیں۔ اور ایسے سچے اور مخلص لوگوں کے لئے آسمان اور زمین دونوں اپنے خزانوں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور یہی مضمون سورہ اعراف کی آیت نمبر٩۶ میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی و پرہیزگاری کی روش کو اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کے دروازے کھول دیتے اور قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کا تعلق زندگی کے معاملات سے قائم کیا جائے۔ ان کو حَکمَ اور منصف مانا جائے اور اپنے معاملات خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ان کو کتاب الٰہی کی تعلیمات اور اس کے احکام و قوانین کے مطابق سر انجام دیا جائے۔ کتاب الٰہی کے ساتھ اگر یہ تعلق قائم نہ ہو تو زبانی کلامی طور پر خواہ اس کی کتنی ہی مدح سرائی کی جائے۔ اور اس کی مدح میں کتنی ہی قصیدہ خوانی کی جائے اس سے اس کو قائم کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔
۶۷. اس آیت کریمہ میں ایک طرف تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کی اصل حیثیت اللہ تعالیٰ ہی کے پیغام کو جُوں کا تُوں اور بلا کم و کاست پہنچا دینے والے کی ہوتی ہے اسی لئے یہاں پر ان کو خطاب بھی الرسول کے وصف ہی کے ساتھ فرمایا گیا ہے جس کے معنی پیغام خداوندی کو پہنچا دینے والے کے ہوتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کی تاکید مزید کے لئے یہ تصریح بھی فرمائی گئی کہ اگر اس ضمن میں کوئی کوتاہی کی گئی تو یہ عین اس فریضہ منصبی میں کوتاہی ہو گی جس کی ادائیگی ہی کے لئے اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا رسول مقرر فرماتا ہے۔ یہاں پر یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اس تاکید شدید میں جو شدت ہے اس کا خطاب اگرچہ بظاہر آ نحضرت صلی اللہ علی و سلم ہی سے ہے لیکن حقیقت میں اس کا اصل رخ منکرین و معاندین کی طرف ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وحی الٰہی کے اندر ترمیم و تغییر کے مطالبے کرتے تھے۔ تاکہ اس طرح ان کی خواہشات کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ سو ان کو براہ راست خطاب کرنے کے بجائے پیغمبر کے توسط سے ان کو اس حقیقت سے آگاہ فرمایا گیا جس میں بلاغت کا یہ اسلوب کار فرما ہے کہ یہ لوگ براہ راست خطاب کے قابل نہیں ہیں۔ اس لئے ان پر بالواسطہ طور پر یہ نکیر فرمائی جاتی ہے والعیاذ باللہ العظیم، سو پیغمبر کا اصل کام، اور ان فرض منصبی یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی وحی کو بتمام و کمال، جوں کا توں اور بلا کسی کمی بیشی کے آگے پہنچا دیں، پس ان کا کام ابلاغ اور اتباع ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے مثلاً سورہ یونس آیت نمبر ۱۵ وغیرہ
۶۹. سو اس ارشاد ربانی سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کو کوئی درجہ اور مرتبہ اس کی نسل و نسب یا کسی قوم قبیلے سے تعلق اور وابستگی، کی بناء پر نہیں حاصل ہو سکتا جیسا کہ یہود و نصاریٰ وغیرہ کا کہنا اور ماننا تھا۔ کہ انہوں نے اپنے نسلی تفاخر کی بناء پر یہاں تک غلو کیا کہ اپنے آپ کو خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے اور لاڈلے قرار دے دیا۔ اور صاف کہہ دیا نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّاءُ ہ، یعنی ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں سو قرآن حکیم نے ایسے ہر تصور کی جڑ نکال دی۔ اور واضح کر دیا کہ ایسا نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے یہاں درجات و مراتب سے سرفرازی کا مدار و انحصار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے پس جو لوگ اللہ وحدہٗ لا شریک اور یوم آخرت پر صحیح طریقے اور صدق دل سے ایمان لائیں گے اور وہ اس کے مطابق نیک عمل بھی کریں گے، وہی کامیاب اور سرفراز ہوں گے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اور کہیں کے بھی ہوں، اور ان کا تعلق کسی بھی قوم قبیلے، اور رنگ ونسل سے ہو، سو ان کو اپنے صدق و اخلاص، ایمان و یقین، اور عمل و کردار کے نتیجے میں ایسی عظیم الشان اور بے مثال کامیابی نصیب ہو گی کہ نہ ان کے لئے نہ ماضی کا کوئی غم اور افسوس ہو گا اور نہ مستقبل کا کوئی خوف و اندیشہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ اور قوم قبیلہ سے ہو۔ اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا وباللہ التوفیق لایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید
۷۱. سو یہ لوگ اپنے جرائم کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ بلکہ ان کو اپنے کیے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا، مطلب اس ارشاد ربانی کا یہ ہے کہ یہ لوگ حضرات انبیاء ورسل کی تکذیب اور ان کے قتل کے انتہائی سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب ان کی فوری پکڑ نہیں ہوئی تو یہ مست ہو گئے اور یہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ ان کی کوئی گرفت و پکڑ ہو گی ہی نہیں، اور اس کے نتیجے میں یہ اندھے اور بہرے بن گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور اس کی سنت یہ ہے ہی نہیں کہ وہ ہر جرم کی سزا فوری طور پر دے دے، بلکہ وہ اپنے کرم لامتناہی کی بناء پر اور اپنے حلمِ بے پایاں کے مطابق مجرموں اور خطا کاروں کو ڈھیل پر ڈھیل ہی دیے جاتا ہے تاکہ جنہوں نے سنبھلنا ہو سنبھل جائیں، اور وہ توجہ و استغفار کے ذریعے اپنی اصلاح کر لیں، ورنہ وہ اپنا پیمانہ اچھی طرح لبریز کر کے اپنے مصیر محتوم اور انجام اخیر کے لئے تیار ہو جائیں، پس اللہ تعالیٰ کی ڈھیل سے دھوکے میں پڑنا بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم
۷۲. نصاریٰ حلول اور تثلیث دونوں کے قائل تھے، اور یہ دونوں ہی عقیدے کھلا کفر ہیں، والعیاذ باللہ اس آیت کریمہ میں ان کے عقیدہ حلول کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اگلی آیت کریمہ میں ان کے عقیدہ تثلیث کا جبکہ حضرت عیسیٰ نے ان سے ہمیشہ یہی کہا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت و بندگی کرو جو کہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں نے اس کھلے کفر و شرک کا ارتکاب کیا اور اس طرح یہ لوگ دوزخ کے مستحق بن گئے۔ کیونکہ کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے قرآن حکیم کی تصریح کے مطابق جنت حرام اور دوزخ واجب ہے، ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے شرک کیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ایسے ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہو گا جو ان کو اس سے بچا سکے اور ان کے کچھ کام آ سکے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا، بکل حالٍ من الاحوال
۷۳. ۱: س ارشاد سے ان لوگوں کے عقیدہ تثلیث کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور ان کے گستاخانہ انداز اور گھناؤنے پن کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جو اس ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے خالق و مالک بھی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی۔ اس کو انہوں نے تین خداؤں میں سے ایک بلکہ تین میں کا تیسرا قرار دیا۔ والعیاذُ باللہ، سو جن لوگوں کی مت ان کے کفر و شرک کی بناء پر مار دی جاتی ہے۔ اور ان کی عقلیں اُوندھی ہو جاتی ہیں۔ ان کا حال ایسا ہی ہو جاتا ہے، اور وہ اسی طرح بہک اور بھٹک کر کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں والعیاذُ باللہ العظیم
۲ : سو اس سے ایک طرف تو یہ بات واضح فرما دی گئی کہ عقیدہ تثلیث کفر ہے اور ایسے لوگوں کو اپنے اس کفر کے نتیجے میں بہرحال ایک بڑا ہی دردناک عذاب پہنچ کر رہے گا۔ لیکن ساتھ ہی ان کے لئے یہ اعلان رحمت بھی فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کے لئے توبہ و اصلاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے، پس ان میں سے جو قرآن حکیم کی دعوت کو قبول کر کے اپنی اصلاح کر لیں گے وہ اپنے آپ کو اس دردناک عذاب سے بچا لیں گے، لیکن جو اس کے باوجود اپنے اس کفر و شرک سے باز نہیں آئیں گے، ان کو وہ دردناک عذاب بہرحال پہنچ کر رہے گا، سو اسی بناء پر اس کے بعد والی آیت کریمہ میں ان کے لئے ترغیبی اور تحریضی انداز میں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ پھر بھی اللہ کے حضور توبہ نہیں کرتے، اور اس سے بخشش کی دعا و درخواست نہیں کرتے، یعنی ان کو ایسا کرنا چاہیئے، اور ضرور کرنا چاہیے تاکہ خود ان کا بھلا ہو اور یہ اپنے اس ہولناک انجام سے بچ سکیں۔
۷۵. وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے بظاہر تو ایک مختصر سا اور سیدھا سادا جملہ ہے جس سے ایک عام آدمی بھی اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ جو خود کھانا کھاتے ہوں، وہ آخر خدا یا خدائی میں شریک کس طرح ہو سکتے ہیں؟ لیکن اگر اس کی معنویت کی گہرائی اور گیرائی میں غور و فکر سے کام لیا جائے۔ اور صحیح طور پر سوچا اور دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ یہ جملہ معنویت سے بھرپور حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کی الوہیت کی تردید کے لئے ایک بڑی واضح اور ٹھوس دلیل ہے، کیونکہ جو کھانا کھاتا ہے وہ زمین و آسمان کی کتنی ہی چیزوں کا محتاج ہونا ہے، کیونکہ انسان کے کھانے اور اس کی روٹی کے لئے زمین و آسمان، سورج و چاند اور ہواؤں و دریاؤں، وغیرہ سب کا ایک نہایت ہی پُر حکمت تعامل کار فرما ہے۔ پھر اس میں کسانوں، مزدوروں، کھیتوں، کھلیانوں، فصلوں کے کاٹنے اور سنبھالنے والوں، طرح طرح کے غلوں کو طرح طرح سے صاف کرنے والوں، چکیوں، مشینوں، اور طباخوں، باورچیوں وغیرہ وغیرہ کتنے ہی عوامل اور وسائط کی ضرورت ہوتی ہے۔ سو ایک روٹی جو ایک انسان کے سامنے آتی ہے اس کے لئے انسان گویا خداوند قدوس کی پوری کائنات اس کی ہر ہر چیز اور ان تمام اشیاء کے باہمی تعامل کا محتاج ہوتا ہے جو اس کائنات میں پائی جاتی ہیں تو پھر کسی ایسے محتاج شخص کے خدا بننے اور خدا کی خدائی میں شریک ہونے کا کوئی سوال و امکان ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ جبکہ خدائے پاک کی صفت و شان یہ ہے کہ وہ ہر کسی سے اور ہر اعتبار سے غنی و بے نیاز ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم دونوں خدا نہیں۔ بلکہ خدا کی مخلوق اور اس کے عاجز و محتاج بندے تھے۔ پس جنہوں نے ان کو خدا مانا اور خدا کی خدائی میں شریک قرار دیا، انہوں نے اپنی مت ماری اور اپنے ممسوخ الفطرت ہونے کا ثبوت دیا، اور کھلے شرک اور ایک نہایت ہی ہولناک خسارے کا ارتکاب کیا۔ والعیاذ باللہ العظیم
۷۸. سو ان لوگوں نے تو اپنی پاکدامنی اور اپنی بزرگی و بڑائی کی داستان کو اتنا بڑھا رکھا ہے کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے اور محبوب قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کا حال یہ رہا ہے کہ حضرت داؤد سے لیکر حضرت عیسیٰ بن مریم تک ہر پیغمبر نے ان کے حال پر نوحہ کیا، اور ان پر لعنت برسائی، جیسا کہ مزامیر داؤد کے مختلف مقامات پر آج بھی موجود و مذکور ہے۔ اور تورات کے صحیفوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر ان کے ہر پیغمبر نے لعنت کی ہے۔ اور اس ضمن میں بعض پیغمبروں کے الفاظ تو بڑے ہی سخت ہیں، سو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں پر اس ضمن میں حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کا ذکر صرف ابتداء اور انتہاء کو واضح کرنے کے لئے ہے، اصل میں بتانا یہ مقصود ہے کہ حضرت داؤد سے لیکر حضرت عیسیٰ تک ہر پیغمبر نے ان پر لعنت فرمائی ہے، حضرت داؤد سے بنی اسرائیل کی سیاسی عظمت کی ابتداء ہوئی اور یہود کو ان پر بڑا فخر بھی تھا۔ اور آج تک بھی ہے، چنانچہ آج بھی اسرائیلی حکومت کا قومی نشان نجمہ داؤد یعنی داؤدی ستارہ ہے۔ اور حضرت عیسیٰ پر اسرائیلی سلسلہ نبوت کا خاتمہ ہو گیا۔ سو اس اعتبار سے ان دو پیغمبروں کے ذکر سے گویا بنی اسرائیل کی پوری تاریخ کا ذکر فرما دیا گیا۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان پر ان سب ہی حضرات نے لعنت فرمائی۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۷۹. سو اس سے ان لوگوں کی اس لعنت و پھٹکار، اور ان کے اس ہولناک انجام کے سبب، ان کی محرومی و بدبختی اور ان کے جرائم کی سنگینی کو واضح فرما دیا گیا۔ کہ یہ لوگ نافرمانی کرتے، اور حدوں سے بڑھتے رہے، اور نہ صرف یہ کہ یہ مختلف جرائم کا ارتکاب کرتے رہے۔ بلکہ یہ لوگ اپنے انبیائے کرام، اور اپنے راست بازوں کے روکنے کے باوجود اپنے ان معاصی اور جرائم سے رکتے نہیں تھے اور اپنے ان مخلص اور عظیم الشان و جلیل القدر ناصحوں کی نصیحت پر کان نہیں دھرتے تھے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ اس بناء پر ان کے دشمن بن گئے اور ان کی تکذیب و ایذاء رسانی کے جرائم کا ارتکاب کیا، اور ان کے قتل تک کے درپے ہو گئے، اور ان کے قتل کے انتہائی ہولناک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا اور کسی قوم کی اخلاقی پستی اور اس کی ایمانی ہلاکت و تباہی کی یہی وہ حد ہوتی ہے جس پر پہنچ کر وہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق لعنت و پھٹکار کی مستحق بن جاتی ہے والعیاذ باللہ جل وعلا
۸۱. سو اس سے زمانہ رسالت میں موجود یہود سے بدبختی کے ایک نمونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ لوگ ایک طرف تو اپنی بزرگی اور برگزیدگی کا ایسا گھمنڈ رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کی ذہنی و اخلاقی پستی اور ایمانی زوال کا عالم یہ ہے کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابلے میں مشرکوں اور کافروں سے دوستی اور تعلق رکھتے ہیں، اور یہاں تک کہ ان کو یہ لوگ ایمان والوں سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ سورہ نساء کی آیت نمبر۵۱ میں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایمان والوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت پر ہیں سو یہاں پر ان بدبختوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ واقعی ایمان رکھتے ہوتے اللہ اور اس کے رسول پر، تو یہ کبھی بھی ان کافروں اور مشرکوں کو اپنا دوست نہ بناتے سو اس سے یہ امر ثابت اور واضح ہو جاتا ہے کہ ان میں سے اکثر اپنے دعوی ایمان میں جھوٹے اور کافر ہیں۔ والعیاذ ُباللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال
۸۳. ان آیات کریمات میں جن نصاریٰ کی تعریف فرمائی گئی ہے اس سے مراد وہ عام مسیحی نہیں ہیں۔ جو پال کی ایجاد کردہ مسیحیت کے پیرو اور تثلیث و کفارہ وغیرہ کے مشرکانہ اور بدعی عقائد کے قائل ہیں۔ اور جو کہ آج اسلام دشمنی میں تمام اعداء اسلام کے سرخیل اور ان کے پیشوا بنے ہوئے ہیں بلکہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کے وہ سچے پیروکار ہیں جو آپ کی اصل تعلیمات کے حامل اور ان پر عامل و کاربند تھے۔ جو آنجناب کے بعد آپ کے خلیفہ راشد شمعون صفا کے پیرو تھے۔ جو پال کی تمام تحریفات و بدعات سے پاک و مبرا، اور حضرت عیسیٰ کی اصل تعلیمات پر قائم اور کار بند تھے۔ اور جن کے باقیات صالحات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ نجاشی وغیرہ حضرات اسی گروہ صدق و صفا سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی وہ حضرات تھے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے اور کہلاتے تھے، ان کو اپنے اس نام کی اہمیت و معنویت کا احساس بھی تھا، اور اس پر فخر بھی، اور یہ لوگ وہی تھے جو حضرت عیسیٰ کے خلیفہ راشد شمعون صفا کے پیرو تھے جیسا کہ ابھی اوپر گزرا، جبکہ پال کی محرف مسیحیت کے پیرو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلانا حقیر سمجھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اس کو بدل کر اپنا نام مسیحی رکھ دیا تھا۔ جیسا کہ ہسٹری آف بائیبل میں اس کی تصریح موجود ہے۔ دوسرے اس لئے کہ اس گروہ کی صفت یہاں پر یہ بیان ہوئی کہ یہ لوگ تکبر نہیں کرتے، اور ظاہر ہے کہ یہ صفت موجودہ عیسائیوں پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ نیز ان کے بارے میں آگے اس امر کی تصریح موجود ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر دلی جوش و خروش کے ساتھ ایمان لائے۔ اور قرآن حکیم کا انہوں نے اس والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا تھا کہ گویا کہ یہ مدتوں سے اس کے لئے سراپا شوق تھے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ صفات موجودہ عیسائیوں کے اندر کسی بھی درجے میں موجود نہیں ہیں۔ سو اس سب سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان آیات کریمات کا مصداق حضرت عیسیٰ کے وہ سچے پیرو تھے جن کے بارے میں آنجناب نے فرمایا تھا کہ مبارک ہیں وہی جو دل کے غریب ہیں۔ آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے۔
۸۷. پس تم لوگ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں سے آگے نہیں بڑھنا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مقرر فرمودہ حدود سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ بلکہ ان سے نفرت کرتا اور ان کو برا جانتا ہے، اس آیت کریمہ میں لَا تَعْتَدُوْا لَا تُحَرِّمُوْا کے بالمقابل واقعہ ہوا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں میں سے کسی حلال اور پاکیزہ چیز کو حرام قرار دینا جائز نہیں اسی طرح اس کی حرام فرمودہ اشیاء میں سے کسی کو حلال قرار دینا بھی جائز نہیں بلکہ حلال و حرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے جو حدیں مقرر فرمائی ہیں انہی کی پابندی ضروری ہے۔ اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کا حاصل اور خلاصی ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حدود کی پابندی کی جائے۔
۸۸. کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حدود کی پابندی کرو۔ اس کی بخشی ہوئی ان چیزوں کو کھاؤ برتو جو کہ حلال اور پاکیزہ ہوں۔ اور ان حدود کی پاسداری کے سلسلہ میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو کہ اس کے کسی حکم و ارشاد کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید
۸۹. ۱: ایسی قسم کو جو دل کے ارادے سے کھائی جائے اس کو یمین منعقدہ کہا جاتا ہے۔ اسی پر مؤاخذے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور اسی پر وہ کفارہ لازم آتا ہے جو آگے بیان ہو رہا ہے۔ جبکہ غیر ارادی قسموں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کوئی مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔ کہ ان میں قسم سرے سے مقصود اور مراد ہی نہیں ہوتی۔ البتہ ان قسموں پر مؤاخذہ بہرحال ہو گا جو قسم کے ارادے سے کھائی گئی ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نام کو اپنی قسموں کے لئے آڑ بنانے کی اجازت نہیں، جیسا کہ سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے۔
۲: کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کی ہدایت اس کی طرف سے اس کے بندوں کو ملنے والا سب سے بڑا انعام و احسان ہے، کہ اسی کے ذریعے انسان اپنے خالق و مالک کے حقوق کو پہچان سکتا ہے، اور اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہوں کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ ورنہ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں، اس لئے ہدایت اور بیان آیات و احکام کی اس عظیم الشان نعمت پر اس واہب مطلق جل جَلَالُہ، کا شکر بجا لانا تقاضاء عقل و نقل ہے اور شکر نعمت بذات خود ایک ایسی نعمت ہے جس سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ محفوظ رہتی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید۔
۹۰. سو یہ تمام کام شیطان کی ایجادات اور اس کی کارستانیوں میں سے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے وہ اپنے اس چیلنج کو پورا کرے، جو اس نے بنی آدم کو شریعت کی صراط مسقیم سے بہکانے کے لئے کر رکھا ہے۔ اور جس کا اعلان اس نے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے سامنے اپنے کھلے چیلنج کے طور پر کیا تھا۔ اور زوردار قسم کھا کر کہا تھا کہ تیری عزت کی قسم میں ان سب کو سیدھی راہ سے بہکا اور بھٹکا کر چھوڑوں گا۔ سوائے ان میں سے تیرے چنے ہوئے بندوں کے (ص ٨۲،٨۳) سو یہ سب چیزیں شیطان کے اسی ابلیسی اور تلبیسی جال کا حصہ، اور اس کی فریب کاری کے سامان ہیں، ان کے اندر اگر نفع کا کوئی پہلو نظر آتا ہے تو وہ محض ایک نظر فریب ملمع اور نرا دھوکہ ہے ورنہ اصل حقیقت یہی ہے کہ ان چیزوں کا ضرر بہرحال ان کے نفع سے کہیں بڑھ کر ہے والعیاذُ باللہ جل وعلا۔
۹۱. یعنی تم لوگوں کو ان سب سے باز آنا چاہیے کہ جب ان کے اندر اتنے نقصانات اور اس قدر اضرار ہیں تو ان سے بچنا ضروری ہے اور عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔ پس تم لوگوں کو اس سے بچنا، اور بہرحال بچنا، اور باز رہنا چاہیے کہ ان سے اجتناب و ابتعاد ہی میں تمہارا بھلا ہے۔ سو فَہَلْ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کے اس انداز و اسلوب میں زجر و موعظت تنبیہ و تحذیر اور اتمام حجت کے پہلو پائے جاتے ہیں۔
۹۲. سو اس ارشاد سے اوپر والی تنبیہ و تذکیر کی تاکید مزید فرما دی گئی کہ تم لوگ شیطان کے بچھائے ہوئے جال سے نکل کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہو جاؤ کہ یہ ان کا تم لوگوں پر حق بھی ہے، اور اسی میں تم سب کا بھلا بھی ہے، دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، پس تم لوگ ان کی نافرمانی اور سرکشی سے بچو۔ سو اگر اس تنبیہ و تذکیر کے بعد بھی تم لوگوں نے اعراض و روگردانی ہی کو اپنایا اور اختیار کیا تو اس کا وبال خود تم ہی لوگوں پر ہو گا کہ اللہ کے رسول کے ذمے تو صرف تبلیغ اور پیغام حق کو پہنچا دینا ہے، اور بس، اور یہ فریضہ انہوں نے ادا کر دیا اور ان کا ذمہ فارغ ہو گیا۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام، اب سب ذمہ داری خود تم لوگوں پر ہے۔
۹۳. خمر و میسر کی حرمت کے حکم کے بعد حضرات صحابہ کرام میں سے بعض کو اس بارے فکر و تشویش لاحق ہوئی کہ اس سے قبل جو ہم نے ان محرمات میں سے کھا پی لیا اس کا کیا ہو گا۔ اور خاص کر جو حضرات اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے ان کا کیا بنے گا وغیرہ، روایات کے مطابق انہوں نے اپنی اس کی تشویش کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش بھی کیا۔ چنانچہ سنن ترمذی میں حضرت براء بن عازب سے مروی ہے کہ حرمت شراب کے حکم کے نزول کے بعد بعض صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ جو لوگ اس سے پہلے شراب پیا کرتے تھے۔ اور جوا بھی کھیلا کرتے تھے۔ اور اسی حال میں ان کا انتقال بھی ہو گیا، تو اب ان کا کیا بنے گا؟ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (ترمذی کتاب التفسیر، تفسیر سورہ المائدۃ) اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ان حضرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ جو لوگ خمر و میسر کا ارتکاب کرتے تھے۔ اور اسی حال میں ان کی موت بھی واقع ہو گئی تو اب ان کا کیا بنے گا؟ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (نفس المرجع السابق) سو اس آیت کریمہ سے ایسے تمام حضرات کے اس طرح کے تمام سوالات کا جواب دے دیا گیا، اور ان کے اس طرح کے جملہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما دیا گیا۔ کیونکہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پُرستش کسی ایسی چیز کے اکل و تناول پر نہیں ہو گی جس کے بارے میں کسی صریح ممانعت کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں ہوا۔ کہ وہ جرم و قصور ہے ہی نہیں، بلکہ دین حنیف کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں جو حد مقرر فرمائی گئی ہو اس کا احترام کیا جائے۔ اور اس کی خلاف ورزی سے بچا جائے، پس جو کچھ ممانعت اور بندش سے پہلے ہوا وہ معاف ہے۔ کہ وہ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ کے زمرے میں آتا ہے۔
۹۴. اس ارشاد ربانی سے اہل ایمان کو پیشگی خبردار فرمایا گیا ہے کہ حالت احرام میں تمہارے لئے ابتلاء و آزمائش کے ایسے مواقع پیش آئیں گے کہ شکاری جانور تمہارے سامنے اس طرح آئیں گے کہ وہ تمہارے ہاتھوں کی پہنچ اور تمہارے نیزوں اور بھالوں وغیرہ کی زد میں ہوں گے، مگر تم نے اپنے دین کی تعلیمات کی خاطر اور اپنے رب کی رضا کی غرض سے ان کا شکار نہیں کرنا، اور ابتلاء و آزمائش کے ان مواقع پر تم نے اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کی حفاظت کرنی ہے اور تم کہیں اس طرح پھسل نہیں جانا جس طرح کہ بنی اسرائیل قانون سبت کے بارے میں پھسل گئے تھے۔ اور انہوں نے مچھلیوں کے شکار کے سلسلے میں طرح طرح کے حیلوں بہانوں کے ذریعے قانون سبت کو توڑا تھا جس کے نتیجے میں ان کو عبرتناک عذاب بھگتنا پڑا تھا۔ جیسا کہ ان کے اس قصے کو سورہ اعراف میں آیت نمبر۱۶۳ سے آیت نمبر۱۶۶ تک میں ذکر فرمایا گیا ہے، اگرچہ عام طور پر حضرات مفسرین کرام اس کو عمرہ حدیبیہ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ لیکن الفاظ و کلمات کا عموم اس کے عموم ہی کا تقاضا کرتا ہے۔ البتہ عمرہ حدیبیہ کو اس کا ایک اہم اور واضح مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔ جہاں اہل ایمان اپنی اس آزمائش میں کامیاب اور فائز المرام رہے سو صدق و اخلاص اور قوت ایمان و یقین انسان کے لئے ہمیشہ حفاظت و پناہ کا سب سے مضبوط ذریعہ ہے والحمد للہ جل وعلا،
۹۶. اور اس کے حضور حاضر ہو کر تم میں سے ہر ایک نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ پس ہر کوئی اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے کہ وہاں پر میرا معاملہ کیسا رہے گا۔ اور میں اس یوم حساب میں اپنے خالق و مالک کے حضور کیا جواب دوں گا۔ اور یہ احساس و ادراک اور اس کا ایمان و یقین ایک ایسی عظیم الشان اور انقلاب آفریں چیز ہے کہ اس سے انسان کی زندگی میں خود بخود ایک عظیم الشان انقلاب آ جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ ایک عظیم الشان پاکیزہ اور فرشتہ صفت انسان بن جاتا ہے اور ایسا درجہ نصیب فرمائے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے معیار پر پورے اتر سکیں، اللہ توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین،
۹۷. اس لئے اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم پر مبنی ہوتا ہے۔ اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس کے کسی بھی حکم و ارشاد کا کوئی متبادل ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور اسی وحدہٗ لاشریک کے اوامر و ارشادات ہیں، جو تمام بنی نوع انسان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ بن سکتے ہیں سبحانہ و تعالیٰ
۹۸ اس ارشاد ربانی میں اللہ تعالیٰ کے عقاب و عذاب سے تخویف و تحذیر بھی ہے۔ اور اس کی مغفرت و رحمت کی بشارت و خوشخبری بھی، پس نہ تو اس کے عقاب و عذاب سے بے خوفی ولا پرواہی جائز ہے۔ اور نہ ہی اس کی مغفرت اور رحمت سے مایوسی بلکہ اس کی ان دونوں ہی شانوں کو ہمیشہ مستحضر اور اپنے پیش نظر رکھنا ہی باعث سعادت، اور دارین کی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور یہی صحیح طریقہ ہے اپنے خالق و مالک سے تعلق کا جو کہ عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔ اور جس کی تعلیم و تلقین اس کتاب حکیم میں جا بجا اور طرح طرح سے فرمائی گئی ہے چنانچہ ایک اور مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا نَبِّیئْ عِبَادِیْ اَنِّیْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o وَ اَنَّ عَذَابِیْ ھُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ (الحجر۔۴٩۔۵٠) یعنی میرے بندوں کو خبر کر دو کہ بیشک میں بڑا ہی بخشنے والا۔ انتہائی مہربان ہوں۔ اور یقیناً میرا عذاب بھی بڑا ہی دردناک عذاب ہے۔ پس نہ تو بندوں کو اپنے خالق و مالک کی مغفرت و بخشش اور اس کی رحمت و عنایت سے کبھی مایوس ہونا چاہیئے، اور نہ ہی اس کے عذاب اور اس کی گرفت و پکڑ سے کبھی نچنت اور بے فکر ہونا چاہیئے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔
۹۹. پس پیغام حق کو پہنچا دینے کے بعد رسول کا ذمہ فارغ۔ آگے لوگوں سے حق کو منوا لینا اور ان کو راہ حق و ہدایت پر ڈال دینا نہ پیغمبر کے بس میں ہے، اور نہ ہی یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح کہ اس مضمون کو دوسرے مختلف مقامات پر بھی طرح طرح سے واضح فرمایا گیا، سو یہاں پر واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کے ذمے صرف تبلیغ حق ہے، اس کے بعد قبول حق کی ذمہ داری خود تم لوگوں پر ہے۔ پس اگر تم لوگ پیغام حق کو صدق دل سے مانو گے، تو تمہارا اپنا ہی بھلا۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی کہ جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے اور تم لوگوں کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا اور جو بھی کچھ تم لوگ کرتے ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ کہ تم خواہ اپنے اعمال چھپا کر اور پوشیدہ طور پر کرو۔ یا ان کو ظاہرا اور اعلانیہ طور پر کرو وہ ان سب کو جانتا ہے، اور پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ
۱۰۱. سو اس ارشاد سے اہل ایمان کو نزول وحی کے زمانے میں غیر ضروری سوالات پوچھنے سے منع فرما دیا گیا، کیونکہ نزول وحی کا زمانہ دراصل نزول مطر یعنی بارش کے اترنے کے مشابہ ہوتا ہے۔ جس طرح نزول بارش کے دوران زمین پر پڑا ہوا ہر بیج خود بخود اُگ پڑتا ہے۔ اسی طرح نزول وحی کے زمانے میں جو بھی سوال کیا جائے گا اور اسطرح تم لوگ اپنے اس طرح کے غیر ضروری سوالات کے نتیجے میں مشکلات میں پڑ جاؤ گے، اس کا جواب نازل ہو سکتا ہے۔ اس لئے تم لوگ غیر ضروری سوال اٹھا کر اپنی پابندیوں میں اضافے کی راہ نہ کھولو۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا۔ نہایت ہی بردبار ہے۔ اس لئے اس نے اپنی رحمت و عنایت سے تمہارے اس طرح کے غیر ضروری سوالات نظر انداز کر دیئے اگر ان کے جواب دے دیئے جاتے تو تمہارے لئے مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ اور تم ان کو نباہ نہ سکتے۔ لہٰذا تم لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی راہوں میں کانٹے نہ بکھیرو، اور خداوند قدوس کے غضب اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کی کوشش نہ کرو۔ والعیاذ باللہ العظیم
۱۰۲. اس قوم سے مراد یہود ہیں۔ ان کا نام تو آیت کریمہ میں نہیں لیا گیا۔ لیکن ان کا ذکر یہاں پر نکرہ کے لفظ کے ساتھ فرمایا گیا ہے جس سے فی الجملہ نفرت اور اعراض کا اظہار ہوتا ہے۔ سو ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے بھی اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے غیر ضروری اور لایعنی سوالات کئے۔ لیکن ان کے جواب ملنے پر وہ ان باتوں کے منکر ہو گئے۔ اور اس طرح انہوں نے خود اپنے بارے میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کیں۔ جیسا کہ ذبح بقرہ کے اس قصے سے واضح ہوتا ہے جو کہ سورہ بقرہ کے شروع میں ذکر فرمایا گیا ہے۔
۱۰۴. سو اس ارشاد سے ایسے لوگوں کے زیغ و ضلال ان کی غفلت و لاپرواہی اور ان کے فساد و بگاڑ کے اس پہلو کو ذکر اور واضح فرمایا گیا کہ جب ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ یہ ایسی لایعنی باتوں کو چھوڑ کر اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کی طرف آئیں تو یہ لوگ بڑے غرّے سے کہتے ہیں جبکہ ہمیں وہی کچھ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، یعنی ہمیں اور کسی کی بات سننے اور اپنانے کی نہ ضرورت ہے، اور نہ ہم اس پر کان دھرتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ حق کے مقابلے میں ایسا کہنا بدبختی کی انتہاء ہے، اس پر ان لوگوں کے قلب و ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے۔ اور ان پر دستک دیتے ہوئے ان سے فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ اس صورت میں بھی اپنے باپ دادا کے طریقوں ہی کو اپنائیں گے۔ اور انہی کی پیروی کئے جائیں گے جبکہ وہ نہ کچھ علم رکھتے ہوں۔ اور نہ ہی حق و ہدایت کی راہ پر ہوں؟ یعنی ایسا نہیں کریں کہ اس طرح کرنا عقل اور نقل دونوں کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سو اسی سے مفہوم و مخالف کے طور پر یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر باپ دادا اگر راہ حق و ہدایت پر قائم ہوں تو ان کی پیروی ممنوع و مذموم نہیں۔ بلکہ محمود و مطلوب ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ پیروی دراصل ان کی نہیں بلکہ راہ حق و ہدایت ہی کی پیروی ہو گی، جو کہ مامور و مطلوب ہے، اور اسی کا ثبوت قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ملتا ہے اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰ ہُمُ اقْتَدِہْ الآیۃ (الانعام۔٩٠) یعنی یہ وہ حضرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا ہے۔ پس تم ان ہی کی راہ کو اپناؤ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید۔ وعلی مایحب ویرید، بکل حالٍ مِّن الاحوال، وہوالہادی الی سبیل الرشاد،
۱۰۶. ۱: یعنی موت کے وقت کی جانے والی اس وصیت پر مقرر کئے جانے والے وہ دو گواہ تم ہی لوگوں میں سے ہونے چاہئیں۔ یعنی وہ مسلمان ہوں۔ کہ اصل یہی ہے۔ لیکن اگر کسی سفر کے دوران ایسے دو مسلمان گواہ میسر نہ آ سکیں۔ اور تم کو موت کی مصیبت پہنچ جائے تو ایسی صورت میں تم اپنے سوا باہر کے دو گواہ بھی مقرر کر سکتے ہو۔ یعنی غیر مسلموں میں سے۔ کہ معاملہ مجبوری اور لاچاری کا ہے۔
۲ : یعنی جن دو گواہوں کو تم لوگ گواہی کے لئے منتخب کرو۔ ان کے بارے میں اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ اپنی گواہی کسی کی جانبداری کی بناء پر کہیں بدل نہ دیں تو اس کو مؤکد کرنے کے لئے تم یہ طریقہ اختیار کرو کہ ان دونوں کو کسی نماز کے بعد مسجد میں روک لو۔ اور ان سے اللہ کے نام کی قسم لو کہ وہ اپنی گواہی کسی دنیاوی نفع کی خاطر یا کسی کی جانبداری میں بدلیں گے نہیں اگرچہ وہ ان کا قریبی اور عزیز ہی کیوں نہ ہو اگر وہ ایسا کریں گے تو یقیناً گنہگار ٹھہریں گے۔ سو یہ طریقہ ان کو گواہی کی تبدیلی، اور اس میں کسی طرح کے پھر بدل کے ارتکاب سے باز رکھے گا۔
۱۰۷. سو اس سے ان دونوں گواہوں کے احتساب مزید کا طریقہ تعلیم فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ بات علم میں آ جائے کہ انہوں نے وصیت کرنے والے کی وصیت کے خلاف کسی کی جانبداری، یا کسی کی حق تلفی کا ارتکاب کیا ہے۔ تو جن کی حق تلفی ہوئی ہو ان میں سے دو آدمی اٹھ کر قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔ ہم نے ذرہ بھی حق سے تجاوز نہیں کیا۔ اگر ہم نے ایسے کیا تو یقیناً ہم ظالموں میں سے قرار پائیں گے۔ سو جب گواہوں کو ان لوگوں کے اس حق شہادت کا علم ہو جائے گا تو وہ خود بخود گواہی میں کسی طرح کی تبدیلی سے باز رہیں گے۔ اور گواہی ان کی دست برد سے محفوظ رہے گی۔
۱۰۸. اس سے اس احتساب کا فائدہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ یہ بات اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ دونوں گواہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں۔ ورنہ ان کو اس بات کا ڈر ہو گا کہ اگر ان سے اس بارے کوئی بدعنوانی صادر ہوئی تو ان کی قسموں کو دوسروں کی قسموں سے باطل قرار دے دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں ان کو خفت اور تذلیل و تحقیر کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان کی سب کے سامنے رسوائی ہو گی، والعیاذ باللہ، سو اس سے معلوم ہوا کہ جن کی حق تلفی ہوئی ہو اگر وہ مذکورہ قسم کھا لیں گے تو اس سے وصیت کے اصل گواہوں کی گواہی ان کے اولیٰ بالشہادت ہونے کے باوجود رد ہو جائے گی اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ سبحان اللہ! دوسروں کے حقوق کی حفاظت و پاسداری کے لئے کیسی کیسی باریکیاں تجویز فرمائی گئی ہیں۔ فللّٰہ الحمد جَلَّ وَعَلَا بکل حالٍ مِّن الاحوال
۱۰۹. یہاں پر مبتداء و خبر دونوں معرفہ ہیں۔ اور یہ بات اپنی جگہ طے شدہ اور ایک مسلمہ حقیقت و اصول ہے کہ مبتداء اور خبر جب دونوں معرفہ ہوں تو ان میں حصر کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ سو اس بناء پر اس ارشاد کا معنی و مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہی سب غیبوں کو جاننے والا ہے، اور علم غیب خاصہ خداوندی ہے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کو جگہ جگہ اور طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، کہ عالم غیب صرف اللہ تعالیٰ ہے، پس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو عالم غیب جاننا اور ماننا ممنوع و محظور اور اس طرح کی آیات و نصوص کے خلاف ہے۔ پس اہل بدعت و غیرہ غلاۃ ولائغین کا اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو عالم غیب ماننا عقل و نقل دونوں کے خلاف اور نصوص کتاب و سنت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم
۱۱۰. سو یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ کو خطاب کر کے ارشاد فرمائے گا۔ اور اس سے اصل مقصود عیسائیوں پر حجت قائم کرنا ہو گا۔ تاکہ حضرت عیسیٰ کی موجودگی میں اور سب دنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ حضرتِ عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ پر جو بھی انعام ہوا وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ اور انہوں نے جو بھی معجزات دکھائے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے، اور اسی کے عنایت فرمودہ تھے۔ اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو جن خطرات میں ڈالا تھا ان سب سے اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو اپنے فضل و کرم سے نکالا تھا۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی نے کیا۔ اور اس کے سب سے بڑے گواہ حضرت عیسیٰ خود ہوں گے، جو اس روز بھی اپنی عبدیت و بندگی، اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و یکتائی کا اعلان اسی طرح صاف و صریح طور پر کریں گے جس طرح کہ وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ تو پھر عیسائی بتائیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا کس طرح اور کس کے کہنے پر خدا بنایا تھا؟ یہاں پر بِاِذْنِیْ کے تکرار سے اس حقیقت کو اور واضح اور مؤکد فرما دیا گیا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھا۔ سو اس سے عیسائیوں کے شرک اور ان کی تحریف کا جرم اس یوم عظیم میں سب کے سامنے آشکار ہو جائے گا۔ اور ان کے لئے کسی جواب یا کسی طرح کے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ اور ان کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا۔ پس اگر غور سے دیکھا جائے تو اس سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں یعنی عیسائیوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ان کو قیامت کے اس یوم عظیم میں پیش آنے والے ان غیبی حقائق سے اس قدر پیشگی اور اتنی صراحت و وضاحت کے ساتھ آگہی بخش دی تاکہ یہ اپنی اصلاح کر لیں۔ قبل اس سے کہ فرصت عمر تمام ہو جائے اور تلافی و تدارک کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور یہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں، والعیاذباللہ
۱۱۲. حواری حضرت عیسیٰ کے ان مخلص ساتھیوں کو کہا جاتا ہے جو آنجناب پر صدق دل سے ایمان لائے تھے۔ انہوں نے صدق دل سے آپ کا ساتھ دیا۔ اور دعوت حق کے کام میں آپ کی مدد کی تھی اور انہی حضرات کو آنجناب کے خلفاء کی حیثیت حاصل ہوئی تھی۔ اور ان کی اسی اہمیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے سامنے بھی ان حقائق کو پیش فرمائے گا جن سے عیسائیوں پر حجت تمام ہو گی۔ یہاں پر حواریوں کے لئے جس وحی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد اصطلاحی وحی نہیں۔ کہ وہ تو صرف حضرات انبیاء و رسل کے لئے ہوتی ہے۔ بلکہ اس سے وحی کے لغوی معنی مراد ہیں۔ جس کے معنی ہوتے ہیں کسی کے دل میں بات ڈال دینا، جیسا کہ شہد کی مکھی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا وَاَوْحیٰ رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ کہ جب تمہارے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی یعنی اس کے جی میں یہ بات ڈالی۔ ہم نے ترجمے کے اندر اس معنی کو واضح کر دیا ہے، والحمد للہ اس ارشاد، سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ حواریوں نے جس دین کو قبول کیا تھا وہ عیسائیت وغیرہ کوئی چیز نہیں تھی، بلکہ وہ اسلام ہی تھا۔ جو کہ ایک ہی دین حق ہے۔ اس لئے حواریوں نے بھی یہی کہا کہ ہم سب ایمان لے آئے۔ اور آپ گواہ رہیں کہ ہم پکے مسلمان ہیں۔ سو اسلام ہی دین حق، دین فطرت، اور اس پوری کائنات کا دین، والحمدللّٰہ جلَّ وَعَلَا
۱۱۳. حواریوں کی اس درخواست میں ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ کے جو الفاظ آئے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعلق سوال کرنا مقصود نہیں تھا کہ وہ اس طرح کے ہر شک و شبہ سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے، بلکہ ان الفاظ سے یہ سوال دراصل اللہ تعالیٰ حکمت سے متعلق تھا کہ اس قسم کی کھلی ہوئی نشانی دکھانا کیا، اس کی حکمت کے مطابق ہو گا یا نہیں؟ کہیں ان کی یہ درخواست بنی اسرائیل کے اس مطالبے کے مشابہ تو نہیں جو کہ انہوں نے خدا کے دیکھنے سے متعلق کیا تھا جس پر ان کو بجلی کی کڑک نے آ دبوچا تھا۔ معجزات کا ظہور اگرچہ خارق عادت طریقے پر ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اسباب کے پردے ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تمام پردے اٹھا دیے جائیں اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے مطالبات کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی گئی، جس میں کسی کی خواہش ان حدود سے متجاوز ہو جائے جو معجزات کے ظہور کے لئے سنت اللہ کے مطابق مقرر ہیں۔ اسی لئے حضرت عیسیٰ نے حواریین کے اس مطالبے کے جواب میں ان سے فرمایا کہ تم لوگ اللہ سے ڈرو اگر تم ایماندار ہو۔ یعنی تمہاری ایمانداری کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس طرح کے مطالبات سے باز رہو۔
۱۱۵. سو حضرت عیسیٰ کی اس تنبیہ و تحذیر کے باوجود جب حواریوں نے دوبارہ اپنی درخواست پیش کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس درخواست کو پسند نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا کہ مائدہ سماوی کو اتارنے کو تو میں اتار دوں گا۔ لیکن یاد رکھو کہ جو لوگ اس کو دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے اور وہ کفر ہی میں مبتلا رہیں گے تو ان کو میں سزا بھی ایسی دوں گا جو کسی اور کو نہیں دوں گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس تنبیہ و تحذیر کے بعد حواری اپنے اس مطالبے سے دست بردار ہو گئے۔ حضرات مفسرین کرام میں سے ایک گروہ کی رائے یہی ہے کہ وہ مائدہ نازل نہیں کیا گیا۔ کہ حواریوں نے اپنی درخواست کو واپس لے لیا۔ جبکہ کچھ دوسرے حضرات کی رائے اس کے برعکس بھی موجود ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنے اس مطالبے پر برقرار رہے، اور ان کے اس مطالبے پر وہ مائدہ سماوی ان پر نازل بھی کیا گیا، والعلم عند اللہ سبحانہ و تعالیٰ وعلمہ اتم واحکم وفی کل باب۔
۱۱۶. سو اس سے عیسائیوں کی فضیحت و رسوائی کے ایک اور منظر کو پیش فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ سے ارشاد فرمائے گا کہ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو؟ تو اس پر حضرت عیسیٰ نہایت مؤدبانہ انداز میں اور صاف و صریح طور پر عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے میں ایسی کوئی بات بھلا کس طرح کہہ سکتا تھا جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ میں نے اگر بالفرض ایسی کوئی بات کہی ہوتی تو وہ آپ کو ضرور معلوم ہوتی۔ کہ آپ میرے دل کی باتوں کو بھی پوری طرح جانتے ہیں، کہ آپ سب غیبوں کو جاننے والے ہیں سو اس طرح عیسائیوں کی رسوائی اور ان کی گمراہی اس روز سب دنیا کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ اور ان کے لئے اپنے جرم کے انکار کی کوئی صورت اور گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ اور ان کو اس روز جس رسوائی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ جل وعلا
۱۱۷. سو حضرت عیسیٰ اس روز اپنے رب کے حضور اپنی صفائی میں مزید عرض کریں گے کہ میں جب تک ان لوگوں کے اندر موجود رہا، ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتا رہا۔ لیکن جب تو نے اے میرے مالک ! مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد مجھے ان لوگوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، کہ انہوں نے کیا کیا۔ اور کیا نہیں کیا، اس کے بعد اے میرے مالک! تو ہی ان کا نگران و نگہبان تھا، سو یہ وہی بات ہے جو اوپر تمام انبیاء کرام کے بارے میں بیان ہو چکی ہے کہ جب ان سے اللہ پاک پوچھے گا مَاذَا اُجِبْتُکم تم لوگوں کو اپنی اپنی امتوں کی طرف سے دعوت حق پر کیا جواب ملا؟ تو وہ سب اس کے جواب میں عرض کریں گے لَا عِلْمَ لَنَا کہ ہمیں اس بارے کچھ علم نہیں۔ سو اس طرح کی ان تمام تصریحات سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کے بارے میں کچھ علم و آگہی نہیں ہوتی۔ اور جب انبیاء کرام جیسی قدسی صفت ہستیوں کو بھی اس بارے کچھ علم و آگہی نہیں، جن کا درجہ و مرتبہ تمام مخلوق میں سے سب سے بڑا ہوتا ہے تو پھر اور کسی کو اس بارے کوئی علم کس طرح ہو سکتا ہے؟ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر گمراہ اور بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قبروں میں پڑے ہوئے ولی اور بزرگ ہمارے حالات جانتے۔ اور ہمارے کام بناتے بگاڑتے ہیں، اور وہ نفع و نقصان کے مالک و مختار ہیں۔ اور بعض بدعتی اور مشرک ملاں تو یہاں تک کہتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ بزرگ کو پتہ ہوتا ہے کہ میری قبر پر چڑیا بیٹھی ہے یا چڑا والعیاذُ باللہ العظیم من ہذہ الخرافات والا باطیل۔
۱۱۸. سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اس موقع پر حضرت عیسیٰ صاف و صریح طور پر اور نہایت عاجزانہ اور مؤدبانہ انداز میں اپنے رب کے حضور عرض کریں گے کہ مالک! اب معاملہ سب کا سب تیرے ہی اختیار میں ہے۔ تو اگر ان بدبختوں کو عذاب دے تو بھی صحیح اور بجا۔ اور اگر ان کی بخشش فرما دے، تو یہ بھی تیرے ہی اختیار میں ہے۔ سو اس طرح حضرت عیسیٰ عیسائیوں کی شفاعت سے اپنی برأت کا صاف اعلان و اظہار فرما دیں گے، تب ان مشرکوں کے سامنے اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے گی،
۱۱۹. سو اس موقع پر اور حضرت عیسیٰ کی اس عرض و گزارش کے جواب میں اللہ پاک ارشاد فرمائے گا کہ آج کا دن صدق و صفا کے نفع کا دن ہے۔ آج سچوں اور راست بازوں و صدق شعاروں کو فتح مندیوں اور کامرانیوں سے نوازا جائے گا۔ اور ان بد عہدوں اور خائنوں کے لئے محرومی و نامرادی اور یاس و حسرت کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے حق و صدق سے منہ موڑ کر جھوٹی آرزوؤں اور من گھڑت امیدوں کے سہارے اپنی متاع زندگی کو ضائع کر دیا۔ والعیاذُ باللہ، سو آج صدق شعاروں کے لئے ان عظیم الشان جنتوں سے سرفرازی کا مژدہ جانفزاء ہے جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہیں جن میں انکو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا نصیب ہو گا۔ جنہوں نے زندگی بھر صدق و اخلاص، اور تقوی و پرہیزگاری، کی روش کو اپنا کر اپنے رب کو راضی کیا، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم لا متناہی کی بناء پر ان کو ان عظیم الشان نعمتوں سے نوازا، جو ان کے ظن و حسبان اور ان کی امیدوں آرزوؤں اور توقعات سے ہزاروں لاکھوں درجے بڑھ کر ہیں۔ اور یہی ہے اصل حقیقی اور سب سے بڑی کامیابی اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین