اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ قسم ہے ان فرشتوں کی جو جان نکالتے ہیں گھس کر
۲۔۔۔ اور ان کی جو بند کھول دیتے ہیں آسانی سے
۳۔۔۔ اور ان کی جو چلتے ہیں تیرتے ہوئے
۴۔۔۔ پھر جو (اپنے خالق و مالک کے حکم کی تعمیل میں ) آگے بڑھتے ہیں دوڑ کر
۵۔۔۔ پھر انکی جو تدبیر کرتے ہیں (اپنے رب کے ) حکم سے (قیامت نے ضرور بالضرور قائم ہونا ہے )
۶۔۔۔ جس روز ہلا مارے گا وہ (انتہائی ہولناک) جھٹکا
۷۔۔۔ اس کے پیچھے آ لگے گا ایک اور (ایسا ہی زوردار) جھٹکا
۸۔۔۔ کچھ دل اس روز (مارے خوف کے ) کانپ رہے ہوں گے
۹۔۔۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی (مارے دہشت و حیرت کے )
۱۰۔۔۔ (مگر یہ لوگ ہیں کہ تعجب اور استہزا کے طور پر) کہتے ہیں کہ کیا واقعی ہمیں پلٹا کر واپس لایا جائے گا اپنی پہلی حالت میں ؟
۱۱۔۔۔ کیا جب کہ ہم ہو چکے ہوں گے کھوکھری بوسیدہ ہڈیاں ؟
۱۲۔۔۔ کہنے لگے تب تو یہ واپسی بڑی ہی گھاٹے کی ہو گی
۱۳۔۔۔ سو (واضح رہے کہ) وہ تو بس ایک ڈانٹ ہو گی زور کی
۱۴۔۔۔ جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب یکایک آ موجود ہوں گے (حشر کے ) اس (عظیم الشان) میدان میں
۱۵۔۔۔ کیا تمہارے پاس موسیٰ کا قصہ بھی پہنچا؟
۱۶۔۔۔ جب کہ ان کو پکارا ان کے رب نے اس مقدس وادی یعنی طویٰ (کے ایک پرکیف سماں ) میں
۱۷۔۔۔ کہ جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے
۱۸۔۔۔ اور اس سے کہو کہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ تو پاکیزگی اختیار کرے
۱۹۔۔۔ اور میں تجھے تیرے رب کی طرف راہنمائی کروں کہ تو (اس سے ) ڈرنے لگے
۲۰۔۔۔ پھر (فرعون کے پاس پہنچنے کے بعد) موسیٰ نے دکھائی اس کو (اپنی نبوت کی) وہ بڑی نشانی
۲۱۔۔۔ (مگر) اس نے پھر بھی جھٹلایا اور نافرمانی ہی کی
۲۲۔۔۔ پھر وہ پلٹ کر (ان کے خلاف) کوشش میں لگ گیا
۲۳۔۔۔ چنانچہ اس نے (لوگوں کو) جمع کر کے پکار کر کہا
۲۴۔۔۔ میں ہوں تمہارا سب سے بڑا رب
۲۵۔۔۔ آخرکار پکڑا اس کو اﷲ نے (اپنی بطشِ شدید سے ) آخرت اور دنیا کے عبرتناک عذاب میں
۲۶۔۔۔ بلاشبہ اس میں بڑی بھاری عبرت (کا سامان) ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرتا ہو
۲۷۔۔۔ کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ سخت (اور مشکل) ہے یا آسمان کا اس کو اس (قادرِ مطلق) نے بنایا (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے )
۲۸۔۔۔ اوپر اٹھایا اس کی چھت کو پھر اس کو برابر کیا (ہر اعتبار سے )
۲۹۔۔۔ اور اس نے ڈھانک دیا اس کی رات کو (تاریکی کی چادر سے ) اور نکالا اس کے (دن کے اجالے ) کو
۳۰۔۔۔ اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا اس نے (نہایت ہی حکمت بھرے طریقے سے )
۳۱۔۔۔ اس کے اندر سے اس کا پانی بھی نکالا اور چارہ بھی
۳۲۔۔۔ اور اسی نے گاڑھ دیا اس کے اندر پہاڑوں (کے ان عظیم الشان لنگروں ) کو
۳۳۔۔۔ (یہ سب کچھ) فائدہ پہنچانے کے لیے تمہیں اور تمہارے مویشیوں کو
۳۴۔۔۔ پھر جب بپا ہو جائے گا (تہس نہس کر دینے والا) وہ سب سے بڑا ہنگامہ
۳۵۔۔۔ تو اس دن انسان رہ رہ کر یاد کرے گا وہ سب کچھ جو کہ اس نے کیا ہو گا (اپنی زندگی میں )
۳۶۔۔۔ اور بے نقاب کر دیا جائے گا اس روز دوزخ کو دیکھنے والوں کے لیے
۳۸۔۔۔ اور اس نے (آخرت کے مقابلے میں ) دنیا کی زندگی کو ترجیح دی ہو گی
۳۹۔۔۔ تو یقیناً دوزخ ہی ہو گی اس کا ٹھکانا
۴۰۔۔۔ اور جو ڈرتا رہا ہو گا (اپنی زندگی میں ) اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکے رکھا ہو گا اپنے نفس کو خواہشات (کی پیروی) سے
۴۱۔۔۔ تو بلاشبہ جنت ہی ہو گی اس کا ٹھکانا
۴۲۔۔۔ پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر !) قیامت کے بارے میں (تعجب و انکار کے طور پر) کہ آخر کب آ کر ٹھہرے گی وہ؟
۴۳۔۔۔ آپ کو کیا لگے اس کے (وقت کے ) بیان سے
۴۴۔۔۔ آپ کے رب ہی کی طرف ہے اس (کے علم) کی انتہا
۴۵۔۔۔ آپ کا کام تو صرف خبردار کر دینا ہے ہر اس شخص کو جو اس سے ڈرتا ہو
۴۶۔۔۔ جس دن یہ لوگ اسے دیکھیں گے تو انہیں یوں محسوس ہو گا کہ گویا یہ (اس دنیا میں ) نہیں ٹھہرے تھے مگر ایک شام یا اس کی صبح
۷۔۔۔ سو اس سے قیامت کے اس یوم عظیم کی ہلچل، اور اس کے وقوع کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے۔ راجفہ کے معنی لرزہ، اور زلزلہ کے ہیں اور رادفہ کے معنی پہلے جھٹکے کے بعد آنے والے دوسرے جھٹکے کے ہیں، اور ان دونوں سے مراد ہیں نفخ صور کے دو جھٹکے۔ یعنی اس کی دو پھونکیں۔ سو اس یوم عظیم کی ہلچل کے وہ تمام اثرات صور کی ان دونوں پھونکوں ہی کا نتیجہ ہوں گے، سو اس سے ان منکرین و مکذبین پر جو کہ وقوع قیامت کو بہت مستبعد اور ناممکن چیز سمجھتے ہیں، ان پر اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جس چیز کو تم لوگ اتنا بعید اور ناممکن سمجھتے ہو۔ وہ نفخ صور کی محض دو پھونکوں ہی سے وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اور صرف دو ہی جھٹکوں سے یہ سارا نظام درم برہم ہو جائے گا۔
۱۴۔۔۔ یعنی تم لوگ تو اپنے طور پر اور اپنے زعم و خیال کے مطابق قیامت کے اس یوم عظیم کے وقوع کو اتنا بعید سمجھتے ہو، اور اسی بنا پر تم اس کا انکار کرتے اور مذاق اڑاتے ہو، لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے تو یہ کام سرے سے کچھ مشکل ہو گا ہی نہیں، بلکہ یہ محض اس کی ایک ڈانٹ اور جھڑکی ہو گی جس کے نتیجے میں سب کے سب لوگ زندہ ہو کر میدان حشر میں آ موجود ہوں گے۔ یہاں پر اس زجرۃ یعنی ڈانٹ سے مراد نفخہ ثانیہ ہے جس کے نتیجے میں سب لوگ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے ثُمَّ تُفِخَ فِیْہٖ اُخْریٰ فَاِذَاہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ (الزمر۔۶٨) یعنی پھر صور میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی۔ جس کے نتیجے میں وہ سب یکایک کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔
۲۰۔۔۔ آیہ کبری یعنی سب سے بڑی نشانی سے یہاں پر مراد معجزہ عصا ہے اور اس کو آیہ کبری یعنی سب سے بڑی نشانی اس لئے فرمایا گیا کہ ید بیضا کے سوا آنجناب کے دوسرے تمام معجزات دراصل اسی کے اندر مضمر تھے۔ اور وہ اسی کے نتیجے میں ذریعے ظہور پذیر ہوئے تھے بہر کیف حضرت موسیٰ نے اپنی صداقت کے نشان کے طور پر اس کو اپنا وہ سب سے بڑا معجزہ دکھایا۔ لیکن اس بدبخت نے پھر بھی نہ مانا، اس نے اس کے باوجود آنجناب کو جھٹلایا۔ اور معصیت و نا فرمانی ہی کی راہ کو اپنایا۔ حضرت موسیٰ کو اس بدبخت نے جادوگر قرار دیا۔ اور آپ کے مقابلے کے لئے ملک بھر کے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کر لایا۔ جس کے نتیجے میں آخرکار وہ اپنے انتہائی ہولناک انجام سے دوچار ہو کر رہا، والعیاذ باللہ العظیم
۲۵۔۔۔ نکال کے معنی جیسا کہ ترجمے سے بھی واضح ہے عبرتناک اور عبرت انگیز عذاب کے ہوتے ہیں سو فرعون جب یہ سب کچھ دیکھ اور سن لینے کے باوجود اپنے کفر و انکار اور تمرد و سرکشی سے باز نہ آیا۔ تو آخرکار اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا اور آخرت دونوں میں عبرت انگیز عذاب میں پکڑا سو دنیا میں تو وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت سب کے سامنے سمندر میں غرقاب ہوا اور دنیا نے دیکھا کہ اپنی خدائی کا دعوی کرنے والا یہ ملعون کس طرح سمندر کی غضبناک موجود کے سامنے نہایت ذلت کے ساتھ خس و خاشاک اور کوڑے کرکٹ کی طرح بہے چلا جا رہا تھا اور آخرت میں اس کو جہنم کے الاؤ میں جھونک دیا جائے گا۔ اور وہاں پر اس کو دوسرے عام کفار و منکرین کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت اور رسوا کن عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ دوسرے مقام پر اس امر کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ قیامت کے روز فرعون والوں کے بارے میں حکم و ارشاد ہو گا کہ ان کو اشد العذاب یعنی سخت ترین عذاب میں داخل کیا جائے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۔ (المؤمن۔۴۶) یعنی جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن حکم ہو گا کہ داخل کرو فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کفر و انکار، غرور و استکبار اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور اس کے اتارے ہوئے پیغام حق و ہدایت کی تکذیب کا جرم کتنا بڑا، اور کس قدر ہولناک اور سنگین جرم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ فلا حول ولاقوۃ الا بہ جل و علا،
۳۳۔۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ زمین و آسمان کی یہ ساری کائنات دراصل انسان ہی کی خدمت اور اسی کے بھلے کے لئے پیدا فرمائی گئی ہے، اور خالق کل مالکِ مطلق حضرت رب العالمین جَلَّ جَلَالُہ، کے کرم بے پایاں اور اس کی رحمت و ربوبیت مطلقہ کی یہ شانیں جو اس کائنات میں ہر طرف پھیلی بکھری موجود ہیں۔ اور جو زمین کے چپے چپے پر نمایاں ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے رب نے یہ سب کچھ خود تمہارے ہی بھلے اور فائدے کے لئے کیا ہے۔ اور صرف تمہارے ہی لئے نہیں، بلکہ تمہارے ان چوپایوں کے لئے بھی جو کہ طرح طرح سے تمہارے کام آتے ہیں اور جن سے تم لوگ طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہو۔ سو اب تم لوگ سوچو کہ جس خدائے رحمان و رحیم نے تمہاری پرورش و خدمت کے لئے آسمان سے لیکر زمین تک یہ عظیم الشان اور حکمتوں بھرا انتظام فرمایا ہے کیا اس نے یہ سب کچھ اسی لئے کیا ہے کہ تم لوگ ایک عرصے تک اس سے طرح طرح کے فائدے اٹھا کر، اور اس کی بخشی ہوئی ان عظیم الشان اور گوناگوں نعمتوں سے کھا پی کر یونہی ختم ہو جاؤ، جس طرح کہ برساتی مینڈک اور کیڑے مکوڑے ختم ہو جاتے ہیں اور تم لوگوں سے اس بارے کوئی پرسش نہ ہو کہ کس نے نیکی اور فرمانبرداری کی زندگی گزاری، اور کس نے بدی وسرکشی اور نافرمانی کی؟ کس نے اپنے رب کی نعمتوں کا حق پہچانا، اور اس کا شکر ادا کیا، اور کس نے اندھے اور بہرے پن کو اپنا کر، ناشکری اور کفران نعمت کا رویہ اختیار کیا؟ اور کیا ان دونوں ہی قسم کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی نوعیت کا معاملہ کرنا عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق، اور حضرت خالق حکیم جَلَّ جَلَالُہ، کی حکمت بے پایاں کے لائق ہو سکتا ہے؟ اور جب نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اس چیز کا طبعی تقاضا اور لازمی نتیجہ ہے کہ ایک ایسا یوم حساب بپا ہو، جس میں ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان فیصلہ اور فرق و تمیز ہو، اور ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا بھرپور صلہ و ثمرہ ملے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، ورنہ یہ ساری کائنات عَبَثَ اور بیکار ہو کر رہ جائیگی، سو وہی دن قیامت کا وہ یوم عظیم ہے جو فصل و تمیز کا دن ہو گا۔ اور جس نے اپنے وقت پر بہر حال آ کر رہنا ہے۔ تاکہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پھل اور صلہ و بدلہ ملے جس کے مطابق اپنے رب کے مطیع و فرمانبردار جنت کی اَبَدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہوں گے، جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ اور نافرمان و بدکار اور کفار و فجار عذاب جحیم سے دوچار ہوں گے، والعیاذ باللہ العظیم، سو کائنات کی حکمتوں بھری اس کھلی اور عظیم الشان کتاب سے میں غور و فکر سے کام لینے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و یکتائی، ضرورت وحی ورسالت اور قیام قیامت و آخرت، اور بعث بعد الموت کے تمام ہی بنیا دی حقائق و عقائد کے اثبات اور انکی تابید و توثیق کے لئے کھلے اور واضح دلائل مل جاتے ہیں، جبکہ اس کے لئے غور و فکر صحیح طریقے سے ہو لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہی ہے کہ صحیح غور و فکر کا یہی جوہر کا اصلی اور گوہر مطلوب نایاب و عنقا ہے اِلاّ ماشاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ،