تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الفَتْح

(سورۃ الفتح ۔ سورہ نمبر ۴۸ ۔ تعداد آیات ۲۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     ۴۶۳۰ بے شک ہم نے عطا کر دی آپ کو (اے پیغمبر !) ایک عظیم الشان کھلی فتح

۲۔۔۔     تاکہ اللہ معاف فرما دے آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں اور تاکہ وہ تکمیل فرما دے آپ پر اپنے انعام کی اور ڈال دے آپ کو سیدھی راہ پر

۳۔۔۔     اور تاکہ اللہ مدد فرمائے آپ کی بڑی ہی زبردست مدد

۴۔۔۔     وہ (اللہ) وہی ہے جس نے سکینت (و اطمینان کی کیفیت) نازل فرمائی ایمان والوں کے دلوں میں تاکہ اور بڑھ جائے ان کا ایمان ان کے (پہلے) ایمان کے ساتھ اور اللہ ہی کے لئے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ بڑا ہی علم والا نہایت ہی حکمت والا ہے

۵۔۔۔     تاکہ وہ داخل فرما دے (اپنے کرم سے) ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی (طرح طرح کی اور بے مثل) نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا اور تاکہ اللہ مٹا دے ان سے ان کی برائیاں اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی (اور حقیقی) کامیابی ہے

۶۔۔۔     اور تاکہ اللہ عذاب دے ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو کہ گمان کرتے ہیں اللہ کے بارے میں برے گمان (حالانکہ) خود انہی پر ہے برائی کا پھیر اللہ کا غضب ہوا ان پر اور اس کی لعنت (و پھٹکار) اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے دوزخ (کا عذاب) اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ دوزخ

۷۔۔۔     اور اللہ ہی کے لئے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۸۔۔۔     اور بے شک ہم ہی نے بھیجا آپ کو (اے پیغمبر !) گواہی دینے والا خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر

۹۔۔۔     تاکہ تم (اے لوگوں !) ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور تاکہ تم تعظیم (و توقیر) کرو اس کی اور تسبیح کرو اس کی صبح و شام (یعنی ہمہ وقت)

۱۰۔۔۔     بے شک جو لوگ بیعت کر رہے تھے آپ کے ہاتھ پر (اے پیغمبر !) تو وہ درحقیقت بیعت کر رہے تھے اللہ سے اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا سو جس نے (اس کے بعد) توڑ لیا اپنے عہد کو تو اس کا وبال خود اس کی اپنی ہی جان پر ہو گا اور جو کوئی پورا کرے گا اپنے اس عہد کو جو اس نے اللہ سے باندھا ہے تو عنقریب ہی اللہ اس کو نوازے گا ایک بہت بڑے اجر سے

۱۱۔۔۔     عنقریب کہیں گے آپ سے (اے پیغمبر !) وہ بدوی (اور دیہاتی) لوگ جن کو پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا (ان کی اپنی پست ہمتی اور سوء اختیار کی بناء پر) کہ ہمیں مشغول کر دیا تھا ہمارے مالوں اور بال بچوں (کی فکر اور انکی ضروریات) نے پس آپ بخشش کی دعاء فرما دیں ہمارے لئے یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں (ان سے) کہو کہ اچھا تو پھر کون ہے جو تمہارے بارے میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے (اور تمہارا حال اللہ سے مخفی نہیں) بلکہ اللہ کو پوری خبر ہے تمہارے ان سب کاموں کی جو تم لوگ کرتے رہے ہو

۱۲۔۔۔     (اصل وجہ یہ نہیں جو تم بیان کر رہے ہو) بلکہ تم لوگوں نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اور دوسرے مسلمان تو اپنے گھر والوں کی طرف کبھی کسی طرح لوٹ کر آہی نہیں سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو لبھا رہا تھا اور تم نے بڑے برے گمان قائم رکھے تھے اور تم تو تھے ہی برباد ہونے والے لوگ

۱۳۔۔۔     اور جو کوئی (صدق دل سے) ایمان نہیں لایا اللہ اور اس کے رسول پر تو یقیناً (وہ اپنا ہی نقصان کرے گا کہ بے شک) ہم نے تیار کر رکھی ہے کافروں کے لئے ایک بڑی ہی ہولناک دہکتی بھڑکتی آگ

۱۴۔۔۔     اور اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی وہ جسے چاہے معاف فرما دے اور جسے چاہے سزا دے اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے

۱۵۔۔۔     عنقریب کہیں گے تم سے (اے مسلمانو !) وہ لوگ جن کو پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا (اس سفرِ خیر و برکت سے ان کے اپنے سوءِ اختیار کی بناء پر) جب تم نکلو گے اموالِ غنیمت لینے کے لئے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو یہ لوگ یہ چاہیں گے کہ بدل دیں اللہ کے کلام (اور اس کے وعدوں) کو (اس وقت ان سے) کہنا کہ تم لوگ ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی یوں فرما دیا ہے اس پر وہ کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم لوگ ہم پر حسد کرتے ہو نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی (صحیح بات کو) سمجھتے نہیں مگر بہت ہی کم

۱۶۔۔۔     کہو ان بدوؤں سے جن کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے کہ عنقریب ہی تمہیں بلایا جائے گا ایسے لوگوں سے لڑنے کے لئے جو بڑے سخت زور آور ہیں تم ان سے لڑو گے یا وہ اطاعت قبول کر لیں پس (اس وقت) اگر تم نے حکم مان لیا تو اللہ تمہیں نوازے گا ایک بڑے ہی عمدہ اجر سے اور اگر اس وقت بھی تم پھر گئے جیسا کہ اس سے پہلے (حدیبیہ وغیرہ میں) پھر گئے تھے تو وہ تمہیں ڈالے گا ایک بڑے ہی دردناک عذاب میں

۱۷۔۔۔     نہ اندھے پر کوئی گناہ ہے نہ لنگڑے پر اور نہ ہی بیمار پر اور جو کوئی (صدق دل سے) کہا مانے گا اللہ کا اور اس کے رسول کا تو اللہ اس کو داخل فرمائے گا (اپنے کرم سے) ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں اور جس نے منہ موڑا (حق و ہدایت کی طرف سے) تو وہ اس کو ڈالے گا ایک بڑے ہی (ہولناک اور) دردناک عذاب میں

۱۸۔۔۔     بلاشبہ اللہ راضی ہو گیا ان (خوش نصیب) ایمانداروں سے جو بیعت کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے (اے پیغمبر !) اس درخت کے نیچے سو اللہ نے جان لیا جو کچھ (صدق و اخلاص) ان کے دلوں میں تھا اور اس نے نازل فرما دی ان پر سکون (و اطمینان) کی کیفیت اور اس نے نواز دیا ان کو اس کے (صلہ و) عوض میں قریب ہی ملنے والی ایک عظیم الشان فتح (و کامرانی) سے

۱۹۔۔۔     اور دوسری بہت سی ان غنیمتوں سے جو کہ (وہ عنقریب ہی) حاصل کریں گے اور اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۲۰۔۔۔     اللہ نے وعدہ فرمایا لیا تم سے (اے مسلمانو !) بہت سی غنیمتوں کا جن کو تم لوگ (آسانی اور سہولت سے) حاصل کرو گے مگر یہ اس نے تم کو فوری عطا فرما دی اور اسی نے روک دیا (اپنے کرم سے) لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے (تاکہ تم محفوظ رہو ان کے شر سے) اور تاکہ یہ ایک نشانی ہو ایمان والوں کے لئے اور تاکہ وہ ڈال دے تم سب کو سیدھی راہ پر

۲۱۔۔۔     اور اس کے علاوہ اللہ نے تم سے اور بھی ایسی غنیمتوں کا وعدہ فرما دیا ہے جن پر تمہیں ابھی تک قدرت حاصل نہیں مگر اللہ نے اپنے احاطہ قدرت میں لے رکھا ہے ان سب کو اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۲۲۔۔۔     اور اگر (اس حال میں بھی) تم سے لڑائی ہو جاتی ان کافروں کی تو بھی یقیناً انہوں نے بھاگنا تھا پیٹھ دے کر پھر یہ (اپنے لئے) نہ کوئی یار پا سکتے نہ مددگار

۲۳۔۔۔     اللہ کے اس دستور کے مطابق جو چلا آیا ہے اس سے پہلے سے اور تم ہرگز نہیں پا سکو گے اللہ کے دستور کے لئے (کسی طرح کی) کوئی تبدیلی

۲۴۔۔۔     اور وہ (قادرِ مطلق) وہی ہے جس نے روک دیا ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ کی وادی میں اس کے بعد کہ اللہ نے تم کو ان پر کامیابی عطا فرما دی تھی اور اللہ پوری طرح دیکھتا ہے ان تمام کاموں کو جو تم لوگ کر رہے ہو

۲۵۔۔۔     یہ وہی لوگ ہیں جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر اور انہوں نے تم کو روکا مسجد حرام سے اور قربانی کے جانوروں کو ان کی قربانی کی جگہ پہنچنے سے اور اگر نہ ہوتے (مکہ میں) کچھ ایسے ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم ان کو روند ڈالو گے انجانے میں جس کے نتیجے میں تم پر حرف آتا (سو اگر ایسے نہ ہوتا تو ان کا قصہ چکا دیا جاتا مگر ایسے نہیں کیا کہ) تاکہ اللہ داخل فرمائے اپنی رحمت میں جس کو چاہے اگر یہ لوگ الگ ہو گئے ہوتے (اہل مکہ سے) تو ہم ضرور ایک دردناک عذاب دے دیتے اہل مکہ میں سے ان لوگوں کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے کفر (و باطل) پر

۲۶۔۔۔     (اور اسی بناء پر اس وقت) جب کہ بٹھا دی ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کی آڑ تو اللہ نے (اپنے فضل و کرم سے) اتار دیا اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور (صدق دل سے) ایمان لانے والوں پر اور اس نے پابند کر دیا ان کو (اس نازک موقع پر) تقوی (و پرہیزگاری) کی بات کا اور وہی سب سے زیادہ اس کے حقدار بھی تھے اور اس کے اہل (اور لائق) بھی اور اللہ تو ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۲۷۔۔۔     بلاشبہ اللہ نے سچا خواب دکھایا اپنے رسول کو جو کہ ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا تم لوگ ضرور بالضرور داخل ہوؤ گے مسجد حرام میں پورے امن و امان کے ساتھ تم میں سے کچھ اپنے سروں کو منڈوائے ہوں گے اور کچھ اپنے بالوں کو چھوٹا کرائے ہوں گے تمہیں کسی کا خوف نہ ہو گا سو اللہ جانتا تھا ان تمام باتوں کو جن کو تم نہیں جانتے تھے سو (اسی بناء پر) اس نے تمہیں اس سے پہلے ہی نواز دیا ایک قریبی فتح سے

۲۸۔۔۔     وہ (وحدہٗ لاشریک) وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت (کی دولت) اور دین حق (کی نعمت) کے ساتھ تاکہ وہ غالب کر دے اس (دین حق) کو تمام دینوں پر اور کافی ہے اللہ گواہی دینے کو (حق اور حقیقت کے لئے)

۲۹۔۔۔     محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں تم انہیں دیکھو گے تو ان کو رکوع و سجود کرنے والے اور (ہر حال میں) اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش کرتے پاؤ گے ان کی نشانی (چمک رہی ہو گی) ان کے چہروں میں سجدوں کے اثرات کی بناء پر یہ ہے ان کی صفت تورات میں اور ان کی صفت انجیل میں مثل اس کھیت کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو قوت دی جس سے وہ موٹی ہو گئی پھر وہ سیدھی کھڑی ہو گئی اپنے تنے پر جو خوشی کا سامان بنتی ہے کاشتکاروں کے لئے تاکہ وہ جلائے ان کے ذریعے کافروں (کے دلوں) کو وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان میں سے ان (خوش نصیبوں) سے جو (صدق دل سے) ایمان لائے اور (اس کے مطابق) انہوں نے کام بھی نیک کئے عظیم الشان بخشش اور بہت بڑے اجر و (ثواب) کا

تفسیر

 

۱۔۔  اس فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے جیسا کہ ظاہر اور واضح ہے، اور اس کو فتح مبین قرار دینے کے کئی پہلو ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ پہلا موقع تھا کہ قریش نے مسلمانوں کا بیت اللہ پر حق تسلیم کیا۔ اور یہ تسلیم کرنا کوئی احسان کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ مسلمانوں سے دب کر تھا، جیسا کہ آگے آیت نمبر۲۴ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوتا اور جنگ چھڑ جاتی تو فتح یقینی طور پر مسلمانوں ہی کی تھی، قریش کو چونکہ اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا تھا اس لئے وہ اس معاہدہ کے دل سے خواہشمند تھے البتہ اپنی ناک کو ذرہ اونچا رکھنے کے لئے انہوں نے یہ چاہا اور مسلمانوں سے اس کا مطالبہ کیا کہ وہ اسی سال عمرہ کرنے پر اصرار نہ کریں۔ بلکہ اگلے سال آ کر عمرہ کریں۔ اور مسلمانوں کو اس بات پر راضی کرنے کے لئے انہوں نے ان سے یہ پیشکش بھی کی کہ اگلے سال ہم آپ لوگوں کے لئے شہر کو تین دن کے لئے بالکل خالی کر دیں گے۔ تاکہ ان تین دنوں میں مسلمان اپنی مرضی کے مطابق، اور پورے امن و امان کے ساتھ اس میں رہیں۔ اور اس دوران کسی قسم کے تصادم کا کوئی خدشہ و اندیشہ نہ رہے۔ دوسرا پہلو اس معاہدہ کے فتح عظیم ہونے کا یہ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے قریش نے مسلمانوں کو اپنے برابر کی ایک حریف قوت تسلیم کر لیا، ورنہ اس سے پہلے وہ مسلمانوں کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ کچھ باغی اور غدار لوگوں کا ٹولہ ہے۔ والعیاذُ باللہ، سو اس معاہدے کی رو سے انہوں نے مان لیا کہ یہ باغیوں کا گروہ نہیں، بلکہ ہمارے برابر کے درجے کی ایک قوت ہے، اسی لئے اس معاہدے کی رو سے انہوں نے ان کے لئے یہ حق تسلیم کیا کہ عرب کے جو قبائل ان کے حلیف بننا چاہیں یہ ان کو اپنا حلیف بنا سکتے ہیں، اور تیسرا اہم پہلو اس کا یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت کا لوہا بھی اس حد تک مان لیا کہ انہوں نے خود اصرار کر کے اس معاہدے میں دس سال کے لئے جنگ بندی کی شرط رکھوائی۔ سو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے جو اپنے پیغمبر اور مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں دی، تو یہ بات مسلمانوں کی کمزوری کی بناء پر نہیں تھی، بلکہ اس وجہ سے تھی کہ مکہ مکرمہ میں اس وقت تک بہت سے ظاہر اور مخفی مسلمان ایسے موجود تھے جو ابھی تک وہاں سے ہجرت نہیں کر سکے تھے۔ اس لئے جنگ کی صورت میں ان کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جیسا کہ آگے آیت نمبر۲۵ میں اس کی تصریح موجود ہے، ورنہ غلبہ بہر حال مسلمانوں ہی کا تھا۔ سو ایسی وجوہ کی بناء پر صلح حدیبیہ واقعی فتح مبین تھی، و الحمد للہ،

۷۔۔  سو زمین و آسمان کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات اور اس کے اندر موجود و کار فرما ساری قوتیں اور طاقتیں اسی وحدہٗ لاشریک کی مخلوق اور اسی کی مملوک و ملکیت ہیں، وہ ان سے جب اور جس طرح چاہے کام لے، اور جو اور جیسا چاہے کام لے۔ اس کے لئے اس میں نہ کوئی مشکل اور نہ کسی طرح کی کوئی مزاحمت اور رکاوٹ ہو سکتی ہے بلکہ محض اس قادر مطلق کے ارادے اور اشارے کی دیر ہے، اور زمین و آسمان کی اس کائنات میں جو اور جس قدر لشکر کار فرما ہیں ان کو اس کے سوا کوئی جان بھی نہیں سکتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا یَعلَمُ جُنُوْدَ ربِّکَ اِلاَّ ہُوَ یعنی تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی جان بھی نہیں سکتا، سو یہ منافق لوگ اگر صدق و اخلاص سے کام لے کر اس کے دین کی خدمت اور اس کی رضا کی راہوں کو اپنانا نہیں چاہتے۔ بلکہ یہ اپنے کفر و نفاق کی راہوں ہی پر چلنا اور اس کے نتیجے میں دوزخ کا ایندھن ہی بننا چاہتے ہیں تو بنتے رہیں۔ نہ اللہ کو ان کی ضرورت ہے، اور نہ اس کا دین ان کا محتاج ہے، اس کے لئے تو آسمان و زمین کی اس کائنات کے سب لشکر موجود ہیں، وہ ان سے جو چاہے اور جیسا چاہے کام لے۔ وہ ہر چیز پر غالب و قادر بھی ہے، اور نہایت حکمت والا بھی۔ اس لئے وہ اپنے ان لشکروں کو اپنی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے مطابق ہی استعمال فرماتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۹۔۔  ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت میں پیغمبر کو خطاب کر کے ان کی خاص صفات کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے تاکہ اس سے رسول کا مرتبہ و مقام، اور ان کی عظمت شان واضح ہو جائے، جبکہ دوسری آیت میں مسلمانوں کو خطاب کر کے بعثت رسول سے متعلق ان کی ذمہ داریوں اور تقاضوں کو واضح فرمایا گیا ہے، چنانچہ پہلی آیت میں رسول کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو شاہد مبشر، اور نذیر، بنا کر بھیجا ہے، سو ان تینوں صفات و کلمات سے بعثت پیغمبر سے متعلق تین اہم گوشوں کو واضح فرما دیا گیا، پہلی صفت آپ کی شاہد بیان فرمائی گئی ہے، کہ آپ کا اصل اور اہم کام حق کی گواہی دینا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حق کی گواہی دی، اور دنیا کے سامنے حق کو پوری طرح واضح فرما دیا، اور اس طور پر، اور اس حد تک کہ آج دنیا میں حق کی جو دولت موجود ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی شہادت و تبلیغ کا نتیجہ ہے، ورنہ دنیا نور حق و ہدایت سے سراسر محروم تھی، اور آج بھی جو آنجناب کے پیغام حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں وہ سراسر اس دولت کبری سے سراسر محروم ہیں، اور اپنی اسی شہادت حق کی بناء پر اور اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز بھی گواہی دیں گے کہ میں نے دنیا کو حق پہنچا دیا تھا، پس جنہوں نے اس سے منہ موڑا وہ اپنی محرومی اور ہلاکت کے ذمہ دار خود ہیں، اور دوسری صفت آپ کی یہاں پر مبشر بیان فرمائی گئی ہے، جس کے معنی خوشخبری دینے والے کے ہیں، کہ جو لوگ آپ کی شہادت کو قبول کر کے اپنی زندگیوں کو سنواریں گے ان کو جنت کی سدا بہار نعمتوں کی خوشخبری دیں، اس کے برعکس جو لوگ آپ کی دعوت سے منہ موڑیں گے ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے، اس لئے تیسری صفت آپ کی نذیر بیان فرمائی گئی ہے، یعنی خبردار کرنے والا اس کے بعد مسلمانوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ رسول کو ان صفات کے ساتھ اس لئے مبعوث فرمایا گیا کہ تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور ان کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔ پس اسطرح تم لوگ خود اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرو، ورنہ اس سے اعراض  و رُو گردانی کی صورت میں خود تمہارا اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے، والعیاذُباللہ العظیم،

۱۲۔۔  اوپر والی آیت کریمہ میں ان کے دلوں کے جس بھید کی طرف اشارہ فرمایا گیا تھا اس سے اس کی تصریح اور وضاحت فرما دی گئی، کہ تم لوگوں کو اس مبارک و مسعود سفر سے جس چیز نے روکا وہ تمہارا یہ گمان بد تھا کہ مٹھی بھر یہ لوگ جو بالکل نہتے اور احرام باندھے اپنے دشمنوں یعنی قریش کے پاس خود ان کے گھر میں پہنچیں گے، تو یہ ان کے لئے ایک نوالہ تر ثابت ہوں گے۔ وہ ان کو کچا ہی چبا جائیں گے، اور ان کو اور ان کے پیغمبر کو کبھی واپس آنا، اور اپنے اہل و عیال کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو گا۔ اور کفر و نفاق پر مبنی تمہارا یہ گمان باطل تمہارے دلوں میں بہت مزین کر دیا گیا تھا، اور سنت خداوندی کے مطابق اس کو تمہارے دلوں میں خوب کھبا دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں تم لوگوں نے اسلام کے مستقبل کے بارے میں نہایت برے گمان قائم کر لئے تھے، اور تم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ آئندہ کچھ ہی دنوں میں اس کا قصہ تمام ہو جائے گا۔ سو تم لوگ تو اپنے طور پر اسلام اور مسلمانوں کی تباہی اور ان کے خاتمے کے منتظر بن گئے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان مزاعم کے علی الرغم مسلمانوں کو اسی مبارک و میمون سفر کے نتیجے میں اور ان کے صدق و اخلاص کے صلہ و ثمرہ کے طور پر ایک عظیم الشان اور بے مثال فتح (فتح مبین) سے سرفراز فرما دیا۔ ایک ایسی فتح سے جس نے آگے ان کے لئے کئی عظیم الشان فتوحات کے دروازے کھول دیئے۔ اور تم جو اپنی اس منافقانہ روش پر نازاں و فرحاں تھے۔ اور سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر کا ساتھ نہ دے کر تم نے بڑی دانشمندی اور کامیاب سیاست کو اختیار کیا ہے، تم لوگ ہلاکت و بربادی کے ہولناک کھڈے میں جا گرے۔ بُوْر جمع ہے بائر کی، جیسے ہُلک جمع ہے ہالک کی جس کے معنی تباہ و برباد ہونے والے کے ہیں، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایمان و یقین اور صدق و اخلاص کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ وسیلہ ہے، اور کفر و نفاق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بدنیتی انسان کو ہر خیر سے محروم کر دیتی ہے، سو اس کے نتیجے میں انسان خیر و برکت کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے، اسی لئے یہاں پر ان لوگوں کو مُخَلَّفُوْنَ کے لفظ سے ذکر فرمایا گیا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں پیچھے چھوڑ دیئے گئے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کی بدنیتی اور خبث باطن کے نتیجے میں پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ اور یہ کار خیر میں اشتراک کے شرف سے محروم ہو گئے۔ نیز اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کلام حکیم کسی انسان اور بشر کا کلام نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ اس عَلَّام الغیوب کا کلام ہے جو علیم بذات الصدور یعنی سینوں کے بھیدوں کو جاننے والا ہے۔ یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک، کہ یہ صرف اسی کی صفت و شان ہے، نیز اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ و بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے بھی ہے۔ سو جن کی نیتیں اور ارادے درست ہوتے ہیں، وہ اس واہب مطلق جَلَّ جلالُہٗ کی رحمت و عنایت کے مستحق قرار پاتے ہیں، اور جن کی نیتیں بری اور ارادے فاسد ہوتے ہیں وہ حرمان نصیبی کا شکار ہوتے ہیں، والعیاذ ُباللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے، ہر قدم اپنی رضاء و خوشنودی ہی کی راہوں ہی پر اٹھانے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم اٰمین یا ربَّ العالمین۔

۱۸۔۔  سو اس سے ان بندگان صدق و صفا اور پیکران اخلاص و یقین کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو بیعت رضوان کی اس عظیم الشان بیعت میں شرکت کے شرف سے مشرف ہوئے تھے، جس جیسی دوسری کسی بیعت کی کوئی مثال چشم فلک نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو، سو اس سے اس بیعت کی عظمت شان کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ اور اس میں شریک ہونے والے ان مخلصین کے بے مثال انعام کا بھی، سو آیت کریمہ کا آغاز ہی اس بشارت سے کیا گیا۔ اور وہ بھی تاکید در تاکید کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اللہ راضی ہو گیا ان اہل ایمان سے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اے پیغمبر! جبکہ وہ آپ کے ہاتھ پر اس درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے، اس شجرہ سے مراد کیکر کا درخت ہے کہ اسی کے نیچے یہ عظیم الشان بیعت ہوئی تھی۔ اور تَحْتَ الشَّجَرَۃِ (اس درخت کے نیچے) کی اس تصریح سے غربت و مسافرت کی اس حالت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا جس میں تاریخ کی یہ عظیم الشان اور بے مثال بیعت وقوع پذیر ہوئی تھی۔ یعنی یہ بیعت غربت و مسافرت میں اور بے سرو سامانی کے اس عالم میں ہوئی تھی، کہ کیکر کے ایک درخت کے سائے کے سوا کسی اور چیز کا سایہ بھی میسر نہ تھا۔ اور بیعت تھی حضرت امام الانبیاء علیہ وعلی سائر ہم الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر۔ اور بیعت بھی تھی جہاد اور موت پر۔ اور وہ بھی اس  حال میں کہ کل چودہ سو نفوس قدسیہ تھے جو اپنے اصل مستقر (مدینہ منورہ) سے کوئی چھ سو کلو میٹر سے بھی زیادہ دُوری پر تھے۔ اور وہ بھی جنگی لباس کے بجائے احرام کی چادروں میں ملبوس تھے، جبکہ ان کے دشمن وہاں سے کل کوئی سولہ سترہ کیلومیٹر کے فاصلے پر اپنے اصل مستقر میں تھے۔ جہاں ان کے پاس ہر قسم کا سامان حرب و ضرب موجود تھا، جبکہ لباس احرام میں ملبوس ان اہل ایمان کے پاس ایک ایک تلوار کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو ان حالات میں ان صدق شعاروں کا اللہ کے رسول کے حکم و ارشاد پر بغیر کسی پس و پیش، اور بدون کسی طرح کے لیت و لعل اور تسویف و تاخیر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کرنا۔ اور پوری وفاداری اور صدق شعاری کے ساتھ موت اور جہاد کے لئے تیار ہو جانا، اس بات کی کھلی شہادت اور واضح ثبوت ہے کہ یہ حضرات اپنے ایمان میں سچے، مخلص اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں درجہ کمال پر فائز تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو صاف اور صریح طور پر اور تاکیدی الفاظ میں اپنی رضا و خوشنودی کی سند سے نوازا۔ اور یہ ایسا منفرد اور بے مثال انعام و اعزاز ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان صحابہ کرام کے سوا پوری امت میں اور کسی کو نہ نصیب ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اور اس ضمن میں یہ امر بھی واضح رہنا چاہئیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرات صحابہ کرام سے یہ بیعت اس وقت لی تھی جبکہ آپ کو یہ خبر پہنچی تھی، کہ کفار مکہ نے حضرت عثمان بن عفان کو شہید کر دیا ہے، جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سفیر کے طور پر آپ کی طرف سے ان لوگوں کے ساتھ بات کرنے وہاں گئے تھے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خون عثمان کا بدلہ لینے اور کفار سے جہاد کرنے کے لئے یہ بیعت لی تھی۔ لیکن جب کفار مکہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اس بیعت اور جہاد کی تیاری کی خبر ملی تو ان پر رعب طاری ہو گیا، اور انہوں نے فوراً حضرت عثمان رضی اللہ کو رہا کر دیا، اور صلح کی عرض پیش کی۔ اور اس بارے میں مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے ان کو یہ پیشکش بھی کی کہ اگلے سال آپ لوگ تین دن کے لئے یہاں آئیں۔ ان تین دنوں میں ہم شہر کو آپ کے لئے خالی کر دیں گے، تاکہ آپ لوگ امن و امان کے ساتھ اس میں رہیں (ابن کثیر، ابن جریر، قرطبی، اور صفوہ، وغیرہ) پھر اس ضمن میں فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ کی تصریح سے اس اہم حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے حال کو جان لیا۔ اور ان کے دلوں کے صدق و صفا کے نتیجے میں ان پر سکون و اطمینان کی خاص کیفیت نازل فرما دی۔ اور اسی صدق و اخلاص کے نتیجے میں اس نے ان کو قریب کی فتح یعنی فتح خیبر سے سرفراز فرمایا۔ اور بہت سے دوسری غنیمتوں سے نوازا جو ان کو اس کے بعد نصیب ہوئیں، جس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ حدیبیہ کا معاہدہ ان کی شکست نہیں فتح تھی، اور یہی فتح بعد میں فتح مکہ کا مقدمہ اور اس کا دیباچہ قرار پائی۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام کی صداقت و حقانیت اور ان کی عظمت شان کے بارے میں قرآن حکیم کی ان تصریحات کے باوجود اور حضرت عثمان بن عفان کے اس انفرادی حیثیت و شان کے یا وصف جو آپ کے سوا اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی، اس سب کے باوجود جو لوگ ان قدسی صفت حضرات صحابہ کرام پر زبان طعن و تشنیع دراز کرتے ہیں، اور ان کے ایمان تک میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کتنے بہکے بھٹکے، اور کس قدر ظالم اور بدبخت لوگ ہیں، بھلا جن حضرات کے دلوں کا امتحان اللہ پاک لے۔ اور اس کے بعد وہ ان کو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کے عظیم الشان اور بے مثال سرٹیفکیٹ سے نواز دے۔ ان سے بڑھ کر پاکیزہ اور صدق شعار انسان اور کون ہو سکتا ہے؟ اور کس طرح اور کیونکر؟ فرضی اللہ عنہم وارضا ہم وعنا معہم اجمعین۔ یہاں پر ایک اور بات بھی یہ قابل ذکر ہے جو کہ کیکر کے اس درخت سے متعلق ہے جس کا ذکر تحت الشجرۃ کے لفظ سے فرمایا گیا ہے، سو اس کے بارے میں ایک مشہور روایت وہ ہے جو نافع مولی ابن عمر سے مروی ہے کہ لوگ اس درخت کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے، تو حضرت عمر کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اس پر لوگوں کو ڈانٹا، اور اس درخت کو کٹوا دیا، (طبقات ابن سعدج ۲ ص ۱٠٠) لیکن اس سے متعلق اس کے علاوہ اور بھی کئی روایات پائی جاتی ہیں مثلاً خود حضرت نافع ہی سے دوسری روایت اس بارے یہ مروی و منقول ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد حضرات صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر وہ اس کو نہ پہچان سکے۔ اور ان کے درمیان اس بارے اختلاف ہو گیا کہ وہ کونسا درخت ہے، اور ان کی یہ روایت بھی طبقات ابن سعد ہی میں مروی و منقول ہے، (طبقات ج ۲ ص ۱٠۵) جبکہ دوسری روایت جو کہ بخاری ومسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ صلح حدیبیہ کے دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃ القضاء کے لئے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے۔ تلاش کرنے کے بعد بھی ہم اس کو نہ پاس کے۔ اور تیسری روایت جو ابن جریر سے مروی ہے اس میں کہا گیا کہ حضرت عمر کا اپنے عہد خلافت میں ایک مرتبہ جب حدیبیہ کے مقام سے گزر ہوا تو آپ نے اس درخت کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے، جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی؟ تو کسی نے کہا وہ فلاں درخت ہے، اور کسی نے کہاں فلاں تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چھوڑو اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ سو ان روایات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس درخت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا حالانکہ وہ ایک ایسا عظیم الشان درخت تھا کہ اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہ موجود ہے، اور نہ ہو سکتی ہے، کہ اس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے اور حضرت امام الانبیاء نے اس کے نیچے صحابہ کرام سے بیعت لی۔ مگر اس کے باوجود آج اس کا کوئی نام و نشان موجود نہیں، سو اس میں ان مشرکوں کے لئے بڑا درس عبرت ہے، جنہوں نے طرح طرح ایسے درختوں کو مقدس قرار دیکر ان کی پوجا شروع کر رکھی ہے، جن کی نہ کوئی اصل ہے نہ اساس، سو اس طرح کی مظاہر و ظواہر پرستی کا دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ سے کوئی لگاؤ نہیں۔

۲۰۔۔  سو اس سے صلح حدیبیہ کی خیرات و برکات میں سے بعض کی طرف اشارہ کے طور پر مسلمانوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، جن کو تم عنقریب ہی حاصل کرو گے، اور مستقبل کے ان وعدوں کی تصدیق کے طور پر تم کو جلد اور نقدا نقد ملنے والی اس غنیمت سے نواز دیا، تاکہ اس طرح تمہاری حوصلہ افزائی بھی ہو، اور اسلام کے غلبے کی نشانی بھی، اور جلد ملنے والی اس فتح سے مراد حضرات مفسرین کرام کے نزدیک فتح خیبر ہے، جو کہ سفر حدیبیہ سے واپسی کے فوراً بعد ہی نصیب ہوئی تھی، اور کَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ میں النّاس سے مراد قریش ہیں، جو صلح حدیبیہ کے نتیجے میں دس سال تک جنگ بندی کے لئے پابند ہو گئے تھے، جس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ان کو یہود خیبر کے خلاف اقدام کے لئے ایک اچھا موقع میسر آگیا، اور دوسری طرف اس سے ان کو یہ فائدہ بھی حاصل ہو گیا، کہ یہود کے اس خیال سے کہ اب ان کو قریش کی پشت پناہی حاصل نہیں ہو سکے گی، ان کے حوصلے ٹوٹ گئے، اور وہ مسلمانوں کے خلاف کسی قابل ذکر مزاحمت کے قابل بھی نہ رہے، سو اس طرح صلح حدیبیہ نے مسلمانوں کے لئے اس قریبی فتح کی راہ ہموار کر دی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو خیبر کی اس نقدا نقد غنیمت سے نوازا، تاکہ یہ صلح حدیبیہ کے فتح مبیں ہونے کی ایک دلیل بھی بن سکے، اور مستقبل میں اسلام کے غلبہ و تمکن کی ایک نشانی بھی، اور اس طرح اللہ تعالیٰ حق و ہدایت کی اس صراط مستقیم کو پھر کھول دے جس کو اعدائے حق نے بند کر رکھا تھا، اور اس کے لئے اصل نشان راہ کی حیثیت چونکہ خانہ کعبہ کو حاصل تھی، اس لئے اس ارشاد میں اس کے کفار کے تسلط سے آزاد ہونے کی اور مسلمانوں کو اس کی تولیت ملنے کی، بشارت بھی مضمر ہے، و الحمدللہ،

۲۱۔۔  اس سے فتح مکہ کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم کو ایک اور بہت بڑی کامیابی سے نوازے گا، جس کا اس نے تم لوگوں سے وعدہ فرما رکھا ہے، یہ کامیابی اگرچہ اب تک تم لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکی، لیکن اب اس میں زیادہ دیر نہیں، کہ اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، اور جس کا اللہ نے احاطہ کر رکھا ہو وہ چیز قابو سے باہر نہیں ہو سکتی، اللہ چونکہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اس لئے وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، اس لئے وہ اپنی قدرت کا یہ کرشمہ بھی بہت جلد دکھا دے گا، سبحانہ و تعالیٰ، سو یہ سب ثمرات ہیں صدق ایمان اور اطاعت مطالقہ کے، پس سو ایمان و اطاعت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہیں، اور معاملہ چونکہ اس خالق و مالک کے ساتھ ہے جو دلوں کے بھید جاننے والا، اور عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُور ہے، اس لئے وہاں پر ظاہر داری نہیں چلے گی، بلکہ صدق و اخلاص کی ضرورت ہے، اس لئے ہمیشہ کوشش اسی کی ہو کہ اس مالک الملک کے ساتھ ہمارا معاملہ صحیح ہو، ظاہر کے اعتبار سے بھی، اور باطن کے لحاظ سے بھی، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید، بکل حالٍ مِّن الاحوال،

۲۸۔۔  اس آیت کریمہ میں دراصل فتح مکہ کی بشارت دی گئی ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ کی فتح پر پورے ملک میں دین حق کے غلبے کا انحصار تھا چنانچہ اس کے فتح ہو جانے کے بعد وہ تمام ادیان اسلام کے آگے سرنگوں ہو گئے، جو سرزمین عرب میں موجود تھے، اور تھوڑی ہی مدت کے اندر وہ وقت آگیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اعلان فرمایا کہ اس ملک میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے۔ یعنی اب یہاں صرف دین حق اسلام ہی کا دور دورہ ہو گا، سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اللہ جس نے اپنی وہ شانیں دکھائیں جن کا ذکر اوپر ہوا وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے کیونکہ حق یہی ہے اور حق ہی کا یہ حق ہے کہ وہ سب دینوں پر غالب ہو کر رہے کہ اسی میں اللہ کے بندوں کا بھلا ہے دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، اور حق کی شان ہی غالب رہنا ہے، نہ کہ مغلوب ہونا، فَاِنَّ الْحَقَّ یَعْلُوْا وَلَا یُعْلیٰ عَلَیْہِ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ تقدیر کا اٹل فیصلہ ہے جس نے بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے۔ نہ اس کو مشرکین بدل سکتے ہیں اور نہ یہود و  نصاریٰ، اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ سب کے علی الرغم نافذ ہو کر رہے گا، اور اللہ کافی ہے گوائی دینے کو، پس مخالفین و منکرین اس کو خواہ کتنا ہی بعید از قیاس سمجھیں یہ بہر حال ایک حقیقت ہے۔ جس کی صداقت کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے۔ اور جب اللہ گواہی دے جو کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک اور قادرِ مطلق ہے تو پھر اس حقیقت کے ظہور و وقوع میں کسی طرح کے شک یا شبہے کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے؟ سو غلبہ حق دین حق کے مطالب جلیلہ میں سے ایک اہم مطلب ہے، کہ اسی میں عباد و بلاد سب کا بھلا ہے، اور اسی لئے اہل حق کا غلبہ حق کے لئے اپنے مقدور کی حدت ک کوشش کرنا ان کا فرض منصبی ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، یُحِبُّ و یرید،

۲۹۔۔  پس جو لوگ ان صفات کے حامل و مصداق اور ایمان و عمل میں راسخ ہوں گے۔ ان کو اللہ تعالیٰ مغفرت و بخشش سے بھی نوازے گا، اور اجر عظیم سے بھی، رہ گئے وہ لوگ جو زبانی کلامی طور پر ایمان و اسلام کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن حقیقت و واقع کے اعتبار سے، اور عمل و کردار کے لحاظ سے وہ کھوٹے ہیں، اور انکی ہمدردیاں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ دشمنان اسلام کے ساتھ ہیں جس کے نمونے انہوں نے حدیبیہ کے موقع پر اس بارے دکھلائے جن کا ذکر اوپر ہوا تو وہ اس انعام کے مستحق نہیں ہو سکتے، اور انہوں نے اگر اپنی روش نہ بدلی تو وہ اس انجام سے دو چار ہو کر رہیں گے جو دشمنان اسلام کے لئے مقرر ہے، سو اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف زبانی کلامی دعووں سے کام نہیں چلے گا، اور نہ وہاں منافقانہ عمل و کردار کی کوئی قدر و قیمت ہو سکتی ہے، بلکہ وہاں تمام تر دارو مدار صدق و اخلاص اور ایمان و کردار پر ہے، جتنا کسی کا ایمان پختہ اور اس کا کردار صحیح و صالح ہو گا اتنا ہی وہ اس کی عنایات اور اس کی رحمتوں کا اہل اور حقدار قرار پائے گا، وباللّٰہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فِی الحیاۃِ، وبہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الفتح بعون اللہ تعالیٰ وعنایۃ فلہ الحمد ولہ الشکر قبل کل شیئ وبعد کل شیئ