اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جس نے نازل فرمایا اپنے کرم بے پایاں سے اس فیصلہ کن کتاب کو اپنے بندہ خاص پر تاکہ وہ خبردار کرنے والا ہو دنیا جہاں کے لوگوں کے لیے ۔
۲۔۔۔ جس کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی، جس نے نہ کسی کو اولاد ٹھہرایا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے اس کی بادشاہی میں ، اور اس نے بلا شرکتِ غیرے پیدا فرمایا ہر چیز کو اور اس کو نہایت حکمت کے ساتھ ایک خاص اندازے پر رکھا
۳۔۔۔ مگر اس کے باوجود لوگوں نے اس کے سوا ایسے خود ساختہ معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور پیدا کرنا تو درکنار وہ خود اپنے لیے بھی نہ کسی نقصان کو ٹالنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی نفع کو حاصل کرنے کا اور نہ وہ مرنے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ جینے کا اور نہ ہی دوبارہ اٹھنے کا۔
۴۔۔۔ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو محض ایک من گھڑت چیز ہے جسے اس شخص یعنی پیغمبر نے خود ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام پر اس کی مدد کی ہے بلاشبہ اس طرح لوگوں نے ارتکاب کیا ہے ایک بڑے ظلم اور نرے جھوٹ کا۔
۵۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو بس کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کو جن کو اس شخص نے کسی سے لکھوا لیا ہے پھر وہ اس کو صبح و شام پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
۶۔۔۔ کہو اس کلام حق کو تو اتارا ہے اس ذات اقدس و اعلیٰ نے جو جانتی ہے آسمانوں اور زمین کے بھیدوں کو بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے
۷۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی ایسا فرشتہ کیوں نہ بھیج دیا گیا جو اس کے ساتھ رہ کر نہ ماننے والوں کو ڈراتا دھمکاتا رہتا؟
۸۔۔۔ یا اس کے لیے غیب سے کوئی خزانہ آپڑتا، یا اس کے پاس کم از کم کوئی ایسا باغ ہوتا جس سے یہ خود کھایا پیا کرتا اور یہ ظالم تو مسلمانوں سے یہاں تک کہتے ہیں کہ تم لوگ تو بس جادو کے مارے ہوئے ایک شخص کے پیچھے چلتے ہو۔
۹۔۔۔ ذرا دیکھو تو سہی کہ ان لوگوں نے آپ کے لیے اے پیغمبر! کیسی کیسی مثالیں گھڑیں ، سو اس کے نتیجے میں یہ لوگ ایسے بھٹکے کہ ان کو کوئی راستہ ہی نہیں سوجھتا۔
۱۰۔۔۔ بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو اس دنیا میں ہی اور ان کی ان فرمائشوں سے بھی کہیں بڑھ کر اچھی چیز آپ کو عطا فرما دے یعنی ایک نہیں کئی ایسے عظیم الشان باغ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں اور اسی طرح وہ بنا دے آپ کے لیے طرح طرح کے عظیم الشان محل بھی
۱۱۔۔۔ اور پھر ان لوگوں کا ایسے کہنا بھی کوئی طلب حق کے لیے نہیں بلکہ یہ لوگ تو جھٹلا چکے ہیں قیامت کو پوری ہٹ دھرمی سے اور جو کوئی قیامت کو جھٹلائے گا اس کے لیے ہم نے تیار کر رکھی ہے ایک بڑی ہی ہولناک اور دہکتی بھڑکتی آگ،
۱۲۔۔۔ ایسی ہولناک آگ کہ جب وہ ان کو دور سے دیکھے گی تو یہ لوگ اس کے غیظ و غضب اور دہاڑنے کی آوازیں سنیں گے
۱۳۔۔۔ اور جب ڈال دیا جائے گا ان بدبختوں کو اس کے کسی تنگ و تاریک مقام میں جکڑا بندھا ہوا، تو یہ وہاں پر رہ رہ کر موت کو پکاریں گے
۱۴۔۔۔ اور اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ آج تم ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو
۱۵۔۔۔ کہو اب بتاؤ کہ کیا یہ بہتر ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ متقی اور پرہیزگار لوگوں سے کیا گیا ہے جو ان کے لیے ان کے اعمال کا صلہ و بدلہ بھی ہو گا اور آخری ٹھکانہ بھی،
۱۶۔۔۔ ان کو اس میں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ ایک وعدہ ہے واجب الاداء تیرے رب کے ذمہ کرم پر،
۱۷۔۔۔ اور یاد کرو تم اے لوگو! اس ہولناک دن کو کہ جس دنﷲاکٹھا کر لائے گا ان سب کو بھی اور ان کے ان معبودوں کو بھی جن کو یہ پوجا پکارا کرتے تھے اﷲ کے سوا پھر وہ ان سے پوچھے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی بھٹک گئے تھے سیدھی راہ سے ؟
۱۸۔۔۔ تو وہ عاجزانہ اور دست بستہ عرض کریں گے پاک ہے آپ کی ذات اے اﷲ ہمیں تو کسی بھی طرح یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ ہم آپ کے سوا کسی اور کو کارساز بناتے ، مگر آپ ہی نے جس آسودگی اور خوشحالی سے نوازا تھا ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادا کو تو اس سے یہ لوگ مست و مگن ہو کر کفرانِ نعمت میں پڑ گئے تھے یہاں تک کہ انہون نے بھلا دیا تھا آپ کی یاد دلشاد کو اور یہ لوگ شامت زدہ ہو کر رہ گئے تھے
۱۹۔۔۔ سو وہ قطعی اور صریح طور پر جھٹلا دیں گے تمہاری ان تمام باتوں کو اے منکرو! جو تم لوگ آج ان کو شریک ٹھہرانے کے لیے گھڑتے بناتے ہو پھر نہ تو تم عذاب کو ٹال سکو گے اور نہ ہی کہیں سے کوئی مدد پا سکو گے اور جو بھی کوئی تم میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو مزہ چکھا کر رہیں گے ایک بہت بڑے عذاب کا
۲۰۔۔۔ اور ہم نے جو بھی پیغمبر آپ سے پہلے بھیجے ان سب کی شان یہی تھی کہ وہ کھاتے پیتے بھی تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی، اور ہم نے تم سب کو اے لوگوں آپس میں ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے کیا تم لوگ صبر کرتے ہو؟ اور تمہارا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔
۲۱۔۔۔ اور کہتے ہیں وہ لوگ پوری ڈھٹائی اور بے باکی سے جو امید و اندیشہ نہیں رکھتے ہمارے حضور پیشی کا کہ کیوں نہیں اتر دئیے گئے ہم پر فرشتے یا ہم خود اپنی آنکھوں دے سیکھ لیتے اپنے رب کو سو ان لوگوں نے بڑی چیز سمجھا اپنے آپ کو اپنے دلوں میں اور انہوں نے ارتکاب کیا ایک بہت بڑی سرکشی کا
۲۲۔۔۔ جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن ایسے مجرموں کے لیے خوشی کا کوئی موقع نہیں ہو گا، وہ (الٹا گھبرا کر) پکاریں گے کہ کوئی مضبوط پناہ کر دی جائے (بچنے کے لیے
۲۳۔۔۔ اور اس روز ہم متوجہ ہوں گے ان کے ان تمام اعمال کی طرف جو انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں کیے کرائے ہوں گے
۲۴۔۔۔ جنت والوں کا اس دن ٹھکانا بھی سب سے اچھا ہو گا اور ان کی آرام گاہ بھی سب سے عمدہ ہو گی
۲۵۔۔۔ اور جس دن پھٹ پڑے گا آسمان بادل کے ساتھ اور اتار دیا جائے گا فرشتوں کو پرے پر پرے کے طور پر
۲۶۔۔۔ حقیقی اور سچی بادشاہی اس روز خدائے رحمان ہی کی ہو گئی اور کافروں پر وہ دن بڑا ہی بھاری اور سخت ہو گا
۲۷۔۔۔ اس دن ظالم انسان مارے افسوس اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا اور کہے گا اے کاش میں نے اپنایا ہوتا رسول کے ساتھ حق و ہدایت کا راستہ۔
۲۸۔۔۔ ہائے میری کم بختی میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا
۲۹۔۔۔ اس نے مجھے بہکا دیا نصیحت کی دولت سے اس کے بعد کہ وہ میرے پاس پہنچ چکی تھی اور شیطان تو انسان کو عین وقت پر دھوکہ دینے والا اور اس سے کنارے ہو جانے والا
۳۰۔۔۔ اور اس دن رسول کہے گا اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا
۳۱۔۔۔ اور اے پیغمبر ان لوگوں کی یہ دشمنی کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ہم نے اسی طرح ہر نبی کے دشمن بنائے مجرم لوگوں میں سے اور کافی ہے آپ کا رب ہدایت دینے کو اور مدد کرنے کو
۳۲۔۔۔ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتار دیا گیا اس شخص پر یہ قرآن ایک ہی بار؟ ہاں اسی طرح ہم نے اس کو بتدریج نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے ہم ثابت و مضبوط رکھیں آپ کے دل کو اے پیغمبر اور اسی لیے ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سنایا
۳۳۔۔۔ اور یہ لوگ نہیں لاتے آپ کے پاس کوئی مثال اے پیغمبر مگر ہم اس کے مقابلے میں لے آتے ہیں آپ کے پاس حق اور اس کی نہایت عمدہ تفسیر
۳۴۔۔۔ جن لوگوں کو ان کے مونہوں کے بل گھسیٹ کر دوزخ کی طرف لایا جائے گا وہ اپنے ٹھکانے کے اعتبار سے بھی بہت برے ہیں اور اپنے راستے کے اعتبار سے بھی سب سے بدتر و گمراہ
۳۵۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب ہدایت دی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو بھی وزیر بنایا
۳۶۔۔۔ پھر ہم نے ان دونوں کو حکم دیا کہ جاؤ تم دونوں ان لوگوں کی طرف جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو پھر تنبیہ و انداز کے بعد بھی جب وہ لوگ باز نہ آئے تو ہم نے ان سب کو دائمی تباہی کے گھاٹ اتار دیا نہایت بری طرح
۳۷۔۔۔ اور قوم نوح کو بھی ہم نے غرق کر دیا جب کہ انہوں نے جھٹلایا ہمارے رسولوں کو اور ان کو ہم نے ایک نشانی بنا دیا لوگوں کی عبرت کے لیے اور تیار کر رکھا ہے ہم نے ایسے ظالموں کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب آخرت میں
۳۸۔۔۔ اور عاد ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان کی دوسری بہت سی قوموں کو بھی ہم نے ملیامیٹ کر دیا
۳۹۔۔۔ ان میں سے ہر ایک شخص کو سمجھانے کے لیے پہلے تو ہم نے بڑی موثر اور بلیغ مثالیں بیان کیں اور آخرکار نہ ماننے پر ہم نے ان سب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا
۴۰۔۔۔ اور یقینی طور پر ان لوگوں کا گزر اس بستی پر بھی ہوتا ہے جس پر ایک بڑی بری بارش برسائی جا چکی ہے تو کیا یہ لوگ اس کو دیکھتے نہیں نگاہِ عبرت و بصیرت سے ؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی امید اور توقع ہی نہیں رکھتے
۴۱۔۔۔ اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں اے پیغمبر تو ان کا اس کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا کہ آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا یہی ہیں وہ صاحب جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟
۴۲۔۔۔ اس شخص نے تو ہمیں اپنے معبودوں سے ہی ہٹا دیا تھا اگر ہم مضبوطی سے ان پر جم نہ گئے ہوتے اور عنقریب موت کا جھٹکا لگتے ہی جب کہ یہ لوگ عذاب کو دیکھیں گے تو ان کو خود اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ کون زیادہ بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے ۔
۴۳۔۔۔ کیا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنے نفسانی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہو؟ کیا آپ اس کو ہدایت پر لانے کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں ؟
۴۴۔۔۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ،
۴۵۔۔۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کس طرح پھیلا دیا سائے کو؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ہمیشہ ایک ہی حالت پر ٹھہرائے رکھتا پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنا دیا
۴۶۔۔۔ پھر ہم اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں
۴۷۔۔۔ اور وہ اللہ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات کو ایک عظیم الشان لباس بنا دیا اور نیند کو ایک کامل سکون کی چیز اور اس نے بنایا دن کو دوبارہ اٹھنے کا وقت
۴۸۔۔۔ اور وہ اللہ وہی تو ہے جو اپنی رحمتِ بے پایاں اور کرم بے نہایت سے اپنی رحمت کی بارش سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے خوشخبری دینے کو اور ہم نے ایک نہایت ہی حکیمانہ نظام کے تحت اتارا آسمان سے پاک پانی
۴۹۔۔۔ تاکہ زندہ کر دیں ہم اس کے ذریعے کسی مردہ پڑی ہوئی زمین کو اور تاکہ اس طرح ہم سیرابی کا بندوبست کریں اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کے لیے
۵۰۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے اس کو ان کے درمیان طرح طرح سے پھیرا ہے تاکہ لوگ سبق لیں مگر لوگوں کی اکثریت ایمان و یقین سے متعلق ہر اچھے روئیے کا انکار ہی کرتی رہی اور انہوں نے نہیں اپنایا مگر کفر اور ناشکری ہی کو
۵۱۔۔۔ اور اگر ہم چاہتے تو آپ کی زندگی ہی میں اے پیغمبر! ہر بستی میں اٹھا کھڑا کرتے کہ ایک نذیر
۵۲۔۔۔ پس کبھی کافروں کا کہنا نہیں ماننا اور ان سے جہاد کرو اس قرآن کے ذریعے بہت بڑا جہاد
۵۳۔۔۔ اور وہی تو ہے جس نے ملا رکھا ہے دو سمندروں کو اس حیرت انگیز اور پر حکمت طریقے سے کہ ان میں سے ایک تو نہایت لذیذ و شیریں اور دوسرا انتہائی تلخ و شور اور دونوں کے درمیان اس نے حائل کر رکھا ہے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ایک عظیم الشان پردہ اور ایک نہایت ہی مضبوط اور مستحکم آڑ
۵۴۔۔۔ اور وہ وہی ہے جس نے پانی سے پیدا فرمایا انسان جیسی عظیم الشان مخلوق کو پھر مزید کرم یہ فرمایا کہ اس کو نسب اور سسرال کے دو الگ الگ سلسلوں والا بنا دیا واقعی تمہارا رب بڑا ہی قدرت والا ہے
۵۵۔۔۔ مگر یہ لوگ ہیں کہ اس سب کے باوجود پوجتے پکارتے ہیں ایسی بے حقیقت چیزوں کو جو ان کو نہ کچھ نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کافر تو اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار و پشت پناہ بنا ہوا ہے
۵۶۔۔۔ اور انہیں بھیجا ہم نے آپ کو اے پیغمبر! مگر خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر
۵۷۔۔۔ ان سے کہو کہ میں تم سے تبلیغ حق کے اس کام پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا مگر یہ کہ جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے
۵۸۔۔۔ اور بھروسہ ہمیشہ اس زندہ جاوید ہستی پر رکھو جس کو کبھی موت نہیں آنی اور تسبیح کرتے رہا کرو اس کی حمد و ستائش کے ساتھ اور کافی ہے وہ وحدہٗ لاشریک اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر رہنے کو
۵۹۔۔۔ جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام کائنات کو چھ دنوں میں پھر وہ جلوہ فرما ہو گیا عرش پر وہ بڑا ہی مہربان ہے اس کی شان کے بارہ میں پوچھو کسی بڑے باخبر سے
۶۰۔۔۔ اور ان کی بدبختی کا یہ عالم ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سجدہ ریز ہو جاؤ تم اس خدائے مہربان کے آگے تو یہ پوری ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ رحمان کیا ہوتا ہے ؟ کیا ہم ہر ایسی چیز کے آگے سجدہ ریز ہو جایا کریں جس کا آپ ہمیں حکم دیں اور اس طرح سے ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوتا ہے ،
۶۱۔۔۔ بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جس نے بنا دئے آسمان میں عظیم الشان برج اور رکھ دیا اس نے اس میں اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ایک عظٰم الشان چراغ اور ایک چمکتا دمکتا روشن چاند
۶۲۔۔۔ اور وہ وہی ہے جس نے بنایا رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والے تاکہ یہ سامان عبرت و بصیرت ہوں ہر اس شخص کے لیے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکرگزار بننا چاہے
۶۳۔۔۔ اور خدائے رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں عاجزی اور فروتنی کے ساتھ اور جب ان سے الجھنے اور جھگڑنے لگیں جہالت والے تو یہ ان کے جواب میں سلامتی والی بات کہہ دیتے ہیں
۶۴۔۔۔ اور جو اپنی راتیں گزارتے ہیں اپنے رب کے حضور سجدہ ریزیوں اور قیام کی حالت میں
۶۵۔۔۔ اور جو دعائیں کرتے ہیں اپنے رب کے حضور کہ اے ہمارے رب پھیر دے ہم سے جہنم کا عذاب بے شک اس کا عذاب ایک بڑی ہی ہولناک اور چمٹ جانی والی شے ہے ۔
۶۶۔۔۔ بے شک وہ بڑا ہی ٹھکانا اور بری قیام گاہ ہے
۶۷۔۔۔ اور جو کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ کنجوسی بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے ۔
۶۸۔۔۔ اور جو نہ تو اﷲ کے سوا کسی اور معبود کو پکارتے ہیں اور نہ وہ کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل کو اﷲ نے حرام کر رکھا ہو مگر حق کے ساتھ اور نہ ہی وہ زنا و بدکاری کا ارتکاب کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنے کیے کرائے کی سزا بہر حال پائے گا
۶۹۔۔۔ بڑھایا جاتا رہے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور اس کو ہمیشہ رہنا ہو گا اس میں نہایت ہی ذلت و خواری کے ساتھ
۷۰۔۔۔ مگر جو سچی توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور وہ کام بھی نیک کرے تو ایسے لوگوں کی برائیون کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا، اور اللہ تو بڑا ہی بخشنہار نہایت ہی مہربان ہے
۷۱۔۔۔ اور جو کوئی سچی توبہ کر لے اور وہ کام بھی نیک کرے تو یقیناً وہ صحیح معنوں میں پلٹ آئے گا اپنے رب کی رحمت و عنایت کی طرف
۷۲۔۔۔ نیز خدائے رحمان کے بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ گواہ نہیں بنتے جھوٹ پر اور جب کسی بے ہودہ چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو وہ نگاہیں پھیر کر شریفانہ گزر جاتے ہیں
۷۳۔۔۔ اور جب ان کو نصیحت و یاددھانی کی جاتی ہے ان کے رب کی آیتوں کے ذریعے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں رہ جاتے
۷۴۔۔۔ اور جو اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب عطا فرما دے ہمیں اپنی بیویوں اور اور اپنی اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور بنا دے ہمیں امام و پیشوا متقی اور پرہیزگاروں کا
۷۵۔۔۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کو جنت کی وہ منزل بلند نصیب ہو گی اس لیے کہ انہوں نے زندگی بھر راہ حق پر صبر و استقامت سے کام لیا ان کا وہاں پر دعا و سلام سے استقبال کیا جائے گا
۷۶۔۔۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے وہ کیا ہی عمدہ ٹھکانہ ہو گا اور کیسی ہی خوب ابدی قیام کی جگہ ہو گی،
۷۷۔۔۔ ان سے صاف کہہ دو کہ میرے رب کو تمہاری کیا پرواہ ہے اگر تم لوگ اس کو نہ پکارو اب تم قطعی طور پر جھٹلا چکے ہو سو عنقریب ہی یہ تکذیب تمہارے لیے ایک چمٹ کر رہ جانے والا عذاب بن جائے گی۔
۱. سو اس آیت کریمہ سے قرآن حکیم کی عظمت شان بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس کے اتارنے کے مقصد اور اس کی غرض و غایت بھی، سو لفظ فرقان سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ کتاب عظیم حق اور باطل کے درمیان فرق کو پوری طرح واضح کر دینے والی کتاب ہے، اور ایسی اور اس طور پر کہ اس جیسی دوسری کوئی کتاب نہ ہوتی ہے نہ قیامت تک ہونا ممکن ہے اور دوسرا پہلو اس کی عظمت شان کا یہ ہے کہ اس کو اتارا اس ذات اقدس و اعلیٰ نے جس کی عظمتوں کا کوئی کنارہ نہیں، اس لئے اس کی اس کتاب عظیم کی عظمت بھی ناپیدا کنار ہے اور اس کو اتارا اس لئے گیا ہے، کہ دنیا جہاں کو اس کے انجام سے آگاہ اور خبردار کیا جاس کے، سو ایسے میں اس کتاب کی بے قدری و ناشکری بہت بڑا ظلم ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔
۳. اس ارشاد سے تمام معبودان من دون اللہ کی بے حقیقتی کو بھی ظاہر فرما دیا گیا، اور ان کے پجاریوں کی حماقت اور مت ماری کو بھی الٰہۃ کا لفظ عام ہے جو تمام معبودان مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کو شامل اور ان کو محیط ہے، خواہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ان مختلف مخلوقات سے ہو۔ جن کو لوگوں نے از خود اور اپنے طور پر اپنا معبود بنا کر پُوجا۔ جسے حضرات انبیاء ورسل اولیاء و صلحاء فرشتے و ملک جن و انس سیارے اور ستارے سورج و چاند اور درخت و دریا اور پہاڑ وغیرہ وغیرہ، اور خواہ وہ لکڑی پتھر وغیرہ کے وہ بت ہوں جن کو انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے گھڑا۔ اور بنایا ہو۔ مِنْ دُوْنِہٖ اور اٰلِہَۃ کے یہ دونوں لفظ اپنے عموم و شمول کے اعتبار سے ان سب ہی معبودان مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کو شامل ہیں، جیسا کہ تمام ثقہ اور معتبر مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے، اور ان کی بے حقیقتی کے اظہار و بیان کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ کسی بھی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے، اور یہ خود مخلوق ہیں اور یہ خود اپنے لئے بھی نہ کسی نفع و نقصان کا اختیار رکھتے ہیں۔ اور نہ موت و حیات، اور دوبارہ جی اٹھنے کا سو اسی سے ان کے پجاریوں کی محرومی و بدبختی اور ان کی مت ماری واضح ہو جاتی ہے، کہ یہ اس معبود برحق کو چھوڑ کر جو کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف اور ہر چیز کا خالق ہے یہ لوگ اس کو چھوڑ کر ایسی بے حقیقت چیزوں کی پوجا کرتے ہیں، جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، تو اس سے بڑھ کر محرومی اور بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے؟ والعیاذُ باللہ العظیم
۵. سو ان ظالموں کا قرآن حکیم کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ کوئی خدائی کلام نہیں جیسا کہ محمد کا دعویٰ ہے، بلکہ یہ پہلے لوگوں کے قصے اور ان کے افسانے ہیں، جو ان کی فرمائش پر کچھ لوگ ان کو لکھ کر دے دیتے ہیں، اور وہ صبح و شام ان پر پیش کئے جاتے ہیں، جن کو یہ شخص خدائی کلام کہہ کر آگے پیش کرتا ہے۔ اِکْتَتَبَ فَلَانٌ کے معنی اہل لغت اس طرح کرتے ہیں اَیْسَالَہ، اَنْ یَّکَتَبَ لَہ، یعنی اس نے اس سے فرمائش اور درخواست کی کہ وہ اس کے لئے لکھ دے، سو ان بدبختوں کا قرآن حکیم کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ شخص دوسروں سے لکھوائی گئی باتوں کو ہمارے سامنے وحی الٰہی کے نام سے پیش کرتا ہے، پس اس کی باتوں میں آنے کی اور اس کے پیش کردہ اس کلام اور اس کی تاثیر سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، والعیاذُ باللہ، اور یہ بات چونکہ ایک نہایت ہی لچر اور بالکل بے بنیاد بات تھی۔ کیونکہ اس طرح کی کوئی صورت اگر ممکن ہوتی تو خود یہ لوگ اس کی کوئی نظیر کیوں نہ پیش کر سکے۔ جبکہ قرآن ان کو اس بارہ واضح طور پر اور صاف و صریح چیلنج کرتا ہے، اور نہایت زور دار الفاظ میں چیلنج کرتا ہے، کہ اگر تم لوگوں کو ہمارے اتارے ہوئے اس قرآن کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک ہے تو تم اسی جیسی ایک سورت ہی بنا کر لاؤ۔ اور اس کے لئے تم اپنے سب حمایتیوں اور مددگاروں کو بھی بلا لو اللہ کے سوا، اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو۔ اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے اور ہرگز کر بھی نہیں سکو گے، تو تم بچو دوزخ کی اس ہولناک آگ سے جس کو تیار کیا گیا ہے کافروں کے لئے (البقرۃ۔۲۳۔۲۴) سو اس قدر صاف و صریح اور زوردار چیلنج کے باوجود اگر یہ لوگ اس کتاب حکیم جیسی ایک سورت بھی نہیں بنا سکتے۔ اور سب مل کر بھی ایسا نہیں کر سکتے تو پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ان کے اس الزام کی لغویت محتاج بیان نہیں۔ اسی لئے قرآن حکیم نے اس کی تردید کی بھی ضرورت نہیں سمجھی۔ کہ یہ بات صریح طور پر لغو اور بالبداہت ایک مہمل بات ہے، اور اس حد تک کہ شرم و حیا والا انسان اس کو زبان پر بھی نہیں لا سکتا۔
۹. سو ان کی یہ باتیں ان کی محرومی و بدبختی اور ان کی مت ماری کا پتہ دے رہی ہیں، اور حق کی مخالفت میں یہ لوگ اتنے اندھے اور اس قدر اُوندھے ہو گئے ہیں کہ ان کو عقل و خرد کی کوئی راہ سُوجھتی ہی نہیں، جس کے منہ میں جو آتا ہے بک دیتا ہے سو اس طرح ان کو عداوت حق کی یہ ایک نقد سزا، ان کی اس مت ماری کی صورت میں مل رہی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۱۰. یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس و اعلیٰ بڑی ہی برکت والی ذات ہے اس کے پاس نہ خزانوں کی کمی ہے، اور نہ باغوں کی وہ اگر چاہے تو آپ کو ایک نہیں کئی ایسے عظیم الشان باغوں سے نواز دے جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہوں، اور آپ کو بہت سے ایسے عظیم الشان محل اور ایوان عطا فرما دے جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر، کہ اس کے لئے ایسا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں، اور ایک دن یہ سب کچھ آپ کو ملنے والا ہے مگر یہ کوتاہ بیں ناقص فہم، اور محروم القمست لوگ چونکہ آخرت کے عقیدہ و یقین سے محروم ہیں، اس لئے ان کے نزدیک یہ دنیائے دُوں ہی سب کچھ ہے اس لئے یہ اپنے دنیاوی مال و اسباب کی بنا پر مست و مگن ہیں اور اپنے اسی کبر و غرور کی بناء پر یہ لوگ اللہ کے رسول کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اور حالانکہ یہ دنیا دارالانعام اور دارلجزاء نہیں بلکہ ابتلاء و آزمائش اور امتحان کا گھر ہے اس میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے اس کی اصل حیثیت ابتلاء و آزمائش ہی کی ہوتی ہے نہ کہ انعام اور جزاء کی۔ پس یہاں کی غربت بھی امتحان و آزمائش کا ذریعہ ہے، اور یہاں کی امارت و مالداری کی بھی یہی حیثیت ہے جزاء و سزا اور انعام کا گھر آخرت ہے، کامیابی اور ناکامی کا اصل فیصلہ وہیں ہو گا۔ کامیاب وہی ہو گا جو وہاں کامیاب ہوا۔ اور ناکام وہی ہو گا جو وہاں ناکام رہا۔ والعیاذُ باللہ اور وہاں کی اس حقیقی اور اَبَدی کامیابی سے سرفرازی انہی خوش نصیبوں کو نصیب ہو گی جنہوں نے اپنی دنیاوی زندگی کو اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے مطابق اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ گزارا ہو گا، خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اور کہیں کے بھی ہوں اور وہاں پر ناکام وہ ہونگے جنہوں نے دنیا میں حق سے منہ موڑا ہو گا، والعیاذُ باللہ
۱۴. اس سے دوزخیوں کے حال بد کی تصویر پیش فرما دی گئی کہ اول تو دوزخ کی وہ دہکتی بھڑکتی آگ جو ان کے لئے وہاں تیار کی گئی ہے وہ ان کو دور سے دیکھتے ہی غیظ و غضب سے بپھر کر اس طرح دھاڑنا شروع کر دے گی جس طرح کوئی بھوکا شیر دہاڑتا ہے، پھر ان کو اس کی کسی نہایت ہی تنگ و تاریک جگہ میں زنجیروں سے میں جگڑ کر ڈال دیا جائے گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(ابراہیم۔۴٩) نیز ارشاد فرمایا گیا۔اِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُّوْصَدَۃٌ فِیْ عَمْدٍ مُمَدَّدَۃٍ (الہمزہ۔٨۔٩) یعنی اس کو ان کے اوپر سے موندھ دیا گیا ہو گا، اور ان کو اس کے اندر لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہو گا، والعیاذُ باللہ تب یہ وہاں پر رہ رہ کر موت کو پکاریں گے کہ کسی طرح موت آ جائے تاکہ ان کو اس سے چھٹکارا مل سکے، مگر ان کو وہاں پر موت بھی نہیں آئے گی، بلکہ ان کو اس میں لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیَ والی زندگی گزارنا ہو گی۔ اور موت کو بلانے کے موقع پر ان کی تحقیر و تذلیل مزید کے طور پر ان سے کہا جائے گا کہ اب تم ایک موت کو نہیں بلکہ بہت سی موتوں کو بلاؤ، کیونکہ تم پر ایک سے بڑھ کر ایک عذاب آئے گا، ہر ایک پر تم لوگ موت کو بلاؤ۔ مگر اس کا فائدہ تم لوگوں کو بہر حال کچھ نہیں ہو گا۔ سوائے تمہاری آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ العظیم
۱۶. سو اس سے حضرت حق جَلَّ جَلَالُہ، کی شان کرم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اہل جنت کے لئے جنت سے سرفرازی کو اپنے ذمے لازم قرار دے رہا ہے اور اس کو اپنے اوپر ایک ایسا واجب الاداء وعدہ بتا رہا ہے کہ اس کے ایفاء کے لئے وہ اپنے آپ کو اپنے بندوں کے آگے ذمہ دار اور مسؤل ٹھہرا رہا ہے فَلَہ الْحَمْدُ ولہ الشُکرٌ بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحوال، وَفِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطنِ فی الحیاۃ۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اہل جنت کو وہاں پر کیسی شاہانہ زندگی نصیب ہو گی۔ ایسی شاہانہ جو کہ دنیا میں کسی بڑے سے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہو سکتی، کہ ان کی وہاں پر ہر خواہش پوری ہو گی۔ اور ظاہر ہے کہ یہ بات دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہو سکتی، ایسا کوئی بادشاہ اس دنیا میں نہ کبھی ہوا۔ اور نہ ہو سکتا ہے جس کی ہر خواہش پوری ہو، پھر ایک اور امتیازی اور انفرادی شان اہل جنت کی یہ بیان فرمائی گئی کہ ان کو وہاں کی ان عظیم الشان اور بے مثال نعمتوں میں ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا۔ نہ ان کو وہاں پر موت اور فنا سے سابقہ پڑے گا، اور نہ یہ کبھی وہاں سے خود نکلنا چاہیں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ اس طرح تصریح فرمائی گئی لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلاً (الکہف۔ ۱٠٨) اور نہ ان کو کبھی وہاں سے نکالا جائے گا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَاہُمْ مِّنْہَا بِمُخْرَجِیْنَ (الحجر۔ ۴٨) نیز اس سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ جنت اور اس کی نعیم مقیم سے سرفرازی کی اساس و بنیاد صرف تقویٰ ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے بچنا، یعنی ہر اس چیز سے بچنا جو رب کی ناراضگی کا باعث ہو۔ جس میں سرفہرست ہر قسم کے کفر و شرک اور الحاد سے سے بچنا ہے، اور اس کے بعد ہر قسم کی معصیت و نافرمانی سے بچنا اور اس سے دور رہنا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید۔ وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حال من الاحوال۔
۲۰. یعنی آپ سے پہلے اے پیغمبر ! جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے وہ سب اسی شان کے تھے کہ وہ کھایا پیا بھی کرتے تھے۔ عام بشری ضرورتوں کے لئے بازاروں میں بھی ان کا جانا آنا ہوا کرتا تھا، کہ یہ سب کے سب بشری عوارض و لوازم ان سب کے اندر موجود تھے کہ وہ سب بھی بشر ہی تھے اور کوئی بھی بشر اپنے بشری لوازم و عوارض سے معری نہیں ہو سکتا تو پھر ان منکرین و مکذبین کا ان بشری عوارض کی بناء پر آپ پر اعتراض کرنا کس طرح روا ہو سکتا ہے؟
پس تم میں سے غریب لوگ امیروں کے لئے ذریعہ آزمائش ہیں اور امیر لوگ غریبوں کے لئے امیروں کے لئے ان کے شکر کا امتحان ہے اور غریبوں کے لئے ان کے صبر کا سوا میر لوگ اپنے اس امتحان میں فیل اور ناکام ہو گئے، الا ماشاء اللہ وہ دنیاوی مال و دولت اور سامان عیش و عشرت کی بناء پر استکبار یعنی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر حق کے منکر اور اہل حق کے دشمن بن گئے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دین اللہ کی طرف سے ہوتا تو ان غریبوں اور قلاشوں کے بجائے ہم جیسے دولتمندوں اور دنیا داروں کو ملتا۔ کیا اس کے اہل اور مستحق یہی لوگ رہ گئے تھے؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے اس قول کا ذکر اس طرح فرمایا گیا، اَھٰؤُلَاءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا الایٰۃ (الانعام۔ ۵۳) اب یہاں پر اَتَصْبِرُوْنَ کے استفہامی اور تحریضی انداز سے اہل ایمان کو صبر پر ابھارا گیا ہے، کہ تمہارے دشمن تو شکر کے امتحان میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب تم صبر کے امتحان میں کامیابی کے عزم سے آگے بڑھو۔ تمہارا نگران اللہ ہے۔ وہ تمہیں بہر حال دیکھ رہا ہے۔
۲۱. سو ان لوگوں کی سرکشی اور ان کے اس کبر و غرور کا عالم یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس اللہ کے فرشتے آتے ہیں۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے تو آخر وہ ہمارے پاس کیوں نہیں آتے؟ یا ایسے کیوں نہیں ہوتا کہ اللہ خود بے حجاب ہو کر ہمارے سامنے آ جائے تاکہ ہم خود اپنی کھلی آنکھوں سے اس کو دیکھ لیں۔ اور یہ مطالبہ چونکہ بڑا ہی احمقانہ مطالبہ تھا۔ جو وہی لوگ کر سکتے تھے جو بڑے سر پھرے مغرور و متکبر اور پرلے درجے کے احمق ہوں۔ اس لئے ان کے اس مطالبے کا جواب دینے کے بجائے اس ارشاد ربانی سے ان کے اس کبر و غرور پر ضرب لگائی گئی، کہ ان لوگوں نے اپنے طور پر اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھ لیا، اور یہ اتنی بڑی سرکشی پر اتر آئے کہ خدا اور اس کے فرشتوں کو دیکھنے کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بھلا بندے کی کیا جان کہ وہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کو اس دنیا میں اور اپنی ان ناسوتی آنکھوں سے دیکھ سکے؟ ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتوں کو دیکھنا کیسا ہوتا ہے، خدا کو دیکھنا تو درکنار رہا۔ جب یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس روز ایسے مجرموں کے لئے کسی خوشی کا کوئی سامان نہیں ہو گا۔ بلکہ اس روز یہ چیخ چیخ کر پناہ پناہ پکار اٹھیں گے اور کسی مضبوط پناہ کی درخواست کریں گے۔
۲۷. سو اس سے ان ظالم لوگوں کے انجام اور ان کے حال بد کی تصویر پیش فرما دی گئی جو آج دنیا میں حق کے سچے پیروکاروں کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اور اس طرح کر کے ایسے لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں اور حق اور داعی حق کی بات کو سننے ماننے کے لئے تیار نہیں ہو رہے سو کشف حقائق اور ظہورِ نتائج کے اس یوم عظیم میں ایسے لوگ مارے حسرت و افسوس کے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے، اور ایسا ظالم انسان نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ کہے گا کاش کہ میں نے رسول کے راستے کو اپنایا ہوتا۔ اور فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا جس نے مجھے راہ حق و ہدایت سے پھیر دیا۔ اس کے بعد کہ میں راہ راست کی اس عظیم الشان نعمت اس سے سرفراز ہو چکا تھا۔
۲۹. خَذُوْل کے معنی وقت پر ساتھ چھوڑ دینے والا، بے وفا، دھوکے باز، اور غدار کے آتے ہیں۔ اور شیطان کا لفظ یہاں پر جنس کے معنی میں ہے۔ اس لئے یہ شیاطین انس وجن دونوں کو شامل ہے۔ سو دنیا میں تو ایسے ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی و مددگار اور لیڈر و پیرو بنے ہوتے ہیں۔ اور حق اور اہل حق کے خلاف ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر کام کرتے ہیں۔ اور اپنے جتھے اور پارٹی کے زور پر مست و مگن ہوتے ہیں لیکن آخرت کے اس یوم حساب میں جب نفسا نفسی کا عالم طاری ہو گا یہ ایک دوسرے پر لعنت ملامت کے ڈونگرے برسائیں گے۔ اور اپنے حال بد اور انجام سو کا الزام دوسروں کو دیں گے کہ تم نے ہمیں خراب کیا اور راہ حق سے محروم کر کے ہمیں ہلاکت و تباہی کی اس راہ پر ڈالا، اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَوْلَا اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ (سبا۔ ۳۱) جس کے جواب میں ان کے لیڈر پلیڈر اور ان کے پیرو گرو ان سے کہیں گے کہ نہیں بلکہ جرم خود تمہارا اپنا ہے۔ بَلْ کُنْتُمْ مُجْرِمِیْنَ (سبا۔۳۳) ان کی اس لعنت ملامت اور جوتا بازی کا نقشہ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر پیش فرمایا گیا، بہرکیف اس سے اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا کہ شیطان انسان کو دھوکہ دینے والا ہے۔ وہ اس کو راہ حق سے محروم کر کے پھر اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اس لئے شیاطین اور ان کے شرور وفتن سے ہمیشہ بچنے کی فکر و کوشش کرنی اور اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہئے، وباللہ التوفیق
۳۰. سو ایک طرف تو ان ظالم بدبختوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی محرومی اور بدبختی پر سرپیٹ رہے ہونگے اور اپنی اس محرومی کا الزام ایک دوسرے کو لگا رہے ہونگے، اور دوسری طرف پیغمبر بھی اپنے رب کے حضور یہ شکوہ پیش کریں گے کہ اے میرے رب! میں نے تو اس قرآن کو پورے صدق و اخلاص اور محنت و دلسوزی کے ساتھ ان لوگوں کے پاس پہنچا دیا مگر میری قوم نے اس کی کوئی قدر نہ کی۔ بلکہ بڑی بے قدری کے ساتھ اس کو ٹھکرا دیا۔ سو پیغمبر کا یہ شکوہ ان بدبختوں کے تابوت میں آخری کیل ہو گا۔ جس کے بعد ان کے لئے زبان کھولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ سو ہجران قرآن محرومیوں کی محرومی اور باعث ہلاکت و تباہی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔
۳۲. سو قرآن حکیم کو تھوڑا تھوڑا اور آہستہ آہستہ اتارنے کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا گیا تاکہ اس طرح ہم آپ کے دل کو مضبوط کریں کہ اس طرح آپ کو برابر اور لگاتار روحانی کمک بھی پہنچتی رہے گی، اور آپ کے لئے اس کو سنبھالنا اور برداشت کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ اور دوسرا مقصد اس کا یہ بیان فرمایا گیا کہ تاکہ لوگ اس کو سیکھ اور سمجھ سکیں۔ پس اگر اس پوری کتاب کو یکبارگی نازل کر دیا جاتا تو نہ آپ اس بار گراں کا تحمل کر سکتے، اور نہ ہی لوگ اس کو پوری طرح سمجھ سکتے۔ اور نہ اتمام حجت کا مقصد پورا ہو سکتا۔ پس منکرین و مکذبین کا یہ اعتراض غلط ہے کہ اس قرآن کو یکبارگی کیوں نہیں اتار دیا گیا۔ کیونکہ ایسا کرنا اگرچہ ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں تھا مگر اس طرح اتارنے سے یہ دونوں اہم اور بنیادی مقصد صحیح طور پر پورے نہیں ہو سکتے تھے اور یہی تقاضائے عقل و فطرت ہے ایک استاد اگر ایک ہی نشست میں اپنے شاگرد کو پوری کتاب سنا دے تو کیا وہ اس کو سمجھ کر محفوظ رکھ سکتا ہے؟ جب نہیں اور یقیناً نہیں، تو پھر قرآن حکیم کے آہستے آہستے اتارنے پر منکرین و مکذبین کا یہ اعتراض آخر کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ اور اس کی کوئی وقعت کس طرح ہو سکتی ہے؟
۳۷. یعنی ظالموں کو دنیا میں جن مختلف عذابوں میں مبتلاء کیا گیا تو ان کا معاملہ اسی سے ختم نہیں ہو گیا بلکہ ان کے لئے آخرت میں ایک بڑا ہی دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے جو ان کو اپنے کفر و انکار اور ظلم و استکبار کے نتیجے میں وہاں بھگتنا ہو گا۔ اور ہمیشہ کے لئے بھگتنا ہو گا۔ سو گذشتہ قوموں کے انجام کے ذکر اور ان کے حوالے سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ کفر و انکار، اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے ایسے لوگوں کو مہلت اور ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہر حال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے اپنے وقت پر بہر حال ختم ہو جانا ہوتا ہے جیسا کہ ان گذشتہ قوموں کے ساتھ بالفعل ہوا۔ اور ان میں سب سے زیادہ اور لمبی مدت و مہلت قوم نوح کو ملی۔ جن کے اندر حضرت نوح نے قرآن حکیم کی تصریح کے مطابق ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ کی، مگر انہوں نے حق کو قبول نہ کیا، بلکہ وہ اللہ کے رسولوں کی برابر تکذیب ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مبتلاء عذاب ہو گئے۔ والعیاذ باللہ، اسی لئے یہاں پر ان کے بارے میں بطور خاص ارشاد فرمایا گیا وَجَعَلْنَاھمْ للِنَّاسِ ایَٰۃً یعنی ہم نے ان کو لوگوں کی عبرت کے لئے ایک عظیم الشان نشانی بنا دیا، تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرِ؟سو لوگوں کو چاہیے کہ اس سے درس عبرت لیں، اور اپنی روش کی اصلاح کر یں، وباللہ التوفیق،
۳۹. ضرب مثل سے یہاں پر مراد ہے کہ حقائق کو واضح کرنے کے لئے توضیح وتشریح کے تمام تقاضوں اور جملہ لوازم کو پورا کیا گیا اور ان کو اس طرح اور اس حد تک نکھار کر رکھ دیا گیا کہ ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے سوا کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ سو تمام انبیاء و رسل نے ایسے ہی کیا، اور حقائق کو انہوں نے پوری طرح واضح کر دیا۔ مگر ہٹ دھرموں نے پھر بھی نہ مانا۔ یہاں تک کہ قانون قدرت کے مطابق آخرکار عذاب الٰہی کا کوڑا ان پر برس کر رہا۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا فَصَبَّ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادٍ (الفجر۔۱۳۔۱۴) یعنی آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا یقیناً تمہارا رب گھات میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ،
۴۲. یعنی ان کے عناد و ٹ دھرمی اور ان کی محرومی و بدبختی کا عالم یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے رسول کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اور طنز و تحقیر کے طور پر کہتے ہیں کہ کیا یہی ہیں وہ صاحب جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ انہوں نے تو ہمیں اپنے معبودوں سے برگشتہ کر دیا تھا۔ اگر ہم ان کی پُوجا پاٹ کر جم نہ گئے ہوتے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ آج تو یہ لوگ اپنی اس حماقت و محرومی پر افسوس کرنے کے بجائے الٹا اس پر فخر کر رہے ہیں، لیکن کل جب حقائق منکشف ہو کر ان کے سامنے آئیں گے۔ تب ان کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ پیغمبر کی بتائی ہوئی راہ سے منہ موڑ کر انہوں نے اپنے لئے کتنے بڑے خسارے کا سامان کیا تھا، اور اپنے اس سُوئے اختیار کے نتیجے میں وہ ہلاکت و تباہی کے کس ہولناک گڑھے میں گرے اور ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہو گئے سو ان کو اپنی گمراہی اور محرومی کا اس وقت پورا پتہ چل جائے گا، اور یہ اس لئے کہ گمراہوں کو انکی گمراہی کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہے۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی خواہشات اور خرمستیوں میں اس طرح مست و مگن ہوتے ہیں کہ حق بات پر کان دھرتے ہی نہیں، اور اس کو سننے ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اور کوئی تنبیہ و تذکیر ان پر اثر نہیں کرتی، والعیاذُ باللہ العظیم
۴۷. سو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی معرفت سے سرشاری کے لئے روز و شب کی آمدورفت کے اس عظیم الشان اور پُر حکمت نظام میں غور و فکر سے کام لینے والوں کے لئے بڑے وقیع اور ایمان افروز دلائل ہیں۔ سو وہی وحدہٗ لاشریک ہے جو اپنی بے پایاں قدرت و حکمت اور بے نہایت رحمت و عنایت سے شب تاریک کی اس عظیم الشان اور بے مثال چادر کو تمہارے آرام و راحت اور سکون کے لئے تم لوگوں پر تن دیتا ہے جس کے راحت بخش سائے میں تم لوگ سکون و راحت کی نیند سوتے ہو اور اسی نے تمہارے لئے تمہاری نیند کو ایسی راحت بخش چیز بنایا کہ اس سے تمہاری ساری تھکان اور تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ تمہاری کھوئی قوت دوبارہ بحال ہو جاتی ہے، اور تم از سر نو تازہ دم ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہو۔ پھر رات کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی کے بعد وہی تمہارے لئے دن کے اجالے کا سامان کرتا ہے۔ تاکہ اس میں تم اپنی روزی بھی تلاش کر سکو اور اسی سے بعث بعدالموت کی تذکیر و یاد دہانی بھی حاصل کر سکو۔ اور یہ نہایت ہی پُرحکمت نظام اس کائنات میں ہر وقت نہایت پابندی کے ساتھ جاری و ساری ہے، جس سے یہ عظیم الشان حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس خالق و مالک کی توجہ اور اس کی رحمت و عنایت اس کائنات پر ہر لمحہ و لحظہ جاری و ساری رہتی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، جس کا تقاضا ہے کہ انسان ہمیشہ اور ہر حال میں اور دل و جان سے اسی وحدہٗ لاشریک کے حضور جھک جائے اور جھکا جھکا ہی رہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،
۴۹. سو باران رحمت کے اتارنے، اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنے، بہت سی مخلوق کی سیرابی کا انتظام کرنے اور بارش سے پہلے بارش کی خوشخبری سنانے والی ہوائیں بھیجنے کے ان تمام کاموں میں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت بے پایاں، اس کی حکمت بے نہایت اور اس کی رحمت بے غایت، کے عظیم الشان دلائل ہیں۔ اور جب ان میں سے کسی بھی کام میں اس وحدہٗ لاشریک کا کوئی بھی شریک نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے اس میں کسی بھی اور ہستی کو شریک کرنا ظلم عظیم ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم۔ نیز قدرت کے ان سب کاموں اور اس کی ان تمام شانوں کے اندر یہ عظیم الشان درس بھی ہے کہ جس خالق کل اور مالک مطلق نے انسان کی مادی ضرورتوں کی تکمیل و تحصیل کے لئے اس قدر عظیم الشان اور اتنا پُر حکمت انتظام فرمایا ہے کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کا کوئی سامان نہ کرے؟ جبکہ جسم و روح کے اس مرکب میں اصل چیز روح ہی ہے، سو اسی کے لئے اس نے وحی کا مقدس سلسلہ جاری فرمایا، جس کا اختتام اور اس کی تکمیل امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن حکیم کی تنزیل سے فرما دی گئی۔ جو کہ تمام آسمانی کتابوں کی خاتم اور ان کی مہیمن کتاب ہے، پس اب فوز و فلاح اسی پیغمبر آخر الزمان کی پیروی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کردہ اسی کتاب حکیم سے وابستگی میں ہے، اور بس اس کے سوا نجات و فلاح کی دوسری کوئی راہ ممکن نہیں، نیز باران رحمت کے ذریعے مردہ پڑی ہوئی زمین کو زندہ کرنے میں حیات بعدالموت کی تذکیر و یاد دہانی بھی ہے۔ نیز کائنات کے اندر رونما ہونے والے ان حکمتوں بھرے تغیرات سے یہ عظیم الشان درس عبرت و بصیرت بھی ملتا ہے، کہ یہ سب کچھ جس انسان کے بھلے اور فائدے کے لئے کیا جاتا ہے کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ خود اس کا وجود عبث و بیکار ہو؟پس لازما اس کے لئے ایک یوم حساب و جزا کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ اس میں انسان کا محاسبہ ہو، اور حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کی عطاء فرمودہ ان عظیم الشان نعمتوں کے بارے میں اس سے پوچھ ہو کہ ان کا اس نے کیا حق اداء کیا؟ تاکہ اس کے نتیجے میں شکر گزاروں کو انکے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے۔ اور ناشکروں کو ان کی ناشکری اور کفران نعمت کی سزا ملے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں اور عملی طور پر اور نتائج کے اعتبار سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو سکے کہ حکمتوں بھری اس کائنات کا وجود عبث و بیکار نہیں تھا جو کہ عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔ پس کائنات میں واقع ہونے والے ان عظیم الشان تغیرات میں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے وجود باوجود اس کی توحید و وحدانیت، اس کی صفات قدرت و حکمت، اور پیغمبر کی بعثت و رسالت، اور ان کی صداقت و حقانیت بعث بعدالموت اور قیامت و آخرت سب کے لئے عظیم الشان دلائل موجود ہیں، مگر انہی کے لئے جو ان میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، سبحانہ و تعالیٰ، سو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کائنات کی یہ عظیم الشان اور کھلی کتاب جو ہمارے سامنے موجود ہے، کتنی عظیم الشان کتاب ہے، اور گوناگوں نعمتوں کے علاوہ کیا کچھ درسہائے عبرت و صیرت پائے جاتے ہیں، فللّٰہ الحمد والمنہ ولہ الشکر جل وعلا
۵۷. اس آیت کریمہ سے صبر و توکل کے صحیح طریقے کی بھی تعلیم و تلقین فرما دی گئی۔ اور اس کے حصول کے ذریعے و وسیلے کی بھی اور اس کی نتیجہ و انجام سے بھی آگہی بخش دی گئی۔ سو پہلی بات تو اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اس ذات واحد پر رکھو جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہیگی، جس کو کبھی موت نہیں آنے والی، یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک پر، کیونکہ یہ شان صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی ہے پس اس کے سوا جنہوں نے اوروں پر تکیہ و بھروسہ کر رکھا ہے۔ خواہ وہ کوئی زندہ یا مردہ ہستی ہو۔ یا کوئی لکڑی پتھر وغیرہ کا خود ساختہ بت یا کوئی فرضی اور وہمی من گھڑت سرکار وغیرہ وغیرہ تو ایسے تمام لوگ سراسر خسارے میں ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز بھروسہ و اعتماد اور توکل کے لائق نہ ہے نہ ہو سکتی ہے اور اس توکل و بھروسہ کے حصول اور اس سے سرفرازی کے لئے طریقہ یہ بتایا گیا، کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کی جائے۔ کیونکہ ہر خوبی کا مالک اور ہر خوبی سے سرفراز کرنے والا وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور وہی ہے جو ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک، اور اس سے اعلیٰ و بالا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اور پھر اس کے نتیجہ و انجام سے بھی آگاہ فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ اس لئے وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہو گا۔ پس اسی پر بھروسے کرنے والے اس کے یہاں سرخرو و آبرو مند ہونگے۔ اور اس کے برعکس دوسروں پر بھروسہ کرنے والے محروم و ناکام اور جنہوں نے اس کے سوا اوروں کو پوجا پکارا ہو گا ان کو اس کے یہاں جوابدہی کرنا ہو گی، کہ یہ سب شرک اور سنگین جرم ہے، والعیاذ باللہ
۶۲. یہاں پر تذکر اور شکر کے دو فعلوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو یہ دونوں اہم مطالب و مقاصد میں سے ہیں، ان میں باہم فرق یہ ہے کہ تَذَکَرُّ عقل کا فعل ہے اور شکر دل کا، اور یہ دونوں دارین کی سعادت و فلاح سے سرفرازی کے اہم ذریعے ہیں پس انسان اگر زمین و آسمان کی اس حکمتوں بھری کائنات میں ہر طرف پھیلی بکھری عظیم الشان نعمتوں میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے تو وہ دل و جان سے حضرت واہب مطلق جل جلالہ، کے حضور جھک جھک جائے، اور اس کے ذکر و شکر سے رطب اللسان ہو جائے اور اس طرح یہ نعمتیں اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی و سرشاری کا ذریعہ و وسیلہ بن جائیں۔ اور آخرت سے پہلے یہ دنیا بھی اس کے لئے جنت نظیر بن جائے۔ لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ اس بارہ صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیتا ہی نہیں، وہ یا تو محض اس کے مادی فوائد و منافع کے حصول کے لئے سوچتا ہے اور طرح طرح سے ان سے مستفید و فیضیاب ہوتا ہے مگر حضرت واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کو بھول جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ حیوان محض بن کر رہ جاتا ہے بلکہ اس سے بھی نیچے گر کر وہ بَلْ ہُمْ اَضَلَّ کا مصداق بن جاتا ہے اور اَسْفَل السافلین بن کر رہ جاتا ہے، یا وہ انکی ظاہری چکا چوند اور انکے ظاہری فوائد و منافع کو دیکھتے ہوئے انہی کو معبود قرار دے کر انہی کے آگے سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور وہ سورج و چاند، اور پانی اور آگ وغیرہ کی پوجا پاٹ کی ذلت اٹھا کر اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی کے دائمی گڑھے میں جا گراتا ہے، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم مِنْ کُلِّ زَیْغِ وَّضلال۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین،
۶۷. سو اس سے عِبَادُ الرَّحْمٰن یعنی اللہ کے ان خاص بندوں کی انفاق و خرچ کے سلسلہ میں روش کو بیان فرمایا گیا ہے، کہ نہ تو وہ اسراف اور فضول خرچی سے کام لیتے ہیں، اور نہ بخل اور کنجوسی سے، بلکہ ان کا معاملہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان توسط واعتدال پر مبنی ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے مالوں میں دوسروں کا بھی حق ہے اس لئے وہ فضول خرچی سے بچ کر ضروریات کی تکمیل پر اکتفاء کرتے ہیں تاکہ دوسرے اہل حقوق کے حقوق بھی اداء کر سکیں اور اسطرح ان کا بھی بھلا ہو سکے، اور توسط و اعتدال کی یہی راہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب اور پسندیدہ راہ ہے۔
۶۷. اثام کے معنی اہل لغت نے یہاں پر نتیجہ گناہ کے کئے ہیں، اور کسی فعل یا اسم کو بول کر اس سے اس کا ثمرہ و نتیجہ مراد لینا عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے جیسا کہ سَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا میں بھی فرمایا گیا ہے۔ جس میں دراصل بلاغت کا یہ اسلوب کار فرما ہوتا ہے کہ ایسے فعل پر اس کے نتیجے کا مرتب ہونا ایک طبعی اور لازمی امر ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، بہرکیف اس آیت کریمہ میں ذکر فرمودہ یہ تینوں جرائم یعنی شرک، قتل، اور زنا حقوق اللہ اور حقوق العباد کے سلسلے کے سب سے بڑے اور نہایت سنگین جرائم میں سے ہیں انکی شناعت و قباحت پر تمام آسمانی شرائع و مذاہب کا انفاق رہا ہے، اس لئے فرمایا گیا کہ جو لوگ ان کے مرتکب ہونگے وہ ان کے انجام سے لازماً دوچار ہو کر رہیں گے۔ والعیاذ باللّٰہ، جَلَّ وَعَلَا بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال۔
۶۹. یعنی جو لوگ ان سنگین جرائم میں سے کسی جرم کے مرتکب ہونگے قیامت کے روز ان کے عذاب میں اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا، والعیاذ باللہ، یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ مُضَاعَفَۃً کے اصل معنی کسی شیئ میں اضافہ کرنے کے ہوتے ہیں، خواہ وہ دو گناہ ہو، یا اس سے زیادہ اور اس لفظ کے استعمالات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر تدریجی اضافے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، جیسا کہ وَلَا تَاْکُلُوا الرَّبٰوا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً میں ہے، سو ان جرائم کے مرتکب لوگوں کے عذاب میں تدریجی طور پر اضافہ ہوتا جائے گا یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ کچھ سزا بھگت کر چھوٹ جائیں۔ یا ان کے عذاب میں کچھ تخفیف ہو جائے، بلکہ ان کے عذاب میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور ان کو نہایت ذلت کے ساتھ اس بڑھتے چڑھتے عذاب میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا، سو اس سے کفر وشرک، قتل ناحق، اور زنا و بدکاری کے ان کبائر کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم
۷۲. لغو سے مراد ایسی بیکار اور لایعنی باتیں ہیں جو ثقہ اور سنجیدہ لوگوں کے شایان شان نہیں ہوتیں، جبکہ زُور کا اطلاق کذب اور باطل پر ہوتا ہے اور یَشْہَدُوْنَ کا لفظ شہادت سے بھی ماخوذ ہو سکتا ہے، جس کے معنی گواہی دینے کے ہوتے ہیں، اور شہود سے بھی مشتق ہو سکتا ہے جس کے معنی حاضر ہونے کے ہوتے ہیں، سو ایسے لوگ نہ تو کبھی جھوٹی گواہی دیتے ہیں، اور نہ کسی باطل کام میں شریک ہوتے ہیں، اور اگر ان کو کبھی کسی لغو چیز کے پاس سے گزرنا پڑ جائے تو نہایت شرافت و وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک صفائی پسند اور پاکیزہ انسان کسی گندی جگہ سے اپنے آپ کو بچا کر نکل جاتا ہے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، اور زور کا لفظ اس لحاظ سے ہر برائی کو شامل ہے کہ ہر برائی پر شیطان کا ملمع ہوتا ہے جس سے انسان کو دھوکہ لگتا ہے، ورنہ برائی اگر اس ظاہری ملمع سے عاری ہو کر اپنی اصل شکل میں سامنے آ جائے تو کوئی اس کے قریب بھی نہ پھٹکے، والعیاذ باللہ العظیم
۷۷. یعنی تمہاری قدر و قیمت اور تمہارا کوئی وزن و اعتبار صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ تم لوگ اپنے رب کو پکارو۔ اور اسی کی عبادت و بندگی کرو۔ کہ یہی اس کا تم لوگوں پر حق ہے اور اسی مقصد کے لئے اس نے تم کو پیدا فرمایا، اور وجود بخشا ہے اور اسی میں تمہارا بھلا ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، یہ چیز تمہارے اندر اگر موجود نہ ہو تو پھر تمہارے اور ایک لکڑی پتھر وغیرہ جیسی کسی عام مخلوق کے درمیان آخر کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ اور تمہارا رب اور تمہارا خالق چونکہ رحمان و رحیم اور بڑا ہی مہربان ہے، اس لئے وہ تم لوگوں کو حق کی طرف بلاتا ہے، تاکہ خود تمہارا بھلا ہو۔ سو حق و ہدایت کی جس راہ کی طرف میں تم لوگوں کو بلا رہا ہوں اس میں سراسر تمہارا ہی بھلا اور فائدہ ہے، فی الحال بھی اور فی المال بھی میری یا میرے رب کی اس میں کسی بھی طرح کی نہ کوئی غرض ہے نہ فائدہ سو اگر تم لوگوں نے میری اس دعوت حق کو جھٹلا دیا تو اس کا بھگتان تم لوگوں کو بہر حال بھگتنا پڑے گا۔ کہ وہ تکذیب حق کا لازمی نتیجہ ہے جس سے عنقریب تم لوگوں کو سابقہ پیش آکر رہے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ رسولوں کی تکذیب کا نتیجہ و انجام یہی ہوتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم وبہٰذا قَدْ تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ الفرقان بحمد اللّٰہ تعالیٰ و توفیقہ و عنایتہ جل وعلا، والحمد لَہ، سبحانہ و تعالیٰ قبل کُل شیئ وبعد کل شیئ