اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ یہ کتاب محض اتاری ہوئی ہے اللہ کی طرف سے جو کہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی علم والا ہے
۳۔۔۔ گناہ بخشنے والا توبہ قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا بڑا ہی فضل والا ہے کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں سوائے اس (وحدہٗ لاشریک) کے اسی کی طرف بہر حال لوٹنا ہے سب کو
۴۔۔۔ اللہ کی آیتوں میں جھگڑا نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو اڑے ہوتے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر سو (ان کو اس کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا پس) تم کو کہیں دھوکے میں نہ ڈالنے پائے ان لوگوں کا چلنا پھرنا مختلف شہروں (اور ملکوں) میں
۵۔۔۔ ان سے پہلے قوم نوح نے بھی جھٹلایا (حق اور حقیقت کو) اور ان کے بعد کی کئی جماعتوں نے بھی ہر امت نے اپنے پیغمبر کو پکڑنے (اور قتل کر ڈالنے تک کا خبیث) ارادہ کیا اور انہوں نے باطل (کے طرح طرح ہتھیاروں) سے کام لیا تاکہ اس طرح وہ نیچا دکھا سکیں حق کو آخرکار میں نے پکڑا ان سب کو (اس عذاب میں جس کا مستحق انہوں نے اپنے آپ کو بنا لیا تھا) سو (دیکھ لو) کیسا تھا میرا عذاب؟
۶۔۔۔ اور اسی طرح پکی (اور ثابت) ہو گئی (آپ کی قوم کے ان) کافروں کے بارے میں آپ کے رب کی یہ بات کہ یقینی طور پر یہ بھی دوزخی ہیں
۷۔۔۔ جو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں عرش (خداوندی) کو اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ سب کے سب تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد و (ثناء) کے ساتھ اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ بخشش کی دعا مانگتے ہیں ایمان والوں کے لئے (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تیری رحمت بھی ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور تیرا علم بھی ہر چیز پر حاوی ہے پس تو معاف فرما دے ان سب لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی اور انہوں نے (صدق دل سے) پیروی کی تیرے راستے کی اور بچا دے تو ان کو دوزخ کے عذاب سے
۸۔۔۔ اے ہمارے رب اور تو داخل فرما دے ان کو ہمیشہ رہنے کی ان جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ فرما رکھا ہے ان کو بھی اور ان کے ماں باپ کو بھی اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے بھی ان سب کو جو اس کے لائق ہوں بلاشبہ تو ہی ہے (اے ہمارے مالک !) سب پر غالب نہایت ہی حکمت والا
۹۔۔۔ اور بچا دے تو (اے ہمارے مالک !) ان کو ان کی برائیوں سے اور جس کو تو نے بچا لیا اس کی برائیوں سے اس دن تو یقیناً اس پر تو نے بڑی ہی مہربانی فرما دی اور یہی ہے (اصل حقیقی اور سب سے) بڑی کامیابی
۱۰۔۔۔ بے شک جو لوگ (زندگی بھر) اڑے رہے ہوں گے اپنے کفر (و باطل) پر ان سے (قیامت کے روز) کہا جائے گا کہ جتنا غصہ تمہیں آج اپنے اوپر آ رہا ہے اس سے کہیں بڑھ کر غصہ اللہ کو تم پر اس وقت آیا کرتا تھا جب کہ (دنیا میں) تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا مگر تم لوگ کفر ہی کیا کرتے تھے
۱۱۔۔۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب واقعی تو نے ہم کو دو مرتبہ موت بھی دے دی اور دو مرتبہ زندگی بھی بخش دی سو ہم نے اعتراف (و اقرار) کر لیا اپنے گناہوں کا تو کیا اب نکلنے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ؟
۱۲۔۔۔ (جواب ملے گا نہیں اور) یہ اس لئے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم لوگ انکار کر دیا کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ (دوسروں کو) شریک کر لیا جاتا تو تم مان لیتے تھے سو اب فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو بڑی شان والا بڑے ہی بلند مرتبے والا ہے
۱۳۔۔۔ وہ وہی ہے جو دکھاتا ہے تمہیں اپنی نشانیاں اور وہ اتارتا ہے تمہارے لئے آسمان سے روزی اور سبق نہیں لیتا مگر وہی جو رجوع کرتا ہے (سچے دل سے)
۱۴۔۔۔ پس تم لوگ اللہ ہی کو پکارو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اپنے دین کو اگرچہ یہ برا لگے کافروں (اور منکروں) کو
۱۵۔۔۔ وہ بلند درجوں والا عرش کا مالک اتارتا ہے روح (یعنی اپنی وحی) اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے تاکہ وہ خبردار کرے ملاقات کے (اس ہولناک) دن سے
۱۶۔۔۔ جس دن وہ سب بالکل سامنے آ موجود ہوں گے (اور اس طرح کہ) اللہ پر ان کی کوئی بات بھی چھپی نہ رہے گی (جب کہ پوچھا جائے گا کہ) کس کی بادشاہی ہے آج کے دن؟ (تو سارا عالم پکار اٹھے گا کہ) اکیلے اللہ ہی کی جو کہ سب پر غالب ہے
۱۷۔۔۔ (پھر کہا جائے گا کہ) آج کے دن ہر شخص کو پورا بدلہ دیا جائے گا اس کی (زندگی بھر کی) کمائی کا آج کے دن کوئی ظلم نہ ہو گا بلاشبہ اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے
۱۸۔۔۔ اور خبردار کر دو ان کو اس قریب آ لگنے والی (ہولناک آفت) سے جب کہ (مارے خوف کے) کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ غم میں گھٹے کھڑے ہوں گے (اس روز) ظالموں کے لئے نہ تو کوئی ہمدرد دوست ہو گا اور نہ ہی کوئی ایسا سفارشی جس کی بات مانی جائے
۱۹۔۔۔ اللہ خوب جانتا ہے آنکھوں کی (چوری اور) خیانت کو بھی اور دلوں میں چھپے رازوں کو بھی
۲۰۔۔۔ اور اللہ ہی فیصلہ فرماتا ہے حق (اور انصاف) کے ساتھ اور اس کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی بھی چیز کا فیصلہ نہیں کر سکتے بلاشبہ اللہ ہی ہے ہر کسی کی سنتا (سب کچھ) دیکھتا
۲۱۔۔۔ کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں (عبرتوں بھری) اس زمین میں ؟ تاکہ یہ خود دیکھ لیتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے وہ ان سے کہیں زیادہ سخت تھے قوت کے اعتبار سے بھی اور زمین میں اپنے آثار (و نشانات) کے لحاظ سے بھی مگر آخرکار اللہ نے پکڑا ان سب کو ان کے گناہوں کی پاداش میں اور کوئی نہیں تھا ان کے لئے اللہ سے بچانے والا
۲۲۔۔۔ یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول آتے تھے کھلے دلائل کے ساتھ مگر وہ (بدبخت) لوگ انکار ہی کرتے گئے سو آخرکار اللہ نے پکڑا ان سب کو (ان کے کفر و انکار کی پاداش میں) بے شک وہ بڑا ہی قوت والا سخت عذاب دینے والا ہے
۲۳۔۔۔ اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور ایک کھلی سند کے ساتھ
۲۴۔۔۔ فرعون ہامان اور قارون کی طرف مگر انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک جادوگر ہے بڑا جھوٹا
۲۵۔۔۔ پھر جب وہ پہنچ گئے ان کے پاس حق کے ساتھ ہماری طرف سے تو ان لوگوں نے کہا قتل کر دو ان لوگوں کے بیٹوں کو جو ایمان لائے ہیں اس کے ساتھ اور زندہ رکھو ان کی عورتوں کو اور کافروں کی چال (ہلاکت و) بربادی کے سوا کچھ نہیں
۲۶۔۔۔ اور فرعون نے کہا کہ چھوڑو مجھے میں قتل کرتا ہوں موسیٰ کو, اور یہ بلا دیکھے اپنے رب کو, مجھے سخت اندیشہ ہے اس بات کا کہ یہ شخص بدل دے گا تمہارے دین کو, یا یہ فساد برپا کر دے گا اس سرزمین میں
۲۷۔۔۔ اور (اس کے جواب میں) موسیٰ نے کہا میں پناہ مانگتا ہوں اس کی جو رب ہے میرا بھی اور تمہارا بھی ہر ایسے متکبر (کے شر) سے جو ایمان نہیں رکھتا حساب کے دن پر
۲۸۔۔۔ اور (تائید غیبی کے طور پر اسی موقع پر) بول اٹھا آل فرعون ہی کا ایک ایسا مرد مومن جو چھپائے ہوئے تھا اپنے ایمان (و یقین کی دولت) کو کیا تم لوگ محض اس بناء پر ایک شریف آدمی کے قتل کے درپے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟ جب کہ وہ کھلے دلائل (اور براہین) لے کر آیا ہے تمہارے رب کی طرف سے اور اگر (بفرض محال) وہ جھوٹا بھی ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے (جیسا کہ وہ واقع میں ہے) تو پھر تمہیں اس انجام میں سے کچھ نہ کچھ پہنچ کر رہے گا جس سے وہ تمہیں ڈرا رہا ہے بے شک اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا کسی بھی ایسے شخص کو جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہو
۲۹۔۔۔ اے میری قوم کے لوگو! (ٹھیک ہے) آج تو بادشاہی بھی تمہاری ہے اور اس ملک میں غالب بھی تم ہی ہو لیکن (مجھے تو یہ بتاؤ کہ کل) اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہے جو اس کے مقابلے میں ہماری مدد کر سکے ؟ (بیچ میں اس رجل مومن کی بات کاٹتے ہوئے) فرعون بولا کہ میں تو بہر حال تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جس کو میں مناسب سمجھتا ہو اور میں تمہیں بھلائی کا راستہ ہی بتاتا ہوں
۳۰۔۔۔ مگر اس شخص نے جو ایمان سے سرشار ہو چکا تھا (اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے) کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے تو تمہارے بارے میں شدت سے اندیشہ ہو رہا ہے پہلی قوموں کے جیسے دن کا
۳۱۔۔۔ جیسا کہ قوم نوح عاد ثمود اور ان لوگوں کا حال ہوا ہے جو ان سے بعد گزرے ہیں اور اللہ تو اپنے بندوں پر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں کرنا چاہتا
۳۲۔۔۔ اور میری قوم مجھے سخت اندیشہ ہے تمہارے بارے میں چیخ و پکار کے اس دن (کے ہولناک عذاب) کا
۳۳۔۔۔ جس دن تم پیٹھ دے کر بھاگے جا رہے ہو گے مگر تمہارے لئے کوئی بچانے والا نہیں ہو گا اللہ (کی گرفت و پکڑ) سے اور جس کو اللہ ڈال دے گمراہی (کے گڑھے) میں (اس کے سوء اختیار اور خبث باطن کی بناء پر) تو اس کو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا
۳۴۔۔۔ اور یقیناً تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف بھی آ چکے ہیں کھلے دلائل (و براہین) کے ساتھ مگر تم لوگ اس پیغام کے بارے میں بھی شک ہی میں پڑے رہے جس کے ساتھ وہ تشریف لائے تھے یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گئے تو تم نے کہا (بس جی) اب تو ان کے بعد اللہ کبھی کوئی رسول بھیجے گا ہی نہیں اسی طرح اللہ گمراہی (کے گڑھے) میں ڈال دیتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھنے والا شک (و ریب کی دلدل) میں پڑا ہوتا ہے
۳۵۔۔۔ جو کہ جھگڑتے (اور بحثیں کرتے) ہیں اللہ کی آیتوں کے بارے میں بغیر کسی ایسی سند کے جوان کے پاس آئی ہو بڑے ہی غصے اور نفرت کی بات ہے یہ اللہ کے یہاں بھی اور ان لوگوں کے یہاں بھی جو ایمان رکھتے ہیں اللہ اسی طرح (محرومی اور بدبختی کا) ٹھپہ لگا دیتا ہے ہر متکبر اور جبار کے پورے دل پر
۳۶۔۔۔ اور فرعون نے (اس لاجواب تقریر سے کھسیانہ ہونے کے بعد) کہا اے ہامان بنوا دو میرے لئے ایک بلند و بالا عمارت تاکہ (اس کے ذریعے) میں پہنچ سکوں ان راستوں تک
۳۷۔۔۔ یعنی آسمانوں کے راستوں تک تاکہ وہاں سے میں جھانک کر دیکھ سکوں موسیٰ کے خدا کو میں تو اسے قطعی طور پر جھوٹا ہی سمجھتا ہوں اور اس طرح خوشنما بنا دیا گیا فرعون کے لئے اس کے برے عملوں کو اور روک دیا گیا اس کو راہ (حق و صواب) سے اور فرعون کی ساری چالبازی کچھ نہ تھی سوائے اس کی (اپنی ہلاکت و) تباہی کے
۳۸۔۔۔ اور اس شخص نے جو کہ ایمان لا چکا تھا مزید کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم میری پیروی کرو میں تم کو صحیح راستہ بتاتا ہوں
۳۹۔۔۔ اے میری قوم یہ دنیا تو محض (چند روزہ) فائدے کا سامان ہے اور بلاشبہ آخرت ہی ہمیشہ ٹھہرنے کی جگہ ہے
۴۰۔۔۔ جس نے کوئی برائی کی تو اس کو اسی کے برابر سزا ملے گی اور جس نے کوئی نیک کام کیا خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ ایمان (و یقین کی دولت) سے سرشار ہو تو ایسے لوگ داخل ہوں گے (سدا بہار اور ابدی نعمتوں والی) اس جنت میں جہاں ان کو رزق دیا جائے گا بغیر کسی حساب (و گمان) کے
۴۱۔۔۔ اور اے میری قوم یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تم کو بلا رہا ہوں نجات (کے راستے) کی طرف اور تم مجھے بلا رہے ہو (دوزخ کی ہولناک) آگ کی طرف؟
۴۲۔۔۔ تم لوگ مجھے اس بات کی طرف بلا رہے ہو کہ میں کفر کروں اللہ کے ساتھ اور اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤں ایسی چیزوں کو جن (کی شرکت) کے بارے میں میرے پاس کوئی علم نہیں درآنحالیکہ میں تم کو بلا رہا ہوں اس (معبود برحق) کی طرف جو سب پر غالب انتہائی بخشنے والا ہے
۴۳۔۔۔ یقینی بات ہے کہ جن کی طرف تم لوگ مجھے بلا رہے ہو ان کے لئے نہ تو اس دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم سب کو بہر حال اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں وہ سب دوزخی ہیں
۴۴۔۔۔ پھر عنقریب وہ وقت بھی آئے گا جب کہ تمہیں (رہ رہ کر) وہ سب کچھ یاد آئے گا جو میں (آج) تم سے کہہ رہا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بلاشبہ وہ پوری طرح دیکھتا ہے اپنے بندوں (کے احوال) کو
۴۵۔۔۔ آخرکار اللہ نے اس کو بچا لیا ان تمام بری چالوں سے جو ان لوگوں نے اس کے خلاف چلی تھیں اور گھیر لیا فرعون والوں کو اس برے عذاب نے (جو ان کا مقدر بن چکا تھا)
۴۶۔۔۔ یعنی (دوزخ کی) اس ہولناک آگ نے جس پر (زمانہ برزخ میں) ان کو پیش کیا جاتا رہے گا صبح و شام اور جس روز قیامت قائم ہو گی (اس روز حکم ہو گا کہ) داخل کر دو فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں
۴۷۔۔۔ اور (ان کو ذرا وہ بھی بتا اور سنا دو کہ) جب یہ لوگ دوزخ میں آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے چنانچہ کمزور لوگ ان لوگوں سے کہیں گے جو دنیا میں بڑے بنے ہوئے تھے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تو کیا اب تم لوگ ہم سے اس (دہکتی بھڑکتی) آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکو گے ؟
۴۸۔۔۔ اس پر وہ لوگ جو (دنیا میں) بڑے بنے ہوئے تھے کہیں گے (کہ تمہارے کام کیا آتے) ہم تو خود سب کے سب اسی میں پڑے ہوئے ہیں بے شک اللہ نے قطعی (اور آخری) فیصلہ صادر فرما دیا اپنے بندوں کے درمیان
۴۹۔۔۔ اور دوزخی جہنم کے اہل کاروں سے کہیں گے کہ تم دعاء (و درخواست) کرو اپنے رب کے حضور کہ ایک دن ہلکا کر دے وہ ہم سے ہمارے عذاب کو
۵۰۔۔۔ وہ (اس کے جواب میں ان سے) کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس رسول نہیں آیا کرتے تھے کھلے دلائل کے ساتھ؟ وہ کہیں گے ہاں اس پر دوزخ کے وہ اہلکار ان سے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعاء (و درخواست) کر لو مگر (یاد رہے کہ) کافروں کی (درخواست و) پکار بے سود محض ہے
۵۱۔۔۔ بلاشبہ ہم ضرور مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان تمام لوگوں کی جو (سچے دل سے ان پر) ایمان لے آئے اس دنیا کی زندگی میں بھی اور اس دن بھی جب کہ گواہ کھڑے ہوں گے
۵۲۔۔۔ جس دن کہ ظالموں کو کچھ کام نہ آ سکے گی ان کی معذرت ان کے لئے لعنت ہو گی اور ان کے لئے بڑا ہی برا گھر ہو گا
۵۳۔۔۔ اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو بھی وہ ہدایت نامہ عطا فرمایا تھا اور ہم نے وارث بنا دیا تھا بنی اسرائیل کو اس کتاب کا
۵۴۔۔۔ جو کہ سراسر ہدایت اور ایک عظیم الشان نصیحت (و یاد دہانی) تھی عقل سلیم رکھنے والوں کے لئے
۵۵۔۔۔ پس آپ صبر سے ہی کام لیتے رہیں یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور معافی مانگو اپنے گناہ کی اور تسبیح کرتے رہو اپنے رب کی حمد کے ساتھ صبح و شام
۵۶۔۔۔ بے شک جو لوگ جھگڑتے ہیں اللہ کی آیتوں کے بارے میں بغیر ایسی کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو ان کے دلوں میں ایسی بڑائی (کا گھمنڈ) ہے جس کو وہ کبھی پہنچ نہیں سکتے سو (ایسوں کے مقابلے میں) پناہ مانگو تم اللہ کی بے شک وہی ہے سنتا (ہر کسی کی) دیکھتا (سب کچھ)
۵۷۔۔۔ بلاشبہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے کے مقابلہ میں کہیں بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں
۵۸۔۔۔ اور برابر نہیں ہو سکتے اندھا اور دیکھنے والا اور نہ ہی وہ لوگ جو ایمان لا کر نیک کام کرتے رہے ہوں اور بدکار آپس میں برابر ہو سکتے ہیں تم لوگ کم ہی سبق لیتے (اور عبرت پکڑتے) ہو
۵۹۔۔۔ بے شک (قیامت کی) اس (ہولناک) گھڑی نے بہر حال (اپنے وقت پر) آ کر رہنا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں رکھتے
۶۰۔۔۔ اور فرمایا تمہارے رب نے کہ تم لوگ مجھ ہی کو پکارو میں تمہاری پکار کو سنوں گا بے شک جو لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ان کو عنقریب ہی داخل ہونا ہو گا جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر
۶۱۔۔۔ اللہ وہ ہے جس نے بنایا تمہارے لیے رات کو ایسا کہ تم اس میں (آرام و) سکون پا سکو اور دن کو بنایا روشن (تاکہ اس میں تم لوگ اپنی روزی روٹی کا کام کر سکو) بے شک اللہ بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں ادا کرتے (اس مہربان مطلق کا)
۶۲۔۔۔ یہ ہے اللہ رب تم سب کا پیدا کرنے والا ہر چیز کا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں سوائے اس کے پھر تم لوگ کہاں اوندھے کئے جاتے ہو؟ (اور تمہاری مت کہاں ماری جاتی ہے ؟)
۶۳۔۔۔ اسی طرح اوندھے کئے جاتے رہے وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے
۶۴۔۔۔ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو آرام گاہ بنا دیا اور آسمان کو ایک عظیم الشان چھت اور اسی نے صورت گری فرمائی تم سب کی سو اس نے کیا ہی عمدہ صورتیں بخشیں تمہیں اور اسی نے طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں سے تمہاری روزی کا سامان کیا یہ ہے اللہ رب تم سب کا سو بڑی ہی برکت والا ہے اللہ پروردگار سب جہانوں کا
۶۵۔۔۔ وہی (اور صرف وہی) ہے زندہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے پس تم سب اسی کو پکارو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اپنے دین (و اعتقاد) کو سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو پالنے والا ہے سب جہانوں کا
۶۶۔۔۔ (ان سے صاف) کہہ دو کہ مجھے تو بہر حال اس سے منع کیا گیا ہے کہ میں عبادت (و بندگی) کروں ان ہستیوں کی جن کو تم لوگ (پوجتے) پکارتے ہو اللہ کے سوا جب کہ پہنچ چکے میرے پاس روشن دلائل میرے رب کی جانب سے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سر تسلیم خم کر دوں پروردگار عالم کے آگے
۶۷۔۔۔ وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو مٹی سے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر وہی تمہیں نکالتا ہے (تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے) ایک کامل بچے کی شکل میں پھر (وہ تمہیں بڑھاتا پالتا جاتا ہے) تاکہ تم لوگ پہنچ جاؤ اپنی (جوانی کی) بھرپور قوتوں کو (پھر وہ تم کو اور موقع دیتا ہے کہ) تاکہ تم پہنچ جاؤ اپنے بڑھاپے کی عمر کو اور تم میں سے کوئی اس سے پہلے مر جاتا ہے (یہ سب کچھ اس لئے کہ) تاکہ تم پہنچ جاؤ مقررہ مدت کو اور تاکہ تم لوگ کام لو اپنی عقل (و فکر) سے
۶۸۔۔۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس کو صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو چکا ہوتا ہے
۶۹۔۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کے بارے میں کہاں (اور کیسے) پھیرے جاتے ہیں یہ لوگ (حق اور حقیقت سے)؟
۷۰۔۔۔ جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری اس کتاب کو اور ان تعلیمات کو جن کے ساتھ ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو وہ عنقریب خود ہی جان لیں گے (اپنے کئے کرائے کے نتیجہ و انجام کو)
۷۱۔۔۔ جب کہ طوق پڑے ہوں گے ان کی گردنوں میں اور زنجیریں (ان کے پاؤں میں اور) انہیں گھسیٹا جا رہا ہو گا
۷۲۔۔۔ کھولتے پانی میں پھر ان کو جھونک دیا جائے گا (دوزخ کی دہکتی بڑھتی) اس آگ میں
۷۳۔۔۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کو تم لوگ شریک ٹھہرایا کرتے تھے
۷۴۔۔۔ اللہ کے سوا؟ وہ کہیں گے کہ وہ سب کھو گئے ہم سے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی چیز کو (سرے سے) پکارتے ہی نہیں تھے اسی طرح اللہ گمراہی (کے گڑھے) میں ڈالتا ہے کافروں کو
۷۵۔۔۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) یہ بدلہ ہے اس کا جو تم اترایا کرتے تھے زمین میں ناحق طور پر اور اس کا جو تم اکڑا کرتے تھے (وہاں)
۷۶۔۔۔ اب داخل ہو جاؤ تم سب جہنم کے دروازوں میں جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے سو بڑا ہی برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والوں کا
۷۷۔۔۔ پس آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر اگر ہم دکھا دیں آپ کو (اے پیغمبر !) کچھ حصہ اس عذاب کا جس سے ہم ان لوگوں کو ڈرا رہے ہیں یا آپ کو اس سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لیں تو (اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ) ان سب نے تو بہر حال ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
۷۸۔۔۔ اور بلاشبہ ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ان میں سے کچھ کے حالات تو ہم نے آپ کو بتا دئیے ہیں اور کچھ کے نہیں بتائے اور کسی رسول کے بس میں نہیں تھا کہ وہ کوئی معجزہ پیش کر سکے مگر اللہ کے اذن کے ساتھ پھر جب آ پہنچا اللہ کا حکم تو فیصلہ کر دیا گیا حق (اور انصاف) کے ساتھ اور سخت خسارے میں پڑ گئے اس موقع پر باطل پرست
۷۹۔۔۔ اللہ وہی ہے جس نے بنائے تمہارے (بھلے اور فائدے کے) لئے چوپائے تاکہ تم لوگ ان میں سے کسی پر سواری کرو اور انہی میں سے تم کھاتے (اور روزی بھی حاصل کرتے) رہو
۸۰۔۔۔ اور تمہارے لئے ان میں اور بھی طرح طرح کے (فوائد و) منافع ہیں اور (یہ اس لئے پیدا کئے کہ) تاکہ ان پر سوار ہو کر تم لوگ اپنی کسی بھی ایسی حاجت کو پہنچ سکو جو تمہارے دلوں میں ہو اور ان پر اور کشتیوں اور جہازوں پر بھی تم لوگ سوار کئے جاتے ہو اور (اس کے علاوہ بھی)
۸۱۔۔۔ وہ تم کو دکھاتا ہے اپنی طرح طرح کی نشانیاں پھر تم لوگ اللہ کی کون کون سی نشانیوں کا انکار کرو گے ؟
۸۲۔۔۔ تو کیا یہ لوگ چلے پھرے نہیں (عبرتوں بھری) اس زمین میں تاکہ یہ خود دیکھ لیتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے وہ (گنتی اور) تعداد کے لحاظ سے بھی ان سے کہیں زیادہ تھے اور قوت (و طاقت) کے اعتبار سے بھی وہ ان سے کہیں زیادہ سخت تھے اور زمین میں چھوڑے جانے والے آثار (اور نشانات) کے اعتبار سے بھی وہ ان سے کہیں بڑھ کر تھے پھر (وقت پڑنے پر) ان کے کچھ کام نہ آ سکی ان کی وہ کمائی جو وہ کرتے رہے تھے
۸۳۔۔۔ چنانچہ جب ان کے پاس ان کے رسول (حق و صداقت کے) کھلے دلائل لے کر آئے تو یہ (اس سے لا پرواہ ہو کر مست و) مگن رہے اپنے اس علم (و فن) کی بناء پر جو کہ ان کے پاس تھا اور (آخرکار) ان کو گھیر لیا اسی چیز نے جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے تھے
۸۴۔۔۔ پھر جب انہوں نے دیکھا ہمارے عذاب کو تو وہ (چیخ چیخ کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے اکیلے اللہ پر اور انکار کر دیا ہم نے ان سب چیزوں کا جن کو ہم (اس سے پہلے) اس کا شریک ٹھہراتے رہے تھے
۸۵۔۔۔ مگر (اس وقت کا) ان کا یہ ایمان ایسا نہیں تھا کہ ان کو کچھ نفع دے سکے (اور فائدہ پہنچا سکے) جب کہ انہوں نے دیکھ لیا تھا ہمارے عذاب کو اللہ کے اس دستور کے مطابق جو کہ پہلے سے چلا آیا ہے اس کے بندوں میں اور اس موقع پر (دائمی) خسارے میں پڑے گئے ایسے کافر (و منکر) لوگ
۴۔۔ کیونکہ کفر و انکار کا نتیجہ بہر حال ہلاکت و تباہی اور دائمی خسارہ ہے، جس سے ان بدبختوں کو بہر حال واسطہ اور سابقہ پڑنے والا ہے، کہ وہ کفر و انکار کا لازمی نتیجہ اور اس کا طبعی تقاضا ہے، ان کو جو ڈھیل ملی ہوئی ہے وہ بہر حال ڈھیل ہی ہے۔ جس نے بالآخر اور بہر حال ختم ہو جانا ہے اور انہوں نے اپنے ہولناک انجام کو بہر حال پہنچ کر رہنا ہے، اگر انہوں نے اپنی اس فرصت و مہلت کی قدر نہ کی۔ اور راہ حق و ہدایت کو نہ اپنایا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو جن کفار و مشرکین کو اپنے کفر و شرک اور بغاوت و سرکشی کے نتیجے میں دوزخ اور وہاں کے طرح طرح کے ہولناک عذابوں کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا ہے، ان سے بڑھ کر محروم اور بدبخت اور کون ہو سکتا ہے، اگرچہ ان کو دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں روئے زمین کی تمام دولت بھی کیوں نہ مل جائے، اور ان کی ساری زندگی عیش و عشرت ہی میں کیوں نہ گزری ہو، اور اس کے برعکس جن خوش نصیبوں کو اپنے ایمان و عمل، صدق و اخلاص، اور اپنی اطاعت و بندگی، کے بدلے اور نتیجے میں جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہو جائے، ان سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے، اگرچہ ان کو دنیا میں نان جویں بھی میسر نہ رہی ہو، سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے۔ اور اصل اور حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے، پس عقل ونقل دونوں کا تقاضا ہے کہ اسی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنایا جائے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ، نیز ارشاد فرمایا گیا وَفِیْ ذَالِکَ فَلْیَتَنَافِسِ الْمُتنَافِسُوْنَ، فَبِاللّٰہِ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید،
۷۔۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دولت ایمان کتنی بڑی دولت، اور اس سے سرفرازی کس قدر عظیم الشان سرفرازی ہے، کہ اس کی بناء پر فرش زمین پر رہنے بسنے والا یہ خاکی انسان اس قدر اونچا اور اتنا سر بلند ہو جاتا ہے کہ حاملین عرش جیسے عظیم الشان فرشتے اور نوری مخلوق بھی اس کے لئے دعا گو بن جاتی ہے۔ اور وہ اپنے خالق و مالک کے حضور اس کے لئے ایسی عظیم الشان دعائیں کرتی ہے اور وہ دعائیں بھی ایسے عظیم الشان آداب کے ساتھ کرتی ہے جن سے ان کی دعاؤں کی قبولیت کی امید بھی بڑھ جاتی ہے، نیز فرشتوں کی ان دعاؤں سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ فرشتوں کی حیثیت خداوند قدوس کی خدائی میں کسی طرح کی شرکت کی نہیں۔ بلکہ اس کے حضور عاجزانہ طور پر دعائیں کرنے والوں کی ہے اور بس پس اس سے ان مشرکین کے مشرکانہ فلسفے کی جڑ نکال دی گئی جنہوں نے فرشتوں کے بارے میں اور انکی نسبت اس طرح کا گمان کر رکھا ہے کہ وہ خداوند قدوس کے چہیتے، اور اس پر اتنا اثر اور زور رکھنے والے ہیں کہ اپنے پجاریوں کو اس کی گرفت و پکڑ سے بچا لیں گے۔ سو فرشتے اس حیثیت کے حامل نہیں، بلکہ ان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ خداوند قدوس کے حضور دعائیں کرنے اور اس کے قہر و غضب سے پناہ مانگنے والے ہیں، اس وحدہٗ لاشریک کی خدائی میں ان کی کسی طرح کی کسی شرکت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پس بڑے بدبخت، اور سخت خسارے اور سخت دھوکے میں مبتلا ہیں وہ لوگ جو ان کو خداوند قدوس کی خدائی میں شریک جان کر ان کی پوجا و پرستش میں لگے ہوئے ہیں، اور اس طرح وہ شرک جیسے سنگین اور انتہائی ہولناک جرم کا ارتکاب کر کے وہ اپنے لئے نہایت ہی ہولناک انجام کا سامان کرتے ہیں اور فرشتے اپنے رب کے حضور جو دعائیں کرتے ہیں ان میں بھی وہ کسی ناز و تَدَلُّل کے بجائے اپنے عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہیں اور وہ معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے علم ہی کے حوالے کرتے ہیں، چنانچہ وہ اپنی دعا میں اس سے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تیری رحمت بھی ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور تیرا علم بھی ہر شے کو محیط ہے اس لئے تو ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے گا جو تیرے کمال رحمت اور احاطہ علم و حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو گا، اور اپنے اس عقیدہ کے مطابق وہ اہل ایمان کے بارے میں اس کے حضور کرتے ہیں کہ ان میں سے جو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے توبہ کر لیں۔ اپنے حال کی اصلاح کر لیں، اور تیرے راستے کے پیرو بن جائیں تو ان کی بخشش فرما دے۔ پس جو اس کے باغی اور اس کے دین کے دشمن ہوں گے، وہ اس کی مغفرت اور بخشش کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اور اپنے اس استغفار کی مزید تفصیل کے طور پر وہ اپنے رب کے حضور مزید عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو داخل فرما دے ان کو ہمیشہ رہنے کی ان جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ فرما رکھا ہے۔ ان کو بھی اور ان کے آباء و اجداد، اور ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے بھی ان کو جو اپنے ایمان و عمل، اور توبہ، و اصلاح، کی بناء پر اس کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہوں، سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ فرشتے اس اصول و بنیاد سے پوری طرف واقف و آگاہ ہیں کہ جنت کا حصول اور اس سے سرفرازی محض کسی کے طفیل اور کسی کے خاندان و نسب کی بناء پر ممکن نہیں ہو گی، بلکہ اس سے سرفرازی انہی خوش بختوں کو نصیب ہو گی۔ جو اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار کی بناء پر اس کا استحقاق رکھتے ہوں گے۔ اور حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کا فضل و کرم ان کے شامل حال ہو گا۔ اور اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون اس کا اہل اور مستحق ہے اور کون نہیں۔ سو معاملہ سب کا سب اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ اسی لئے حاملین عرش اپنی اس دعا میں تفویض الی اللہ کی تعلیم و تلقین کے طور پر اس کی صفت عزیز و حکیم کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے حضور عرض کرتے ہیں کہ بیشک تو ہی ہے سب پر غالب، نہایت ہی حکمت والا پس تو جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، تیرا ہر فیصلہ عدل و انصاف اور علم و حکمت ہی پر مبنی ہو گا، پس اس سے صاف کر دیا گیا کہ فرشتوں کا کام اہل ایمان کے لئے مغفرت و بخشش کی دعا اور ان کے حق میں سفارش کرنا ہے اور بس یہی ان کی اصل حیثیت ہے، نہ کہ وہ جس کا زعم اور گھمنڈ مشرکین رکھتے ہیں، کہ وہ خدا کے لاڈلے اور اس کے چہیتے ہیں، اس سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں، کہ وہ اڑ کے بیٹھیں گے اور منوا کر چھوڑیں گے، وغیرہ وغیرہ سو ایسا کہنا ماننا سب کچھ باطل اور بے حقیقت ہے، اور یہ سب کچھ ان لوگوں کی اپنی اختراعات اور من گھڑت باتیں ہیں، اور قیامت کے اس یوم عظیم میں جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا دن ہو گا، اس میں ہر چیز اپنی اصل شکل اور حقیقی صورت میں بے نقاب ہو کر سامنے آ جائے گی، سو اس روز یہ سب اللہ کے سامنے اس طرح ظاہر اور بے نقاب ہوں گے کہ ان کی کوئی بھی بات اس طرح مخفی نہ ہو گی کہ اس کے اثبات کے لئے کسی گواہ وغیرہ کی کوئی ضرورت پڑے، یا کوئی اپنی کسی غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے اس کو چھپا سکے، یا کوئی کسی غلط تاویل کا سہارا لے کر اپنے کسی جرم کا جواز ثابت کر سکے، یا کسی ذریعے اور وسیلے سے وہ اپنے لئے کوئی جھوٹی سفارش کرا سکے، سو اس روز اس طرح کی کوئی بھی چیز ممکن نہیں ہو گی، اور اس یوم عظیم میں اعلان کیا جائے گا کہ کس کی بادشاہی ہے آج کے دن؟ یعنی دنیا میں جن حکومتوں اور بادشاہوں پر تم لوگوں کو ناز اور گھمنڈ ہوا کرتا تھا، آج وہ کہاں گئیں؟ اور جن کی بناء پر تم لوگ وہاں پر حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوا کرتے تھے، آج ان کا کہیں کوئی نام و نشان ہے؟ اور جن جن کے بارے میں تم لوگوں کا یہ دعویٰ تھا کہہ تمہیں چھڑا اور بچا دیں گے، آخر آج وہ کہاں گئے؟ سو اس کے جواب میں ہر طرف سے ایک ہی صدا آئے گی کہ آج بادشاہی خدائے واحد و قہار ہی کی ہے، آج کسی اور کی نہیں چل سکتی، اور نہ ہی کوئی خدائے واحد کے مقابلے میں کسی کا یار و مددگار بن سکتا ہے، اور نہ ہی کسی میں اس کی جان ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے اثر و نفوذ سے اس خدائے یکتا و قہار کے کسی فیصلے کو بدلوا سکے، بلکہ اس یوم عظیم میں خداوند قدوس ہی کا حکم و فیصلہ نافذ ہو گا فَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ سبحانہ و تعالیٰ، دنیا کے اس دار غرور و ابتلا میں جو حکومتیں اور بادشاہتیں پائی گئیں، یا پائی جاتی ہیں، یا پائی جائیں گی، اور جن کی بناء پر تنگ ظرف لوگ آج پھولے نہیں سما رہے، اور وہ طرح طرح کے دعوے کرتے اور بڑھکیں مارتے ہیں، اس یوم فصل و تمیز میں ان میں سے کسی کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ہو گا، اور ایسے تمام لوگ دوسروں کی طرح اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینے اور اس کا صلہ و بدلہ پانے کے لئے وہاں پر حاضر و موجود ہوں گے، تب ان کے سامنے اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے گی، اور اس روز معاملہ سب کا سب اللہ، وحدہٗ لاشریک ہی کے حوالے، اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہو گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، اور صاف و صریح طور پر اور حَصْر و قَصْر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا، وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ (الانفطار۔۱٩) اَللّٰہُمَّ فَخُذْنَا بِنَواصِیْنَا اِلیٰ مَافِیْہِ حُبُّکَ ورضاک بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ،
۲۱۔۔ سو اس سے ان منکرین حق کو تنبیہ و تہدید فرمائی گئی جو اپنی جمعیت و قوت اور اپنی مادی تعمیر و ترقی کے زعم و گھمنڈ میں حق سے رُوگردانی برتتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، سو اس سے ان کے لئے تنبیہ و تہدید کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر ان منکر قوموں کا حشر اور انجام نہیں دیکھا، جو اپنی جمعیت اور قوت کے اعتبار سے بھی ان سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ اور اپنی تعمیر و ترقی کے آثار و نشانات کے لحاظ سے بھی ان پر کہیں زیادہ فوقیت رکھتی تھیں۔ لیکن انکار و تکذیب حق کے جرم کی پاداش میں آخرکار جب اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا تو کس طرح ان کو تہس نہس کر کے، اور قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیا۔ اور جب وہ اپنے جرم انکار و تکذیب کی پاداش میں اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ میں آئیں تو نہ ان کی وہ جمعیت و قوت ان کے کچھ کام آ سکی جس کا ان کو بڑا زعم اور گھمنڈ تھا، اور نہ ان کی وہ تعمیر و ترقی عذاب خداوندی کے آگے ان کے لئے کوئی بند باندھ سکی، جن پر یہ لوگ پھولے نہیں سماتے تھے، سو جو قومیں حق کا انکار کرتی، اور دعوت ایمان و یقین سے محروم رہتی ہیں ان کی تعمیر و ترقی کے ایسے آثار دراصل ان کے زوال اور ہولناک انجام کے نشان ہوتے ہیں اور آخرکار یہی آثار و نشانات ان کے قومی وجود کے لئے مقابر و کھنڈرات اور نشان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں والعیاذ ُباللہ العظیم۔
۲۲۔۔ سو اس سے ماضی کی ان قوموں کی ہلاکت و تباہی کے سبب اور باعث کو واضح فرما دیا گیا۔ جو کہ عبارت ہے ان کے انکار و تکذیب حق سے سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے پاس ان کے رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلے دلائل اور واضح نشانیاں لے کر آئے۔ مگر انہوں نے ان کا کفر کیا، اور اپنی قوت و جمعیت اور اپنی مادی تعمیر و ترقی کے زعم اور گھمنڈ میں انہوں نے رسولوں کے انذار کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اور ان کی دعوت کو انہوں نے جھٹلا دیا۔ جس کے نتیجے میں آخرکار اس قادر مطلق نے ان کو پکڑا۔ اور جب اس نے ان کو پکڑا۔ تو ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا کر رکھ دیا۔ اور ان کی جمعیت و قوت اور ان کی تعمیر و ترقی میں سے کوئی بھی چیز ان کو اس کی گرفت و پکڑ سے چھڑا اور بچا نہ سکی۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حق کا انکار اور اس کی تکذیب کا نتیجہ و انجام بہر کیف دائمی ہلاکت و تباہی ہے، ایسے لوگوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے، وہ بہر حال ڈھیل ہی ہوتی ہے، جو ایک خاص مدت تک ہی کے لئے ہوتی ہے، اور جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہوتا ہے، اس کے بعد ایسوں کے لئے بہر حال ہلاکت و تباہی ہی ہوتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی قوی سخت پاداش والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔
۲۵۔۔ کہ کفر و انکار کی نحوست کے نتیجے میں ان کی مت اس طرح مار کر رکھ دی جاتی ہے، کہ ان کو حق و ہدایت اور صحت و سلامتی کی راہ سوجھتی ہی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں، یہی حال فرعون اور اس کے پیروکاروں کا ہوا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کو دبانے مٹانے کے منصوبوں کو اپنایا۔ اور ظلم پر ظلم کا ارتکاب کیا۔ لیکن اس طرح وہ درحقیقت اپنی ہی سیاہ بختی میں اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ یہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے، اور اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل نے انکے عذاب سے نجات پائی۔ اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت ہمیشہ کے لئے فی النار والسَّقر ہو گیا۔ اور قیامت کے روز وہ اَشَدّ العذاب یعنی سخت ترین عذاب کا مستحق قرار پایا۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۲۷۔۔ سو اس سے اہل باطل کے مقابلے میں اہل حق کے طرز عمل کو ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ فرعون کی ان دھمکیوں اور شر انگیزیوں کے جواب میں حضرت موسیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں پناہ مانگتا ہوں اس کی جو رب ہے میرا بھی اور وہ رب ہے تم سب کا بھی۔ ہر اس متکبر کے شر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ سو اس سے پہلا اور اہم درس یہ دیا گیا کہ بندہ مومن اپنا معاملہ اپنے رب کے حوالے اور اسی کے سپرد کر دے۔ اور ہمیشہ بھروسہ و اعتماد اسی وحدہٗ لاشریک پر رکھے۔ کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اس ضمن میں رَبِّکُمْ کی تصریح سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ تم لوگ مانو یا نہ مانو۔ اور تمہیں اس کا احساس و اقرار ہو یا نہ ہو۔ حق اور حقیقت بہر حال یہی ہے کہ رب تم سب کا بھی بہر حال وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور دوسری بات حضرت موسیٰ کے اس اعلان سے یہ واضح فرمائی کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے حضرات انبیاء و رسل بھی اسی کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہیں اور جب حضرت انبیاء و رسل اور حضرت موسیٰ جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں، بلکہ وہ بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی حفاظت و پناہ کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہیں، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو مافوق الاسباب کسی کی حاجت روائی و مشکل کشائی کر سکے؟ اور تیسری بات حضرت موسیٰ کے اس اعلان سے یہ واضح ہو گئی کہ جس متکبر کا یوم حساب پر ایمان نہ ہو، اس کے شرور و فتن سے بطور خاص پناہ مانگنے کی ضرورت ہے کہ ایسے متکبر اور ظالم شخص کو روکنے اور لگام دینے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی جو یوم حساب اور محاسبہ آخرت کے ایمان و اعتقاد سے عاری اور محروم ہو۔ ایسوں کے ظلم و ستم سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے، اس لئے ایسوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ مانگنے کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ایسے تمام اشرار کے شرور و فتن سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین۔
۲۸۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اسراف یعنی حدود سے تجاوز اور کِذْب یعنی جھوٹ محرومی کی جڑ بنیاد ہے۔ سو اس ارشاد سے اس مرد مومن نے ایک بڑے حکیمانہ کلیے کی نشاندہی کر دی۔ جو اگرچہ بظاہر ایک عام کلیہ ہے لیکن اس کا اولین مصداق اور واضح مظہر فرعون ہی تھا جو حدود بندگی سے تجاوز کر کے خدائی کا دعویدار بن گیا تھا، سو اپنے اس اسراف اور کذب کی بناء پر وہ نور حق و ہدایت کی دولت سے محروم ہو گیا۔ اس لئے اس مرد مومن نے اس حکیمانہ کلیے کی صورت میں حق کا اظہار و بیان بھی کر دیا۔ اور فرعون جیسے اس طاغی پر بھرے دربار میں یہ زور دار تعریض بھی کر دی۔ کہ اِسْراف اور کذب کی اس روش سے باز آ جاؤ، کہ اس کا نتیجہ و انجام بڑا ہی ہولناک ہے، والعیاذ باللہ،
۳۱۔۔ بلکہ وہ ربِّ رحمان و رحیم اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے نوازنا چاہتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے انبیاء و رسل بھیج کر ان کو حق اور حقیقت سے آگہی بخشنے کا انتظام فرماتا ہے اور ان کے ذریعے دنیا کو پیغام حق سے نوازتا ہے تاکہ اس کے بندے راہ حق و ہدایت کو اپنا کر دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہوں۔ پس تم لوگ اے منکرو۔ راہ حق و ہدایت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو دائمی محرومی کے راستے پر نہ ڈالو۔ بلکہ راہِ حق و ہدایت کو اپنا کر اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرو،
۳۴۔۔ سو اس سے نور حق و ہدایت سے محرومی کے دو بنیادی سببوں کی تشخیص و نشاندہی فرما دی گئی۔ یعنی اسراف اور ارتیاب۔ یعنی حد سے بڑھنا، اور شک میں مبتلا ہونا، والعیاذ باللہ پس جو لوگ خواہشات نفس کی پیروی میں اپنے خالق و مالک کی مقرر کردہ حدود کو توڑتے۔ اور اتباع نفس کے جنون میں علم و یقین کے بجائے شک و ریب کی راہ اختیار کرتے ہیں، وہ نور حق و ہدایت سے محروم ہو کر ضلالت و غوایت کے اندھیروں میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں اور ایسے ناقدروں اور ناشکروں کو اللہ تعالیٰ ان کی اپنی اختیار اور پسند کردہ ضلالت و گمراہی ہی کے حوالے کر دیتا ہے اور ان کو وہ ادھر ہی دھکیل دیتا ہے جدھر کا رخ انہوں نے خود اپنے ارادہ و اختیار سے کیا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں آخرکار وہ ہاویہ جہنم میں جا گرتے ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّیٰ وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا۔ اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ اس نے لوگوں کے اندر خیر و شر کی تمیز و معرفت اور عقل و فہم کی جو نعمت ودیعت فرمائی ہے تو جو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں ان کے لئے اس واہب مطلق جَلَّ جلالُہٗ کی طرف سے ہدایت و معرفت کی مزید راہیں کھلتی ہیں۔ لیکن جو لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ بلکہ وہ نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگ کر الٹا حق کو مشتبہ بنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں ان کو مزید ہدایت ملنا تو درکنار۔ قدرت کی طرف سے ان کا وہ نور فطرت بھی سلب کر لیا جاتا ہے، جو ان کی فطرت میں ودیعت فرمایا گیا ہوتا ہے، سو اس بندہ مومن نے اس موقع پر ان لوگوں کو اسی حقیقت سے آگہی بخشی۔ اور ان سے فرمایا کہ اللہ اسی طرح گمراہ کر دیتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھنے والا، اور شک کرنے والا ہوتا ہے، اور اس موقع پر حضرت یوسف کے حوالہ و ذکر سے اس نے اس قوم کی ضلالت و گمراہی کی تاریخ بیان کر دی، سو اس مرد مومن نے ان لوگوں کو خطاب کر کے ان سے کہا کہ اس سے پہلے آپ لوگوں کے پاس حضرت یوسف بھی کھلے دلائل اور واضح نشانات کے ساتھ آئے۔ مگر تم لوگ ان تعلیمات و ہدایات کے بارے میں بھی برابر شک ہی میں پڑے رہے جن کو انہوں نے تم لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ یعنی بادشاہ وقت ہونے کے اعتبار سے اگرچہ تم لوگ ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے۔ لیکن جن باتوں کی تعلیم انہوں نے تم لوگوں کو دی۔ ان کی تم نے کوئی قدر نہیں کی۔ بلکہ تم نے ان سے لاپرواہی ہی برتی۔ اور تم ان کے بارے میں شک ہی میں پڑے رہے۔ اور ان کی پیش کردہ تعلیمات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھنے کے بجائے الٹا تم نے ان کو اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھا، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گئے تو تم نے ٹھنڈا سانس لیا۔ کہ اب یہ بوجھ ہماری گردنوں سے اتر گیا۔ اور اب ہم آزاد ہو گئے۔ اور تم نے کہا کہ اب اللہ کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔ اور اب ہماری خواہشوں کو کوئی لگام نہیں دے گا۔ بلکہ اب ہم شتر بے مہار بن کر رہیں گے۔ سو تمہارے مرض اور بیماری کی اصل بنیاد اتباع ہَویٰ یعنی خواہشات کی پیروی ہے، حق و ہدایت کی پیروی جو کہ اصل مطلوب ہے وہ تم لوگوں کے لئے ایک بار گراں ہے، افسوس کہ یہی بیماری اور اس کی یہ جڑ آج تک دنیا میں پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ امت مسلمہ کی بھی بڑی اکثریت اسی میں مبتلا ہے اور بُری طرح مبتلا ہے۔ والعیاذُ اللہ العظیم،
۳۹۔۔ سو جب دنیا کا سامان محض چند روزہ ہے۔ اور اس کا تمام تر عیش و آرام محض وقتی اور فانی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں آخرت کا گھر ہمیشہ کا اور دائمی ہے تو پھر دنیا کے چند روزہ عیش کے مقابلے میں اور اس کے پیش نظر آخرت کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ پس عقل ونقل دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ آخرت کے تقاضوں ہی کو ہمیشہ کے لئے اور ہر حال مقدم اور فائق رکھا جائے۔ کہ اس کے لئے محنت اور کوشش کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے، اور بس، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید بکل حالٍ من الاحوال
۴۲۔۔ سو اس سے اس مرد مومن نے ان لوگوں کے ضمیروں پر دستک دیتے ہوئے ان سے کہا کہ یہ کیسی تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ میں تو آپ لوگوں کو نجات کی طرف بلا رہا ہوں۔ اور آپ لوگ ہیں کہ مجھے دوزخ کی آگ کی طرف بلا رہے ہیں۔ پھر اس کی تفسیر و تشریح کے طور پر ان لوگں سے کہا کہ آپ لوگ تو مجھے بلا رہے ہیں کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں، اور اس کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراؤں جن کے بارے میں میرے پاس کوئی علم نہیں۔ جبکہ میں آپ لوگوں کو اس معبود برحق کی طرف بلا رہا ہوں جو کہ سب پر غالب، نہایت ہی بخشنے والا ہے۔ سو اس سے اس مرد مومن نے ان کے سامنے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا جو کہ حقیقتوں کی حقیقت اور اصل الاصول ہے، کہ کفر و شرک کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے اور نجات و فلاح کی راہ صرف توحید و وحدانیت کی راہ ہے۔ پس جو لوگ عقیدہ توحید اور اس کے تقاضوں سے غافل اور محروم ہیں، وہ یقیناً دوزخ کی راہ پر ہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ والعیاذُ باللہ العظیم
۴۳۔۔ سو اس سے اس مرد مومن نے ان لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ نے کے لئے ان کے سامنے چند بنیادی حقائق کو واضح فرما دیا، سو اس نے ان سے کہا کہ جن فرضی معبودوں اور دیویوں دیوتاؤں وغیرہ کو تم لوگ پوجتے پکارتے ہو۔ ان کو پوجنے پکارنے کا کوئی فائدہ نہیں نہ اس دنیاوی زندگی میں اور نہ آخرت کے اس ابدی جہاں میں، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے کہ تمہارے یہ فرضی اور من گھڑت معبود نہ تمہاری کوئی راہنمائی کر سکتے ہیں، اور نہ ہی یہ تمہارے کچھ کام آ سکتے ہیں، اور نہ ہی ان کے اندر اس کی کوئی اہلیت اور صلاحیت ہی موجود ہے، کہ یہ سب کچھ من گھڑت، فرضی اور اوہام وخرافات ہیں، اور دوسری اہم حقیقت اس ضمن میں اس نے ان کے سامنے یہ واضح کر دی کہ ہم سب نے بہر حال لوٹ کر اللہ تعالیٰ ہی کے یہاں جانا۔ اور وہاں اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے۔ تمہارے ان خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں میں سے کسی کی طرف لوٹنے کا کوئی سوال و امکان ہی نہیں۔ پس تم لوگ سوچو کہ تم خرافات کے کیسے پلندے میں پھنسے ہوئے ہو، جس کی نہ کوئی اساس ہے نہ بنیاد، اور تیسری اہم حقیقت اس نے ان کے سامنے یہ واضح کر دی کہ جن لوگوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے حدود بندگی سے تجاوز کیا، وہ بہر حال دوزخی ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ پس تم لوگ باز آ جاؤ اور ہوش کے ناخن لو، اور اپنی رَوَش کو درست کر لو، قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے جو آج تمہیں میسر ہے، اور پھر تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہونا پڑے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،
۴۶۔۔ سو اس سے اٰل فرعون کو ملنے والے عذاب کی تفصیل بیان فرما دی گئی کہ برزخی زندگی میں ان کو صبح و شام دوزخ کی آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس روز حکم ہو گا کہ جھونک دو فرعون اور اس کے اتباع و اَذْناب کو دوزخ کے سخت ترین عذاب میں۔ سو عالم برزخ میں ارواح پر ان کے اعمال کے اعتبار سے مختلف کیفیات کا صدور ہونے لگتا ہے، پاکیزہ ارواح پر ان کے نیک اعمال کے پاکیزہ اثرات کا۔ اور خبیث روحوں پر ان کے بُرے اعمال کے خبیث اثرات کا۔ سو پاکیزہ روحوں کو اس میں جنت کی خوشبوئیں اور وہاں کی عطر بیز ہوائیں پہنچتی، اور ان کے مشام جان کو معطر کرتی رہتی ہیں۔ جبکہ خبیث روحوں کو دوزخ کی لُو، اور وہاں کی سموم پہنچتی رہتی ہے، اور اس طرح برزخ کی زندگی نیک لوگوں کے لئے جنت کی تمہید بنتی ہے اور بروں کے لئے دوزخ کی تمہید، اور اس کے بعد جب قیامت قائم ہو گی جو کہ اصل دار الجزاء ہے، تو سب لوگوں کے لئے ان کی جزا و سزا اپنی اصل اور کامل شکل میں ان کے سامنے آ جائے گی، جیسا کہ احادیث میں اس کی پوری تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔
۵۰۔۔ سو جب دوزخی دیکھیں گے کہ نہ ان کے وہ مزعوم و من گھڑت شفعاء و شرکاء ان کے کچھ کام آ سکے جن کی فریاد رسی کا ان کو بڑا زعم اور گھمنڈ تھا۔ اور نہ ہی ان کے وہ لیڈر و پلیڈر ان کے کچھ کام آ سکے جن کے وہ پیچھے چلتے رہے تھے، اور جن کے پیچھے چل کر وہ حق والوں کی بات سننے ماننے کو تیار نہیں ہو رہے تھے، تو اس وقت وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر دوزخ کے داروغوں سے عرض و التجاء کریں گے کہ آپ لوگ ہی اپنے رب کے حضور ہماری یہ دعا و درخواست پیش کر دیں، کہ وہ ہمارے عذاب میں سے ایک دن ہی کی تخفیف کر دے۔ تاکہ ہم ذرا دم لے لیں، لیکن ان کی طرف سے آگے ان کو جو جواب ملے گا اس سے ان کی آتش یاس و حسرت اور ان کی تذلیل و تقبیح ہی ہیں اضافہ ہو گا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلے دلائل لے کر نہیں آئے تھے۔ یعنی ایسے رسول جو خود تم ہی لوگوں میں سے اور تمہاری ہی جنس و نوع سے تھے، جنہوں نے کھلے اور واضح دلائل کی روشنی میں تم لوگوں کو تمہارے اس انجام سے آگاہ کر دیا تھا؟ جس کے جواب میں یہ لوگ یاس و حسرت بھرے انداز میں اعتراف و اقرار کریں گے، اور کہیں گے ہاں کیوں نہیں؟ یعنی ایسے تو ضرور ہوا تھا ہمارے رسول ہمارے پاس آئے تھے اور کھلے دلائل و براہین کے ساتھ آئے تھے، اور انہوں نے حق اور حقیقت کو پوری طرح ہمارے سامنے واضح کر دیا تھا مگر ہم نے ان کی بات کو مان کر نہ دیا تھا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ کہیں گے رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(المؤمنون۔۱٠۶) یعنی وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم پر ہماری بدبختی غالب آ گئی اور ہم بڑے گمراہ لوگ تھے مگر بے وقت کے اس اعتراف و اقرار سے ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ تب دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے کہ جب ایسا ہے تو تم اپنی درخواست خود ہی پیش کرو۔ تم جیسے لوگوں کی کوئی درخواست ہم نہیں پیش کر سکتے۔ سو اس وقت کافروں کی ہر دعاء و درخواست اور چیخ و پکار بے کار و نامراد اور صدا بصحرا ثابت ہو گی۔ نہ ان کے من گھڑت معبود اور خود ساختہ دیوی و دیوتا ان کی کوئی فریاد رسی کر سکیں گے، اور نہ ہی ان کے لیڈر پلیڈر ان کے کچھ کام آ سکیں گے، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی کوئی شنوائی ہو گی۔ امید کے تمام دروازے ان کے لئے بند ہو جائیں گے تب ان کی یاس و حسرت کا اندازہ کرنا ہی کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ سو جن کافروں اور منکروں کا انجام یہ ہونے والا ہو ان کو اگر دنیا میں روئے زمین کی ساری دولت بھی مل جائے۔ اور ان کی ساری زندگی اگر حکومت اور بادشاہی ہی میں گزرے۔ تو بھی ان کو کیا ملا۔ اور ان سے بڑھ کر بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ والعیاذُ باللہ، اور اس کے برعکس جن اہل ایمان کو ان کے ایمان و عقیدہ کی بناء پر دوزخ سے بچا کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے گا اس سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ فصدق اللہ القائل۔ فْمَنْ زُحْزِحْ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(اٰل عمران:۱٨۵) یعنی جس کو دوزخ کی آگ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا گیا وہی ہے جو یقینی طور پر کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سوا کچھ نہیں، والعیاذُ باللہ، سو اصل دولت ایمان و عمل کی دولت ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اگرچہ ایسوں کو دنیا میں نان جویں بھی میسر نہ رہی ہو، اور خسارہ و نقصان کا اصل اور حقیقی باعث کفر و شرک ہی ہے، کہ ان کا نتیجہ انجام بہر حال بہت بُرا اور ہمیشہ کا عذاب ہے، اگرچہ ایسوں کو دنیا بھر کی دولت بھی کیوں نہ مل جائے، کہ یہ خسارہ ناقابل تلافی ہو گا، والعیاذُ باللہ جل وعلا، اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید بکل حال من الاحوال، وفی کل موطنٍ من الموطن فی الحیاۃ یاذالجلال والاکرام۔
۶۰۔۔ سو اس آیت کریمہ میں ایک تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنے اور اسی سے مانگنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ مانگنے کے لائق وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ جس کو جو کچھ ملا اسی کی طرف سے ملا۔ اور جو کچھ ملے گا اسی کی طرف ملے گا۔ کہ کائنات پوری کے تمام خزانوں کا خالق اور مالک وہی ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اور عطاء ونوال اسی کی شان ہے اور دوسری بات اس میں یہ واضح فرمائی گئی کہ اس میں دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا گیا ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے رب کا ارشاد و فرمان ہے کہ تم لوگ مجھ ہی کو پکارو میں تمہاری پکار کو سنوں گا۔ سو اس میں قبولیت دعا کا صاف اور صریح طور پر وعدہ فرمایا گیا ہے۔ پس بندے کے ذمے جیسا کہ حضرات اہل علم نے فرمایا دعا کرنا ہے، آگے اللہ کے ذمے اس کا قبول کرنا ہے، کہ اس نے قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور اس کا وعدہ بہر حال سچا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، آگے اس کی قبولیت کی شکلیں مختلف ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، کہ کبھی جو مانگا وہی مل گیا۔ کبھی اس کے بدلے میں کچھ اور مل گیا، کبھی اس کے نتیجے میں کوئی سختی ٹل گئی۔ اور کبھی اس کو اس کے لئے ذخیرہ آخرت بنا دیا گیا، وغیرہ، کیونکہ اس سب کا تعلق اس کی حکمت سے ہے، اور وہ حکیم مطلق رب رحمان و رحیم ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندے کی بہتری کس میں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، پس بندے کے ذمے اس سے مانگنا ہے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں مانگنا۔ اور صرف اسی سے مانگنا۔ پس جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں اس سے منہ موڑتے ہیں، وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہو ں گے۔ کہ استکبار و اعراض، یعنی اپنی بڑائی کے زعم اور گھمنڈ میں اس کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ سے منہ موڑنا باعث محرومی و تباہی ہے، والعیاذ باللہ، اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَاسَالَکَ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ و سلم۔
۶۱۔۔ سو رات اور دن کے ادلنے بدلنے اور ان کی آمدورفت کے اس حکمتوں بھرے نظام میں ایسے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں کہ صحیح طور پر غور و فکر سے کام لینے پر انسان دل و جان سے اپنے خالق و مالک کے حضور جھک جھک جاتا ہے، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے اے لوگو! رات کو سیاہ اور پرسکون بنایا، تاکہ تم اس میں آرام اور سکون حاصل کر سکو۔ اور دن کو اس نے روشن بنایا تاکہ اس میں تم اپنے طرح طرح کے کاروبار کر سکو۔ اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر سکو۔ اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کا اس میں کسی بھی طرح کا کوئی عمل دخل نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، وہ اگر ہمیشہ تم لوگوں پر رات کی تاریکی ہی طاری کر دے تو کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دن کا اجالا کر سکے، اور اس کے برعکس وہ اگر تم لوگوں پر ہمیشہ کے لئے دن اور اس کی دھوپ اور تپش ہی طاری کر دے، تو کسی کے بس میں نہیں کہ وہ تم پر رات کا پُر سکون اندھیرا لاس کے۔ سو رات اور دن کے اس پُر حکمت ادل بدل میں اس رب العالمین کی رحمت و عنایت اور اس کی قدرت و حکمت کے عظیم الشان دلائل و مظاہر موجود ہیں، جس کا طبعی تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ تم لوگ اس کے شکر میں اپنے اس خالق و مالک کے آگے جھک جھک جاتے اور جھکے جھکے ہی رہتے، جس نے اپنی رحمت و عنایت سے تمہارے لئے یہ اس قدر پُر حکمت سلسلہ قائم فرمایا، لیکن لوگوں کی اکثریت ہے کہ اس کا شکر ادا نہیں کرتی۔ بلکہ وہ غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہے، سو اس کی اس رحمت و ربوبیت کا لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ ایک دن ایسا لائے جس میں ان لوگوں کو اپنے انعام سے نوازے جنہوں نے اس کی نعمتوں کا حق پہنچانا، اور ان کا شکر ادا کیا۔ اور اس کے برعکس ان لوگوں کو وہ سزا دے، جنہوں نے اس کی گوناگوں اور طرح طرح کی نعمتوں سے فائدے تو اٹھائے۔ لیکن ان پر اس کی شکر گزاری کے بجائے انہوں نے اس کی ناشکری کی۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کے یہاں ناشکرے اور شکر گزار دونوں ایک برابر ہیں، اور یہ بات بالبداہت غلط اور اس کی شان عدل و حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے، پس وہ یوم عظیم جو کہ کمال عدل و انصاف کا دن ہو گا، وہ ضرور واقع ہو گا، اور اس کو ضرور واقع ہونا چاہئیے، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، اور وہی یوم عظیم یوم قیامت ہے۔ اور رات اور دن کی یہ عظیم الشان اور پُر حکمت سازگاری کہ یہ دونوں مل کر انسان کی پرورش کرتے ہیں، حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی وحدانیت و یکتائی کی ایک بڑی واضح دلیل ہے، کہ یہ اس بات کا ایک کھلا ثبوت ہے کہ کائنات کے اندر پائی جانے والی اضداد کے درمیان یہ توافق و موافقت تب ہی ممکن ہو سکتے ہیں، جبکہ اس کائنات میں ایک ہی ارادہ کار فرما ہو۔ اور اس میں ایک ہی قوت قاہرہ کی حکمرانی ہو۔ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک، جو کہ خالق کل اور مالک مطلق ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو شب و روز کے اس ادل بدل میں توحید اور وحدانیت خداوندی، آخرت و معاد، اور ضرورت رسالت و بعثت سب سے ہی بنیادی عقائد و مسائل کے لئے کھلے اور واضح دلائل موجود ہیں، لیکن یہ سب انہی لوگوں کو نصیب ہو سکتا ہے جو کائنات کی حکمتوں بھری اس کھلی کتاب میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے، اور وہ اس کو صحیح زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
۶۸۔۔ سو اس سے اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ زندگی اور موت کا سلسلہ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے وہی زندگی بخشتا، اور موت دیتا ہے اور اس کو کسی کام کے انجام دینے کے لئے کسی تیاری، یا اسباب و وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ وہاں صرف اس کے حکم و ارشاد اور ارادہ و اشارہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بس۔ وہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو فرماتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ سو قیامت کو بپا کرنا بھی اس کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ وہ جب اس کو بپا کرنا چاہے گا تو اس کے لئے صرف اس کے ایک حکم و اشارہ کی ضرورت ہو گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلاَّ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ اَوْ ہُوَ اَقْرَبُ الایٰۃ (النحل۔ ۱۷۷) یعنی قیامت کا معاملہ تو صرف پل جھپکنے کی طرح ہے، یا اس سے بھی کہیں زیادہ قریب۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا اَمْرُنَا اِلاَّ وَاحِدَۃ کَلَمْح بِالْبَصَرِ (القمر۔۵٠) یعنی ہمارا معاملہ تو صرف ایک کلمے کی دیر کا ہوتا ہے، محض پل جھپکنے کی طرح اور بس۔
۷۴۔۔ سو ان آیات کریمات سے منکرین و مکذبین کے جرم کی بھی وضاحت فرما دی گئی۔ اور ان کے جرم کے نتیجہ و انجام کی بھی۔ اور اہل حق کے ان کے ساتھ رویے اور معاملے کی بھی، سو ان کے جرم کے بارے میں واضح فرما دیا گیا کہ وہ ہے تکذیب و انکارِ حق کا جرم، جو کہ جرموں کا جرم اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے اس کتاب یعنی قرآن مجید کی تکذیب کی۔ اور ان تعلیمات کی بھی جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا، اور تمام انبیاء و رسل کی بنیادی تعلیم چونکہ وہی رہی جو قرآن کریم دے رہا ہے۔ اس لئے قرآن کی تکذیب ان سب کی تکذیب ہے، اور فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ سے ان کے لئے تنبیہ و تہدید کا مضمون بھی واضح فرما دیا گیا۔ اور اہل حق کے لئے ان کے ساتھ رویے اور معاملے کی بھی وضاحت فرما دی گئی۔ کہ ایسے ہٹ دھرم لوگ جب حق بات سننے ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ یہاں تک کہ یہ اپنے جرم تکذیب و انکار کے نتیجہ و انجام کو خود دیکھ لیں۔ اور اپنے کئے کرائے کے بھگتان کو خود بھگت لیں۔ جب طوق ان کی گردنوں میں پڑے ہوں گے۔ اور زنجیریں اور بیڑیاں ان کے پاؤں کے اندر، جن سے ان کو گھسیٹا جا رہا ہو گا کھولتے پانی میں۔ اور پھر ان کو جھونک دیا جائے گا دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ میں۔ پھر ان کی تذلیل و تحقیر مزید کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ خود ساختہ اور من گھڑت معبود جن کو تم لوگ شریک ٹھہرایا کرتے تھے اللہ وحدہٗ لاشریک کا، جن کا تم لوگ بڑا زعم اور گھمنڈ رکھتے تھے؟ تب ان کی آتش یاس و حسرت اور بھڑکے گی۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا،
سو اس سے مشرکین کی اس بدحواسی کو واضح فرما دیا گیا جو اس یوم عظیم میں ان پر طاری ہو گی۔ سو مذکورہ بالا سوال کے جواب میں پہلے تو وہ اول ہلہ ہی میں اپنے جرم کا اقرار کر لیں گے کہ واقعی ہم ایسے شرکاء کو پوجا پکارا کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ دوسرے ہی لمحہ میں وہ اپنے اس جرم کا انکار بھی کر دیں گے، اور صاف طور پر کہہ دیں گے کہ نہیں بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے۔ ان کا خیال ہو گا کہ شاید اس طرح وہ اس دن کے عذاب سے بچ جائیں۔ مگر کہاں اور کیونکر؟ والعیاذُ باللہ العظیم
۷۶۔۔ سو اس سے ان بدبختوں کے ہولناک انجام کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ اور اس کے سبب اور باعث کو بھی۔ سو انکے انجام کے بارے میں واضح فرمایا گیا کہ اس روز ان کی تذلیل اور تحقیر مزید کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ اب داخل ہو جاؤ تم لوگ جہنم کے دروازوں میں، جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے سو اس سے ان بدبختوں کیلئے، اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے گا، کہ تمہارے اس عذر و معذرت کا اب کوئی فائدہ نہیں کہ اس کا وقت گزر چکا اب تم داخل ہو جاؤ دوزخ کے ان دروازوں میں جو تمہارے سامنے چوپٹ کھلے ہوئے ہیں، اور اس میں تمہارا داخلہ بھی وہاں ہمیشہ رہنے کے لئے ہو گا، اور ان کے اس انتہائی ہولناک انجام کے سبب اور باعث کے بارے میں واضح فرمایا گیا کہ وہ ان کا تکبر تھا، جس کو انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں اپنا رکھا تھا، یعنی اپنی بڑائی کا وہ گھمنڈ جس کی بناء پر انہوں نے قبول حق سے انکار کیا تھا، اور وہ دولت حق و ہدایت سے محروم رہے تھے، سو کبر و غرور یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ محرومی کی جڑ بنیاد ہے کہ اس کی بناء پر انسان دولت حق و ہدایت سے محروم ہو کر ایسے ہولناک انجام سے دوچار ہو جاتا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔
۸۱۔۔ سو اس سے رسولوں کی تاریخ کے حوالے سے چند اہم حقائق کو واضح فرما دیا گیا اول تو اس سے پیغمبر کے لئے تسلیہ و تسکین کے ایک خاص پہلو کو واضح فرمایا گیا ہے، کہ منکرین و مکذبین کی طرف سے خاص معجزات اور نشانیوں اور عذاب کا کوئی خاص نمونہ دکھانے کے مطالبوں کا یہ سلسلہ جس سے آج آپ کو (اے پیغمبر!) سابقہ پیش آرہا ہے، کوئی نئی چیز نہیں۔ بلکہ آپ سے پہلے آنے والے رسل کرام کو بھی ایسی ہی صورت حال سے سابقہ پیش آیا۔ گزشتہ قوموں نے بھی اپنے رسولوں کو زچ کرنے کے لئے ان سے اسی طرح کے مطالبات کئے، اور رسولوں کی تاریخ شاہد ہے کہ اس طرح کی نشانیاں دکھانے کا معاملہ رسولوں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا تمام تر تعلق اور اس کا مدار و انحصار اللہ تعالیٰ ہی کی حکمت اور اس کی مشیت پر ہوتا ہے، وہی بہتر جانتا ہے کہ کس رسول کے ہاتھ پر کس نشانی کو ظاہر کیا جائے۔ یا کس قوم پر کب اور کونسا عذاب اتارا جائے۔ اس لئے یہاں پر اس بارے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کسی رسول کے بس میں نہیں تھا کہ وہ کوئی معجزہ پیش کرے، مگر اللہ تعالیٰ ہی کے اذن سے، پس نہ تو لوگوں کو رسولوں سے اس طرح کے مطالبات کرنے چاہئیں۔ اور نہ ہی رسولوں کو اس طرح کے مطالبات سے پریشان ہونا چاہئیے۔ البتہ اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم عذاب کے لئے صادر ہو جاتا ہے تو ٹھیک ٹھیک عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ اور اس وقت شامت انہی لوگوں کی آتی ہے، اور ہمیشہ کے خسارے میں وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں، جو اپنے کفر و باطل پر اڑے رہتے ہیں، اور ایسے لوگ ایسے ہولناک اور اَبَدی خسارے میں مبتلا ہوتے ہیں جس سے نکلنے اور گلو خلاصی کی پھر کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہیں ہوتی۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر قسم و شکل، اور اس کے ہر شائبے سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے محفوظ، اور اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین،
۸۳۔۔ یعنی اللہ کے رسول ان قوموں کے پاس توحید، آخرت، اور جزا و سزا سے متعلق کھلے اور واضح دلائل لے کر پہنچے، اور ان کو حق کی دعوت دی تو انہوں نے اپنے اس دنیاوی اور مادی امور سے متعلق علم کی بناء پر کبر و غرور کا مظاہرہ کیا۔ اور انہوں نے اللہ کے رسولوں اور ان کی دعوت کا مذاق اڑایا جس کے نتیجے میں آخرکار ان کو اسی عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، سو حضرات انبیاء و رسل کی طرف سے پیش کردہ دعوت حق کی تکذیب اور اس کا انکار و استہزاء کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے۔ اور ایسوں کو اس موقع پر نہ ان کی وہ تعمیر و ترقی کچھ کام آ سکتی ہے جس کا ان کو بڑا ناز اور گھمنڈ ہوتا ہے، اور نہ ہی ان کا وہ مال و دولت ان کے کچھ کام آ سکتا ہے جس کو جوڑنے اور جمع کرنے کو وہ اپنا مقصد حیات بنائے ہوتے ہیں اور ایسی منکر قومیں اپنے کفر انکار اور عناد و ہٹ دھرمی کے نتیجے میں ہمیشہ کے اور انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہو کر رہتی ہیں والعیاذُ باللہ العظیم۔
سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ عذاب کے آ جانے اور اس کو سر کی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد لایا جانے والا ایمان نہ معتبر ہے، اور نہ مقبول و مفید، کہ وہ ایمان ایمان بالمشاہدہ ہے، جبکہ اصل مقصود و مطلوب ایمان بالغیب ہے۔ یعنی وہ ایمان جو بن دیکھے، عقل و نقل کے دلائل کی روشنی میں، اور حضرات انبیاء و رسل کی دعوت کے مطابق لایا جائے ورنہ اگر معاینہ و مشاہدہ کے بعد کا ایسا جبری اور غیر اختیاری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لئے تو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کا محض ارادہ اور اس کی مشیت کا ایک اشارہ ہی کافی تھا۔ جس پر سب کی سب دنیا یکدم اور ایک ساتھ ایمان لے آتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَلَوْشَاءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً الایٰۃ یعنی اگر تمہارا رب چاہتا۔ اور اس کو اس طرح کا جبری اور غیر اختیاری ایمان مطلوب ہوتا تو وہ محض اپنی مشیت و ارادہ سے تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ اور ان کو راہ حق و ہدایت پر ڈال دیتا، اور اسی حقیقت کو سورہ نحل سے اس طرح ذکر فرمایا گیا وَلَوْشَاءَ اللّٰہَ لَجَعَلکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً الایٰۃ (النحل۔٩۳) یعنی اگر اللہ چاہتا تو تم سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا، یعنی تم سب کو راہ حق پر ڈال دیتا۔ اور اسی حقیقت کو ایک اور مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا وَلَوْشَاءَ رَبُّکَ لآمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا الایٰۃ (یونس۔٩٩) یعنی اگر تمہارا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے بھی لوگ موجود ہیں وہ سب کے سب ایک ساتھ ایمان لے آتے۔ سو اس طرح کی مختلف نصوص کریمہ سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ایسا جبری اور غیر اختیاری ایمان سرے سے مطلوب ہی نہیں، اس لئے عذاب کے آ جانے کے بعد کا ایمان مفید و معتبر نہیں۔ پہلے لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ کی سنت یہی رہی، اور ایسے موقع پر کافر لوگ ہی خسارے میں رہے۔ کیونکہ ایسا جبری ایمان نہ مفید ہے نہ مطلوب، اور جو ایمان مفید و مطلوب تھا، یعنی ایمان بالغیب اس کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا، سو اس طرح کافر اور منکر لوگ ہمیشہ کے خسارے میں پڑ گئے، والعیاذ باللہ العظیم، سو اس سے دنیاوی زندگی کی اس نعمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو آج ہمیں میسر ہے کہ اسی میں آخرت کے لئے کمائی کی جا سکتی ہے، اور بس، ورنہ اس کے بعد اس کا کوئی موقع نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھانے، اور اس کو اپنی رضا و خوشنودی کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین