اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ بلا شبہ ہم ہی نے بھیجا نوح کو (پیغمبر بنا کر) ان کی قوم کی طرف کہ خبردار کرو اپنی قوم کو قبل اس سے کہ آ پہنچے ان کو (ان کے کفر و انکار پر) ایک بڑا ہی (ہولناک اور) دردناک عذاب
۲۔۔۔ چنانچہ انہوں نے (پوری صراحت و وضاحت سے اور درد بھرے انداز میں ان سے ) کہا اے میری قوم کے لوگوں بلاشبہ میں تمہارے لئے خبردار کرنے والا ہوں کھول کر (حق اور حقیقت کو)
۳۔۔۔ (میرا پیغام یہ ہے ) کہ تم لوگ بندگی کرو (ایک) اللہ کی اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو
۴۔۔۔ جس پر درگزر فرما لے گا وہ (غفور رحیم) تمہارے گناہوں میں سے اور مہلت عطا فرما دے گا تم کو ایک مقرر وقت تک بلاشبہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ پہنچتا ہے تو پھر اسے ٹالا نہیں جا سکتا کاش کہ تم لوگ جان لیتے
۵۔۔۔ (آخر کار) نوح نے (نہایت درد بھرے انداز میں اپنے رب کے حضور) عرض کیا کہ اے میرے رب بے شک میں نے بلایا اپنی قوم کو (حق و ہدایت کی طرف) دن کو بھی اور رات کو بھی
۶۔۔۔ مگر میری اس دعوت (و پکار) سے وہ اور بھی (بدکتے اور) بھاگتے گئے (راہ حق و صواب سے )
۷۔۔۔ اور میں نے جب بھی ان کو بلایا کہ تو بخشش فرما دے ان کی (اے میرے مالک!) تو انہوں نے ٹھونس دیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹ لئے (اپنے اوپر) اپنے کپڑے اور وہ اڑ گئے (اپنے کفر و باطل پر) اور بپھر گئے اپنی (جھوٹی) بڑائی کے گھمنڈ میں بہت بری طرح سے
۸۔۔۔ پھر بھی میں ان کو (حق کی) دعوت دی ہانکے پکارے
۹۔۔۔ پھر میں نے ان کو اعلانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی ان کو سمجھایا
۱۰۔۔۔ سو میں نے (ان سے ) کہا کہ تم لوگ بخشش مانگو اپنے رب سے (اپنے گناہوں کی وہ بخش دے گا کہ) بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے
۱۱۔۔۔ وہ (اپنی رحمت و عنایت سے ) تم پر دھانے کھول دے گا باران رحمت کے
۱۲۔۔۔ وہ تم کو نوازے گا طرح طرح کے مالوں (کی ترقی و) مدد سے اور (ہونہار) بیٹوں سے وہ تمہارے لئے باغات بھی پیدا فرما دے گا اور نہریں بھی جاری کر دے گا
۱۳۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا (اے میری قوم کے لوگو!) کہ تم لوگ اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ) کے لئے توقع نہیں رکھتے کسی (عظمت و) وقار کی
۱۴۔۔۔ حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا طرح طرح سے (اور مختلف مراحل سے گزار کر)
۱۵۔۔۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے کس طرح بنایا سات آسمانوں کو تہ بہ تہ
۱۶۔۔۔ اور ان میں اس نے رکھ دیا چاند کو ایک عظیم الشان نور کی شکل میں اور سورج کو ایک عظیم الشان چراغ بنا کر
۱۷۔۔۔ اور اللہ ہی نے اگایا تم سب کو زمین سے ایک عظیم الشان (اور حکمتوں بھرے ) طریقے سے
۱۸۔۔۔ پھر وہی تم کو واپس لے جائے گا اس میں اور وہی تم کو اس سے باہر نکال لائے گا (قیامت کے روز) ایک ہی حکم سے
۱۹۔۔۔ اور اللہ ہی نے بنا دیا تمہارے لئے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) اس زمین کو ایک عظیم الشان بچھونا
۲۰۔۔۔ تاکہ تم لوگ چلو اس کے اندر کھلے (کشادہ) راستوں میں
۲۱۔۔۔ نوح نے عرض کیا اے میرے رب ان لوگوں نے رد کر دیا ہے میری بات کو اور یہ پیچھے چل پڑے ان لوگوں کے جن کو ان کے مال و اولاد (وغیرہ نعمتوں ) نے خسارے (اور نقصان) میں اضافے کے سوا کچھ نہیں دیا
۲۲۔۔۔ انہوں نے بڑی بھاری چا لیں چلیں
۲۳۔۔۔ اور انہوں نے (اپنے پیرؤوں سے ) کہا کہ تم لوگ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ ہی تم ود، سواع اور یغوث، یعوق اور نسر کو کسی قیمت پر چھوڑنا
۲۴۔۔۔ انہوں نے بہتوں کو گمراہ کر دیا ہے پس اب تو بھی (اے میرے مالک!) ان ظالموں کو گمراہی کے سوا اور کسی چیز میں ترقی نہ دے
۲۵۔۔۔ (سو انجام کار) غرق کر دیا گیا ان لوگوں کو ان کی اپنی انہی خطاؤں کی بناء پر پھر (غرقابی کے بعد) جھونک دیا گیا ان کو ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں پھر نہ مل سکا ان کو اپنے لئے اللہ (کی پکڑ اور اس کے عذاب) سے بچانے والا کوئی (یارو) مددگار
۲۶۔۔۔ اور نوح نے مزید عرض کیا کہ اے میرے رب اب اس زمین پر ان کافروں میں سے کوئی ایک باشندہ بھی باقی نہ چھوڑنا
۲۷۔۔۔ (کیونکہ) اگر تو نے ان کو (زندہ) چھوڑ دیا (اے میرے مالک!) تو یہ گمراہ کریں گے تیرے بندوں کو (راہ حق و صواب سے ) اور ان کی نسل سے بھی اب بدکار اور سخت کافر کے سوا کوئی جنم نہ لے گا
۲۸۔۔۔ اے میرے رب بخشش فرما دے تو میری بھی میرے ماں باپ کی بھی اور ہر اس شخص کی بھی جو داخل ہو میرے گھر میں ایمان کی حالت میں اور سب ہی ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو اور ظالموں کے لئے تباہی (اور بربادی) کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں فرمانا
۷۔۔۔ سو اس سے منکرین و مکذبین کے اعراض اور انکی ہٹ دھرمی کی تصویر پیش فرما دی گئی چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ نوح نے کہا اے میرے رب میں نے ان کو تیرے حضور توبہ و استغفار کی دعوت دی تاکہ اس طرح یہ تیری مغفرت کے مستحق قرار پا سکیں مگر انہوں نے میری دعوت کو سننے اور اپنانے کے بجائے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس دیں، تاکہ میری آواز ان کے کانوں کے اندر پہنچنے ہی نہ پائے۔ اور مزید یہ کہ انہوں نے اپنی چادریں اور اپنے کپڑے اپنے اوپر لپیٹ لیں، تاکہ یہ میری شکل بھی دیکھنے نہ پائیں تو پھر ایسوں کو نور حق و ہدایت کی دولت آخر کیسے اور کیونکر نصیب ہو سکتی ہے؟جبکہ اس سے سرفرازی کے لئے اولین شرط طلب صادق ہے سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ محرومیوں کی محرومی ہے والعیاذُ باللہ
۱۰۔۔۔ سو حضرت نوح کے اس ارشاد سے ایک طرف تو ان کی اس ہمدردی اور دلسوزی کا پتہ چلتا ہے جو کہ آنجناب کو اپنی اس کافر و ناہنجار قوم سے تھی، دوسری طرف اس سے آنجناب نے مشرکوں کے شرکیہ فلسفے کی جڑ نکال دی، سو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش کی دعاء کرو۔ وہ تمہارے گناہوں کی بخشش فرما دے گا، کیونکہ تمہارے گناہ اگرچہ بہت بڑے ہیں مگر اس کے باوجود تم لوگ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوؤ۔ کیونکہ وہ غفار یعنی بہت ہی بڑی مغفرت والا ہے کہ اس کی ہر صفت کی طرح اس کی مغفرت و بخشش بھی نا پیدا کنار ہے۔ دوسری بات اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ تم لوگ سیدھے اور براہ راست اس سے مغفرت و بخشش کی دعا کرو، اس کے لئے تمہارے خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں اور دیویوں اور دیوتاؤں میں سے کسی کے واسطے وسیلے کی ضرورت نہیں، صدق دل سے مغفرت و بخشش مانگنے والوں اور اس کی طرف رجوع کرنے والوں کو وہ بغیر کسی سفارش اور واسطے کے یونہی اپنی رحمت کے دامن میں لے لیتا ہے سو اس سے آنجناب نے مشرکوں کے اس شرکیہ فلسفے کی جڑ نکال دی جو ایسے لوگوں کے اندر ہمیشہ موجود رہا پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے وہ یہ کہ مشرک لوگوں کا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ خدائے پاک کی سرکار چونکہ بہت بلند ہے اس لئے اس کے حضور رسائی و اسطوں اور وسیلوں کے بغیر ممکن نہیں اسی لئے ایسے لوگوں نے از خود اور اپنے طور پر طرح طرح کے من گھڑت وسیلے اور واسطے گھڑے۔ اور خود یہ مفروضہ اپنایا کہ ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے، وہ ہماری سنتا نہیں، اور ان کی رد نہیں کرتا۔ چنانچہ مشرکین مکہ کے اس خود ساختہ اور من گھڑت شرکیہ فلسفے کو قرآن حکیم میں اس طرح ذکر فرما گیا ہے مَا نعَبُدُہُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ (الزمر۔۳) یعنی ہم اپنے ان معبودوں کی پوجا صرف اس لئے کرتے ہیں کہ تاکہ یہ ہمیں خدا کے قریب کر دیں، اور بعینہٖ یہی شرکیہ فلسفہ آج بہت سے کلمہ گو مشرکوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے وہ بھی اسی طرح کی منطق بگھارتے ہیں اور اپنے اس شرکیہ فلسفے کی تائید کے لئے وہ طرح طرح کی من گھڑت مثالیں دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب تم کسی ڈی سی، ایسے پی جیسے آفیسر سے بھی بلاواسطہ خود نہیں مل سکتے تو خدا تک خود کس طرح پہنچ سکتے ہو؟ یا مثلاً یہ کہ تم جب مکان کی چھت پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھ سکتے، تو خدا تک کس طرح پہنچ سکتے ہو وغیرہ، اور ان مت ماروں کو خیال تک نہیں آتا کہ ہم حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کے بارے میں اس طرح کیسی کیسی گستاخیوں اور بے ادبیوں کا ارتکاب کرتے اور اس خالق کل اور مالک مطلق کو جو کہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اور جو جسم و جسمانیت اور زمان و مکان کی حدود و تصور سے وراء الوراء ہے اس کو یہ لوگ کس پر قیاس کرتے۔ اور کس کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں؟ والعیاذ باللہ العظیم قرآن حکیم میں اس مشرکانہ فلسفے کی جگہ جگہ اور طرح طرح سے تردید فرمائی گئی ہے۔ یہاں پر اِنَّہ، کَانَ غَفَّارًا سے بھی اس پر کاری ضرب لگائی ہے کہ جب وہ خود ہی بخشنے والا اور بڑا ہی بخشنے والا ہے تو پھر اس سے بڑھ کر غفار اور کون ہو سکتا ہے جس کو اس کے پاس سفارشی بنا کر لے جایا جائے؟ والعیاذ باللہ جل و علا۔
۲۳۔۔۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق یہ پانچوں بت قوم نوح کے پانچ بزرگوں کے نام پر اور ان کی یاد میں بنائے گئے تھے، روایات کے مطابق جب یہ پانچ بزرگ فوت ہو گئے، اور ان کے عقیدت مندوں کو اس سے بہت صدمہ لاحق ہوا، جو کہ ایک طبعی چیز تھی، تو شیطان ان کے پاس انسانی شکل میں آیا، اور آ کر ان سے کہا کہ کیا میں آپ لوگوں کے لئے ان پانچوں بزرگوں کی یادگار کے طور پر پانچ مورتیاں نہ بنا دوں جن کو سامنے رکھ کر اور ان کے پاس بیٹھ کر تم ان بزرگوں کی یاد تازہ کیا کرو؟ اور یہ سمجھ کر اپنے غم کو دور کر دیا کرو کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ان بزرگوں کے پاس ان کی زندگیوں میں بیٹھا کرتے تھے تو اس پر وہ لوگ اس کے دھوکے میں آ گئے، اور انہوں نے اس سے کہا کہ ہاں آپ ہمارے لئے ایسی مورتیاں بنا دیں، تو اس نے پانچ مورتیاں بنا کر ان پانچوں جگہوں پر رکھوا دیں، جہاں وہ بزرگ اپنی زندگیوں میں بیٹھا کرتے تھے، پس یہ لوگ اپنی عقیدت کی بناء پر ان کے پاس بیٹھتے، یہاں تک کہ جب اگلی نسلوں کا دور آیا تو ابلیس نے ان کو یہ پٹی پڑھائی کہ تمہارے بڑے تو انہی مورتیوں کی پوجا کیا کرتے تھے کہ یہی تمہارے معبود ہیں تو اس پر ان لوگوں نے انہی مورتیوں کی پوجا شروع کر دی، اور وہ اس پر اس قدر پکے ہو گئے، اور جم گئے کہ حضرت نوح کی صدیوں کی تعلیم و تبلیغ کے باوجود وہ اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے، یہاں تک کہ وہ آخرکار جہنم کا ایندھن بن گئے، والعیاذ باللہ العظیم
۲۸۔۔۔ سو اس سے اس سورہ کریمہ کے خاتمہ پر حضرت نوح کی اس دعاء کا ذکر فرمایا گیا جو آنجناب نے اپنے رب غفار سے اس کی مغفرت اور بخشش کی دعاء و درخواست کے طور پر فرمائی تھی، جس میں سب سے پہلے آپ نے اپنے لئے مغفرت کی دعاء کی، پھر اپنے والدین کی بخشش کیلئے، جس سے والدین کے حق کی عظمت شان بھی واضح ہو جاتی ہے، آنجناب کے والدین کے ایمان کے بارے میں حضرات اہل علم میں سے بعض نے کہا کہ وہ ایمان لا چکے تھے اس لئے ان کے حق میں دعاء کرنا درست تھا لیکن اس کی تائید میں قرآن کریم میں کوئی اشارہ موجود نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی وفات حضرت نوح کی دعوت یا اتمام حجت سے پہلے ہو چکی ہو، سو ان دونوں ہی صورتوں میں حضرت نوح کا ان کے لئے دعا کرنا درست اور ان کے حق کا تقاضا تھا اس کے بعد آنجناب نے ان سب لوگوں کے لئے مغفرت کی دعاء فرمائی جو ایمان کی حالت میں ان کے گھر میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اور پھر آپ نے سب ہی ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے دعا فرمائی، کہ یہی تقاضا ہے ایمان و یقین کے مقدس رشتے و تعلق کا، اور ظالموں کے لئے ہلاکت و تباہی کی دعاء فرمائی۔ والعیاذ باللہ العظیم وبہٰذا القدر نکتفی من ہذا التفسیر المختصر لسورۃ نوح والحمد للہ جل و علا،