اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ قسم ہے اس کتاب کی جو کہ کھول کھول کر بیان والی ہے
۳۔۔۔ ہم ہی نے اس کو بنایا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم لوگ سمجھو
۴۔۔۔ اور بلاشبہ یہ اصل کتاب میں ثبت ہے ہمارے یہاں بڑے ہی مرتبے والی حکمت بھری کتاب ہے
۵۔۔۔ تو کیا ہم تم سے اس نصیحت کو اس لئے پھیر دیں گے کہ تم لوگ حد سے گزرنے والے ہو؟
۶۔۔۔ اور ہم نے کتنے ہی پیغمبر بھیجے (ان سے) پہلے لوگوں میں
۷۔۔۔ مگر ان کے پاس جو بھی کوئی پیغمبر آیا تو انہوں نے اس کا مذاق ہی اڑایا
۸۔۔۔ آخرکار ہم نے ہلاک کر ڈالا ان کو جو طاقت میں (موجودہ دور کے منکرین حق سے) کہیں بڑھ کر سخت تھے اور گزر چکیں مثالیں پہلوں کی
۹۔۔۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین (کی اس کائنات) کو تو یہ ضرور بالضرور یہی جواب دیں گے کہ ان سب کو اسی زبردست علم والی ہستی نے پیدا کیا ہے
۱۰۔۔۔ جس نے بنا دیا تمہارے لئے (اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے) اس زمین کو ایک عظیم الشان بچھونا اور کھول دئیے اس میں طرح طرح کے راستے تاکہ تم لوگ راہ پا سکو (اپنی منزلِ مقصود تک رسائی کی)
۱۱۔۔۔ اور جس نے اتارا آسمان سے پانی ایک خاص اندازے کے ساتھ پھر جلا اٹھایا ہم نے اس کے ذریعے مردہ (اور ویران پڑی) زمین کو اسی طرح نکالا جائے گا تم لوگوں کو (تمہاری قبروں سے)
۱۲۔۔۔ اور جس نے پیدا فرمائے (قسما قسم کے) یہ تمام جوڑے اور اس نے بنا دیں تمہارے (طرح طرح کے فائدوں کے) لئے یہ کشتیاں (اور بحری جہاز) اور پیدا کر دیئے تمہارے (طرح طرح کے منافعوں کے) لئے وہ چوپائے جن پر تم لوگ سوار ہوتے ہو
۱۳۔۔۔ تاکہ تم ٹھیک (اور آرام دہ طریق سے) بیٹھو ان کی پیٹھوں پر پھر یاد کرو اپنے رب کے ان انعامات کو جن سے اس نے تم لوگوں کو نوازا ہے (اپنے فضل و کرم سے) پھر جب تم اس پر برابر بیٹھ جاؤ اور یوں کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے (اپنے کرم سے) ہمارے تابع کر دیا اس سواری کو ورنہ ہم ایسے نہ تھے کہ از خود اس کو اپنے قابو میں لے آتے
۱۴۔۔۔ اور یقینی طور پر ہم سب کو بہر حال اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
۱۵۔۔۔ مگر (اس سب کے باوجود) لوگوں نے اس کے کچھ بندوں کو اس کا جز بنا ڈالا واقعی انسان بڑا کھلا ناشکرا ہے
۱۶۔۔۔ کیا اس نے اپنے لئے تو اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں چن لیں اور تمہیں بیٹوں سے نواز دیا؟
۱۷۔۔۔ اور ان لوگوں کا اپنا حال یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جس کو وہ خود (خدائے) رحمان کی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ کڑھنے لگتا ہے
۱۸۔۔۔ کیا اس کے لئے تم وہ مخلوق تجویز کرتے ہو جو زیوروں (اور آسائش و زیبائش) میں پروان چڑھے ؟ اور وہ بحث و حجت میں (اپنا مدعا بھی) پوری طرح واضح نہ کر سکے ؟
۱۹۔۔۔ نیز (اسی طرح) انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمان کے بندے ہیں عورتیں قرار دے دیا کیا یہ لوگ ان کی پیدائش کے وقت وہاں موجود تھے ؟ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان کو اس کی جواب دہی کرنا ہو گی
۲۰۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ اگر (خدائے) رحمان چاہتا تو ہم کبھی ان کی پوجا نہ کرتے ان کو اس بارے میں کچھ علم نہیں یہ تو محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں
۲۱۔۔۔ کیا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دے رکھی ہے جس کو یہ تھامے بیٹھے ہیں ؟
۲۲۔۔۔ (کچھ بھی نہیں) بلکہ یہ تو بس یہی کہے جا رہے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چلے جا رہے ہیں
۲۳۔۔۔ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جس بستی میں بھی کوئی نذیر بھیجا تو اس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا اور ہم بھی انہی کے نقش قدم کی پیروی کئے جا رہے ہیں
۲۴۔۔۔ پیغمبر نے کہا کیا (تم اسی ڈگر پر چلے جاؤ گے) اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے کہیں بہتر طریقہ لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم تو بہر حال اس طریقے کے قطعی طور پر منکر ہیں جس کو دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے
۲۵۔۔۔ آخرکار ہم نے ان سے بدلہ لیا (تکذیب اور انکارحق کے سنگین جرم کا) پھر دیکھو کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا؟
۲۶۔۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ابراہیم نے کہا (اپنی مشرک قوم کو خطاب کرتے ہوئے) کہ میں قطعی طور پر بیزار (و بری) ہوں ان سب سے جن کی پوجا تم لوگ کر رہے ہو
۲۷۔۔۔ سوائے اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا کہ بلاشبہ وہی مجھے راہ دکھائی گی
۲۸۔۔۔ اور یہی بات ابراہیم اپنے پیچھے بھی چھوڑ گئے تاکہ لوگ رجوع کرتے رہیں (حق کی طرف)
۲۹۔۔۔ (پھر بھی ان لوگوں کے کفر پر میں نے ان کو مٹایا نہیں) بلکہ میں تو برابر سامان زندگی دیتا رہا ان کو بھی اور ان کے باپ دادا کو بھی یہاں تک کہ آگیا ان کے پاس یہ (صاف و صریح) حق اور کھول کھول کر سنانے والا عظیم الشان رسول
۳۰۔۔۔ مگر جب وہ حق ان کے پاس پہنچ گیا تو یہ کہنے لگے یہ تو جادو ہے اور ہم نے تو ہر قیمت پر اس کا انکار ہی کرنا ہے
۳۱۔۔۔ اور کہا کہ کیوں نہ اتارا گیا اس قرآن کو (مکہ اور طائف کی) ان دو بستیوں میں کے کسی بڑے شخص پر؟
۳۲۔۔۔ کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ (جو یہ ایسی بڑکیں مارتے ہیں) ہم نے تو ان کے درمیان ان کی گزر بسر کے ذرائع کو بھی تقسیم کر دیا ہے ان کی اس دنیاوی زندگی میں اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دے دی درجات (و مراتب) کے اعتبار سے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور تمہارے رب کی رحمت تو بہر حال کہیں زیادہ بہتر ہے ان چیزوں سے جن کو (جوڑنے اور) جمع کرنے میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں
۳۳۔۔۔ اور اگر نہ ہوتی یہ بات (اور خدشہ و اندیشہ نہ ہوتا اس امر کا) کہ سب لوگ ایک ہی طریقے (یعنی کفر) پر ہو جائیں گے تو ہم ان لوگوں کو بھی جو (خدائے) رحمان کے ساتھ کفر کرتے ہیں (اتنی دنیا دے دیتے کہ) ان کے گھر کی چھتیں اور وہ سیڑھیاں بھی جن پر یہ لوگ چڑھتے (اترتے) ہیں چاندی کی کر دیتے
۳۴۔۔۔ اور ان کے گھروں کے دروازے اور وہ تخت بھی جن پر یہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں
۳۵۔۔۔ اور سونے کے بھی کیونکہ یہ سب کچھ تو محض دنیاوی زندگی کا (چند روزہ) سامان ہے اور آخرت (جو کہ اس سے کہیں بہتر ہے) تمہارے رب کے یہاں بہر حال پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے
۳۶۔۔۔ اور جو کوئی اندھا بن جاتا ہے (خدائے) رحمان کی یاد (دلشاد) سے تو ہم مسلط کر دیتے ہیں اس پر ایک شیطان کو (اس کے سوءِ اختیار کی بناء پر) پھر وہ اس کا (ہر وقت کا) ساتھی ہو جاتا ہے
۳۷۔۔۔ اور یہ (شیاطین) ایسے لوگوں کو طرح طرح سے روکتے ہیں راہ (حق) سے مگر وہ (اپنی شومی قسمت سے) یہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں
۳۸۔۔۔ یہاں تک کہ جب ایسا شخص ہمارے پاس آ پہنچے گا تو (اپنے اس ساتھی سے) کہے گا کہ اے کاش کہ میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی کہ تو بڑا ہی برا ساتھی ہے
۳۹۔۔۔ اور (اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں) جب تم لوگ ظلم ہی پر ہی کمربستہ رہے تو اب تمہیں اس بات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کہ تم سب اس عذاب میں باہم شریک ہو
۴۰۔۔۔ کیا آپ سنا سکتے ہیں بہروں کو؟ یا آپ راستہ دکھا سکتے ہیں اندھوں کو؟ اور ان کو جو (ڈوبے پڑے) ہیں کھلی گمراہی میں ؟
۴۱۔۔۔ پھر اگر ہم آپ کو (دنیا سے) لے جائیں تب بھی ہم نے ان سے (ان کے کئے کرائے کا) بدلہ لے کر رہنا ہے
۴۲۔۔۔ یا ہم اگر آپ کو دکھلا دیں وہ (عذاب) جس کا وعدہ ہم نے ان سے کر رکھا ہے تب بھی (کوئی فرق نہیں پڑتا کہ) ہم ان پر بہر حال پوری طرح قابو رکھتے ہیں
۴۳۔۔۔ پس آپ مضبوطی سے تھامے رکھیں اس (دین حق) کو جس کی وحی آپ کی طرف کی گئی ہے بلاشبہ آپ سیدھی راہ پر ہیں
۴۴۔۔۔ بلاشبہ یہ قرآن ایک بڑا شرف ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم کے لئے بھی اور عنقریب ہی تم سب سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا
۴۵۔۔۔ اور پوچھ لیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اے پیغمبر) ہمارے ان تمام رسولوں سے جن کو ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیج چکے ہیں کیا ہم نے (خدائے) رحمان کے سوا کچھ دوسرے ایسے معبود مقرر کئے تھے جن کی بندگی کی جائے ؟
۴۶۔۔۔ اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو انہوں نے (ان سے) کہا کہ بے شک میں رسول ہوں پروردگار عالم کی طرف سے
۴۷۔۔۔ مگر جب آپ پہنچ گئے ان لوگوں کے پاس ہماری ان نشانیوں کے ساتھ تو وہ لوگ چھوٹتے ہی ان کی ہنسی اڑانے لگے
۴۸۔۔۔ اور ہم ان کو جو بھی کوئی نشانی دکھاتے وہ اپنے سے پہلے والی نشانی سے کہیں بڑھ کر ہوتی اور (اس طرح) ہم ان کو پکڑتے رہے عذاب میں تاکہ وہ باز آ جائیں
۴۹۔۔۔ اور وہ (ہر موقع پر) کہتے اے جادوگر! دعا کر ہمارے لئے اپنے رب سے اپنے اس عہد کی بناء پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے ہم ضرور بالضرور ہدایت پر آ جائیں گے
۵۰۔۔۔ مگر جب ہم دور کر دیتے ان سے اس عذاب کو تو وہ یکایک اپنا عہد توڑ دیتے
۵۱۔۔۔ اور فرعون نے اپنی قوم میں پکار کر کہا کہ اے میری قوم کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ تو کیا (یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی) تمہاری آنکھیں نہیں کھلتیں ؟
۵۲۔۔۔ کیا میں بہتر نہیں ہوں اس شخص سے جو کہ ذلیل ہے اور جو (اپنی بات بھی) کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟
۵۳۔۔۔ سو (اگر یہ سچا ہے اپنے دعوے میں تو) کیوں نہیں اتار دیے گئے اس پر کنگن سونے کے ؟ یا کیوں نہیں اتر آئے اس کی اردل میں فرشتے پرے باندھ کر؟
۵۴۔۔۔ سو اس نے ہلکا (اور بے وقوف) بنا لیا اپنی قوم کو اور انہوں نے اس کی بات مان لی اور وہ تھے ہی فاسق (و بدکار) لوگ
۵۵۔۔۔ سو جب یہ لوگ ہمیں (ناراض کرتے اور) غصہ ہی دلاتے گئے تو آخرکار ہم نے ان سے انتقام (اور بدلہ) لیا (ان کے اس سنگین جرم کا) سو ہم نے غرق کر دیا ان سب کو
۵۶۔۔۔ ہم نے ان کو ایک قصہ پارینہ اور نمونہ عبرت بنا دیا پچھلوں کے لئے
۵۷۔۔۔ اور جونہی ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے
۵۸۔۔۔ اور کہنے لگے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ؟ اس کا ذکر بھی انہوں نے آپ سے محض جھگڑنے کے لئے کیا (اور یہ کوئی ایک دفعہ کی بات نہیں تھی) بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو
۵۹۔۔۔ وہ (ابن مریم) تو محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا تھا اور اس کو ہم نے ایک نمونہ بنا دیا تھا بنی اسرائیل کے لئے
۶۰۔۔۔ اور اگر ہم چاہیں تو تم سے بھی فرشتے پیدا کر دیں (اے لوگوں !) جو زمین میں تمہاری جگہ رہیں
۶۱۔۔۔ اور بے شک وہ ایک عظیم الشان نشانی ہے قیامت کی پس تم لوگ کبھی اس کے بارے میں شک نہیں کرنا اور میری پیروی کرو یہ ہے سیدھا راستہ
۶۲۔۔۔ اور (خبردار !) تمہیں شیطان روکنے نہ پائے (راہ حق و صواب سے) بے شک وہ تمہارا دشمن ہے کھلم کھلا
۶۳۔۔۔ اور جب آ گئے عیسیٰ کھلے دلائل کے ساتھ تو آپ نے (بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا کہ بلاشبہ میں تمہارے پاس آگیا ہوں حکمت کے ساتھ (تاکہ تمہاری اصلاح کروں) اور تاکہ تمہارے سامنے کھول کر بیان کر دوں بعض ان چیزوں کی حقیقت جن کے بارے میں تم لوگ اختلاف میں پڑے ہو پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت (و فرمانبرداری) کرو
۶۴۔۔۔ بے شک اللہ جو ہے وہی رب ہے میرا بھی اور رب ہے تمہارا بھی یہی ہے سیدھا راستہ
۶۵۔۔۔ مگر (اس کے باوجود) ان کے مختلف گروہ آپس میں اختلاف ہی میں پڑے رہے سو بڑی تباہی اور خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو ظلم ہی پر اڑے رہے ایک بڑے ہی دردناک دن کے عذاب سے
۶۶۔۔۔ تو کیا اب یہ لوگ قیامت ہی کی انتظار میں ہیں کہ وہ ان پر ایسی اچانک ٹوٹ پڑے کہ ان کو خبر تک نہ ہو؟
۶۷۔۔۔ اس دن گہرے دوست بھی آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگار لوگوں کے
۶۸۔۔۔ اے میرے بندوں (اب خوش رہو) نہ تو تم پر کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی تمہیں کوئی غم لاحق ہو گا
۶۹۔۔۔ (یہ وہ ہوں گے) جو ایمان لائے ہوں گے ہماری آیتوں پر اور وہ فرمانبردار رہے ہوں گے
۷۰۔۔۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) داخل ہو جاؤ جنت میں تم بھی اور تمہاری بیویاں بھی تمہیں (ہر طرح سے) خوش رکھا جائے گا
۷۱۔۔۔ ان کے آگے سونے کے تھال اور (مشروبات بھرے) ساغر گردش کرائے جا رہے ہوں گے اور ان کو وہاں ہر وہ چیز ملے گی جو ان کے جی چاہیں گے اور جس سے آنکھوں کو لذت حاصل ہو گی اور (ان کو یہ بھی کہا جائے گا کہ) تم یہاں ہمیشہ رہو گے
۷۲۔۔۔ اور (ان سے مزید کہا جائے گا کہ) یہی ہے وہ جنت جس کا تم کو وارث بنا دیا گیا تمہارے ان اعمال کے بدلے میں جو تم لوگ (دنیا میں) کرتے رہے تھے
۷۳۔۔۔ تمہارے لئے وہاں پر ہر طرح کے پھل بکثرت موجود ہوں گے جن سے تم کھاؤ گے
۷۴۔۔۔ رہے مجرم لوگ تو انہوں نے بلاشبہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے عذاب میں رہنا ہو گا
۷۵۔۔۔ ان سے وہ (عذاب) ہلکا بھی نہیں کیا جائے گا اور وہ اسی میں ہر طرح سے مایوس پڑے رہیں گے
۷۶۔۔۔ اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ لوگ خود ہی (اپنے اوپر) ظلم کرتے رہے تھے
۷۷۔۔۔ اور وہ پکاریں گے کہ اے مالک! (درخواست کرو کہ) تمہارا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے وہ جواب دے گا کہ تمہیں تو ہمیشہ اسی حال میں رہنا ہے
۷۸۔۔۔ بلاشبہ ہم نے تمہارے پاس حق پہنچایا مگر تم میں سے اکثر لوگ تو حق سے نفرت ہی کرتے رہے
۷۹۔۔۔ کیا انہوں نے کوئی بات طے کر دی ہے سو ہم بھی طے کرنے والے ہیں (ایک بات)
۸۰۔۔۔ کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نہیں سنتے (جانتے) ان کی راز کی باتوں اور ان کی سرگوشیوں کو؟ کیوں نہیں ؟ اور (مزید یہ کہ) ہمارے فرشتے بھی ان کے پاس لکھتے جا رہے ہیں
۸۱۔۔۔ (ان سے) کہو کہ اگر (بالفرض خدائے) رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں عبادت کرنے والا ہوتا
۸۲۔۔۔ پاک ہے فرماں روا آسمانوں اور زمین کا جو کہ مالک ہے عرش کا ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں
۸۳۔۔۔ پس چھوڑو دو ان کو کہ یہ پڑے رہیں اپنی بے ہودہ باتوں میں اور لگے رہیں اپنے کھیل تماشے میں یہاں تک کہ یہ خود دیکھ لیں اپنے اس (ہولناک) دن کو جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے
۸۴۔۔۔ اور وہ (اللہ) وہی ہے جو کہ معبود برحق ہے آسمان میں بھی اور زمین میں بھی اور وہی ہے بڑا حکمت والا سب کچھ جانتا
۸۵۔۔۔ اور بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جس کی بادشاہی (و فرمانروائی) ہے آسمانوں اور زمین میں اور اس (ساری کائنات) میں جو کہ ان دونوں کے درمیان ہے اسی کے پاس ہے قیامت کا علم اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو (اے لوگوں !)
۸۶۔۔۔ اور اس کے سوا جن کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں وہ تو کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے مگر جنہوں نے حق کی گواہی بھی دی ہو اور وہ علم بھی رکھتے ہوں
۸۷۔۔۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا کیا ان کو؟ تو یہ سب ضرور بالضرور یہی کہیں گے کہ اللہ ہی نے پھر یہ کہاں پھیرے جا رہے ہیں ؟
۸۸۔۔۔ اور (مجھے) قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان لانے والے نہیں
۸۹۔۔۔ پس آپ ان سے درگزر ہی کرتے جائیں اور کہیں کہ سلام ہے (تم سب کو اے لوگوں !) سو عنقریب ہی انہیں خود معلوم ہو جائے گا
۴۔۔ سو اس سے قرآن حکیم کی عظمت شان کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ کوئی معمولی کلام یا ہنسی مسخری کی چیز نہیں بلکہ یہ نہایت ہی عالی نسب اور عالی مرتبہ کلام ہے۔ اس کی عالی نسبی کے بیان کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اُمُّ الْکِتٰب یعنی لوح محفوظ میں ثبت و مندرج ہے اور اس کے عالی مرتبہ ہونے کی وضاحت کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ بڑی ہی بلند مرتبہ اور حکمتوں بھری کتاب ہے، اور بعینہٖ یہی دو صفتیں یعنی عَلِیّ اور حکیم اللہ تعالیٰ کے لئے بھی بیان فرمائی گئی ہیں اور ہر کلام چونکہ اپنے متکلم کی صفات و خصوصیات کا حامل و آئینہ دار ہوتا ہے اس لئے خداوند قدوس کا کلام بھی علی و حکیم ہے سو یہ کتاب حکیم اس منبع نور سے نازل شدہ ہے جس کے نور سے آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا وجود ہے اور جو تمام تر علم و حکمت کا حقیقی سرچشمہ ہے پس اس کی قدر کرنا، اور اس کو صدق دل سے اپنانا سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اور واحد ذریعہ و وسیلہ ہے، جبکہ اس سے اعراض و رُوگردانی سب سے بڑی بدبختی اور محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔
۸۔۔ ان تین آیات کریمات سے تاریخ کے حوالے سے اس مضمون کی تاکید فرمائی گئی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے جس میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان ہے۔ اور دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تذکیر بھی، سو پیغمبر کی تسکین و تسلیہ کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اس سے پہلے کے لوگوں میں کتنے ہی پیغمبر بھیجے، مگر ان لوگوں کا طریقہ اور وطیرہ اپنے پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ یہی رہا کہ جب بھی ان کے پاس کوئی پیغمبر آیا تو انہوں نے اس کا مذاق ہی اڑایا۔ سو آج آپ کے ساتھ اے پیغمبر! منکرین و مکذبین انکار و تکذیب اور استہزاء و مذاق کا جو معاملہ کر رہے ہیں یہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں، بلکہ آپ سے پہلے بھی ایسے ہی ہوتا آیا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا مَا یُقَالُ لَکَ اِلاَّ مَاقَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَلْلِکَ الایٰۃ (حٰم السجدۃ۔ ۴۳) یعنی آپ کو بھی وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں کو کہا گیا۔ سو اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ بھی اسی طرح صبر سے کام لیں جس طرح کہ آپ سے پہلے کے ان اولوالعزم رسولوں نے صبر سے کام لیا۔ چنانچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَر اُولُواالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ الایٰۃ(الاحقاف۔۳۵) یعنی آپ بھی اسی طرح صبر و برداشت ہی سے کام لیں جس طرح کہ آپ سے پہلے کے رسولوں نے بھی اس سے کام لیا۔ اور ان منکروں کے بارے میں کہیں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تذکیر ہے کہ حضرت انبیاء و رسل کی تکذیب و انکار اور استہزاء و مذاق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، چنانچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور ان کا مذاق اڑایا آخرکار ان کو ایسا تباہ و برباد کر دیا گیا کہ وہ قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ حالانکہ وہ موجودہ منکرین و مکذبین سے کہیں بڑھ کر قوت اور طاقت کی مالک تھیں وَمَضیٰ مَثلُ الْاَوَّلِیْنَ سے واضح فرما دیا کہ تاریخ میں ان کی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود وغیرہ، جن کی داستانوں میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت پائے جاتے ہیں، لیکن غافل دنیا ہے کہ ان قوموں کی تاریخ اور ان کے حالات و واقعات سے متعلق سب کچھ جاننے کے باوجود کوئی درس عبرت نہیں لینی۔ سو غفلت و لاپرواہی محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،
۱۴۔۔ سبحان اللہ، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان کی شان کتنی عظیم شان ہے کہ اس کے دین و ایمان اور عقیدہ و یقین کی بناء پر اس کی دنیا بھی دین اور نیکی بن جاتی ہے، سو جب وہ سواری پر بیٹھتا ہے تو اس پر بیٹھتے ہی سب سے پہلا کلمہ جو اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ ہوتا ہے سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ہٰذَا یعنی پاک ہے وہ ذات ہر نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک سے، جس نے ہمارے لئے مسخر کر دیا اس سواری کو، ورنہ ہم ایسے نہ تھے کہ اس کو اپنے طور پر اور اپنے زور سے اپنے قابو میں کر لیتے۔ سو سبحان کا یہ کلمہ تنزیہہ کا کلمہ ہے، جس سے اللہ پاک سے ہر اس چیز کی نفی کی جاتی ہے جو اس کی شان اقدس و اعلیٰ اور اس کے تقاضوں کے خلاف ہو۔ اور تنزیہہ کا یہ کلمہ بندہ مومن کے اندر تفویض و رضا اور تسلیم و اطاعت کے جذبے کو ابھارتا ہے، اور یہ جذبہ وہ پاکیزہ اور عظیم الشان جذبہ ہے، جو انسان کو غرور و استکبار اور طُغیان و فساد سے بچا کر اس کے اندر شکر و سپاس اور نیاز مندی و فروتنی کے پاکیزہ جذبات پیدا کرتا ہے۔ جس سے انسان ایک پاکیزہ اور اپنے خالق و مالک کے حضور صدق دل سے جھکنے والا انسان بن جاتا ہے اور وہ دل و جان سے اس حقیقت کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ ہم ایسے نہیں تھے، اور ایسے نہیں ہیں، کہ از خود اس کو اپنے قابو میں کر لیتے۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی شان اور اسی کا کرم و احسان ہے کہ اس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں کر دیا۔ اور اس کو ہماری خدمت اور ہمارے کام میں لگا یا۔ سو اس طرح بندہ مومن اس سواری پر بیٹھنا بھی اس کے لئے نیکی اور خیر کی کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور یہ ایک امر واقعہ اور حقیقت نفس الامری ہے کہ اس دنیا میں جو بھی چیزیں ہماری خدمت میں لگی ہوئی ہیں وہ محض اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم سے اور اسی کی تسخیر کے نتیجے میں ہمارے کام لگی ہوئی ہیں، ورنہ ہم ان میں سے کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی از خود اور اپنی تدبیر سے اپنے کام میں نہیں لگا سکتے۔ قدرت کی تسخیر و عنایت کے نتیجے میں ہم لوگ اونٹ اور ہاتھی جیسے عظیم الشان قوتوں کے مالک جانوروں پر سواری کر لیتے ہیں، اور ان کی پیٹھوں پر بیٹھ کر اپنی مرضی اور ارادہ کے مطابق ان کو جہاں جہاں اور جب اور جیسے چاہیں لے جاتے ہیں لیکن یہی کام اگر آپ جنگل کے درندوں کے ساتھ کرنا چاہیں تو ہزار جتنوں کے باوجود نہیں کر سکتے، چنانچہ آپ کسی شیر یا چیتے کی پیٹھ پر سوار نہیں ہو سکتے۔ سو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے مختلف قسم کے جانوروں کو پیدا فرما کر اس طرح ہمارے کام میں لگا دیا، کہ ہم اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جو کام اور جو خدمت ان سے لینا چاہیں، اور جب لینا چاہیں، بسہولت اور آسانی لے سکتے ہیں، پس حمد و شکر کا حقدار وہی وحدہٗ لاشریک ہے کہ اسی نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمارے لئے یہ قسما قسم کی سواریاں پیدا فرمائیں، ان کو ہمارے لئے مسخر فرما دیا، اور ہمیں ایسی صلاحیتوں سے نوازا جن کی بناء پر ہم ان کو مختلف مقاصد میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اور شب و روز ان سے مستفید و فیضیاب ہو سکیں، اور بالفعل ان سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں دور حاضر میں بھاپ بجلی اور ایٹم وغیرہ پر انسان کو جو تصرف حاصل ہے وہ بھی خداوند قدوس ہی کی تسخیر اور اسی کی رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے، اور یہ مادہ پرست انسان کی بدبختی اور ناشکری و محرومی ہے کہ وہ ان کو پا کر اس واہب مطلق جل و علا کا شکر گزار بننے کے بجائے الٹا ان سب کو اپنی قوت و قدرت کا نتیجہ قرار دیتا، اور اپنی فتوحات بتاتا ہے اور اسی بناء پر وہ مست وہ مغرور ہو کر اپنے آپ کو کون و مکان کا مالک سمجھنے لگا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے ان چیزوں کو انسان کی قدرت سے آزاد کر کے ان کو اس کے لئے رحمت کے بجائے عذاب کا باعث بنا دے۔ اور بالفعل ایسے ہوتا بھی رہتا ہے، جس کے طرح طرح کے مظاہر آئے دن جگہ جگہ اور طرح طرح سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ تاکہ یہ انسان ہوش کے ناخن لے۔ اور اپنی سرکشانہ روش سے باز آئے۔ لیکن ایسے غفلت شعاروں کو ہوش میں آنا کہاں نصیب ہوتا ہے؟ والعیاذُ باللہ جل و علا، آیت کریمہ کے آخر میں وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ کے جملے سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انسان اپنے اس سفر زندگی کو بھی یاد رکھے جو کہ اس کو مسلسل اور بہر حال درپیش ہے، اور دوسری یہ کہ بندہ مومن کو سواری پر بیٹھتے ہوئے صرف اتنی ہی بات نہیں یاد رکھنی چاہئیے، کہ ہم فلاں شہر سے فلاں شہر جانے والے ہیں، اور بس، بلکہ اس کو اس موقع پر اس اہم اور بنیادی حقیقت کو بھی اپنے ذہن میں تازہ کر لینا چاہیے کہ ہم نے یقیناً اور بہر حال ایک روز اپنے رب کے یہاں بھی حاضر ہونا ہے اور اس کے حضور حاضر ہو کر اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، اور اس سواری سمیت جن گوناگوں نعمتوں سے اس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے، ان کی شکر گزاری کے بارے میں ہم نے جواب دینا ہے سو اس طرح مومن کا سفر اور اس کا سواری پر بیٹھنا بھی دوسری تمام دنیا سے الگ ممتاز اور سبق آموز و باعث خیر و برکت بن جاتا ہے۔ و الحمدللہ جل وعلا،
۲۵۔۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حق کے انکار و تکذیب کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، ایسوں کو ڈھیل اور مہلت جتنی بھی ملے، وہ بہر حال ڈھیل اور مہلت ہی ہوتی ہے، جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہوتا ہے، سو اس آیت کریمہ سے واضح فرما دیا گیا کہ جب ایسی منکر قومیں حق و ہدایت کی تکذیب اور انکار ہی پر کمربستہ رہیں؟ اور رسولوں کی بات کو سننے ماننے کے لئے تیار نہ ہوئیں، تو آخرکار ہم نے ان سے کفران نعمت اور انکار حق کا انتقام لیا، اور ان کو مٹا کر قصے کہانیاں بنا دیا، فَجَعَلْنَاہُمْ اَحَادِیْثَ، سو دیکھو کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا، پس کفر و انکار کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، والعیاذ ُباللہ جل وعلا،
۲۷۔۔ سو اس سے حضرت ابراہیم کے شرک سے برأت و بیزاری کا بھی درس دے دیا گیا، اور اعلان توحید کا بھی، اور اس کے لئے دو دلیوں کو بھی ذکر فرما دیا گیا، بَرَاءٌ کا لفظ مصدر ہے، جو زَیْدٌ عَدْلٌ کی طرح مبالغے کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے سو حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں قطعی طور پر بری اور بیزار ہوں تمہارے ان خود ساختہ اور من گھڑت خداؤں سے جن کی پوجا پاٹ میں تم لوگ لگے ہوئے ہو، سوائے اس ذات اقدس و اعلیٰ کے جس نے مجھے پیدا فرمایا، اور وہی میری راہنمائی فرمائی ہے، سو جب خالق بھی وہی ہے، اور ہدایت بھی اسی کی طرف سے، اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، تو پھر معبود برحق بھی وہی ہے، اور جب خلق اور ہدایت کی ان دو صفتوں میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک و سہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس معبود برحق وہی اللہ جَلَّ جلالُہٗ ہے، جو کہ میرا اور اس ساری کا خالق ہے، اور وہی اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس جو لوگ اس خالق و مالک مطلق، اور ہادی کل جل جلالہ، کے سوا اوروں کی پوجا و بندگی کرتے ہیں وہ سراسر باطل کے پجاری، اور اپنی ہلاکت و تباہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم،
۳۵۔۔ ان آیات کریمات سے متاع دنیا کی بے حقیقتی کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ جس دنیا کے متاع فانی اور حُطامِ زائل پر تم لوگ ریجھے ہوئے ہو، اور جس کی بناء پر تم اتنے مست و مغرور ہو کہ حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، اس کی بے حقیقتی کا عالم یہ ہے کہ اگر اس بات کا خدشہ و خطرہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے، یعنی سب ہی کافر اور منکر ہو جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو بھی اتنی دولت دے دیتا کہ ان کے گھروں کی چھتوں اور ان پر چڑھنے اترنے والے زینوں، ان کے دروازوں کو اڑوں، اور ان کے ٹیک لگانے کے تختوں وغیرہ سب کو سونے، اور چاندی کا کر دیتا۔ لیکن اگر ایسا کر دیا جاتا تو سب لوگ کفر کی راہ پر ہی چل پڑتے۔ اور کوئی بڑا ہی نصیبہ ور ہوتا جو ایسی سخت آزمائش میں اپنی دولت ایمان کو محفوظ رکھ سکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے نہیں کیا، تاکہ لوگ ایسی شدید آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کافروں اور منکروں کو بھی اتنی دولت دے دیتا۔ کیونکہ اس دنیا کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی حیثیت اور حقیقت ہی نہیں، بلکہ اصل دولت دین و ایمان کی دولت ہے، سو اس سے دنیاوی مال و دولت کی بے حقیقتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے پس بڑے ہی بدنصیب اور محروم ہیں وہ لوگ جو دنیاء کے اس متاع فانی اور حُطامِ زائل ہی کو اپنا اصل مقصد اور نصب العین بنائے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اسی بناء پر وہ دعوت حق سے بھی منہ موڑے ہوئے ہیں جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے، مگر ان کو اس کا کوئی شعور و احساس ہی نہیں، والعیاذُ باللہ العظیم،
۳۸۔۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خدائے رحمان کی یاد دلشاد سے اعراض و روگردانی، اور غفلت و لاپرواہی انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے اور اس کو کس قدر بھیانک اور ہولناک انجام سے دوچار کر دیتی ہے، کہ اس کے نتیجے میں ایسے لوگوں پر شیطان کو مسلط کر دیا جاتا ہے، اور وہ اس کا ہمہ وقتی ساتھی بن کر اس کو ہلاکت و تباہی کے ہائے کی طرف ہانکتا اور کھینچتا جاتا ہے اور یہ اپنی بدبختی سے سمجھتا ہے کہ یہ راہ راست پر ہے، اس کو اپنی محرومی اور بے راہ روی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ جب یہ اپنے اسی گرو کے کہنے پر اور اسی کے پیچھے چلتے چلتے اپنے انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتا ہے، تو اس وقت اس پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ وہ کس قدر خسارے کی راہ پر چلتا رہا تھا۔ تب وہ اپنے اس قائد اور گرو کو کوسنے لگتا ہے جس نے اس کو اس ہاوئے تک پہنچایا۔ مگر اس کا کوئی فائدہ اس کو بہر حال نہیں ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، بہرکیف اس سے اس سنت الٰہی کو ذکر اور بیان فرمایا گیا کہ جب تک انسان کا دل خداوند قدوس کی یاد دلشان سے آباد و سرشار رہتا ہے، اس وقت تک شیطان کو اس میں گھسنے اور اثر انداز ہونے کا کوئی موقع نہیں ملتا، لیکن جب وہ اس سے اعراض اور رُوگردانی برتتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے، والعیاذُ باللہ۔ تو شیطان اس میں گھس جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ آہستہ آہستہ اس کے دل پر پورا قبضہ جما لیتا ہے، اور جب وہ قبضہ جما لیتا ہے تو پھر اس کے چنگل سے جان چھڑانا اس کے لئے آسان نہیں رہتا، اور اس کے بعد اس پر کوئی وعظ و تذکیر اور پند و نصیحت اثر نہیں کرتی۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی عبادت و بندگی، اور اپنی یادِ دلشاد سے بہرہ مند و سرشار رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،
۴۰۔۔ سو اس میں پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ یہ لوگ جو حق کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہو رہے، تو اس میں آپ کی دعوت و تبلیغ کا کوئی قصور نہیں بلکہ قصور سب کا سب خود ان لوگوں کا ہے، کہ انہوں نے اپنے قوائے علم و ادراک کو سماع حق و ہدایت سے محروم اور ماؤف کر دیا ہے، سو یہ لوگ سماع حق سے بہرے، اور راہ حق کو دیکھنے سے اندھے ہو گئے، تو پھر آپ ایسے بہروں کو کیونکہ کلام حق سنا سکتے ہیں؟ اور ایسے اندھوں کو کس طرح راہ حق پر لا سکتے ہیں؟ اسی طرح اگر کسی کی گمراہی کسی خفا یا کم علمی اور بے خبری کی بناء پر ہو، تو اس کی تو راہ حق کے لئے راہنمائی کی جا سکتی ہے لیکن جو ایسی کھلی گمراہی میں پڑا ہو جس کی گمراہی اس پر بھی واضح ہو، تو اس کو ہدایت دینا اور راہ راست پر لے آنا کسی کے لئے آخر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ لہٰذا آپ ایسے اندھوں اور بہروں کی بے راہ روی پر کوئی افسوس نہ کریں، فَلاَ تَذْہَبْ نَفسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَراتٍ۔
۴۳۔۔ یعنی یہ لوگ جب دعوت حق کو سنتے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہو رہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، اور آپ اس دعوت توحید اور کتاب عزیز پر جمے اور ثابت قدم رہیں، جس کی وحی آپ کی طرف کی گئی ہے۔ کہ آپ بہر حال سیدھی راہ پر ہیں، یہ لوگ اگر اس سے اعراض و روگردانی ہی پر اڑے رہیں گے تو یہ راہ حق و ہدایت سے محروم رہیں گے، اور اس کا بھگتان ان کو بہر حال بھگتنا ہو گا والعیاذُ باللہ العظیم۔
۴۴۔۔ اس آیت کریمہ میں وارد لفظ ذکر کے دو مفہوم بن سکتے ہیں اور یہ دونوں ہی صحیح اور حضرات اہل علم سے مروی و منقول ہیں، اول یہ کہ ذکر سے یہاں پر مراد شرف اور مرتبہ ہے، جیسا کہ ترجمہ کے اندر بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے، یعنی یہ ایک عظیم الشان شرف اور مرتبہ ہے آپ کے لئے بھی اے پیغمبر! کہ کسی انسان کے لئے اس سے بڑا شرف و مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اس کو اللہ تعالیٰ اپنی وحی و رسالت کے لئے منتخب فرمائے۔ اور اس پر اپنا کلام نازل فرمائے۔ اور کسی قوم کے لئے بھی اس سے بڑا شرف و مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو مبعوث فرمائے جو ان کو حق اور ہدایت کا پیغام پہنچائے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں سے عنقریب ہی اس بارے پوچھ ہو گی کہ تم لوگوں نے اس قدر عظیم الشان شرف اور مرتبے کا کیا حق اداء کیا؟ (التسہیل لعلوم التنزیل، وغیرہ) جبکہ دوسرا قول و احتمال اس میں یہ ہے کہ یہاں پر ذکر سے مراد تذکیر و یاد دہانی ہے یعنی یہ ایک عظیم الشان تذکیر و یاد دہانی آپ کے لئے بھی اے پیغمبر! اور آپ کی قوم کے لئے بھی، اور ایک دن تم سب سے اس بارے پُرسش اور پوچھ ہو گی، پیغمبر سے پوچھ ہو گی کہ آپ نے اس وحی کو جوں کا توں اور بلا کم و کاست پہنچایا تھا کہ نہیں؟ اور یہ کہ قوم کی طرف سے آپ کو کیا جواب ملا تھا؟ اور قوم سے پوچھ ہو گی کہ تمہارے پاس کوئی نذیر آیا تھا یا نہیں؟ اور یہ کہ تمنے ان کو کیا جواب دیا تھا، سو یہ وہی مضمون ہے جس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ضرور پوچھنا ہے ان لوگوں سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم نے ضرور پوچھنا ہے رسولوں سے، پھر ہم ان کو خود ہی ساری سرگزشت سنا دیں گے پورے علم کی روشنی میں، اور ہم کہیں غائب نہیں تھے، (الاعراف۔۶۔۷) وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید، اللہ تعالیٰ اپنی اس عظیم الشان نعمت کی قدر پہچاننے، اور اس کا حق اداء کرنے کی توفیق بخشے، ہمیشہ اور ہر حال میں راہ حق پر ثابت و مستقیم رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،
۵۱۔۔ سو اس سے ابنائے دنیا کی اس مادہ پرستانہ ذہنیت کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے جو ان کے اندر قدرِ مشترک کے طور پر ہمیشہ موجود رہی، کل بھی موجود تھی اور آج بھی موجود ہے۔ اور اس کے مظاہر اور نمونے مختلف شکلوں میں یہاں اور وہاں جگہ جگہ اور طرح سے نظر آتے ہیں کہ ان کے نزدیک معیار فضیلت ہمیشہ مادیت اور مادی وسائل و ترقی ہی رہی چنانچہ اسی ذہنیت کا اظہار صدیوں پہلے فرعون نے کیا اسی کا اظہار کفار قریش نے حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے اس طرح کیا تھا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (الزخرف۔۳۱) یعنی یہ قرآن (مکہ اور طائف کی) ان دو بستیوں کے کسی بڑے شخص پر کیوں نہیں اتارا گیا؟ اور اسی مادہ پرستانہ ذہنیت کا اظہار دور حاضر کے مادہ پرست آج بھی کر رہے ہیں، بہرکیف فرعون نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ کے کھلے دلائل اور واضح معجزات کی بناء پر اس کی قوم کی عقیدت اور اس سے ان کا تعلق متزلزل ہو رہا ہے تو اس نے ان پر اپنا رعب قائم کرنے اور ان پر اپنی دہاک بٹھانے کے لئے یہ منادی کرائی کہ کیا ملک مصر کی بادشاہی میرے لئے نہیں ہے؟ اور کیا میرے نیچے سے یہ عظیم الشان نہریں نہیں بہتیں؟ جبکہ اس کے برعکس موسیٰ کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں۔ اور مزید یہ کہ یہ شخص ایک غلام قوم سے تعلق رکھنے والا بے قدر شخص ہے اور یہ اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا۔ اب تم لوگ خود بتاؤ کہ یہ شخص بہتر ہے یا میں؟ جو اس پورے ملک پر حکمران اور اس کی تمام تر دولت و ثروت کا بلا شرکت غیرے مالک ہوں؟ مطلب یہ کہ ایسے میں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میرے مقابلے میں یہ شخص خدا کا رسول بن جائے؟ سو اس طرح مادی ترقی انسان کے لئے محرومی کا باعث بن جاتی ہے، اور اس کی بناء پر وہ کبر و غرور میں مبتلا ہو کر حق سے اور دور اور محروم ہو جاتا ہے۔ اور بالآخر ہلاکت و تباہی کے دہانے میں گر کر رہتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔
۵۷۔۔ یعنی جب ان لوگوں نے حق کو قبول نہ کیا۔ بلکہ وہ اپنے تمرد اور سرکشی ہی پر اڑے رہے، تو آخرکار ہم نے ان سے انتقام لیا۔ اور ان سب کو غرق کر دیا۔ فرعون اپنے تمام اعیان وانصار کے ساتھ حضرت موسیٰ کے تعاقب میں نکلا تھا۔ اس لئے عذاب نے اس پوری جمعیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سو ان کے انجام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے پچھلوں کے لئے سلف اور مثل بنا دیا، سلف کے اصل معنی گزرنے کے آتے ہیں، اسی لئے اس کا استعمال گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں ہوتا ہے، اور سلف اچھے بھی ہو سکتے ہیں، اور بُرے بھی، یہاں پر یہ بُرے معنوں ہی میں استعمال ہوا ہے، یعنی ان کو ہم نے داستان ماضی اور قصہ پارینہ بنا دیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَجَعَلْنَاہُمْ اَحَادِیْثَ اور مثل کے معنی مثال اور نمونہ کے ہیں۔ یعنی ان کو پچھلوں کے لئے نمونہ عبرت بنا دیا۔ جس میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں مثلاً یہ کہ جو لوگ تکبر اور اپنی بڑائی کے زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ نور حق و ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں، اور یہ کہ حق کی تکذیب و انکار کا نتیجہ و انجام بہرکیف ہلاکت و تباہی ہے، ایسوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہر حال ڈھیل ہی ہوتی ہے، اس لئے اس سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے، ایسے لوگ آخرکار بہر حال اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم،
۶۱۔۔ سو اس ارشاد سے حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے اس حق کا اعلان کروایا گیا۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں جھگڑنے والے گمراہوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی حیثیت وہ نہیں جس میں تم لوگ ان کو پیش کرتے ہو۔ کہ وہ معبود یا ابن اللہ یا خدا کی خدائی میں شریک تھے، سو ایسی کوئی بات نہیں تھی، بلکہ اس کے بالکل برعکس ان کی اصل حیثیت یہ تھی اور یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندے اس کے رسول توحید کے داعی، اور قیامت کی ایک واضح نشانی اور قطعی حجت و برہان تھے، پس تم لوگ قیامت کے بارے میں شک میں نہ پڑو۔ بلکہ مناظرہ بازی اور الجھنے اور الجھانے کی اپنی روش کو ترک کر کے میری اتباع اور پیروی کرو۔ کہ حق و حقیقت اور فوز و فلاح کی راہ یہی ہے۔ جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اسی میں تمہارا بھلا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ کے قیامت کی بڑی حجت اور علامت ہونے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ واحد ہستی ہیں جو باپ کے توسط کے بغیر اور عام دستور و ضابطہ کے خلاف محض اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے، اسی لئے وہ کَلِمَۃُ اللّٰہ اور فرمان خداوندی کہلائے۔ اور یہ اس لئے کہ منکرین قیامت اور خاص کر مشرکین کو قیامت کے بارے میں سب سے بڑا شبہ یہی تھا کہ مر کھپ جانے کے بعد آخر ہم لوگ دوبارہ کس طرح زندہ ہوں گے؟ قرآن حکیم نے ان کے اس شبہے کا جا بجا رد اور ازالہ فرمایا۔ اور اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرمایا کہ مرنے اور جینے کے سلسلے میں اصل دخل ظاہری اسباب کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت کو ہے، وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ اور حضرت عیسیٰ کی بغیر باپ کے ولادت اس امر کا ایک واضح ثبوت اور کھلا نشان ہے، سو اسی طرح وہ جب چاہے گا تمام لوگوں کو انکی کی قبروں سے اٹھا کھڑا کر دے گا، اور اس میں اس کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، بلکہ اس کے لئے محض اس کے ایک حکم و ارشاد کی دیر ہو گی جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ فَاِذَاہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ (النازعات۱۳۔۱۴) یعنی وہ تو محض ایک ڈانٹ اور جھڑکی ہو گی، جس کے نتیجے میں سب لوگ یکایک اور بلا کسی مشکل اور رکاوٹ کے کھلے میدان میں آ موجود ہوں گے۔
۶۷۔۔ سو اس دن جب گہرے دوست بھی کسی کے کچھ کام نہیں آ سکیں گے، بلکہ وہ بھی الٹا ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے تو پھر اور کون کسی کے کچھ کام آ سکے گا؟ اور کس طرح اور کیونکر؟پس وہ لوگ بڑے ہی دھوکے اور خسارے میں پڑے ہیں جو آج دنیا میں اپنے دوستوں یاروں انصار و مددگار اپنے قوم و قبیلہ اور من گھڑت و خود ساختہ شرکاء و شفعاء پر آسرا و تکیہ کئے اپنے انجام و آخرت سے نچنت و بے فکر بیٹھے ہوئے ہیں، سو ان کے لئے یہ حقیقت واضح رہنی چاہئیے کہ آنے والے اس یوم عظیم میں ان میں سے کوئی بھی چیز کسی کے کچھ کام نہیں آ سکے گی۔ یہ سب رشتے اور تعلق بالکل کٹ جائیں۔ اور نفسا نفسی کے اس جہاں میں ہر کسی کو اپنی ہی پڑی ہو گی۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہو گا کہ گہرے دوست بھی اس دن آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے کہ وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ تمہاری اس دوستی ہی نے ہمیں اس ہولناک انجام سے دوچار کیا۔ ورنہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لے آتے لَوْلَا اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۔ سو اس روز ہر کوئی اپنی محرومی پر سر پیٹے گا۔ اپنے ساتھیوں کی ملامت کرے گا اور انہی کو اپنی ہلاکت اور تباہی کا ذمہ دار قرار دے گا۔ جیسا کہ بازی ہارنے پر ہارنے والوں کا طریقہ ہوتا ہے مگر اس دن کی اس لعنت ملامت کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، البتہ متقی اور پرہیزگار لوگ اس روز اس انجام بد سے محفوظ اور اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں ہوں گے۔ اور اپنے ساتھیوں کا سلام و تحیت کے ساتھ خیر مقدم کریں گے، اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیں گے کہ آپ نے ہمیں راہ حق پر ڈالنے اور اس پر مستقیم و ثابت قدم رہنے میں ہماری راہنمائی اور مدد کی تھی۔ جس سے آج ہم اللہ کے فضل و کرم اور اس کے اس انعام و احسان کے مستحق ٹھہرے، سو ایمان و تقویٰ کا رشتہ ہی وہ اصل حقیقی اور مبارک و مسعود رشتہ ہے جو اس دنیا کے بعد آخرت کے اس جہان حقیقی اور وہاں کی حیات ابدی میں بھی کام آئے گا۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید،
۷۶۔۔ سو انہوں نے اپنے کفر و انکار، اعراض و استکبار اور اپنی روگردانی و ہٹ دھرمی سے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اس ہولناک انجام اور دائمی عذاب میں مبتلا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت و عنایت سے ان کی ہدایت و راہنمائی کا بھرپور انتظام فرمایا تھا۔ اور اس کے لئے تمام ضروری اسباب فراہم فرما دیئے تھے، سو اس نے ان کو عقل کی روشنی اور فکر و فہم کی صلاحیتوں سے نوازا، کائنات کی کھلی کتاب کو ان کے سامنے رکھ دیا، اپنے انبیاء و رسل اور خاص کر حضرت امام الانبیاء کو ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا، ان پر آسمانی کتابیں نازل فرمائیں، اور خاص کر قرآن حکیم جیسی اس کتاب فصل کو نازل فرمایا جو تمام آسمانی کتابوں کی اہم اور بنیادی تعلیمات کی حامل اور ان کی جامع اور ان کے لئے مہیمن ہے، اور جو قیامت تک سب زبانوں اور جملہ انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایک معجزہ خالدہ کے طور پر موجود اور فیضیاب رہیگی، مگر ان لوگوں نے اتباع ہوی و ہوس، اور اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ان سے اعراض و روگردانی اور کفر و انکار ہی سے کام لیا، اور یہ لوگ دعوت حق کو سننے ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے، یہاں تک کہ فرصت عمر تمام ہو گئی، اور یہ اپنے اس آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ جہاں نہ ان سے وہ عذاب کبھی ٹالا جائے گا۔ اور نہ ہی اس میں عارضی اور وقتی طور پر کسی طرح کی کوئی تخفیف ہو گی، بلکہ ان کو ہر طرح کی آس و امید سے محروم و مایوس ہو کر ہمیشہ کے لئے اسی میں رہنا ہو گا۔ واالعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال۔
۸۰۔۔ سو اس سے گمراہی کے ایک بڑے سبب اور باعث کی نشاندہی فرما دی گئی، وہ یہ کہ گمراہ انسان اپنی بدبختی سے یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کرتُوتوں کو جانتا نہیں، اس لئے وہ طرح طرح کے پردوں وغیرہ ہیں چھپ کر برائیاں کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ اس کے ان کرتُوتوں کی اس کو علم و آگہی نہیں، جس کے نتیجے میں وہ برائی پر دلیر ہو جاتا ہے، اور پھر اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کرتا چلا جاتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کے روز ایسے لوگوں سے خطاب کر کے کہا جائے گا کہ تم لوگ ایسے نہیں تھے کہ تم اس سے چھپ جاتے کہ تمہارے کان، تمہاری آنکھیں، اور تمہاری کھالیں، تمہارے خلاف گواہی دیں، مگر تم لوگوں نے یہی سمجھ رکھا تھا کہ اللہ بہت سے ان کاموں کو نہیں جانتا جو تم کرتے رہے تھے، اور تمہارے اسی گمان نے جو تم لوگوں نے اپنے رب کے بارے میں قائم کر رکھا تھا تمہیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا، جس کے نتیجے میں تم لوگ اس انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہو کر رہے، (حٰم السجدۃ۲۲۔۲۳) سو اسی تباہ کن غلط فہمی اور ظن و گمان باطل کی تردید کے لئے یہاں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتوں اور ان کی سرگوشیوں کو سنتے جانتے نہیں؟ ہاں کیونکہ نہیں، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ ہمارے رسول ان کے پاس موجود لکھتے جا رہے ہیں ان کے تمام کرتُوتوں کو۔
۸۳۔۔ سو یہ ان ہٹ دھرموں کے لئے آخری جواب ہے جو حق بات سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہوتے ہوں، کہ ان کو ان کے انجام کے حوالے کر دیا جائے، کہ ایسوں سے الجھنے اور ان کو منہ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سو ایسوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جو باتیں یہ بناتے ہیں بناتے رہیں۔ اور حق اور اہل حق کے خلاف جو ہنسی مذاق یہ لوگ کرتے ہیں کر لیں۔ اپنے ارمان پورے کر لیں۔ یہاں تک کہ وہ یوم عظیم ان کے سامنے آ جائے جس سے ان کو ڈرایا اور خبردار کیا جا رہا ہے اس روز تمام حقائق اپنی اصل شکل میں ان کے سامنے آ جائیں گے، اور یہ اپنے انجام کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، مگر اس دن کے افسوس اور وہاں کی ندامت و ملامت سے ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ العظیم
۸۴۔۔ سو اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے جو آسمان میں بھی خداوند اور معبودِ برحق ہے، اور وہی زمین میں بھی خداوند اور معبود برحق ہے اور آسمان و زمین کے اس پُر حکمت نظام کا یہ باہمی توافق اس بات کی دلیل اور اس کا کھلا ثبوت ہے کہ ان دونوں کے اندر ایک ہی حکومت، اور ایک ہی ارادہ کار فرما ہے، اور یہ دونوں ایک ہی خدائے قادر وقیوم کی قدرت و حکمت اور اسی کی مشیت کے مطابق کام کر رہے ہیں، اگر یہ بات نہ ہوتی اور ان کے اندر کئی ارادے کار فرما ہوتے تو آسمان و زمین کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہو چکا ہوتا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَوْکَانَ فِیْہَا اٰلِہَۃُ اِلاَّ اللّٰہُ لَفَسَدَتَا۔ یعنی اگر آسمان و زمین کے اندر ایک اللہ کے سوا اور بھی کوئی معبود ہوتے تو یہ دونوں کبھی کے تباہ و برباد ہو چکے ہوتے۔ سو زمین و آسمان کی اس کائنات کے اندر پایا جانے والا یہ استحکام اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور اس کی وحدانیت و یکتائی کا ایک واضح اور کھلا ثبوت ہے۔ اور وہ حکیم بھی ہے، اور علیم بھی، اس لئے اس کا ہر کام کمال علم و حکمت ہی پر مبنی ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔
۸۹۔۔ سو اس سے پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی کہ اگر یہ لوگ اس سب کے باوجود حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، بلکہ اپنا انجام دیکھنے ہی کے درپے ہیں، تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اور ان سے اسی طرح سلام وداع و متارکت کہہ کر الگ ہو جاؤ جس طرح حضرت ابراہیم اپنے ہٹ دھرم باپ سے سلام کر کے الگ ہو گئے تھے عنقریب ہی وہ وقت خود ان کے سامنے آ جائے گا جب یہ اپنے انجام کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں گے، کہ تب ان کو سب کچھ خود معلوم ہو جائے گا۔ اور پوری طرح معلوم ہو جائے گا، جبکہ یہ مارے یاس و حسرت کے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے، سو اس سے ان ہٹ دھرموں کے بارے میں متارکت اور علیحدگی کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے جو حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہ ہوتے ہوں، کہ ایسوں کے لئے آخری جواب یہی ہو سکتا ہے، وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الزخرف