تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الرَّحمٰن

(سورۃ الرحمن ۔ سورہ نمبر ۵۵ ۔ تعداد آیات ۷۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔      (خدائے) رحمان نے

۲۔۔۔     (اپنی رحمت بے پایاں سے) سکھایا (اپنے بندوں) کو قرآن

۳۔۔۔     اسی نے پیدا فرمایا انسان کو

۴۔۔۔     اسے بات کرنا سکھایا

۵۔۔۔     سورج اور چاند چل رہے ہیں (اس کی قدرت و عنایت سے) ایک نہایت باریک حساب کے ساتھ

۶۔۔۔     (اسی کے حضور) سجدہ ریز ہوتے ہیں ستارے بھی اور درخت بھی

۷۔۔۔     اسی نے اٹھایا آسمان (کی اس عظیم الشان چھت) کو

۸۔۔۔     اور رکھ دی ترازو تاکہ تم لوگ کمی بیشی نہ کرو (ناپنے) تولنے میں

۹۔۔۔     اور تم ٹھیک ٹھیک تولو انصاف کے ساتھ اور کمی نہ کرو (ناپ اور) تول میں

۱۰۔۔۔     اور اسی نے بچھا دیا زمین کو (اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے) سب مخلوق کے لئے

۱۱۔۔۔     اس میں طرح طرح کے لذیذ پھل بھی ہیں اور غلافوں والی کھجوریں بھی

۱۲۔۔۔     اور طرح طرح کے غلے بھی جو بھوسہ دار ہیں اور خوشبو دار پھول بھی

۱۳۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۱۴۔۔۔     اسی نے پیدا فرمایا انسان کو (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) ٹھیکری کی طرح بجتی مٹی سے

۱۵۔۔۔     اور اسی نے پیدا فرمایا جنوں کو آگ کی لپٹ سے

۱۶۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۱۷۔۔۔     وہی مالک ہے دونوں مشرقوں کا اور دونوں مغربوں کا

۱۸۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۱۹۔۔۔     اسی نے چلا دیا دو سمندروں کو جو (بظاہر) آپس میں ملے ہوئے ہیں

۲۰۔۔۔     (مگر ان دونوں کے درمیان ایک ایسا پردہ ہے کہ وہ دونوں (اپنی حدوں سے) بڑھ نہیں سکتے

۲۱۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۲۔۔۔     ان دونوں سے موتی بھی نکلتے ہیں اور موں گے بھی

۲۳۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۴۔۔۔     اور اسی کے ہیں پہاڑوں جیسے بلند یہ جہاز جو سمندروں میں رواں دواں ہیں

۲۵۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۶۔۔۔     جو بھی کچھ زمین پر ہے اس نے (بالآخر) فنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے

۲۷۔۔۔     اور تمہارے رب کی ذات ہی باقی رہ جائے گی جو کہ بڑی عظمت والا اور بڑا ہی احسان والا ہے

۲۸۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۲۹۔۔۔     اسی سے مانگتے ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ ہر آن ایک نئی شان میں ہے

۳۰۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۱۔۔۔     ہم عنقریب ہی تمہارے لئے فارغ ہوا چاہتے ہیں اے دو بوجھو!

۳۲۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۳۔۔۔     اے گروہِ جن و انس اگر تم نکل کر بھاگ سکتے ہو آسمانوں اور زمین کی حدود سے تو بھاگ دیکھو تم نہیں بھاگ سکتے مگر زور (اور سند) کے ساتھ

۳۴۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۵۔۔۔     تم پر خالص آگ کے شعلے اور نرے دھوئیں (کے بادل) اس طرح چھوڑے جائیں گے کہ تم ان سے کسی طرح بچ نہ سکو گے

۳۶۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۷۔۔۔     پھر (کیا حال ہو گا اس وقت) جب کہ آسمان پھٹ کر لال چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا؟

۳۸۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۳۹۔۔۔     اس دن نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی کسی جن سے

۴۰۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۱۔۔۔     مجرموں کو وہاں پر پہچان لیا جائے گا ان (کے چہروں) کی نشانیوں سے پھر ان کو (دوزخ میں پھینکنے کے لئے) پکڑا جائے گا ان کی پیشانیوں (کے بالوں) اور پاؤں سے

۴۲۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۳۔۔۔     (اس وقت ان کی تذلیل اور تجریح مزید کے لئے کہا جائے گا کہ) یہ ہے وہ جہنم جس کو جھٹلایا کرتے تھے مجرم لوگ

۴۴۔۔۔     (وہاں) وہ چکر لگاتے رہیں گے اسی جہنم اور انتہائی کھولتے ہوئے پانی کے درمیان

۴۵۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۶۔۔۔     اور جو کوئی ڈرتا رہے گا اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے (اور اس کے حضور پیشی) سے تو اس کے لئے دو جنتیں ہیں

۴۷۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۴۸۔۔۔     وہ دونوں جنتیں (طرح طرح کے میووں والی) ڈالیوں سے بھرپور ہوں گی

۴۹۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۰۔۔۔     ان دونوں باغوں میں دو چشمے رواں ہوں گے

۵۱۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۲۔۔۔     ان دونوں جنتوں میں ہر پھل کی دو دو قسمیں ہوں گی

۵۳۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۴۔۔۔     وہاں پر وہ (خوش نصیب) ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے عظیم الشان بچھونوں پر جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور ان دونوں جنتوں کے پھل جھکے جا رہے ہوں گے

۵۵۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۶۔۔۔     ان میں (ان کے لئے) نیچی نگاہوں والی ایسی (عظیم الشان) بیویاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا نہ کسی جن نے

۵۷۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۵۸۔۔۔     (صفائی اور خوش رنگی میں ان کا یہ عالم ہو گا کہ) گویا کہ وہ ہیرے اور موتی ہیں

۵۹۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۰۔۔۔     نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟

۶۱۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۲۔۔۔     ان دونوں کے علاوہ دو جنتیں اور ہوں گی

۶۳۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۴۔۔۔     وہ دونوں گہرے سبز ہوں گے

۶۵۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۶۔۔۔     ان دونوں میں دو ایسے چشمے ہوں گے جو جوش مار رہے ہوں گے

۶۷۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۶۸۔۔۔     ان دونوں میں طرح طرح کے اور پھل بھی ہوں گے اور کھجوریں اور انار بھی

۶۹۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۰۔۔۔     ان میں (اہل جنت کے لئے) خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں بھی ہوں گی

۷۱۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۲۔۔۔     ایسی عظیم الشان حوریں جو محفوظ ہوں گی خیموں کے اندر

۷۳۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۴۔۔۔     ان جنتیوں سے پہلے نہ تو کسی انسان نے ان کو چھوا ہو گا نہ کسی جن نے

۷۵۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۶۔۔۔     (جہاں وہ نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ) ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے عظیم الشان سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں پر

۷۷۔۔۔     پس تم دونوں (اے گروہ جن و انس !) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟

۷۸۔۔۔     بڑا ہی برکت والا ہے نام تمہارے رب کا جو بڑی عظمت والا اور احسان والا ہے

تفسیر

 

  1. ۱۱۔۔  سو سقف سماوی یعنی آسمان کی بے مثال چھت اور اس کے اندر پائی جانے والی عظیم الشان نعمتوں کے ذکر کے بعد اس سے زمین کے عظیم الشان بچھونے اور اس کے اندر پائی جانے والی عظیم الشان نعمتوں کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے زمین کے اس عظیم الشان بچھونے کو اس قدر پُر حکمت طریقے سے اپنی مخلوق کے لئے بچھا دیا۔ جس میں طرح طرح کی اور عظیم الشان و بے مثال نعمتوں اور ضروریات زندگی کو نہایت ہی کثرت و بہتات کے ساتھ اور پُر حکمت طریقے سے پھیلا دیا۔ جس سے گو نا گوں مخلوق طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتی ہے اور ہمیشہ و ہر وقت مستفید و فیضیاب ہوتی ہے۔ جن میں طرح طرح کے عمدہ اور لذیذ پھلوں کی نعمت بھی ہے، اور غلافوں میں لپٹی ہوئی قسما قسم کی کھجوریں بھی۔ جن سے لوگ طرح طرح سے فائدے اٹھاتے ہیں، اور دن رات اٹھاتے ہیں۔
  2. ۱۲۔۔    جن سے انسان کی طرح طرح کی ضروریات زندگی کی تحصیل و تکمیل کا سامان ہوتا ہے۔ سو اس قادرِ مطلق رب رحمان و رحیم نے اس بچھونہ ارضی پر طرح طرح کے غلوں، قسما قسم کے پھلوں اور پھولوں، کے اس قدر انبار لگا دیئے کہ ان کا شمار کرنا اور حساب لگانا بھی کسی کے بس میں نہیں۔ اور وہ بھی اس پُر حکمت طریقے سے کہ اگلے خزانے انسان اپنے لگاتار استعمال سے ختم کرتا جاتا ہے، اور حضرت قادرِ مطلق رب رحمان و رحیم کی رحمت و عنایت اور اس کی قدرت و حکمت سے ان کی جگہ نئے نئے خزانے برابر وجود میں آتے جاتے ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہ، وَہُوَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ (سبا۔۳٩) یعنی جو بھی کچھ تم لوگ خرچ کرتے ہو وہ قادر مطلق اس کی جگہ برابر اور پیدا کرتا جاتا ہے، اور وہی ہے سب سے بہتر روزی دینے والا۔ اور پھر اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اس نے قسما قسم کے غلوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے عمدہ اور خوبصورت و خوشنما پھول بھی پیدا فرمائے۔ جن کے رنگ اور ان کی شکلیں اور خوشبوئیں بھی مختلف ہیں۔ تاکہ غلوں اور پھلوں کی ضرورتوں اور ان کے فائدوں سے شادکامی کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے لئے باصرہ نوازی اور معطر مشامی کا بھی سامان و انتظام ہوتا جائے۔ سو اس واہب مطلق جَلَّ جلالُہٗ نے اپنے بندوں کے لئے صرف اس کے پیٹ بھرنے ہی کا سامان نہیں کیا۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کے ذوق جمال کی تسکین، لذت کام و دہن سے سرفرازی، اور ان کے شوق تزئین و آرائش کے سامان کی فراہمی کا بھی انتظام فرمایا۔ جو کہ صرف اس کی ربوبیت ہی کی دلیل نہیں بلکہ اس کے اہتمام ربوبیت کا بھی ثبوت ہے، اور پھر حب کے ساتھ ذُوالعصف اور نخل کے ساتھ ذات الاکمام کی صفات کے ذکر سے ضرورت کے اس خاص اہتمام کو بھی واضح فرما دیا گیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے سامان رزق و روزی کی فراہمی کے لئے فرمایا، سو اس نے بندوں کے غلے اور ان کی روزی کے لئے یوں نہیں کیا کہ قسما قسم کے یہ غلے اور پھل یونہی بغیر کسی اہتمام کے دے دیئے ہوں۔ گویا کہ ان چیزوں کو یونہی ان کے لئے پھینک مارا ہے، بلکہ اس کے لئے اس نے خاص اہتمام فرمایا، اور ایسا کہ طرح طرح کے ان غلوں اور قسما قسم کے ان پھلوں کے ایک ایک دانے کی اس خاص اہتمام کے ساتھ پیکنگ فرمائی گئی کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے، سو اس رب ذوالجلال والاکرام کی ان گوناگوں عظیم الشان اور بے مثال و لاتعداد نعمتوں کو دیکھنے اور ان سے ہر وقت اور طرح طرح سے مستفید وفیضیاب ہونے کے باوجود اس سے غفلت و لاپرواہی اور اعراض و روگردانی برتنا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر کھلی ناشکری اور بے انصافی ہے؟ والعیاذُ باللہ اسی لئے اس کے بعد جنوں اور انسانوں کے دونوں گروہوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم دونوں اے گروہ جن و انس اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ اور اسی لئے صحیح احادیث میں اس ارشاد ربانی کے جواب میں اس طرح کہنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے لَا بِشَیْءٍ مِنْ نِعْمَائِکَ رَبَّنَا تُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرَ یعنی اے ہمارے رب ہم تیری کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ پس تیری ہی تعریف اور تیرا ہی شکر ہے۔تَبَارَکْتَ و تعالیْتَ
  3. ۳۰۔۔    سو اس ارشاد عالی سے اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جس طرح اس ساری کائنات کا خالق و مالک اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے اسی طرح اس میں حاکم و متصرف بھی وہی ہے، یہ نہیں کہ اس کو بنانے کے بعد وہ اس سے کنارہ کش ہو گیا ہو، اور اس کا انتظام لوگوں کے خود ساختہ معبودوں اور ان کی دیویوں اور دیوتاؤں کے حوالے کر دیا ہو۔ بلکہ وہ ہر لمحہ اس کے اندر کوئی نہ کوئی تصرف کرتا رہتا ہے۔ اور یہ ایک ظاہر و باہر امر ہے کہ کائنات کے اندر ہر ہر لمحہ طرح طرح کے جو انقلابات آتے رہتے ہیں تو یہ سب کچھ اسی کے حکم و ارشاد اور مشیت و مرضی کے مطابق ہوتا ہے، کہ اس کی کائنات کے اندر اس کے سوا اور کسی کا حکم اور مشیت نہیں چل سکتی۔ اور یوم کے لفظ سے یہاں پر مطلق وقت مراد ہے نہ کہ اس لفظ کے معروف معنی، جیسا کہ ہم نے اپنے ترجمے کے اندر بھی اسی کا لحاظ کیا ہے، اور مطلق وقت کو یوم کے لفظ سے تعبیر کرنے میں دراصل یہود پر رد ہے۔ جیسا کہ علامہ بیضاوی وغیرہ بعض مفسرین کرام نے فرمایا ہے اور یہ اس لئے کہ یہود کا کہنا تھا کہ اس نے چھ دنوں کے اندر آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کو پیدا کیا اور پھر ساتویں دن آرام کیا۔ سو یوم کے اس لفظ سے ان لوگوں کی تردید فرما دی گئی کہ وہ تھکاوٹ اور آرام کرنے کے ان تصورات سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، کہ اس کی شان ہر اٰن نئی شان کی منفرد اور بے مثال شان ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس اس سے ایک تو یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کو ہمیشہ رجوع اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف کرنا چاہیئے، کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے جس کو جو کچھ ملا ہے، اسی کی طرف سے ملا ہے اور جو کچھ ملے گا، اسی کی طرف سے ملے گا اور دوسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کو ہمیشہ اسی کے ذکر و شکر سے رطب اللسان اور سرفراز و سرشار رہنا چاہیئے، کہ اس کی نعمتوں اور طرح طرح کی اور گو نا گوں نعمتوں سے وہ ہمیشہ اور طرح طرح سے سرفراز و سرشار رہتا ہے، اور اتنا اور اس قدر کہ ان کو گننا اور شمار کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا الایٰۃ، اور انسان کو اپنی زندگی میں اور اپنی زندگی کے لئے طرح طرح کی جن اہم اور بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور جن کا تقاضا وہ اپنی زبان قال کے بجائے زبان حال سے کرتا ہے، ان سب سے اس واہب مطلق نے اس کو خود ہی نواز دیا ہے، اور بدرجہ تمام و کمال نوازا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاٰتَاکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوْہُ الایۃ پس اس کا حق ہے کہ بندہ ہمیشہ اس کے ذکر و شکر سے سرشار رہے، کہ اس میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید بکل حالٍ من الاحول، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ، وہو العزیز الوہاب،
  4. ۴۶۔۔    سو اس آیت کریمہ سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جنت سے سرفرازی کی اصل اور اساس خوف خداوندی ہے، کیونکہ خوف خداوندی ہی وہ جو ہر اساسی ہے جو انسان کو راہ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رکھتا ہے یہ چیز اگر خدانخواستہ اس کے دل سے نکل جائے تو پھر کوئی بھی چیز اس کو بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے نہیں روک سکتی۔ اسی لئے یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہے گا اس کے لئے دو جنتیں ہیں، حضرات مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک جنت خود اس کے لئے اور دوسری اس کے خدام اور متعلقین کے لئے ہو گی (البحر۔ القرطبی اور الصفوۃ وغیرہ) سو جس انسان کے اندر یہ عقیدہ موجود ہو کہ اس نے قیامت کے یوم حساب میں اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا صلہ و بدلہ پانا ہے، اس کی زندگی ایک ذمہ دار خوف خدا رکھنے والی پاکیزہ زندگی ہو گی، اسی لئے قرآن حکیم میں اس کے لئے جا بجا اور طرح طرح سے تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، مثلاً سورہ مطففین میں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں کو اس بات کا گمان نہیں کہ ان کو اٹھایا جائے گا ایک بڑے ہی ہولناک دن کے حساب کتاب کیلئے، جس دن کہ سب لوگ کھڑے ہوں گے رب العالمین کے سامنے؟ (المطففین۔۴۔ ۵۔۶) یعنی ان کو اس یوم عظیم کے قیام کا پاس و احساس ہمیشہ رکھنا چاہیے تاکہ یہ اس کے لئے تیاری کر سکیں، کہ اس کے لئے تیاری کی فرصت، اور اس کا موقع، وقت یہی دنیاوی زندگی ہے اور بس، اللہ توفیق بخشے، اور حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ ہر حال میں، اور ہر لحاظ سے اپنی رضا و خوشنودی کے حصول اور اس سے سرفرازی کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین، یا ربَّ العالمین،
  5. ۵۶۔۔  یعنی جنت کی ان عظیم الشان نعمتوں کے اندر جنت کے ان خوش نصیب باسیوں کو ایسی عظیم الشان اور بے مثال بیویاں بھی ملیں گی جو نہایت شرمیلی اور با حیا ہوں گی، اور شرم و حیا ہی عورت کا وہ اصل اور حقیقی سرمایہ ہے جو آگے کئی عظیم الشان مکارم و محامد، اور عمدہ خصال کا منبع و مصدر اور ذریعہ و وسیلہ بنتا ہے، اور وہ ایسی ہوں گی کہ ان اہل جنت سے پہلے ان کو نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا، اور نہ کسی جن نے، اور عورت کا حیا اور اس کا شرمیلا پن ہی اس کا سب سے بڑا حسن بھی ہے، اور اس کے اخلاق کا سب سے بڑا محافظ بھی، یہ چیز اگر اس کے اندر نہ پائی جائے تو وہ ہر جائی ہے، اور ہرجائی کسی کی وفادار نہیں ہو سکتی، اور جب وہ وفادار نہیں ہو گی تو عورت کی حیثیت سے اس کا وجود بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے، کیونکہ ایسی صورت میں وہ اس قابل نہیں رہتی کہ کسی خاندان کی تعمیر میں بنیاد کی اینٹ کا کام دے سکے، جبکہ عورت کے وجود کا اصل مقصد، اور اس کی حقیقی حیثیت یہی ہے، اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ، نے انسان کی فطرت کو اپنے کمال قدرت و حکمت سے اس طرح بنایا ہے کہ وہ اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے اس وقت تک پوری طرح مستفید نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی شریک حیات اس کے ساتھ نہ ہو، جو اس کی شریک راحت و رنج ہوتی ہے، اس لئے اہل جنت کی نعمتوں کے ذکر و بیان کے ضمن میں اس نعمت کو بھی بطور خاص ذکر و بیان فرمایا گیا ہے۔ اسی لئے جن خوش نصیبوں کو حیا دار و وفا شعار شریک حیات ملتی ہے انکی دنیاوی زندگی بھی جنت کا نمونہ بن جاتی ہے، و الحمدللہ جل وعلا،
  6. ۶۴۔۔  یعنی وہ دونوں باغ نہایت ہی سرسبز و شاداب ہوں گے۔ اور ایسے اور اس حد تک کہ ان کی وہ سرسبزی مائل بہ سیاہی ہو گی، اور کسی بھی سرسبز و شاداب باغ کا سب سے خوبصورت رنگ یہی ہوتا ہے سو وہ دونوں باغ اپنی سرسبزی و شادابی میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں گے۔ اللہ نصیب فرمائے آمین۔ اوپر جن دو باغوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ان میں اور ان کے بعد اب اس ارشاد سے جن باغوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے ان کی خصوصیات کے اعتبار سے ان دونوں قسموں کے باغوں کے اندر فی الجملہ اشتراک بھی پایا جاتا ہے، اور بعض اعتبار سے ان دونوں کے اندر اختلاف بھی پایا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں قسم کے باغوں کے حقدار ایک ہی قسم کے لوگ ہوں گے، یا الگ الگ قسم کے؟ تو اس بارے حضرات اہل علم کے اقوال مختلف ہیں، لیکن آگے آنے والی سورہ واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اہل ایمان دو گروہوں پر منقسم ہوں گے، اصحاب المیمنہ، اور سابقون، اور ان دونوں کے لئے الگ الگ جنتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، جن کے اوصاف و خصوصیات میں فی الجملہ اشتراک بھی ہے، اور بعض پہلوؤں سے اختلاف بھی، سو اس بناء پر یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ یہاں پر اوپر جن دو جنتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ سابقین اولین یا بالفاظ دیگر مقربین کے لئے ہیں اور وَمِنْ دُوْنِہِمَا سے جن دو جنتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ اصحاب المیمنہ کے لئے ہوں گی، سو جس طرح ان دونوں گروہوں کے مرتبے میں فرق ہے اسی طرح ان دونوں کی جنتوں میں بھی فرق ہو گا، والعلم عند اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔
  7. ۷۴۔۔  سو اہل جنت کو ملنے والی وہ خواتین اپنے ظاہر کے اعتبار سے بھی بے مثال ہوں گی اور اپنے باطن کے لحاظ سے بھی اور پھر وہ ہوں گی بھی خاص خیموں کے اندر جو کہ علامت ہو گی ان کی خاص عزت و کرامت کی اور یہ اس لئے کہ جیسا کہ مفسر ابوحیان نے کہا عورت کی اصل عزت و عظمت اسی میں ہے کہ وہ گھر کے اندر اور اس کی چار دیواری ہی کے اندر رہیں (البحر المحیط) اور جنت کے خیمے بھی دراصل موتیوں کے گھر ہوں گے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جنت میں ایک موتی کا ایک ایسا گھر ہو گا جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہو گی۔ اس کے ہر کونے میں ایسے لوگ ہوں گے جو دوسرے کونوں کے لوگوں کو نہیں دیکھ سکیں گے اہل ایمان وہاں آتے جاتے ہوں گے (اخرجہ البخاری)
  1.  سو جب تمہارے رب کا نام بڑا ہی برکت والا ہے تو لازم ہے کہ اس کی یہ تمام برکتیں ظاہر ہوں اس لئے ضروری ہے کہ آخرت کا وہ جہاں قائم ہو جس میں نعمتوں بھری جنت بھی ہو گی جس کی عظیم الشان اور بے مثال نعمتوں سے وہ اپنے ایماندار اور اطاعت گزار بندوں کو نوازے گا۔ اور اسی جہان غیب میں دوزخ اور اس کے وہ طرح طرح کے عذاب بھی ہوں گے جو سرکشوں اور باغیوں کو بھگتنا ہوں گے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور علیٰ وجہ الکمال پورے ہوں سو بڑے ہی نادان اور بہکے اور بھٹکے ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو پیدا کر کے اس کے خیر و شر سے لاتعلق ہو گیا۔ والعیاذ باللہ، سو ایسا نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ وبہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الرحمن و الحمدللہ جل وعلا