اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی
۲۔۔۔ اور قسم ہے چاند کی جب کہ وہ اس کے پیچھے آتا ہے
۳۔۔۔ اور دن کی جب کہ وہ اسے خوب روشن کر دیتا ہے
۴۔۔۔ اور رات کی جب کہ وہ اسے ڈھانک لیتی ہے
۵۔۔۔ اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو بنایا
۶۔۔۔ اور زمین کی اور اس ذات کی جس نے اس کو بچھایا
۷۔۔۔ اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست کیا
۸۔۔۔ پھر اس نے الہام کر دیا اس کو اس کی بدی اور پرہیزگاری کا
۹۔۔۔ یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے پاک کر لیا اپنی جان کو
۱۰۔۔۔ اور یقیناً ناکام (و نامراد) ہو گیا وہ جس نے دھنسا (و دبا) دیا اس کو
۱۱۔۔۔ جھٹلایا قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی بناء پر
۱۲۔۔۔ جب کہ بپھر کر اٹھ کھڑا ہوا ان کا سب سے بڑا بدبخت شخص
۱۳۔۔۔ سو کہہ دیا تھا ان سے اللہ کے رسول نے کہ (خیال رکھنا اور) بچ کر رہنا اﷲ کی اونٹی اور اس کے پانی پینے کی باری سے
۱۴۔۔۔ مگر انہوں نے جھٹلا دیا اپنے پیغمبر کو اور ہلاک کر ڈالا اس اونٹنی کو سو تباہی نازل فرما دی ان پر ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں اور پیوند خاک کر دیا اس نے ان کو (ہمیشہ ہمیشہ کے لئے )
۹۔۔۔ اَفْلَحْ فلاح سے ماخوذ ہے جس کے معنی اصل اور حقیقی کامیابی کے ہیں اور زَکّیٰ تزکیہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پاک کرنے اور نشوونما دینے وغیرہ کے آتے ہیں سو اس سے ایک طرف تو فوز و فلاح سے سرفرازی کے طریقے کو بیان فرما دیا گیا۔ اور دوسری طرف اس سے اس الہام خیر و شر کے تقاضے کو بھی واضح فرما دیا گیا جس کا ذکر اس سے پہلے فرمایا گیا ہے۔ اور یہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ بندے کو جس نعمت سے نوازتا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بندہ اس کی قدر کرے۔ اور اس کو اس کے صحیح مصرف میں صرف کرے۔ کہ اسی میں اس کی بہتری اور بھلائی ہے اور اگر وہ ایسے نہیں کرے گا تو خود اپنی ہی ہلاکت اور محرومی کا سامان کرے گا۔ والعیاذ باللہ جل و علا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں بخشی ہیں تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ آنکھ کھول کر دیکھے۔ اور راستے کے نشیب وفراز کو دیکھتا ہوا صحیح طریقے سے چلے لیکن اس کے برعکس اگر وہ آنکھیں بند کر کے چلے گا تو اس کے نتیجے میں لازماً وہ کسی کھڈے میں گرے گا۔ و العیاذُ باللہ، سو اسی طرح قدرت کی طرف سے خیر و شر کے بارے میں کئے گئے الہام کا تقاضا ہے کہ انسان خیر کو اپنائے، تزکیہ سے کام لے، اور خیر کو شر پر غالب کرے، اگر وہ ایسے کرے گا تو فوز و فلاح کی دولت سے سرفراز ہو گا لیکن اس کے برعکس اس نے اگر شر کو اپنایا، اور خیر کو دبا مٹا کر مغلوب کر دیا، تو وہ یقیناً خائب وخاسر اور محروم و نامراد ہو گا، کہ یہ قانون قدرت اور مکافات عمل کا طبعی تقاضا اور لازمی نتیجہ ہے سو خیر و شر کے ان دو راستوں میں سے کسی ایک کو اپنانا، انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر موقوف ہے، پس شر کی راہ کو اپنانے والے اپنی ہلاکت و تباہی کے ذمہ دار خود ہیں، والعیاذ باللہ العظیم،
۱۵۔۔۔ سو آفاق وانفس کے ان دلائل و شواہد کے بعد جن کا ذکر و بیان اوپر فرمایا گیا ہے ان آیات کریمات سے ان کی تائید و تقویت کے لئے تاریخی شہادت پیش فرمائی گئی ہے، آفاق وانفس کے دلائل کا تعلق چونکہ اس غور و فکر سے ہوتا ہے جو صحیح طریقے سے اور صحیح زاویہ نگاہ سے کیا جائے، اور اس سے عام لوگ چونکہ محروم ہی ہوتے ہیں، اور مادہ و معدہ کے غلام اور ان کے تقاضوں اور خواہشات کے پرستار چونکہ اس طرف توجہ کرتے ہی نہیں بلکہ ان کا حال تو ان حیوانوں کا سا ہوتا ہے جو ڈنڈے کی زبان ہی سمجھتے ہیں اس لئے قرآن حکیم میں ایسے لوگوں کی تنبیہ و تذکیر کے لئے آفاق و انفس کے دلائل کے ساتھ ساتھ تاریخی شواہد بھی پیش فرمائے گئے ہیں کیونکہ ایسے غافل لوگوں پر واقعاتی شہادتیں ہی زیادہ موثر اور کارگر ہوتی ہیں، سو اس سلسلے میں یہاں پر قوم ثمود کی سرکشی اور ان کے انجام کا حوالہ دیا گیا کہ جب انہوں نے اپنی سرکشی کی بناء پر حق کی تکذیب ہی کی تو ان کے مطالبے پر حضرت صالح نے ان کے لئے ایک اونٹنی کو بطور نشانی مقرر فرمادیا، اور ان کو تنبیہ فرما دی کہ تم لوگ اللہ کی اس اونٹنی کو چھیڑنا نہیں، اور اس کے پانی کی باری کا خیال رکھنا، ورنہ تم لوگوں کو اللہ کا عذاب آ پکڑے گا، مگر ان بدبختوں نے پھر بھی پیغمبر کو جھٹلایا، اور اس اونٹنی کو ہلاک کر دیا تو ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا، اور ایسا کہ اس نے ان کا بالکل صفایا کر دیا اور اللہ کا عذاب چونکہ نہایت حق اور صدق پر مبنی ہوتا ہے اس لئے اس کو نہ اس کے بارے میں کسی غلطی اور کوتاہی کا کوئی خوف و خدشہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے چیلنج اور تعاقب کا، کہ وہ ایسے تصورات سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے، سبحانہ و تعالیٰ