اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ نہیں میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی
۲۔۔۔ اور نہیں میں قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو ملامت کرنے والا ہے (خود اپنے آپ کو)
۳۔۔۔ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم (دوبارہ) جمع نہ کر سکیں گے اس کی ہڈیوں کو؟
۴۔۔۔ کیوں نہیں جب کہ ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ پوری طرح برابر کر دیں اس کے پور پور تک کو
۵۔۔۔ مگر انسان دراصل چاہتا یہ ہے کہ وہ بد عملیاں کرتا رہے اپنی آئندہ زندگی میں
۶۔۔۔ وہ پوچھتا ہے (استہزا و انکار کے طور پر) کہ صاحب آخر کب آنا ہے قیامت کے اس دن نے ؟
۷۔۔۔ سو جب (مارے دہشت و حیرت کے ) خیرہ ہو جائیں گی ان کی نگاہیں
۸۔۔۔ اور بے نور ہو جائے گا (یہ چمکتا دمکتا) چاند
۹۔۔۔ اور جمع کر دیا جائے گا (بے نور ہونے میں ) سورج اور چاند کو
۱۰۔۔۔ اس روز (مارے خوف و حیرت کے ) کہے گا یہ انسان کہ اب کدھر کو بھاگوں میں ؟
۱۱۔۔۔ ہرگز نہیں وہاں کوئی جائے پناہ نہ ہو گی
۱۲۔۔۔ تیرے رب ہی کے پاس اس روز جا ٹھہرنا ہو گا (سب کو)
۱۳۔۔۔ اس روز انسان کو (پوری طرح) بتا دیا جائے گا وہ سب کچھ جو کہ اس نے آگے بھیجا ہو گا اور جو کچھ کہ اس نے پیچھے چھوڑا ہو گا
۱۴۔۔۔ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انسان اپنے آپ کو خود ہی اچھی طرح جانتا ہے
۱۵۔۔۔ اگرچہ وہ کتنے ہی بہانے (کیوں نہ) پیش کرے
۱۶۔۔۔ اور اپنی زبان کو مت ہلایا کرو اس (قرآن) کے ساتھ (اے پیغمبر !) اس کو جلدی جلدی یاد کر لینے کی غرض سے
۱۷۔۔۔ بلاشبہ ہمارے ذمے ہے اس کو جمع کر دینا (آپ کے سینے میں ) اور اس کو پڑھا دینا (آپ کی زبان سے )
۱۸۔۔۔ پس جب ہم اس کو پڑھا کریں تو آپ غور سے سنتے رہا کریں اس کے پڑھنے کو
۱۹۔۔۔ پھر ہمارے ہی ذمے ہے بیان کر دینا اس (کے معانی و مطالب) کو
۲۰۔۔۔ ہرگز نہیں بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ محبت رکھتے ہو جلد ملنے والی چیز (یعنی دنیا) سے
۲۱۔۔۔ اور تم چھوڑ رہے ہو آخرت (کی اصل اور حقیقی زندگی) کو
۲۲۔۔۔ بہت سے چہرے تو اس روز تر و تازہ ہوں گے
۲۳۔۔۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے
۲۴۔۔۔ جب کہ بہت سے چہرے اس روز بگڑے ہوئے ہوں گے
۲۵۔۔۔ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ کیا جانے والا ہے
۲۶۔۔۔ ہرگز نہیں (ذرا یاد کرو اس وقت کو کہ) جب پہنچ جائے گی جان ہنسلی تک
۲۷۔۔۔ اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا؟
۲۸۔۔۔ اور اسے یقین ہو جائے گا کہ یہ جدائی کا وقت ہے
۲۹۔۔۔ اور جڑ جائے گی پنڈلی پنڈلی سے
۳۰۔۔۔ تیرے رب ہی کی طرف ہو گی اس روز یہ روانگی
۳۱۔۔۔ پھر بھی (اس غافل انسان کا حال یہ ہے کہ) اس نے نہ تصدیق کی (حق کی) اور نہ اس نے نماز پڑھی (اپنے رب کی رضا کے لئے )
۳۲۔۔۔ بلکہ اس نے جھٹلایا (حق کو) اور منہ موڑا (اپنے رب کے حکم سے )
۳۳۔۔۔ پھر یہ چل دیا وہ اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا (اور ناز کرتا) ہوا
۳۴۔۔۔ ہلاکت ہے تیرے لئے (اے بدبخت انسان) پھر ہلاکت
۳۵۔۔۔ ہاں ہلاکت ہے تیرے لئے (اے شقی) پھر ہلاکت
۳۶۔۔۔ کیا ایسے انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس کو یونہی بے کار چھوڑ دیا جائے گا؟
۳۷۔۔۔ کیا یہ ایک حقیر بوند نہیں تھا منی کی جس کو ٹپکایا جاتا ہے ؟
۳۸۔۔۔ پھر یہ ایک لوتھڑا بنا پھر اس (قادر مطلق) نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کئے
۳۹۔۔۔ اس نے پھر اس سے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) دو قسمیں بنائیں مرد اور عورت
۴۰۔۔۔ تو کیا وہ اللہ (جس نے یہ سب کچھ کیا) اس پر قادر نہیں کہ (پھر سے ) زندہ کر دے مردوں کو؟
۱۲۔۔۔ سو منکر اور لا پرواہ لوگ جو آج اس یوم عظیم کی ہولناکیوں سے غافل ولاپرواہ، اور اس کے تقاضوں سے نچنت و بے فکر ہیں، اور داعی حق اور ناصح مخلص کی دعوت و پکار کو سننے اور اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتے، اس روز اس کی ہولناکیوں کو دیکھنے پر یہ حواس باختہ ہو کر اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے کہ اب کدھر بھاگ کر جائیں؟ کیا ہے کوئی بھاگنے، اور چھپنے کی جگہ؟ تو جواب ملے گا نہیں، ہرگز نہیں اب بھاگنے اور چھپنے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اب تمہارے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے سب نے اس کے سوا دوسری تمام راہیں اب ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ تب ان کو پتہ چلے گا کہ وہ کتنے بڑے اور کس قدر ہولناک خسارے میں پڑے ہوئے تھے، مگر بے وقت کے اس پچھتاوے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے اور اس کی تیزی کے والعیاذ باللہ العظیم۔
۱۳۔۔۔ سو اس سے قیامت کے اس یوم عظیم کے وقوع اور ظہور کے اصل مقصد کو واضح فرما دیا گیا یعنی یہ کہ اس روز ہر انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجا ہو گا، اور وہ سب کچھ بھی جو اس نے پیچھے چھوڑا ہو گا، یہاں پر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ایمان رکھنے والا انسان آخرت کی کامیابی کے لئے حتی المقدور ایسے نیک کام کرتا ہے جو وہاں اس کے لئے کامیابی کا ذریعہ و وسیلہ بنیں، اور ان برے کاموں سے وہ بچنے اور دور رہنے کی فکر و کوشش میں رہتا ہے جو وہاں پر اس کے لئے محرومی اور ناکامی کا باعث بنیں۔ اس لئے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک اصل اور حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے اس لئے ایسے لوگ ہمیشہ اپنی آخرت اور وہاں کی کامیابی ہی کے لئے کمائی کی کوشش کرتے ہیں اس کے برعکس جو لوگ آخرت کے منکر، اور اس کے تقاضوں سے غافل ولا پرواہ ہوتے ہیں۔ وہ ان نیک اعمال سے تو محروم اور تہی دامن ہی رہتے ہیں جو ان کو وہاں کی اس حقیقی اور ابدی زندگی میں کام آ سکیں۔ لیکن اس کے برعکس وہ کام اور وہ باتیں جو اخروی زندگی میں ہلاکت و تباہی کا باعث بننے والی ہوتی ہیں وہ ان کا ذخیرہ جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں سو ایسے ہی لوگوں کے لئے اس آیت کریمہ میں تنبیہ و تذکیر کا سامان ہے۔ تاکہ وہ اپنی روش کی اصلاح کر لیں اور اس ابدی خسارے سے بچ جائیں، جو بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے، سو عقیدہ آخرت اور بعث بعدالموت پر ایمان و یقین ایک انقلاب آفریں چیز ہے، جس کی برکت سے اور اس کے نتیجہ میں فرش زمین پر چلنے والا یہ خاکی انسان ایک ایسا پاکیزہ انسان بن جاتا ہے کہ رشک ملائکہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حاملین عرش فرشتے بھی اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے جبکہ اس عقیدے سے محروم، اور قیامت کا منکر انسان اسفل السافلین اور ارذل الخلائق بن کر رہ جاتا ہے اسی لئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاکِبُوْنَ (المؤمنون۔۷۴) یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ یقیناً سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اور جن کا راستہ ہی غلط ہوان کے منزل مقصود پر پہنچنے کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ ایمان و یقین کی دولت سے سرشار رکھے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین
۴۰۔۔۔ یعنی جس قادر مطلق خداوند قدوس کی قدرت و حکمت کی یہ عظیم الشان اور گوناگوں شانیں، اور اس کی صنعت و کاریگری کے یہ حکمتوں اور رحمتوں بھرے تصرفات خود تمہاری اپنی تخلیق اور تکوین کے اندر موجود ہیں، اور جن کو تم لوگ خود دیکھتے ہو، اور ہمیشہ دیکھتے ہو کیا وہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہو گا؟ یعنی ہاں اور ضرور وہ اس پر قادر ہے اسی لئے اس آیت کریمہ کی تلاوت اور اس کی سماعت پر اس طرح کا جواب دینا سنت ہے۔ چنانچہ متعدد روایات میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس کے جواب میں فرماتے بَلیٰ (ہاں کیوں نہیں) اور کبھی فرماتے، سُبْحَانَکَ اَللّٰہُمَّ فَبَلیٰ (ہاں پاک ہے تو اے اللہ، کیوں نہیں) وغیرہ اَللّٰہُمَّ فَزِدْنَا اِیْمانًا وَّ یَقِیْنًا بِکَ وبِکِتَابِکَ الَّذی اَنْزَلْتَ وَبِرَسُولِکَ الَّذی ارسلت وَخُذْنَا بِنَواصِینَا الیٰ ما فیہ حُبُّکَ والرضاہ بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ، بامن بیدہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیء وہو یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ علیہ، و الحمد للہ سحانہ و تعالیٰ۔