خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الواقِعَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ واقعہ مکّیہ ہے سوائے آیت اَفَبھِٰذَا الْحَدِیْثِ اور آیت ثُلَّۃ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ کے،اس سورت میں تین ۳رکوع اور چھیانوے ۹۶یا ستانوے ۹۷یا ننانوے۹۹ آیتیں اور تین سو اٹھتّر ۳۷۸کلمے اور ایک ہزار سات سو تین۱۷۰۳ حرف ہیں۔امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص سورۂ واقعہ کو ہر شب پڑھے وہ فاقہ سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ (خازن)

(۱) جب ہولے  گی وہ ہونے  وا لی (ف ۲)

۲                 یعنی جب قیامت قائم ہو جو ضرور ہونے والی ہے۔

(۲) اس وقت اس کے  ہونے  میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ ہو گی۔

(۳) کسی کو پست کرنے  وا لی (ف ۳) کسی کو بلندی دینے  وا لی (ف ۴)

۳                 جہنّم میں گرا کر۔

۴                 دخولِ جنّت کے ساتھ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں اونچے تھے قیامت انہیں پست کرے گی اور جو دنیا میں پستی میں تھے ان کے مرتبے بلند کرے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ معصیّت کو پست کرے گی اور اہلِ طاعت کو بلند۔

(۴) جب زمین کانپے  گی تھرتھرا کر (ف ۵)

۵                 حتیٰ کہ اس کی تمام عمارتیں گر جائیں گی۔

(۵) اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے  چُورا  ہو کر

(۶) تو ہو جائیں گے  جیسے  روزن کی دھوپ میں غبار کے  باریک ذرے  پھیلے  ہوئے

(۷) اور تین قسم کے  ہو جاؤ گے۔

(۸) تو دہنی طرف والے  (ف ۶) کیسے  دہنی طرف والے  (ف ۷)

۶                 یعنی جن کے نامۂ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے۔

۷                 یہ ان کی تعظیمِ شان کے لئے فرمایا وہ بڑی شان رکھتے ہیں، سعید ہیں، جنّت میں داخل ہوں گے۔

(۹) اور بائیں طرف والے  (ف ۸) کیسے  بائیں طرف والے  (ف ۹)

۸                 جن کے نامۂ اعمال بائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے۔

۹                 یہ ان کی تحقیرِ شان کے لئے فرمایا کہ وہ شقی ہیں، جہنّم میں داخل ہوں گے۔

(۱۰) اور جو سبقت لے  گئے  (ف ۱۰) وہ تو سبقت ہی لے  گئے  (ف ۱۱)

۱۰               نیکیوں میں۔

۱۱               دخول جنّت میں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ ہجرت میں سبقت کرنے والے ہیں کہ آخرت میں جنّت کی طرف سبقت کریں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصار ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔

(۱۱) وہی مقربِ بارگاہ ہیں۔

(۱۲) چین کے  باغوں میں۔

(۱۳) اگلوں میں سے  ایک گروہ

(۱۴) اور پچھلوں میں سے  تھوڑے  (ف ۱۲)

۱۲               یعنی سابقین اگلوں میں سے بہت ہیں اور پچھلوں میں سے تھوڑے اور اگلوں میں سے مراد یا پہلی امّتیں ہیں زمانۂ حضرت آدم علیہ السلام سے ہمارے سرکار سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے عہد مبارک تک جیسا کہ اکثر مفسّرین کا قول ہے لیکن یہ قول نہایت ضعیف ہے اگرچہ مفسّرین نے اس کے وجوہِ ضعف کے جواب میں بہت سی توجیہات بھی کی ہیں، قولِ صحیح تفسیر میں یہ ہے کہ اگلوں سے امّتِ محمّدیہ ہی کے پہلے لوگ مہاجرین و انصار میں سے جو سابقین اوّلین ہیں وہ مراد ہیں اور پچھلوں سے ان کے بعد والے احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے حدیثِ مرفوع میں ہے کہ اوّلین و آخرین یہاں اسی امّت کے پہلے اور پچھلے ہیں اور یہ بھی مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ دونوں گروہ میری ہی امّت کے ہیں۔ (تفسیر کبیرو بحر العلوم وغیرہ)

(۱۵) جڑاؤ تختوں پر ہوں گے  (ف ۱۳)

۱۳               جن میں لعل، یاقوت، موتی وغیرہ جواہرات جڑے ہوں گے۔

(۱۶) ان پر تکیہ لگائے  ہوئے  آمنے  سامنے  (ف ۱۴)

۱۴               حسنِ عشرت کے ساتھ با شان و شکوہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسرور، دل شاد ہوں گے۔

(۱۷) ان کے  گرد لیے  پھریں گے  (ف ۱۵) ہمیشہ رہنے  والے  لڑکے  (ف ۱۶)

۱۵               آدابِ خدمت کے ساتھ۔

۱۶               جو نہ مریں، نہ بوڑھے ہوں، نہ ان میں تغیّر آئے یہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ جنّت کی خدمت کے لئے جنّت میں پیدا فرمائے۔

(۱۸) کوزے  اور آفتابے  اور جام اور آنکھوں کے  سامنے  بہتی شراب

(۱۹) کہ اس سے  نہ انہیں درد سر ہو اور نہ ہوش میں فرق آئے  (ف ۱۷) 

۱۷               بخلاف شرابِ دنیا کے کہ اس کے پینے سے حواس مختل ہو جاتے ہیں۔

(۲۰) اور میوے  جو پسند کریں

(۲۱) اور پرندوں کا گوشت جو چاہیں (ف ۱۸)

۱۸               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اگر جنّتی کو پرندوں کے گوشت کی خواہش ہو گی تو اس کے حسبِ مرضی پرند اڑتا ہوا سامنے آئے گا اور رکابی میں آ کر سامنے پیش ہو گا اس میں سے جتنا چاہے گا جنّتی کھائے گا پھر وہ اُڑ جائے گا۔ (خازن)

(۲۲) اور بڑی آنکھ والیاں (حوریں ف ۱۹)

۱۹               ان کے لئے ہوں گی۔

(۲۳) جیسے  چھپے  رکھے  ہوئے  موتی (ف ۲۰)

۲۰               یعنی جیسا موتی صدف میں چھُپا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا، نہ دھوپ اور ہوا لگی اس کی صفائی اپنی نہایت پر ہے اس طرح حوریں اچھوتی ہوں گی۔ یہ بھی مروی ہے کہ حوروں کے تبسّم سے جنّت میں نور چمکے گا اور جب وہ چلیں گی تو ان کے ہاتھوں اور پاؤں کے زیوروں سے تقدیس و تمجید کی آوازیں آئیں گی اور یاقوتی ہار ان کے گردنوں کے حسن و خوبی سے ہنسیں گے۔

(۲۴) صلہ ان کے  اعمال کا (ف ۲۱)

۲۱               کہ دنیا میں انہوں نے فرمانبرداری کی۔

(۲۵) اس میں نہ سنیں گے  نہ کوئی بیکار  با ت  نہ گنہ گاری (ف ۲۲)

۲۲               یعنی جنّت میں کوئی نا گوارا اور باطل بات سننے میں نہ آئے گی۔

(۲۶) ہاں یہ کہنا ہو گا سلام سلام (ف ۲۳)

۲۳               جنّتی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے، ملائکہ اہلِ جنّت کو سلام کریں گے، اللہ ربُّ العزّت کی طرف سے ان کی طرف سلام آئے گا۔ یہ حال تو سابقین مقرّبین کا تھا اس کے بعد جنّتیوں کے دوسرے گروہ اصحابِ یمین کا ذکر فرمایا جاتا ہے۔

(۲۷) اور دہنی طرف والے  کیسے  دہنی طرف والے  (ف ۲۴)

۲۴               ان کی عجیب شان ہے کہ اللہ کے حضور میں معزّز و مکرّم ہیں۔

(۲۸) بے  کانٹوں کی بیریوں میں

(۲۹) اور کیلے  کے  گچھوں میں (ف ۲۵)

۲۵               جن کے درخت جڑ سے چوٹی تک پھلوں سے بھرے ہوں گے۔

(۳۰) اور ہمیشہ کے  سائے  میں

(۳۱) اور ہمیشہ جاری پانی میں

(۳۲)  اور بہت سے  میووں میں

(۳۳) جو نہ ختم ہوں (ف ۲۶) اور نہ روکے  جائیں (ف ۲۷)

۲۶               جب کوئی پھل توڑا جائے فوراً اس کی جگہ ویسے ہی دو موجود ہیں۔

۲۷               اہلِ جنّت پھلوں کے لینے سے۔

(۳۴)  اور بلند بچھونوں میں (ف ۲۸)

۲۸               جو مرصّع اونچے اونچے تختوں پر ہوں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچھونوں سے مراد عورتیں ہیں اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہوں گے کہ عورتیں فضل و جمال میں بلند درجہ رکھتی ہوں گی۔

(۳۵) بیشک ہم نے  ان عورتوں کو اچھی اٹھان اٹھایا۔

(۳۶) تو انہیں بنایا کنواریاں اپنے  شوہر پر پیاریاں۔

(۳۷) انہیں پیار دلائیاں ایک عمر والیاں (ف ۲۹)

۲۹               جوان اور ان کے شوہر بھی جوان اور یہ جوانی ہمیشہ قائم رہنے والی۔

(۳۸) دہنی طرف والوں کے  لیے۔

(۳۹) اگلوں میں سے  ایک گروہ۔

(۴۰) اور پچھلوں میں سے  ایک گروہ (ف ۳۰)

۳۰               یہ اصحابِ یمین کے دو گروں کا بیان ہے کہ وہ اس امّت کے پہلوں، پچھلوں دونوں گروہوں میں سے ہوں گے پہلے گروہ اصحابِ رسول اللہ ہیں (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) اور پچھلے ان کے بعد والے اس سے پہلے رکوع میں سابقین مقرّبین کی دو جماعتوں کا ذکر تھا اور اس آیت میں اصحابِ یمین کے دو گروہوں کا بیان ہے۔

(۴۱) اور بائیں طرف والے  (ف ۳۱) کیسے  بائیں طرف والے  (ف ۳۲)

۳۱               جن کے نامۂ اعمال بائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے۔

۳۲               ان کا حال شقاوت میں عجیب ہے ان کے عذاب کا بیان فرمایا جاتا ہے کہ وہ اس حال میں ہوں گے۔

(۴۲) جلتی ہوا  اور کھولتے  پانی میں۔

(۴۳) اور جلتے  دھوئیں کی چھاؤں میں (ف ۳۳)

۳۳               جو نہایت تاریک و سیاہ ہو گا۔

(۴۴) جو نہ  ٹھنڈی نہ عزت کی۔

(۴۵) بیشک وہ اس سے  پہلے  (ف ۳۴) نعمتوں میں تھے 

۳۴               دنیا کے اندر۔

(۴۶) اور اس بڑے  گناہ کی (ف ۳۵) ہٹ (ضد) رکھتے  تھے۔

۳۵               یعنی شرک کی۔

(۴۷) اور کہتے  تھے  کیا جب ہم مرجائیں اور ہڈیاں ہو جائیں تو کیا ضرور ہم اٹھائے  جائیں گے۔

(۴۸) اور کیا ہمارے  اگلے  باپ دادا بھی۔

(۴۹) تم فرماؤ بیشک سب اگلے  اور پچھلے

(۵۰) ضرور اکٹھے  کیے  جائیں گے، ایک جانے  ہوئے  دن کی میعاد پر (ف ۳۶)

۳۶               وہ روزِ قیامت ہے۔

(۵۱) پھر بیشک تم اے  گمراہو (ف ۳۷) جھٹلانے  والو

۳۷               راہِ حق سے بہکنے والو اور حق کو۔

(۵۲) ضرور تھوہر کے  پیڑ میں سے  کھاؤ گے۔

(۵۳) پھر اس سے  پیٹ بھرو گے۔

(۵۴) پھر اس پر کھولتا پانی  پیو گے۔

(۵۵) پھر ایسا پیو گے  جیسے  سخت پیاسے  اونٹ پئیں (ف ۳۸)

۳۸               ان پر ایسی بھوک مسلّط کی جائے گی کہ وہ مضطر ہو کر جہنّم کا جلتا تھوہڑ کھائیں گے، پھر جب اس سے پیٹ بھر لیں گے ان پر پیاس مسلّط کی جائے گی جس سے مضطر ہو کر ایسا کھولتا پانی پئیں گے جو آنتیں کاٹ ڈالے گا۔

(۵۶) یہ ان کی مہمانی ہے  انصاف کے  دن۔

(۵۷) ہم نے  تمہیں پیدا کیا (ف ۳۹) تو تم کیوں نہیں سچ مانتے  (ف ۴۰)

۳۹               نیست سے ہست کیا۔

۴۰               مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو۔

(۵۸) تو بھلا دیکھو تو وہ منی جو گراتے  ہو (ف ۴۱)

۴۱               عورتوں کے رحم میں۔

(۵۹) کیا تم اس کا  آدمی بناتے  ہو یا ہم بنانے  والے  ہیں (ف ۴۲)

۴۲               کہ نطفہ کو صورتِ انسانی دیتے ہیں، زندگی عطا فرماتے ہیں، تو مُردوں کو زندہ کرنا ہماری قدرت سے کیا بعید۔

(۶۰) ہم نے  تم میں مرنا ٹھہرایا (ف ۴۳) اور ہم اس سے  ہارے  نہیں۔

۴۳               حسبِ اقتضائے حکمت و مشیّت اور عمریں مختلف رکھیں کوئی بچپن میں ہی مر جاتا ہے، کوئی جوان ہو کر، کوئی ادھیڑ عمر میں کوئی بڑھاپے تک پہنچتا ہے جو ہم مقدر کرتے ہیں وہی ہوتا ہے۔

(۶۱) کہ تم جیسے  اور بدل دیں اور تمہاری صورتیں وہ کر دیں جس کی تمہیں خبر نہیں (ف ۴۴)

۴۴               یعنی مسخ کر کے بندر سور وغیرہ کی صورتیں بنا دیں یہ سب ہماری قدرت میں ہے۔

(۶۲) اور بیشک تم جان چکے  ہو پہلی اٹھان (ف ۴۵) پھر کیوں نہیں سوچتے  (ف ۴۶)

۴۵               کہ ہم نے تمہیں نیست سے ہست کیا۔

۴۶               کہ جو نیست کو ہست کر سکتا ہے وہ بالیقین مردے کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔

 (۶۳) تو بھلا بتاؤ تو  جو بوتے  ہو۔

(۶۴) کیا تم اس کی کھیتی بناتے  ہو یا ہم بنانے  والے  ہیں (ف ۴۷)

۴۷               اس میں شک نہیں کہ بالیں بنانا اور اس میں دانے پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور کسی کا نہیں۔

(۶۵) ہم چاہیں تو (ف ۴۸) اسے  روندن (پامال) کر دیں (ف ۴۹) پھر تم باتیں بناتے  رہ جاؤ (ف ۵۰)

۴۸               جو تم بولتے ہو۔

۴۹               خشک گھاس چورا چورا جو کسی کام کی نہ رہے۔

۵۰               متحیّر اور نادم و غمگین۔

(۶۶) کہ ہم پر چٹی پڑی (ف ۵۱)

۵۱               ہمارا مال بیکار ضائع ہو گیا۔

(۶۷) بلکہ ہم بے  نصیب رہے۔

(۶۸) تو بھلا بتاؤ تو وہ پانی جو پیتے  ہو۔

(۶۹) کیا تم نے  اسے  بادل سے  اتارا یا ہم ہیں اتارنے  والے  (ف ۵۲)

۵۲               اپنی قدرتِ کاملہ سے۔

(۷۰) ہم چاہیں تو اسے  کھاری کر دیں  (ف ۵۳) پھر کیوں نہیں شکر کرتے  (ف ۵۴)

۵۳               کہ کوئی پی نہ سکے۔

۵۴               اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے احسان و کرم کا۔

(۷۱) تو بھلا بتاؤں تو وہ آگ جو تم روشن کرتے   ہو (ف ۵۵)

۵۵               دو تر لکڑیوں سے جن کو زَندو زندہ کہتے ہیں ان کے رگڑنے سے آگ نکلتی ہے۔

(۷۲) کیا تم نے  اس کا پیڑ پیدا کیا (ف ۵۶) یا ہم ہیں پیدا کرنے  والے۔

۵۶               مَرْخ و عَفار جن سے زَندوزندہ لی جاتی ہے۔

(۷۳) ہم نے  اسے  (ف ۵۷) جہنم کا یادگار بنایا (ف ۵۸) اور جنگل میں مسافروں کا فائدہ (ف ۵۹)

۵۷               یعنی آگ کو۔

۵۸               کہ دیکھنے والا اس کو دیکھ کر جہنّم کی بڑی آگ کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ سے اور اس کے عذاب سے ڈرے۔

۵۹               کہ اپنے سفروں میں اس سے نفع اٹھاتے ہیں۔

(۷۴) تو اے  محبوب تم پاکی بولو اپنے  عظمت والے  رب کے  نام کی۔

(۷۵) تو مجھے  قسم ہے  ان جگہوں کی جہاں تارے  ڈوبتے  ہیں (ف ۶۰)

۶۰               کہ وہ مقام ہیں ظہورِ قدرت و جلالِ الٰہی کے۔

(۷۶) اور تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے۔

(۷۷) بیشک یہ عزت والا قرآن ہے  (ف ۶۱)

۶۱               وہ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر نازل فرمایا گیا کیونکہ یہ کلامِ الٰہی اور وحیِ ربّانی ہے۔

(۷۸) محفوظ نوشتہ میں (ف ۶۲)

۶۲               جس میں تبدیل و تحریف ممکن نہیں۔

(۷۹) اسے  نہ چھوئیں مگر با وضو (ف ۶۳)

۶۳               مسائل : جس کو غسل کی حاجت ہو یا جس کا وضو نہ ہو یا حائضہ عورت یا نفاس والی ان میں سے کسی کو قرآنِ مجید کا بغیر غلاف وغیرہ کسی کپڑے کے چھونا جائز نہیں ہے بے وضو کو یاد پر قرآن شریف پڑھنا جائز ہے لیکن بے غسل اور حیض والی کو یہ بھی جائز نہیں۔

(۸۰) اتارا ہوا ہے  سارے  جہان کے  رب  کا۔

(۸۱) تو کیا اس بات میں تم سستی کرتے  ہو (ف ۶۴)

۶۴               اور نہیں مانتے۔

(۸۲) اور اپنا حصہ یہ رکھتے  ہو کہ جھٹلاتے  ہو (ف ۶۵)

۶۵               حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا وہ بندہ بڑے ٹوٹے میں ہے جس کا حصّہ کتابُ اللہ کی تکذیب ہو۔

(۸۳) پھر کیوں نہ ہو جب جان گلے  تک پہنچے

(۸۴) اور تم (ف ۶۶) اس وقت دیکھ رہے  ہو

 ۶۶              اے اہلِ میّت۔

(۸۵) اور ہم (ف ۶۷) اس کے  زیادہ پاس ہیں تم سے  مگر تمہیں نگاہ میں (ف ۶۸)

۶۷               اپنے علم و قدرت کے ساتھ۔

۶۸               تم بصیرت نہیں رکھتے تم نہیں جانتے۔

 (۸۶) تو کیوں نہ ہوا اگر تمہیں بدلہ ملنا نہیں (ف ۶۹)

۶۹               مرنے کے بعد اٹھ کر۔

(۸۷) کہ اسے  لوٹا لاتے  اگر تم سچے  ہو (ف ۷۰)

۷۰               کفّار سے فرمایا گیا کہ اگر بخیال تمہارے مرنے کے بعد اٹھنا اور اعمال کا حساب کیا جانا اور جزا دینے والا معبود یہ کچھ بھی نہ ہو تو پھر کیا سبب ہے کہ جب تمہارے پیاروں کی روح حلق میں پہنچتی ہے تو تم اسے لوٹا کیوں نہیں لاتے اور جب یہ تمہارے اختیار میں نہیں تو سمجھو کہ کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس پر ایمان لاؤ۔ اس کے بعد مخلوقات کے طبقات کے احوال وقتِ موت اور ان کے درجات کا بیان فرمایا۔

(۸۸) پھر وہ مرنے  والا اگر مقربوں سے  ہے  (ف ۷۱)

۷۱               سابقین میں سے جن کا ذکر اوپر ہو چکا تو اس کے لئے۔

(۸۹) تو راحت ہے  اور پھول (ف ۷۲) اور چین کے  باغ (ف ۷۳)

۷۲               ابوالعالیہ نے کہا کہ مقرّبین سے جو کوئی دنیا سے مفارقت کرتا ہے اس کے پاس جنّت کے پھولوں کی ڈالی لائی جاتی ہے اس کی خوشبو لیتا ہے تب روح قبض ہوتی ہے۔

۷۳               آخرت میں۔

(۹۰) اور اگر (ف ۷۴) دہنی طرف والوں سے  ہو

۷۴               مرنے والا۔

(۹۱) تو اے  محبوب تم پر سلام دہنی طرف والوں سے  (ف ۷۵)

۷۵               معنیٰ یہ ہیں کہ اے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم آپ ان کا سلام قبول فرمائیں اور ان کے لئے غمگین نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے سلامت و محفوظ رہیں گے اور آپ ان کو اسی حال میں دیکھیں گے جو آپ کو پسند ہو۔

(۹۲) اور اگر (ف ۷۶) جھٹلانے  والے  گمراہوں میں سے  ہو (ف ۷۷)

۷۶               مرنے والا۔

۷۷               یعنی اصحابِ شمال میں سے۔

(۹۳) تو اس کی مہمانی کھولتا پانی۔

(۹۴) اور بھڑکتی آگ میں دھنسانا (ف ۷۸)

۷۸               جہنّم کی اور مرنے والوں کے احوال اور جو مضامین اس سورت میں بیان کئے گئے۔

(۹۵) یہ بیشک اعلیٰ درجہ کی یقینی بات ہے۔

(۹۶) تو اے  محبوب  تم اپنے  عظمت والے  رب کے  نام کی پاکی بولو (ف ۷۹)

۷۹               حدیث : جب یہ آیت نازل ہوئی فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اس کو اپنے رکوع میں داخل کرو اور جب سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ نازل ہوئی تو فرمایا اسے اپنے سجدوں میں داخل کرو۔ (ابوداؤد)

 مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ رکوع و سجود کی تسبیحات قرآنِ کریم سے ماخوذ ہیں۔