اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ محض اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہیں ہو گی؟
۳۔۔۔ حالانکہ ہم نے ان لوگوں کی بھی کڑی آزمائشیں کیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں سو اللہ کو ضرور دیکھنا ہے ان کو جو سچے ہیں ان کو آزمائش کی بھٹی سے گزار کر اور اس نے ضرور دیکھنا ہے ان کو بھی جو جھوٹے ہیں
۴۔۔۔ کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کرتے جا رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ؟ بڑا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں
۵۔۔۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو تو وہ اس کے لئے تیاری کرتا رہے کہ بے شک اللہ کے مقررہ کردہ وقت نے بہر حال پھر آ کر رہنا ہے اور وہی ہے سننے والا ہر کسی کی اور جاننے والا سب کچھ
۶۔۔۔ اور واضح رہے کہ جس نے محنت و مشقت کی تو سوائے اس کے نہیں کہ وہ محنت و مشقت اپنے ہی لئے کرتا ہے ورنہ اللہ تو قطعی طور پر اور ہر لحاظ سے بے نیاز ہے سب جہانوں سے
۷۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے تو ہم ضرور مٹا دیں گے ان سے ان کی برائیاں اور ان کو نہایت عمدہ بدلہ دیں گے ان کے ان کاموں کا جو وہ کرتے رہے تھے
۸۔۔۔ دنیا میں اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا ہے اس کے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر ہو تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے کسی ایسی چیز کو جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا نہیں ماننا تم سب کو آخرکار لوٹ کر میری ہی طرف آنا ہے تب میں بتا دوں گا تم کو وہ سب کچھ جو تم لوگ زندگی بھر کرتے رہے تھے
۹۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے ان کو ہم ضرور داخل کر دیں گے ان کی شان اور درجہ کے مطابق اپنے قرب خاص کے
۱۰۔۔۔ سزاواروں میں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو زبانی کلامی تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لوگوں کی اس ایذا رسانی کو اللہ کے عذاب کے برابر قرار دینے لگتے ہیں اور اگر کبھی مسلمانوں کو تیرے رب کی جانب سے کوئی مدد پہنچ جائے تو وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ صاحب! ہم بھی تو تمہارے ساتھ تھے کیا اللہ کو وہ سب کچھ پوری طرح معلوم نہیں جو جہاں والوں کے دلوں میں ہے ؟
۱۱۔۔۔ اور اللہ کو تو ضرور دیکھنا ہے ان لوگوں کو جو واقعی ایمان لائے اور اس نے ضرور دیکھنا ہے ان کو بھی جو منافق ہیں ابتلا و آزمائش کے ذریعے
۱۲۔۔۔ اور وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر وہ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے پیچھے چلو ہم تمہاری خطائیں اپنے اوپر لے لیں گے حالانکہ وہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی اپنے اوپر لینے والے نہیں وہ قطعی طور پر جھوٹے ہیں
۱۳۔۔۔ ہاں البتہ انہیں اپنے گناہوں کے بوجھ بھی اٹھانے ہوں گے اور کچھ اور بوجھ بھی اپنے گناہوں کے بوجھوں کے ساتھ اور ان سے ضرور پوچھ ہو گی ان کی ان تمام افتراء پردازیوں سے متعلق جو یہ لوگ زندگی میں کرتے رہے تھے
۱۴۔۔۔ اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا نوح کو ان کی وم کی طرف رسول بنا کر سو وہ ان کے اندر دعوت وتبلیغ کے کام کے لئے پچاس کم ایک ہزار برس تک رہے مگر ان لوگوں نے پھر بھی نہ مانا آخرکار آ پکڑا ان کو اس ہولناک عذاب نے جو ان کے لئے قرر ہو چکا تھا اور وہ ظالم تھے
۱۵۔۔۔ پھر بچا لیا ہم نے نوح کو بھی اور کشتی والوں کو بھی اپنی رحمت و عنایت سے اور بنا دیا ہم نے اس کو ایک عظیم الشان نشانی جہاں والوں کے لئے
۱۶۔۔۔ اور ابراہیم کو بھی ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا سو یاد کرو جب کہ انہوں نے کہا اپنی قوم سے کہ تم لوگ بندگی کرو ایک اللہ کی اور اسی سے ڈرو یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم جانو۔
۱۷۔۔۔ اور یاد رکھو کہ جن کی پوجا تم لوگ کرتے ہو اللہ کو چھوڑ کر تو یہ محض کچھ بت ہیں تمہارے خود تراشیدہ اور تم جھوٹ گھڑتے ہو بے شک جن کو تم لوگ پوجتے پکارتے ہو اللہ کے سوا وہ تو تمہارے لئے کسی رزق کا بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے پس تم لوگ اللہ ہی سے رزق مانگو اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر بجا لاؤ اور یہ یاد رکھو کہ اسی کی طرف لوٹایا جائے گا آخرکار تم سب کو
۱۸۔۔۔ اور اگر تم جھٹلاتے ہی گئے تو حق کی جھٹلانے کی یہ کوئی نئی اور انوکھی مثال نہیں بلکہ تم سے پہلے بھی بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں حق اور رسول کے ذمے تو بس پہنچا دینا ہے کھول کر حق اور حقیقت کو
۱۹۔۔۔ (اور بس آگے منوا دینا نہ ان کے بس میں ہے اور نہ ان کی ذمہ داری) کیا ان لوگوں نے کبھی دیکھا نہیں اور غور نہیں کیا اس امر میں کہ اللہ کس طرح پیدا فرماتا ہے اپنی مخلوق کو پہلی مرتبہ بغیر کسی نمونہ و مثال کے پھر وہی اس کو دوبارہ زندہ کرے گا اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے بے شک یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے
۲۰۔۔۔ ان سے کہو کہ تم لوگ چلو پھرو اللہ کی زمین میں پھر دیکھو کہ کیسے پیدا فرمایا اس نے اپنی مخلوق کو پہلی بار پھر وہی ان کو اٹھائے گا دوسری اٹھان میں بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے
۲۱۔۔۔ وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم فرما دے اور آخرکار تم سب کو بہر حال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
۲۲۔۔۔ اور تمہاری یہ جان نہیں ہے کہ تم لوگ خدا کے قابو سے کہیں نکل جاؤ نہ کہیں زمین میں اور نہ آسمان میں اور اس حال میں کہ تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی یار ہو گا نہ مددگار
۲۳۔۔۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اللہ کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے حضور حاضری کا وہ مایوس ہو گئے میری رحمت و عنایت سے اور ایسے بدبخت لوگوں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک اور انتہائی ہولناک عذاب ہے
۲۴۔۔۔ پھر ابراہیم کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ قتل کر دو اس کو یا جلا ڈالو اسے چنانچہ انہوں نے جلانے کا سامان بھی کر دیا مگر اللہ نے بچا لیا ان کو اس آگ سے اپنی عنایت کاملہ اور رحمت شاملہ سے بے شک اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
۲۵۔۔۔ اور ابراہیم نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ آج دنیا کی اس زندگی میں تو تم خود ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت برساؤ گے تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہو گا اور تمہارے لئے کوئی مددگار نہ ہو گا
۲۶۔۔۔ سو اس سب کے باوجود صرف لوط ہی آپ پر ایمان لائے باقی کسی کو اس کی توفیق نہ ہوئی اور ابراہیم نے کہا میں ہجرت کرتا ہوں اپنے رب کی طرف بے شک وہی ہے سب پر غالب نہایت ہی حکمت والا
۲۷۔۔۔ اور ہجرت کے بعد ہم نے ان کو اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا بھی عنایت فرمایا اور مزید برآں یہ کہ ہم نے نبوت و کتاب انہی کی اولاد میں رکھ دی ہم نے ان کو ان کا صلہ و اجر دنیا میں بھی دیا اور بلاشبہ وہ آخرت میں بھی ہمارے قرب خاص کے سزاواروں میں سے ہیں
۲۸۔۔۔ اور لوط کو بھی ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا اور یاد کرو کہ جب انہوں نے کہا اپنی قوم سے کہ تم لوگ تو ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہاں اولوں میں سے کسی نے نہیں کی
۲۹۔۔۔ کیا تم لوگ مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو اور تم خطرات کی راہ مارتے ہو کلبوں اور بھری مجلسوں میں برے کام کرتے ہو پھر ان کی قوم کے پاس بھی اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ لے آؤ ہم پر اللہ کا عذاب اگر تم سچے ہو
۳۰۔۔۔ اس پر لوط نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اے میرے رب میری مدد فرما ان فسادی اور سرکش لوگوں کے مقابلے یں
۳۱۔۔۔ اور جب پہنچ گئے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم کے پاس عطاء فرزند کی خوشخبری کے ساتھ تو ابتدائی گفتگو کے بعد کہا کہ بے شک ہم نے ہلاک کرنا ہے اس بستی کے باشندوں کو کہ بے شک اس کے باشندے بڑے ہی ظالم ہیں
۳۲۔۔۔ ابراہیم نے کہا اس میں تو لوط بھی ہیں فرشتوں نے کہا ہم خوب جانتے ہیں کہ کہ اس میں کون کون ہیں ہم ضرور بچا لیں گے لوط کو بھی اور ان کے گھر والوں کو بھی سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی
۳۳۔۔۔ اور جب ہمارے بھیجے ہوئے یہ فرشتے پہنچ گئے لوط کے پاس تو وہ سخت پریشان ہو گئے ان کے آنے کی وجہ سے اور ان کی وجہ سے ان کا دل تنگ ہو گیا اور فرشتوں نے جو یہ دیکھا تو انہوں نے کہا کہ آپ نہ کوئی خوف کھائیں نہ غم کریں ہم کوئی آدمی نہیں بلکہ عذاب کے فرشتے ہیں سو ہم نے بچانا ہے آپ کو بھی اور آپ کے گھر والوں کو بھی بجز آپ کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی
۳۴۔۔۔ ہم نے اتارنا ہے اس بستی کے باشندوں پر ایک بڑا ہی ہولناک عذاب آسمان سے ان کی ان بدکاریوں کی بناء پر جو کہ یہ لوگ اب تک کرتے چلے آئے ہیں
۳۵۔۔۔ اور ہم نے اس بستی سے ایک کھلی نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں
۳۶۔۔۔ اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھی ہم نے رسول بنا کر بھیجا تو انہوں نے بھی اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم بندگی کرو صرف اللہ کی اور امید رکھو قیامت کے دن کی اور مت پھرو تم زمین میں فساد مچاتے ہوے
۳۷۔۔۔ مگر ان لوگوں نے جھٹلا دیا شعیب کو سو آ پکڑا ان کو اپنے وقت پر اس زلزلے نے جو ان کے لئے مقرر کر دیا گیا تھا جس سے وہ سب کے سب اوندھے منہ پڑے رہ گئے
۳۸۔۔۔ اپنے گھروں میں اور عاد اور ثمود کو بھی ہم نے ہلاک کیا اور کھلی پڑی ہے تمہارے سامنے اے لوگو! ان کی تباہی ان کے مکانوں کے ان کھنڈرات سے اور ان کا حال بھی یہی تھا کہ خوشنما بنا رکھا تھا ان کے لئے شیطان نے ان کے کاموں کو اس طرح اس نے روک دیا تھا ان کو راہ حق و صواب سے اور یوں وہ لوگ بڑے ہوشیار تھے
۳۹۔۔۔ اور قارون، فرعون، اور ہامان کو بھی ہم نے ہلاک کیا اور بلاشبہ ان کے پاس موسیٰ آئے تھے کھلی نشانیاں لے کر مگر ان لوگوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اللہ کی زمین میں اور وہ ایسے نہ تھے کہ نکل جائیں ہماری گرفت اور پکڑ
۴۰۔۔۔ سے آخرکار ہم نے ان میں سے ہر ایک کو پکڑا اس کے گناہ کی بناء پر پھر ان میں سے کسی پر تو ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی کسی کو آ دبوچا ہولناک آواز نے اور کسی کو ہم نے دھنسا دیا زمین میں اور کسی کو ہم نے غرق کر ڈالا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر کوئی ظلم کرتا مگر وہ بدبخت اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے رہے تھے
۴۱۔۔۔ مثال ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کے سوا کچھ اور کارساز بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی ہے کہ وہ اپنا کوئی گھر بنا لے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گھروں میں سب سے زیادہ کمزور گھر مکڑی ہی کا ہوتا ہے کاش کہ یہ لوگ جان لیتے حق اور حقیقت کو
۴۲۔۔۔ بے شک اللہ جانتا ہے ہر اس چیز کو جس کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں اللہ کے سوا اور وہی ہے سب پر غالب نہایت حکمت والا
۴۳۔۔۔ اور یہ مثالیں یوں تو ہم سب ہی لوگوں کی فہمائش کے لئے بیان کرتے ہیں مگر ان کو سمجھتے وہی لوگ ہیں جو علم حق کی روشنی رکھتی ہیں
۴۴۔۔۔ اللہ ہی نے تن تنہا پیدا فرمایا ہے آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو حق کے ساتھ بے شک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ایمان والوں کے لئے ۔
۴۵۔۔۔ پڑھتے (اور سناتے ) جاؤ (اے پیغمبر!) اس (عظیم الشان) کتاب کو جو بذریعہ وحی بھیجی گئی ہے آپ کی طرف اور قائم رکھو نماز کو بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور برائی سے اور اللہ کی یاد یقیناً سب سے بڑھ کر ہے اور اللہ خوب جانتا ہے وہ سب کچھ جو تم کرتے ہو (اے لوگوں !
۴۶۔۔۔ اور جھگڑا مت کرو تم (اے مسلمانو !) اہل کتاب سے مگر اسی طریقے کے ساتھ جو کہ سب سے اچھا ہو سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم پر ہی کمر بستہ ہوں اور کہو کہ ہم تو بہر حال ایمان رکھتے ہیں اس (کتاب) پر جو اتاری گئی ہماری طرف اور (اس پر بھی) جو اتاری گئی تمہاری طرف اور (حق اور حقیقت بہر حال یہی ہے کہ) ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور ہم سب اسی کے فرماں برادر ہیں
۴۷۔۔۔ اور اسی طرح ہم نے اتاری آپ کی طرف (اے پیغمبر !) یہ کتاب سو جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (اس سے پہلے ) وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں (یعنی اہل مکہ) میں سے بھی کچھ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو منکر (اور ہٹ دھرم) ہیں
۴۸۔۔۔ اور آپ (اے پیغمبر !) اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی آپ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے اگر کہیں ایسا ہوتا تو یہ باطل پرست شک میں پڑ سکتے تھے (مگر ایسی تو کوئی بات بھی نہیں )
۴۹۔۔۔ بلکہ یہ (قرآن) تو کھلی آیتیں ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو ظالم ہیں
۵۰۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں ان پر نشانیاں ان کے رب کی طرف سے (یعنی ان کی فرمائش کے مطابق سو ان سے ) کہو کہ نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کر (حق اور حقیقت کو)
۵۱۔۔۔ اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ (عظیم الشان) کتاب نازل کی جو (دن رات) پڑھ کر سنائی جاتی ہے ان کو بے شک اس میں بڑی بھاری رحمت اور عظیم الشان نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
۵۲۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ کافی ہے اللہ میرے درمیان اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو لوگ ایمان لائے باطل پر اور انہوں نے انکار کیا (حقیقتوں کی حقیقت یعنی) اللہ کا وہی ہیں سراسر خسارے والے
۵۳۔۔۔ اور یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر !) جلد عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر (اس کے لئے ) ایک مدت مقرر نہ ہوتی تو یقیناً وہ عذاب ان پر کبھی کا آگیا ہوتا اور (وقت آنے پر) وہ یقیناً ان پر ایسا اچانک آ کر رہے گا کہ ان کو خبر تک نہ ہو گی
۵۴۔۔۔ آپ سے عذاب جلد لانے کا مطالبہ کرتے حالانکہ جہنم (کے ہولناک عذاب) نے (چاروں طرف سے ) گھیرے میں لے رکھا ہے ایسے کافروں کو
۵۵۔۔۔ جس دن کہ ڈھانک رہا ہو گا ان کو وہ عذاب ان کے اوپر سے بھی اور ان کے پاؤں کے نیچے سے بھی اور کہے گا ان سے وہ (اللہ) کہ اب چکھو مزہ اپنے ان کرتوتوں کا جو تم لوگ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے
۵۶۔۔۔ اے میرے وہ بندوں جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت وسیع ہے پس تم لوگ (اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ) ہر حال میں میری ہی بندگی کرو
۵۷۔۔۔ ہر جی کو موت کا مزہ بہر حال چکھنا ہے پھر تم سب کو آخرکار لوٹ کر ہماری ہی طرف آنا ہے
۵۸۔۔۔ اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے تو ہم ان کو جنت کی ایسی عالی شان عمارتوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں جہاں ان (خوش نصیبوں ) کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا کیا ہی عمدہ (اور خوب) بدلہ ہے ان عمل کرنے والوں کا
۵۹۔۔۔ جنہوں نے (زندگی بھر) صبر (و استقامت) سے کام لیا اور جو اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے رہے
۶۰۔۔۔ اور کتنے جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی (اپنے ساتھ) اٹھائے نہیں پھرتے اللہ ہی روزی دیتا ہے ان کو بھی اور تم کو بھی (اے لوگوں !) اور وہی ہے سننے والا (ہر کسی کی اور) جاننے والا (سب کچھ)
۶۱۔۔۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس کائنات) کو؟ اور (تمہارے ) کام میں لگا دیا سورج اور چاند (عظیم الشان کروں ) کو؟ تو (اس کے جواب میں ) یہ سب کے سب ضرور بالضرور یہی کہیں گے کہ اللہ ہی نے پھر کہاں اوندھے کئے جاتے ہیں یہ لوگ؟
۶۲۔۔۔ اللہ ہی روزی کشادہ فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے اور وہی تنگ کرتا ہے جس کیلئے چاہتا ہے بے شک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے
۶۳۔۔۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کون ہے وہ جو آسمان سے بارش برساتا ہے پھر اس کے ذریعے وہ زندہ کرتا ہے اس زمین کو اس کے بعد کہ یہ مردہ (اور ویران) پڑی ہوتی ہے ؟ تو یہ لوگ ضرور بالضرور یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی (یہ سارے کام کرتا ہے ) کہو الحمد اللہ مگر اکثر لوگ (پھر بھی) عقل سے کام نہیں لیتے
۶۴۔۔۔ اور اس دنیا کی زندگی کی حقیقت تو ایک تماشا اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور یہ ایک قطعی حقیقت ہے کہ آخرت کا جو گھر ہے وہی حقیقی زندگی ہے کاش کہ یہ لوگ جان لیتے
۶۵۔۔۔ پھر (یہ بھی دیکھو کہ) جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لئے خالص کر کے اپنے دین کو مگر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں
۶۶۔۔۔ تاکہ (اس طرح) یہ لوگ ناشکری کریں ہماری ان نعمتوں کی جن سے ہم نے ان کو نوازا ہوتا ہے اور تاکہ کچھ اور مزے اڑا سکیں یہ لوگ (دنیائے دوں کے ) سو عنقریب ان کو خود ہی معلوم ہو جائے گا
۶۷۔۔۔ تو کیا ان لوگوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہم نے (ان کے اس شہر کو) ایک عظیم الشان حرم (اور) امن کا گہوارہ بنا دیا جب کہ ان کے آس پاس کے لوگوں کو (ان کے سامنے ) اچک لیا جاتا ہے کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا کفر (و انکار) کرتے ہیں
۶۸۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو جھوٹ باندھے اللہ (پاک) پر جھٹلائے حق کو جب کہ وہ اس کے پاس پہنچ جائے کیا جہنم میں ٹھکانہ نہیں ایسے کافروں کا
۶۹۔۔۔ اور جن لوگوں نے جہاد کیا (اور مشقت اٹھائی) ہماری راہ میں (اور ہماری رضا کے لئے ) تو ہم ان کو ضرور نوازیں گے اپنی (رضا اور خوشنودی کی) راہوں سے اور بے شک اللہ یقینی طور پر ساتھ ہے ایسے نیکوکاروں کے
۳۔۔۔ وستفہام یہاں پر انکاری ہے، یعنی ایسے نہیں ہو سکتا۔ کہ محض زبانی کلامی دعووں کی بناء پر کسی کو ان عظیم الشان انعامات سے نواز دیا جائے، جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے مقرر فرما رکھے ہیں۔ اور سو ایسے نہیں ہو سکتا کہ کھرے کھوٹے کے درمیان فرق و تمیز کا کوئی اہتمام و انتظام نہ کیا جائے۔ کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے قانون عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ابتلاء و آزمائش کے ذریعہ کھرے اور کھوٹے کے درمیان تفریق و تمیز کا سلسلہ قائم فرمایا ہے، اور اس سے پہلے لوگوں کو بھی اس نے ابتلاء و آزمائش کی بھٹی سے گزارا ہے۔ تاکہ اس سے کھرے الگ ہو جائیں، اور کھوٹے الگ یہ آیات کریمات جس دور اور جن حالات میں نازل ہوئیں وہ اہل ایمان کے لئے بڑے ہی سخت اور انتہائی ابتلاء و آزمائش کے حالات تھے جن سے تواریخ و سیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں اس کا کچھ اندازہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے جو صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں منقول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جب مشرکین نے ہم پر مظالم کی انتہاء کر دی تو ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ کی دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول کیا آپ اپنی امت کے لئے دعا نہیں فرماتے؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ انور سرخ ہو گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے اہل ایمان پر اس سے کہیں زیادہ سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان میں سے کسی کے سر پر آرا چلا کر اس کے دو ٹکڑے کئے گئے۔ کسی کے جسم پر لوہے کے کنگھے مارے گئے۔ جس سے اس کی ہڈیاں الگ ہو گئیں، اور گوشت الگ، تاکہ وہ ایمان سے پھر جائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قسم ہے اللہ کی یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضرموت تک اس طرح بے خوف و خطر سفر کرے گا کہ اس کو اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اہل ایمان کو خاص انعامات سے نوازنے کے لئے ان کی آزمائش ایک طبعی امر ہے۔ اور اس حقیقت کی دوسرے کئی مقامات پر بھی مختلف طریقوں تصریح فرمائی گئی ہے مثلاً سورہ البقرہ آیت نمبر ۲۱۴ آل عمران ۱۴۲،۱۷٩، اور توبہ آیت نمبر۱۶ وغیرہ وغیرہ
۴۔۔۔ سو اس سے ان ظالموں کو تنبیہ فرمائی گئی ہے جو اہل حق پر ظلم کرتے ہیں، اور ان کے قلوب و ضمائر پر دستک کے طور پر، اور ان کو جھنجھوڑنے کے لئے ان کے بارے میں بطور سوال و استفہام ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں نے جو طرح طرح کی برائیاں کرتے جا رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ ہمارے قابو سے نکل جائینگے؟ یہ یونہی چھوٹے پھریں گے، اور انکی کوئی پُرسش اور پوچھ نہیں ہو گی؟ سو یہ بڑا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں، کیا حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے انصاف کے تقاضوں کے مطابق یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ظالم اور مظلوم کو ایک برابر کر دیا جائے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ بلکہ ظالموں نے اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہے، پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ڈھیل کی بناء پر ان کو کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو اپنے رویے کی اصلاح کر لینی چاہیے قبل اس سے کہ فرصت حیات ان کے ہاتھ سے نکل جائے، اور اس حقیقت کو ہمیشہ اور بہر حال اپنے پیش نظر رکھنا چاہیئے، کہ یہ کبھی اور کسی بھی طرح ہماری گرفت و پکڑ سے باہر نہیں ہو سکتے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،
۸۔۔۔ سو جب آخرکار تم سب کو میری ہی طرف آنا ہے، اور بہر حال آنا ہے، اس سے کسی کے لئے کوئی مفر نہیں تب تم میں سے ہر ایک کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ مل کر رہے گا۔ اور بھرپور طریقے سے اور اپنی کامل اور آخری شکل میں مل کر رہے گا۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوں سو آج جو لوگ ظلم و جبر کے ساتھ اللہ کے بندوں کو راہ حق سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں، وہ بھی اپنے ان گھناؤنے کرتُوتوں کا پورا پورا بدلہ پا کر رہیں گے، اور وہ بندگان صدق و صفا جو دنیا میں راہ حق پر استقامت کے نتیجے میں طرح طرح کی اذیتیں، مصیبتیں، اور مظالم، سہہ رہے ہیں وہ بھی اپنی ان جانثاریوں اور جانبازیوں کا پورا پورا صلہ و بدلہ اور جزاء و انعام پائیں گے، سو اس ارشاد میں ایک طرف تو ظالموں کے لئے تنبیہ و تذکیر ہے، تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں، اور ظلم و عدوان سے باز آ جائیں۔ اور دوسری طرف اس میں مظلوم اہل حق کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان بھی۔ تاکہ وہ صبر و استقامت سے کام لیں۔
۱۱۔۔۔ اس آیت کریمہ میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد سچے اور مخلص مسلمان ہیں۔ کہ اس کے مقابلے میں منافقوں کا ذکر آیا ہے جن کے کردار کا ذکر اوپر والی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے لوگ زبانی کلامی طور پر ایمان کے دعوے تو کرتے ہیں، لیکن اس کی راہ میں چوٹ کھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ کیونکہ ان کے دعوے دراصل دنیاوی مفادات ہی کے لئے ہوتے ہیں اور بس، جب کہ سچے اور مخلص مسلمانوں کا معاملہ ان سے یکسر مختلف ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے دین و ایمان کی خاطر اپنی جان کی بازی لگانے کو بھی تیار ہوتے ہیں، اور بالفعل اس کے لئے بازی لگاتے بھی ہیں، یہاں پر اس بات کو صیغہ تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا لازمی تقاضا اور طبعی نتیجہ ہے، وہ اگر ایسا نہ کرے تو یہ بات اس کے عدل کے منافی ہو گی، سبحانہ و تعالیٰ۔
۱۲۔۔۔ یعنی یہ لوگ قطعی طور پر جھوٹے ہیں اپنی اس کافرانہ منطق اور اپنے ان جھوٹے وعدوں اور دعووں میں، یہ دوسروں کے بوجھوں میں سے نہ کچھ اٹھائیں گے اور نہ اٹھا سکتے ہیں کہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے یہاں کوئی بھی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس کا صاف اور صریح طور پر اعلان و ارشاد ہے اَلاَّ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْریٰ (النجم۔۳٨) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اہل کفر و باطل کی یہ کافرانہ منطق ہمیشہ رہی پہلے بھی تھی اور آج بھی اس کے نمونے جگہ جگہ اور طرح طرح سے پائے جاتے ہیں، چنانچہ کفار قریش کی اولاد و احفاد اور ان کے ماتحتوں اور زیر دستوں میں سے جو اسلام قبول کر لیتے۔ یہ بڑے گرو ان سے کہتے کہ ہم خیر وشر اور نیک وبد کو تم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا تم ہماری پیروی کرو۔ اور ہمارے طریقے پر چلو۔ اور ہمارا طریقہ غلط ہوا تو اس کا عقاب و عذاب ہماری گردن پر تمہارا بوجھ بھی ہم اٹھائیں گے تم اس کی ذمہ داری سے بری ہو۔ اس طرح وہ اپنے ماتحتوں اور زیردستوں پر دباؤ ڈال کر ان کو راہِ حق سے پھیرنے کی کوشش کرتے اور بڑوں کی طرف سے چھوٹوں پر اس طرح کے دباؤ کی مثالیں پہلے بھی رہیں۔ اور آج بھی اس کے نت نئے نمونے جگہ جگہ اور طرح طرح سے سامنے آتے رہتے ہیں، کہ بڑے اسی طرح اپنے چھوٹوں کو راہِ حق سے روکتے ہیں، اسی لئے قرآن حکیم میں اس کی جگہ جگہ اور طرح طرح سے تردید فرمائی گئی ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم بِکُلِّ حَالٍ مِّن الْاَحوال۔
ف سو حضرت نوح کا قصہ اور آنجناب کی یہ سرگزشت ایک عظیم الشان نشانی ہے جس میں عبرت و بصیرت کے کئی اہم اور عظیم الشان پہلو ہیں مثلاً یہ کہ دعوت حق کے لئے کام کرنے والوں کو یہ توقع کبھی نہیں رکھنی چاہیے کہ انکی دعوت اور محنت فوری طور پر بار آور ہو جائے گی اور ان کو کسی زحمت و مشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ نیز یہ کہ ان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور حوصلہ نہیں چھوڑنا چاہیے اگرچہ ان کو اس کے لئے کتنا ہی طویل عرصہ محنت کرنی پڑے۔ حضرت نوح کا یہ قصہ اور آنجناب کی طویل سرگزشت اس کی ایک واضح مثال اور ایک عظیم الشان نمونہ ہے، دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے ایک تو یہ درس ہے کہ تکذیب و انکار حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت وتباہی ہے ایسوں کو مہلت اور ڈھیل خواہ کتنی ہی کیوں نہ ملے، وہ بہر حال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہوتا ہے اور اس کے بعد ایسے لوگ اپنے ہولناک انجام کو بہر حال پہنچ کر رہتے ہیں سو منکرین و مکذبین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ڈھیل اور مہلت پر کبھی مست اور مغرور نہیں ہونا چاہیے نیز یہ کہ دعوت حق کا انکار ظلم ہے، اور ایسے ظالموں کی ہلاکت و تباہی کوئی ظلم نہیں بلکہ یہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی شان عدل و انصاف کا تقاضا ہے، نیز یہ کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے حضرت نوح جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر، اور ان کے ساتھی اور صحابی بھی اسی وحدہٗ لاشریک ربِّ ذوالجلال کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج ہیں اور جب اتنی بڑی پاکیزہ اور مقدس ہستیاں بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں ہو سکتیں، تو پھر مخلوق میں سے اور کوئی کس طرح حاجت روا و مشکل کشا، ہو سکتا ہے؟ پس خرق عادت کے طور پر اور مافوق الاسباب کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی اللہ تعالیٰ ہی کی شان اور اسی کی صفت ہے حاجت روا و مشکل کشا سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اس میں کسی بھی اور ہستی کو اس کا شریک و سہیم ماننا شرک ہے، جو کہ ظلم عظیم ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا، پس غلط کہتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ کی مخلوق میں سے مختلف ہستیوں کو حاجت روا ومشکل کشا مان کر پوجتے پکارتے ہیں نیز اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نجات اور سلامتی کی راہ پیغمبر کی اطاعت و اتباع ہی کی راہ ہے، ورنہ ہلاکت و تباہی ہی ہے۔ چنانچہ حضرت نوح پر ایمان لانے والے آپ کی اطاعت و اتباع سے سرفراز ہونے والے اور آنجناب کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار ہونے والے ہی نجات اور سلامتی سے سرفراز ہوئے، لیکن آپ کا حقیقی اور صلبی بیٹا بھی آپ کی نافرمانی اور کفر و انکار کی بنا پر طوفان نوح کی خوفناک موجوں کا لقمہ بن گیا۔ پس نجات و فلاح کا دارومدار اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے یہ بنیاد اگر موجود نہ ہو تو کوئی بڑے سے بڑا رشتہ بھی کام نہیں آ سکتا۔ خواہ وہ پیغمبر کی ابنیت یعنی ان کا بیٹا ہونے کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ پسر نوح کی مثال سے واضح ہے یا وہ اُلُوَّتِ پیغمبر یعنی کسی پیغمبر کے باپ ہونے ہی کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم کے باپ آزر کے انجام سے واضح ہے۔ یا وہ زوجیت پیغمبر ہی کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت نوح اور لوط کی بیویوں کے قصے سے واضح ہے، اور خواہ وہ حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی عمومت یعنی چچا ہونے کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ ابوطالب کے انجام اور اس کے قصے سے واضح ہے، جس کی تصریح صحیح بخاری وغیرہ کی احادیث میں موجود ہے۔ سو ان تمام قصوں سے یہ حقیقت نصف النہار کے سورج کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہدایت و غوایت کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت و حکمت اور اسی کی مشیئت کے تابع ہے، کہ اس چیز کا اصل اور بنیادی تعلق انسان کے قلب و باطن سے ہے، اور قلب و باطن کی کیفیت کو اللہ وحدہٗ لاشریک ہی جانتا ہے۔ اسی لئے دوسرے مقام پر اس حقیقت کی تصریح اس طرح فرمائی گئی۔ اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ (القصص۔۵۶) یعنی آپ (اے پیغمبر!) جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ جس کو چاہے ہدایت سے نوازے۔ کہ وہی خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو، سو ان تمام واقعات سے یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو ان عظیم الشان اور جلیل القدر انبیاء ورسل کے اتنے قریبی رشتہ دار، ان کی طرف سے پوری کوشش اور محنت کے باوجود نور ایمان و یقین سے محروم نہ رہتے، اور ہمیشہ کے لئے دوزخ کا ایندھن نہ بنتے، والعیاذُ باللہ۔ سو مختار کل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی ذات اقدس و اعلیٰ ہے۔ اس کی اس صفت میں کوئی اور ہستی نہ اس کی شریک ہے نہ ہو سکتی ہے، اور کسی کو اس میں اس کا شریک وسہیم ماننا شرک ہو گا جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر قسم اور اس کی ہر مشکل سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر ہی چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
۲۳۔۔۔ سو ایسے لوگ بڑے ہی محروم اور انتہائی بدبخت لوگ ہیں کیونکہ محرومی ایک وہ ہوتی ہے جس میں کسی چیز سے محرومی کے بعد اس کے دوبارہ پانے کی امید ہوتی ہے سو ایسی محرومی پھر بھی قابل برداشت ہو سکتی ہے اور آئندہ پانے کی امید کی بناء پر ایسی محرومی زیادہ حوصلہ شکن نہیں ہوتی۔ لیکن ایک محرومی وہ ہوتی ہے جس کے ازالے اور مطلوب کو دوبارہ پا لینے کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہوتی، سو ایسی مایوسی کامل درجے کی اور بڑی ہی ہولناک محرومی ہوتی ہے۔ پس کفار و منکرین کی محرومی ایسی ہی ہولناک اور انتہاء درجے کی محرومی ہو گی۔ اس لئے قیامت کے روز ایسے لوگوں کی یاس وحسرت کا کوئی ٹھکانا نہیں ہو گا۔ مگر اس دن کی اس یاس وحسرت سے ان کو فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا استحقاق پیدا کرنے کا موقع بہر حال دنیاوی زندگی ہی میں ہے، اور اس کو انہوں نے اپنے کفر و انکار میں ضائع کر دیا۔ اور فرصت حیات کے اس موقع کو کھو کر پانے کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔ سو یہیں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ان کو ان عظیم الشان غیبی حقائق سے اتنا پیشگی، اور اس قدر صاف و صریح طور پر خبردار کر دیا۔ تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود اس کے ہاتھ نکل جائے۔ اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے، مگر دنیا ہے کہ غفلت میں ڈوبی پڑی ہے آنکھ کھولنے کو تیار ہی نہیں ہو رہی۔ سو غفلت و لاپرواہی محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذ باللہ، بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب اور اس کے حضور حاضری کا انکار کرنے والے بڑی ہی سخت اور انتہائی ہولناک محرومی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم مِنْ کُلِّ شائبۃٍ مِّن شوائب الکفر والا تکار فی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ اللہ تعالیٰ حیات دنیا کی اس فرصت محدود و مختصر کی قدر و قیمت پہچاننے، اور اس کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھانے، اور اس کو راہِ حق میں، اور اپنی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین، وانہ سبحانہ و تعالیٰ سمیع قریب مجیب، وعلی مایشاء قدیر، سبحانہ و تعالیٰ،
۲۷۔۔۔ سو اس سے ان اہم انعامات کا ذکر فرمایا گیا ہے جن سے حضرت ابراہیم کو بطور خاص نوازا گیا تھا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تو حضرت لوط کے سوا کوئی آپ کی ہمنوائی کرنے والا نہیں تھا۔ لیکن پھر وہ وقت آیا کہ جب اللہ کی راہ میں ہجرت کے نتیجے اور اس کے صلے میں آپ کو حضرت اسحاق جیسے بیٹے اور حضرت یعقوب جیسے پوتے سے نوازا گیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں اور اپنی رضا کے لئے ہجرت کرنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ وہ ان کو دنیا و آخرت دونوں میں صالحین و ابرار کی معیت و رفاقت سے نوازتا ہے، چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم کو بھی ایسے عظیم الشان بیٹے اور پوتے سے نوازا جن سے آگے دین کی خدمت کرنے والا ایک عظیم الشان گھرانا آباد ہوا۔ جس کے اندر اس نے نبوت و کتاب کا عظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا۔ یہ صلہ اور بدلہ تو حضرت ابراہیم کو اس دنیا میں عطا فرمایا گیا اور آخرت میں آپ زمرہ صالحین میں سے ہونگے۔ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔
۲۸۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوم لوط سے پہلے اس بے حیائی کا ارتکاب دنیا میں کسی بھی شخص سے نہیں کیا تھا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے پہلے کوئی بھی قوم مجموعی طور پر اور مِنْ حَیْثُ الْقَوْم اس بے حیائی کی مرتکب نہیں ہوئی تھی، اَحَد کا لفظ جمع اور عموم کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، سو قوم لوط مِنْ حَیْثُ الْقَوم اس جرم کی مرتکب ہوئی جس کے نتیجے میں وہ پوری کی پوری قوم عذاب کی مستحق ٹھہری۔ اور آخرکار نہایت ہی عبرت انگیز اور ہولناک انجام سے دوچار ہوئی، والعیاذُ باللہ العظیم
۲۹۔۔۔ سو اس سے حضرت لوط نے ان لوگوں کے اس قومی روگ کے دو پہلوؤں کا بطور خاص ذکر فرمایا، تاکہ ان کو اس کی خطورت و ہلاکت خیزی پر تنبیہ ہو۔ اور وہ آنکھیں کھولیں۔ ایک یہ کہ تم لوگ قطع سبیل کا ارتکاب کرتے ہو۔ سبیل سے یہاں پر مراد فطرت کی وہ راہ ہے جس کو حضرت فاطر فطرت جَلَّ جَلَالُہ، نے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی یہ کہ مرد اپنی جنسی خواہش کو عورت سے اور جائز حدود کے اندر پورا کرے، کہ یہی چیز نسل انسانی کی بقاء کا ذریعہ اور معاشرتی استحکام کی اصل اور اساس ہے اس کے برعکس اگر مرد مرد سے شہوت رانی کرنے لگیں، والعیاذُ باللہ اور یہ وبا قومی روگ کی حیثیت اختیار کر جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ مردوں کی عورتوں کی طرف رغبت بالکل ختم ہو جائے گی اور اگر کچھ رہے گی بھی تو وہ صحیح نوعیت کی نہ ہو گی۔ اور اس طرح پوری قوم اہلاک نسل کی راہ پر چل پڑے گی۔ جو کہ حضرت فاطر فطرت کے منشا کے خلاف اور تباہی کی راہ ہے۔ اور دوسری بات جس پر حضرت لوط نے ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی وہ یہ تھی کہ تم لوگ اپنے کلبوں اور بھری مجلسوں میں برائی کا ارتکاب کرتے ہو، جو اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ تمہارے اندر سے شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا جبکہ شرم و حیا کی دیوار ہی وہ دیوار ہے جو انسان کو بیہودگیوں اور بے حیائیوں کے مہالک سے روکتی، اور بچاتی ہے جیسا کہ حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ پہلی نبوت سے جو کلام متوارث چلا آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم سے حیا رخصت ہو جائے تو پھر تم جو مرضی کرو۔ یعنی اس کے بعد تم کو برائی سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی، والعیاذ ُباللہ اسی لئے مثل مشہور ہے کہ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن یعنی حیا اٹھ جانے کے بعد تم جو مرضی کرو۔ کہ اس کے بعد کوئی رکاوٹ اور آڑ باقی نہیں رہ جاتی۔ والعیاذ باللہ سو کسی معاشرے سے شرم و حیا کے عنصر کا اٹھ جانا اس کی ہلاکت و تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اسی لئے حالی مرحوم نے اس طرح کی اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے والی آزاد خیالی اور عشقیہ شاعری کو سنڈاس سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ لیکن آجکل کے ٹی وی اور وی سی آر وغیرہ جیسے جدید وسائل اور طرح طرح کے کلبوں اور دیگر قسما قسم کے پروگراموں اور نت نئی فلموں وغیرہ نے جو تباہی مچائی ہے، اور مچا رکھی ہے، حالی مرحوم کے دور میں تو شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہو گا اور قوم لوط جس ہولناک عذاب اور انجام سے دوچار ہوئی تھی اس کے مختلف نمونے آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح سے نظر آتے رہتے ہیں اور قدرت کی طرف سے گاہ بگاہ لوگوں کی تنبیہ کے لئے عذاب کے کوڑے برسائے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن سبق پھر بھی کوئی نہیں لیتا۔ اِلاَّ ماشاء اللہ آجکل بھی جبکہ راقم اٰثم یہ سطور تحریر کر رہا ہے (یعنی ۱۷ جنوری ۲٠٠۵) ایک ایسا ہولناک سمندری زلزلہ آیا کہ اس سے دو لاکھ سے بھی زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے، اور لاکھوں بے گھر ہو گئے اور ہندوستان، سری لنکا، اور انڈونیشیا وغیرہ سمیت آٹھ ملک اس کی زد میں آئے، اور جس کو سونامی طوفان کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے، اس کی قیامت خیز تباہی سے دنیا ساری انگشت بدنداں ہے کہ یکایک یہ کیا سے کیا ہو گیا۔ اس سے شہروں کے شہروں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا گیا اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں کے بارے میں جو آتا ہے کہ فَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا کہ ان کو ہم نے تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ بالکل اسی طرح کے مناظر یہاں بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن عبرت پھر بھی کوئی نہیں پکڑتا۔ اِلاّ ماشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق پر قائم رکھے، اور اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین
۳۸۔۔۔ یعنی دنیاوی تعمیر و ترقی اور حکومت و سیادت وغیرہ کے اعتبار سے وہ لوگ بڑے ماہر اور چالاک لوگ تھے، اور ان سے متعلق امور کو وہ خوب سمجھتے اور نبٹاتے تھے، لیکن ان کی یہ ہوشیاری اور چالاکی ان کو شیطان کے پھندے سے نہ بچا سکی۔ اس نے ان کے انہی کاموں اور ان کے اسی دنیاوی انہماک کو ان کی نگاہوں میں ایسا کھبا دیا تھا کہ ان کی آنکھیں کھلتی ہی نہیں تھی، اور وہ خدا اور آخرت کی یاد سے بالکل بندھ اور محروم ہو گئی تھیں۔ جس کے نتیجے میں وہ لوگ شاہراہِ حق و ہدایت سے منحرف ہو گئے اور آخرکار اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ سو محض سائنسی معلومات اور مادی تعمیر و ترقی اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتے کہ ایسے لوگ صحیح راہ پر گامزن ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر بے بصیرت لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگوں کی صرف دنیاوی آنکھ کھلی ہوئی ہے اور بس، جس سے یہ اپنے دنیاوی مفادات و معاملات کو خوب سمجھتے ہیں اور بس، رہ گئی راہِ حق و ہدایت تو وہ اس سے بالکل الگ اور ایک مختلف چیز ہے، اس کا تعلق اس عالم غیب سے ہے، جو محسوسات و مبصرات سے پس پردہ ہے، جس کو دیکھنے کے لئے وہ دوسری آنکھ درکار ہوتی ہے جو پس پردہ حقائق کو دیکھتی ہے، اور وہی اصل اور حقیقی آنکھ ہوتی ہے اور اسی کا دیکھنا مفید و معتبر ہوتا ہے، وہ اگر کھلی ہوئی نہ ہو تو علم و سائنس کی تمام تر روشنیوں کے باوجود انسان اندھے کا اندھا ہی رہتا ہے، اور ایسے میں وہ اور تو سب کچھ دیکھ لے گا۔ لیکن راہ حق و ہدایت کے دیکھنے سے وہ اندھے کا اندھا ہی رہے گا۔ بلکہ ایسے میں وہ ایسے ہولناک اندھا ہونے کے باوجود وہ یہ سمجھے گا کہ وہ سب کچھ سمجھتا دیکھتا ہے، اور یہ محرومی وبدبختی کی انتہاء ہے کہ بیمار اپنی بیماری کو بھی صحت سمجھنے لگے، اور اس پر اصرار کرنے لگے۔ اور اندھا آدمی اندھا ہونے کے باوجود دعوی کرے کہ وہ اندھا نہیں ہے، بلکہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے والوں سے بڑھ کر دیکھتا، اور راست رو ہے، تو پھر ایسے ہٹ دھرم اندھوں کا آخر کیا علاج ہو سکتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی گہرے کھڈے میں گر کر رہے، والعیاذُ باللہ، سو ایسے لوگ شیطان کی تزیین و تسویل کے نتیجے میں آخرکار ایسے ہولناک گڑھے میں گر کر رہتے ہیں جس سے ان کو پھر کبھی نکلنا نصیب نہیں ہوتا، والعیاذُ باللہ العظیم۔
۴۰۔۔۔ سو اس سے مذکورہ بالا تمام افراد و اقوام کا انجام بطور خلاصہ یکجا بیان فرما دیا گیا، کہ ان میں سے ہر ایک کو آخرکار ہم نے اس کے جرم کی پاداش میں پکڑا۔ اور اس طرح کہ ہر ایک اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہا۔ اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ بلکہ یہ سب لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے تھے، اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا دینا تقاضائے عقل و نقل اور مقتضائے عدل و انصاف ہے، سو اس سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حق کی تکذیب اور اس کا انکار ظلم ہے اور بڑا ہی ہولناک اور تباہ کن ظلم، والعیاذُ باللہ، اور دوسری طرف اس سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ ایسے ظالموں کو خواہ ڈھیل کتنی ہی ملے۔ وہ بہر حال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے بہر حال ختم ہو جانا ہوتا ہے، اور اس کے بعد ایسے لوگ بہر حال اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم۔
۴۴۔۔۔ کہ حق کی ایسی نشانیوں سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی ہو سکتے ہیں جو ایمان و یقین کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں، یا جو اس سے فیضیاب و سرفراز ہونا چاہتے ہیں، پس جو ایمان کی دولت سے محروم ہوتے ہیں اور وہ ایمان لانا چاہتے بھی نہیں، ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی اس حکمتوں بھری کائنات کی کھلی کتاب میں نہ کوئی سامان عبرت ہے اور نہ کوئی درس حکمت و بصیرت، کہ ایسے لوگوں کا جینا محض حیوانوں کا جینا، بلکہ ان سے بھی کہیں بدتر جینا ہوتا ہے، کہ انہوں نے قدرت کے بخشے ہوئے جو ہر عقل کو خواہشات بطن وفرج کی تحصیل و تکمیل کا غلام بنا دیا جس سے وہ اپنی زندگی کے مقصد اور اپنے آخرت و انجام کو بھول گئے، اور اپنے خالق و مالک کے حقوق کو بھول کر وہ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسَاہُمْ اَنْفُسَہُمْ کا مصداق بن گئے، یعنی انہوں نے اللہ کو بھلا دیا جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو انکی اپنی جانوں، اور ان کے مفادات سے غافل کر دیا، کیونکہ خدا فراموشی کا طبعی اثر اور منطقی نتیجہ خود فراموشی ہے، جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم، لیکن اس کے برعکس اہل ایمان کا رویہ اس سے بالکل مختلف، اور یکسر الگ ہوتا ہے سو ایسے اصحاب فکر و بصیرت کے لئے آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات میں بڑی بھاری نشانی ہے، ایسی عظیم الشان نشانی جو کہ نشانیوں کی نشانی ہے، اور جس میں حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کے وجود باجود اس کی قدرت مطلقہ حکمت بالغہ رحمت شاملہ اور عنایت فائقہ کے گوناگوں پہلو ہیں۔ اور یہ ایسی عظیم الشان نشانی ہے جو اس قادر مطلق کی وحدانیت و یکتائی اس کے رسول کی صداقت و حقانیت اور قیامت و آخرت کی ضرورت و حاجت اور اس کی قطعیت کو واضح کرتی ہے۔ فالحمدللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، سو صحت وسلامتی، اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہ وہی اور صرف وہی ہے جو اس نور وحی سے روشن اور واضح ہوتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت بے پایاں کے نتیجے میں اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے، ورنہ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں، والعیاذ باللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین ثم آمین، وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواءِ السبیل۔
۴۵۔۔۔ بشرطیکہ نماز صحیح معنوں میں نماز ہو۔ سو جو نماز صحیح اور حقیقی معنوں میں نماز ہو گی وہ یقیناً بے حیائی اور برائی سے روکے گی، اور بالفعل روکتی ہے۔ کہ یہ نماز کی خاصیت اور اس کا طبعی تقاضا ہے۔ اور جہاں ایسا نہیں ہو گا وہاں اس کی وجہ یہی ہو گی کہ وہ نماز حقیقی معنوں میں نماز نہیں۔ کیونکہ نماز صرف ظاہری شکل کا نام نہیں۔ بلکہ یہ عبارت ہے اس حقیقت اور روح سے جو اس نماز کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سو نماز ایک ایسی عظیم الشان اور بے مثال عبادت ہے جو ایک طرف تو بندے کا تعلق اس کے خالق و و مالک سے صحیح بنیادوں پر قائم کرتی ہے، اور دوسری طرف اس کی خیرات و برکات سے افراد اور معاشرے میں وہ نورانیت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے جو معاشرے کو ایک مبارک و مسعود معاشرہ بنا دیتی ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید۔
/ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یاد دلشاد ہی وہ مقصد عظیم اور مطلب جلیل ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی اور حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور واحد اور بنیادی ذریعہ وسیلہ۔ اور نماز ذکر و یادِ خداوندی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ کہ اس میں انسان اپنے جسم و جان، قلب و قالب، ظاہر و باطن، اور قول و عمل ہر اعتبار سے محو عبادت ہوتا ہے اور خاص کر اس میں سجدے کی حالت تو وہ خاص حالت ہوتی ہے جس کے بارے میں حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ سجدے میں ہوتا ہے، اور اس کی یہ حالت اس لائق ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔ اس لئے دین حنیف میں اس کی بڑی زبردست تاکید فرمائی گئی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔
۴۶۔۔۔ کیونکہ معبود برحق جب سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے تو اس کا تقاضا یہی ہے کہ سب اسی کے فرمانبردار اور طاعت گزار بنیں۔ اور دل و جان سے اسی کے حضور جھک جھک جائیں، اور جھکے جھکے ہی رہیں، کہ یہ اس معبود برحق کا سب پر حق بھی ہے۔ اور اسی میں سب کا بھلا بھی ہے۔ دنیا کی عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی میں بھی، پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق، اور اسی کا اختصاص ہے، اس کے سوا اور کسی کے لئے بھی عبادت و بندگی کی کوئی بھی قسم، کسی بھی شکل میں بجا لانا شرک ہو گا، جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم اللہ تعالیٰ اور ہر اعتبار سے اپنی پناہ میں رکھے امین
۴۸۔۔۔ یعنی اگر آپ اپنے ہاتھ سے لکھتے ہوتے، اور کوئی کتاب پڑھتے ہوتے۔ تو اس صورت میں پھر بھی باطل پرستوں کے لئے اس بات کا کوئی موقع ہو سکتا تھا، کہ آپ یہ سب کچھ خود اپنے کسب اور محنت سے بنا لائے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفت امیت جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک عظیم الشان اور بے مثال معجزانہ صفت ہے، اس سے تو ان لوگوں کے لئے اسطرح کی کسی بات کے لئے بھی کوئی گنجائش اور موقع باقی نہیں رہا، کیونکہ جو ہستی اُمیٔ محض ہو۔ جس نے کبھی کسی سے ایک حرف بھی نہ پڑھا ہو وہ دنیا کے سامنے ایسی عظیم الشان اور بے مثال کتاب پیش کرے جس کے سامنے دنیا ساری کے علوم ہیچ اور صفر ہو کر رہ جائیں۔ اور جو دنیا و آخرت کی سعادت و سرخروئی کی راہیں کھولے۔ اس سے بڑھ کر معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور اس کا انکار ظالموں کے سوا اور کون کر سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و ضلال سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور ہمیشہ اور حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
۵۰۔۔۔ سو اس سے پیغمبر کے منصب اور ان کی اصل ذمہ داری کو واضح فرما دیا گیا، کہ وہ ہے انذار و تبلیغ، یعنی لوگوں کو ان کے مآل و انجام سے خبردار و آگاہ کر دینا۔ اور حق کا پیغام پورے کا پورا اور جُوں کا تُوں ان کو پہنچا دینا۔ اور اس قدر صاف اور واضح طور پر کہ حق اور حقیقت پوری طرح ان کے سامنے واضح ہو جائے۔ اس سے آگے ان سے حق کو منوا لینا اور ان کو راہ حق پر ڈال دینا۔ یا ان کی فرمائشوں کے مطابق ان کو معجزے دکھانا، نہ پیغمبر کے بس میں ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ پیغام حق کو پہنچا دینے کے بعد ان کا ذمہ فارغ، اور اس کے بعد ان کا حساب اللہ کے ذمے۔ جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر اس اہم اور اصولی بات کو طرح طرح سے اور بتمام و کمال واضح فرما دیا گیا، مثلاً ایک مقام پر ارشاد فرمایا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ (الرعد۔۴٠) یعنی آپ کے ذمے تو پیغام حق کو پہنچا دینا ہے، اور بس اس کے بعد حساب لینا ہمارے ذمے اور ہمارا کام۔
۵۱۔۔۔ یُؤمِنُوْنَ کا لفظ یہاں پر اپنے ظاہری اور معروف معنی میں بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی جو ایمان رکھتے ہیں اور یہ ارادہ فعل کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی جو لوگ ایمان لانا چاہتے ہیں، جو کہ عربی کا ایک معروف اسلوب ہے۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ کتاب حکیم تو بلاشبہ بڑی بھاری رحمت اور عظیم الشان نصیحت اور یاد دہانی ہے، لیکن اس سے مستفید اور فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور وہی ہو سکتے ہیں۔ جو ایمان رکھتے ہیں۔ یا ایمان لانا چاہتے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جو نہ ایمان رکھتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ ایمان لانا چاہتے ہیں، تو ان کے لئے اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ نہ ان کے لئے یہ کتاب ہدایت رحمت ہے، اور نہ ہی ان کے لئے اس میں کوئی تذکیر و یاد دہانی ہے کہ انہوں نے اپنے قلب و باطن کے منافذ بند کر رکھے ہیں، اور وہ ارشادِ ربانی کے مصداق قانون و دستور خداوندی اور سنت الٰہی کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ایسے اندھے بہرے اوندھے اور گونگے بن چکے ہیں، کہ نور حق و ہدایت سے محروم کے محروم ہی رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت کے روز ان کو اسی طرح اٹھایا جائے گا۔ اور پھر ان کو دوزخ میں دہکتی بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ جو ان کا دائمی ٹھکانا ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس حقیقت کی تصریح اس طرح فرمائی گئی ہے۔ وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلیٰ وُجُوْہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّ صُمًّا مَاوٰہُمْ جَہَنَّمُ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا (بنی اسرائیل ٩۷) سو اس سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں، اور یہ چیز محرومیوں کی محرومی ہے، اور دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی اصلاح و فساد، اور اس کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن اور ارادہ نیت سے ہے۔ اور دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے جو کہ علیم بذات الصُّدُور ہے۔ اس لئے وہ اپنے اسی علم کامل، اور حکمت بالغہ کے مطابق لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے، کہ کس کو ہدایت کی دولت سے نوازا جائے، اور کس کو ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیا جائے۔ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے، اور کون کس لائق ہے۔ اور یہی مطلب ہے اس ارشاد الٰہی اور فرمان خداوندی کا یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشآءُ۔
۵۹۔۔۔ سو اس سے صبر اور توکل علی اللہ کی ان دونوں صفتوں کی عظمت و اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ یہاں پر اہل جنت کی جنت سے سرفرازی کے لئے یہی دو سبب بیان فرمائے گئے ہیں، چنانچہ جنت سے سرفراز و فائز المرام ہونے والے ان خوش نصیبوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ جنہوں نے صبر سے کام لیا، اور وہ اپنے رب ہی پر توکل اور بھروسہ کرتے تھے۔ یعنی انہوں نے زندگی بھر راہِ حق پر صبر واستقامت سے کام لیا۔ اور وہ زندگی بھر اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے رہے۔ وباللہ التوفیق۔ لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید،
۶۰۔۔۔ سو روزی کا معاملہ اسی خدائے علیم و خبیر کے اختیار میں، اور اسی کی مشیت پر موقوف ہے، جو ہر کسی کی سنتا، اور سب کچھ جانتا ہے، اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اور کون کس کا مستحق ہے؟ اس لئے وہ اپنے علم اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے۔ روزی رساں سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ پس روزی کی خاطر ایسا حیراں اور سرگرداں ہو جاتا کہ انسان اپنے اس خالق و مالک اور اس کے حق ہی کو بھول جائے، بڑی حماقت اور سخت محرومی کا باعث ہے۔ بندے کا کام تو اپنے خالق و مالک کی قائم فرمودہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حصول رزق کے لئے کوشش کرنا ہے، اور حتی المقدور کوشش کرنا، اور بس آگے معاملہ اسی کے حوالے ہے، سبحانہ و تعالی۔
۶۲۔۔۔ سو روزی کی تنگی اور کشائش کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ اور کون کس لائق ہے، پس نہ روزی کی کشائش کسی کے اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب و مقبول ہونے کی دلیل ہو سکتی ہے، اور نہ روزی کی تنگی اس کے یہاں مبغوض و مطرود ہونے کی علامت۔ بلکہ اس چیز کا تعلق اس کی حکمت اور مشیت کے ساتھ ہے۔ جس کو اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ سبحانہ و تعالیٰ، وہ چونکہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے وہ اپنے کمال علم و حکمت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جس کا وہ اہل اور مستحق ہوتا ہے۔ پس بندے کو اپنی کوشش کے بعد معاملہ اسی کے حوالے کر دینا چاہیے، سبحانہ و تعالیٰ
۶۴۔۔۔ سو اس سے اس اصل سبب اور باعث کی نشاندہی فرما دی گئی، جو ان لوگوں کی گمراہی اور بے راہ روی کی جڑ بنیاد ہے، یعنی یہ کہ انہوں نے اس دنیائے فانی کے وقتی فائدوں اور عارضی لذتوں ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے یہ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں، حالانکہ دنیا اور اس کی تمام تر دلفریبیوں کی حقیقت اور حیثیت لہو ولعب اور کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں، جبکہ اصل اور حقیقی زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے جو کہ دائمی اور اَبَدی ہے، اس لئے اصل کامیابی وہیں کی کامیابی ہے، اور اصل ناکامی بھی وہیں کی ناکامی، والعیاذ باللہ العظیم، اور دنیاوی زندگی کی قدر وقیمت بھی صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے، جبکہ اس کو آخرت کی کمائی کے لئے صرف کیا جائے، اور آخرت کو اصل مقصد اور حقیقی نصب العین قرار دے کر اس کو گزارا جائے، سو اس صورت میں یہ دنیاوی زندگی بھی بلاشبہ ایک عظیم الشان سرمایہ بن جائیگی۔ کہ یہ چند روزہ زندگی آخرت کی اَبَدی بادشاہی کے حصول اور اس سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ بن جائیگی۔ لیکن یہ مقصد اگر نظروں سے اوجھل ہو جائے تو پھر یہ دنیاوی زندگی اَبَدی خسارے کا باعث بن جائیگی۔ والعیاذ باللہ العظیم، کاش کہ یہ لوگ اس حقیقت کو جان لیتے۔
۶۵۔۔۔ سو اس سے انسان کی تنگ ظرفی اس کی ناشکری اور بے انصافی کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جب ایسے لوگ بھنور میں پھنستے ہیں تو اپنے مصنوعی سہاروں اور من گھڑت وخود ساختہ خداؤں کو بھول کر اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کو پکارتے ہیں۔ لیکن جب اللہ ان کو اپنے کرم سے غرقابی سے بچا کر خشکی میں لے آتا ہے تو یہ یکایک شرک کرنے لگتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے فلاں معبود، فلاں ہستی، اور فلاں سرکار کے کرم سے ہوا، وغیرہ وغیرہ، پھر یہ اسی کے گن گاتے، اس کے لئے پھیرے لگاتے، چکر کاٹتے، دیگیں پکانے اور چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں۔ جیسا کہ آج بھی جگہ جگہ دیکھنے میں آتا ہے، سو یہ کتنا بڑا ظلم، اور کس قدر بے انصافی اور ناشکری ہے؟ دیا کس نے؟ مصیبت سے بچایا کس نے؟ اور یہ ناشکرے لوگ نام کس کا لیتے ہیں؟ لیکن اس سب کے باوجود اس خالق و مالک نے ان کو ڈھیل اور چھوٹ دے رکھی ہے۔ اور وہ ان کو فوراً نہیں پکڑتا۔ تو یہ اسی وحدہٗ لاشریک کی شان حلم و کرم ہو سکتی ہے اور بس سبحانہ و تعالیٰ۔ فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاہ، فانہ ہو الاہل للحمد والتناء، جل وعلا
۶۷۔۔۔ سو اس سے مشرکین مکہ کے دلوں پر دستک دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو حرم کی تولیت اور اس کی مجاورت کے شرف سے نوازا، جس کے فوائد و منافع سے یہ لوگ کس طرح سے، اور برابر مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں، یہ وہاں پر امن و سکون کی زندی گزارتے ہیں، جبکہ ان کے آس پاس کے لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے۔ مگر اس کے جواب میں یہ لوگ اپنے خالق و مالک کے آگے جھکنے، اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونے، کے بجائے الٹا شرک کے ظلم عظیم کا ارتکاب کرتے ہیں، اور انہوں نے اس کے اس پاکیزہ اور مقدس گھر کو بتوں کی نجاست سے بھر دیا، اور اپنے خالق و مالک کے عبادت و بندگی سے منہ موڑ کر یہ انہی خود ساختہ بتوں، اور من گھڑت حاجت رواؤں، و مشکل کشاؤں، کی پوجا پاٹ میں لگ گئے۔ تو کیا یہ باطل کی پوجا کرتے۔ اور اللہ کی نعمتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں؟ سو یہ ان لوگوں کی کیسی مت ماری، اور بے انصافی ہے، جس نے ان کو دائمی ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں ڈال دیا۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۶۸۔۔۔ آیت کریمہ میں افتراء علی اللہ یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنے سے مراد شرک ہے۔ کہ یہ اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ اور افتراء ہے۔ اور حق سے یہاں پر مراد قرآن ہے جو کہ سراسر حق و صدق اور حق وصدق کا واحد منبع و مصدر ہے۔ اور لَمَّا جَاء َہُ کی قید سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر کی بعثت اور قرآن کے نزول سے پہلے تو ان لوگوں کے لئے عذر و معذرت کی پھر بھی کچھ گنجائش ہو سکتی تھی، کہ ان کو حق کا پتہ نہیں تھا۔ لیکن اب جبکہ اللہ کے رسول اور رسولوں کے امام و خاتم رسول تشریف لا چکے۔ قرآن بھی نازل ہو گیا۔ اور حق ان کے سامنے پوری طرح واضح ہو گیا تو اب ان کے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ تو اب ایسے کٹے کافروں کے دوزخی ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے؟ اس لئے بطور استفہام تقریری ارشاد فرمایا کہ کیا ایسے کٹے اور کھلے کافروں کا ٹھکانہ بھی دوزخ میں نہ ہو گا؟ یعنی ہاں ہو گا اور ضرور ہو گا۔ کہ ان کا جرم بہت بڑا، اور نہایت سنگین ہے۔ کہ انہوں نے حق کی روشنی سے سرفرازی کے باوجود اور اس کے پوری طرح واضح ہو جانے کے باوصف، اس سے منہ موڑا اور کفر و باطل کو گلے لگایا، سو ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دن کی روشنی میں جانتے بوجھتے، اور کھلی آنکھوں دیکھنے کے باوجود دہکتی بھڑکتی آگ کے الاؤ میں چھلانگ لگائے۔ والعیاذُ باللہ العظیم