اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ قسم ہے ان کی جو کھڑے ہوتے ہیں صف باندھ کر
۲۔۔۔ پھر ان کی جو ڈانٹتے ہیں جھڑک کر
۳۔۔۔ پھر ان کی جو تلاوت کرتے ہیں (اللہ کے ) ذکر کی
۴۔۔۔ بلاشبہ تمہارا معبود (حقیقی) قطعی طور پر ایک ہی ہے
۵۔۔۔ وہی رب ہے آسمانوں اور زمین اور ان تمام چیزوں کا جو کہ ان دونوں کے درمیان میں ہیں اور وہی ہے رب مشرقوں کا
۶۔۔۔ بلاشبہ ہم ہی نے مزین کیا آسمان دنیا کو ایک خاص زینت یعنی ستاروں سے
۷۔۔۔ اور (اس کو) محفوظ کر دیا ہر شیطان سرکش (کی پہنچ اور دسترس) سے
۸۔۔۔ (جس کے نتیجے میں ) وہ عالم بالا کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے اور ان کو دھتکارا جاتا ہے ہر طرف سے
۹۔۔۔ بھگانے کے لئے اور ان کے لئے ایک دائمی عذاب ہے
۱۰۔۔۔ تاہم جو کوئی ان میں سے کچھ لے اڑے تو اس کے پیچھے لگتا ہے ایک دھکتا ہوا انگارا
۱۱۔۔۔ سو پوچھو ان سے کہ کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا ہماری پیدا کردہ ان چیزوں کا (جن کا ذکر ابھی گزرا؟) ان کو تو بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا ایک چپکتے ہوئے (لیسدار) گارے سے
۱۲۔۔۔ بلکہ تم تو تعجب کرتے ہو اور یہ لوگ مذاق اڑا رہے ہیں
۱۳۔۔۔ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ قبول نہیں کرتے
۱۴۔۔۔ اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو یہ (اس سے سبق لینے کی بجائے ) اس کا مذاق اڑاتے ہیں
۱۵۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے کھلم کھلا
۱۶۔۔۔ بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم سب دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے ؟
۱۷۔۔۔ اور کیا ہمارے وہ باپ دادا بھی جو ہم سے بھی پہلے گزر چکے ہیں ؟
۱۸۔۔۔ (ان سے ) کہو کہ ہاں اور اس حال میں کہ تم لوگ ذلیل (اور بے بس و لاچار) ہوؤ گے
۱۹۔۔۔ وہ تو صرف ایک جھڑکی ہو گی زور کی جس سے یہ سب کے سب یکایک (اس طرح اٹھ کھڑے ہوں گے کہ سب کچھ) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے
۲۰۔۔۔ اور (سراپا حسرت و افسوس بن کر) کہیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی یہ تو وہی بدلہ کا دن ہے
۲۱۔۔۔ (آواز آ جائے گی کہ ہاں ) یہ وہی فیصلے کا دن ہے جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے
۲۲۔۔۔ (حکم ہو گا کہ) اکٹھا کر دو ان سب لوگوں کو جو اڑے رہے تھے اپنے ظلم (و سرکشی) پر ان کو بھی اور ان کے ساتھیوں (اور ہم مشربوں ) کو بھی اور (ان کے من گھڑت اور خود ساختہ) ان سب معبودوں کو بھی جن کی یہ پوجا کرتے تھے
۲۳۔۔۔ اللہ کے سوا پھر ڈال دو ان سب کو دوزخ کی راہ پر
۲۴۔۔۔ اور ہاں ذرا ٹھہراؤ ان کو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے
۲۵۔۔۔ کیا ہو گیا تمہیں کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟
۲۶۔۔۔ بلکہ (اس دن تو) وہ سب کے سب سر جھکائے کھڑے ہوں گے
۲۷۔۔۔ اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم تکرار شروع کریں گے
۲۸۔۔۔ (چنانچہ پیروی کرنے والے اپنے پیشواؤں سے ) کہیں گے کہ تم تو ہمارے پاس آیا کرتے تھے دائیں طرف سے
۲۹۔۔۔ وہ جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہیں تھے
۳۰۔۔۔ اور ہمارا تم پر کوئی زور نہیں تھا بلکہ تم خود ہی سرکش لوگ تھے
۳۱۔۔۔ سو (اب اس تو تکار کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ) اب تو ثابت ہو چکی ہم سب پر بات ہمارے رب کی اب ہمیں بہر حال چکھنا ہے مزہ (اس عذاب کا)
۳۲۔۔۔ سو ہم نے تم کو گمراہ کیا تھا کہ ہم خود گمراہ تھے
۳۳۔۔۔ پس اس دن وہ سب ہی اس عذاب میں مشترک ہوں گے
۳۴۔۔۔ بے شک ہم اسی طرح (کا سلوک) کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ
۳۵۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ حقیقت امر میں کوئی معبود نہیں سوائے اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے تو یہ بڑائی کے گھمنڈ میں آ(کر بپھر) جاتے
۳۶۔۔۔ اور کہتے کہ کیا ہم چھوڑ دیں گے اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر؟
۳۷۔۔۔ (نہیں ) بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لے کر آیا تھا اور اس نے سچا بتایا تھا دوسرے تمام رسولوں کو
۳۸۔۔۔ بہر حال اب تمہیں (ہمیشہ کے لئے ) مزہ چکھتے رہنا ہے اس دردناک عذاب کا
۳۹۔۔۔ اور تمہیں بدلہ نہیں دیا جا رہا مگر تمہارے انہی کاموں کا جو تم خود کرتے رہے تھے
۴۰۔۔۔ بجز اللہ کے چنے ہوئے بندوں کے (کہ وہ انجام سے محفوظ رہیں گے )
۴۱۔۔۔ ان کے لئے ایک ایسا رزق ہو گا جو کہ معلوم ہے
۴۲۔۔۔ یعنی لذت کی طرح طرح کی چیزیں اور ان کو عزت سے رکھا جائے گا
۴۴۔۔۔ آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے عظیم الشان تختوں پر
۴۵۔۔۔ ان کے سامنے دور چل رہا ہو گا ایسے عظیم الشان جام ہائے شراب کا جن کو بھر بھر کر لایا جا رہا ہو گا ایک عظیم الشان چشمے سے
۴۶۔۔۔ ایسی شراب جو کہ سفید (اور چمکتی) ہو گی
۴۷۔۔۔ سراسر لذت (و سرور) ہو گی پینے والوں کے لئے نہ تو اس میں کوئی خرابی ہو گی اور نہ ہی اس سے ان میں کسی طرح کا کوئی فتور آئے گا
۴۸۔۔۔ اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی بڑی خوبصورت آنکھوں والی ایسی (عظیم الشان اور بے مثال) عورتیں ہوں گی
۴۹۔۔۔ کہ گویا کہ وہ انڈے ہیں پردوں میں رکھے ہوئے
۵۰۔۔۔ پھر وہاں پر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں بات چیت کریں گے
۵۱۔۔۔ (اسی دوران) ان میں سے ایک کہے گا (یار دنیا میں ) میرا ایک ہم نشین ہوا کرتا تھا
۵۲۔۔۔ جو مجھ سے کہا کرتا تھا کہ کیا تم بھی (مرنے کے بعد جی اٹھنے کی) تصدیق کرتے ہو؟
۵۳۔۔۔ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو کیا واقعی ہمیں (دوبارہ زندہ کر کے بدلہ دیا جائے گا؟
۵۴۔۔۔ اس پر حق تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کیا تم لوگ اس شخص کو دیکھنا چاہتے
۵۵۔۔۔ پھر وہ جونہی (اس کو دیکھنے کے لئے ) جھانکے گا تو اس کو وہ جہنم کی بھڑکتی آگ کے عین درمیان میں دیکھے گا
۵۶۔۔۔ (اور اس کو خطاب کر کے ) کہے گا اللہ کی قسم تو تو قریب تھا کہ مجھے ہلاکت میں ڈال دیتا (راہ حق سے بہکا کر)
۵۷۔۔۔ اور اگر میرے رب (مہربان) کا فضل میرے شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی یقینی طور پر آج ان لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں
۵۸۔۔۔ (پھر وہ جنتی اپنی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ایک کیف کے عالم میں کہے گا کہ) کیا واقعی اب ہمیں موت نہیں آئے گی
۵۹۔۔۔ سوائے ہماری اس پہلی موت کے جو ہمیں دنیا میں آ چکی اور بس اور اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونے کا؟
۶۰۔۔۔ بلاشبہ یہی ہے وہ سب سے بڑی کامیابی
۶۱۔۔۔ ایسی ہی کامیابی کے لئے کام کرنا چاہیے کام کرنے والوں کو
۶۲۔۔۔ کیا یہ بہتر ہے مہمانی کیلئے یا تھوہر کا وہ درخت
۶۳۔۔۔ بلاشبہ اس کو ہم نے فتنہ (اور آزمائش کا سامان) بنا دیا ہے ظالموں کے لئے
۶۴۔۔۔ وہ ایک ایسا ہولناک درخت ہو گا جو دوزخ کی تہ سے نکلے گا
۶۵۔۔۔ اس کے شگوفے ایسے (ہولناک اور بد منظر) ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر
۶۶۔۔۔ سو ان لوگوں کو اس سے کھانا ہو گا اور (کھانا بھی ایسا کہ) اسی سے ان کو پیٹ بھرنا ہو گا
۶۷۔۔۔ پھر (مزید یہ کہ) ان کے لئے اس پر ملونی ہو گی ایک کھولتے ہوئے (ہولناک) پانی سے
۶۸۔۔۔ پھر ان کی واپسی دوزخ ہی کی اس (بھڑکتی) دہکتی ہولناک آگ کی طرف ہو گی
۶۹۔۔۔ (یہ سب کچھ اس لئے ہو گا کہ) ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا
۷۰۔۔۔ (لیکن) پھر بھی یہ لوگ (حق کو چھوڑ کر) انہی لوگوں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے گئے
۷۱۔۔۔ اور یقیناً ان سے پہلے لوگوں میں بھی اکثر گمراہ ہی تھے
۷۲۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے ان میں بھی خبردار کرنے والے (رسول) بھیجے تھے
۷۳۔۔۔ سو تم دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جن کو خبردار کیا گیا تھا؟
۷۴۔۔۔ سوائے اللہ کے ان خاص بندوں کے جن کو چن لیا گیا تھا
۷۵۔۔۔ اور بلاشبہ نوح نے بھی ہم ہی کو پکارا سو ہم کیا ہی خوب فریاد رسی کرنے والے ہیں
۷۶۔۔۔ اور ہم ہی نے نجات دی (اور بچا لیا) ان کو بھی اور ان کے تعلق داروں کو بھی اس کرب عظیم سے
۷۷۔۔۔ اور ہم نے ان کی نسل کو ہی کر دیا (ہمیشہ) باقی رہنے والی
۷۸۔۔۔ اور ہم نے (آپ کی تعریف و توصیف اور) آپ کا ذکر خیر چھوڑ دیا پچھلوں میں
۷۹۔۔۔ سلام ہو نوح پر تمام جہاں والوں میں
۸۰۔۔۔ بے شک ہم اسی طرح صلہ (اور بدلہ) دیتے ہیں نیکو کاروں کو
۸۱۔۔۔ بلاشبہ وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے
۸۲۔۔۔ پھر ہم نے غرق کر دیا باقی سب کو
۸۳۔۔۔ اور بلاشبہ انہی کے گروہ میں سے (حضرت) ابراہیم بھی تھے
۸۴۔۔۔ (ان کا وہ وقت بطور خاص یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب وہ حاضر ہوئے اپنے رب کے حضور قلب سلیم کے ساتھ
۸۵۔۔۔ جب کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے (ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ) کہا کہ کیا ہیں یہ چیزیں جن کی پوجا تم لوگ کر رہے ہو؟
۸۶۔۔۔ کیا تم اللہ کے سوا جھوٹے (اور من گھڑت) معبود چاہتے ہو؟
۸۷۔۔۔ آخر کیا گمان ہے تم لوگوں کا پروردگار عالم کے بارے میں ؟
۸۸۔۔۔ پھر (ایک موقع پر) انہوں نے ایک (معنی خیز) نظر ڈالی ستاروں میں
۸۹۔۔۔ اور کہا میری طبیعت کچھ خراب ہے
۹۰۔۔۔ اس پر وہ لوگ آپ کے یہاں سے (لاپرواہی کے ساتھ) چلے گئے پیٹھ موڑ کر
۹۱۔۔۔ سو ان کے پیچھے آپ چپکے سے پہنچ گئے ان کے معبودوں کے پاس پھر (ان کی تذلیل و تحقیر کے لئے ان سے ) کہا کیا تم کھاتے نہیں ہو؟
۹۲۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم بولتے بھی نہیں ہو
۹۳۔۔۔ پھر آپ پل پڑے ان (کے ان ٹھاکروں ) پر ضربیں لگاتے ہوئے دائیں ہاتھ سے
۹۴۔۔۔ ادھر وہ لوگ (اپنے معبودوں کا یہ حشر معلوم ہونے پر) آپ کے پاس پہنچ گئے دوڑتے ہوئے
۹۵۔۔۔ تو آپ نے ان سے کہا کہ کیا تم لوگ ان چیزوں کی پوجا (اور بندگی) کرتے ہو جن کو تم خود (اپنے ہاتھوں سے تراش) تراش کر بناتے ہو؟
۹۶۔۔۔ حالانکہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تم کو بھی اور ان تمام چیزوں کو بھی جن کو تم لوگ بناتے ہو
۹۷۔۔۔ اس پر وہ لوگ (آگ بگولہ ہو کر) بولے کہ بناؤ اس کیلئے ایک آتشکدہ پھر جھونک دو اس کو اس کی دہکتی آگ میں
۹۸۔۔۔ سو انہوں نے تو اس کے خلاف ایک (خطرناک) چال چلی مگر ہم نے ان ہی سب کو نیچ (اور ذلیل) کر دیا
۹۹۔۔۔ اور (ان کی اصلاح سے مایوسی کے بعد) ابراہیم نے کہا کہ اب میں جاتا ہوں اپنے رب کی طرف وہ ضرور میری راہنمائی فرمائے گا
۱۰۰۔۔۔ (اور آپ نے دعاء کی کہ) اے میرے رب عطا فرما دے مجھے ایک صالح (اور نیک) فرزند
۱۰۱۔۔۔ سو ہم نے (ان کی دعاء کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے ) ان کو خوشخبری سنا دی ایک بڑے ہی (ہونہار اور) بردبار بیٹے کی
۱۰۲۔۔۔ پھر جب آپ کا وہ بیٹا دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا تو آپ نے (اس سے ) کہا کہ میرے پیارے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب دیکھو تمہاری کیا رائے ہے ؟ تو اس (ہونہار بچے ) نے جواب دیا ابا جان آپ کر گزرئیے جو بھی کچھ حکم آپ کو دیا جا رہا ہے مجھے آپ انشاء اللہ بہر حال صبر کرنے والوں ہی میں سے پائیں گے
۱۰۳۔۔۔ پھر جب وہ دونوں جھک گئے ہمارے حکم کے سامنے (اور انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہمارے آگے ) اور (تعمیل حکم کے لئے ) لٹا دیا ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل
۱۰۴۔۔۔ تو ہم نے پکار کر کہا اے ابراہیم
۱۰۵۔۔۔ بے شک سچ کر دکھایا آپ نے اپنے خواب کو (اور کامیاب ہو گئے آپ اس آزمائش میں ) بے شک ہم ایسے ہی (صلہ و) بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو
۱۰۶۔۔۔ بلاشبہ یہ ایک (بڑی بھاری اور) کھلی آزمائش تھی
۱۰۷۔۔۔ اور ہم نے ان کو ان کے بیٹے کے عوض ایک بڑی عظیم قربانی سے نواز دیا
۱۰۸۔۔۔ اور ہم نے ان کی تعریف چھوڑ دی (اور ان کا ذکر خیر رکھ دیا) پچھلوں میں
۱۱۰۔۔۔ ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو
۱۱۱۔۔۔ بلاشبہ وہ ہمارے خاص ایماندار بندوں میں سے تھے
۱۱۲۔۔۔ اور (ایک اور انعام ان پر ہم نے یہ کیا کہ) ہم نے ان کو خوشخبری دے دی اسحاق (جیسے بیٹے ) کی کہ وہ نبی ہوں گے (ہمارے قرب خاص) کے سزاواروں میں سے
۱۱۳۔۔۔ اور ہم نے برکتیں نازل کیں ان (ابراہیم) پر بھی اور اسحاق پر بھی اور ان دونوں کی نسل میں سے کچھ نیکوکار بھی ہیں اور کچھ ایسے بھی جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں کھلم کھلا
۱۱۴۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا
۱۱۵۔۔۔ اور نجات بخشی ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم کو اس کرب عظیم سے
۱۱۶۔۔۔ اور ان کی ایسی مدد کی کہ بالآخر وہی غالب ہو کر رہے
۱۱۷۔۔۔ اور ان دونوں کو بھی ہم نے نوازا تھا اس روشن کتاب سے
۱۱۸۔۔۔ اور ان کو ہدایت کی تھی ہم نے سیدھی راہ کی
۱۱۹۔۔۔ اور ان دونوں کے لئے بھی ہم نے ان کا ذکر خیر رکھ دیا تھا پچھلوں میں
۱۲۰۔۔۔ سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر
۱۲۱۔۔۔ بلاشبہ ہم ایسے ہی (نوازتے اور) بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو
۱۲۲۔۔۔ بلاشبہ وہ دونوں ہمارے خاص ایماندار بندوں میں سے تھے
۱۲۳۔۔۔ اور بلاشبہ الیاس بھی یقینی طور پر رسولوں میں سے تھے
۱۲۴۔۔۔ (ان کا بھی وہ وقت خاص طور پر یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب انہوں نے بھی اپنی قوم سے (دوسرے نبیوں کی طرح) یہی کہا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟
۱۲۵۔۔۔ کیا تم لوگ بعل (جیسی بے حقیقت چیز) کو پوجتے پکارتے ہو؟ اور چھوڑتے ہو اس کو جو سب سے بہتر خالق ہے ؟
۱۲۶۔۔۔ یعنی اس اللہ کو جو رب ہے تمہارا بھی اور تمہارے پہلے باپ دادوں کا بھی؟
۱۲۷۔۔۔ پھر ان لوگوں نے بھی آپ کی تکذیب ہی کی سو ان سب کو بھی پکڑ (اور جکڑ) کر لایا جائے گا (قیامت کے روز عذاب کے لئے )
۱۲۸۔۔۔ سوائے اللہ کے ان بندوں کے جن کو چن لیا گیا
۱۲۹۔۔۔ اور الیاس کے لئے بھی ہم نے ذکر خیر رکھ دیا (رہتی دنیا تک) پچھلی نسلوں میں
۱۳۱۔۔۔ بلاشبہ ہم اسی طرح (صلہ و) بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو
۱۳۲۔۔۔ بلاشبہ وہ بھی ہمارے خاص ایماندار بندوں میں سے تھے
۱۳۳۔۔۔ اور بلاشبہ لوط بھی پیغمبروں میں سے تھے
۱۳۴۔۔۔ (ان کا وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ہم نے نجات دے دی ان کو بھی اور ان کے تعلق داروں کو بھی سب کو
۱۳۵۔۔۔ سوائے ایک (بدبخت) بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں تھی
۱۳۶۔۔۔ پھر ہم نے تہس نہس کر کے رکھ دیا باقی سب کو
۱۳۷۔۔۔ اور یقیناً تم لوگ خود ان (کے اجڑے دیار) پر سے گزرتے ہو دن کو بھی
۱۳۸۔۔۔ اور رات کو بھی تو کیا پھر بھی تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟
۱۳۹۔۔۔ اور بلاشبہ یونس بھی قطعی طور پر رسولوں میں سے تھے
۱۴۰۔۔۔ (ان کا اس وقت کا قصہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ) جب وہ بھاگ کر پہنچے اس کشتی تک جو کہ بھری ہوئی تھی
۱۴۱۔۔۔ پھر وہ (اس کی) قرعہ اندازی میں شریک ہوئے تو آخرکار وہی ہو گئے زک اٹھانے والوں میں سے
۱۴۲۔۔۔ پھر نگل لیا ان کو مچھلی نے اس حال میں کہ وہ خود ہی (اپنے آپ کو) ملامت کر رہے تھے
۱۴۳۔۔۔ سو اگر نہ ہوتی یہ بات کہ وہ تسبیح (اور استغفار) کرنے والوں میں سے تھے
۱۴۴۔۔۔ تو یقیناً ان کو اسی (مچھلی) کے پیٹ میں رہنا پڑتا (قیامت کے ) اس دن تک جس میں سب لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا
۱۴۵۔۔۔ پھر ہم نے ان کو ڈال دیا ایک چٹیل میدان میں درآنحالیکہ وہ (کمزور اور) بیمار تھے
۱۴۶۔۔۔ اور ہم نے اگا دیا ان پر ایک بیلدار درخت
۱۴۷۔۔۔ اور ہم نے ان کو بھیجا (پیغمبر بنا کر) ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ لوگوں کی طرف
۱۴۸۔۔۔ پھر وہ لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں فائدہ اٹھانے دیا ایک خاص وقت تک
۱۴۹۔۔۔ پس آپ ذرا ان لوگوں سے یہ تو پوچھئے کہ کیا (یہ بات ان کے دلوں کو لگتی ہے ؟ کہ) آپ کے رب کے لئے تو ہوں بیٹیاں اور خود ان کے لئے بیٹے !
۱۵۰۔۔۔ یا واقعہ میں ہم نے فرشتوں کو عورتیں ہی بنایا تھا اور یہ دیکھ رہے تھے ؟
۱۵۱۔۔۔ خوب سن کہ یہ لوگ محض اپنے من کی گھڑت (اور اختراع) سے یہ بات کہتے ہیں
۱۵۲۔۔۔ کہ اللہ کی اولاد ہے اور یہ لوگ قطعی طور پر جھوٹے ہیں
۱۵۳۔۔۔ کیا اللہ نے اپنے لئے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو پسند کیا؟
۱۵۴۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا تم لوگ کیسے حکم لگاتے ہو؟
۱۵۵۔۔۔ تو کیا تم لوگ غور نہیں کرتے ؟
۱۵۶۔۔۔ کیا تمہارے پاس کوئی (صاف اور) کھلی سند ہے ؟
۱۵۷۔۔۔ تو لے آؤ تم اپنی وہ کتاب اگر تم سچے ہو
۱۵۸۔۔۔ اور انہوں نے رشتہ داری قائم کر رکھی ہے اللہ اور جنوں کے درمیان حالانکہ جن خود یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ (ان میں سے جو مجرم و بدکردار ہوں گے ) وہ پکڑے ہوئے لائے جائیں گے
۱۵۹۔۔۔ پاک ہے اللہ ان سب باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں
۱۶۰۔۔۔ سوائے اللہ کے ان خاص بندوں کے جن کو چن لیا گیا
۱۶۱۔۔۔ پس تم اور تمہارے وہ سب معبود بھی جن کی پوجا میں تم لوگ لگے ہوئے ہو
۱۶۲۔۔۔ (سب مل کر بھی) اللہ سے کسی کو پھیر نہیں سکتے
۱۶۳۔۔۔ سوائے اس کے جس کا جہنم رسید ہونا طے ہو چکا (اس کی اپنی بدنصیبی کے باعث)
۱۶۴۔۔۔ اور (ہمارا حال تو یہ ہے کہ) ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقام مقرر ہے اور بس
۱۶۵۔۔۔ اور ہمارا کام تو صف بستہ کھڑے رہنا ہے (اس کے حکم کے انتظار میں )
۱۶۶۔۔۔ اور ہمارا کام تو اس کی تسبیح (اور پاکی بیان) کرتے رہنا ہے
۱۶۷۔۔۔ اور یہ لوگ تو (آپ کی بعثت سے قبل) بڑا زور دے کر کہا کرتے تھے
۱۶۸۔۔۔ کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی ذکر ہوتا پہلے لوگوں سے
۱۶۹۔۔۔ تو ہم بھی ضرور اللہ کے چیدہ بندے ہوتے
۱۷۰۔۔۔ پھر بھی (اس عظیم الشان کتاب ہدایت کے آنے پر) انہوں نے اس کا انکار کر دیا سو عنقریب (اس کا انجام) ان کو خود ہی معلوم ہو جائے گا
۱۷۱۔۔۔ اور بلاشبہ پہلے طے ہو چکی ہے بات ہمارے ان خاص بندوں کے لئے جن کو رسول بنا کر بھیجا گیا
۱۷۲۔۔۔ کہ بے شک وہی ہماری مدد پائیں گے
۱۷۳۔۔۔ اور یقیناً ہمارے لشکر ہی نے قطعی طور پر غالب ہو کر رہنا ہے
۱۷۴۔۔۔ پس آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ایک خاص وقت تک
۱۷۵۔۔۔ اور دیکھتے رہو ان (کے انجام) کو عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے (اپنا انجام)
۱۷۶۔۔۔ تو کیا پھر بھی یہ لوگ ہمارے عذاب کیلئے جلدی مچا رہے ہیں ؟
۱۷۷۔۔۔ سو جب اتر آئے گا وہ عذاب ان کے صحن میں تو اس وقت بڑا ہی برا وقت ہو گا ان لوگوں کیلئے جن کو پہلے خبردار کیا جا چکا تھا
۱۷۸۔۔۔ اور چھوڑ دو ان لوگوں کو ان کے حال پر ایک وقت تک
۱۷۹۔۔۔ اور دیکھتے رہو (ان کے انجام کو) عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے (نتیجہ اپنے کئے کرائے کا)
۱۸۰۔۔۔ پاک ہے تمہارا رب عزت کا مالک ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں
۱۸۱۔۔۔ اور سلام ہو پیغمبروں پر
۱۸۲۔۔۔ اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو کہ پروردگار ہے سب جہانوں کا
۷۔۔۔ اس سے ستاروں سے متعلق دو عظیم الشان فائدوں کو ذکر فرمایا گیا ہے ایک یہ کہ وہ آسمان دنیا کے لئے زیب و زینت کا سامان ہیں۔ جس سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت بے پایاں اور اس کی حکمت بے نہایت کا پتہ چلتا ہے۔ سو آسمان دنیا کے اس سقف نیلگونی کے اندر جھلمل جھلمل کرتے یہ ان گنت ولا تعداد اور عظیم الشان و بے حساب ستارے اپنی زبان حال سے اپنے خالق و مالک کی عظمت بے پایاں اور اس کی قدرت بے نہایت کے گن گاتے، اور دنیا کو دعوت غور و فکر دیتے ہیں کہ اپنے اس خالق عظیم کی عظمت کو پہچانو اور دل و جان سے اس کے آگے جھک جاؤ۔ اور دوسرا بڑا فائدہ ستاروں کا یہاں پر یہ ذکر فرمایا گیا کہ یہ آسمان کے لئے ہر سرکش شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہیں، پس جب کوئی سرکش شیطان ادھر کان لگاتے، اور چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے، تو ان کے ذریعے اس کو مار بھگایا جاتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اس کی حفاظت کی ہے ہر شیطان مردود سے، مگر جو چوری چھپے کچھ سن لے، تو اس کے پیچھے آ لگتا ہے ایک دہکتا ہوا انگارہ (الحجر:۱۷۔۱٨) اور تیسرا بڑا فائدہ ستاروں کا دوسرے مقام پر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ یہ راستوں کے پہچاننے کا ذریعہ ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ (النحل۔۱۶) یعنی لوگ ان ستاروں سے راستے معلوم کرتے ہیں، اسی لئے حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ ستاروں کو تین بڑے مقاصد کے لئے پیدا فرمایا گیا ہے۔ شیطانوں کو دھتکارنے کیلئے، آسمان دنیا کی زیب و زینت کیلئے، اور راستے معلوم کرنے کیلئے، (طبری، قرطبی، اور صفوہ، وغیرہ)
۹۔۔۔ سو شیاطین عالم بالا کی باتیں سننے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن یہ سن نہیں سکتے، کیونکہ یہ جب کان لگاتے ہیں تو ان کو دھتکارنے بھگانے کے لئے ان پر سنگباری کی جاتی ہے، دحور کے معنی دھتکارنے، کھدیڑنے، اور مار بھگانے کے ہیں اور واصب کے معنی ہیں دائم (قرطبی صفوہ وغیرہ) سو دنیا میں تو یہ اس طرح ملعون و مرجوم رہیں گے اور اس کے بعد آخرت میں ان کے لئے وہاں پر دائمی عذاب ہے۔ جو ان کو وہاں بھگتنا ہو گا۔ ان کی اپنی شیطنت کے نتیجے میں۔ والعیاذ باللہ،
۱۰۔۔۔ سو عالم بالا سے متعلق قدرت کے محکم انتظام کے بعد اس بات کا تو کوئی امکان نہیں کہ کوئی شیطان وہاں پہنچ سکے۔ یا وہاں کی باتیں سن سکے۔ البتہ اگر کوئی شریر جن کچھ کر سکتا ہے تو یہی کر سکتا ہے کہ اچکوں کی طرح کوئی بات اچک لینے کی کوشش کرے۔ سو اس کے سدِّ باب کے لئے قدرت کی طرف سے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ آسمان کی برجیوں سے اس کے لئے ایک دہکتا ہوا شعلہ چھوڑا جاتا ہے جو اس کا تعاقب کرتا ہے۔ جس سے ان کو دھتکارا جاتا ہے، اور ان کو ذلیل و خوار ہو کر، اور بے نیل مرام واپس ہونا پڑتا ہے۔ سو اس طرح آسمان کو ان سے محفوظ کر دیا گیا۔
۱۹۔۔۔ یعنی ان کو دوبارہ اٹھانے کے لئے قدرت کو کسی خاص اہتمام و انتظام کی ضرورت نہ ہو گی۔ بلکہ اس کے لئے تو محض اس کے حکم و ارشاد کی دیر ہو گی اور بس اس قادر مطلق ربِّ ذوالجلال کی طرف سے ایک ہی جھڑکی اور ڈانٹ ہو گی جس کے نتیجے میں یہ سب یکایک کھڑے تاک رہے ہونگے۔ دوسرے مقام پر اس سے متعلق ارشاد فرمایا گیا فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَاہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ (النازعات ۱۳۔۱۴) یعنی وہ تو محض ایک جھڑکی اور ڈانٹ ہو گی جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب کھلے میدان میں موجود ہونگے۔ سو اس وقت ان پر دہشت وسراسیمگی کی ایک خاص کیفیت طاری ہو گی۔ اور یہ مارے افسوس کے کہیں گے کہ اے ہماری کم بختی یہ تو وہی بدلے کا دن ہے، یعنی جس کو ہم ساری عمر جھٹلاتے رہے۔ مگر اب وہ اپنی پوری قہر مانیوں کے ساتھ آگیا ہے۔
۲۳۔۔۔ اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا سے یہاں پر مراد ہیں مشرک لوگ کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے، اور قرینہ دلیل سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اشارہ ائمہ شرک کی طرف ہے، ازواج کا لفظ یہاں پر ہم مشربوں اور اتباع و پیروکاروں کے لئے استعمال ہوا ہے، اور مَاکَانُوْا یَعْبُدُوْنَ سے مراد ان کے شرکائے جن اور وہ اصنام و احجاد وغیرہ ہیں جن کی یہ لوگ دنیا میں پوجا کرتے رہے تھے۔ سو قیامت کے روز ان سب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہو گا کہ ان سب کو اکٹھا کر کے جہنم کے راستے پر ڈال دو۔ تاکہ وہاں پہنچ کر یہ سب اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھگتنان بھگتیں۔ کیونکہ دنیا میں یہ سب مل کر بہکانے بھٹکانے اور ایک دوسرے کو دوزخ کی راہ پہ ڈالنے کے عمل میں باہم شریک اور معاون تھے۔ اس لئے الجزاء من جنس العمل کے اصول کے مطابق کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس یوم عظیم میں یہ سب یکجا ہو کر اپنے آخری اور ہولناک انجام کہ پہنچیں گے۔ اور ایک دوسرے کے لئے آتش دوزخ کو بھڑکانے کا ذریعہ بنیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لِیَمِیْزُ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہ، عَلیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہ، جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہ، فِیْ جَہَنَّمَ اُولئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ (الانفال۔ ۳۷) یعنی اس روز کافروں کو اکٹھا کر کے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ تاکہ اس طرح اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے علیحدہ کر دے، اور پھر ناپاک کو ایک دوسرے پر ڈھیر کر کے سب کو جہنم میں جھونک دے۔ یہی لوگ ہیں خسارے والے، سو کافر و مشرک لوگ تو اپنے کفر و شرک وغیرہ جرائم اور کرتُوتوں کی بناء پر اپنے اس ہولناک انجام کو پہنچیں گے، مگر ان کے علاوہ ان کے خود ساختہ بت اور من گھڑت معبود جو بالکل بے جان اور بے حقیقت تھے۔ اور جو کچھ کہنے سننے اور کرنے کرانے کی سرے سے کوئی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کو دوزخ میں جھونکنے کا اصل مقصد درحقیقت خود ان مشرکوں کی آگ کو بھڑکانا اور تیز کرنا ہو گا، کہ یہ جب اپنے ان خود ساختہ خداؤں اور من گھڑت حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کو اپنے ساتھ دوزخ کے اس ہولناک الاؤ میں جلتا دیکھیں گے، تو ان کی آتش یاس و حسرت میں اور اضافہ ہو گا، کہ اپنے جن خود ساختہ معبودوں کی حاجت روائی و مشکل کشائی پر انہوں نے تکیہ کر رکھا تھا، وہ ان کے کام آنے کے بجائے الٹا آج خود ان کے ساتھ اس طرح جل رہے ہیں، سو اس طرح ان کا وہ ہولناک عذاب اور کئی گنا بڑھ جائے گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، بہرکیف اس وقت جبکہ ان کو اپنے اس آخری اور انتہائی ہولناک انجام سے سابقہ اور واسطہ پیش آئے گا، تو یہ رہ رہ کر اپنی محرومی اور بدبختی پر افسوس کا اظہار کرینگے، مگر اس کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، کہ اس کا وقت بہر حال گزر چکا ہو گا، اور تلافی و تدارک کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہو گا، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر یہ کتنا بڑا عظیم الشان اور بے مثال احسان ہے کہ اس سے ایسے غیبی حقائق سے اتنا پیشگی اور اسقدر صراحت و وضاحت سے آگاہ کر دیا۔ تاکہ لوگ اپنے اور آخرت کی فکر کر سکیں، اور جو اصلاح کرنا چاہیں کر لیں، قبل اس سے کہ تلافی و تدارک کی یہ فرصت ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے، مگر دنیا ہے کہ پھر بھی غافل ہے، الا ماشاء اللہ والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،
۳۹۔۔۔ سو اس سے منکرین کو صاف طور پر بتا دیا گیا کہ تم لوگوں نے اپنے جرم تکذیب و انکار کے نتیجے میں بہر حال ایک بڑے ہی دردناک عذاب کا مزہ چکھنا ہے، اور ہمیشہ کے لئے اس میں مبتلا رہنا ہے، اور یہ تم لوگوں پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ سب کچھ تمہارے اپنے کئے کرائے کا نتیجہ و ثمرہ اور اس کا صلہ و بدلہ ہو گا۔ پس تم خود دیکھ لو کہ اس یوم حساب کے لئے تم کیا کر رہے ہو؟ اور اس کے نتیجے میں تم وہاں پر کس طرح کے صلے و بدلے اور برتاؤ کی امید رکھ سکتے ہو۔
۴۳۔۔۔ سو ان کو ان نعمتوں بھری جنتوں سے نوازا جائے گا جہاں ہر طرف عظیم الشان نعمتیں ہونگی اور نعمتیں بھی ایسی عظیم الشان جو جنت کی اس بے مثال دنیا کی شان کے لائق ہونگی۔ اور ان کو ایسے عظیم الشان اور بے مثال رزق سے نوازا جائے گا جو وہاں پر معلوم و متعارف ہو گا، جو جو چیزیں ان کو وہاں پر پیش کی جائیں گی وہ ان کی پسند اور ان کے انتخاب کے موافق ہونگی۔ ان میں کسی طرح کی کوئی اجنبیت نہیں ہو گی۔ تاکہ ان کو کسی طرح کا کوئی انقباض اور وحشت لاحق نہ ہو۔ اور ان کے ساتھ وہاں پر نہایت ہی اعزاز و اکرام کا معاملہ کیا جائے گا۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
۴۹۔۔۔ سو اس سے اہل جنت کی ایک اور خاص نعمت کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ اور وہ ہے حُورانِ جنت کی نعمت جس سے ان خوش نصیبوں کو وہاں پر بطور خاص نوازا جائے گا۔ کیونکہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے انسان کی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ عورت کے بغیر اس کی کوئی بھی لذت و خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے یہاں پر اہل جنت کی خاص نعمتوں کے ذکر کے بعد ان حوروں اور ان کی بعض خاص اور امتیازی صفات کو بیان فرمایا گیا ہے جن سے ان کو وہاں پر نوازا جائے گا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے پاس وہاں پر نگاہیں بچائے رکھنے والی۔ بڑی خوبصورت آنکھوں والی ایسی عظیم الشان عورتیں ہونگی جو گویا کہ انڈے ہوں پردوں میں چھپا کر رکھے گئے سو وہ شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کے ایسے عظیم الشان اور بے مثال پیکر ہونگی کہ انکی نگاہیں اپنے شوہروں کے سوا اور کسی پر پڑنے ہی نہیں پائیں گی۔ قصرات الطرف سے اس کا صرف ظاہری اور لغوی مفہوم ہی مراد نہیں، بلکہ اس سے دراصل ان کی عفت و پاکدامنی، شرم وحیا، اور ان کی غیرت و وفاشعاری، جیسی سب عمدہ اور امتیازی صفات و خصال کی عکاسی فرما دی گئی، اسی لئے ہم نے اس کا ترجمہ نگاہیں بچائے رکھنے والی کے الفاظ سے کیا۔ تاکہ اس کے اصل مفہوم کا بقدر امکان اظہار ہو سکے۔ اور عورت کا اصل حسن اس کی عفت و پاکدامنی اور اس کے شرم و حیا اور ان کی غیرت و وفا شعاری جیسی عمدہ صفات ہی سے ہے، اس لئے ہر لفظ کے استعمال سے دراصل ایسی سب ہی عمدہ اور امتیازی صفات و خصال کی عکاسی فرما دی گئی ہے، پھر ان کی دوسری خاص صفت جو یہاں پر بیان فرمائی گئی ہے وہ ہے عِیْنً جو کہ جمع ہے عَیْنَاء کی جس کے معنی موٹی اور خوبصورت آنکھ والی کے آتے ہیں جس کو آہو چشم بھی کہا جاتا ہے۔ اور تیسری صفت ان کی یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ ایسی ہونگی کہ گویا کہ انڈے ہیں جن کو چھپا کر رکھا گیا ہو پردوں میں۔ پس وہ اپنی عفت، صیانت اور رنگت تینوں میں بے مثال ہونگی، سو وہ حسن ظاہر و باطن دونوں کے اعتبار سے بے مثال ہونگی۔ اور جس طرح جنت کی ہر نعمت عظیم الشان اور بے مثال ہو گی، اسی طرح اہل جنت کی رفاقت و زوجیت کے لئے پیدا کی جانے والی حورانِ جنت کی یہ نعمت بھی عظیم الشان اور بے مثال ہو گی، والحمدللہ جل وعلا،
۵۹۔۔۔ یعنی جس طرح کوئی شخص کسی خلاف توقع ملنے والی کامیابی پر اچنبھے اور ناقابل یقین انداز میں کہنے اور پوچھنے لگتا ہے کہ کیا واقعی ایسے ہو گیا ہے؟ اور کیا یہ بات واقعی یقینی ہے؟ سو اسی انداز میں وہ اہل جنت بھی اپنی اس عظیم الشان اور بے مثال کامیابی سے سرفراز ہونے پر خوشی و مسرت کے بے پایاں جذبات میں ڈوب کر اس طور پر کہیں گے کہ کیا واقعی اب ہم موت سے ہمیشہ کے لئے بچ گئے؟ اور اب ہم کبھی مرنے والے نہیں؟ اور ہم موت کے اندیشے اور عذاب کے خدشے سے ہمیشہ کے لئے محفوظ اور نچنت و بے فکر ہو گئے؟ سو اگر واقعی ایسے ہی ہے تو یقیناً یہی ہے سب سے بڑی اور حقیقی کامیابی جس سے ہم سرفراز ہو گئے۔ اور یہی ہے وہ اصل مقصد اور حقیقی نصب العین جس کے لئے محنت کرنی چاہیے محنت کرنے والوں کو وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید بکل حالٍ مِّن الاحوال۔ وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،
۶۲۔۔۔ اہل جنت کو ملنے والے انعام اور ان کی مہمانی کے ذکر کے بعد اس سے اہل دوزخ کی مہمانی کو ذکر فرمایا گیا ہے۔ تاکہ دونوں نمونے انسان کے سامنے رہیں، اور اس کے بعد وہ اپنے ارادہ واختیار سے ان دونوں میں سے جس کا راستہ چاہے اختیار کرے۔ سو غافل و بے فکر لوگوں کے دل و دماغ پر ایک دستک کے طور پر اور ان کو جھنجھوڑنے کے لئے بطور سوال و استفہام ارشاد فرمایا گیا، کہ کیا یہ مہمانی بہتر ہے یا زَقَّوم کا وہ درخت جس کو دوزخیوں کی مہمانی کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟ جس کو ہم نے ظالموں کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا دیا کہ انہوں نے اس لفظ کی آڑ میں دوزخ کا طرح طرح سے مذاق اڑایا۔ چنانچہ جب ان کو بتایا گیا کہ دوزخ میں ان کو کھانے کے لئے زقوم ملے گا، تو انہوں نے اس سے درس عبرت لینے اور بچنے کی فکر کرنے کے بجائے الٹا اس پر فقرے چست کئے۔ کہ کیا کہنے اس ڈراوے کے، کہ دوزخ کی آگ بھی ہو گی، اور اس میں درخت بھی ہونگے، وغیرہ وغیرہ سو اس طرح انہوں نے ایک ایسی حقیقت کو جھٹلا دیا جس سے ان کو بہر حال سابقہ پیش آنے والا ہے، اس طرح یہ درخت ان کے لئے آزمائش اور ان کی نحوست و بدبختی میں اضافے کا باعث بن گیا۔ سو اس سے متعلق واضح فرما دیا گیا کہ یہ کوئی تعجب کی چیز نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس درخت کی فطرت ہی ایسی ہو گی کہ وہ دوزخ کی تہہ سے ہی نکلے گا۔ پھر اس کے منظر کی ہولناکی کو تشبیہ سے واضح فرما دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کے شگوفے ایسے ہونگے جیسے کہ وہ شیطانوں کے سر ہوں، اور یہ ایک نہایت ہی بلیغ تشبیہ ہے کیونکہ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کسی چیز کی قباحت و شناعت کو ظاہر کرنے کے لئے اس کو کسی ایسی خیالی چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے، جو خیالی ہونے کے باوجود محسوس و مشاہد چیزوں سے بھی ذہنوں کے زیادہ قریب ہوتی ہے، جیسے کسی پراگندہ بال شخص کو بھوت سے تشبیہ دینا، یا کسی پراگند ہانی عورت کو بھوتنی یا چڑیل سے تشبیہ دینا وغیرہ، جس کو سنتے ہی اس کی قباحت و شناعت کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے، حالانکہ بھوتنی یا چڑیل کو نہ کسی نے دیکھا ہوتا ہے، اور نہ دیکھ سکتا ہے، مگر عام ذہنوں کے اندر اس کے بارہ میں جو برا تاثر اس کی بناء پر یہ تشبیہ بڑی بلیغ اور پر تاثیر ہوتی ہے سو اسی طرح یہاں پر زقوم کے پتوں اور اس کے کانٹوں کو شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دی گئی ہے، جس سے اس کا نہایت ہی ہولناک سامنے آتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم،
۸۱۔۔۔ سو ان آیات کریمات میں ایک تو اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حضرت نوح کے لئے سلامتی اور برکت کی بشارت ہے دنیا و آخرت دونوں میں سو ان کو اس دنیا میں جو مقام حاصل ہوا وہ اس سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ساری مخلوق میں یہ امتیاز و شرف آپ ہی کو نصیب ہوا۔ اور پھر آخرت میں بھی آپ کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے انعامات ہیں۔ پھر دوسری حقیقت اس میں یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ یہ معاملہ صرف حضرت نوح ہی کے ساتھ خاص نہیں۔ بلکہ یہ بشارت ہر نیکوکار کو شامل ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ کیونکہ اس فضیلت کا تعلق کسی ذات یا شخصیت سے نہیں بلکہ اس کا تعلق خاص صفات و خصال سے ہے، اور جن کی اساس و بنیاد احسان ہے، پس جو لوگ بھی اپنے اندر احسان کی صفت پیدا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو اسی طرح نوازے گا اور تیسری حقیقت ان میں یہ واضح فرما دی گئی کہ بلاشبہ وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے پس ایمان اور اس کا رسوخ احسان کی اساس، اور حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے ملنے والے ہر انعام کی اولین بنیاد ہے وباللہ التوفیق، لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید،
۹۳۔۔۔ یہاں پر راغ کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ جس کے معنی چپکے سے، اور نظر بچا کر کہیں جانے، یا پہنچنے، کے آتے ہیں۔ سو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کی خبر لینے اور اپنے منصوبے پر عمل کے لئے خاص وقت کا انتخاب کیا تھا کہ جب پہرے دار سو جائیں۔ اور وہ اپنے بتوں کی چوکیداری سے غافل ہو جائیں تو اس وقت آپ وہاں پہنچیں۔ سو ایسے ہی خاص وقت میں آپ بت خانے میں پہنچ گئے۔ تو دستی کارروائی شروع کرنے سے پہلے آپ نے ان کی تحقیر و تذلیل کے لئے ان پر طنزیہ فقرے چست کئے، سو آپ نے ان سے خطاب کر کے فرمایا کہ کیا بات ہے تم کچھ کھاتے نہیں ہو؟ یعنی یہ طرح طرح کے کھانے، مٹھائیاں، شیرینیاں اور حلوے مانڈے جو تمہارے پجاریوں نے تمہارے لئے تمہارے سامنے چن چن کر، اور سجا سجا کر رکھے ہوئے ہیں، تم ان کو کھاتے کیوں نہیں؟ اور کیا بات ہے کہ تم کچھ بولتے بھی نہیں ہو؟ اور ہماری کسی بات کا جواب بھی نہیں دے رہے، سو ان طنزیہ فقروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے یہ اقدام کیا۔ تو اس وقت ان پر کسی طرح کی کسی گھبراہٹ وغیرہ کا کوئی اثر نہیں تھا، بلکہ آپ نہایت خوشگوار موڈ میں تھے، کہ آپ کو بت شکنی کا موقع مل رہا ہے۔ آپ کی تدبیر کامیاب ہو رہی ہے۔ اور آپ شرک کے اس اڈے کو اپنے ہاتھ سے مٹا رہے ہیں، بت شکنی کی سعادت آپ کو نصیب ہو رہی ہے، جو کہ علامت اور نشانی ہے، آپ کے صدق و اخلاص، اور قوت ایمان و یقین کی، ورنہ ایک عام آدمی، اور کمزور ایمان و عقیدے کے انسان کے بس میں نہیں، کہ وہ ایسے بڑے بنے ٹھنے، سجے بجائے، اور گھڑے گھڑائے، خداؤں پر اس طرح ہاتھ اٹھائے، سو اس کے بعد آپ نے اپنے داہنے ہاتھ سے کس کس کر ان پر ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ اور ان کو چُورا چُورا کر کے رکھ دیا، سو یہ ہے سنت ابراہیمی کہ کفر و شرک کے اڈوں کو اپنے ہاتھوں سے مٹایا جائے، جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں جو کسی برائی کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اس کو اپنی زبان سے برا کہے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اس کو اپنے دل میں برا سمجھے وَذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان، یعنی یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے، پس اگر یہ بھی نہیں تو پھر اس میں ایمان کا ذرہ بھی نہیں، والعیاذ باللہ العظیم، سو حضرت ابراہیم نے پہلے درجے پر عمل کیا، علیٰ نبینا وعلیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام الی یوم البعث النشور،
۹۹۔۔۔ سو حضرت ابراہیم جب اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو گئے تو آپ نے وہاں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ لیا، کیونکہ پیغمبر کی زندگی کا اصل اور حقیقی مقصد اور مشن اپنے رب پر ایمان کی دعوت دینا۔ اور مخلوق کو اپنے خالق سے جوڑنا ہوتا ہے، کہ اسی میں مخلوق کا بھلا ہے، اور یہی راستہ ہے دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا۔ اس لئے جب کسی قوم کے عناد اور اس کی ہٹ دھرمی کی بناء پر اس کے ایمان لانے اور راہ حق پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہے، تو پیغمبر وہاں سے ہجرت کا ارادہ کر لیتے ہیں، کہ اس کے بعد ان کے ان لوگوں کے اندر رہنے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔ اسی لئے حضرت ابراہیم نے اس موقع پر اپنے ملک اور اپنی قوم سے ہجرت کرنے کا فیصلہ فرمالیا۔ اب آگے کہاں جاؤں؟ کس طرح کے حالات سے سابقہ و واسطہ پڑنے والا ہے؟ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے۔ اس لئے ایسے موقع پر پیغمبر اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کر کے۔ اور اسی پر بھروسہ و اعتماد پر نکل پڑتے ہیں سَیَہْدِیْنِ کے لفظ سے حضرت ابراہیم کے اسی بھروسہ و اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، کہ اگرچہ آگے کے حالات بالکل پردہ خفاء میں ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کیا صورت حال پیش آنے والی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ ضرور میری راہنمائی فرمائے گا۔ کہ اس کا وعدہ ہے کہ جو اس کی راہ میں جدوجہد کریں گے وہ ضرور ان کے لئے راستے آسان فرمائے گا۔ اس لئے میں اسی کے سہارے پر چلتا ہوں، جہاں اس کو منظور ہو گا اور جہاں وہ بہتر سمجھے گا مجھے پہنچائے گا، اور وہ میرے لئے جو بھی کرے گا وہی بہتر ہو گا، سبحانہ و تعالیٰ
۱۰۵۔۔۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ صدق و اخلاص کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے حکم و ارشاد کو بجا لانا چاہتے ہیں، اور وہ احسان کی روش کو اپناتے اور اختیار کرتے ہیں یعنی ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے خالق و مالک کے حکم و ارشاد کو اس طرح بجا لائیں۔ جس طرح کہ اس کو بجا لانے کا حق ہے ان کو اللہ تعالیٰ یہ صلہ عطا فرماتا ہے، کہ وہ اس کی طرف سے آنے والے بڑے بڑے امتحانوں میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، اور پھر اس کے صلے اور نتیجے میں وہ آخرت کی ابدی بادشاہی کی فیروز مندیوں سے بھی سرفراز ہوتے ہیں، اس کے برعکس جن لوگوں کی روش دین کے معاملے میں گریز و فرار کی ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ خداوند قدوس کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آخرت کی کامیابیوں کی راہیں بالکل بند ہو جاتی ہیں، اور وہ بڑے ہی ہولناک خسارے میں مبتلا ہو جاتے ہیں، سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت ایک مرتبہ پھر واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن اور اس کی نیت و ارادہ سے ہے، پس جیسی اس کی نیت ہو گی حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کیا جائے گا، اگر وہ اللہ کی راہ اور اس کی رضا کے راستوں کو اپنانا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے گا، اور اس کو اس کی توفیق سے نوازے گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، اور تاکید در تاکید کے اندر و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَہُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ اور اس کے برعکس جو اس سے منہ موڑے گا، اس کو ادھر ہی چلتا کر دیا جائے گا جدھر کا رخ اس نے خود کیا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّیٰ وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِیْرًا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، اور ہر قدم خیر اور بہتری ہی کی طرف اٹھانے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین، وانہ سبحانہ و تعالیٰ سمیعٌ قَرِیْبٌ مُجِیْبٌ وعلیٰ مایشاءُ قدیر، جل جلالہ وعم نوالہ۔
۱۱۷۔۔۔ مبین اور مُسْتَبِیْن دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ اور اس کتابِ مُسْتَبِیْنِ سے مراد تورات ہے، جو حضرت موسیٰ کو عطاء فرمائی گئی تھی، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی امت کو شریعت اس طرح ایک واضح کتاب کی شکل میں نہیں عطاء فرمائی تھی بلکہ ان لوگوں کو ان کے زمانوں کے مناسب حال زبانی کلامی تعلیم اور ہدایات سے نوازا گیا تھا۔ لیکن تورات کو یہ شرف و امتیاز بخشا گیا کہ اس میں شریعت کو ایک مرتب و واضح کتاب کی شکل میں پیش فرمایا گیا۔ تورات اگرچہ نازل حضرت موسیٰ ہی پر ہوئی تھی۔ لیکن حضرت ہارون کو چونکہ حضرت موسیٰ کی دعاء و درخواست پر آپ علیہ السلام کا شریک رسالت بنایا گیا تھا۔ اس لئے اس کے دیئے جانے کے شرف میں ان کو بھی شریک فرمایا گیا۔ اس لئے یہاں پر اس کی نسبت ان دونوں ہی کی طرف فرمائی گئی۔ اور ان دونوں ہی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان دونوں کو صراط مستقیم کی ہدایت سے نوازا تھا۔ سو اس سے حضرت ہارون کی عظمت شان بھی واضح ہو جاتی ہے اور ان تمام اتہامات کی نفی اور تردید بھی ہو جاتی ہے جو یہود بے بہبود نے آنجناب پر لگائے۔ والعیاذُ اللہ جل وعلا، علی نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام۔
۱۲۶۔۔۔ سو حضرت الیاس نے بھی اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید ہی کی دعوت دی۔ اور ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے کے لئے آپ نے ان سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ یعنی تم ڈرتے نہیں ہو شرک کے انجام، اور اپنے رب کی گرفت و پکڑ سے؟ کیا تم لوگ اس اللہ کو چھوڑ کر جو کہ سب سے بہترین خالق ہے، اور جو رب ہے تم سب کا بھی، اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی، تم اس کو چھوڑ کر لوگ بعل جیسی بے حقیقت چیز کو پوجتے پکارتے ہو۔ آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا؟ اور تمہاری مت کہاں اور کیوں ماری گئی؟ بعل اس دیوتا کا نام تھا جس کی پُوجا حضرت الیاس کی قوم کر رہی تھی روایات کے مطابق اسی کی نسبت سے بعلبک کے شہر کا نام پڑا تھا۔ بک مخفف ہے بکہ کا، جس کے معنی شہر کے ہیں۔ تو بعلبل مطلب ہوا بعل دیوتا کا شہر، والعیاذ باللہ،۔ سو حضرت الیاس نے ان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ سوچتے نہیں کہ ایک طرف اللہ ہے جو کہ خالق و مالک حقیقی، اور پوری کائنات اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے تم سب کو وجود بخشا۔ اور بہترین صلاحیتوں سے نوازا، اور جو کہ رب اور پالنہار ہے تم سب کا بھی، اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی۔ اور دوسری طرف بعل نام کا تمہارا یہ دیوتا ہے، جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ تو پھر تم لوگ سوچو کہ تم کس سے کاٹ کر کس سے جوڑ رہے ہو؟ والعیاذُ باللہ العظیم، مگر اس سب کے باوجود ان لوگوں نے حضرت الیاس کو جھٹلایا، جس کے نتیجے میں آخرکار وہ ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں جا گرے، اور پھر وقت آنے پر وہ سب گرفتار ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگہ میں حاضر ہونگے، جہاں انہوں نے اپنی تکذیب اور اپنے انکار کا پورا پورا صلہ و بدلہ پانا ہو گا، کہ یہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے قانون عدل و انصاف کا لازمی تقاضا ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کے جن کو اس نے اپنی اطاعت و بندگی کے لئے چن لیا تھا، کہ وہ اس کے عذاب و عتاب کے بجائے اس کی رحمت و عنایت کے مستحق ٹھہرے۔ سو کفرو شرک کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، ایسوں کو ڈھیل خواہ جتنی بھی ملے، آخرکار انہوں نے اپنے انتہائی ہولناک انجام کو بہر حال پہنچ کر رہنا ہے، پس نجات وسلامتی کی راہ صرف ایمان و یقین اور تقویٰ پرہیزگاری کی راہ ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کُلِّ موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ
۱۳۵۔۔۔ اس بدبخت بڑھیا سے مراد حضرت لوط کی بیوی ہے جو ان پر ایمان نہیں لائی تھی جس کے نتیجے میں وہ بھی ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئی اور اس طرح وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہی۔ سو اس سے ایک تو یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نجات کا دارو مدار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ، اور عمل و کردار پر ہے، نہ کہ کسی نسبت اور رشتہ داری پر۔ یہاں دیکھیں کہ زوجیت پیغمبر جیسا عظیم الشان رشتہ بھی حضرت لوط کی بیوی کے کچھ کام نہ آ سکا۔ اور وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو کر ہمیشہ کے لئے دوزخ کا ایندھن بن گئی۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا، اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے، کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو حضرت لوط کی بیوی اس طرح دوزخ کا ایندھن نہ بنتی۔ سو مختار کل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور ہدایت و غوایت کا معاملہ بھی اسی کے اختیار میں ہے، کہ وہی وحدہٗ لاشریک جانتا ہے کہ کس کے قلب و باطن کی کیفیت کیا ہے اور کون کس لائق ہے؟وہ اسی کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ،
۱۴۴۔۔۔ یہاں پر جس تسبیح کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ دوسرے مقام پر اس سے متعلق واضح فرما دیا گیا کہ اس سے مراد حضرت یونس کا یہ ورد ہے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ (الانبیاء۔٨۷) سو یہ اپنی غلطی کے اعتراف و اقرار اور اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے لئے بہترین وِرد اور نہایت عمدہ وظیفہ ہے، اسی کے نتیجے میں حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی۔ اور آپ سے غم کی وہ گھٹا چھٹی جس میں آپ اس موقع پر گھرے ہوئے تھے۔ جیسا کہ سورہ انبیاء کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا فَاسْتَجَبْنَالَہ، وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَالِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ (انبیائ۔٨٨) یعنی ہم نے یونس کی اس دعاء کو شرف قبولیت سے نوازا۔ اور ان کو اس غم سے نجات دے دی۔ اور اسی طرح ہم نجات دیتے ہیں ایمان والوں کو، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس جونہی مچھلی کے پیٹ میں گئے تو آپ کو تنبیہ اور احساس ہو گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب ہوا ہے، اس لئے آپ فوراً اور پورے صدق و اخلاص سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گئے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کی شان یہ بیان فرمائی کہ اسی نتیجے میں اس نے ان کو بچا لیا۔ ورنہ وہ قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں پڑے رہتے اور اس مچھلی کا پیٹ ہمیشہ کے لئے ان کا مدفن بن جاتا۔ سو اس سے اللہ والوں کی شان بھی واضح ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ان سے معاملہ بھی، سبحانہ و تعالیٰ، سو اللہ کے بندوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی اور کوتاہی کا احساس و اعتراف کر کے فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جاتے ہیں، اور اپنے آپ کو اس کے در پر ڈال کر اپنا معاملہ اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا اپنے ایسے خاص بندوں کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی ایسی سچی توبہ کو قبول کر کے ان کو اپنی خاص توجہ اور عنایات سے نوازتا ہے جیسا کہ حضرت یونس کے ساتھ کیا، سو حضرت یونس کی شان عبدیت اور اس کا یہ خاص پہلو بھی قابل غور ہے کہ آنجناب نے اپنی اس دعاء میں اپنے لئے اس عذاب سے رہائی کی دعاء و درخواست بھی نہیں کی، بلکہ محض اپنی تقصیر و کوتاہی کا اعتراف و اقرار کیا اور بس، اس کے بعد کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کر دیا، سبحان اللہ! کیا کہنے ان قدسی صفت حضرت کی شان عبدیت و انابت کے، علی نبینا وعلی سائرہم الصلوٰۃ والسلام، علیٰ نبینا وعلیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام۔
۱۵۸۔۔۔ سو اس سے مشرکوں کے کفر و شرک اور ان کے نتیجے میں ان کی مت ماری کے ایک اور نمونہ و مظہر کو واضح فرمایا گیا ہے، کہ انہوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان نسب اور رشتہ داری قائم کر رکھی ہے، چنانچہ انہوں نے کہا کہ اللہ نے جنوں سے شادی کی اور اس سے اس کی اولاد ہوئی، والعیاذُ باللہ العظیم۔ (صفوہ وغیرہ) جبکہ حضرات اہل علم میں سے بعض کا کہنا ہے کہ یہاں پر جنہ سے مراد فرشتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی جنوں کی طرح پوشیدہ اور نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں (لاجتنانہم عن النظر) اور یہ اس لئے کہ جن کے مادے میں چھپنے اور پوشیدہ ہونے کے معنی بہر حال پائے جاتے ہیں، اس لئے یہ مادہ جس لفظ میں بھی پایا جاتا ہے اس میں یہ معنی بطور قدر مشترک کے پائے جاتے ہیں، چنانچہ پیٹ میں موجود بچے کو اسی لئے جنین کہا جاتا ہے کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، اور دیوانگی کو اسی لئے جنوں کہا جاتا ہے کہ وہ ظاہر میں نظر آنے والی چیز نہیں، اور اسی لئے باریک سانپ کو جَآنّ کہا جاتا ہے، کہ وہ فوراً چھپ جاتا ہے، اور اسی لئے جنگ میں پہنی جانے والی ڈھال کو جُنّہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی انسان کے جسم کو ڈھانک اور چھپا لیتی ہے، وغیرہ، وغیرہ، لیکن جن کا ظاہر اور متبادر مفہوم یہی ہے کہ اس سے مراد وہ مشہور و معروف مخلوق ہی ہے سو مطلب ان آیات کریمات کا یہ ہوا کہ ان مشرکوں نے صرف یہی غضب نہیں ڈھایا کہ انہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا، بلکہ انہوں نے اس سے بھی بڑھ کر یہ کیا کہ انہوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ جوڑا ہے، حالانکہ جنوں کا خود اپنا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے اور اس کا یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر ہونا۔ اور اپنے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، اور ان میں سے جو مجرم ہونگے، وہ پکڑے اور جکڑے ہوئے اس کے حضور حاضر ہونگے۔ مگر ان مت کے ماروں اور عقل کے اندھے مشرکوں نے ان کو خدا کے رشتہ دار، اس کی اولاد، اور اس کی خدائی میں شریک اور حصے دار مان رکھا ہے۔ اور اسطرح یہ لوگ شرک کرتے ہیں، سو یہ مدعی سست گواہ چست،
اور پیراں نہ پرند۔ مریدان می پرانند، کی مثال ہے، والعیاذُ باللہ العظیم
۱۷۰۔۔۔ سو اس سے انسان کی بے قدری و ناشکری کا ایک اور نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے، کہ نور حق و ہدایت کے آنے سے پہلے یہ منکر لوگ بار بار کہتے۔ اور حسرت بھرے انداز میں، اور زور دے دے کر کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس بھی پہلے لوگوں سے آیا ہوا کوئی ذکر، اور کلام نصیحت موجود ہوتا تو ہم ضرور بالضرور صدق دل سے اس کو اپنا کر اللہ کے چیدہ بندے بن جاتے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ذکر ان کے پاس آگیا۔ اور اپنی آخری اور کامل شکل میں آگیا، تو یہ لوگ کھلم کھلا اس کے منکر ہو گئے۔ اور ایسے منکر کہ یہ اس کا راستہ روکنے کے لئے پورا زور لگاتے ہیں۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورہ فاطر کی آیت نمبر۴۲ میں بھی گزر چکا ہے۔ سو یہ انسان کی ایک قدیمی اور مشترک نفسیات رہی ہے، کہ یہ بے قدرا اور ناشکرا واقع ہوا ہے۔ جب اس کو نعمت نہیں ملی ہوتی، تو یہ اس کے لئے طرح طرح کے دعوے کرتا ہے۔ لیکن جب وہ اس کو نصیب ہو جاتی ہے، تو یہ اس کا بے قدرا اور ناشکرا بن جاتا ہے۔ ہمارے یہاں کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے اور بڑے زور دار دعوے کرتے ہیں اگر ہمیں حکومت اور کرسی مل جائے تو ہم ایسے اور ایسے ہو جائیں گے۔ اور یہ اور وہ کریں گے، وغیرہ وغیرہ لیکن جب ان کی آزمائش ہوتی ہے تو وہ بالکل اس کے برعکس نکلتے ہیں والعیاذُباللہ، جل وعلا بکل حالٍ مِّن الاحوال،
۱۷۵۔۔۔ سو اس سے پیغمبر کو ہٹ دھرموں کے مقابلے میں صبر و برداشت کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ آپ کچھ عرصہ تک ان لوگوں سے صرف نظر اور درگزر ہی سے کام لیتے رہیں۔ یعنی اب یہ لوگ اپنے آخری انجام کو پہنچنے والے ہیں، پس آپ ان کی باتوں اور ان کی زیادتیوں پر صبر برداشت ہی سے کام لیں۔ تاکہ اس طرح ان پر حجت تمام ہو جائے۔ اور یہ اپنا پیمانہ اچھی طرح بھرلیں۔ کچھ عرصے تک ان کو دیکھ لو کہ یہ کیا کرتے، اور کیا بناتے ہیں۔ عنقریب ہی انہوں نے آخری انجام کو پہنچ کر رہنا ہے۔ تب یہ خود دیکھ لیں گے کہ وہ کس شکل میں ان کے سامنے آتا ہے سو اس میں ایسے معاندین اور ہٹ دھرموں سے اعراض و روگردانی کا درس ہے، جو حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہوں۔ کہ ایسوں کو ان کے انجام کے حوالے کر دیا جائے، والعیاذُ باللہ، جل وعلا
۱۸۲۔۔۔ سورۃ خاتمہ سورت کی ان آیات کریمات سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آپ کا رب جو کہ تمام عزت و اقتدار کا حقیقی مالک ہے وہ ان تمام باتوں سے پاک اور ان سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے جو یہ منکر اور مشرک لوگ اس کے لئے بناتے ہیں۔ اور سلام ہو اس کے رسولوں پر جو اس وحدہٗ لاشریک کی طرف سے حق و ہدایت کا وہ پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں جس میں ان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان بھی ہے، اور دنیا و آخرت کی سلامتی بھی، اور تعریف اور حمد و ثنا حق ہے اس اللہ وحدہٗ لاشریک کا جو کہ پروردگار ہے سب جہانوں کا، جس کی شان پروردگاری کا ظہور و بروز اس کائنات کی ایک ایک چیز سے ہوتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اور طبعی تقاضا ہے کہ معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہو، سبحانہ و تعالیٰ، والحمد للہ رب العالمین