اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ تسبیح کرو اپنے رب کے نام (پاک) کی جو سب سے بلند شان والا ہے
۲۔۔۔ جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا پھر (اسے ٹھیک) بنایا
۳۔۔۔ جس نے ایک خاص اندازے پر رکھا (ہر چیز کو) پھر اس نے اسے راہ دکھائی
۴۔۔۔ اور جس نے (زمین سے ) طرح طرح کی نباتات کو نکالا
۵۔۔۔ پھر (وقت آنے پر) اس کو سیاہ کوڑا بنا دیا
۶۔۔۔ ہم خود ہی آپ کو پڑھائیں گے (اے پیغمبر اور اس طور پر کہ) آپ کبھی (اس میں سے کچھ) بھولیں گے نہیں
۷۔۔۔ مگر جو اللہ چاہے بلاشبہ وہ (ایک برابر) جانتا ہے کھلی بات کو اور اس کو بھی جو پوشیدہ ہو
۸۔۔۔ اور ہم آسانی سے دے دیں گے آپ کو (شریعت مقدسہ کی) اس آسان راہ کی
۹۔۔۔ پس آپ یاد دہانی کراتے رہیں اگر یاد دہانی سے نفع ہو
۱۰۔۔۔ وہ شخص ضرور نصیحت قبول کرے گا جو ڈرتا ہے (اپنے خدا اور آخرت کی پکڑ سے )
۱۱۔۔۔ اور گریز (و روگردانی) کرے گا اس سے وہ سب بڑا بدبخت،
۱۲۔۔۔ جس نے داخل ہونا ہے (دوزخ کی) اس سب سے بڑی آگ میں
۱۳۔۔۔ پھر وہاں نہ تو وہ مرے گا نہ جئے گا
۱۴۔۔۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی
۱۵۔۔۔ اور وہ اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا
۱۶۔۔۔ مگر تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو ہی ترجیح دیتے ہو
۱۷۔۔۔ حالانکہ آخرت اس سے کہیں بڑھ کر اچھی بھی ہے اور سدا باقی رہنے والی بھی
۱۲۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کی نصیحت اور ان کی تذکیر کا فائدہ انہی لوگوں کو پہنچے گا جن کے دلوں میں خداوند قدوس کے حضور حاضری اور قیامت کے یوم حساب کی پیشی وہاں کی باز پرس اور جواب دہی کا خوف موجود ہو، کہ یہی اصلاح احوال کی اصل ہے پس جو لوگ خوف خدا اور آخرت کی جوابدہی اور باز پرس سے محروم ہوں گے، والعیاذ باللہ، ان پر اس انذار و تذکیر کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ سو ایسے محروم القسمت لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہیں۔ کیونکہ ایسے بدبختوں نے اس سب سے بڑی اور انتہائی ہولناک آگ میں داخل ہو کر رہنا ہے، جو ایسے بدبخت اور منکر لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جہاں یہ لوگ اس طرح رہیں گے کہ نہ ان کے لئے کوئی قرینے کا جینا ہو گا اور نہ ان کو موت ہی آئے گی کہ اس عذاب سے ان کی جان چھوٹ سکے۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو اس میں ایک طرف تو منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تہدید ہے کہ اگر یہ لوگ باز نہ آئے، اور انہوں نے راہ حق و ہدایت کو نہ اپنایا تو انہوں نے آخرکار اس ہولناک انجام سے بہر حال دوچار ہو کر رہنا ہے کہ یہ کفر و انکار کا طبعی تقاضا، اور اس کا لازمی نتیجہ ہے، والعیاذ باللہ جل و علا، اور دوسری طرف اس میں پیغمبر کے لئے تسکین و تسلی کا سامان ہے کہ یہ لوگ جو دعوت حق کو قبول نہیں کرتے تو اس میں نہ آپ صلی اللہ علیہ کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی آپ کی دعوت کا، بلکہ اس میں اصل قصور ان لوگوں کا ہے، کہ یہ اس لئے زیغ و ضلال، عناد و ہٹ دھرمی، اور فساد قلوب کی بناء پر دعوت حق کو قبول کرنے اور اس کو اپنانے کے لئے تیار اور آمادہ ہی نہیں ہوتے، یہ اسی دنیا اور اس کی فانی لذتوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اور یہ اسی پر ریجھے ہوئے ہیں آخرت کا کوئی خوف و اندیشہ ان کو سرے سے ہے ہی نہیں پس آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، انہوں نے اس سب سے بڑی اور انتہائی ہولناک آگ میں داخل ہونا ہے، جو ان کے لئے تیار ہے، والعیاذ باللہ العظیم،
۱۵۔۔۔ سو ان دو آیتوں سے فوز و فلاح سے سرفرازی کے لئے تین اہم اور اصولی باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ جن میں سے پہلی بات ہے تزکیہ یعنی اپنے آپ کو کفر و شرک اور الحاد و بے دینی کی نجاستوں سے پاک کرنا، کہ اسی سے انسان کے لئے دنیا میں فوز و فلاح کے راستے کھلیں گے اور اسی سے وہ آخرت میں اپنے رب کی رضا و خوشنودی اور اس کی رحمت و رضوان سے سرفراز ہو سکے گا جبکہ دوسری اہم اور بنیا دی بات اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ وہ اپنے رب کے نام کو یاد کرے، اور یہ اس لئے کہ دراصل اسمائے الٰہی ہی سرچشمہ علم و حکمت ہیں کہ انہی کے ذریعے انسان اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرشار ہوتا ہے، اور ہو سکتا ہے، اور انہی سے اس کو یہ آگہی ملتی ہے کہ ہمارے رب کی صفات کیا ہیں اور انہی صفات کی روشنی میں اس کو یہ آگہی ملتی ہے کہ ہمارے عقائد کیسے اور کیا ہونے چاہیں اور تیسری چیز جس کی تعلیم دی گئی ہے وہ نماز جو کہ ایمان باللہ کا اولین تقاضا و مظہر ہے، جو انسان کے اس کے رب کے ساتھ تعلق کا سب سے عمدہ ذریعہ و وسیلہ ہے اور جو ایسی جامع مقدس اور منفرد عبادت ہے جس میں انسان اپنے ظاہر و باطن اور قلب و قالب ہر اعتبار سے مصروف عبادت ہوتا ہے، و باللہ التوفیق لمایحب و یرید وعلی مایحب و یرید،