تفسیر مدنی

سورة قٓ

(سورۃ ق ۔ سورہ نمبر ۵۰ ۔ تعداد آیات ۴۵)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     قٓ قسم ہے اس قرآن کی جو بڑا ہی عزت و شان والا ہے

۲۔۔۔     (ان لوگوں کا انکار کسی بنیاد پر مبنی نہیں) بلکہ ان کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ان کے پاس ایک خبردار کرنے والا آگیا خود انہی میں سے جس پر یہ کافر کہنے لگے کہ یہ تو بڑی عجیب بات ہے

۳۔۔۔     کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟) یہ لوٹنا تو بہت بعید (از عقل) ہے

۴۔۔۔     حالانکہ ہمیں پوری طرح معلوم ہے وہ سب کچھ جو کہ زمین کھاتی ہے ان کے جسموں میں سے اور ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے

۵۔۔۔     (اور تعجب ہی نہیں) بلکہ انہوں نے صاف (اور صریح) طور پر جھٹلا دیا حق کو جب کہ وہ ان کے پاس پہنچ گیا جس کے باعث یہ لوگ ایک بڑے ہی الجھن والے معاملے میں پڑے ہیں

۶۔۔۔     تو کیا انہوں نے کبھی دیکھا نہیں اپنے اوپر (تنے ہوئے) اس آسمان کو کہ کس طرح بنایا ہم نے اس کو (مضبوطی اور حکمت کے ساتھ) اور اس کو مزین (و آراستہ) کر دیا (ستاروں کے ان عظیم الشان چراغوں کے ساتھ) اور (اس طور پر کہ) اس میں کوئی رخنہ تک نہیں

۷۔۔۔     اور زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو بھی ہم ہی نے بچھایا ہے اور اس میں (پہاڑوں کے) عظیم الشان لنگر بھی ہم ہی نے ڈالے ہیں اور ہم ہی نے اس میں اگائی ہر قسم کی (عمدہ اور) خوشنما پیداوار

۸۔۔۔     سامان بصیرت اور یاد دہانی کے طور پر ہر اس بندے کے لئے جو رجوع کرنے والا ہو (حق اور حقیقت کی طرف)

۹۔۔۔     اور ہم ہی نے اتارا آسمان سے برکتوں بھرا پانی پھر اس کے ذریعے ہم نے اگائے طرح طرح کے باغات اور غلے کھیتوں کے

۱۰۔۔۔     اور کھجوروں کے ایسے لمبے لمبے درخت بھی جن کے خوشے تہ بہ تہ لگے (اور خوب گندے ہوئے) ہوتے ہیں

۱۱۔۔۔     روزی دینے کے لئے اپنے بندوں کو اور اسی (پانی) کے ذریعے ہم زندگی بخش دیتے ہیں کسی مردہ پڑی ہوئی زمین کو اسی طرح ہو گا نکلنا (مردوں کا اپنی قبروں سے اپنے وقت مقرر پر)

۱۲۔۔۔     (اسی طرح) جھٹلایا (حق اور حقیقت کو) ان سے پہلے قوم نوح نے اور کنوئیں والوں نے اور قوم ثمود نے

۱۳۔۔۔     اور قوم عاد اور فرعون نے اور لوط کے بھائیوں نے

۱۴۔۔۔     اور ایکہ والوں نے اور تبع کی قوم نے بھی ان سب نے جھٹلایا ہمارے رسولوں کو آخرکار (ان پر) چسپاں ہو کر رہی میری وعید

۱۵۔۔۔     تو کیا ہم عاجز ہو گئے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے ؟ (کچھ بھی نہیں) بلکہ یہ لوگ شک (اور شبہے) میں پڑے ہیں نئی پیدائش کے بارے میں

۱۶۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا ہے انسان کو اور ہم پوری طرح جانتے ہیں اس کے ان وسوسوں کو جو اس کے دل میں گزرتے ہیں اور ہم اس سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں

۱۷۔۔۔     (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ یہ حقیقت بھی دھیان میں رہے کہ) جب اخذ کر رہے ہوتے ہیں دو اخذ کرنے والے (ان میں سے) ایک داہنے بیٹھا ہوتا ہے اور ایک بائیں

۱۸۔۔۔     وہ منہ سے کوئی بات بھی نکالنے نہیں پاتا مگر اس کے پاس ایک حاضر باش نگران موجود رہتا ہے

۱۹۔۔۔     اور (یہ لو) آ پہنچی سختی موت کی حق کے ساتھ (تب کہا جائے گا اس غافل انسان سے کہ) یہ ہے وہ چیز جس سے تو بھاگتا تھا

۲۰۔۔۔     اور پھونک مار دی جائے گی صور میں (دوسری مرتبہ جس سے سب از سر نو زندہ ہو جائیں گے) یہ ہے وہ دن جس سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا (دنیا میں)

۲۱۔۔۔     اور آگیا ہر شخص (میدان حشر میں اپنے کئے کرائے کا حساب دینے کو) اس حال میں کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا ہو گا اور ایک گواہ

۲۲۔۔۔     (کہا جائے گا کہ) تو تو اس سے بالکل غفلت میں تھا پس ہٹا دیا ہم نے تجھ سے تیرا پردہ سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے

۲۳۔۔۔     اس کا ساتھی (فرشتہ) کہے گا کہ یہ ہے وہ (روزنامچہ) جو میری سپردگی میں تھا (حاضر و) تیار

۲۴۔۔۔     (حکم ہو گا کہ) ڈال دو جہنم (کی اس دہکتی بھڑکتی آگ) میں ہر کٹے کافر کو جو عناد (اور دشمنی) رکھنے والا تھا (حق اور اہل حق سے)

۲۵۔۔۔     جو بھلائی سے روکنے والا حد سے بڑھنے والا اور شک میں ڈالنے والا تھا

۲۶۔۔۔     جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور (فرضی معبود) کو خدا بنا رکھا تھا سو ڈال دو اس کو ایسے نہایت سخت (اور انتہائی ہولناک) عذاب میں

۲۷۔۔۔     اس کا دوسرا ساتھی (شیطان) کہے گا کہ اے ہمارے رب میں نے اس کو (کوئی جبرا) گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی پڑا تھا پرلے درجے کی گمراہی میں

۲۸۔۔۔     ارشاد ہو گا کہ جھگڑا مت کرو میرے حضور یقیناً میں نے تم کو پہلے ہی (صاف و صریح طور پر) خبردار کر دیا تھا اس انجام بد سے

۲۹۔۔۔     میرے یہاں نہ بات بدلی جاتی ہے اور نہ ہی میں کوئی ظلم کرنے والا ہوں اپنے بندوں پر

۳۰۔۔۔     (لوگو! یاد کرو اس ہولناک دن کو کہ) جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تو بھر گئی؟ تو وہ کہے گی کہ کیا کچھ اور بھی ہے ؟

۳۱۔۔۔     اور قریب کر دیا جائے گا (اس روز) جنت کو پرہیزگاروں کے (اور اس قدر کہ) وہ ان سے کچھ بھی دور نہ ہو گی

۳۲۔۔۔     (اور ان سے کہا جائے گا ان کے سرور کو دو بالا کرنے کے لئے کہ) یہ ہے وہ چیز جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو بہت رجوع رہنے والا اور بڑا پابندی کرنے والا تھا

۳۳۔۔۔     جو ڈرتا رہتا تھا (خدائے) رحمان سے بن دیکھے اور وہ حاضر ہوا (اپنے رب کے حضور) دل گرویدہ کے ساتھ

۳۴۔۔۔     (سو ایسوں کو ارشاد ہو گا کہ) داخل ہو جاؤ تم اس (جنت) میں سلامتی کے ساتھ یہ ہے ہمیشہ رہنے (اور حیاتِ ابدی سے سرفراز ہونے) کا دن

۳۵۔۔۔     ان کے لئے وہاں وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس (ان کے لئے) اس سے بھی زیادہ بہت کچھ موجود ہو گا

۳۶۔۔۔     اور کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں ان سے پہلے (ان کے کئے کرائے کی پاداش میں) جو ان (موجودہ کفار) سے کہیں بڑھ کر سخت تھیں (اپنی طاقت و قوت کے اعتبار سے) سو انہوں نے چھان مارا تھا (شہروں) اور ملکوں کو تو کیا (ہماری پکڑ کے وقت) وہ پا سکے کوئی جائے پناہ؟

۳۷۔۔۔     بے شک اس میں بڑا بھاری درس عبرت اور (سامان فکر و بصیرت) ہے ہر اس شخص کے لئے جو دل رکھتا ہو یا وہ توجہ کرے (درسِ عبرت کی طرف) دل لگا کر

۳۸۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی اس ساری کائنات کو چھ دنوں (کی مدت) میں اور ہمیں چھوا تک نہیں کسی قسم کی تکان نے

۳۹۔۔۔     سو آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں (اے پیغمبر !) ان تمام باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں (حق اور اہل حق کے خلاف) اور تسبیح کرتے رہو اپنے رب کی حمد (و ثنا) کے ساتھ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے بھی اور اس کے چھپنے سے پہلے بھی

۴۰۔۔۔     اور رات کے کچھ حصے میں بھی اس کی تسبیح کیا کرو اور (اس کے حضور) سجدہ ریزیوں کے بعد بھی

۴۱۔۔۔     اور کان لگا کر سنو (حال اس دن کا) جس دن کہ پکارے گا پکارنے والا ایسی جگہ سے جو (ہر شخص کے) بالکل قریب ہی ہو گی

۴۲۔۔۔     جس دن کہ سب لوگ سنیں گے (آواز آہ حشر کی) اس ہولناک آواز کو یہ دن ہو گا (مردوں کے) نکلنے کا (ان کی قبروں سے)

۴۳۔۔۔     بلاشبہ زندگی بھی ہم ہی بخشتے ہیں اور موت بھی ہم ہی دیتے ہیں اور آخرکار ہماری ہی طرف لوٹنا ہے (سب کو)

۴۴۔۔۔     جس دن کہ پھٹ پڑے گی زمین ان (مردوں) سے (اور یہ نکلتے ہی) دوڑے جا رہے ہوں گے (میدان حشر کی طرف) یہ جمع کرنا ہمارے لئے بہت آسان ہے

۴۵۔۔۔     ہم خوب جانتے ہیں ان تمام باتوں کو جو یہ لوگ بنا رہے ہیں (حق اور اہل حق کے خلاف) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان پر کوئی جبر کرنے والے نہیں ہیں پس آپ نصیحت (و یاددہانی) کرتے رہیں اس قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو جو ڈرتا ہو میری وعید (اور پکڑ) سے

تفسیر

 

۱۔۔  مجید ماخوذ ہے مَجْد سے، جس کے معنی عظمت، بزرگی بڑائی، اور برتری، کے ہیں، پس مجید کے معنی ہوئے بڑا ہی عظیم الشان نہایت ہی بزرگ اور برتر اور یہ اللہ تعالیٰ کی بھی صفت ہے، اور قرآن مجید کی بھی، اور یہ ایک واضح حقیقت ہے، کیونکہ ہر کلام اپنے متکلم کی صفات کا مظہر اور آئینہ دار ہوتا ہے، کہ جس طرح خداوند قدوس مجید اور نہایت ہی بزرگ، اور بالاتر اور عظیم الشان اور بے مثال ہستی ہے اسی طرح اس کا نازل فرمودہ یہ کلام مجید بھی نہایت ہی عظیم الشان اور بے مثال کلام ہے، اور اس کی یہ عظمت و برتری اس کی ایک ایک آیت کریمہ سے نمایاں اور واضح ہے، اور ایسی اور اس حد تک کہ ممکن نہیں کہ کوئی صاحب ذوق اس کو پڑھے یا سنے اور وہ اس کی اس عظمت شان سے متاثر نہ ہو، سو اگر کوئی اس کی عظمت شان اور جلالت قدر سے متاثر نہیں ہوتا، تو پھر یا تو وہ عقل و فکر کی صلاحیتوں سے بالکل کورا ہے یا اس کا دل بالکل سیاہ ہو گیا ہے والعیاذُ باللہ، اور یہ تو ایسا کلام ہے کہ اگر اس کو پہاڑوں پر بھی اتار دیا جاتا، تو وہ بھی اللہ کے خوف اور اس کی خشیت سے پارہ پارہ ہو جاتے۔ جیسا کہ سورہ حشر کے آخر میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ کا جواب قسم یہاں پر محذوف ہے جو اِنَّہ لَحَقٌّ وغیرہ جیسے کسی مناسب و موزوں جملے سے مقدر و محذوف مانا جا سکتا ہے یعنی یہ قرآن مجید اور جو کچھ اس میں بتایا گیا ہے وہ سب قطعی طور پر حق اور صدق ہے، جس کا ثبوت اور اس کی دلیل و شاہد یہ کتاب حکیم قرآن مجید خود ہے، پس غلط کہتے اور جھوٹ اور ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ لوگ جو اس کو سحر، یا شعر، یا کہانت، وغیرہ کہتے ہیں، ایسی باتیں خود ایسے لوگوں کی کوڑا مغزی، مت ماری، اور ان کی سیاہ بختی کا ثبوت ہیں، والعیاذُ باللہ، جل وعلا،

۸۔۔      اس آیت کریمہ میں دو لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ ایک تَبْصِرَہ اور دوسرا ذِکْریٰ۔ سو یہ دونوں ہی لفظ بڑے اہم ہیں، تبصرہ سے مراد ہے سامان بصیرت سے نوازنا۔ یعنی ظاہر کو دیکھنے والی ان آنکھوں کے اندر وہ نور بصیرت پیدا کر دینا جس کے نتیجے میں یہ ظاہر سے گزر کر اس اصل حقیقت تک پہنچ سکیں، جو ان ظواہر و مظاہر کے پیچھے کار فرما ہے، اور ذِکْریٰ یا تذکرہ سے مراد ہے ان پردوں کو ہٹا دینا جو غفلت و لاپرواہی کا باعث بنتے ہیں، سو اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی اس حکمتوں بھری کائنات کو طرح طرح کے ایسے عجائب اور کرشموں سے بھر دیا ہے، جو آنکھوں کو نور بصیرت سے نوازنے اور دلوں کو غفلت و لاپرواہی کے پردوں سے نکال کر ان میں تذکیر و یاد دہانی پیدا کر دینے کے لئے کافی و وافی ہیں، لیکن یہ کرشمے کارگر انہی لوگوں پر ہو سکتے ہیں جن کے اندر اثر پذیری کی حس موجود ہو۔ اور وہ اپنے اندر انابت و رجوع الی اللہ کی صفت و شان رکھتے ہوں، رہ گئے وہ لوگ جو اپنی محسوس پرستی کی بناء پر اپنی اس حس لطیف اور صفت خاص کو برباد کر چکے ہوں ان کے لئے اس سب کے اندر نہ کوئی درس ہے، اور نہ کوئی سامان عبرت و بصیرت، بلکہ ان کے لئے یہ ساری کائنات ایک عالم ظلمات ہے اور ان کی زندگیوں کا حاصل اور مقصد بطن و فرج کی خواہشات کی تحصیل و تکمیل ہے اور بس، اور ان کی زندگی حیوانات کی زندگی بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر بدتر ہے۔ اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،

۱۶۔۔  سو اس آیت کریمہ سے اللہ تعالیٰ کے کمال علم اور بندوں سے اس کے غایت قرب کو واضح فرما دیا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اور ہم اس کے ان وسوسوں سے بھی واقف و آگاہ ہیں جو اس کے دل میں گزرتے ہیں، اور ہم اس کی رگ جان سے کہیں زیادہ قریب ہیں، اور یہ ایک طبعی امر اور بدیہی بات ہے کیونکہ وہ جب خالق ہے اور اس نے انسان کے ایک ایک جوڑ بند کو درست کیا ہے، تو لازم ہے کہ وہ اس کے تمام اجزاء اور سب پرزوں کے در و بست اور ان کے عمل سے پوری طرح واقف و آگاہ ہو۔ اسی حقیقت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ الَاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر (الملک۔۱۴) یعنی کیا وہی نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا ہے جبکہ وہ بڑا ہی باریک بیں، اور پوری طرح باخبر ہے، اور استفہام اس میں ظاہر ہے کہ تقریری ہے، یعنی ہاں وہ اس کے ایک ایک کل پرزے سے اور اس کے عمل سے پوری طرح باخبر ہے، اور جب وہ انسان کے دل میں گزرنے والے وسوسوں تک سے واقف و آگاہ ہے اور پوری طرح واقف و آگاہ ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان کے اعمال میں سے کوئی عمل اس سے مخفی اور پوشیدہ رہ جائے؟ سبحانہ و تعالیٰ، اور وَرِیْد رگ جان کو کہا جاتا ہے، اور یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو غایت قرب کے اظہار و بیان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کوئی شخص اس طرح کی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے، کہ جس طرح ہم اللہ کو نہیں دیکھ رہے اسی طرح وہ بھی ہم سے کہیں دُور ہو گا، سو ایسے نہیں، اور ہرگز نہیں، بلکہ وہ ہم سے ہماری رگ جان یعنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس لئے اس کا علم اور اس کی قدرت بندے کے ہر پہلو کو احاطہ کئے ہوئے ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس انسان کے ظاہر اور اس کے باطن کی کوئی بھی حالت اور کیفیت اس سے کسی بھی طرح مخفی و مستور نہیں ہو سکتی، سو اس سے اہل بدعت کے اس مشرکانہ فلسفے کی جڑ نکل جاتی ہے جس کی بناء پر یہ لوگ اس وحدہٗ لاشریک کو دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں پر قیاس کر کے اس تک رسائی کے لئے طرح طرح کے من گھڑت وسیلے اور واسطے اختیار کرتے ہیں، بھلا جو ذات اقدس و اعلیٰ اپنے بندوں سے ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو، اور جس سے انسان کے ظاہر و باطن کی کوئی بھی حالت و کیفیت مخفی نہ ہو۔ اس کو دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں پر قیاس کرنا کس طرح اور کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ اور اس کے حضور حاضری کے لئے اس طرح کے من گھڑت اور خود ساختہ وسیلوں اور واسطوں کی آخر ضرورت اور تک ہی کیا ہو سکتی ہے؟ سو اس کے حضور حاضری اور رسائی کا طریقہ اس پر ایمان و اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت و اتباع ہے، اور بس، باقی سب باتیں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، اور دین حنیف نے اس کے حضور حاضری اور عرض و گزارش کے لئے بلاواسطہ حاضری اور دعاء و درخواست ہی کی تعلیم دی ہے، اس لئے ہر مسلمان اپنی ہر نماز اور اس کی ہر رکعت میں اس کے حضور براہ راست عرض کرتا ہے اِیَّاکَ نَعَبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی مالک! ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، اور قرآن و سنت میں جو بے شمار دعائیں تلقین فرمائی گئی ہیں، ان سب میں رَبَّنَا (اے ہمارے رب!) اور رَبِّیْ (اے میرے رب!) ہی کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔

۳۰۔۔  سو اس سے دوزخ کی وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ اتنی لاتعداد مخلوق کے اس کے اندر بھر دیئے جانے کے بعد بھی جب اس سے کہا جائے گا۔ ہَلِ امْتَلَأتِ؟ (کیا تو بھر گئی؟) تو اس کے جواب میں وہ کہے گی ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ؟ (کیا کچھ اور بھی ہے؟) روایات کے مطابق اس کے بعد حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ اس میں اپنا قدم رکھیں گے، تو وہ چیخ اٹھے گی، اور کہے گی، قَطْ قطْ وَعِزَّتِکَ وکرمک، یعنی بس بس، تیری عزت اور کرم کی قسم، اور یہ حدیث بخاری ومسلم وغیرہ کی روایت سے ہے۔ اور حق تعالیٰ شانہ کے قدم اور اس کے دوزخ میں رکھنے کی کیفیت وغیرہ عالم غیب کے ان متشابہات میں سے ہیں، جن کی حقیقت کو جاننا ہمارے لئے ممکن نہیں، بس ہم ان پر ویسے ہی ایمان رکھیں گے جیسا کہ یہ نصوص میں وارد ہوئے ہیں اور بس، رہ گئی بات دوزخ سے اس سوال و جواب کی حقیقت کی۔ تو یہ مجاز پر بھی محمول ہو سکتا ہے۔ جس سے صورت حال کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے، جیسا کہ عربی کی اس کہاوت میں کہا گیا ہے قال الجدار للمسمار لم تشقنی؟ قال سل من یَّدُقْنِیْ۔ یعنی دیوار نے کیل سے کہا کہ تو مجھے کیوں شق کرتی ہے؟ تو کیل نے کہا اس سے پوچھ جو مجھے ٹھوک رہا ہے، لیکن دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہے کہ یہ کلام مجاز پر نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے کرے، اور جب اور جیسا چاہے کرے، صامت اور بے زبان چیزوں کو قوت گویائی عطاء کر دینا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں، جیسا کہ قرآن حکیم نے دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی ہے، کہ قیامت کے روز جب مجرموں کے اعضاء و جوارح ان کے خلاف گواہی دیں گے تو وہ حیرت اور دہشت کے مارے ان سے کہیں گے لِمَ شَہِدْ تُمَّ عَلَیْنَا؟ یعنی تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ تو وہ اس کے جواب میں کہیں گے اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ (حٰم السجدۃ۔۲۱) یعنی ہمیں اسی اللہ نے گویائی بخشی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کیا۔ اور جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ آخری زمانے میں مسلمان یہودیوں سے لڑیں گے یہاں تک کہ جو یہودی کسی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا، تو وہ درخت اور پتھر پکار کر مسلمان سے کہے گا، یا عَبْدَ اللّٰہ ہٰذَا یَہُوْدِیٌ وَرائی تعال فَاقَتُلْہ،۔ یعنی اے اللہ کے بندے یہ ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے آکر اس کو قتل کر۔ سو دوزخ کے اس کلام میں یہ دونوں احتمال موجود ہیں، اور معنی و مطلب دونوں ہی صورتوں میں صحیح بنتا ہے، و الحمدللہ عزوجل، اس سوال و جواب سے اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی، اور اس کے شدت غضب کی تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے، والعیاذ بہ جل وعلا و تبارک و تعالی، سو وہ پوری بے نیازی سے سب محرموں کو جہنم میں پھینکوا دے گا، سبحانہ و تعالیٰ، اور پھر جہنم سے پوچھے گا کہ کیا تیرا پیٹ اچھی طرح بھر گیا؟ پس کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اتنی بے شمار مخلوق کو جہنم میں پھینکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو کچھ افسوس ہو گا کہ اپنی پیدا کردہ اتنی مخلوق کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا، سو ایسی کوئی بات نہیں ہو گی، بلکہ اس کا غیظ و غضب پورے جوش پر ہو گا، والعیاذ باللہ جل وعلا، اور یہی تقاضا ہو گا اس کے عدل و قسط کا، سبحانہ و تعالیٰ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،

۳۷۔۔  یعنی تاریخ کے ان واقعات کے اندر بڑا سامان عبرت و بصیرت موجود ہے، لیکن اس سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن میں عبرت حاصل کرنے والے دل موجود ہوں۔ یا کم از کم ان کے اندر بات کو توجہ سے سننے والے کان موجود ہوں اللہ تعالیٰ نے دل کو احساس کرنے، عبرت حاصل کرنے اور سوچنے سمجھنے کے لئے بنایا ہے، جب تک آدمی کا دل یہ کام کرتا رہتا ہے، اس وقت اس کا دل زندہ رہتا ہے۔ اور جب تک دل زندہ ہے اس وقت تک انسان بھی زندہ ہے، اس لئے کہ آدمی کی زندگی اور اس کی اصل اور حقیقی زندگی اس کے دل ہی سے ہے۔ اور دل اگر اپنی یہ خصوصیات کھو کر مر جائے، تو پھر آدمی بھی مر جاتا ہے۔ اگرچہ اس کی رگوں کے اندر کتنا ہی خون کیوں نہ دوڑتا ہو، اور اگر کسی کا دل پوری طرح بیدار نہ ہو تو پھر کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی معقول بات اس کو سنائی جائے تو وہ اس کی توجہ سے سنے۔ کیونکہ یہ توجہ بھی انسان کے لئے بڑی خیر و برکت کا باعث بن جاتی ہے، کہ اس سے بھی بسا اوقات دل کی غفلت دور ہو جاتی ہے اور اس کی عبرت پذیری کی صلاحیت زندہ ہو جاتی ہے لیکن جس بدبخت کا نہ دل بیدار ہو، اور نہ ہی وہ کسی معقول بات کو سننے کے لئے اپنے کان کھولنے کو تیار ہو تو پھر اس کے اندر کوئی معقول بات آخر کس طرح راہ پا سکتی ہے؟ سو اس سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے جس کا ذکر ہم کئی جگہ کر چکے ہیں کہ انسان کی صحت و فساد اور اس کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔ اور اصل کا مدار و انحصار اس کی اپنی نیت و ارادہ اور اس کی خواہش و چاہت پر ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من الموطن فی الحیاۃ

۴۰۔۔  ان دونوں آیتوں میں پیغمبر کو دشمنوں کی غوغہ آرائیوں اور ان کی ایذاء رسانیوں پر صبر و برداشت کی تعلیم و تلقین بھی فرمائی گئی، اور ان کے حصول کی تدبیر بھی ارشاد فرما دی گئی، سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان لوگوں کی ان باتوں پر صبر ہی سے کام لیں، اور اس کی تدبیر کی تعلیم و تلقین کے طور پر ارشاد فرمایا گیا، کہ آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں، کیونکہ دشمنوں کے مقابلے میں ایسے صبر کا حصول رب کی حمد و ثنا اور اس کی تسبیح و تقدیس ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، یعنی آپ صبر نہیں کر سکتے مگر اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے، اس کی مدد کے حصول کا ذریعہ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح ہے، تسبیح میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کا پہلو غالب ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر ایسی چیز سے پاک اور منزہ قرار دینا، جو اس کی شان اعلیٰ و اقدس کے منافی ہو، جبکہ حمد کے اندر اثبات کا پہلو غالب ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہر اس خوبی سے موصوف و متصف قرار دینا جو اس کی شایان شان ہو، کہ ہر خوبی کا منبع و مصدر وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور تسبیح و  تحمید کی سب سے عمدہ صورت ہے نماز جو ان تمام خوبیوں کی جامع ہے، اس لئے ان اوقات کے ذکر سے پانچ وقت کی نمازوں کے خاص اوقات کی طرف اشارہ فرما دیا گیا، کہ دشمنوں کی باتوں کے مقابلے میں ایسے صبر و برداشت اور استقامت کا حصول نماز ہی کے ذریعے ممکن ہے، پس اس کا بطور خاص اہتمام و التزام کیا جائے، وباللّٰہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاَحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطنِ فی الحیاۃ۔

 سو اس سے سورہ کریمہ کے خاتمے پر اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آپ کوئی جَبَّار نہیں ہیں کہ لوگوں سے حق بات کو منوا کر چھوڑیں، اور ان کو راہ حق پر ڈال کر رہیں کہ یہ بات نہ آپ کے بس میں ہے، اور نہ ہی یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ بلکہ آپ کا کام تو صرف تذکیر و یاد دہانی ہے، پس آپ اس قرآن کے ذریعے تذکیر و یاد دہانی کراتے رہیں ہر اس شخص کو جو میری وعید اور پکڑ سے ڈرتا ہو۔ کہ اس تذکیر و یاد دہانی سے مستفید و فیضیاب ایسے ہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اپنے اندر خوف خدا کی دولت رکھتے ہوں رہ گئے وہ ہٹ دھرم جو عذاب دیکھ کر ہی ماننا چاہتے ہوں تو ان کو ان کے انجام کے حوالے کر دیں۔ کہ ہٹ دھرموں کے لئے آخری علاج یہی ہو سکتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم، وبہذا قد تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ ق بتوفیق اللہ تعالیٰ وعنایۂ