تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المُزمّل

(سورۃ المزمل ۔ سورہ نمبر ۷۳ ۔ تعداد آیات ۲۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اے کپڑوں میں لپٹنے والے

۲۔۔۔     قیام کرو رات کو مگر (اس کا) تھوڑا سا حصہ

۳۔۔۔     آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرو

۴۔۔۔     یا اس پر کچھ بڑھا دو اور قرآن کو (بہرحال) خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو

۵۔۔۔     یقیناً ہم آپ پر ایک بڑی بھاری بات (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں

۶۔۔۔     بلا شبہ رات کا اٹھنا (نفس پر قابو پانے کے لئے ) بڑا ہی کارگر اور بات کی درستی کے لئے انتہائی موزوں ہے

۷۔۔۔     بلا شبہ دن (کے اوقات) میں آپ کے لئے بہت کام ہوتا ہے

۸۔۔۔     اور یاد کرتے رہو نام اپنے رب کا اور اسی کے ہو کر رہو سب سے کٹ کر (اور منہ موڑ کر)

۹۔۔۔      وہی مالک ہے مشرق و مغرب کا کوئی معبود نہیں سوائے اس (وحدہٗ لاشریک) کے پس تم اسی کو بنائے رکھو اپنا وکیل (اور کار ساز)

۱۰۔۔۔     اور صبر (و ضبط) ہی سے کام لیتے رہو ان (بدبختوں ) کی ان باتوں پر جو یہ (حق اور اہل حق کے خلاف) بناتے ہیں اور چھوڑ دو ان کو اچھی طرح کا چھوڑنا

۱۱۔۔۔     اور چھوڑ دو مجھے اور جھٹلانے والے ان ناز پروردہ (عیش پرست) لوگوں کو اور مہلت دے دو ان کو تھوڑی سی

۱۲۔۔۔     اور بلاشبہ ہمارے پاس (ایسے بدبختوں کے لئے ) بڑی بھاری بیڑیاں بھی ہیں اور بھڑکتی آگ بھی

۱۳۔۔۔     اور گلے میں اٹکتا کھانا اور ایک بڑا دردناک عذاب بھی

۱۴۔۔۔     جس روز کہ لرز اٹھے گی یہ زمین اور (کانپ اٹھیں گے یہ دیو ہیکل) پہاڑ اور (بالآخر) ہو جائیں گے یہ پہاڑ ڈھیر ریگِ رواں کے

۱۵۔۔۔     بلا شبہ ہم نے بھیج دیا تمہاری طرف (اے لوگو!) ایک عظیم الشان رسول گواہ بنا کر تم پر جس طرح کہ (اس سے پہلے ) ہم فرعون کی طرف بھی بھیج چکے ہیں ایک عظیم الشان رسول

۱۶۔۔۔     پھر فرعون نے (بھی جب) بات نہ مانی اس رسول کی تو ہم نے اس کو پکڑا ایک سخت (بھاری اور ہولناک) پکڑ میں

۱۷۔۔۔     پھر (دنیا میں اگر تم بچ بھی گئے تو) کیسے بچو گے تم اس دن (کی پکڑ سے ) جو کہ (اپنی ہولناکی کے باعث) بچوں کو بوڑھا کر دے گا؟

۱۸۔۔۔     آسمان اس روز (کی ہولناکی) کی وجہ سے پھٹ پڑے گا اللہ کے وعدے نے بہر حال پورا ہو کر ہی رہنا ہے

۱۹۔۔۔     بلاشبہ یہ (آیتیں ) ایک عظیم الشان نصیحت ہے اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کاراستہ اختیار کر لے

۲۰۔۔۔     بلاشبہ آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ قیام کرتے ہیں کبھی دو تہائی کے قریب کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی اور آپ کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ بھی اور اللہ ہی (ٹھیک ٹھیک) اندازہ رکھتا ہے رات اور دن کا اسے معلوم ہے کہ تم اس کو ٹھیک شمار نہیں کر سکتے اس لئے اس نے تم پر مہربانی فرما دی پس اب تم جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو اللہ کو معلوم ہے کہ یقیناً تم میں سے کچھ لوگ بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے سفر کرتے ہوں گے اللہ کے فضل کی تلاش میں اور کچھ دوسرے لڑتے ہوں گے اللہ کی راہ میں پس تم جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو اور قائم رکھو نماز کو (ہر حال میں ) اور دیتے رہو زکوٰۃ (اپنے مال کی) اور قرض دیا کرو اللہ (غنی و بے نیاز) کو اچھا قرض اور (ہمیشہ پیش نظر رکھو اس حقیقت کو کہ) جو بھی کوئی نیکی تم آگے بھیجو گے اپنی ہی جانوں کے (بھلے کے ) لئے تو اسے تم (یقیناً) اللہ تعالیٰ کے یہاں پاؤ گے اس حال میں کہ وہ (بذات خود ) کہیں بہتر بھی ہو گی اور اجر (و ثواب) کے لحاظ سے کہیں بڑھ کر بھی اور اللہ سے تم لوگ (بہرحال) بخشش مانگتے رہا کرو بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے

تفسیر

 

۱۔۔۔   مزمل اصل میں مزنمل تھا تعلیل سے مزمل ہو گیا۔ اس کے معنی عربی زبان میں المتلفف بثیابہ کے الفاظ سے کئے گئے ہیں (صفوہ وغیرہ) جیسا کہ ہم نے اپنے ترجمے کے اندر بھی اس کا اظہار کیا ہے۔ و الحمد للہ، اور کپڑوں میں لپٹنے یا اپنی چادر کو اپنے اوپر لپیٹ لینے کی اس کیفیت میں فکر مندی اور غمگساری کا پہلو پایا جاتا ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہاں پر اسی خاص صفت کے ساتھ مخاطب فرمایا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک طرف تو آپ کی اپنی قوم کا وہ ہولناک انجام تھا جس کی طرف وہ لوگ اپنے کفر و شرک کی بناء پر پوری غفلت و لا پرواہی کے ساتھ بڑھے چلے جا رہے تھے، اور دوسری طرف ان معاند اور ہٹ دھرم کفار و مشرکین کا وہ رویہ تھا جس کو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت حق و صدق کے مقابلے میں اپنائے ہوئے تھے اور اس کو ناکام بنانے اور نیچا دکھانے کے لئے وہ ہر حربہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ کفر و شرک کی میل اور اس کی نحوست ان پر ایسے پنجے گاڑے ہوئے تھی کہ اس سے ان کی گلا خلاصی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ ایسے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر حزن و ملال، اور غمگساری و فکر مندی کی کیفیت کا طاری ہونا۔ اور طاری رہنا ایک طبعی اور فطری امر تھا۔ اور فکر و غم کی ایسی کیفیت میں ایک مخلص اور متفکر انسان کے لئے اس کی چادر ہی اس کی بہترین غمگسار ہوتی ہے وہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے اسی میں لپٹ کر جب وہ چاہتا ہے مخلوق سے کٹ کر اپنے خالق سے لو لگا لیتا ہے، اور یوں بھی چادر اہل عرب کے لباس کا ایک خاص اور اہم جزء ہوتی تھی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے ساتھ چادر رکھا کرتے تھے اور روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعثت سے پہلے جب آپ جستجوئے حقیقت میں محو و منہمک تھے بالعموم خلوت گزینی کی اسی کیفیت میں رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو راہ حق دکھا دی جیسا کہ سورہ ضحی میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام پھر یہاں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس فکر مندی اور غم گساری کے علاج کے لئے قیام لیل کا حکم و ارشاد فرمایا گیا، کہ راہ حق میں نماز اور خاص کر تہجد کی نماز ہی سے داعی حق کو خاص قوت ملتی ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کو ایسی خاص عنایات سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، جس سے وہ ان مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنے کا اہل ہو سکتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی خاص نصرت و امداد سے سرشار و سرفراز ہوتا ہے۔

۱۷۔۔۔   سو اس میں منکرین و مکذبین کے لئے بڑی تنبیہ تحذیر ہے کہ تم لوگوں کو نچنت اور بے فکر نہیں ہونا چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ایسے لوگوں پر بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے کہ یہ اس خالق حکیم کے عدل اور اس کی حکمت کا لازمی تقاضا ہے۔ پس ایسے لوگ اگر اس دنیا میں اپنے قرار واقعی عذاب سے بچ بھی گئے تو کیا آگے قیامت کا وہ انتہائی ہولناک دن تو بہر حال آنے ہی والا ہے جس کے ہول سے بچے بوڑھے ہو جائیں گے تو اس کے عذاب سے یہ لوگ آخر کس طرح اور کیونکر بچیں گے اگر یہ اسی طرح کفر و انکار کی راہ پر چلتے رہے؟ سو ان کے لئے خیر اور عافیت اسی میں ہے کہ کفر و انکار سے تائب ہو کر راہ حق کو اپنا لیں۔ اور اپنے خالق و مالک کے بندے بن جائیں، اور اسی کے آگے صدق دل سے جھک جائیں قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود ان کے ہاتھ سے نکل جائے، اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب، اور انتہائی ہولناک عذاب میں مبتلا ہونا پڑے،

۱۹۔۔۔   سو ان آیات کریمات سے ایک طرف تو اس حقیقت سے آگہی بخشی گئی ہے، کہ کفر و انکار کا نتیجہ و انجام کیا ہونے والا ہے اور مقصود اس تنبیہ و تذکیر سے یہ ہے کہ لوگ اپنے انجام کے بارے میں خود سوچ لیں۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔ تاکہ وہ اس کی رضا و و خوشنودی سے سرفراز ہو سکے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ آخرت کی اَبَدی بادشاہی سے سرشار ہو سکے۔ اور جس کی مرضی اس سے منہ موڑ کر اپنے ہولناک انجام کو پہنچے والعیاذ باللہ، کہ اتمام حجت کے بعد اس کی ذمہ داری خود اسی پر ہو گی، اسی لئے دوسرے مقام پر اس بارے اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ الایۃ (الکہف،۲٩) یعنی ان سے کہو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، پس جس کی مرضی ایمان لے آئے، اور جس کی مرضی کفر کرے، البتہ یہ حقیقت واضح رہے کہ ہم نے کافروں کے لئے بڑی ہی ہولناک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی طنابوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے، جہاں پر ان کا حال یہ ہو گا کہ اگر یہ پیاس کے مارے پانی مانگیں گے تو ان کو تیل کی تلچھٹ جیسا ایسا کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو ان کے چہرے بھون کر رکھے گا، بڑا ہی بڑا پانی ہو گا وہ اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہو گا وہ سو ایمان لانے کے سلسلہ میں کسی پر کوئی جبر اور الزام نہیں، بلکہ یہ معاملہ انسان کی اپنی پسند اور مرضی اور اس کے اختیار پر ہے، البتہ ہر صورت کا انجام واضح طور پر بیان فرما دیا گیا، تاکہ اس کی روشنی میں انسان جونسا راستہ چاہے اختیار کرے، اس کا ذمہ دار وہ خون ہو گا، سو اس ارشاد عالی سے غافلوں اور منکروں کو تنبیہ فرمائی گئی ہے تاکہ وہ غفلت کی اس گہری نیند سے چونک کر بیدار ہو جائیں جس میں وہ اس وقت پڑے ہوئے ہیں، سو اس کے بارے میں واضح فرما دیا گیا کہ وہ ایک ایسی ہولناک حقیقت ہے اس کے بوجھ سے آسمان پھٹا پڑ رہا ہے، اور ایسا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پھٹ ہی پڑے، اور قیامت اس کے اندر سے نمودار ہو جائے، درآنحالیکہ تم اسی غفلت میں پڑے رہو، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ آسمانوں اور زمین دونوں میں بھاری ہو رہی ہے، اور وہ تم پر اچانک ہی ٹوٹ پڑے گی، (الاعرا٨۷) سو آسمان اور زمین دونوں میں اس کے شواہد اسی طرح نمایاں ہیں کہ جس طرح کہ ایک حاملہ کے آخری دنوں کا حمل ہوتا ہے کہ اس کے وضع حمل کا صحیح وقت اگرچہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا، لیکن اس حقیقت سے ہر سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان آگاہ ہوتا ہے کہ اس کا وضع حمل کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، پس اس قیامت سے غفلت برتنا بڑے خسارے کا سودا ہے، والعیاذ باللہ جل و علا، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ مِّن المواطن فی الحیاۃ،

۲۰۔۔۔  ف ۱ سو اس سے سہولت اور آسانی کے مطابق رات کی نماز اور اس میں تلاوت و قرأت قرآن کے علاوہ تین اور باتوں کا حکم و ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تینوں بڑی اہم ہیں پہلی اقامت صلات یعنی نماز کو قائم کرنا، کہ یہ بدنی عبادتوں میں سب سے بڑی اور اہم عبادت ہے اور دوسری ہے ایتاء زکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی کہ یہ مالی عبادات میں سب سے بڑی اور اہم عبادت ہے اور تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو قرض دو اچھا قرض، یعنی فرض زکوٰۃ کے علاوہ بھی اپنے مال اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کیا کرو، یعنی نفلی صدقات کا بھی تم لوگ اہتمام کرو۔

 سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے جو بھی کچھ تم لوگ خرچ کرو گے وہ کسی دوسرے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے ہی لئے کرو گے۔ کہ اس کا اجر و صلہ بہر حال خود تم ہی لوگوں کو ملے گا، اور اس کو تم اپنے رب کے یہاں نہایت عمدہ شکل اور بڑے ہی بہتر اجر و ثواب کی صورت میں پاؤ گے۔ پس یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں، بلکہ نہایت ہی نفع بخش سودا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تم لوگ اپنے رب سے بخشش کی دعاء بھی کرتے رہا کرو، اور اپنی غلطیوں کوتاہیوں کی اس سے معافی بھی مانگتے رہا کرو، اور اس کی بخشش کی امید بھی رکھو کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان بھی ہے سبحانہ و تعالیٰ، فَاغْفِرْلِیْ یَا رَبِّیْ ذَنْبِیْ کُلَّہ، دِقْہ، وَجِلَّہُ اَوَّلَہ، وَاٰخِرَہ،۔ سِرَّہ، و علانیتہ، ما علمت منہ، ومالم اعلم، اِنَّکَ اَنْت الغفور الرحیم،