تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الجَاثیَة

(سورۃ الجاثیۃ ۔ سورہ نمبر ۴۵ ۔ تعداد آیات ۳۷)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     حٰ مٓ

۲۔۔۔     یہ سراسر اتاری ہوئی کتاب ہے اس اللہ کی طرف سے جو سب پر غالب بڑا ہی حکمت والا ہے

۳۔۔۔     بلاشبہ آسمانوں اور زمین میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ایمانداروں کے لئے

۴۔۔۔     اور خود تمہاری اپنی پیدائش میں بھی اور ان جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے عظیم الشان نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں

۵۔۔۔     نیز رات اور دن کے ادلنے بدلنے (کے اس نہایت منظم اور پر حکمت سلسلے) میں بھی اور اس رزق (یعنی پانی) میں بھی جس کو اللہ اتارتا ہے آسمان سے (ایک نہایت ہی پر حکمت نظام کے تحت) پھر اس کے ذریعے وہ زندہ کرتا ہے اس زمین کو اس کے بعد کہ وہ مر چکی ہوتی ہے اور ہواؤں کی گردش میں بھی بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں

۶۔۔۔     یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم پڑھ کر سناتے آپ کو حق کے ساتھ (اے پیغمبر !) پھر اللہ کی (ان عظیم الشان رحمتوں و عنایتوں اور اس کی) آیتوں کے بعد آخر یہ لوگ کس بات پر ایمان لائیں گے ؟

۷۔۔۔     بڑی تباہی ہے ہر اس بڑے جھوٹے بدکار انسان کے لئے

۸۔۔۔     جو سنتا ہے اللہ کی ان آیتوں کو جو اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں پھر بھی وہ اڑا رہتا ہے اپنی بڑائی کے گھمنڈ (اور اپنی گمراہی) پر گویا کہ اس نے ان کو سنا ہی نہیں سو خوشخبری سنا دو اس کو ایک بڑے ہی دردناک عذاب کی

۹۔۔۔     اور جب ہماری آیتوں میں سے کوئی بات اس کے علم میں آ جاتی ہے تو وہ اس کا مذاق بنا لیتا ہے ایسے لوگوں کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے

۱۰۔۔۔     ان کے آگے جہنم ہے وہاں نہ تو وہ سازو سامان ان کے کچھ کام آ سکے گا جو یہ لوگ (دنیا میں) کماتے رہے تھے اور نہ ہی ان کے وہ حمایتی (اور سرپرست) جو انہوں نے اللہ کے سوا اپنا رکھے تھے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہو گا

۱۱۔۔۔     یہ (قرآن) تو سراسر ہدایت ہے اور جو لوگ (اس کے باوجود اس سے منہ موڑے) اپنے رب کی آیتوں کا انکار ہی کئے جا رہے ہیں ان کے لئے بلا کا ایک نہایت دردناک عذاب ہے

۱۲۔۔۔     اللہ وہی تو ہے جس نے تمہارے کام میں لگا دیا سمندر کو تاکہ اس میں کشتیاں (اور جہاز) چلیں اسی کے حکم سے (تا کہ تم طرح طرح کے فائدے اٹھاؤ اس سے) اور تاکہ تم تلاش کر سکو اس کے فضل (روزی) میں سے اور تاکہ تم شکر ادا کرو (اس وحدہٗ لاشریک کا)

۱۳۔۔۔     اور اسی نے تمہارے لئے کام میں لگا دیا وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے سب کچھ اسی کی طرف سے ہے بلاشبہ ان سب باتوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں

۱۴۔۔۔     کہہ دو (اے پیغمبر !) ایمان والوں سے کہ وہ (عفو و) درگزر ہی سے کام لیں ان لوگوں کے لئے جو امید نہیں رکھتے اللہ کے دنوں (کے آنے) کی تاکہ وہ خود ہی بھرپور بدلہ دے ہر قوم کو اس کی (زندگی بھر کی) کمائی کا

۱۵۔۔۔     جو کوئی اچھا کام کرے گا تو وہ اپنے ہی لئے کرے گا اور جو کوئی برائی کرے گا تو اس کا وبال بھی خود اسی کے سر ہو گا پھر تم سب کو بہر حال اپنے رب کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے

۱۶۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے (اس سے پہلے) بنی اسرائیل کو بھی کتاب اور حکم سے نوازا ان کو نبوت (کے شرف عظیم) سے مشرف فرمایا ان کو طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں سے بھی سرفراز فرمایا اور ان کو فضیلت و بزرگی بخشی (ان کے دور کے) تمام جہانوں پر

۱۷۔۔۔     اور ہم نے انہیں اس معاملے میں کھلی ہدایات بھی دیں سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس آ چکا تھا علم (حق اور حقیقت کا) محض آپس کی ضد (اور حسد) کی بناء پر تمہارا رب یقیناً ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا (عملی اور قطعی طور پر) قیامت کے روز ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں یہ لوگ اختلاف میں پڑے تھے

۱۸۔۔۔     پھر ہم نے آپ کو بھی (دین کے) اس معاملے میں ایک خاص طریقے پر کر دیا پس آپ اسی کی پیروی کریں اور کبھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہیں کریں جو علم نہیں رکھتے

۱۹۔۔۔     یقیناً یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آپ کے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے اور بے شک ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست (اور مددگار) ہیں اور اللہ دوست (اور مددگار) ہے پرہیزگاروں کا

۲۰۔۔۔     یہ (قرآن) مجموعہ ہے بصیرت افروز آیتوں کا سب لوگوں کے لئے اور سراسر ہدایت اور عین رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں

۲۱۔۔۔     کیا ان لوگوں نے جو کہ برائیوں کا ارتکاب کئے جا رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جنہوں نے ایمان لا کر نیک کام کئے ہوں گے ؟ کہ ان کا جینا اور مرنا ایک جیسا ہو جائے ؟ بڑا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں

۲۲۔۔۔     اور اللہ ہی نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ (تاکہ انسان اس سے طرح طرح سے مستفید ہو) اور تاکہ پورا بدلہ دیا جائے ہر کسی کو اس کی (زندگی بھر کی) کمائی کا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا

۲۳۔۔۔     تو کیا تم نے اس شخص کے حال (اور اس کی بدبختی) پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا رکھا ہو اور اللہ نے اس کو گمراہی (کے گڑھے) میں ڈال دیا ہو اس کے علم کے باوجود اس کے کانوں اور اس کے دل پر اس نے مہر لگا دی ہو اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو سو کون ہے جو ایسے شخص کو ہدایت دے سکے اللہ کے بعد؟ کیا تم لوگ پھر بھی کوئی سبق نہیں لیتے ؟

۲۴۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے اسی میں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر یہی زمانہ حالانکہ ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں یہ لوگ محض ظن (و گمان) سے کام لیتے ہیں

۲۵۔۔۔     اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری کھلی کھلی آیتیں تو ان کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ یہ کہتے ہیں کہ لے آؤ تم لوگ ہمارے باپ دادوں کو اگر تم سچے ہو

۲۶۔۔۔     (ان سے) کہو کہ اللہ ہی ہے جو تمہیں زندگی بخشتا ہے پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی جمع فرمائے گا تم سب کو قیامت کے اس دن جس میں کوئی شک نہیں مگر اکثر لوگ جانتے نہیں

۲۷۔۔۔     اور اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور جس دن آ کھڑی ہو گی قیامت کی وہ (ہولناک) گھڑی تو سخت خسارے میں پڑ جائیں گے اس روز باطل پرست

۲۸۔۔۔     اس دن تم ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گرا دیکھو گے ہر گروہ کو پکارا جا رہا ہو گا اس کے اپنے نامہ اعمال کی طرف (اور ان سے کہا جائے گا کہ) آج تمہیں پورا بدلہ دیا جائے گا تمہارے ان کاموں کا جو تم لوگ کرتے رہے تھے (اپنی دنیاوی زندگی میں)

۲۹۔۔۔     یہ ہماری کتاب بول رہی ہے تم پر حق کے ساتھ بلاشبہ ہم لکھوا لیا کرتے تھے وہ سب کچھ جو تم لوگ کر رہے تھے

۳۰۔۔۔     پھر جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے (ایمان کے مطابق) نیک کام بھی کئے ہوں گے تو ان کو داخل فرما دے گا ان کا رب اپنی خاص رحمت میں یہی ہے کھلی (اور حقیقی) کامیابی

۳۱۔۔۔     اور جو کفر ہی کرتے رہے ہوں گے تو (ان سے کہا جائے گا کہ) کیا یہ حقیقت نہیں کہ میری آیتیں تم لوگوں کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں مگر تم لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا (ان سے منہ موڑے ہوئے) تھے اور تم لوگ مجرم بن کر ہی رہے ؟

۳۲۔۔۔     اور جب (تم سے) کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ یقینی طور پر سچا ہے اور قیامت کے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں تو تم لوگ کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے ہم تو محض ایک گمان سا رکھتے ہیں (اس کا کوئی) یقین ہم کو بہر حال نہیں

۳۳۔۔۔     اس وقت کھل جائیں گی ان کے سامنے ان کے اعمال کی برائیاں اور گھیر کر رہے گی ان کو وہ آفت جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے

۳۴۔۔۔     اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم تم کو بھلائے دیتے ہیں جیسا کہ تم نے (دنیا میں) بھلا دیا تھا اپنے اس دن کی (حاضری و) پیشی کو اب تمہارا ٹھکانا (دوزخ کی دہکتی بھڑکتی) یہ آگ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے

۳۵۔۔۔     یہ اس لئے کہ تم لوگوں نے اللہ کی آیتوں کو مذاق بنا لیا تھا اور تم کو دھوکے میں ڈال رکھا تھا دنیاوی زندگی (اور اس کی چمک دمک) نے سو اب نہ تو ان لوگوں کو نکالا جائے گا اس (آگ) سے اور نہ ہی ان سے کوئی توبہ طلب کی جائے گی

۳۶۔۔۔     بس تعریف سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے جو مالک ہے آسمانوں اور زمین (کی اس ساری کائنات) کا جو پروردگار سارے جہانوں کا

۳۷۔۔۔     اور اسی کے لئے ہے بڑائی آسمانوں اور زمین (کی اس پوری کائنات) میں اور وہی ہے سب پر غالب نہایت ہی حکمتوں والا

تفسیر

 

۸۔۔      سو اس سے محروم اور بدبخت لوگوں کی محرومی و بدبختی، اور اس کے سبب اور باعث کو بھی واضح فرما دیا گیا اور ان کے مال و انجام کو بھی سو اس ضمن میں پہلا وصف جو ذکر فرمایا گیا وہ ہے جو کہ افک سے مشتق و ماخوذ ہے جس کے معنی الٹ دینے آتے ہیں پس وہ افاک وہ شخص ہوتا ہے جو قلب ماہیت کا مرتکب ہوتا ہے اور اپنی چالاکی اور عیاری سے وہ حق کو باطل کی شکل میں پیش کرتا ہے اور باطل کو حق کی صورت میں جس سے ظاہر ہے کہ معاملہ یکسر الٹا ہو جاتا ہے اور یہ وہ جرم بلکہ جرموں کا جرم ہے جس کا ارتکاب منکرین قریش نے اپنی بدبختی سے پیغمبر کے مقابلے میں کیا اور اس کے بعد آج تک ہر تحریف پسند منکر حق نے کیا اور آج تک کئے جا رہا ہے والعیاذ باللہ، اس کے بعد دوسرا وصف اثیم ذکر فرمایا گیا ہے جس کے معنی گنہگار ہی کے آتے ہیں لیکن اس میں اصل استعمال حقوق و فرائض کو تلف کرنے والے کے لیے ہوتا ہے سو افاق کے ساتھ اس لفظ کے ذکر سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حقائق کے بارے میں قلب ماہیت کے اس جرم میں مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو حضرت حق جل مجدہٗ کے حقوق و فرائض کی ادائے گی سے گریز و قرار اور معاصی و ذنوب کی زندگی پر اصرار کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ حق کے آگے جھکنے اور اس کو اپنانے کے بجائے الٹا حق کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ حق سے خود بھی محروم ہوتے ہیں، اور دوسروں کو بھی محروم کرتے ہیں اور اس طرح وہ ضلال کے ساتھ اضلال کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اور تیسری صفت ایسے لوگوں کی یہ بیان فرمائی کہ وہ اصرار علی الباطل سے کام لیتے ہیں جس کا باعث ان کا غرور و استکبار ہوتا ہے یعنی اپنی بڑائی کا چھوٹا زعم و گھمنڈ جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی ان آیتوں کے بارے میں جو کہ ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا کہ انہوں نے ان کو سنا ہی نہیں سو جن لوگوں کا حق کے بارے میں یہ رویہ ہوا انکو حق کی دولت کیونکر نصیب ہوتی اس لیے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو بڑے ہی دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو جوان کو بہر حال بھگتنا ہو گا، والعیاذ باللہ۔

۱۳۔۔  سو اس میں عظیم الشان نشانیاں ہیں حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہٗ کی قدرت کا ملہ اس کی حکمت بالغہ، اور رحمت شاملہ کی، سو یہ کائنات پوری عظیم الشان نشانہائے قدرت و حکمت سے مملو و معمور ہے۔ مگر یہ نظر انہی لوگوں کو آتے ہیں جو صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیتے ہیں، لیکن تفکر صحیح کا یہی گو ہر نایاب عنقا ہے، لوگ یا تو سرے سے غور و فکر سے کام لیتے ہی نہیں، بلکہ وہ حیوانوں کی طرح ان سے فائدے تو اٹھاتے ہیں اور دن رات اٹھاتے ہیں، لیکن وہ اس بارے کبھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، کہ آخر یہ سب کچھ کس کا دیا بخشا ہے، اور اس کا ہم پر کیا حق واجب ہوتا ہے؟ اسی لئے بعض بدبخت ایسے بھی ہیں جو اس کائنات کے مختلف مظاہر اور ان کی عظمت و افادیت کو دیکھتے ہوئے انہی کے آگے جھکنے کی ذلت اٹھا کر، خود اپنی تذلیل اور ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں، چنانچہ ایسے بدبخت سورج و چاند، سمندر و دریا، اور کتنے ہی حیوانات و نباتات وغیرہ کی پوجا کر کے شرک کے سب سے بڑے اور انتہائی ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے، اور دوزخ کی راہ کو اپناتے ہیں، اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کے غور و فکر محور و مدار اس کے مادی فوائد و منافع ہیں۔ سو وہ دن رات اسی فکر و کوشش اور تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، کہ اس کے خزائن و دفائن سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے؟ اس کے لئے ایسے لوگ زمین کی تہوں تک پہنچنے، اور سمندروں کو کھنگالنے کے عمل میں دن رات ایک کر دیتے ہیں، اور اس کے عظیم الشان خزائن و دفائن سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہیں، مگر اس قادر مطلق خالق و مالک کو کبھی یاد کرنے کی سعادت سے بہرہ ور نہیں ہوتے، جس نے اپنی بے پایاں قدرت و حکمت سے یہ عظیم الشان خزانے اور طرح طرح کے دفینے اپنی اس حکمتوں بھری کائنات میں ودیعت فرمائے ہیں، جس کے باعث ایسے لوگ نہ معرفت خداوندی سے سرفراز و سرشار ہو سکتے ہیں، اور نہ ہی وہ اس کے ذکر و شکر کی لذت سے شاد کام ہو سکتے ہیں، سو مطلوب و مقصود وہ تفکر اور غور و فکر ہے جو حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہٗ کی اس حکمتوں بھری کائنات میں ہو۔ اور صحیح طریقے سے اور صحیح زاویہ نگاہ سے ہو، وباللہ التوفیق

۱۸۔۔  شریعۃ کے معنی صاف راستے اور واضح طریقے کے ہیں سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اہل کتاب نے جب اللہ کے دین کو بدل اور بگاڑ کر راہ حق و ہدایت کو ایسا گم کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی صراط مستقیم سے آگاہ کرنے اور خلق خدا کو صحیح راہ بتانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو ہم نے آپ کو اے پیغمبر! ایک خاص اور واضح شریعت پر مبعوث فرمایا۔ پس اب آپ اسی کی پیروی کریں۔ اور ان لوگوں کی خواہشات کی کبھی پیروی نہیں کرنا جو علم نہیں رکھتے حق اور حقیقت کا۔ سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ راہ حق و ہدایت اب وہی اور صرف وہی ہے جس کے ساتھ نبی آخر الزمان کو مبعوث فرمایا گیا ہے، اور دوسری یہ کہ اس راہ حق و ہدایت کے سوا دوسرے تمام ادیان دین نہیں، بلکہ وہ دراصل اہواء و خواہشات کے پلندے ہیں، جن کو ان کے پیروکاروں نے دین کے نام سے اپنا رکھا ہے، اور الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ یعنی نہ جاننے والوں میں مشرکین اور یہود و نصاریٰ سب ہی شامل ہیں، مشرکین عرب تو ظاہر ہے کہ کتاب و شریعت سے بالکل ناآشنا اور اُمّی تھے، اور یہود و نصاریٰ اگرچہ حامل کتاب ہونے کے دعویدار تھے۔ لیکن انہوں نے اللہ کے دین کا حلیہ اسقدر بگاڑ دیا تھا کہ اصل حقیقت بالکل گم ہو گئی تھی، اور مزید یہ کہ یہ لوگ خواہشات کی پیروی، اور اپنے عناد اور ہٹ دھری میں، اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ قرآن نے جب دین حق کو اس کی اصل اور صحیح شکل میں پیش کیا، تو یہ لوگ آگے بڑھ کر اس کو اپنانے کے بجائے الٹا اس کے سب سے بڑے مخالف بن کر کھڑے ہو گئے۔ اور اس مخالفت میں یہ مشرکین سے بھی آگے نکل گئے۔ اور یہاں پر جو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان لوگوں کی پیروی نہیں کرنا جو علم نہیں رکھتے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بات کا کوئی خدشہ تھا۔ نہیں اور ہرگز نہیں، بلکہ اس سے دراصل ان منکرین کو سنانا مقصود ہے کہ اگر وہ اس طرح کی کسی خام خیالی میں مبتلا ہوں کہ پیغمبر حق سے ہٹ کر ان کی خواہشات کی پیروی کر لیں گے، تو یہ اس کو کھرچ کر اپنے دل و دماغ سے نکال لیں، کہ ایسا نہ کبھی ہو گا نہ ہو سکتا ہے، اور یہ بات ان لوگوں کو براہ راست کہنے کے بجائے ان سے منہ پھیر کر پیغمبر کے واسطے سے ان کو کہلائی گئی ہے، جس میں بلاغت کا یہ اسلوب کار فرما ہے کہ اتباع ہویٰ یعنی خواہشات کی پیروی کے یہ مریض اور انکار حق کے یہ مجرم اس قابل نہیں کہ ان سے براہ راست خطاب کیا جائے، سو اس سے اس بات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اتباع ہویٰ یعنی خواہشات نفس کی پیروی اور انکار حق کے نتیجے میں انسان حق تعالیٰ کے یہاں کس قدر گر جاتا ہے؟ اور وہ کتنا مہین اور بے قدرا ہو کر رہ جاتا ہے، والعیاذ ُباللہ العظیم۔ پس انسان کی اصل قدر و قیمت اتباع ہُدیٰ یعنی ہدایت کی پیروی اور حق کو صدق دل سے اپنانے ہی سے وابستہ ہے وہ جتنا اس میں آگے بڑھے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں شرف و مرتبہ کا مستحق قرار پائے گا۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی مایُحِبُّ و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۲۲۔۔  سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کی تخلیق و تکوین نہایت با مقصد، اور پُر حکمت ہے، اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، سو وہی دن قیامت کا یوم عظیم ہے، سو اس کا وقوع و قیام لازمی اور بدیہی امر ہے، ورنہ اگر یہ دنیا یونہی چلتی رہے، یا بغیر کسی نتیجے کے یونہی ختم ہو جائے، تو اس کی تخلیق بالحق اور با مقصد نہیں ہو گی، بلکہ عبث اور بیکار قرار پائے گی، جو کہ حضرت خالق حکیم کی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے خلاف ہے اور وَہُمْ لَایُظْلَمُوْنَ کے جملے سے شرک اور اس مشرکانہ عقیدہ شفاعت کی جڑ نکال دی گئی جس میں مشرک لوگ پہلے بھی مبتلاء تھے، اور آج بھی مبتلا ہیں، خواہ وہ اہل کتاب کے مشرک ہوں، یا دوسرے کھلے مشرک، ان لوگوں کا کہنا تھا، اور کہنا ہے، کہ ان کے من گھڑت اور خود ساختہ شرکاء و شفعاء اپنے زور و اثر اور اپنی شفاعت و سفارش سے ان کو بخشوا دیں گے، خواہ ان کے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایسے میں بے لاگ انصاف کہاں اور کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ بلکہ ایسے میں تو بے لاگ انصاف کی نفی ہوتی ہے، کیونکہ اس صورت میں ہر ظلم اور بے انصافی کے لئے راستے کھلے رہیں گے، اس لئے اس جملے سے واضح فرما دیا گیا کہ اس روز بے لاگ انصاف ہو گا، اور کسی کے ساتھ کسی بھی پہلو سے کوئی بے انصافی نہیں ہو گی، بلکہ ہر کسی کو اس کے اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ بہر حال مل کر رہے گا، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق مل کر رہے گا۔

۲۴۔۔  سو قیامت کا آنا تو قطعی یقینی اور عقل و نقل سب کا تقاضا ہے، اس کی شہادت خود انسان کی فطرت کے اندر بھی موجود ہے، اور اس پوری کائنات کا وجود اور اس کا یہ پُر حکمت نظام بھی اس کی گواہی دے رہا ہے، جو اس کائنات کے خالق کی قدرت و حکمت اس کی رحمت و ربوبیت اور اس کی شان عدل و انصاف کا لازمی تقاضا ہے، سو اگر قیامت قائم نہ ہو تو اس پوری کائنات کا وجود عبث اور بیکار ہو کر رہ جاتا ہے، مگر اس سب کے باوجود ہوا و ہوس کے یہ پجاری کہتے ہیں کہ زندگی تو ہماری یہ دنیاوی زندگی ہی ہے اور بس، ہمارا جینا اور مرنا تو بس یہی ہے جو ہمیں اس دنیا میں پیش آتا ہے اور بس، اس کے بعد نہ کوئی زندگی ہے نہ موت، بس اسی دنیا میں جس نے عیش کر لی۔ اور جو یہاں محروم رہا وہ محروم ہی رہا۔ ہمیں کبھی دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ اور ان کا یہ کہنا کسی دلیل پر مبنی نہیں اور نہ ہی اس کے لئے کوئی دلیل ہو سکتی ہے، بلکہ یہ سب کچھ محض ظن و تخمین کی پیروی پر مبنی ہے۔ اور یہ لوگ محض اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں، ان کا جی چونکہ قیامت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس لئے یہ اس قطعی حقیقت کا انکار کرتے ہیں، تاکہ ان کی آزادی پر کوئی قید عائد نہ ہو۔ اور یہ ایک بے نتھے بیل کی طرح جہاں چاہیں منہ ماریں۔ سو قیامت کے یوم حساب کا انکار کر کے انسان انسانیت کے منصہ شرف سے گر کر حیوان محض بن کر رہنا چاہتا ہے جو کہ خساروں کا خسارہ ہے والعیاذُ باللہ العظیم، مگر اس کے باوجود دعوت حق سے منہ موڑنا، اور محض بطن و فرج کی خواہشات کی تکمیل کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا، کتنی بڑی محرومی اور کس قدر ہولناک خسارہ ہے، جس میں بندگانِ مادہ و وحدہٗ مبتلا ہیں، اور بری طرح سے مبتلا ہیں، والعیاذُ اللہ العظیم،

۲۸۔۔  جاثیہ کا لفظ جَثَّا یَجُثُوْا جُثُوَّا سے مشتق و ماخوذ ہے، جس کی تشریح اہل لغت اس طرح کے الفاظ سے کرتے ہیں جَلَسَ عَلیٰ رُکْبَتَیْہِ یعنی وہ اپنے دونوں زانوؤں پر بیٹھا، اور ایسا بیٹھنا بالعموم غلاموں مجرموں اور محکوموں کا بیٹھنا ہوتا ہے۔ کہ ایسے لوگ اپنے آقاؤں اور حاکموں کے سامنے اسی طرح کا بیٹھنا بیٹھتے ہیں، سو اس سے ان لوگوں کی اس صورت حال کی تصویر پیش فرما دی گئی جس سے ان کو اس دن سابقہ پیش آئے گا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس دن تم دیکھو گے کہ ہر گروہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہو گا۔ ہر گروہ کو اس کے نامہ اعمال کی طرف پکارا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ آج تم لوگوں کو تمہارے ان ہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم خود کرتے رہے تھے اچھا ہے تو بھی اور برا ہے تو بھی۔ کسی سے کسی طرح کی کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی کی کوئی حق تلفی ہو گی اور اس دن مومن و کافر موحد و مشرک اور ابرار و فجار وغیرہ سب ہی کو وہاں حاضر ہونا ہو گا۔ کوئی بھی اس یوم عظیم کی اس حاضری سے مستثنیٰ نہیں ہو گا۔ تاکہ ہر کوئی اپنے کئے کرائے کا پھل پا سکے۔ اور بھرپور طریقے سے پا سکے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں۔ پس عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا یہی ہے کہ اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے، کہ وہاں انسان کو اپنا ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار ہی کام آ سکے گا وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۲۹۔۔  سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں حق ہی کے ساتھ بولی گی۔ اور تم لوگوں کا سب کیا کرایا پورے کا پورا اور ٹھیک ٹھیک بیان کرے گی اس لئے کہ تم میں سے ہر ایک کے کئے کرائے کا پورا ریکارڈ تحریر کی شکل میں موجود ہے تم لوگ اپنی زندگیوں میں جو کچھ کرتے رہے تھے وہ ہم لکھواتے جا رہے تھے۔ یعنی ہمارے فرشتے ہمارے حکم و ارشاد کے مطابق اس کو لکھتے جا رہے تھے۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے گا کہ اس دفتر سے کسی سہو و نسیان، یا کسی طرح کی زیادتی اور بے انصافی کا کوئی خدشہ و امکان نہیں ہو گا۔ سو فرشتوں کے تیار کردہ اس ریکارڈ کے مطابق سب لوگوں کے درمیان آخری اور عملی فیصلہ کر دیا جائے گا، جس کی تفصیل اگلی دو آیتوں میں بیان فرمائی گئی ہے، یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لائے ہوں گے، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے، ان کو تو ان کا رب اپنی خاص رحمت میں داخل فرمائے گا جو کہ دراصل تعبیر ہے جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں سے، جہاں ان خوش نصیبوں کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا، جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ، اس کے برعکس جن لوگوں نے کفر و انکار ہی سے کام لیا ہو گا ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو، جن کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں، مگر تم لوگوں نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ان کا انکار کیا تھا، اور تم مجرم ہی بنے رہے تھے، سو ان کے جرائم کو گنوانے کے بعد ان سے کہا جائے گا، کہ تم سب لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس روز کی کامیابی و ناکامی تمام تر مدار و انحصار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ، اور عمل و کردار کی بنیاد پر ہو گا، کسی قوم قبیلے، یا حسب و نسب، یا مشرکانہ عقیدہ شفاعت و سفارش، اور خود ساختہ و من گھڑت سفارشیوں حمایتیوں اور حاجت رواؤں و مشکل کشاؤں وغیرہ جیسی کوئی بھی چیز اس روز کام نہیں آ سکے گی، پس جن لوگوں نے ایسے خود ساختہ سہاروں پر تکیہ کر رکھا ہے، وہ سراسر خسارے میں ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم،

۳۳۔۔  یہ دنیا چونکہ عمل و امتحان کا جہاں ہے اس لئے یہاں ہر چیز پس پردہ ہے، اور اس کی اصل حقیقت مخفی و مستور ہے، مگر آخرت کا وہ جہاں چونکہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہاں ہو گا، اس لئے وہاں پر ہر چیز اپنی اصلی اور حقیقی شکل و صورت میں سامنے آ جائے گی، سو دنیا میں لوگ جن مختلف عقلی اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے برے نتائج چونکہ فوراً ان کے سامنے نہیں آتے، اس لئے وہ ایسے جرائم کے ارتکاب پر دلیر ہو جاتے ہیں، اور اس حد تک کہ وہ کسی ناصح کی نصیحت کو قبول کرنے اور اس پر کان دھرنے کے لئے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اخلاقیات کا درس دینے والے ایسے ناصحین کو الٹا بیوقوف سمجھنے اور ان کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ لیکن قیامت کے روز جب حقائق سے پردہ اٹھے گا تو ان کو اپنے برے اعمال اپنی اصل شکل میں نظر آئیں گے اور اس طور پر کہ اس دن اندھے سے اندھے شخص کو بھی نظر آ جائے گا کہ اس نے دنیا میں برائیوں اور جرائم کی جو بس بھری فصل اس نے بوئی تھی اس کا انجام کس قدر ہولناک ہے اللہ کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں نے ان کو جس انجام سے خبردار کیا تھا وہ اپنے انذار میں کتنے سچے اور کس قدر حق بجانب تھے۔ لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ تب یہ لوگ رہ رہ کر افسوس کریں گے، اور چیخ چیخ کر ایمان لانے کا اعلان کریں گے، اور کہیں گے اٰمَنَّا یعنی ہم ایمان لے آئے، مگر اس وقت کے ان کے ماننے حق کو تسلیم کرنے، اور افسوس کرنے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس وحسرت میں اضافے کے سو اس وقت وہی عذاب ان کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے چکا ہو گا۔ جس کا وہ اپنی دنیاوی زندگی میں بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اور اس وقت وہ اس ہولناک عذاب میں اس طرح گھر چکے ہوں گے کہ ان کے لئے اس سے گریز و فرار کی کوئی راہ ممکن نہیں ہو گی، اور ان سے صاف طور پر کہہ دیا جائے گا کہ اب ہم نے تم لوگوں کو بھلا دیا جس طرح تم اپنے اس دن کی پیشی کو بھلا رکھا تھا، اور پھیلا دینے سے مراد اس کا لازم اور نتیجہ ہے، یعنی اب ہم تم پر کوئی رحمت و عنایت نہیں کریں گے، بلکہ تم لوگوں کو اس طرح نظر انداز کر دیں گے جس طرح کسی بھولی بسری چیز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، پس اب تم کو ہمیشہ کے لئے اسی عذاب کے اندر رہنا ہے، کیونکہ آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں کے لئے کمائی کا موقع دنیاوی زندگی کی فرصت محدود ہی میں تھا جس کو تم لوگوں نے اپنے کفر و انکار، اور عناد و استکبار کی نذر کر دیا، اور وہ فرصت تمہارے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی، پس اب تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے، جس میں تم نے ہمیشہ کے لئے رہنا ہے، اور تمہارے لئے اب کوئی مددگار بھی ممکن نہیں، والعیاذُ باللہ العظیم۔ وبہٰذا قدتم التفسیر المختصر لسورۃ الجاثیۃ، بحمد اللہ تعالیٰ وعونہ

۳۷۔۔