اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ قسم ہے تارے کی جب کہ وہ ڈوبنے لگے
۲۔۔۔ تمہارا ساتھی نہ تو بھٹکا ہے نہ بہکا ہے
۳۔۔۔ وہ اپنی خواہش نفس سے بولتا بھی نہیں
۴۔۔۔ وہ تو نری وحی ہوتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے
۵۔۔۔ آپ کو سکھایا اس سخت قوتوں والے نے
۶۔۔۔ جو بڑا زور آور ہے چنانچہ وہ (اپنی اصل شکل میں) سامنے آ کھڑا ہوا
۷۔۔۔ جب کہ وہ آسمان کے بلند کنارے پر تھا
۸۔۔۔ پھر وہ نزدیک ہوا پھر اور نزدیک ہوا
۹۔۔۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا
۱۰۔۔۔ تب اللہ نے وحی بھیجی اپنے بندے کی طرف جو کچھ وحی آپ کو فرمانا تھی
۱۱۔۔۔ دل نے جھوٹ نہیں کہا جو کچھ کہ اس نے دیکھا
۱۲۔۔۔ تو کیا تم لوگ اس سے اس چیز پر جھگڑتے ہو جس کو اس نے خود دیکھا (اپنی کھلی آنکھوں سے ؟)
۱۳۔۔۔ اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس (فرشتہ) کو ایک اور مرتبہ بھی (اپنی اصل شکل میں) اترتے دیکھا
۱۴۔۔۔ یعنی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس
۱۵۔۔۔ جس کے پاس جنت الماویٰ ہے
۱۶۔۔۔ جب کہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا
۱۷۔۔۔ نگاہ نہ تو چوندھیائی نہ حد سے بڑھی
۱۸۔۔۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا اپنے رب کی بڑی نشانیوں کو
۱۹۔۔۔ تو کیا تم لوگوں نے کبھی لات اور عزی کی حقیقت پر بھی کچھ غور کیا؟
۲۰۔۔۔ اور اس پچھلے تیسرے مناۃ کے بارے میں بھی کبھی سوچا
۲۱۔۔۔ کیا تمہارے لئے تو ہوں بیٹے اور اس کے لئے ہوں بیٹیاں ؟
۲۲۔۔۔ تب تو یہ بڑی ہی ٹیڑھی (اور بے ڈھنگی) تقسیم ہے
۲۳۔۔۔ یہ تو محض کچھ نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم لوگوں نے خود اور تمہارے باپ دادا نے (ورنہ) اللہ نے تو ان کے بارے میں کوئی سند نہیں اتاری حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تو محض وہم و گمان کے پیچھے چلتے ہیں اور ان خواہشات کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے نفسوں میں آتی ہیں حالانکہ آ چکی ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے ہدایت۔
۲۴۔۔۔ کیا انسان کو وہ سب کچھ مل جاتا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے ؟
۲۵۔۔۔ تو (یاد رکھو کہ) اللہ ہی کے لئے ہے آخرت بھی اور (اس سے پہلے یہ) دنیا بھی
۲۶۔۔۔ اور (یہ معبودانِ باطل تو درکنار یہاں تو حال یہ ہے کہ) کتنے ہی فرشتے ہیں آّسمانوں (کی بلندیوں) میں کہ ان کی سفارش بھی کچھ کام نہیں دے سکتی مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کے لئے وہ چاہے اور پسند فرمائے
۲۷۔۔۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو موسوم کرتے ہیں عورتوں کے ناموں سے
۲۸۔۔۔ حالانکہ ان کو اس بارے میں کچھ بھی علم نہیں ایسے لوگ تو محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان یقینی طور پر حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا
۲۹۔۔۔ پس اپنے حال پر چھوڑ دو ایسے (ناہنجار شخص) کو جو پھر گیا ہماری یاد (دلشاد) سے اور اس کا مقصد دنیاوی زندگی (اور اس کی فانی لذتوں) کے سوا کچھ نہیں
۳۰۔۔۔ یہ ہے رسائی (اور پہنچ) ایسے لوگوں کے علم (و ہنر) کی بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہی خوب جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے
۳۱۔۔۔ اور اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے تاکہ اللہ (پورا پورا) بدلہ دے ان لوگوں کو جو برائی کی راہ پر چلتے رہے ان کے (زندگی بھر کے) کئے کرائے کا اور وہ بہترین جزاء سے نوازے ان (خوش نصیبوں) کو جو (زندگی بھر) چلتے رہے اچھائی اور نیکی کی راہ پر۔
۳۲۔۔۔ جو بچتے رہے بڑے گناہوں اور کھلی بے حیائیوں سے بجز اس کے کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہو جائیں بلاشبہ تمہارا رب بڑا ہی بخشنے والا ہے وہ تمہیں خوب جانتا ہے اس وقت بھی کہ جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس وقت بھی کہ جب تم لوگ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں بچے تھے پس تم لوگ اپنی پاکی کے دعوے نہ کیا کرو اسے خوب معلوم ہے کہ کون پرہیزگار ہے
۳۳۔۔۔ پھر کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے منہ پھیر لیا؟
۳۴۔۔۔ اور وہ تھوڑا سا دے کر رک گیا؟
۳۵۔۔۔ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے ؟
۳۶۔۔۔ کیا اس کو خبر نہیں پہنچی ان (عمدہ) باتوں کی جو کہ موجود (و مذکور) تھیں موسیٰ کے صحیفوں میں
۳۷۔۔۔ اور (جن کا ذکر و بیان اس سے بھی پہلے) اس ابراہیم کے صحیفوں میں بھی ہو چکا جس نے وفا کا حق ادا کر دیا
۳۸۔۔۔ یہ کہ نہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا بوجھ کسی دوسرے کا
۳۹۔۔۔ اور یہ کہ (ایمان و یقین کے بارے میں) انسان کو کچھ نہیں ملے گا مگر وہی جو اس نے خود کمایا
۴۰۔۔۔ اور یہ کہ اس کی کوشش کی عنقریب ہی پوری پوری جانچ پڑتال کی جائے گی
۴۱۔۔۔ پھر (اس کے مطابق) اس کو پوری پوری جزا دی جائے گی
۴۲۔۔۔ اور یہ کہ آخرکار تمہارے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے (سب کو)
۴۳۔۔۔ اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے
۴۴۔۔۔ اور یہ کہ وہی موت دیتا ہے اور اسی کا کام ہے زندگی بخشنا
۴۵۔۔۔ اور یہ کہ وہی ہے جس نے پیدا فرمایا (کمال حکمت کے ساتھ) جوڑے کے دونوں فردوں نر اور مادہ کو
۴۶۔۔۔ ایک (حقیر سی) بوند سے جب کہ اس کو ٹپکا دیا جاتا ہے (رحم کے اندر)
۴۷۔۔۔ اور یہ کہ اسی کے ذمے ہے دوسری بار زندہ کر کے اٹھانا
۴۸۔۔۔ اور یہ کہ وہی دولت بخشتا ہے اور اسی کا کام ہے خزانہ عطا کرنا
۴۹۔۔۔ اور یہ کہ وہی ہے رب شعریٰ ستارے کا
۵۰۔۔۔ اور یہ کہ وہی ہے جس نے ہلاک کر (کے ہمیشہ کے لئے مٹا) دیا عاد اولی کو
۵۱۔۔۔ اور ثمود کو بھی سو (ان سب کو ایسا مٹایا کہ ان میں سے) کسی کو بھی باقی نہ چھوڑا
۵۲۔۔۔ اور قوم نوح کو بھی اس سے پہلے (اس نے تباہ کر دیا) کہ بے شک یہ سب ہی بڑے ظالم اور سخت سرکش لوگ تھے
۵۳۔۔۔ اور اسی نے دے مارا الٹ دی جانے والی ان (بدبخت) بستیوں کو
۵۴۔۔۔ (ان کے کرتوتوں کی پاداش میں) پھر ان پر چھا دیا جو کچھ کہ اسے چھانا تھا
۵۵۔۔۔ پھر تو (اے مخاطب !) اپنے رب کی کون کون سی نعمت کے بارے میں شک کرے گا
۵۶۔۔۔ یہ بھی ایک خبردار کرنے والا ہے پہلے خبردار کرنے والوں کی طرح
۵۷۔۔۔ قریب آ لگی ہے وہ قریب آنے والی (اے لوگوں !)
۵۸۔۔۔ جس کو اللہ کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں ہو سکتا
۵۹۔۔۔ کیا پھر بھی تم لوگ تعجب کرتے ہو اس کلام (حکمت نظام) پر؟
۶۰۔۔۔ اور تم لوگ (غفلت میں پڑے) ہنستے ہو اور روتے نہیں
۶۱۔۔۔ اور تم لوگ غفلت میں ڈوبے تکبر کرتے ہو؟
۶۲۔۔۔ سو (باز آ جاؤ تم لوگ اس کبر و غرور سے اور دل و جان سے) سجدہ ریز ہو جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ (اسی وحدہٗ لاشریک کے لئے)
۳۔۔ بس وہ جو کچھ کہتا بتاتا ہے وہ سب سراسر وحی ہوتا ہے، خواہ وہ وحی متلو کی صورت میں ہو جس کو وحی جلی بھی کہا جاتا ہے، یا وحی غیر متلو کی صورت میں جس کو وحی خفی بھی کہا جاتا ہے، یہاں پر کلمہ عَنْ کے استعمال سے اس کلام حکیم کے منبع و مصدر کی تعیین و تشخیص فرما دی گئی، جس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انکے کلام کا خواہش نفس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خالص وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر پر اتاری جاتی ہے جس سے مقصود لوگوں کی ہدایت و راہنمائی ہے، سو اس ارشاد میں کاہنوں اور نجومیوں پر تعریض ہے کہ ان کا کلام تو تمام تر ان کے نفسوں کی تحریک ہی سے ہوتا ہے، جبکہ پیغمبر کی شان اس سے یکسر مختلف ہے، علیہ الصلوٰۃ والسلام ماتبقی ہٰذہ الاحرف اوکلمات
۱۷۔۔ زاغ کے معنی ہوتے ہیں ٹیڑھا ہو گیا ترچھا ہو گیا وغیرہ جیسا کہ کسی بڑے نورانی منظر کے دیکھنے کے نتیجے میں نگاہیں چندھیا کر اصل نشان سے ہٹ جایا کرتی ہیں، اور طغی کے معنی حد سے بڑھ جانے کے ہوتے ہیں، سو ان دونوں لفظوں کے استعمال سے واضح فرما دیا گیا کہ اس موقع پر اگرچہ انوار و تجلیات کا ایسا ہجوم تھا کہ الفاظ و کلمات اس کی تعبیر و تصویر سے عاجز و قاصر ہیں، لیکن اس سب کے باوجود پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس موقع پر جو کچھ دیکھا اور جو مشاہدات کئے وہ نہایت سکون و اطمینان سے اور پوری دل جمعی کے ساتھ کئے۔ نہ آپ کی نگاہ اصل مقصد سے ہٹی اور بھٹکی۔ اور نہ اس سے تجاوز کیا۔ بلکہ آپ نے ہر چیز کا مشاہدہ اس کے بالکل صحیح زاویے سے کیا۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
۱۸۔۔ اگرچہ ان نشانیوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر دیکھیں، کہ نہ الفاظ و کلمات ان کے متحمل ہو سکتے ہیں، اور نہ ہی وہ ہماری عقل و فکر کی گرفت میں آ سکتی ہیں، لیکن الکُبْریٰ کی صفت سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ نشانیاں ان نشانیوں سے بہت بڑی تھیں جن کا مشاہدہ اصحاب عقل و فکر آفاق و انفس میں ہر طرف اور ہر وقت کر سکتے ہیں اور بالفعل کرتے ہیں، نیز آیات کے اس لفظ سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر اپنے رب کی نشانیوں ہی کا مشاہدہ فرمایا، نہ کہ خود حضرت حق جَلَّ مَجْدَہٗ کا، کہ اس کے مشاہدہ کے بارے میں یہاں کوئی ذکر یا اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ ایسا اگر ہوتا تو اس کا ذکر سب سے پہلے اور سب سے نمایاں طور پر فرمایا جاتا۔ سو ان آیات کریمات سے اس کتاب حکیم قرآن مجید کی بے مثال عظمت کو واضح فرما دیا گیا، کہ اللہ نے اس کو اپنے بندہ خاص پر نازل فرمایا۔ اور اپنے اس عظیم الشان فرشتے کے ذریعے نازل فرمایا جو سب فرشتوں سے افضل اور ان کا مطاع اور سردار ہے، جو نہایت امین ہے اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کی سپرد کردہ امانت میں کسی طرح کی کوئی خیانت نہیں کر سکتا۔ وہ نہایت قوی ہے اس لئے اس بات کا بھی کوئی خدشہ و امکان نہیں کہ کوئی طاقت اس کو مغلوب یا مرعوب کر سکے۔ اسی طرح ان کی بعض دوسری اہم صفات کو ذکر کر کے واضح فرما دیا گیا کہ وہ نہایت اعلیٰ علمی اور اخلاقی صفات سے متصف ہے اس لئے اس کے بارے میں اس طرح کا کوئی خدشہ و اندیشہ بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی دھوکے میں مبتلا ہو جائے یا کوئی دوسرا اس کو اس کی کسی طرح جانبداری یا خواہ مخواہ کی مخالفت کرنے لگے، سو وہ اس طرح کے ہر خطرہ اور جملہ عوارض سے پاک ہے، پھر ان سے متعلق اس امر کی بھی وضاحت فرما دی گئی کہ وہ پیغمبر کی دیکھی بھالی اور جانی پہنچانی ہستی ہیں، سو اس بارے تصریح فرمائی کہ پیغمبر نے ان کو دو مرتبہ صاف و صریح طور پر اور ان کی اصل اور حقیقی شکل میں دیکھا ایک مرتبہ افق اعلیٰ میں اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، پس ان کے بارے میں اس طرح کے کسی شبہہ کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی کہ یہ محض کوئی وہم تھا جو ان کو لاحق ہو گیا ہو، اور انہوں نے اس کو آگے پہنچا دیا ہو۔ اور پھر ان کی تعلیم کے بارے میں بھی اس حقیقت کو پوری طرح واضح فرما دیا کہ انہوں نے ایک نہایت ہی شفیق استاذ کی طرح بڑے ہی اہتمام کے ساتھ پیغمبر کو اس کی تعلیم دی سو ان عظیم الشان اور بے مثال و منفرد خصوصیات کی بناء پر قرآن حکیم کی بے مثال عظمت شان روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے، پس کتنے ظالم اور کس قدر بدبخت ہیں وہ لوگ جو اس سب کے باوجود اس کتاب حکیم قرآن مجید کو کہانت اور نجوم کے قسم کی چیز قرار دے کر اس کی قدر و قیمت گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح وہ اپنی محرومی و سیاہ بختی میں مزید اضافہ کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، بہرکیف قرآن حکیم کی عظمت و شان کے ان مختلف اور اہم پہلوؤں کو بھی دیکھئے، اور منکرین و مکذبین کی اس ہٹ دھرمی اور سیاہ بختی کو بھی جس کا معاملہ وہ اس ضمن میں کرتے تھے کہ وہ لوگ کاہنوں کی سب خرافات کو تو بے دریغ تسلیم کر لیتے تھے، لیکن قرآن حکیم کی دعوت حق و صدق کے بارے میں خواہ مخواہ طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرتے تھے۔
۲۶۔۔ یعنی مشرک لوگوں نے تو اپنے طور پر طرح طرح کے خود ساختہ اور من گھڑت حاجت روا و مشکل کشا فرض کر رکھے ہیں، کوئی فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر انکی پوجا پاٹ کرتا ہے کوئی کسی خود ساختہ اور من گھڑت دیوی یا دیوتا کو پکارتا ہے اور کوئی کسی فرضی اور وہمی سرکار کو پوجتا پکارتا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے طور پر مست و مگن ہے کہ اس کے یہ خود ساختہ اور من گھڑت حاجت روا و مشکل کشا اس کی بگڑی بنا دیں گے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ خود ساختہ معبود تو درکنار وہاں پر کتنے ہی ایسے عظیم الشان فرشتے ہیں جو آسمانوں میں رہتے ہیں، اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مشغول و منہمک ہوتے ہیں وہ بھی بایں ہمہ تقدس و تقرب اپنی شفاعت و سفارش سے کسی کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے، مگر اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ اجازت دے۔ جس کے لئے چاہے اور پسند کرے۔ سو فرشتے اول تو از خود آگے بڑھ کر اس کے حضور کوئی بات بھی نہیں کر سکتے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے اس طرح کی تصریح فرمائی گئی لَا یَقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ (الانبیاء۔۲۷) یعنی وہ اس کے آگے بڑھ کر بات بھی نہیں کر سکتے، اور وہ اسی کے حکم و ارشاد کے مطابق عمل کرتے ہیں، اور اس کے اذن کے بعد بھی اگر وہ کوئی سفارش کریں تو وہ بھی اسی کے لئے کریں گے جس کے لئے وہ وحدہٗ لاشریک چاہے اور پسند کرے اور اسی کی مشیت و مرضی اہل حق اور اہل توحید ہی کے لئے ہو سکتی ہے اس لئے حضرات مفسرین کرام اس کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اے لِاَہْلِ التَّوحید (معالم۔ مدارک، اور خازن وغیرہ) تو پھر ان لوگوں کے اس طرح کے خود ساختہ اور من گھڑت حاجت روائی اور مشکل کشاؤں کے بارے میں اس طرح کی کسی سفارش کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ ہر جرم و گناہ قابل معافی اور لائق سفارش نہیں ہو سکتا، کیونکہ جرائم اور گناہوں کے، اور اسی طرح مجرموں اور گناہگاروں کے درجات مختلف ہوتے ہیں، اب رہ گئی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کونسا جرم و قصور قابل معافی ہے اور کونسا نہیں، اور کس مجرم کو معاف کیا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں تو اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اس لئے اسی کے اذن اور اجازت سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس کے لئے سفارش کی جا سکتی ہے اور کس کے لئے نہیں، اس لئے معاملہ اسی کے اذن پر موقوف ہے، سبحانہ و تعالیٰ،
۳۲۔۔ اس آیت کریمہ میں فوز و فلاح کی اصل اور اساس کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ اور فساد و خرابی کی جڑ بنیاد سے بھی آگہی بخش دی گئی۔ سو فوز و فلاح سے سرفرازی کی اصل اور اساس کی تعلیم و تلقین کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے رہتے ہیں، بجز اس کے کہ ان سے کچھ قصور سرزد ہو جائیں، تو ایسوں کی اللہ تعالیٰ بخشش فرما دے گا کہ یقیناً اس کی مغفرت و بخشش بڑی ہی وسیع ہے۔ اس ارشاد میں اِثم سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق غصب حقوق اور ظلم و تعدی سے ہو اور فواحش سے مراد کھلی ہوئی بے حیائیاں اور بد کاریاں ہیں، سو کبائر اثم یعنی بڑے گناہوں اور فواحش یعنی کھلی بے حیائیوں اور بدکاریوں سے بچنے سے متعلق یہ ہدایت بڑی اہم ہدایت ہے، کہ اس طرح انسان کی ایمانی حس اتنی مضبوط اور قوی ہو جاتی ہے کہ وہ صغائر سے خود بخود بچ جانا ہے، بھلا جو خیانت و بددیانتی سے اس حد تک ڈرتا ہو کہ ہزاروں لاکھوں کی امانت کو از خود خوشی بخوشی اور اپنی ذمہ داری اور اپنا دینی و ایمانی فریضہ سمجھ کر ادا کر دیتا ہو، وہ چند ٹکوں کی خیانت پر آخر کس طرح اور کیونکر راضی ہو سکتا ہے؟ اور اس کے باوجود اس سے اگر کچھ صغیرہ گناہ سرزد ہو جائیں، تو وہ وضوء نمازوں، روزوں، حج و عمرہ، صدقات و خیرات، اور توبہ و استغفار وغیرہ مُکفّرات سے خود بخود معاف ہو جائیں گے، جس طرح کہ مختلف نصوص میں اس امر کی تصریح فرمائی گئی ہے، اور اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے اور حضرات اہل علم نے ان کو مُکَفِّراتُ الذُّنوب کے نام و عنوان سے مختلف رسالوں اور کتابوں میں یکجا کیا ہے۔ لَمَمَ اور اِلْمَام کے اصل معنی کسی جگہ ذرہ دیر کے لئے اتر پڑنے کے ہیں، اس لئے حضرت مجاہد اور ابن عباس نے اِلاَّ للَّمَمَ کے مفہوم کو اس طرح واضح فرمایا ہے کہ آدمی کسی گناہ سے آلودہ تو ہو جائے لیکن پھر اس سے کنارہ کش ہو جائے، سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دین حنیف کا مطالبہ انسان سے یہ نہیں کہ وہ بالکل معصوم بن کر زندگی گزارے، کہ ایسا کرنا کسی کے بس میں نہیں، اِلاّ ماشاء اللہ، کہ خواہشات اور جذبات سے مغلوب ہو کر اس انسان ضعیف البنیان کا گناہ کا ارتکاب کر لینا کچھ بعید نہیں، اس لئے دین فطرت اس سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ ہمیشہ معصوم رہے، بلکہ وہ اس سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ گناہ پر اڑ نہ جائے۔ بلکہ اگر وہ نفس و شیطان کی ترغیب و تحریص سے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے۔ تو متنبہ ہوتے ہی توبہ واستغفار کے ذریعے اس کی صفائی اور اپنی اصلاح کا سامان کر لے۔ سو جو لوگ اس طرح کی زندگی گزارتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ کہ اس کی رحمت کا دامن بڑا ہی وسیع ہے، اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خُطَاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ یعنی آدم کی سب ہی اولاد خطا کار ہے۔ اور سب سے اچھے خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں، اور اس کے برعکس آیت کریمہ میں فساد اور خرابی کی جڑ بنیاد کی تشخیص اور نشاندہی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ یعنی تم لوگ اپنی پاکدامنی کے دعوے نہ کرو۔ بلکہ اصل کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ تمہارا تعلق و معاملہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ اپنے ظاہر و باطن ہر اعتبار ہے صحیح اور درست رہے، کہ ایمان و عقیدہ اور نیت وارادہ بھی درست ہو، اور عمل و کردار بھی صحیح، ورنہ محض زبانی کلامی دعووں سے کچھ نہیں بنتا۔ کہ تمہارا وہ خالق و مالک تم لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے، اور وہ تمہارے اول و آخر سب سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے، وہ تم کو اس وقت بھی جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے جبکہ اس نے تم لوگوں کو زمین سے پیدا کیا۔ اور اس وقت بھی جبکہ تم لوگ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں تھے۔ سو جو ذات اقدس و اعلیٰ تم لوگوں کو اس طرح جانتی ہو اس کے سامنے اپنی پاکیزگی کے دعوے کا کیا فائدہ؟ پس دعوے کرنے کے بجائے اس کے ساتھ صدق و اخلاص، ایمان و اطاعت، اور عبدیت و بندگی، کا رشتہ و تعلق صحیح طور پر قائم کرنا چاہیے کہ یہ اس کا اس کے بندوں پر حق بھی ہے، یہی بندوں کی عبدیت کا تقاضا بھی ہے۔ اور اسی میں ان کا بھلا اور فائدہ بھی ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ نیز اس حقیقت کی آگہی میں یہ درس عظیم بھی ہے کہ جس کا وجود مٹی گارے اور پانی سے بنا ہو۔ اور جس نے بے قدرے پانی کے ایک قطرے کی صورت میں رحم مادر کے اندر پرورش پائی ہو، اس کو اکڑنے، اترانے، اور اپنی پاکیزگی اور بڑائی کا دعویٰ کرنے اور زعم و گھمنڈ رکھنے کا آخر کیا حق پہنچتا ہے؟ سو اس کے یہاں شرف و مرتبہ سے سرفرازی تقوی و پرہیزگاری اور دین حق کی پابندی و عملداری سے وابستہ ہے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے۔ اور صاف و صریح ارشاد ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں سب سے بڑا عزت والا وہی ہے جو تم میں سب سے بڑا متقی اور پرہیزگار ہو، اور اس چیز کے بارے میں اصل اور سب سے زیادہ علم و آگہی اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ وہی اپنی میزان عدل میں تول کر بتائے گا کہ سب سے بڑا مرتبہ کس کا ہے۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کے قائم کردہ اور مقرر فرمودہ اس معیار کے برعکس حسب و نسب وغیرہ کے دوسرے وہ غیر فطری معیار مقرر کر دیئے جن پر نہ کسی کا کوئی اختیار ہے، اور نہ کسی طرح کا کوئی عمل دخل، اور جن کی بناء پر لوگوں نے طرح طرح کی گمراہیوں کو اپنایا۔ چنانچہ اسی بناء پر یہود و نصاریٰ نے اپنے آپ کو بلا شرکت غیرے جنت کا مستحق قرار دے دیا۔ اور انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصَاریٰ اور کہا کہ ہمیں تو دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں سوائے گنتی کے کچھ دنوں کے، لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلاَّ اَیَّا مَّامَّعْدُوْۃً۔ افسوس کہ یہود و نصاریٰ کی یہی بیماری اس امت مسلمہ کے اندر بھی گھس آئی ہے، جو کہ دین حق کی علمبردار اور شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ کے اہم ترین منصب پر فائز ہے۔ سو اس میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم چونکہ فلاں حسب و نسب کے مالک، فلاں کی اولاد، اور ان سے نسبت رکھنے والے ہیں، یا سید زادے اور صاحبزادے ہیں لہٰذا ہم جو چاہیں اور جیسا چاہیں کریں کوئی پرواہ نہیں۔ ہم ایمان اور عمل کی تمام ذمہ داریوں سے بری ہیں، کتنے خاندان ہیں جن کے اندر پیدا ہو جانا ہی نجات کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے، کتنے قبرستان ایسے ہیں جن کے بارے میں یہ قرار دے دیا گیا ان میں دفن ہو جانا ہی جنت کی ضمانت ہے۔ یہاں تک کہ ان کا نام ہی۔ بہشتی مقبرہ یا بہشتی قبرستان وغیرہ رکھ دیا گیا، یہاں تک کہ ایسے دروازے بھی مقرر کر لئے گئے جن کا نام ہی بہشتی دروازہ رکھ دیا گیا، وغیرہ وغیرہ، فالی اللہ المشتکی وہو المستعان، و علیہ التکلان وبہذا قدم تم التفسیر المختصر لسورۃ النجم بتوفیق اللہ تعالیٰ وعنایتہ، فلہ الحمد ولہ الشکر قبل کل شیئ واٰخر کل شیئ۔